April 19, 2025 10:28 pm

English / Urdu

معمولی سرمایہ کاری سے سبزیاں اگائیں اور مہنگائی کو بھول جائیں

دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جہاں غریب عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، وہیں ایک ایسا طریقہ بھی موجود ہے، جس سے گھر پر سبزیاں اگا کر افراطِ زر کو خدا حافظ کہا جا سکتا ہے۔ آج کے اس مہنگے دور میں کوئی بھی چیزایسی نہیں ہے جو غریب آدمی کی بساط میں ہو اور آسانی سے میسر ہو، مگر ‘پاکستان میٹرز’ لایا ہے سب کے لیے ایک ایسا طریقہ جس سے محض 15 ہزار کی سرمایہ کاری سے آپ گھر پر کیمیکلز سے پاک کھیتی باڑی کر کے سبزیاں اگا سکتے ہیں۔ اس تکنیک کو کچن گارڈننگ کا نام دیا جاتا ہے۔ کچن گارڈننگ کم مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ صحت مند اور کیمیکلز سے پاک سبزیاں اگانے کا ایک کار آمد طریقہ ہے، جس سے کم  پیسوں میں تازہ خوراک حاصل کی جا سکتی ہے۔ مزید پڑھیں: رات کو جنک فوڈ کی شدید خواہش: ایک دلچسپ سائنسی حقیقت جو آپ کو حیران کر دے گی ‘پاکستان میٹرز’ کو کچن گارڈننگ کرنے والے طالب علم  عبدالمعیز نے بتایا ہے کہ اس تکنیک سے عام برتنوں، پرانی بوتلوں اور عام مٹی کے استعمال سے محدود جگہ پر اچھی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ عبدالمعیز نے بتایا کہ گھر میں پھل اور سبزیاں اگانے سے تازہ اور لذیذ کھانا ملتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ کیسے مختلف جگہوں پر مختلف سبزیاں قابلِ کاشت ہوتی ہیں اور ان  سے زمین کی تزئین کا بھی فائدہ ہو جاتا ہے۔ عبدالمعیز کا کہنا ہے کہ ہر گھر میں جتنی جگہ ہو اس حساب سے سبزیاں اگائی جائیں، مزید یہ کہ مرچیں اور پالک جیسی سبزیاں لازمی اگائی جائیں، کیونکہ یہ ہر گھر کے لیے ضروری ہیں۔

کیا غذائی عادات اور ماحولیاتی عوامل بچپن کے کینسر میں اضافہ کر رہے ہیں؟

ہر سال 4 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سرطان (کینسر) سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد عوام میں اس خطرناک اور جان لیوا مرض سے آگاہی اور اس سےبچاؤ کے متعلق شعور پیدا کرنا ہے۔ 4 فروری کو وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ عالمی سطح پر سرطان موت کی دوسری بڑی وجہ ہے، پاکستان نے کینسر کی تحقیق، علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس بیماری کی روک تھام اور مؤثر طریقے سے علاج کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ خبرنامے کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 1000 سے زائد بچوں میں سرطان کی تشخیص ہوتی ہے، اگرچہ طبی میدان میں حالیہ ہوئی ترقی سے بہتر آمدنی والے ممالک میں اس بیماری سے صحت یابی کے امکانات بڑھے ہیں، جس سے 80 فیصد سے زائد بچوں کی جان بچائی جا سکتی ہے، مگر کم آمدنی والے ممالک میں اس کی شرح صرف 20 فیصد تک ہی رہنے کا امکان ہے۔ بچوں میں کینسر کی روک تھام کے لیے مضبوط طبی نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق کینسر میں مبتلا بچوں کی صحت یابی کا بڑی حد تک دار و مدار ایسے طبی نظام پر ہوتا ہے، جو ان میں بیماری کی بروقت تشخیص اور ابتدائی مرحلے میں ہی موزوں علاج مہیا کر سکے۔ بچپن میں کینسر کے بڑھتے ہوئے کیسز نے دنیا بھر کو تشویش میں ڈال رکھا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ جدید طرزِ زندگی، غیر متوازن غذا اور آلودہ ماحول نے بچوں کی صحت پر منفی اثر ڈال دیا ہے۔ مزید یہ کہ کیمیکل زدہ خوراک اور فاسٹ فوڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال سے موٹاپا، الرجی اور دیگر بیماریوں میں اضافہ ہو ا ہے۔ دوسری جانب فضائی آلودگی اور زہریلے کیمیکلز نے سانس اور جلدی امراض میں اضافہ کر دیا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو ماہر امراض ِ اطفال ڈاکٹر خدیجہ افضل نے بتایا ہے کہ بچوں میں عام طور پر لیوکیمیا، برین ٹیومر اور لمفوما جیسے کینسر پائے جاتے ہیں۔ ان کی وجوہات میں جینیاتی عوامل، ماحولیاتی آلودگی، تابکاری اور بعض وائرس شامل ہو سکتے ہیں۔ جدید تحقیق یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ قبل از پیدائش ماحولیاتی عوامل بچے میں کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ جدید دور میں فاسٹ فوڈ کا ہر جگہ استعمال عام ہے، والدین آئے روز باہر سے کھانا منگواتے ہیں اور اسے بچوں کی بھی ساتھ کھلا دیتے ہیں، جس سے سرطان سمیت کئی بیماریاں بچوں میں جنم لے رہی ہیں۔ ڈاکٹر خدیجہ افضل کا کہنا ہے کہ فاسٹ فوڈ اور پروسیسڈ فوڈ میں موجود مصنوعی اجزاء، پریزرویٹوز اور کیمیکل بچوں کے مدافعتی نظام کو کمزور کر سکتے ہیں۔ ان کھانوں میں موجود ٹرانس فیٹس اور ہائی فریکٹوز کارن سیرپ موٹاپے اور ہارمونی عدم توازن کا سبب بنتے ہیں، جو بعض اقسام کے کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ خدیجہ افضل نے کہا ہے کہ تحقیق کے مطابق بازاری کھانوں میں پائے جانے والے کیمیکلز جیسے سوڈیم نائٹریٹ، بی ایچ اے اور بی ایچ ٹی کارسینوجینک اثرات رکھتے ہیں۔ مصنوعی رنگ اور فلیورز بھی بچوں کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں اور طویل مدتی استعمال کینسر کے امکانات بڑھا سکتا ہے۔ بچوں میں سرطان کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی کو مانا جاتا ہے، حکومتی ادارے اور عالمی تنظیمیں اس کے بچاؤ کے لیے اقدامات کرنے میں لگی ہیں، جس کی وجہ سے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کیسے بچوں میں کینسر کا سبب بن سکتی ہے؟ ڈاکٹر خدیجہ افضل نے پاکستان میٹرز کو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فضائی آلودگی، آلودہ پانی اور زہریلے کیمیکل بچوں کے جسم میں زہریلے مادے جمع کرنے کا سبب بنتے ہیں، جو کینسر کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر صنعتی علاقوں میں رہنے والے بچوں میں سانس اور خون کے کینسر کے کیسز زیادہ دیکھے گئے ہیں۔ ماہر امراضِ اطفال نے کہا ہے کہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کیڑے مار ادویات، پلاسٹک میں موجود زہریلے اجزاء (بی پی اے) اور آلودہ پانی بھی مدافعتی نظام کو کمزور کر کے کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں سائنسی ترقی کی بدولت علاج میں بہتری آئی ہے، مگر اس کے ساتھ بچوں میں کینسر کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا گیاہے. عالمی ادارہ صحت کی گلوبل کینسر آبزرویٹری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2022 میں 185,748 کیسز رپورٹ ہوئے، 118, 631 اموات ہوئیں،  جب کہ 5 سال سے کم عمر 390,443 مروجہ مقدمات درج ہوئے۔ ماہر صحتِ عامہ ڈاکٹر قمر ایوب نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ پاکستان میں غذائی آلودگی، کمزور مدافعتی نظام، آلودہ پانی اور ناقص صحت سہولیات کی وجہ سے بچوں میں کینسر کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے  وقت پر تشخیص نہ ہونے اور مالی وسائل کی کمی بھی بیماری کی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔ کینسر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں میں صحت مند غذائی عادات پروان چڑھائی جائیں، قمر ایوب کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو تازہ اور گھریلو کھانوں کی طرف راغب کریں، جن میں پھل، سبزیاں اور پروٹین سے بھرپور غذا شامل ہو۔ جنک فوڈ کی جگہ صحت مند اسنیکس متعارف کروا کر اور کھانے کے اوقات مقرر کر کے صحت مند عادات پروان چڑھائی جا سکتی ہیں۔ حکومتی سطح سے اقدامات کے حوالے سے ڈاکٹر قمر ایوب نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غذائی اشیاء میں ملاوٹ کے خلاف سخت قوانین نافذ کرے اور عوام میں آگاہی مہم چلائے۔ نجی ادارے بھی کینسر ریسرچ، علاج کی سہولتوں اور صحت مند غذا کی فراہمی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی خوراک پر توجہ دیں، بازاری اور پروسیسڈ فوڈ سے گریز کریں اور انہیں جسمانی سرگرمیوں میں شامل کریں۔ اس کے علاوہ، بچوں کا باقاعدہ طبی معائنہ کروانا اور کسی بھی غیرمعمولی علامات کو نظرانداز نہ کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ ماہرین کی رائے ظاہر کرتی ہے کہ بچوں کی صحت کے لیے متوازن غذا، صاف ستھرا ماحول اور بروقت طبی معائنہ کینسر

