امریکا کی پالیسی تبدیلی سے پولیو کی خاتمے کی کوششوں کو خطرہ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا انتباہ

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے سینئر عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے پولیو کے خاتمے کے لئے مالی معاونت میں کمی سے عالمی سطح پر اس مرض کے مکمل خاتمے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔  WHO، یونیسف اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر دنیا بھر میں پولیو کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، مگر امریکا کی امدادی پالیسی میں تبدیلیاں اور فنڈنگ کی کمی نے ان کوششوں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ امریکا کی “امریکا فرسٹ” پالیسی کے تحت گزشتہ ہفتے امریکی محکمہ خارجہ نے یو ایس ایڈ کے تمام عالمی امدادی پروگرامز میں سے 90 فیصد کی کمی کر دی۔ اس فیصلے کے بعد یونیسف کا پولیو کے لیے مخصوص فنڈنگ گرانٹ بھی منسوخ کر دی گئی، جس سے اس سال 133 ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔ حمید جعفری، WHO کے مشرقی مدیترانہ علاقے میں پولیو کے خاتمے کے پروگرام کے ڈائریکٹر نے کہا کہ اگر یہ مالی کمی جاری رہی تو پولیو کی عالمی سطح پر eradication (مکمل خاتمہ) میں تاخیر ہو سکتی ہے، اور مزید بچے معذور ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم اس کمی کو پورا کرنے کے لیے دیگر وسائل تلاش کر رہے ہیں، اور کچھ ترجیحی عملے اور سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کے لئے اضافی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔” تاہم، انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکا ایک بار پھر پولیو کے خلاف اس جنگ میں اپنی مالی معاونت بحال کرے گا۔ افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک میں جہاں پولیو کی وحشی نوعیت ابھی بھی موجود ہے، وہاں کی ویکسینیشن مہمات کو متاثر ہونے سے بچانے کے لئے خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب نے حالیہ دنوں میں پولیو کے خاتمے کے لیے 500 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے، مگر عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ امریکی امداد کا خلا کوئی بھی دوسرا ادارہ نہیں پُر کر سکتا۔ یہ صورتحال ایک اہم چیلنج کا سامنا کر رہی ہے جہاں عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کی محنت کو شدید دھچکا پہنچا ہے، اور پوری دنیا کے لیے ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے کہ آیا امریکہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرے گا یا نہیں۔ مزید پڑھیں: غزہ: اسرائیلی فائرنگ سے دو فلسطینی ہلاک، جنگ بندی کے حوالے سے بے چینی بڑھ گئی

