انسانی آنکھ کی حیرت انگیز ریزولوشن: کیا ہماری نظر جدید کیمروں سے زیادہ طاقتور ہے؟

ہم سب روزمرہ کی زندگی میں کیمروں کا استعمال کرتے ہیں چاہے وہ اسمارٹ فون کا کیمرہ ہو یا پروفیشنل کیمرا، ہمیشہ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں بہترین کوالٹی کی تصاویر ملیں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ قدرت نے انسانوں میں جو ’کیمرہ‘ فٹ کیا ہے، اس کی ریزولوشن کتنی ہوگی؟ یقیناً، اس سوال کا جواب جان کر آپ حیران رہ جائیں گے! جدید سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی آنکھ کی ریزولوشن تقریباً 576 میگا پکسلز ہے۔ جی ہاں، آپ نے بالکل درست پڑھا! یہ وہ ریزولوشن ہے جو آج کے جدید ترین اسمارٹ فون کیمروں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ تاہم، اس حیرت انگیز حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ انسانی آنکھ اور ڈیجیٹل کیمرے میں بنیادی فرق کیا ہے۔ ڈیجیٹل کیمروں کی ریزولوشن ہر پکسل کی ایک فکسڈ سائز ہوتی ہے، جبکہ انسانی آنکھ کا نظام اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور قدرتی ہے۔ انسانی آنکھ میں موجود فوٹوریسپٹرز کی تعداد اس حد تک زیادہ ہوتی ہے کہ یہ دنیا کو انتہائی تفصیل سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ ہم کس جگہ اور کس زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ انسانی آنکھ کا سب سے زیادہ تفصیلی حصہ ’فویا‘ (Fovea) کہلاتا ہے۔ فویا ایک مخصوص حصہ ہوتا ہے جو ہماری آنکھ کے مرکزی نقطے پر واقع ہوتا ہے اور یہاں پر فوٹو ریسیپٹرز کی تعداد انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ فویا میں تقریباً 1 لاکھ 50 ہزار فوٹو ریسیپٹرز فی مربع ملی میٹر موجود ہوتے ہیں، جو اس نقطے کو انتہائی واضح اور تفصیلی طور پر دیکھنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔ اگر ہم کسی چیز کو براہ راست فوکس کرتے ہیں تو فویا کی ریزولوشن اس حد تک زیادہ ہوتی ہے کہ وہ تصویر کی کیفیت کو انتہائی بڑھا دیتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس، جب ہم اپنی نظر کو کسی اور طرف موڑتے ہیں تو ہمارے آس پاس کی تصاویر کی ریزولوشن کم ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی آنکھ مسلسل حرکت میں رہتی ہے اور دماغ تمام بصری معلومات کو جوڑ کر ایک مکمل اور واضح تصویر بناتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی یہ کسی بھی ڈیجیٹل کیمرے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ انسانی آنکھ اتنی حیرت انگیز صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ روشنی اور اندھیرے کے فرق کو بہت بہتر طور پر سمجھ سکتی ہے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم قدرتی ماحول کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ انسانی آنکھ تقریباً 10 ملین مختلف رنگوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو کسی بھی جدید کیمرے سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کو رنگوں کی ایک وسیع تر اور متنوع رینج میں دیکھ سکتے ہیں، جو ایک کیمرے کے لیے ممکن نہیں۔ اگرچہ ٹیکنالوجی نے بے شمار طاقتور کیمرے تیار کر لیے ہیں لیکن یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ انسانی آنکھ کا نظام اب بھی ایک ناقابلِ یقین تخلیق ہے۔ مزید پڑھیں: آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟ یہ نہ صرف دنیا کو ایک وسیع زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ روشنی، رنگ، حرکت، اور گہرائی کو بھی انتہائی تفصیل سے محسوس کرتی ہے۔ انسانی آنکھ کا یہ پیچیدہ اور حیرت انگیز نظام اس بات کا ثبوت ہے کہ قدرت نے اس میں ایک ایسی طاقت رکھی ہے جو کسی بھی مصنوعی نظام سے کہیں زیادہ موثر اور حیران کن ہے۔ اس کی گہرائی اور پیچیدگی ابھی تک سائنسدانوں کے لیے ایک معمہ بنی ہوئی ہے اور وہ اس کی مکمل تفصیلات کو سمجھنے کے لیے تحقیق کر رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انسانی آنکھ قدرت کا ایک شاہکار ہے، جو ہر لمحہ دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کی ریزولوشن اور صلاحیتیں آج کے ڈیجیٹل کیمروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں، اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ کبھی بھی مکمل طور پر بدل نہیں سکتی۔ اگرچہ ٹیکنالوجی نے ہمیں شاندار کیمروں سے لیس کیا ہے لیکن انسانی آنکھ کا نظام ہمیشہ ہی سب سے بہترین اور حیرت انگیز رہے گا۔ ضرور پڑھیں: چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی
امریکی امداد کی بندش: دنیا بھر میں ہیلتھ کرائسز بڑھنے لگے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 جنوری کو دیے گئے حکم کے بعد دنیا بھر میں انسانی امداد کی فراہمی روک دی ہے جس نے دنیا کے مختلف حصوں میں افرا تفری کی لہر دوڑادی ہے۔ اس فیصلے کے اثرات غریب اور متاثرہ ملکوں میں فوری طور پر نظر آنے لگے ہیں جہاں زندگیاں بچانے والے پروگراموں کی بندش سے لاکھوں افراد کی تقدیر داؤ پر لگ چکی ہے۔ گھانا اور کینیا میں ملیریا کے خلاف ہونے والی مہم رک گئی ہے کیونکہ کیڑے مار ادویات اور مچھر دانیاں گوداموں میں پڑی ہیں۔ ان ممالک میں، جہاں ملیریا ایک خطرناک بیماری ہے اور ہر برس ہزاروں افراد اس کا شکار ہوتے ہیں، امداد کے بغیر لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ امریکی حکام نے ان مہمات کے دوبارہ آغاز کی اجازت دینے میں تاخیر کی ہے، جس سے ان کی افادیت ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے علاوہ ہیٹی میں ایچ آئی وی کے مریضوں کو علاج فراہم کرنے والے گروہ بھی اس بندش کے شکار ہیں۔ لازمی پڑھیں:امریکی ریاست الاسکا سے لاپتہ طیارے کا ملبہ مل گیا، تمام مسافر ہلاک خاص طور پر وہ ادویات جو ماؤں کو اپنے بچوں میں ایچ آئی وی کی منتقلی سے بچاتی ہیں، وہ گوداموں میں پھنس چکی ہیں۔ اس بحران کے باعث سینکڑوں افراد کا علاج رک چکا ہے۔ دوسری جانب میانمار میں صورتحال اور بھی سنگین ہے جہاں امداد کی فراہمی کا انحصار امریکا پر ہے۔ وہاں کے انسان دوست کارکنوں نے صورتحال کو ‘تباہی’ قرار دیا ہے۔ میانمار میں قحط اور خانہ جنگی کے درمیان لاکھوں افراد کی زندگیاں بچانے والے پروگراموں کی بندش سے لوگوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے 20 جنوری کو ‘زندگی بچانے والی امداد’ کے لیے استثنیٰ کا اعلان کیا تھا جس میں طبی خدمات، خوراک، پناہ گزینی اور دیگر اہم امدادی سرگرمیاں شامل ہیں، مگر اس استثنیٰ کے باوجود امدادی کارکنوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ کون سی سرگرمیاں اس کی زد میں آئیں گی۔ یہ بھی پڑھیں: جنوبی میکسیکو میں بس حادثہ: 41 افراد جاں بحق، بس مکمل جل گئی اس افراتفری کا ایک اور سبب امریکی حکام سے رابطے کا فقدان ہے۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کی طرف سے دی جانے والی معلومات بہت کم اور متضاد ہیں۔ کئی امدادی تنظیموں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ انہیں اب تک یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ امدادی پروگراموں کے کون سے حصے جاری رہ سکتے ہیں اور جب تک انہیں درست معلومات نہیں ملیں گی، وہ دوبارہ کام شروع نہیں کر سکتے۔ یو ایس ایڈ، جو دنیا کے مختلف حصوں میں انسانیت کی خدمت کرنے والی سب سے بڑی امریکی ایجنسی ہے، اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ ایجنسی کے عملے کے اندر بے چینی اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ٹرمپ کے فیصلے سے ایجنسی کے ملازمین میں سے 611 افراد کی نوکریاں خطرے میں ہیں۔ خصوصاً افریقہ میں، جہاں ملیریا اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے لاکھوں افراد کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں، اس بندش کا انتہائی سنگین اثر پڑا ہے۔ امریکا کی امدادی سرگرمیوں کے بغیر افریقی ممالک میں صحت کے پروگراموں میں شدید خلل آیا ہے۔ ضرور پڑھیں:ایلون مسک کے “ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی” پر فیڈرل جج کا بڑا فیصلہ، امریکی ٹریژری ڈیپارٹمنٹ کے حساس ریکارڈ تک رسائی روک دی گئی امریکا کی جانب سے فراہم کردہ امداد سے ملیریا کے خلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل کی گئی تھیں، مگر اب یہ خطرہ پیدا ہو چکا ہے کہ اس امداد کی بندش سے پوری دنیا میں بیماریوں کے پھیلنے کا امکان ہے۔ بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کی حالت انتہائی سنگین ہو چکی ہے جہاں امریکی امداد کا 55 فیصد حصہ فراہم کیا جاتا ہے۔ ان پناہ گزینوں میں سے اکثر روہنگیا ہیں جو میانمار میں بدترین تشدد کا شکار ہو کر بنگلہ دیش پناہ گزین ہوئے تھے۔ اس امداد کی بندش نے ان کے لیے زندگی گزارنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی حکومت کی ‘امریکا فرسٹ’ پالیسی کے تحت، یہ جائزہ لیا جا رہا ہے کہ غیر ملکی امداد امریکی مفادات کے ساتھ کس حد تک ہم آہنگ ہے۔ تاہم، امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں اور امریکی حکومت کو فوری طور پر امدادی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنی چاہئیں۔ اس صورتحال میں ایک بات صاف ہے کہ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا بھر میں نہ صرف صحت کی ہنگامی صورتحال مزید بگڑ جائے گی، بلکہ بے شمار افراد کی زندگیوں کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔ انسانی ہمدردی کے کارکن اس بحران کو ایک سنگین آزمائش کے طور پر دیکھتے ہیں، اور ان کا ماننا ہے کہ اس وقت امریکا کے فیصلے نے عالمی امدادی نظام کو درہم برہم کر دیا ہے۔ مزید پڑھیں: “یوکرین میں جاری اس تباہ کن جنگ کو ختم کرنا چاہتا ہوں” ٹرمپ کا پیوٹن سے رابطہ
پسند کے ہمسفر کی تلاش میں بوڑھے ہوتے نوجوان

پاکستان میں آج کے نوجوان اپنی پسندیدہ زندگی کے ساتھی کو تلاش کرنے میں اتنے بے چین ہیں کہ عمر کے ایک مخصوص حصے میں پہنچ کر بھی ان کی شادی نہیں ہو پاتی۔ نوجوانوں کے لیے شادی ایک نہ ختم ہونے والا مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس میں ایک طرف معاشرتی دباؤ، مذہبی مسائل اور والدین کی مداخلت رکاوٹ بنتے ہیں، تو دوسری طرف جہیز کے مطالبات اور اقتصادی مشکلات بھی اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی ہیں۔ کیا موجودہ معاشی اور سماجی حالات کے پیش نظر نوجوانوں کی شادی میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ سماجی تعلیم کی پروفیسر ڈاکٹر عائشہ افتخار نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نوجوانوں کی شادی میں حائل رکاوٹوں اور ان کے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ “نوجوانوں کی شادی میں رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے سادہ شادیوں کو فروغ دینا اور جہیز جیسی غیر ضروری روایات کا خاتمہ ضروری ہے۔ حکومت کو روزگار کے مواقع بڑھانے اور شادی کے اخراجات میں معاونت کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ یہ مسئلہ حل ہو سکے۔” پاکستان میں نوجوانوں کی شادی کے معاملے پر فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ والدین روایات کے مطابق اپنے بچوں کے لیے شریک حیات کا انتخاب کرتے ہیں، جبکہ نوجوان اپنی پسند کو ترجیح دیتے ہیں۔ ماہر عمرانیات ڈاکٹر حسان علی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے روایات اور نوجوانوں کی ذاتی پسند سے متعلق کہا کہ “والدین اور نوجوانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کھلی گفتگو اور باہمی اعتماد ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی پسند کو سمجھیں جبکہ نوجوان روایات اور خاندانی اقدار کا احترام کریں تاکہ ایک متوازن فیصلہ ممکن ہو سکے۔” اس کشمکش میں والدین کی مداخلت اہم ہے لیکن ساتھ ہی نوجوانوں کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ معاشی مسائل اور جہیز کا مطالبہ ان رکاوٹوں کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ ان سب عوامل کا اثر نوجوانوں کی زندگیوں پر کس طرح پڑ رہا ہے؟ بہت سے نوجوان اپنی زندگی کے درمیانی حصے میں پہنچ کر بھی ازدواجی زندگی کی طرف قدم نہیں بڑھا پاتے، اور یہ صورتحال مسلسل پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر عائشہ افتخار کے نزدیک “معاشی عدم استحکام اور مہنگائی کے باعث نوجوانوں کے لیے شادی کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اس پر جہیز کے غیر ضروری مطالبات مزید دباؤ ڈال دیتے ہیں، جس کی وجہ سے کئی خاندان اپنی بیٹیوں کی شادی میں تاخیر پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے سماجی رویوں میں تبدیلی اور سادگی کو فروغ دینا ضروری ہے۔” پاکستان میں شادی کے حوالے سے معاشرتی توقعات بہت زیادہ ہیں۔ والدین اور خاندان کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکا یا لڑکی اپنے خاندان کی عزت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک روایتی طریقے سے شادی کرے۔ اس کے باوجود نوجوان اپنی پسند کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن معاشرتی اور ثقافتی روایات کی وجہ سے اکثر ان کے انتخاب کو خاندان کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں والدین کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے اکثر نوجوان اپنے والدین کے منتخب کردہ شریک حیات کو ترجیح دیتے ہیں جو کہ ان کی ذاتی پسند کے برعکس ہو سکتی ہے۔ یہ دباؤ ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتا ہے اور انہیں اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلے میں الجھن میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ افتخار کا کہنا ہے کہ “پاکستانی معاشرے میں خاندانی نظام اور ثقافتی روایات کا گہرا اثر ہے جس کی وجہ سے والدین اکثر اپنی مرضی کو ترجیح دیتے ہیں۔ پسند کی شادی کو خاندانی وقار اور روایات کے خلاف سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے مخالفت جنم لیتی ہے۔ اس رویے میں تبدیلی کے لیے مکالمے اور شعور کی بیداری ضروری ہے۔” مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام میں پسند کی شادی کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اس میں شرعی اصولوں کی پابندی ضروری ہے۔ نوجوانوں کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ اپنے شریک حیات کا انتخاب کرتے وقت دین داری، اخلاقیات اور اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھیں۔ تاہم معاشرتی روایات اور خاندان کی طرف سے شرعی حدود کی صحیح رہنمائی کا فقدان نوجوانوں کے لیے ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ معاشی مشکلات بھی اس مسئلے میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ مالی دباؤ شادی کے عمل کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ ڈاکٹر حسان علی کا کہنا ہے کہ “اسلام میں نکاح کو آسان بنانے پر زور دیا گیا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں معاشی مسائل اور غیر ضروری رسومات نے شادی کو مشکل بنا دیا ہے۔ مہنگائی، روزگار کی کمی، اور جہیز جیسی روایات نوجوانوں کے لیے مشکلات کھڑی کرتی ہیں۔ دوسری جانب اسلام سادگی اور برابری پر مبنی نکاح کا درس دیتا ہے۔” جہیز کا مسئلہ اس سارے معاملات کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ جہیز کی بڑھتی ہوئی مانگ نے نوجوانوں کی شادی میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ والدین کی طرف سے بڑی رقم، زیورات، اور گاڑی کا تقاضا کیا جاتا ہے، جو اکثر خاندانوں کے لیے مالی طور پر ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے کئی لڑکے اور لڑکیاں اپنی پسند کی شادی مؤخر کر دیتے ہیں۔ اس صورتحال نے ازدواجی زندگی کے آغاز کو ہی مشکل بنا دیا ہے۔ اس پورے معاملے میں بہت سے عوامل شامل ہیں جیسے معاشرتی توقعات، والدین کا دباؤ، اور اقتصادی مشکلات وہ مسائل ہیں جو نوجوانوں کی شادی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ڈاکٹر حسان علی کے مطابق “ہمارے معاشرے میں والدین کی اعلیٰ توقعات، مالی دباؤ اور مثالی رشتہ تلاش کرنے کی کوشش شادی میں تاخیر کا باعث بنتی ہے۔ اس مسئلے کا حل سادگی کو فروغ دینا، جہیز کی حوصلہ شکنی کرنا، اور نوجوانوں کو معاشی طور پر خودمختار بنانے میں مدد دینا ہے تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں۔” اس حوالے سے ڈاکٹر عائشہ افتخار کا کہنا ہے کہ “ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ جہیز کی لعنت کا خاتمہ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ شادی ایک خوبصورت اور