سردی، بارش اور سرائیکیوں کی صحبت میں ’ثوبت‘ کا اپنا ہی مزہ ہے، ثوبت ہے کیا؟

سردی کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر میں سردیوں کے کھانے اور سوغات عام ہو جاتی ہیں۔ دوستوں کو دی گئی دعوت ہو یا مہمانوں کی آمد، سب سے پہلے ان سوغات کو ہی پیش کیا جاتا ہے۔ ہرعلاقے اور قبیلے کی اپنی روایات اور کھانے ہوتے ہیں اور مہمانوں کی آمد پر انھیں خاص روایتی کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع کی زیادہ تر عوام سرائیکی بولتے ہیں، سرائیکی بولنے کی نسبت سے ان کو’سرائیکی‘ کہا جاتا ہے، ان کے اپنے روایتی کھانے ہیں۔ وہاں کے روایتی کھانوں میں ‘ثوبت’ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یوں تو ثوبت سال بھر چلتی ہے، مگر سردیوں میں یہ سب سے زیادہ بنائی اور کھائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر سردیوں میں ثوبت نہ ہو تو مزا ادھورا رہ جاتا ہے۔ ثوبت جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور اس کے اردگرد کے اضلاع میں بسنے والوں کی پسندیدہ خوراک ہے اور یہ صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی خاصی بنائی جاتی ہے۔ پشتو زبان میں ‘ثوبت’ کو پینڈا، جب کہ عربی زبان میں اسے ثرید کہا جاتا ہے، یہ ایک روایتی ڈِش ہے، جو گوشت ملے شوربے میں روٹیوں کے ٹکڑوں کو بھگو کر بنائی جاتی ہے۔ اس کو کھانے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک بڑی ڈش جسے مقامی زبان میں تھال کہتے ہیں کے گرد آٹھ دس آدمی بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے لقمے اٹھا کر کھاتے ہیں۔ سردی، بارش اور دوستوں کی صحبت میں ‘ثوبت’ مل جائے تو مزا دگنا ہو جاتا ہے۔ مقامی روایات کے مطابق ثوبت یا سوبت کا تاریخی نام صحبت ہی ہے، جس کا مطلب محفل یا اکٹھے ہونا کے ہیں۔ مماثلت سے بچنے کے لئے اسے عرفِ عام میں ثوبت پکارا جانے لگا اور اسے اب ثوبت ہی کہا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ثوبت کا آغاز ضلع ڈیرہ غازی خان کے شہر تونسہ شریف سے ہوا اور پھر یہ آہستہ آہستہ پورے جنوبی پنجاب کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان میں پھیل گئی۔ بنوں میں اس ڈش کو خاص پذیرائی ملی اور مختلف ریستورانوں (ہوٹلوں) پر یہ خوب بکنے لگی۔ مزید پڑھیں: پاکستان میں غذائی قلت: یہ بھوک نہیں، نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ثوبت صرف گھروں میں ہی بنائی جاتی تھی اور خاص مواقع پر کھائی جاتی تھی، مگر اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیشِ نظر اب مقامی لوگوں نے اسے ریستورانوں (ہوٹلوں) پر بنانا اور بیچنا شروع کر دیا ہے۔ دوستوں کی محفل ہو یارشتہ داروں کی آمد، ثوبت کھانے کا حصہ نہ ہو ایسا تو ہو نہیں سکتا۔ ثوبت کو تیار کرنے کا طریقہ انتہائی سادہ ہے، سب سے پہلے پتیلے میں گھی ڈالا جاتا ہے اور پھر اس میں کٹے ہوئے پیاز ڈالے جاتے ہیں۔ پیاز پیلے پڑنے پر اس میں ٹماٹر ڈال کر بھونا جاتا ہے اورپھر مختلف قسم کے مصالحہ جات کے ساتھ مرغی کا گوشت ڈال کر اسے بھون لیا جاتا ہے۔ 15 منٹ کے لئے اسے اچھی طرح پکایا جاتا ہے، جب تک کہ اس میں سے پکی ہوئی خوشبو نہ آنے لگے۔ ثوبت کے لیے گندم کے آٹے سے بنی پتلی روٹیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے تھال میں ڈال کر اوپر شوربا انڈیل دیا جاتا ہے اور اوپر مرغی کی بوٹیاں رکھ دی جاتی ہیں اور کناروں پر سلاد ڈال دیا جاتا ہے۔ پھر 4 سے 5 دوستوں کا گروپ اپنے ہاتھوں سے تھال میں سے نوالے کھانا شروع کر دیتا ہے۔ دوستوں سے گپ شپ کرتے ہوئے ثوبت کھانے کا الگ ہی مزہ ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ ہمارا تو یقین ہے، اچھا اور لذیز کھانا ہر شخص کا حق ہے، اگر آپ کا کوئی دوست سرائیکی ہے یا ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتا ہے، تو اس سے ثوبت کی فرمائش کریں اور ایک بار کھا کر ضرور دیکھیں، آپ بھی ‘پاکستان میٹرز’ کے قائل ہو جائیں گے۔