خطرات میں گھری جنگلی حیات: ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

جنگلی حیات کرۂ ارض کے فطری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، مگر ماحولیاتی تبدیلیوں، جنگلات کی تیزی سے کٹائی، غیر قانونی شکار اور بڑھتی انسانی سرگرمیوں کے باعث یہ شدید خطرات سے دوچار ہے۔ عالمی یومِ حیاتِ وحش کے موقع پر یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ہم بطور انسان اپنی ذمہ داریاں کیسے نبھائیں اور اس قدرتی ورثے کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟ دنیا بھر میں جنگلی حیات کا فطری ماحول کے توازن میں بنیادی کردار ہے۔ حیاتیاتی تنوع (بائیو ڈائیورسٹی) کسی بھی خطے کے ماحولیاتی استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان میں جنگلی حیات کی متعدد اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں برفانی چیتے، مارخور، انڈس ڈولفن، ہوبارا بسٹرڈ، اور دیگر نایاب جانور شامل ہیں۔ تاہم، ان کی بقا مختلف خطرات سے مشروط ہو چکی ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے مطابق ملک میں متعدد اقسام کے جانور اور پرندے معدومی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ غیر قانونی شکار، اسمگلنگ، اور قدرتی مساکن کی تباہی اس بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر جہانزیب نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ “پاکستان میں جنگلی حیات کو سب سے بڑا خطرہ رہائش گاہوں کی تباہی اور غیر قانونی شکار ہے۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی جنگلی حیات کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اگر ان مسائل پر فوری توجہ نہ دی گئی تو کئی نایاب جانور معدوم ہو سکتے ہیں۔” پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور بے ہنگم ترقی کے نتیجے میں جنگلات سکڑتے جا رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقوں میں غیر قانونی کٹائی کے باعث نایاب جنگلی جانوروں کی رہائش گاہیں ختم ہو رہی ہیں۔ ایسے حالات کی وجہ سے یہ جانور اپنی رہائش گاہیں چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ہجرت کرتے ہیں اور بعض اوقات بدقسمتی سے وہ شہروں یا ایسے علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں محض چند منٹوں میں ان کا شکار کر لیا جاتا ہے۔ دوسری جانب اگر خوش قسمتی سے کوئی بچ جاتا ہے تو رہی سہی کسر وائلڈ لائف انھیں اپنی تحویل میں لے کر پوری کر دیتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں بھی جنگلی حیات پر شدید اثر ڈال رہی ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے اور بارشوں کے غیر متوقع پیٹرن کے باعث کئی اقسام کی افزائشِ نسل متاثر ہو رہی ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں پائے جانے والے برفانی چیتے کے مسکن تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، جس سے اس کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جنگلی حیات کو خطرہ ہے کہ نہیں پر ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کی جنگلی حیات پر گہرا اثر ڈال رہی ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے اور غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے کئی جانوروں اور پرندوں کی افزائش اور ہجرت کے طریقے متاثر ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر برفانی تیندوا اور دریائی حیات خطرے میں ہیں۔ پاکستان میں ہوبارا بسٹرڈ، مارخور اور دیگر جنگلی جانوروں کا غیر قانونی شکار اب بھی جاری ہے۔ اگرچہ حکومت نے ہوبارا بسٹرڈ کے شکار پر پابندی عائد کر رکھی ہے، لیکن غیر قانونی شکار اور عرب شکاریوں کی دلچسپی کے باعث یہ پرندہ شدید خطرے میں ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’  کو ریسرچر جنگلی حیات ڈاکٹر کامران مرزا نے بتایا ہے کہ برفانی تیندوا، ہمالیائی بھورا ریچھ، انڈس ڈولفن اور سائبیرین کرین جیسے جانور شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ ان کی رہائش گاہوں میں کمی اور غیر قانونی شکار ان کے وجود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ دریاؤں اور سمندروں میں بڑھتی ہوئی آلودگی بھی جنگلی حیات کے لیے مہلک ثابت ہو رہی ہے۔ دریائے سندھ میں آلودگی کے باعث انڈس ڈولفن کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو چکی ہے، جبکہ سمندری حیات بھی پلاسٹک اور کیمیکل ویسٹ کے سبب متاثر ہو رہی ہے۔ محکمہ جنگلات کے مطابق بنیادی طور پر نیشنل پارکس کو جو خطرات لاحق ہیں، ان میں سب سے بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ انسانی آبادی بڑھنے سے جانوروں کے لیے جگہ کم ہوتی جا رہی ہے اور ان کی خوراک کا مسئلہ بھی پیدا ہو رہا ہے۔ پاکستان نے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے متعدد بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جن میں کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ ان انڈینجرڈ اسپیشیز اور بون کنونشن شامل ہیں۔ ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا ہے کہ حکومت نے جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار کو روکنے کے لیے سخت قوانین بنائے ہیں۔ مختلف علاقوں میں اہلکار اور وائلڈ لائف افسران تعینات کیے ہیں۔ تاہم عمل درآمد کا فقدان اور کرپشن کی وجہ سے یہ اقدامات مکمل طور پر مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔ حکومتِ پاکستان نے مارخور اور برفانی چیتے جیسے نایاب جانوروں کے تحفظ کے لیے متعدد نیشنل پارکس اور وائلڈ لائف سینکچوریز قائم کیے ہیں۔ تاہم، ان اقدامات پر مؤثر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ، انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر اور دیگر تنظیمیں پاکستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ مقامی کمیونٹیز کو بھی اس حوالے سے شامل کیا جا رہا ہے، تاکہ وہ اپنے علاقوں میں نایاب جانوروں کے شکار کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں۔ ماہرِ ماحولیات کے مطابق موجودہ قوانین کسی حد تک جنگلی حیات کے تحفظ میں مددگار تو ہیں مگر ان پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا۔ غیر قانونی شکار اور اسمگلنگ کے مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں۔ اس کے ساتھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ میں مزید ترامیم کی جائیں۔ دوسری جانب ریسرچر جنگلی حیات نے کہا ہے کہ میڈیا اور تعلیمی ادارے عوام کو جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں آگاہ کر سکتے ہیں۔ ٹی وی، سوشل میڈیا، اور ڈاکیومنٹری فلموں کے ذریعے شعور بیدار کیا جا سکتا ہے، جبکہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں ماحولیات اور حیاتیاتی تنوع پر مضامین شامل کیے جانے چاہییں۔ سب سے اہم پہلو عوام میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جنگلی حیات کے تحفظ پر سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ نوجوان نسل اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھ سکے۔ ریسرچر جنگلی حیات کا پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے

ویکسین کے بعد صحت کے مسائل: کیا کووڈ ویکسین سنڈروم واقعی ایک سنگین خطرہ ہے؟

کووڈ ویکسین لگوانے والے متاثرین نے دعویٰ کیا ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد ان کی زندگیوں میں شدید مشکلات پیدا ہوئیں۔ ایک نئی ممکنہ حالت جسے ویکسین سنڈروم (پی وی ایس)  کے شکار افراد نے کہا ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد وہ بے روزگار، بے گھر اور یہاں تک کہ اینٹی ڈپریسنٹس پر انحصار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ برطانوی ویب سائٹ میل آن لائن  کے مطابق مشتبہ متاثرین نے بتایا ہے کہ کووڈ ویکسین لینے کے بعد انہیں دماغی دھند، بے خوابی، ٹنیٹس (کانوں میں مستقل شور سنائی دینا)، دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی اور دیگر پیچیدہ علامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کچھ افراد نے کا کہنا ہے کہ انہیں ویکسین کے فوراً بعد علامات محسوس ہوئیں، جب کہ کچھ کے مطابق یہ اثرات وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوئے ہیں۔ ساؤتھ ویلز سے تعلق رکھنے والے ایک متاثرہ شخص  نے میل آن لائن کو بتایا کہ وہ  اپنی نوکری اور گھر سے محروم ہوگیا ہےاور اسے روزانہ ٹنیٹس اور دورے پڑتے ہیں، چکر آتے ہیں، دماغی دھند کی کیفیت ہوتی ہے اور وہ چلنے یا بولنے میں دشواری محسوس کرتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہ سب پی وی ایس سے جڑا ہوا ہے۔ ایک اور متاثرہ شخص نے دعویٰ کیا کہ ویکسین لگوانے کے 24 گھنٹوں کے اندر اندر اس نے ٹنیٹس کی علامات محسوس کرنا شروع کر دیں، جو آج تک برقرار ہیں۔ اس نے مزید کہاکہ اس کے کانوں میں مسلسل ایک نبض جیسی آواز سنائی دیتی ہے، جس نے اس کی زندگی کو تباہ کر دیا ہے۔ متاثرہ شخص کے مطابق اس نے ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے اینٹی ڈپریسنٹس کا استعمال شروع کر دیا، لیکن نیند کی کمی اور بے چینی آج بھی اس کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ییل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ فائزر اور موڈرنا ویکسین کے بعد پیدا ہونے والی علامات کئی سالوں تک برقرار رہ سکتی ہیں۔ تاہم، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سنڈروم کے شواہد ابھی محدود ہیں اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ تحقیقی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر اکیکو ایواساکی نے کہا ہے کہ یہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ اس حوالے سے مزید شفافیت ہو، تاکہ متاثرہ افراد کے مسائل کو سمجھا جا سکے۔ دوسری جانب ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر مطابق ویکسین کے ممکنہ ضمنی اثرات کا مطالعہ کرنا ضروری ہے، لیکن ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ پی وی ایس واقعی ویکسین کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر بغیر مکمل ثبوت کے کوئی نتیجہ اخذ کر لیا گیا، تو اس سے عوام کے ویکسین پر اعتماد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ برطانوی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ویکسین سے مبینہ طور پر زخمی یا جاں بحق ہونے والوں کے معاوضے کے دعوے 18,500 کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ تاہم، سخت شرائط کے باعث ان میں سے صرف 200 سے زائد افراد کو معاوضہ دیا گیا ہے۔ ویکسین ڈیمیج پے منٹ اسکیم کے تحت متاثرہ افراد کو 120,000  پاؤنڈ تک کی ادائیگی کی جا سکتی ہے، لیکن صرف ان کیسز میں جہاں فرد کو کم از کم 60 فیصد معذوری ہو چکی ہو۔ اس پیمانے پر نہ آنے والے ہزاروں دعوے مسترد کیے جا چکے ہیں۔ مزید پڑھیں: چین میں کورونا جیسا نیا وائرس دریافت: سائنسدان کیا کہتے ہیں؟ ویکسین بنانے والی کمپنی فائزر کے ترجمان نے کہا ہے کہ مریضوں کی حفاظت ان کی اولین ترجیح ہے اوروہ کسی بھی منفی اثرات کی رپورٹس کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ ویکسین کے بعد پیش آنے والے ہر واقعے کو ویکسین سے جوڑنے کے بجائے سائنسی بنیادوں پر پرکھا جائے۔ واضح رہے کہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس سنڈروم کے شواہد مضبوط نہ ہوئے، تو یہ ویکسین کے خلاف غیر ضروری خوف پیدا کر سکتا ہے، جو مستقبل میں ویکسینیشن مہمات کی کامیابی کو متاثر کرے گا۔

کراچی سمیت صوبے بھر میں 13 مختلف جعلی ادویات فروخت کی جا رہی ہیں، سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کا انکشاف

سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی سمیت صوبے بھر میں 13 مختلف جعلی ادویات مارکیٹ میں کمپنیوں کے ناموں سے فروخت کی جارہی ہیں۔ نجی نشریاتی ادارے ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے ڈائریکٹر عدنان رضوی نے بتایا ہےکہ گزشتہ 2 ماہ کے دوران مختلف ادویات کے 300 سے زائد سمپل ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں، جس میں 13 مختلف ادویات کے سمپل جعلی پائے گئے ہیں، یہ جعلی ادویات اصل کمپنیوں کے ناموں سے مارکیٹ میں فروخت کی جارہی تھیں۔ واضح رہے کہ تحقیقات کے دوران یہ بھی پتہ چلا کہ جو جعلی ادویات مختلف کمپنیوں کے نام سے مارکیٹ میں فروخت کی جارہی ہیں ان کمپنیوں کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔ عدنان رضوی نے بتایا کہ تحقیقات کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ مارکیٹ میں 7  فارما کمپینوں کے نام سے جعلی ادویات فروخت کی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ  ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کو کراچی سمیت اندرون سندھ میں جعلی ادویات کی سینکڑوں شکایت موصول ہوئی تھی، جس ڈرگ انسپکٹروں نے ڈرگ ایکٹ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے مختلف ادویات کے سپمل حاصل کیے، ان ادویات میں جسم میں درد، مرگی اور ہڈی و پٹھوں کے درد میں استعمال کی جانے  والی آئیوڈیکس کے نمونے جب لیبارٹری میں ٹیسٹ کیے تو انکشاف ہوا کہ ان ادویات میں وہ اجزاء شامل نہیں جو درد میں استعمال کی جاتی ہے۔ مزید پڑھیں: ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سنٹرز: اب آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانےکی ضرورت نہیں!  ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے متعلقہ ڈرگ انسپکٹروں کو ہدایت کی کہ ادویات پر درج کمپنیوں کے پتوں پر رابطہ کیا جائے، ڈرگ انسپکٹروں کی کاروائی پر انکشاف ہوا کہ یہ کمپنیاں وہاں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ دوسری جانب جب آئیوڈیکس بنانے والی کمپنی سےرابطہ کیا گیا تو کمپنی کے حکام نے بتایا کہ آئیوڈیکس کی مینوفیکچرنگ 2017 کے بعد سے بند ہے، آئیوڈیکس پر مینیوفیکچرنگ کی تاریخ 2024 درج تھی۔ اسی طرح دیگر 13 مختلف ادویات پر درج بیج نمبر، لائنس نمبر اور کمینی کی پتے بھی غلط تھے، جس کے بعد سندھ کے تمام ڈرگ انسپکٹروں کو جعلی ادویات کے خلاف کریک ڈاون کی ہدایت کردی۔ عدنان رضوی نے کہا کہ سندھ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کی جانب سے تمام ڈرگ انسپکٹروں کو جعلی ادویات کے خلاف الرٹ جاری کیا گیا ہے کہ مارکیٹ میں فروخت ہونے والی ادویات کی سخت مانیٹرنگ کی جائے۔

مٹی میں پائے جانے والے بیکٹیریا نے آسٹریلیا میں 14 افراد کی جانیں لے لیں

آسٹریلیا میں مٹی میں پائے جانے والے خطرناک بیکٹیریا سے 14 افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ بیکٹریا سانس یا خون کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور بیماری پھیلاتا ہے۔  ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر کے مطابق کہ ملیئوڈوسس نامی بیماری مٹی یا کیچڑ میں پائے جانے والے بیکٹیریا سے پھیلتی ہے، عام طور پریہ بیکٹیریا شدید بارشوں اور سیلاب کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔  کوئنز لینڈ کے کچھ حصوں میں رواں ماہ 59 انچ سے زائد بارش کی وجہ سے سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ کوئینز لینڈ ہیلتھ ڈیٹا کے مطابق رواں سال اب تک 94 افراد اس بیکٹیریا سے متاثر ہوچکے ہیں، یہ بیماری سانس کے ذریعے یا خون میں شامل ہو کر پھیلتی ہے۔

