540 ملین روپے کی خرد برد، اداکارہ نادیہ حسین نے ایف آئی اے سے معافی مانگ لی

بینک الفلاح سیکیورٹیز میں 540 ملین روپے کی خرد برد معاملے میں بنا تصدیق کیے ایف آئی اے آفیسر پر رشوت کا الزام لگانے والی اداکارہ نادیہ حسین نے کہا ہے کہ میرے وڈیو بیان کا مطلب کسی کی دل آزاری کرنا نہیں تھا، میری کوشش تھی فراڈ کرنے والوں کو بے نقاب کروں۔ نجی نشریاتی ادارے سماء نیوز کے مطابق نادیہ حسین نے کہا ہے کہ اعلی حکام سے التماس ہے کہ جعلسازوں سے لوگوں کو بچایا جائے، لوگوں کی پریشانیاں ان جعلساز کالرز کی وجہ سے دوہری ہو جاتی ہیں۔ عوام کے حق میں جعلساز کو بے نقاب کرنا چاہتی ہوں، ایف آئی اے جعلساز کے خلاف میری شکایت پر کام کرے۔ اداکارہ نادیہ حسین کا کہنا تھا کہ لوگ جعلی کالز سے پریشان ہو جاتے ہیں، جعلساز کے خلاف ایف آئی اے پورٹل پر درخواست دی ہے، میری کوشش تھی فراڈ کرنے والوں کو بے نقاب کروں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے واٹس ایپ پر پیغام بھیجا گیا تھا، ایف آئی اے میں بیان ریکارڈ کرا دیا ہے، ایف آئی اے سائبر کرائم میرے موبائل فون کی فرانزک کر رہا ہے، میرے وڈیو بیان کا مطلب کسی کی دل آزاری کرنا نہیں تھا۔ اداکارہ نادیہ حسین کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ میرے بیان سے ایف آئی اے افسر کی دل آزاری ہوئی ہے تو معذرت خواہ ہوں، ایف آئی اے حکام کو جعلساز کے حوالے سے معلومات فراہم کر دی ہیں۔ مزید پڑھیں: 540 ملین روپے کی خرد برد، اداکارہ نادیہ حسین مشکل میں پھنس گئیں واضح رہے کہ ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل نے بینک الفلاح سیکیورٹیز میں 540 ملین روپے کی مبینہ خرد برد کے معاملے پر کارروائی کرتے ہوئے سابق سی ای او عاطف محمد خان کو گرفتار کیا، ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم عاطف محمد خان نے بطور سی ای او اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور مالیاتی دھوکہ دہی میں ملوث پایا گیا۔ ملزم کو 8 مارچ 2025 کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔ ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کی اہلیہ اداکارہ نادیہ حسین کو ایک نامعلوم جعلساز کی جانب سے واٹس ایپ پر کال موصول ہوئی، جس میں ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر کی تصویر بطور ڈی پی استعمال کی گئی۔ جعلساز نے مبینہ طور پر رشوت طلب کی۔ نادیہ حسین نے فوری طور پر ایف آئی اے کراچی سے رابطہ کیا، جس پر انہیں آگاہ کیا گیا کہ یہ ایک جعلی کال ہے اور انہیں سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر میں باضابطہ شکایت درج کروانے کی ہدایت کی گئی۔ تاہم، نادیہ حسین نے شکایت درج کروانے کے بجائے سوشل میڈیا پر ایف آئی اے کے خلاف الزامات لگانا شروع کر دیے۔ ایف آئی اے حکام نے نادیہ حسین کے سوشل میڈیا پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا اور واضح کیا کہ بغیر ثبوت کسی ادارے پر الزامات لگانا قانونی جرم ہے۔ سائبر کرائم ونگ کراچی اداکارہ کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت تحقیقات کر رہی ہے۔

چین نے جگر کے کینسر کی پیش گوئی کرنے والا اے آئی ٹول تیار کرلیا

چینی سائنسدانوں نے جگر کے کینسر کی دوبارہ ظاہری کی پیش گوئی کرنے والا جدید ترین اے آئی ٹول تیار کر لیا ہے جس کی درستگی کا تناسب 82.2 فیصد ہے۔ یہ انکشاف حال ہی میں ‘نیچر’ نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں کیا گیا ہے۔ جگر کا کینسر دنیا بھر میں کینسر سے ہونے والی اموات کا تیسرا بڑا سبب ہے اور اس کی آپریشن کے بعد دوبارہ ظاہری کی شرح 70 فیصد تک پہنچتی ہے جو کہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ چینی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے محققین کی ٹیم نے ‘ٹائمز’ نامی اسکورنگ سسٹم تیار کیا ہے جو ٹیومر مائیکرو اینوائرنمنٹ میں مدافعتی خلیوں کی تقسیم کے نمونوں کو ماپ کر دوبارہ ظاہری کے امکانات کا اندازہ لگاتا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا ایسا ٹول ہے جو مدافعتی خلیوں کی اسپیشل آرگنائزیشن کو مدنظر رکھتا ہے۔ اس جدید طریقہ کار میں اسپیشل ٹرانسکرپٹومکس، پروٹومکس، ملٹی اسپیکٹرل امونہسٹسٹوکیمسٹری اور اے آئی کی مدد سے اسپیشل تجزیہ شامل کیا گیا ہے۔ اس سسٹم کو 61 مریضوں کے جگر کے کینسر کے ٹشو نمونوں پر تربیت دی گئی ہے۔ محققین نے TIMES کا مفت آن لائن ورژن بھی متعارف کرایا ہے جس کے ذریعے دنیا بھر کے مریض اپنے پیتھولوجیکل اسٹریننگ امیجز اپ لوڈ کرکے فوری طور پر دوبارہ ظاہری کا خطرہ معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ انقلابی ٹول ڈاکٹروں کو ذاتی نوعیت کے علاج کی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کرے گا، خصوصاً جن علاقوں میں جہاں وسائل کی کمی ہے۔ مزید پڑھیں: صارفین کے لیے خوشخبری: فیس بک نے پیسے کمانے کا آسان طریقہ بتا دیا