موسمیاتی تبدیلی خواتین کی زندگیوں پر ہی کیوں گہرے اثرات مرتب کرتی ہے؟

موسمیاتی بحران ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن اس کے اثرات یکساں نہیں ہیں۔ جہاں دنیا کے بیشتر خطوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات لوگوں کی زندگیوں میں اتنے گہرے نہیں ہیں، وہیں خواتین اور لڑکیاں ان اثرات کا زیادہ شکار ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق جب کسی کمیونٹی پر قدرتی آفات آتی ہیں تو خواتین اور لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ وہ نہ صرف جسمانی نقصان کا شکار ہوتی ہیں بلکہ ان کے خلاف تشدد، اسکول چھوڑنے، بچیوں کی جبری شادی اور جنسی استحصال کے واقعات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ عالمی ادارے یونیسف کے مطابق نائجیریا میں 5 سے 14 سال تک کے 1 کروڑ سے زیادہ بچے اسکول نہیں جا پاتے، جن میں لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ شمال مشرقی اور شمال مغربی ریاستوں میں لڑکیوں کی اسکول میں شرکت نصف سے بھی کم ہے۔ یہ بحران موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے مزید پیچیدہ ہو چکا ہے۔ موسمی آفات، جیسے سیلاب اور لینڈ سلائیڈز اسکولوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور کمیونٹیز اکثر اپنے بچوں کو مدد کے لیے میدان میں بھیج دیتی ہیں۔ لڑکیاں جو پہلے ہی اسکول جانے کے حوالے سے سماجی رکاوٹوں کا سامنا کر رہی ہیں ان کے لیے یہ حالات مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔ تاہم، ایسی تنظیمیں جیسے “سنٹر فار گرلز ایجوکیشن” اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ لڑکیاں موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی تعلیم حاصل کریں اور خود کو محفوظ رکھیں۔ برازیل کے ایمیزون جنگل میں موسمیاتی بحران اور درختوں کی کٹائی نے ایک نئی صنفی جنگ کو جنم دیا ہے۔ ایمیزون کا باربسو نٹ، جو ماحولیات کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے، خواتین کے روزگار کا بنیادی حصہ رہا ہے۔ مگر اب بڑے زرعی ادارے اس تک رسائی روک رہے ہیں، جس سے ان خواتین کی معیشت متاثر ہو رہی ہے۔  2000 خواتین نے مل کر “باباسو نٹ بریکرس موومنٹ” کی بنیاد رکھی ہے، جو نہ صرف ماحول کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہیں بلکہ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے بھی سرگرم ہیں۔ فلپائن میں طوفان “ہائینان” کے بعد، انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ موسمی آفات کی وجہ سے خواتین اور لڑکیاں بے گھر ہوتی ہیں اور یہ حالات اسمگلروں کے لیے انتہائی سازگار بن جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات کے دوران خواتین اور لڑکیاں جنسی استحصال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے “پیپلز ریکاوری ایمپاورمنٹ ڈیولپمنٹ ایسسٹنس” (PREDA) جیسے ادارے خواتین کو بچانے اور ان کو نئے آغاز کے مواقع فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں سندھ کے علاقے جیکب آباد میں خواتین شدید گرمی کے دوران حاملہ ہونے کے بعد مشکلات کا شکار ہو رہی ہیں۔  2022 میں یہاں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا۔ اس میں حاملہ خواتین کے لیے کئی مسائل پیدا ہوئے، جن میں اسکموتھ اور خوراک کی کمی شامل ہیں۔ ان خواتین کی جسمانی حالت گرمی کی شدت کے باعث مزید خراب ہو جاتی ہے اور ان کے لیے بنیادی سہولتوں تک رسائی ایک چیلنج بن جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گواٹیمالا میں شدید موسمی حالات کی وجہ سے زراعت کی حالت بدتر ہو گئی ہے، جس سے لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ بحران خاص طور پر خواتین پر اثرانداز ہو رہا ہے، جو اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ روزگار کے لیے بھی جدوجہد کر رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقل مکانی میں اضافہ ہو رہا ہے، اور خواتین اس کا سب سے بڑا اثر سہہ رہی ہیں۔ دوسری جانب بنگلادیش میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے سبب بچیوں کی جبری شادیاں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ یہاں قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں غربت بڑھ گئی ہے، اور والدین مالی مشکلات سے بچنے کے لیے بچیوں کو کم عمری میں شادی کے لیے دے دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں لڑکیاں نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ کینیا میں جہاں 75 فیصد لوگ زراعت پر منحصر ہیں، موسمیاتی بحران نے خشک سالی اور سیلاب کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا ہے جس نے خواتین کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ اس کا اثر نہ صرف ان کے روزگار پر پڑا ہے بلکہ صنفی بنیاد پر تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ موسمی آفات کے دوران خواتین اکثر تشدد اور جنسی استحصال کا شکار ہو جاتی ہیں، اور اس کا مقابلہ کرنا ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ یہ تمام صورتحال نہ صرف موسمیاتی بحران کی شدت کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ اس بات کو بھی سامنے لاتی ہیں کہ خواتین اور لڑکیاں کس طرح اس بحران میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ خواتین نہ صرف مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں بلکہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں اور اپنے خاندانوں اور کمیونٹیوں کو بہتر بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ ان کی جدوجہد ایک مثالی نمونہ ہے کہ کیسے ایک خاتون اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکتی ہے، چاہے حالات جتنے بھی مشکل ہوں۔ موسمیاتی تبدیلیاں اور صنفی عدم مساوات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ان کی آواز سننی ہوگی اور دنیا بھر میں ان خواتین کی حمایت کرنی ہوگی جو اس جدوجہد میں شامل ہیں۔