پیدا ہوتے ہی ہر انسان کو کون سے 30 بنیادی حقوق مل جاتے ہیں؟

کیا آپ جانتے ہیں جب آپ پیدا ہوتے ہیں تو اسی وقت آپ کو 30 حقوق مل جاتے ہیں۔ پوری دنیا کے انسانوں کو 30 بنیادی حقوق اقوامِ متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ اعلامیے کی وجہ سے ملتے ہیں۔ یہ حقوق کیسے بنے اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔مختلف تہذیبوں ، بادشاہوں، سلطنتوں اور مذاہب نے اپنے طور پر انسان کو سمجھا اور اس کی ضروریات کو دیکھتے ہوئےکچھ اصول ترتیب دیے۔ اقوامِ متحدہ نے 10 دسمبر 1948 کو حقوق کا عالمی اعلامیہ جاری کیا ۔   ایک لمبا سفر طے کر کے آج یہ 30 بنیادی حقوق کے شکل میں موجود ہیں جس کے لیے پوری دنیا کی این جی اوز اور حکومتیں کام کرتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں یہ حقوق کون کون سے ہیں : تمام انسان آزاد اور برابر پیدا ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہر فرد کو مساوی حقوق اور عزت حاصل ہے۔ کسی بھی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہر انسان کو زندگی جینے، تحفظ حاصل کرنے  اور آزادی کا بنیادی حق حاصل ہے۔ کسی کو غلام نہیں بنایا جا سکتا، اور جبری مشقت ممنوع ہے۔  کسی پر ظلم، تشدد، یا غیر انسانی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ تمام افراد قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ ہر شخص کو قانون کا مساوی تحفظ حاصل ہے۔ کسی کو بلا جواز گرفتار یا جلاوطن نہیں کیا جا سکتا۔ ہر شخص کو آزاد اور غیر جانبدار عدالت میں مقدمہ لڑنے کا حق حاصل ہے۔ کسی کی نجی زندگی میں بلاجواز مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ ہر فرد کو اپنی مرضی سے کسی ملک میں جانے اور واپس آنے کا حق حاصل ہے۔ ظلم و ستم سے بچنے کے لیے کسی بھی ملک میں پناہ لینے کا حق حاصل ہے۔   ہر فرد کو کسی نہ کسی ملک کی شہریت کا حق حاصل ہے۔ بالغ مرد و عورت کو اپنی مرضی سے شادی کرنے اور خاندان بنانے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو جائیداد رکھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو اپنی رائے ظاہر کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور تبدیل کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہر فرد کو پرامن طریقے سے جمع ہونے اور تنظیم بنانے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو حکومتی معاملات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔ ہر فرد کو صحت، روزگار، اور فلاحی سہولیات حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہر فرد کو روزگار کا حق حاصل ہے اور اسے منصفانہ تنخواہ دی جانی چاہیے۔ ہر فرد کو معقول اوقات کار میں آرام کرنے کا  اور چھٹی کا حق حاصل ہے۔ ہر فرد کو خوراک، لباس، صحت، اور رہائش کی بنیادی سہولیات میسر ہونی چاہئیں۔ ہر انسان کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، اور ابتدائی تعلیم مفت ہونی چاہیے۔ ہر شخص کو ثقافتی سرگرمیوں میں شرکت اور سائنسی ترقی سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ ہر فرد کو اپنے ادبی، سائنسی اور فنی تخلیقات کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ ہر فرد کو ایسا سماج اور نظام ملنا چاہیے جو انصاف اور مساوات کو فروغ دے۔ کسی کو بھی ان حقوق کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہر شخص پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کا احترام کرے۔ کسی بھی حکومت یا ادارے کو یہ اجازت نہیں کہ وہ ان حقوق کو ختم یا محدود کرے۔ یہ تمام حقوق دنیا کے ہر انسان کے لیے مساوی طور پر لاگو ہوتے ہیں اور ان کا تحفظ ضروری ہے تاکہ ایک منصفانہ اور پرامن معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ اقوامِ متحدہ نے اس حقوق کی تمہید میں کہا ہے کہ یہ تمام حقوق آپس میں برابر ہیں۔ کوئی بھی حق دوسرے حق سے زیادہ اہم نہیں بلکہ تمام حقوق مساوی ہیں۔

خیبرپختونخوا میں منکی پاکس کا پہلا مقامی کیس رپورٹ، عوام میں تشویش کی لہر

خیبرپختونخوا میں ‘منکی پاکس’ کا پہلا مقامی کیس رپورٹ ہوگیا ہے جس کے بعد صوبے میں اس بیماری کے پھیلاؤ سے متعلق نئی تشویش بڑھ گئی ہے۔ مشیر صحت ‘احتشام علی’ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ پہلا کیس ہے جو کمیونٹی سطح پر منتقل ہوا ہے جبکہ اس سے قبل جتنے بھی کیسز سامنے آئے تھے وہ بیرون ملک سے واپس آنے والوں میں تھے۔ تفصیلات کے مطابق متاثرہ خاتون کے شوہر حال ہی میں ایک خلیجی ملک سے وطن واپس آئے تھے اور ابتدائی طور پر ان میں ‘منکی پاکس’ کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔ تاہم، بعد ازاں ان میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی۔ خاتون کے شوہر کے متاثر ہونے کے بعد وہ خود بھی اس بیماری کا شکار ہو گئیں اور ان میں بھی منکی پاکس کی علامات ظاہر ہوئیں۔ ان کے کیس کے بعد پشاور کے پولیس سروسز ہسپتال میں آئسولیشن وارڈ میں سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ منکی پاکس کی بیماری ابتدائی طور پر افریقہ کے مغربی حصوں میں بندروں میں پائی جاتی تھی تاہم 1970 کے بعد اس نے انسانی جسم میں منتقل ہو کر وہاں بھی پھیلنا شروع کیا۔ یہ ایک نایاب وائرل ‘زونوٹک’ بیماری ہے جو منکی پاکس وائرس کی وجہ سے انسانوں میں پھیلتی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: غزہ میں پولیو سے بچاؤ کی نئی ویکسینیشن مہم کا آغاز: 600,000 بچوں کی حفاظت کا عزم حالیہ برسوں میں اس بیماری کے کچھ کیسز یورپ اور امریکا جیسے خطوں میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں جس سے عالمی سطح پر اس کے پھیلاؤ کے بارے میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ منکی پاکس کی بیماری کا پھیلاؤ تیز نہیں ہوتا جیسا کہ کورونا وائرس کے دوران ہوا تھا۔ اس کا انفیکشن قریبی جسمانی تعلقات کے ذریعے منتقل ہوتا ہے اور ماہرین سماجی فاصلے کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ یہ بیماری خاص طور پر غیر محفوظ جنسی تعلقات کے ذریعے پھیلتی ہے تاہم ایسا ہر کیس میں نہیں ہوتا۔ منکی پاکس کا وائرس عام طور پر پھٹی ہوئی جلد سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک اور منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اس بیماری کی علامات میں بخار، سر درد، پٹھوں میں درد، تھکن اور لیمفاڈینوپیتھی شامل ہیں۔ سب سے نمایاں علامت جلد پر خارش کا نمودار ہونا ہے جو عموماً چہرے سے شروع ہوتی ہے اور پھر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتی ہے۔ عام طور پر منکی پاکس کی علامات ظاہر ہونے کے بعد 7 سے 14 دن کے اندر مکمل ہوتی ہیں، تاہم اس کی مدت 5 سے 21 دن تک بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بیماری 2 سے 4 ہفتے تک جاری رہ سکتی ہے اور اس دوران مریض کو مکمل آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں منکی پاکس کا پہلا مقامی کیس رپورٹ ہونے کے بعد صحت کے محکمے نے صوبے کے دیگر علاقوں میں اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حفاظتی اقدامات پر زور دیا ہے۔ پشاور کے ہسپتالوں میں آئسولیشن وارڈز میں مریضوں کو علیحدہ کرنے اور ان کی مکمل نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ، صوبے بھر میں عوامی آگاہی کے پروگرامز بھی شروع کیے گئے ہیں تاکہ لوگ اس بیماری کے بارے میں بہتر معلومات حاصل کر سکیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کر سکیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر اس بیماری کا پھیلاؤ روکا نہ گیا تو اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ منکی پاکس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور کسی بھی مشتبہ علامات کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹروں سے رابطہ کریں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں اس بیماری کے مزید کیسز سامنے آتے ہیں یا حکومتی اقدامات اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کریں تاکہ عوام کی صحت کو محفوظ رکھا جا سکے۔ مزید پڑھیں: وائرس پھیلنے کا خطرہ، امریکا نے عالمی ادارہ صحت سے تعلقات ختم کردیے