صارفین کے حقوق: قانون کی کتابوں میں قید انصاف

لاہور کی ایک معروف مارکیٹ میں احمد علی ایک نئے برانڈ کا موبائل فون خرید کر خوشی خوشی گھر پہنچے، مگر چند دن بعد ہی فون میں خرابیاں آنا شروع ہوگئیں۔ جب وہ کمپنی کے شکایتی مرکز گئے تو انہیں تسلی بخش جواب نہ ملا۔ کئی چکر لگانے کے باوجود انہیں نہ تو نیا فون ملا اور نہ ہی خرابی دور کی گئی۔ یہ واقعہ صرف احمد علی تک محدود نہیں، بلکہ دنیا بھر میں صارفین کے ساتھ ہونے والے استحصال کی ایک جھلک ہے۔ ہر سال 15 مارچ کو منایا جانے والا عالمی یومِ صارف ایسے ہی معاملات کو اجاگر کرنے کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔ 1962 میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے پہلی بار صارفین کے حقوق کو سرکاری طور پر تسلیم کیا اور ایک ایسا تصور پیش کیا جس نے آگے چل کر عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کی۔ 1985 میں اقوام متحدہ نے صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے رہنما اصول وضع کیے، مگر ان قوانین کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں صارفین کے ساتھ دھوکہ دہی کے بے شمار واقعات سامنے آتے ہیں۔ سنہ 2013 میں انڈیا میں ایک مشہور میک اپ برانڈ پر صارفین کو جعلی پروڈکٹس بیچنے کا الزام لگا، جس کے بعد عدالت نے برانڈ پر لاکھوں روپے جرمانہ عائد کیا۔ اسی طرح 2018 میں چین میں ایک مشہور فوڈ چین کو غیر معیاری خوراک فراہم کرنے کے الزام میں بند کر دیا گیا تھا۔ ایسے ہی ایک معاملے میں برطانیہ میں ایک مشہور برانڈ کی چاکلیٹس میں غیر معیاری اجزاء پائے گئے، جس کے بعد کمپنی کو کروڑوں پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔ پاکستان میں بھی صارفین کے حقوق کے حوالے سے کئی قابل ذکر واقعات سامنے آئے ہیں۔ 2019 میں لاہور میں ایک معروف کپڑے کی برانڈ پر زائد قیمتیں وصول کرنے کا الزام لگا، جس پر کنزیومر کورٹ نے کارروائی کی اور جرمانہ عائد کیا۔ 2021 میں ایک مشہور ڈیلیوری سروس کے خلاف صارفین نے شکایت کی کہ انہیں آرڈر کردہ کھانے کے بجائے غیر معیاری اور خراب کھانے فراہم کیے گئے۔ ان واقعات کے باوجود، زیادہ تر صارفین اپنی حق تلفی کے خلاف آواز بلند کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ پاکستان میں صارفین کے تحفظ کے لیے کچھ قوانین موجود ہیں، جیسے کہ “کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ،” لیکن ان کے نفاذ کی کمی کے باعث بہت سے صارفین اپنے حقوق سے ناواقف رہتے ہیں۔ کراچی میں ایک مشہور آن لائن اسٹور کے خلاف کئی شکایات درج ہوئیں کہ انہوں نے آرڈرز تو لیے مگر صارفین کو پروڈکٹس ڈیلیور نہیں کیں۔ تحقیقات کے بعد کمپنی پر پابندی لگا دی گئی، مگر لاکھوں صارفین کا پیسہ ضائع ہو چکا تھا۔ اسی طرح اسلام آباد میں ایک نجی ہاؤسنگ اسکیم نے لوگوں کو بہترین سہولیات کی فراہمی کا وعدہ کیا مگر کئی سال گزرنے کے باوجود صارفین کو نہ تو پلاٹس ملے اور نہ ہی ان کی رقوم واپس کی گئیں۔ پاکستان میٹرز سے ہائی کورٹ کے وکیل رانا عمران لیاقت نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان میں صارفین کے حقوق قانونی طور پر موجود ہیں لیکن لوگ قانونی عمل میں پھنسنا نہیں چاہتے۔ کیوں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ مسلسل کورٹ کچہری کے چکر لگائیں گے اور سالوں انتظار کریں گے۔ اس کے بعد بھی کمپنیاں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے کیس جیت جائیں گی اور آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا”۔ عالمی یومِ صارف محض ایک دن نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جس کا مقصد صارفین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا اور حکومتوں و کاروباری اداروں کو ان حقوق کے تحفظ پر مجبور کرنا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں صارفین کے پاس ایک طاقتور ہتھیار سوشل میڈیا ہے، جہاں وہ اپنی شکایات کو دنیا بھر میں پھیلا سکتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ صارفین کی جانب سے چلائی جانے والی سوشل میڈیا مہمات نے بڑی کمپنیوں کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ 2022 میں ایک عالمی فاسٹ فوڈ چین کو صارفین کی شکایات کے بعد اپنی قیمتیں کم کرنی پڑیں۔ رانا عمران لیاقت کا مزید کہنا تھا کہ “عوام کو سوشل میڈیا کی طاقت استعمال کرنی چاہیے۔ آج کل کے دور میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا یہی سب سے مؤثر ترین طریقہ ہے”۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے شعبہِ سوشیالوجی سے وابستہ پروفیسر اکرام اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صارفین کو ان کے حقوق دلانے کے لیے قانونی عمل درآمد، حکومتی نگرانی، اور عوامی آگاہی ضروری ہے۔ مضبوط قوانین بنا کر ان پر سختی سے عمل کیا جائے تاکہ ناقص مصنوعات اور دھوکہ دہی کا سدباب ہو۔ شکایات کے ازالے کے لیے فوری اور شفاف نظام قائم کیا جائے۔ میڈیا اور تعلیمی ادارے صارفین کے حقوق پر آگاہی مہم چلائیں تاکہ لوگ اپنے حقوق سے باخبر ہوں۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر صارفین کو ریویو اور شکایات کا موقع دیا جائے۔ اگر عوام، حکومت، اور نجی شعبہ مل کر کام کریں تو صارفین کو ان کے حقوق دلانا ممکن ہو سکتا ہے۔ بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ حکومت صارفین کے حقوق کے قوانین کو مزید سخت کرے، ان کے نفاذ کو یقینی بنائے، اور عوام میں شعور اجاگر کرے۔ صارفین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کی آگاہی حاصل کریں اور کسی بھی غیر معیاری یا دھوکہ دہی پر مبنی سروس کے خلاف شکایت درج کرائیں۔ پروفیسر اکرام اللہ نے مزید کہا کہ “صارفین کو دھوکہ دہی سے بچانے کے لیے شفاف قوانین کا نفاذ، سخت جرمانے، اور عوامی شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔ آن لائن اور آف لائن کاروباروں کی نگرانی بڑھائی جائے اور شکایات کے فوری ازالے کے لیے ہیلپ لائنز بنائی جائیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر دھوکہ دہی کے طریقوں سے آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ لوگ خود محتاط رہیں”۔ ماہرین کے مطابق، صارفین کے حقوق کے مکمل نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے، کمپنیوں پر کڑی نگرانی رکھی جائے اور عوام کو اس بارے میں زیادہ سے زیادہ تعلیم دی جائے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں کنزیومر کورٹس نہایت فعال ہیں اور صارفین کی شکایات پر فوری