پاکستان میں رواں سال کا دوسرا پولیو کیس سامنے آگیا

پاکستان میں جنگلی پولیو وائرس ٹائپ 1 ( ڈبلیو پی وی ) 2025 کا دوسرا کیس رپورٹ کیا گیا ہے، جو کہ سندھ کے علاقے بدین میں تصدیق ہوا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ( این آئی ایچ) نے پولیو کے لیے ریجنل ریفرنس لیبارٹری نے سندھ کے ضلع بدین سے 2025 میں پاکستان کے دوسرے جنگلی پولیو وائرس ٹائپ 1( ڈبلیو پی وی ) کیس کی تصدیق کی ہے۔ یہ کیس تحصیل ٹنڈو باگو کی یونین کونسل (یو سی) مٹھی سے تعلق رکھنے والی 48 ماہ کی بچی میں سامنے آیا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے2025 میں  پولیو کا کیس خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے میں رپورٹ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب گزشتہ روز نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ( این آئی ایچ) نے سندھ کے ضلع شکارپور میں پولیو کا 2024 کا ایک اور کیس کی تصدیق کی ہے اور شکارپور سے 2024 میں پولیو کا یہ دوسرا کیس رپورٹ کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال یعنی 2024 کے اب تک 74 جنگلی پولیو کے کیس  رپورٹ ہو چکے ہیں، ان میں سے 27 بلوچستان میں، 23 سندھ میں، 22 خیبرپختونخوا میں، اور ایک ایک پنجاب اور اسلام آباد میں رپورٹ کیے گئے ہیں۔ پاکستان پولیو پروگرام ہر سال متعدد بڑے پیمانے پر ویلسینیشن مہم چلاتا ہے ، جس سے ویکسین براہ راست بچوں کی دہلیز تک پہنچ جاتی ہے۔ واضح رہے کہ نمونے کے لیے انکیوبیشن کی مدت تقریباً تین ہفتے ہے، جو سردیوں کے موسم میں مزید بڑھ سکتی ہے۔

بااختیار خواتین اور صنفی امتیاز کا خاتمہ؟ حقیقت یا افسانہ

موجودہ دور میں خواتین کو با اختیار بنانے اور صنفی امتیاز کا خاتمہ کرنےکے لیے عالمی سطح پر بہت زیادہ پیش رفت ہوئی ہے، اقوامِ متحدہ کی طرف سے خواتین کے حقوق کے لیے چارٹر بنائے گئے اور عالمی سطح پر شعور اجاگر کیا گیا ہے۔ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن (سی سی ڈی اے ڈبلیو)  بین الاقوامی برادری خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان میں بھی حالیہ ایک عرصے میں خواتین کے حقوق میں نمایاں بہتری آئی ہے، خواتین تعلیمی و سیاسی میدان میں دیکھی گئی ہیں، مگر اس کےباوجود ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2023 کے مطابق صنفی امتیاز کے مکمل خاتمے کے لیے دنیا کو مزید 100 سال درکار ہیں۔ پاکستان میں تاریخی طور پر خواتین کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کی گئی ہیں، پاکستان میں 1973 کے آئین میں خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا گیا، مختلف قوانین خواتین کے تحفظ کا بل 2006 اور گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل 2012 منظور کیے گئے۔ تعلیم، روزگار، سیاست اور معاشرت میں خواتین کا کردار بتدریج بڑھ رہا ہے، لیکن یہ پیش رفت محدود اور مخصوص طبقات تک محدود ہے۔ واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نے صنفی مساوات کے فروغ کے لیے مختلف قوانین اور پالیسیز متعارف کروائی ہیں۔ خواتین کے تحفظ کے لیے مخصوص قوانین اور کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ ان سب اقدامات کے باوجود پاکستان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے، جس کی بڑی وجہ ان قوانین پر مؤثر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی کی کمی اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں خواتین کا کردار خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جیساکہ بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ‘کوئی بھی قوم اس وقت تک کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتی، جب تک اس کی خواتین ان کے شانہ بشانہ نہ ہوں۔’ اسی لیے اگر صنفی مساوات کا خواب حقیقت بنانا ہے تو  حکومت، سول سوسائٹی، میڈیا اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ مستقبل میں پاکستانی خواتین کے لیے بہتر امکانات پیدا کرنے کے لیے مؤثر قانون سازی، اس پر عملدرآمد اور معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ عمرانیات کی ڈاکٹر فرزانہ امجد نے بتایا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے شعور میں اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن عملی اقدامات ابھی بھی ناکافی ہیں۔ کئی شعبوں میں خواتین کی شرکت بڑھی ہے، مگر جاب مارکیٹ، پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں ان کا کردار محدود ہے، جسے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ امجد کے مطابق صنفی امتیاز کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ روایتی سماجی نظریات اور پدرشاہی نظام ہے، جو خواتین کو محدود رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، تعلیم، معاشی مواقع اور قانونی عملدرآمد کی کمزوری بھی خواتین کو مساوی حقوق سے محروم رکھتی ہے۔ فرزانہ امجد نے کہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی قوانین موجود ہیں، مگر ان پر مؤثر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ خواتین کے خلاف تشدد، ہراسانی، وراثت کے مسائل اور کم عمری کی شادی جیسے معاملات ابھی بھی سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں۔ فرزانہ امجد کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرتی رویے خواتین کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں، کیونکہ اکثر خواتین کو گھر تک محدود رکھنے یا کمزور سمجھنے کی سوچ عام ہے۔ جب تک سماجی سطح پر خواتین کو مساوی حیثیت دینے کا رجحان پروان نہیں چڑھے گا، ترقی کے امکانات محدود رہیں گے۔ ماہرِتعلیم پروفیسر ڈاکٹر ثوبیہ ذاکر نے پاکستان میٹرز کو بتایا ہے کہ تعلیم اور معاشی خودمختاری ہی وہ دو عوامل ہیں جو خواتین کو خودمختار بنا سکتے ہیں۔ جب خواتین تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم ہوں گی، تو وہ اپنے حقوق کے لیے کھل کر بات کر سکیں گی اور معاشرے میں اپنی جگہ مضبوط کر سکیں گی۔ ڈاکٹر ثوبیہ ذاکر کے مطابق حکومت کو خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانا ہوگا، تعلیمی اداروں اور دفاتر میں ہراسانی کے خلاف واضح اقدامات کرنا ہوں گے اور خواتین کے لیے خصوصی تربیتی و معاشی منصوبے متعارف کروانے ہوں گے تاکہ انہیں برابری کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ پروفیسر ثوبیہ ذاکر کہتی ہیں کہ شہری خواتین کو تعلیم اور ملازمتوں تک کچھ حد تک رسائی حاصل ہے، مگر دیہی خواتین صحت، تعلیم اور بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ حکومت کو دیہی خواتین کے لیے خصوصی تعلیمی اور معاشی منصوبے شروع کرنے چاہئیں، تاکہ وہ بھی ترقی کے سفر میں شامل ہو سکیں۔ نجی نشریاتی ادارے دنیا کے اینکر پرسن اسامہ عبید نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں کچھ مثبت اقدامات ضرور کیے جا رہے ہیں، لیکن مجموعی طور پر میڈیا اب بھی روایتی صنفی امتیاز کو فروغ دیتا ہے۔ اشتہارات، ڈرامے اور خبروں میں خواتین کو اکثر کمزور، مظلوم یا روایتی کرداروں میں دکھایا جاتا ہے، جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی شمولیت کیوں ضروری ہے؟