چین میں کورونا جیسا نیا وائرس دریافت: سائنسدان کیا کہتے ہیں؟

چینی سائنسدانوں نے چمگادڑوں میں ایک نیا کورونا وائرس دریافت کیا ہے جو ممکنہ طور پر سارس کوو 2 (کووڈ 19) کی طرح انسانوں میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نئے وائرس کا نام ایچ کیو یو 5 کوو 2 رکھا گیا تھا۔ یہ نیا وائرس بھی کورونا  کی طرح انسانی ریسیپٹر کو ہدف بنا کر جسم میں داخل ہوتا ہے۔ سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ یہ وائرس بھی ممکنہ طور پر ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتا ہے بلکہ مختلف جانداروں میں گردش کرسکتا ہے۔ یہ وائرس گوانگزو لیبارٹری میں دریافت کیا گیا جس کی قیادت زینگ لی شائی نے کی۔ زینگ لی شائی ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرلوجی میں کام کرتی ہیں انہیں اس وائرس کی دریافت کے بعد بیٹ ویمن بھی کہا جاتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج جرنل سیل میں شائع ہوئے جس میں بتایا گیا کہ چمگادڑوں میں موجود ایچ کیو یو 5 کوو 2 مؤثر طریقے سے انسانی ایس 2 ریسیپٹر کو استعمال کرکے جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ وائرس انسانی خلیات کو متاثر کرسکتا ہے جبکہ یہ معلوم ہوا کہ پھیپھڑوں اور آنتوں کے نمونوں میں یہ وائرس تیزی سے اپنی تعداد بڑھاتا ہے۔ مزید تجربات میں محققین نے ایسی اینٹی باڈیز اور اینٹی وائرل ادویات کو بھی دریافت کیا جو اس وائرس کو ہدف بناتی ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ فی الحال یہ نیا وائرس انسانوں کو متاثر کرنے کے حوالے سے کووڈ 19 کا باعث بننے والے کورونا وائرس جتنا مؤثر نہیں۔ تحقیق کے مطابق اس وائرس سے کووڈ 19 جیسی عالمی وبا کا خطرہ بہت کم ہے کیونکہ کووڈ ویکسینز سے انسانوں میں پیدا ہونے والی مدافعت بیماری سے تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔  