540 ملین روپے کی خرد برد، اداکارہ نادیہ حسین مشکل میں پھنس گئیں

بینک الفلاح سیکیورٹیز میں 540 ملین روپے کی خرد برد معاملے میں بنا تصدیق کیے ایف آئی اے آفیسر پر رشوت کا الزام لگانا اداکارہ نادیہ حسین کو مہنگا پڑ گیا۔ ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل نے بینک الفلاح سیکیورٹیز میں 540 ملین روپے کی مبینہ خرد برد کے معاملے پر کارروائی کرتے ہوئے سابق سی ای او عاطف محمد خان کو گرفتار کیا، ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم عاطف محمد خان نے بطور سی ای او اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور مالیاتی دھوکہ دہی میں ملوث پایا گیا۔ ملزم کو 8 مارچ 2025 کو کراچی سے گرفتار کیا گیا اور اس کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کی اہلیہ اداکارہ نادیہ حسین کو ایک نامعلوم جعلساز کی جانب سے واٹس ایپ پر کال موصول ہوئی، جس میں ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر کی تصویر بطور ڈی پی استعمال کی گئی۔ جعلساز نے مبینہ طور پر رشوت طلب کی۔ نادیہ حسین نے فوری طور پر ایف آئی اے کراچی سے رابطہ کیا، جس پر انہیں آگاہ کیا گیا کہ یہ ایک جعلی کال ہے اور انہیں سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر میں باضابطہ شکایت درج کروانے کی ہدایت کی گئی۔ تاہم، نادیہ حسین نے شکایت درج کروانے کے بجائے سوشل میڈیا پر ایف آئی اے کے خلاف الزامات لگانا شروع کر دیے۔ ایف آئی اے حکام نے نادیہ حسین کے سوشل میڈیا پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا اور واضح کیا کہ بغیر ثبوت کسی ادارے پر الزامات لگانا قانونی جرم ہے۔ سائبر کرائم ونگ کراچی نے نادیہ حسین کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ترجمان ایف آئی اے نے شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ کسی بھی مشکوک کال یا دھوکہ دہی کی کوشش کی صورت میں فوری طور پر متعلقہ ادارے سے رجوع کریں اور سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق کے الزامات لگانے سے گریز کریں، کیونکہ ایسا کرنا ملکی قوانین کے تحت سنگین جرم ہے۔ دوسری جانب جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے نادیہ حسین نے کہا کہ ایف آئی اے کی ٹیم آج صبح آئی تھی، جس نے انہیں موصول ہونے والی فون کال اور ان کے بیان سے متعلق معلومات لیں۔ نادیہ حسین نے کہا کہ انہوں نے ایف آئی اے حکام کو ساری معلومات فراہم کیں، سوشل میڈیا پوسٹ کی ڈسکرپشن پر واضح کیا تھا کہ یہ فراڈکال ہے۔ اداکارہ کا کہنا تھا کہ پوسٹ کرنے سے قبل فراڈ کال سے متعلق ایف آئی اے کو آگاہ بھی کیا تھا۔ نادیہ حسین نے کہا کہ انہیں گرفتار نہیں کیا گیا اور اگلے ہفتے بیان ریکارڈ کرانے کے لیے بلایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اداکارہ نادیہ حسین نے سوشل میڈيا پر ایک آڈیو میسج شيئر کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ان سے ایف آئی اے حکام نے شوہر کے کیس میں 50 لاکھ روپے رشوت طلب کی ہے۔