اس وقت پوری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی جنگ چل رہی ہے، ہر ملک کی خواہش ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنا لوہا منوائے، یہی وجہ ہے کہ امریکا کہ چیٹ جی پی ٹی اور اے آئی تول بنانے کے محض ایک سال بعد ہی چائنہ نے امریکا کی نسبت کئی گنا سستا اور معیاری ڈیپ سیک بنا کر عالمی دنیا میں اپنی برتری ظاہر کر دی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی  کے بغیر کسی ملک کی ترقی کا تصور ممکن نہیں، جس کی وجہ سے ایک  سوال جنم لیتا  ہے کہ کیا خواتین کو اس شعبے میں مردوں کے مساوی مواقع حاصل ہیں؟ عالمی سطح پر تو خواتین سائنسدانوں نے بے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اپنا لوہا منوا چکی ہیں، لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ شعبہ اب بھی مردوں کا غلبہ رکھتا ہے۔ پاکستان میں مردوں کی نسبت خواتین ہر میدان میں کافی پیچھے ہیں، جس کی بڑی وجہ وسائل کی کمی ہونا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین کاکردار ماضی میں بھی رہا ہے، کئی خواتین سائنسدانوں نے کامیابیاں سمیٹیں اور دنیا کو بتا دیا کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں،  جن میں ماری کیوری، روزالینڈ فرینکلن اور ایڈا لاولیس سرِفہرست ہیں، مگر کیا آج کے جدید دور میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کے پاس بنیادی حقوق ہیں؟ اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں سائنسی تحقیق میں کام کرنے والے افراد میں صرف 30 فیصد خواتین شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں  خواتین کے لیے حالات بہتر ہو رہے ہیں اور وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں، مگر ترقی پذیر ممالک خاص کر پاکستان جیسے ملک میں خواتین کی بنیادی تعلیم میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ پاکستان میں خواتین کی بڑی تعداد میڈیکل اور بائیولوجیکل سائنسز میں دلچسپی رکھتی ہے، لیکن انجینئرنگ، فزکس اور دیگر سائنسی شعبوں میں ان کی نمائندگی کم ہے۔ بہت سی نوجوان پاکستانی خواتین سائنسی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں، لیکن انہیں عملی میدان میں کئی چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی زیادہ شمولیت سے نہ صرف معیشت بہتر ہو سکتی ہے، بلکہ صحت، ماحولیات اور دیگر شعبوں میں بھی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے آئی ٹی ایکسپرٹ رابعہ وقار نے کہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے لیے آئی ٹی فری لانسنگ، ایس ٹی ای ایم اسکالرشپس، حکومتی و نجی انیشیٹوز، ٹیک ہبز اور انکیوبیٹرز جیسے مواقع موجود ہیں۔ مگر خواتین کی راہ میں سماجی رویے میں تبدیلی، صنفی تعصب، محدود لیڈرشپ مواقع اور فیلڈ ورک میں مشکلات جیسی رکاوٹیں حائل ہیں۔ آئی ٹی ماہر پروفیسر عائشہ جاوید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہےکہ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں خواتین کی شمولیت انتہائی ضروری ہے۔ حکومت نئے ٹیکنالوجی پارکس اور تربیتی پروگراموں کے ذریعے خواتین کو شامل کر رہی ہے تاکہ وہ ملکی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔ پاکستان میں سائنس کے شعبے میں خواتین کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، بہت سے والدین سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں لڑکیوں کے کیریئر کو غیر روایتی سمجھتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں بچیوں کو سائنسی تعلیم کے کم مواقع ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ مردوں کے مقابلے میں  خواتین کو تحقیق کے مواقع  کم ملتے ہیں۔ رابعہ وقار نے کہا ہے کہ سائنسی میدان میں خواتین کی کم نمائندگی کی وجوہات میں ثقافتی دباؤ، معاشرے میں کم  رول ماڈلز کا ہونا، ایس ٹی ای ایم تعلیم میں کم شمولیت، ورک لائف بیلنس  جیسی مشکلات کا ہونا ہے۔ رابعہ وقار کے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی  کے شعبے میں ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اسکول لیول پر ایس ٹی ای ایم کی ترویج کی جائے، خواتین سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی، جینڈر انکلوژن پالیسیز اور فلیکسیبل ورک ماڈلز اپنائے جائیں۔ پروفیسر عائشہ جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی تعلیم، صحت اور جدید معیشت میں شرکت کے مواقع بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت بھی اہم ہے، کیونکہ زیادہ تر تعلیمی ادارے نجی شعبے کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ رابعہ وقار نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ حکومت اور نجی ادارے خواتین کو سائنسی تحقیق اور جدت کی طرف راغب کرنے کے لیے کچھ حد تک مناسب اقدامات کر رہے ہیں، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ لڑکیوں کے لیے سائنسی تعلیم کے مواقع کو بڑھایا جائے،  خواتین کے لیے خصوصی تحقیقی پروگرام متعارف کرائے جائیں، خواتین کو سٹارٹ اپس اور انٹرپرینیورشپ میں شامل ہونے کے لیے سپورٹ دی جائے، مزید یہ کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کے لیے مزید اسکالرشپس اور خصوصی وظائف متعارف کرائے جائیں تاکہ وہ تحقیق میں آگے بڑھ سکیں۔ باقی دنیا کی طرح پاکستان نے بھی متعدد سائنسدان خواتین پیدا کی ہیں، جنھوں نے عالمی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے، ان میں سب سے پہلا نام فیصل آباد کے چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی ارفع عبدالکریم رندھاوا کا آتا ہے، جس نے محض 14 برس کی عمر میں سب سے کم عمر مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ دوسرا نام ڈاکٹر نرگس ماولوالا  کا آتا ہے، جنھوں نے طبیعیات کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھا ئی ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر تسنیم زہرا حسین کو پاکستان کی پہلی خاتون تھیوریٹیکل فزسسٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ پروفیسر عائشہ جاوید نے کہا ہے کہ پاکستان میں 43 آئی ٹی پارکس میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ نئے پروگرامز کے ذریعے خواتین کو فری لانسنگ اور سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ میں تربیت دی جا رہی ہے۔ رابعہ وقار کا کہنا ہے کہ پاکستان کو خواتین سائنسدانوں کے لیے ریسرچ فنڈنگ، لیڈرشپ مواقع  اور عملی تربیت کے پروگرامز متعارف کرانے چاہئیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کامیاب خواتین کی مثالیں دکھا کر حوصلہ افزائی کی جا ئے، تاکہ پاکستان بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کا مقابلہ کرے۔ آئی ٹی ایکسپرٹ عائشہ جاوید نے بتایا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں خواتین کی کامیابیوں کو نمایاں کیا جا رہا ہے، لیکن مزید