کیا آپ کی زبان بھی مر رہی ہے؟ زبانوں کی بدلتی صورتحال

سنو! تم کل سے نظر نہیں آ رہے… کہاں تھے؟”میں actually ممّا کے ساتھ الحمراء گیا ہوا تھا. وہاں festival تھا۔وہ ہے نا وہ اردو poet……..کیا نام ہے اُس کا؟ Oh God, I forgot    تووہ جس کے نام میں ایک ہی word 2 بار آتا ہے؟” فیض احمد فیض!”وہی…فیض احمد فیض!ممّا کہتی ہیں. He was a revolutionary poetپتہ ہے… بہت hard ہے… اُس کی language۔او مائی گاڈ! اوپر سے گزر جاتی ہے. آج کل ہربچے سےاسی طرح سے بات کرتے ہوئے سنیں گے اور والدین اس طرح کی زبان سے بہت فخرمحسوس کرتے ہیں جس سے بچے اپنی مقامی زبان سے بالکل لا تعلقی اختیار کرلیتے ہیں اور آخر کار وہ زبان بالکل مرجاتی ہے۔ پاکستان میں کل  77 زبانیں بولی جاتی ہیں  جن میں پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی اورہندکوسےتوپاکستانی واقف ہیں لیکن دیگر زبانیں ایسی کہ جن کے بارے میں بیشتر پاکستانیوں کو خبر تک نہیں جن میں شینا، کھوار، کوہستانی، توروالی، گاؤری، ڈھاٹکی، تھری، بروشسکی، بلتی، وخی اور ارمڑی (برکی) وغیرہ شامل ہیں۔ انٹرنیشنل ورلڈ فیکٹ ادارہ سی آئی اے کے مطابق پاکستان میں پنجابی 39.9، پشتو 16.1، سندھی 14، سرائیکی 12.2، اردو 7.1، بلوچی 3، ہندکو 2.4، براہوی 1.2،  اور دیگر2.4  فیصد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ عالمی زبانوں کو شمار کرنے والا ادارہ ’اینتھولوگ‘کے  2022 کے ایڈیشن کے مطابق پاکستان میں 77 زبانیں ہیں جن میں 68 مقامی اور 9 غیر مقامی ہیں ان میں سے 4 ادارتی، 24 ترقی پذیر، 30جوش مند، 15 خطرے میں اور 4 مرنے والی ہیں۔ مقامی زبان کو درپیش خطرات کے حوالے سے  پاکستان دنیا کا 28واں ملک ہے  جسے اپنی مقامی زبانیں کھونے کا خوف لاحق ہے۔ بروشسکی، شینا، واکھی، بلتی، اور کلاشی زبانوں سے زیادہ تر پاکستانی نا واقف ہیں کیوں کہ یہ زبانیں ایک خاص علاقے میں بولی جاتی ہیں اوران کو بولنے والوں کی کمی کی وجہ سے یہ زبانیں ناپید کے خطرے میں ہے۔   بروشسکی گلگت بلتستان میں بولی جاتی ہے، یہ زبا ن کچھ اس وجہ سے منفرد ہے کیوں کہ اس کا کسی دوسری زبان سے تعلق نہیں۔ اس کے بولنے والے افراد کی تعداد کم ہو رہی ہے، اور یہ معدومیت کے خطرے میں ہے۔  شینا شمالی علاقوں خاص طورپرگلگت اور دیامرمیں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کے کئی لہجے ہیں اس پر فارسی اور اردو کے اثرات پائے جاتے ہیں ۔ شینا زبان کا ادب زیادہ تر لوک کہانیوں اور زبانی روایات پر مبنی ہے۔ واکھی چترال اور گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ یہ زبان تاجکستان، افغانستان اورچین میں بھی بولی جاتی ہے۔واکھی زبان کے بولنے والوں کی تعداد کم ہونے کے باعث یہ بھی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔  بلتی اسکردواورکھرمنگ میں بولی  جانے والی زبان ہے۔ جدید دور میں اس زبان کا استعمال کم ہو رہا ہےجس کے باعث اس کا تحفظ ضروری ہے۔ کیلاشی زبان چترال کے کیلاشی قبیلے کی زبان ہے اور اپنی مخصوص ثقافتی شناخت کی عکاسی کرتی ہے۔ کیلاش قبیلے کی تعداد محدود ہونے کے باعث یہ زبان بھی خطرے میں ہے۔ لوگ  جدت کو اپنانے کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں  اپنے بچوں کو مادری زبان میں بات چیت کرنے سے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جس بنیاد پر لوگ اپنے بچوں کو اردو اور انگریزی زبان  سکھانا زیادہ  بہترسمجھتے ہیں۔ پنجابی کے لکھاری جمیل احمد پال نے ’پاکستان میٹرز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر پنجاب میں لوگ شہروں میں جا کراپنی مادری زبان میں بات چیت کرنے سے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ ’اس احساس کمتری کے پیچھے کم از کم سو، سوا سو سال کا عمل ہے۔ انگریز نے 1849 میں پنجاب پر قبضہ کیا تو اپنی پالیسی کے برعکس یہاں مقامی زبان کو نظر انداز کرتے ہوئے ’’ہندوستانی‘‘ کو رائج کیا جو بعد میں اردو کے نام سے معروف ہوئی۔ اردو کے نفاذ کے لیے خصوصی کوششیں کی گئیں‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’پیسہ اخبار‘‘ میں برسوں تک پنجابی زبان کے خلاف مہم چلائی گئی۔ اسے گھٹیا اور کمتر ثابت کرنے کے لیے مسلسل دو سال تک جعلی ناموں سے مضامین شائع کیے جاتے رہے۔ ایسی مہمات نے عام لوگوں کو متاثر کیا اور پڑھے لکھے لوگ اپنی زبان کے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہوکر اسے بولنے سے گریز کرنے لگے۔ ہر شہر میں کتابوں کے بازار کو ’’اردو بازار‘‘ کا نام دیا گیا تاکہ لوگوں کو تاثر دیا جا سکے کہ اردو پڑھے لکھوں کی زبان ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جو تعلیم بچوں کی مادری زبان میں دی جائے، بچے اس کو بہتر طور پہ سمجھ سکتے ہیں۔ مگر پاکستان میں مادری زبان میں تعلیم دینے کا رجحان بہت کم ہے۔ مقامی زبانوں کے ختم ہونے کی سب سے بڑی وجہ ، حکومت کی جانب سے مادری زبانوں پر توجہ نہ دینا ہے۔ سکولوں میں صرف اردو یا انگریزی ہی پڑھائی جاتی ہے ۔ جمیل احمد پال ان مقامی زبانوں کو مزید ناپید ہونے سے بچانے کے لیےکہتے ہیں کہ دنیا بھر میں بچوں کی بنیاد بنانے کے لیےبنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ مادری زبان ہی چھوٹے بچوں کے لیے بہترین ذریعہ تعلیم ہے۔مقامی زبانوں کو پرائمری تک ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور میٹرک تک ہر مقامی زبان کواختیاری مضمون کا اختیار ملنا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سرکاری عہدے دار،وزیر اعلیٰ، اور دیگر وزراء اپنی تقریر اور اظہار خیال مقامی زبان ہی میں کریں تاکہ لوگوں سے احساس کمتری دور ہو۔ خوش قسمتی سے یہ سہولت سندھی زبان کو کسی حد تک حاصل ہے۔ پشتو اس معاملے میں کافی پیچھے ہے جبکہ پنجابی اور بلوچی ناقابل ذکر حد میں آتی ہیں۔ مادری زبانوں کو مزید ان خطرات کے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ ان زبانوں میں زیادہ سے زیادہ سیمینار، لوک کہانیوں اورموسیقی کو فروغ دیا جائے اورساتھ ساتھ مقامی ثقافت کے تہواروں پر بھی زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کا اجلاس: برٹش وفد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی فیصل آباد کا دورہ کرے گا