درختوں کی موت، ماحول کی تباہی، چند سال بعد سانس لینا مشکل ہوجائے گا

علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ “ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت۔۔۔۔۔۔۔احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات”۔ اقبال کے کہے اس شعر کو ایک صدی ہونے کو آئی ہے اور آج یہ شعر پہلے کی نسبت زیادہ موزوں ہے۔ وقت کے ساتھ انسان تقریباً ایک سانس لیتی مشین بن چکا ہے، جو بنا کسی دوسرے کی فکر کیے خود غرضی کی راہ پر چل پڑا ہے۔ پہلے پہل ترقی کے نام پر انسان نے زمین کا سینہ چیرا، معدنیات ڈھونڈیں، جانوروں اور پرندوں کا شکار کیا، مگر اب پیسے کی لالچ نے اس قدر اندھا کیا ہے کہ آئے دن سوسائٹیز کے نام پر درختوں کا قتلِ عام شروع کر دیا گیا ہے۔ ریاستِ پاکستان بھی ترقی کی منازل طے کرنے کے نام پہ رنگینیوں کے قتلِ عام میں پیش پیش ہے، جہاں ایک طرف گرین انیٹیٹو پاکستان اور شجرکاری مہمات جیسے منصوبے بنائے جارہے ہیں، وہیں دوسری طرف درختوں کو کاٹ کر ہاؤسنگ  سوسائٹیز بنائی جا رہی ہیں اور حکومت خاموش تماشی بنی ہوئی ہے۔ ملک میں درختوں کی بے دریغ کٹائی ماحولیاتی بحران کو سنگین تر بنا رہی ہے، جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی، قدرتی آفات اور عوامی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسپیس سائنسس کے پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب نے کہا کہ “ملک میں درختوں کی کٹائی ماحولیاتی بحران کو سنگین کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب جب کہ آکسیجن کو خارج کرتے ہیں، مگر درختوں کے کٹاؤ سے فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ جبکہ آکسیجن کی کم ہو رہی ہے، جو کہ انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔” انہوں نے مزید کہا ہے کہ “درختوں کے قتلِ عام سے ٹمپریچر تبدیل ہو رہا ہے، ہوا میں نمی کی مقدار میں کمی ہو رہی ہے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ بارشوں کا پیٹرن بدل گیا ہے۔ آج سے کچھ سال قبل لاہور شہر میں موسمِ برسات میں کئی کئی دنوں تک بارشیں ہوتی رہتی تھیں، مگر اب تو ان کا نام و نشان  تک نہیں ملتا۔” یہ بھی پڑھیں: آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟ 2022 میں بلوچستان کے ضلع شیرانی کے قدیم جنگلات میں لگنے والی آگ نے تقریباً 10 ہزار 700 ایکڑ رقبے کو متاثر کیا، جس سے چلغوزے اور زیتون کے درختوں کے علاوہ جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچا۔ اسی طرح خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں غیر قانونی درختوں کی کٹائی سے جنگلات کو نقصان پہنچا، جس سے مقامی ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان نے شدید موسمی واقعات کا سامنا کیا ہے جیسے ہیٹ ویو، خشک سالی اور سیلاب، جس سے بڑے پیمانے پر مالی اور جانی نقصان ہوا ہے۔ یہ واقعات جنگلات کی کٹائی سے بڑھتے ہیں، جو ماحولیاتی نظام کی قدرتی لچک کو کم کر دیتا ہے اور آب و ہوا کے خطرات کے لیے خطرے کو بڑھاتا ہے۔ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے اور ہر سال ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر موجود جنگلات اور درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ یہ کٹائی جلانے کے لیے لکڑی حاصل کرنے، نئی آبادیاں تعمیر کرنے اور صنعتوں میں استعمال کے لیے کی جاتی ہے۔  شہری ترقی کے لیے جنگلات کی قربانی ماحولیاتی توازن کو بگاڑ رہی ہے، جس سے قدرتی آفات کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فورم کے مطابق پاکستان ایشیا میں سب سے زیادہ درخت کاٹنے والا دوسرا بڑا ملک ہے، محکومتی شجرکاری مہمات کے باوجود جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ جاری ہے، جو مستقبل میں مزید سنگین مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر جہانزیب کے مطابق “درختوں کے کٹائی سے سیلاب اور خشک سالی جیسی قدرتی آفات میں اضافہ ہو رہا ہے، درخت جو قدرتی ایک بیریر ہوتے ہیں لینڈ سلائٹز اور سیلاب کو روکنے کے لیے وہ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔” گزشتہ دنوں پنجاب میں ‘چیف منسٹر پلانٹ فار پاکستان’ انیشیٹو کے تحت وسیع پیمانے پر شجرکاری مہم کا آغاز کیا گیا، جس کے تحت پنجاب میں 48 ہزار 368 ایکڑ رقبے پر درخت لگائے جائیں گے۔ مزید یہ کہ درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے خلاف بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔ لیکن دوسری جانب درختوں کی بے دریخ کٹائی کا سلسلہ جوں کا توں ہے۔ پاکستان میں جنگلات کے تحفظ کے لیے موجودہ قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی جاری ہے۔ ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر مہرین عطر نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ “پاکستان میں جنگلاتی پالیسی میں بہتری آئی ہے لیکن اس پر عمل درآمد میں شدید مسائل ہیں۔ غیر قانونی کٹائی، زمین پر قبضہ اور کمزور حکومتی نگرانی کی وجہ سے جنگلات تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ حکومتوں کی جانب سے شجرکاری مہم اور بلین ٹری سونامی جیسے منصوبے شروع کیے گئے، لیکن پائیدار جنگلاتی تحفظ کے لیے مزید سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔” موسم بہار کے دوران 6 ہزار 637 ایکڑ زمین پر 59 لاکھ 66 ہزار درخت لگانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس مہم کے تحت لاہور، قصور، گوجرانوالہ، گجرات، مری، راولپنڈی، سرگودھا اور مظفر گڑھ سمیت 300 سے زائد مقامات پر شجرکاری کی جا رہی ہے۔ مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی خواتین کی زندگیوں پر ہی کیوں گہرے اثرات مرتب کرتی ہے؟ ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا ہے کہ “حکومت کو چاہیے کہ شجرکاری مہمات میں اضافہ کرے، موجودہ مہمات درختوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ نئے مہمات متعارف کرانے کی ضرورت ہے، جیساکہ ایک سلوگن ہے کہ ‘درخت لگائیں اپنے آنے والی جنریشن کو محفوظ بنائیں’۔” درختوں کی بے دریغ کٹائی پاکستان میں ماحولیاتی بحران کو بڑھا رہی ہے، جس سے موسمیاتی تبدیلی، قدرتی آفات اور عوامی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگلات کے تحفظ کے لیے مؤثر قوانین کا نفاذ اور عوامی شعور بیدار کیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ اور صحت مند ماحول یقینی بنایا جا سکے۔ ڈاکٹر مہرین عطر کے مطابق “عام شہریوں کو درختوں کے تحفظ کے لیے آگاہی مہمات میں