کیا دالیں گوشت جتنی توانائی رکھتی ہیں؟

سائنس کی ترقی کی بدولت دنیا میں جہاں انسان نے تمام مسائل پر قابو پایا ہے، وہیں نت نئی ابھرنے والی بیماریوں نے انسان کو ذہنی کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ ان بڑھتی ہوئی تبدیلیوں کی بدولت دنیا بھر میں خوراک کے رجحانات میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں اور پاکستان بھی ان تبدیلیوں سے مستثنیٰ نہیں رہ سکا۔ تیزی سے بدلتی ہوئی طرزِ زندگی، صحت کے بڑھتے ہوئے خدشات، جانوروں کی ختم ہوتی نسل، بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ گوشت کی بجائے دالوں پر انحصار کرنے لگے ہیں، جس کی وجہ سے ایک اہم سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا دالیں واقعی پروٹین کا بہترین متبادل ہیں یا پھر محض یہ ایک غذائی انتخاب ہے؟ انسانی جسم کے لیے پروٹین ایک بنیادی جزو ہے، جو پٹھوں کی مضبوطی، مدافعتی نظام کو بہتر بنانے اور خلیوں کی نشوونما میں مدد دیتا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پروٹین کا سب سے مؤثر ذریعہ گوشت ہے، لیکن غذائی ماہرین کہتے ہیں کہ دالوں میں پروٹین کے ساتھ فائبر، آئرن اور دیگر ضروری وٹامنز بھی پائے جاتے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہیں، اس لیے گوشت کی نسبت دالیں بہترین متبادل ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو غذائی ماہر ڈاکٹر انجم اکبر نے بتایا ہے کہ ”اگرچہ دالیں کم چکنائی والے پروٹین اور معدنیات کی بھرپور فراہمی کا ذریعہ ہیں، مگر یہ گوشت کے تمام غذائی اجزاء کا مکمل متبادل نہیں بن سکتیں، کیونکہ گوشت میں پائے جانے والے اجزاء دالوں میں اتنی مقدار میں نہیں پائے جاتے، لیکن  ایک متوازن غذا میں دالوں کو شامل کر کے گوشت کی مقدار کو کم کیا جا سکتا ہے۔” پاکستان میں گوشت کی بجائے دالوں کا کثرت سے استعمال اس لیے نہیں کیا جاتا  کہ یہ گوشت کے متبادل ہے، بلکہ یہ گوشت کی نسبت سستی ملتی ہیں، تو سفید پوش طبقے کی ایک بڑی تعداد اکثر دالوں پر گزارہ کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک  ترقی پذیر ملک ہے، جہاں مہنگائی عروج پر ہے اور گوشت ہر شہری کی قوتِ خرید میں نہیں، جس کی بدولت  دالیں ایک سستا اور غذائیت سے بھرپور متبادل بنتی جا رہی ہیں۔ دنیا بھر میں دالوں کے استعمال کی ایک اور وجہ دالوں میں پروٹین کے ساتھ ساتھ فائبر، آئرن، کیلشیم اور مختلف وٹامنز کا پایا جانا ہے،  جو جسمانی صحت کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ واضح رہے کہ ایک کپ دال میں تقریباً 15-18 گرام پروٹین پایا جاتا ہے، جو اسے گوشت کے قریب ترین پروٹین کا ذریعہ بناتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے غذائی ماہرِ ڈاکٹر فہد سلیمان نے کہا ہے کہ ” پروٹین حاصل کرنے کے لیے دالوں کے علاوہ انڈے، دہی، گری دار میوے اور بیجوں کو بھی خوراک میں شامل کرنا ضروری ہے ،تاکہ جسم کے لیے ضروری تمام امائنو ایسڈز کو پورا کیا جا سکے۔” خیال رہے کہ گوشت میں پائے جانے والے پروٹین میں تمام ضروری امائنو ایسڈز شامل ہوتے ہیں، جب کہ دوسری جانب دالوں میں بعض امائنو ایسڈز کی کمی ہوتی ہے، اسے لیے کہا جاتا ہے کہ متوازن غذا صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے اور اسے روزانہ کی بنیاد پر کھایا جائے۔ دالوں پر کی جانے والی مختلف تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دالیں دل  کے لیے بے حد مفید ہیں،  اس کی وجہ یہ ہے کہ دالوں میں فائبر اور کم چکنائی پائی جاتی ہے، جس سے یہ کولیسٹرول لیول کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں اور ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتی  ہیں۔ دالوں کا استعمال محض صحت بڑھانے کے لیے ہی نہیں، بلکہ وزن کم کرنے میں بھی مددگار  ہے، ایسا اس لیے ہے کیونکہ دال کھانے سے  دیر تک پیٹ بھرے رہنے کا احساس ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بندہ کم کھاتا ہے۔ ڈاکٹر فہد سلیمان کے مطابق دالوں کو سبزیوں، دودھ کی مصنوعات اور مکمل اناج کے ساتھ کھانے سے متوازن غذا حاصل کی جا سکتی ہے، جو صحت کے لیے زیادہ مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ دالیں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی مفید مانی جاتی ہیں، کیونکہ ان میں کم گلیسیمک انڈیکس پایا جاتا ہے، جو بلڈ شوگر لیول کو مستحکم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ جانوروں کے گوشت کے زیادہ استعمال سے کولیسٹرول بڑھنے کا خدشہ، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر امراض ہونے خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ دالوں کا زیادہ استعمال بیماریوں سے بچاؤ میں بھی مددگار ہے۔ ڈاکٹر انجم اکبر کے مطابق دالوں میں پودوں سے حاصل شدہ پروٹین ہوتا ہے، جو فائبر سے بھرپور اور ہاضمے کے لیے مفید ہے، اس کے برعکس گوشت میں موجود پروٹین جانوروں سے حاصل ہوتا ہے، جو بعض اوقات زیادہ چکنائی اور کولیسٹرول کا باعث بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ دالوں کے زیادہ مقدار میں استعمال سے بعض افراد میں معدے کی تکلیف، گیس اور ہاضمے کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جہاں ہر چیز کے زیادہ استعمال سے فوائد ملتے ہیں، وہیں اس کے نقصانات بھی ہوتے ہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کو ضرورت کے مطابق متوازن مقدار میں استعمال کیا جائے۔ دالیں گوشت کی نسبت سستی اور مفید ہیں، مگر پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے میں ان کی مقدار میں کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے ان کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ ڈاکٹر فہد سلیمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دالوں کی پیداوار میں کمی، کاشتکاری کے جدید طریقوں کی عدم دستیابی اور درآمدات پر انحصار بڑے مسائل ہیں، جنہیں بہتر پالیسیوں کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹر انجم اکبر نے دالوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دالوں کے زیادہ استعمال سے گوشت کی پیداوار میں کمی ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بھی کمی آئے گی، جو ماحولیاتی تحفظ کے لیے مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں دالوں کا استعمال خوراک کا لازمی جزو ہے، مگر گزشتہ چند دہائیوں میں گوشت کا استعمال کچھ حد تک بڑھ گیا تھا، جس کی وجہ سے مسائل بھی دیکھے گئے، مگر حالیہ ہونے والی