صوبائی وزیر صحت کی زیر نگرانی میں محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن میں اہم اجلاس منعقدہوا،  جس میں فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں برٹش وفد کے دورہ کے حوالہ سے انتظامات کا جائزہ لیا گیا اورمتعلقہ حکام نے اس حوالہ سے بریفننگ دی۔ صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کی صدارت میں اجلاس منعقد ہوا ،جس میں  سیکرٹری صحت پنجاب عظمت محمود، چیئرمین وزیر اعلیٰ ٹاسک فورس ڈاکٹر فرقد عالمگیر، سپیشل سیکرٹری ڈویلپمنٹ ذیشان شبیر رانا، ڈی جی پروٹوکول انعام الرحمن، ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ داخلہ اور ایڈیشنل سیکرٹری ایڈمن سجاد خان نے شرکت کی۔ اجلاس میں مزید کمشنر فیصل آباد ڈویڑن مریم خان، وائس چانسلر یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ سائنسز پروفیسر مسعود صادق اور فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ذمہ داران نے وڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے اجلاس کے دوران فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں برٹش وفد کے دورہ کے حوالہ سے انتظامات کا جائزہ لیا۔متعلقہ حکام نے اس حوالہ سے بریفننگ بھی دی۔ صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے کہاکہ 24 فروری کو برٹش وفد یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ سائنسز کا دورہ کرکے فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی روانہ ہو جائے گی،  برٹش وفد میں ایڈن لٹل ہارٹس تنظیم سے پروفیسر عمران سعید، ڈاکٹر عمر اور ڈاکٹر سندیپ شامل ہوں گے۔ صوبائی وزیر صحت کا کہناہے کہ غیر ملکی کارڈیک سرجنز فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں معصوم بچوں کی ہارٹ سرجریز کریں گے۔  خواجہ سلمان رفیق نے کہاکہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بھی فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ان کارڈیک سرجنز کے زیر نگرانی ہونے والی ہارٹ سرجریز کو مانیٹر کریں گی، اس حوالے سے ہارٹ سرجریز کروانے والے معصوم بچوں کی فہرست تیار کر لی گئی ہے۔ ڈاکٹر فرقد عالمگیر کے توسط سے یہ برٹش وفد پاکستان کا دورہ کر رہا ہے، برٹش وفد میں شامل کارڈیک سرجنز کا پاکستان میں پانچ روزہ دورہ ہو گا۔ وزیرصحت پنجاب نے کہاکہ فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ڈاکٹر رزاق اور ڈاکٹر ضیغم سے اس حوالہ سے مکمل کوارڈی نیشن ہو رہی ہے۔ برٹش وفد کو یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ سائنسز میں کارڈیک سرجری سے متعلق مکمل بریفننگ دی جائے گی۔