رمضان المبارک 2025 میں اعتکاف کی رجسٹریشن کا مرحلہ وار طریقہ

اعتکاف کے لیے رجسٹریشن کا عمل آسان ہے اور تقریباً ایک گھنٹے میں مکمل ہوسکتا ہے۔

اعتکاف کے لیے رجسٹریشن کا عمل آسان ہے اور تقریباً ایک گھنٹے میں مکمل ہوسکتا ہے۔ رجسٹریشن کے دوران تیز رفتار انٹرنیٹ کا استعمال کریں اور تمام مطلوبہ دستاویزات پہلے سے تیار رکھیں۔   مرحلہ وار طریقہ کار: . زائرون ایپ ڈاؤن لوڈ کریں زائرون ایپ (Visitors App) سعودی حکومت کی جانب سے منظور شدہ اور مستند ایپ ہے، جس کے ذریعے مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں اعتکاف کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ یہ ایپ اینڈرائیڈ اور آئی فون دونوں کے لیے دستیاب ہے، لہٰذا اپنی پسندیدہ مسجد کا انتخاب یقینی بنائیں۔   . اکاؤنٹ بنائیں ایپ پر اپنا اکاؤنٹ بنانے کے لیے اپنی ذاتی معلومات فراہم کریں۔ رجسٹریشن کے دوران عمرہ ویزا نمبردرکار ہوگا، جو کہ ویزے کے نچلے دائیں کونے پر درج ہوتا ہے۔ اگر آپ نے اپنا عمرہ کسی ٹریول ایجنسی کے ذریعے بک کیا ہے تو وہ بھی آپ کو ویزا نمبر فراہم کر سکتے ہیں۔ رجسٹریشن مکمل کرنے سے پہلے یقینی بنائیں کہ آپ کی تمام معلومات درست ہیں تاکہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے۔   . رجسٹریشن کا وقت اور دستیابی مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں اعتکاف کے لیے رجسٹریشن محدود وقت کے لیے کھلتی ہے، اور تمام نشستیں تیزی سے بھر جاتی ہیں۔ رجسٹریشن کے وقت پر نظر رکھیں اور جیسے ہی رجسٹریشن کھلے، فوری کارروائی کریں۔   . خدمات کے سیکشن میں جائیں رجسٹریشن اور تصدیق کے بعد ایپ کے “My Services” سیکشن میں جائیں اور اعتکاف سے متعلق خدمات تلاش کریں۔   . درخواست فارم پُر کریں درخواست فارم میں تمام ضروری تفصیلات فراہم کریں اور جمع کرانے سے پہلے اچھی طرح جانچ لیں تاکہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے۔   تصدیق کا انتظار کریں درخواست جمع کرانے کے بعد، ایپ سے تصدیقی پیغام کا انتظار کریں۔ انٹرنیٹ کی رفتار اور ایپ پر لوڈ کی وجہ سے تصدیق میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ اگر درخواست کامیابی سے جمع ہو گئی ہو تو آپ کو ایک کنفرمیشن کوڈ موصول ہوگا۔   . اعتکاف کارڈ حاصل کریں جب آپ مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ پہنچیں، تو 10 رمضان کے بعد مقررہ اعتکاف مرکز جائیں اور اپنا اعتکاف کارڈ اور دیگر تفصیلات حاصل کریں۔ یہ کارڈ لازمی ہے، اس کے بغیر اعتکاف کی اجازت نہیں ہوگی۔

موت کے آثار: دو خوفناک نشانیاں جو اکثر اہل خانہ کو پریشان کر دیتی ہیں

دوسری جانب ایک خاتون نے لکھا، "میرے شوہر کا انتقال حال ہی میں ہوا، میں کاش پہلے ہی یہ سب جان چکی ہوتی۔"