رات کو جنک فوڈ کی شدید خواہش: ایک دلچسپ سائنسی حقیقت جو آپ کو حیران کر دے گی!

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ دن کے ابتدائی حصے میں آپ جنک فوڈ کی طرف اتنی توجہ کیوں نہیں دیتے؟ اور رات کو اچانک ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کچھ کھانے کا دل کر رہا ہو خاص طور پر وہ کھانے جو چکنائی اور مٹھاس سے بھرپور ہوں؟ یہ معمول کی سی بات ہے لیکن اس کے پیچھے پیچیدہ سائنسی راز چھپے ہیں جو ہماری جسمانی اور ذہنی حالتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ سوال اس وقت ذہن میں آتا ہے جب ہم اپنی رات کی خواہشات کو روک نہیں پاتے اور جنک فوڈ کی طرف بے قابو ہو جاتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ رات کو ہمیں جنک فوڈ کی شدید خواہش ہوتی ہے؟ آئیے اس راز کو کھولتے ہیں۔ صبح کے وقت جنک فوڈ کی خواہش کیوں نہیں ہوتی؟ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صبح کے وقت ہمارا جسم نیند سے بیدار ہونے کے بعد خود کو بحال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب ہم سو کر اٹھتے ہیں تو ہمارے خون میں شکر کی سطح کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں جسم ایسی غذا کا خواہش کرتا ہے جو پروٹین، فائبر اور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہو تاکہ توانائی بحال کی جا سکے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہارمونی نظام میں بھی توازن آتا ہے اور لیپٹین (جو بھوک کو کم کرتا ہے) کی سطح زیادہ ہوتی ہے جبکہ گھریلن (جو بھوک بڑھاتا ہے) کی سطح کم ہوتی ہے جس کے باعث ہم صبح کے وقت زیادہ صحت مند غذاؤں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ لیکن جب رات آتی ہے تو صورتحال بدل جاتی ہے۔ دن بھر کی مصروفیات کے بعد ہمارے جسم کی توانائی کی سطح کم ہو جاتی ہے اور بلڈ شوگر لیول گرنے لگتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارا جسم فوراً توانائی کے لیے جنک فوڈ کی طرف مائل ہو جاتا ہے جو چینی اور چکنائی سے بھرپور ہوتا ہے۔ اگر نیند کی کمی ہو تو یہ ایک اور عنصر بن جاتی ہے جو جنک فوڈ کی خواہش کو بڑھا دیتی ہے۔ جب ہم پوری نیند نہیں لیتے تو گھریلن (جو بھوک بڑھاتا ہے) کی سطح بڑھ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی کورٹیسول (اسٹریس ہارمون) بھی زیادہ مقدار میں خارج ہوتا ہے۔ یہ دونوں عوامل مل کر جنک فوڈ کے لیے ہمارا رجحان بڑھا دیتے ہیں۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اگر آپ کی خوراک میں میگنیشیم، پروٹین یا فائبر کی کمی ہو، تو جسم ان اجزاء کی کمی کو پورا کرنے کے لیے غیر صحت بخش کھانوں کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر رات کے کھانے میں اگر پروٹین، فائبر اور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس کا توازن نہ ہو، تو خون میں گلوکوز کی سطح میں اچانک اضافہ اور پھر کمی آتی ہے، جس کے نتیجے میں جنک فوڈ کی شدید خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ صرف جسمانی عوامل ہی نہیں بلکہ ہمارے جذباتی عوامل بھی اس خواہش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کئی افراد جنک فوڈ کو ایک طرح کا انعام سمجھ کر کھاتے ہیں جو دماغ میں خوشی کے ہارمون، یعنی ڈوپامائن کو خارج کرتا ہے۔ دن بھر کی تھکن اور دباؤ کے بعد ہم اپنی ذہنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے جنک فوڈ کا سہارا لیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ رات کو جنک فوڈ کی خواہش کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اس کے لیے چند سادہ مگر مؤثر تجاویز پر عمل کیا جا سکتا ہے: متوازن رات کا کھانا: رات کے کھانے میں پروٹین، فائبر اور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس کو شامل کریں تاکہ بلڈ شوگر لیول مستحکم رہے اور جنک فوڈ کی خواہش کم ہو۔ نیند کا خیال رکھیں: کم از کم 7 سے 8 گھنٹے کی نیند لیں تاکہ آپ کا ہارمونی نظام متوازن رہے اور آپ کا جسم زیادہ توانائی کے لیے جنک فوڈ کی طرف نہ جائے۔ ورزش کی عادت ڈالیں: دن بھر کی تھکن کو دور کرنے کے لیے جسمانی سرگرمیاں ضروری ہیں، کیونکہ یہ نہ صرف شوگر لیول کو مستحکم رکھتی ہیں بلکہ ذہنی دباؤ کو بھی کم کرتی ہیں۔ پانی کی مقدار بڑھائیں: پانی پینے کی عادت ڈالیں کیونکہ کبھی کبھی پانی کی کمی کو ہم بھوک سمجھ بیٹھتے ہیں، جس سے غیر صحت بخش کھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ ذہنی دباؤ سے بچیں: ذہنی دباؤ اور اسٹریس کو کم کرنے کے لیے چہل قدمی یا میڈیٹیشن جیسے طریقے اپنائیں تاکہ آپ غیر ضروری کھانے سے بچ سکیں۔ رات کے وقت جنک فوڈ کی خواہش صرف ایک عادت نہیں ہے بلکہ یہ جسمانی اور ذہنی عوامل کی پیچیدہ آمیزش کا نتیجہ ہے۔ اس خواہش کو روکنے کے لیے ہمیں اپنے خوراک کے انتخاب، نیند کی مقدار، اور روزمرہ کی روٹین پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان عوامل پر قابو پا کر ہم جنک فوڈ کی خواہش کو کم کر سکتے ہیں اور ایک صحت مند طرز زندگی کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ رات کو جنک فوڈ سے بچنا چاہتے ہیں تو ان سادہ مگر مؤثر تجاویز کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنائیں اور اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ یہ بھی پڑھیں:انسانی آنکھ کی حیرت انگیز ریزولوشن: کیا ہماری نظر جدید کیمروں سے زیادہ طاقتور ہے؟