ایک تجربہ کار امریکی نرس نے انکشاف کیا ہے کہ موت کے قریب مریضوں میں دو انتہائی عام لیکن پریشان کن جسمانی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، جن کے بارے میں اکثر اہل خانہ پہلے سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے شدید اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔   امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والی جولی میک فڈن پچھلے 15 سالوں سے انتہائی نگہداشت (ICU) اور ہاسپیس کیئر میں خدمات انجام دے رہی ہیں، جہاں وہ زندگی کے آخری مراحل میں موجود مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔   اب وہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو موت اور مرنے کے عمل کے بارے میں آگاہی فراہم کر رہی ہیں تاکہ اس موضوع کو درپیش معاشرتی بدگمانیوں کو ختم کیا جا سکے۔   اپنے ایک وائرل ویڈیو کلپ میں، جسے 75 ہزار سے زائد بار دیکھا جا چکا ہے، جولی میک فڈن نے وضاحت کی کہ مریضوں میں پائی جانے والی ایک اہم مگر پریشان کن تبدیلی کو “Cheyne–Stokes Respiration” کہا جاتا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی سانس لینے کا طریقہ ہے، جس میں مریض تیزی سے سانس لینے کے بعد اچانک طویل وقفہ کر لیتے ہیں۔   طبی ماہرین کے مطابق، یہ اس وقت ہوتا ہے جب دماغ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح کو محسوس کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے، جس کی وجہ سے سانس لینے کا معمول کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔   جولی میک فڈن کا کہنا تھا کہ یہ کیفیت بظاہر خوفناک لگتی ہے، مگر حقیقت میں مریض کو کسی قسم کی تکلیف یا گھبراہٹ محسوس نہیں ہوتی کیونکہ اس وقت وہ مکمل بے ہوشی کی حالت میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا، “یہ دیکھنے میں بے چینی کا سبب بن سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مریض کو کسی بھی قسم کا درد محسوس نہیں ہوتا۔”   اگر مریض کا سانس لینے کا انداز بہت زیادہ دشوار نظر آئے یا وہ بے چینی محسوس کر رہا ہو تو طبی ماہرین دوائیوں کی مدد سے انہیں مزید آرام دہ بنا سکتے ہیں۔ تاہم، جولی کے مطابق، زیادہ تر مریضوں کے لیے کسی اضافی دوا کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ کیفیت مرنے کے عمل کا ایک قدرتی حصہ ہے۔   موت کی کھڑکھڑاہٹ میک فڈن نے موت کے قریب مریضوں میں پائی جانے والی دوسری عام مگر چونکا دینے والی تبدیلی کو “Death Rattle” یعنی “موت کی کھڑکھڑاہٹ” قرار دیا۔   انہوں نے وضاحت کی کہ یہ وہ آواز ہوتی ہے جو کسی مرنے والے شخص کے سانس لینے کے دوران سنائی دیتی ہے، جو عام طور پر ‘گیلی، غرغراہٹ جیسی’ ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ آواز سننے والوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہو سکتی ہے، لیکن یہ مریض کے لیے کسی قسم کی تکلیف یا گھبراہٹ کا سبب نہیں بنتی۔   یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مرنے والے فرد کا دماغ لعاب نگلنے کے سگنلز دینا بند کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے لعاب دہن (Saliva) منہ میں جمع ہو جاتا ہے اور سانس لینے کے دوران اس سے مخصوص آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔   جولی میک فڈن نے مزید کہا، “یہ موت کا ایک عام اور فطری عمل ہے، لیکن جو لوگ پہلی بار اسے سنتے ہیں، ان کے لیے یہ ایک خوفناک تجربہ ثابت ہو سکتا ہے۔”   سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے جولی میک فڈن کی اس آگاہی مہم کو سراہا اور کہا کہ کاش انہیں پہلے سے اس بارے میں معلوم ہوتا تو ان کے لیے اپنے پیاروں کی موت کے لمحات کو سمجھنا اور برداشت کرنا آسان ہوتا۔   ایک صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا، “میں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، کاش میں پہلے ہی ان ویڈیوز کو دیکھ لیتا۔ یہ جاننا ضروری ہے تاکہ ہم جذباتی طور پر بہتر طریقے سے سنبھل سکیں۔”   دوسری جانب ایک خاتون نے لکھا، “میرے شوہر کا انتقال حال ہی میں ہوا، میں کاش پہلے ہی یہ سب جان چکی ہوتی۔” ایک اور صارف نے کہا، “میرا بھائی حال ہی میں اس مرحلے سے گزرا، یہ ویڈیو دیکھ کر وہ لمحے یاد آ گئے۔ لیکن اب کم از کم میں یہ سمجھ پایا ہوں کہ یہ ایک فطری عمل تھا۔”

’ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے‘ رمضان ٹرانسمیشن رحمت یا زحمت؟

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ مسلمان دنیا بھر میں اپنی روحانیت اور عبادات کے لئے جانا جاتا ہے۔ یہی مہینہ ہے جب امت مسلمہ خود کو اپنے رب کے قریب کرنے کی کوشش کرتی ہے جہاں قرآن کی تلاوت، نماز، اور صدقات کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا رمضان کی یہ روحانی حقیقت ہمارے ٹی وی چینلز پر دکھائی دیتی ہے؟ رمضان ٹرانسمیشنز کے دوران چینلز کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور ان نشریات کے پیچھے چھپے مقاصد کیا ہیں؟ پاکستان کے ہر بڑے ٹی وی چینل نے رمضان کے مہینے میں خصوصی نشریات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان نشریات کا مقصد اسلامی تعلیمات کا فروغ اور سماجی فلاحی سرگرمیوں کو اجاگر کرنا ہے۔ ان نشریات میں مذہبی رہنماؤں، مشہور شخصیات اور اہل علم کے ذریعے قرآن و حدیث کی روشنی میں دینی موضوعات پر گفتگو کی جاتی ہے تاکہ ناظرین کو اپنے دین سے قریب کیا جا سکے۔ رمضان ٹرانسمیشنز میں نیکی اور خیرات کے رجحان کو بڑھانے کے لئے بھی پروگرامز پیش کیے جاتے ہیں۔ نعت خوانی، قرأت اور دیگر مذہبی مقابلوں کی حوصلہ افزائی کے ذریعے عوامی سطح پر روحانی ماحول پیدا کیا جاتا ہے۔ اس سب کے علاوہ ان پروگرامز میں سماجی فلاحی سرگرمیوں کا بھی اہتمام ہوتا ہے، جیسے غریبوں کی مدد، صدقات کی ترغیب، اور رمضان کے مقدس مہینے میں اسلامی اقدار کو اجاگر کرنا۔ لیکن جب ہم ان رمضان ٹرانسمیشنز کو بغور دیکھتے ہیں تو سوالات اُٹھتے ہیں کہ کیا یہ نشریات واقعی اپنی روحانی اہمیت کو برقرار رکھتے ہوئے معاشرتی اصلاح کی جانب قدم بڑھا رہی ہیں؟ یا پھر ٹی وی چینلز ان نشریات کو صرف ایک تجارتی حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں؟ ٹی وی چینلز کی جانب سے رمضان نشریات میں اشتہارات کی بھرمار اور مہنگے اسپانسرز کی شمولیت نے اس سوال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے مولانا ثناء اللہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” ہمارے معاشرے میں اداکار مختلف کمپنیوں سے پیسے لے کر رمضان ٹرانسمیشن کے حوالے سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ معاشرے کی اصلاح کی بجائے بیگاڑ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اصلاح تو دور دور تک اس سے ممکن ہی نہیں ہے۔” انکا مزید کہنا تھا کہ “اس میں چلنے والے اشتہارات خود بتاتے ہیں کہ یہ بکاو ہیں۔ کمپنیوں کا مال پیچنے کے لیے ساری بزم سجائی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے مسلمانوں کی ماؤں بہنوں اور بچوں کی عزت کو بیچا جاتا ہے۔” پروگرامز کے دوران اشتہارات کا طویل دورانیہ، اور ریٹنگز کی دوڑ میں ان نشریات میں مذہبی مواد کی بجائے تفریحی اور کمرشل عناصر کی بھرمار، ایک تشویش کا سبب بن چکا ہے۔ رمضان کے روحانی پیغامات کے بجائے غریبوں کی مدد کے نام پر کاروباری ایجنڈے اور برانڈز کی تشہیر دیکھنے کو ملتی ہے۔ سٹی 42 نیوز چینل سے ایڈیٹر چوہردھری ندیم نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا “کہ رمضان ٹرانسمیشن میں اصول وضع شدہ ہیں بس ان پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ رمضان ٹرانسمیشن میں کوئی بھی ایسا پہلو نہیں ہونا چاہیے جو غیر شرعی اور غیر اسلامی ہو۔” کیا واقعی یہ رمضان کی روح کے مطابق ہیں یا صرف تجارتی مفاد کا کھیل ہے؟ اگر ہم ان رمضان ٹرانسمیشنز کا جائزہ لیں تو ان میں غیر ضروری مواد کی بھرمار بھی ہے۔ گیم شوز اور انعامی مقابلے جہاں ایک طرف تفریح کا سامان فراہم کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف ان کا رمضان کی عبادات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ چودھری ندیم کا مزید کہنا تھا کہ “ان ٹی وی چینلز نے رمضان ٹرانسمیشز کو تفریح مقاصد بنا دیا گیا ہے، وہاں لوگ ڈانس کر رہے یوتے ہیں، لیٹ رہے ہوتے ہیں، بعض تو نعتیں ایسی پڑھی جاتی ہیں جو شرک سے بھری ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ عجیب و غریب سے مقابلے کروائے جاتے ہیں۔” رمضان ٹرانسمیشنز کے ان مقابلوں میں آراء کے مطابق مبالغہ آرائی اور ڈرامائی عناصر بڑھا دیے جاتے ہیں جو اصل مقصد سے ہٹ کر صرف ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس پر مولانا ثنااللہ کا مزید کہنا تھا “کہ رمضان ٹرانسمیشن میں لوگوں کو انعامات کا لالچ دیا جاتا ہے۔ ان شوز کے دوران اکثر غیر شریعی کام کرنے کو کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “گیم شوز میں غیر شریعی پہلو ہیں جن کو اسلام میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ ماضی میں مرحوم عامر لیاقت بھی ایک عورت کے ساتھ دوڑتے ہوئے گرے تھے اور کافی بدنام بھی ہوئے تھے۔” انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ” اس وقت رمضان ٹرانسمیشن میں اسرائیلی برانڈز کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ حالانکہ اس وقت ہم حالت جنگ میں ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ یہ لوگ انہیں کو ہی پیسہ کما کر دے رہے ہیں۔ اس لیے ان کا بائیکاٹ کرنا ہم پر فرض اور لازم ہو جاتا ہے۔” دوسری جانب سحر و افطار کے اوقات میں مسلسل اشتہارات اور تجارتی مواد بھی اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ان نشریات کا مقصد کچھ اور نہیں بلکہ ریٹنگز اور پیسہ کمانا ہے۔ عوام کی رائے بھی اس معاملے میں دوہری ہے کیونکہ کچھ افراد ان نشریات کو اصلاحِ معاشرہ کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ ان نشریات میں صرف تجارتی عناصر کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے جو رمضان کی اصل روح کے خلاف ہے۔ چودھری ندیم نے اس پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ “رمضان ٹرانسمیشن میں صرف ریٹنگ پر زور دیا جا رہا ہے اور کہا کہ اگر آپ ایکٹرز جیسے ‘وینا ملک’ یا جو خواتین اینکرز ہیں ان کو رنگ برنگے کپڑے پہنا کر بیٹھا دیں گے تو یہ کیا بکواس ہے؟ یہ سب رمضان المبارک کے ساتھ بہت بڑی شرارت ہے۔ جب اس ٹرانسمیشن کو میلا ٹھیلا بنا دیا جائے گا تو اسکا نتیجہ کیا ہو گا؟” دوسری جانب  نوجوانوں، خواتین، اور اسکالرز کی رائے بھی مختلف ہے، اور سوشل میڈیا پر ان نشریات کے حوالے سے مثبت اور منفی تبصرے دونوں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ عوامی سطح پر اس بات پر بات ہو رہی ہے