مرغی کے گوشت اور پانی سے پھیلتا وائرس جو انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے

پچھلے ماہ انڈیا کے شہر پونے میں ایک سکول ٹیچر کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ آیا جس نے ان کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ جب ان کے چھ سالہ بیٹے نے ہوم ورک کرنے کے دوران پینسل درست طریقے سے پکڑنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے سوچا کہ شاید بچہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے، لیکن یہ حقیقت کچھ اور تھی۔ ان کے بیٹے کا پینسل نہ پکڑ پانا دراصل ایک نایاب اور جان لیوا بیماری ‘گلین برے سنڈروم’ (GBS) کی علامات میں سے تھا جو انسان کے جسم کے ٹشوز اور پٹھوں پر حملہ آور ہو کر انسان کو مفلوج کر دیتی ہے۔ چند دنوں میں یہ چھ سالہ بچہ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل تھا جہاں اس کی حالت بگڑ چکی تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں اور پیروں کو ہلا نہیں پا رہا تھا اور اس کے سانس لینے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ بعد ازاں اسے وینٹیلیٹر پر منتقل کر دیا گیا لیکن خوش قسمتی سے اس کی حالت اب بہتر ہو رہی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پونے شہر میں جنوری سے لے کر اب تک ایسے 160 کیسز سامنے آ چکے ہیں اور اب تک پانچ افراد کی جان جا چکی ہے۔ اس وقت 48 افراد انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں زیر علاج ہیں جبکہ 21 مریضوں کو وینٹیلیٹر پر رکھا گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 38 افراد صحتیاب ہو کر اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔ گلین برے سنڈروم (GBS) ایک نایاب بیماری ہے جو جسم کے پٹھوں اور اعصابی نظام پر حملہ کرتی ہے اور انسان کو کمزور یا مفلوج کر دیتی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: سمندر کی گہرائی میں انسانیت کا نیا سفر: سائنسدانوں نے منصوبہ تیار کر لیا اس کی ابتدائی علامات میں ہاتھوں اور پیروں کا سن ہونا یا ان میں سنسناہٹ کا احساس شامل ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بیماری شدت اختیار کرتی ہے اور مریض کو اپنے جسم کے حصے حرکت دینے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اگر یہ بیماری مزید بڑھ جائے تو مریض کو سانس لینے میں بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں وینٹیلیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ پونے میں جی بی ایس کے پھیلاؤ کی وجہ “کیمپیلوبیکٹر جیجونی” نامی جرثومہ ہے جو دنیا بھر میں کھانے پینے کی اشیاء کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ جرثومہ مرغی کے گوشت اور پانی سے انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس جرثومے سے متعلق کیسز دنیا کے مختلف حصوں میں سامنے آ چکے ہیں اور اب انڈیا کے شہر پونے میں یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ کیمپیلوبیکٹر جیجونی ایک خطرناک جرثومہ ہے جو مرغی کے گوشت اور پانی کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔  1990 کی دہائی میں چین کے دیہی علاقوں میں اس جرثومے کا پھیلاؤ دیکھا گیا تھا جہاں بارش کے موسم میں بطخیں، مرغیاں اور بچے ایک ہی پانی میں کھیلتے تھے اور یہ جرثومہ اس پانی کے ذریعے منتقل ہوتا تھا۔ لازمی پڑھیں: پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی اس جرثومے سے جی بی ایس کا تعلق 1990 کی دہائی میں پہلی بار سامنے آیا تھا اور اب یہ جرثومہ انڈیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔  پونے شہر میں حالیہ دنوں میں کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے سبب جی بی ایس کے کیسز بڑھ رہے ہیں اور ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس جرثومے کی قسم اس وقت پونے میں گردش کر رہی ہے جس کے سبب اتنی بڑی تعداد میں جی بی ایس کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ جی بی ایس کا کوئی مستقل علاج موجود نہیں ہے، مریضوں کے جسم میں کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے خلاف اینٹی باڈیز بنتی ہیں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ‘پلازما ایکسچینج’ جیسے طریقوں سے بیماری کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، یہ طریقہ بھی ہر مریض پر موثر نہیں ہوتا۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جی بی ایس کی تشخیص کسی ایک ٹیسٹ سے نہیں کی جا سکتی۔ اس بیماری کی تشخیص مختلف مراحل میں ہوتی ہے اور اکثر اس کی غلط تشخیص یا تاخیر سے بیماری مزید بڑھ سکتی ہے۔ انڈیا کے دیہی علاقوں میں اس بیماری کی درست تشخیص کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جس کے سبب بیماری کے پھیلاؤ کو روکنا مشکل ہو رہا ہے۔ پونے میں جی بی ایس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات جاری ہیں۔ حکام نے 60 ہزار گھروں کا معائنہ کیا اور پانی کے نمونے جمع کیے۔ لوگوں کو احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایت دی گئی ہے جیسے کہ پانی کو اُبال کر پینا، تازہ کھانا کھانا اور باسی یا ادھ پکے گوشت سے پرہیز کرنا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے جرثومے کا پھیلاؤ پوری دنیا میں جاری ہے اور انڈیا میں اس کا تیزی سے پھیلنا ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ ان کی یہ بھی رائے ہے کہ اگر مناسب احتیاطی تدابیر نہ اپنائی گئیں تو یہ بیماری اور زیادہ شدت اختیار کر سکتی ہے۔ پونے میں جی بی ایس کے بڑھتے ہوئے کیسز اور کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے خطرے نے انڈیا سمیت پوری دنیا میں ایک سنگین صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کے باعث نہ صرف لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے بلکہ اس سے نمٹنے کے لیے حکومت اور ماہرین صحت کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی پیدا ہو چکا ہے۔ ان اقدامات کے باوجود اس بیماری کی روک تھام اور علاج میں مشکلات سامنے آ رہی ہیں جس سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔ مزید پڑھیں: انسانی آنکھ کی حیرت انگیز ریزولوشن: کیا ہماری نظر جدید کیمروں سے زیادہ طاقتور ہے؟