ذہنی معذور اور بیمار افراد کی دیکھ بھال کے لیے الخدمت رازی ہسپتال کا منفرد تربیتی کورس

الخدمت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مستقل بیمار اور ذہنی معذور افراد کی دیکھ بھال کے لیے خصوصی تربیتی کورس کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس کی رجسٹریشن 14 مارچ تک جاری رہے گی، جب کہ اس کا دورانیہ چھ ماہ ہوگا۔ الخدمت رازی اسپتال راولپنڈی میں منعقد ہونے والا یہ تربیتی کورس آن لائن اور آن سائٹ دونوں طریقوں سے کروایا جائے گا، جس کی کلاسز پیر سے جمعہ صبح 11 بجے سے دوپہر 2 بجے تک ہوں گی۔ کامیابی سے کورس مکمل کرنے والے شرکاء کو ‘ایلڈرلی ہیلتھ کیئر اسسٹنٹ ٹریننگ’ (ای ایچ سی اے ٹی) سرٹیفیکیٹ بھی دیا جائے گا۔ کورس میں داخلے کے لیے امیدوار کا انٹرمیڈیٹ پاس ہونا اور قومی شناختی کارڈ کا حامل ہونا لازمی ہے، جب کہ فیس صرف 5 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ منتظمین کے مطابق کورس میں دلچسپی رکھنے والے افراد 0514906775، 03345808914 پر یا [email protected] پر رابطہ کر کے رجسٹریشن کروا سکتے ہیں۔ مزید پڑھیں: حافظ نعیم کا’بنو قابل‘ کارواں گوجرانوالا پہنچ گیا، نوجوانوں کے لیے تعلیم اور روزگار کا اعلان الخدمت رازی ہسپتال کے مطابق اس تربیتی کورس کے اب تک 10 ادوار کامیابی سے مکمل ہو چکے ہیں۔ اپنی نوعیت کے منفرد تربیتی کورس کے منتظمین کے مطابق اس سرگرمی کا مقصد ایسے افراد کی تربیت کرنا ہے، جو معاشرے میں بیمار اور معذور افراد کی بہتر دیکھ بھال کر سکیں۔

امریکا کی پالیسی تبدیلی سے پولیو کی خاتمے کی کوششوں کو خطرہ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا انتباہ

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے سینئر عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے پولیو کے خاتمے کے لئے مالی معاونت میں کمی سے عالمی سطح پر اس مرض کے مکمل خاتمے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔  WHO، یونیسف اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر دنیا بھر میں پولیو کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، مگر امریکا کی امدادی پالیسی میں تبدیلیاں اور فنڈنگ کی کمی نے ان کوششوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ امریکا کی “امریکا فرسٹ” پالیسی کے تحت گزشتہ ہفتے امریکی محکمہ خارجہ نے یو ایس ایڈ کے تمام عالمی امدادی پروگرامز میں سے 90 فیصد کی کمی کر دی۔ اس فیصلے کے بعد یونیسف کا پولیو کے لیے مخصوص فنڈنگ گرانٹ بھی منسوخ کر دی گئی، جس سے اس سال 133 ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔ حمید جعفری، WHO کے مشرقی مدیترانہ علاقے میں پولیو کے خاتمے کے پروگرام کے ڈائریکٹر نے کہا کہ اگر یہ مالی کمی جاری رہی تو پولیو کی عالمی سطح پر eradication (مکمل خاتمہ) میں تاخیر ہو سکتی ہے، اور مزید بچے معذور ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم اس کمی کو پورا کرنے کے لیے دیگر وسائل تلاش کر رہے ہیں، اور کچھ ترجیحی عملے اور سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کے لئے اضافی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔” تاہم، انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکا ایک بار پھر پولیو کے خلاف اس جنگ میں اپنی مالی معاونت بحال کرے گا۔ افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک میں جہاں پولیو کی وحشی نوعیت ابھی بھی موجود ہے، وہاں کی ویکسینیشن مہمات کو متاثر ہونے سے بچانے کے لئے خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب نے حالیہ دنوں میں پولیو کے خاتمے کے لیے 500 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے، مگر عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ امریکی امداد کا خلا کوئی بھی دوسرا ادارہ نہیں پُر کر سکتا۔ یہ صورتحال ایک اہم چیلنج کا سامنا کر رہی ہے جہاں عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کی محنت کو شدید دھچکا پہنچا ہے، اور پوری دنیا کے لیے ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے کہ آیا امریکہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرے گا یا نہیں۔ مزید پڑھیں: غزہ: اسرائیلی فائرنگ سے دو فلسطینی ہلاک، جنگ بندی کے حوالے سے بے چینی بڑھ گئی