پاکستان میں غذائی قلت: ”یہ بھوک نہیں، نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے”

پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسا بحران ہے جو آہستہ آہستہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت ملک کی ایک بڑی آبادی بنیادی غذائی اجزا سے محروم ہے، جس کے نتیجے میں بچے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ نیوٹریشن انٹرنیشنل کی ایک حالیہ ورکشاپ میں سامنے آنے والے اعداد و شمار انتہائی تشویش ناک ہیں۔ پاکستان میں ہر تین میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا شکار ہے اور اگر صورت ِحال یہی رہی تو آنے والے سالوں میں اس کے اثرات ناقابلِ واپسی ہو سکتے ہیں۔ “میرے بچے کی ہڈیاں نکل آئی ہیں، ڈاکٹر کہتے ہیں اچھی خوراک دو، پر کہاں سے لاؤں؟” پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ میں رہنے والی شبانہ بی بی کا چھوٹا بیٹا کمزور ہو کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہے۔ “ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بچے کو دودھ، گوشت اور پھل دیں، مگر ہم تو دن میں ایک بار دال روٹی پوری کر لیں تو بڑی بات ہے۔” یہ کہانی صرف شبانہ بی بی کی نہیں، بلکہ ملک کے لاکھوں والدین کی ہے جو اپنے بچوں کو متوازن خوراک دینے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں غذائی قلت کے چونکا دینے والے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق 34 فیصد بچے (پانچ سال سے کم عمر) پست قد کا شکار ہیں۔ 22% نومولود بچے کم وزن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ 53% بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ 41% حاملہ خواتین آئرن کی کمی میں مبتلا ہیں، جس سے ان کے بچوں کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ نیوٹریشن انٹرنیشنل، یونیسف، ورلڈ بینک، پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق غذائی قلت کے باعث پاکستان کی معیشت کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مسئلہ صرف خوراک کی کمی نہیں بلکہ غیر متوازن خوراک بھی ایک بڑا سبب ہے۔ ملک میں زیادہ تر لوگ سادہ کاربوہائیڈریٹس (چاول، آٹا، چینی) پر گزارا کرتے ہیں، جب کہ پروٹین، وٹامنز اور منرلز کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ غذائیت ڈاکٹر زین نے کہا کہ یہ لوگ بھوکے نہیں، بلکہ غذائی اجزاء کی کمی کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر زین نے کہا ہے کہ ‘پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے اس لیے کمزور پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ماؤں کو دورانِ حمل مناسب خوراک نہیں ملتی۔ آئرن، کیلشیم اور وٹامن ڈی کی شدید کمی کے باعث مائیں بیمار پڑ جاتی ہیں اور بچے بہتر نشوونما نہیں کر پاتے۔” جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی بتول بی بی نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ حمل کے دوران انہیں کبھی گوشت، دودھ یا پھل کھانے کو نہیں ملے۔ گھر میں جو کھانے کو ہوتا، وہی انھیں کھانا پڑتا تھا۔ اب ان کا بیٹا کمزور پیدا ہوا ہے، وہ بیمار بھی بہت رہتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں 41 فیصد حاملہ خواتین آئرن کی کمی کا شکار ہیں، جس کے نتیجے میں کم وزن بچوں کی پیدائش عام ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف غذائی قلت کا معاملہ نہیں، یہ پورے معاشرتی نظام کی ناکامی ہے۔ بچوں کو اسکولوں میں صحت مند کھانے کا نظام دینا ہوگا، حاملہ خواتین کے لیے سپلیمنٹس کو سستا اور آسانی سے دستیاب بنانا ہوگا۔ اس کے بغیر ہم آنے والی نسلوں کو بچا نہیں سکتے۔ مزید یہ کہ غذائی قلت پاکستان کی معیشت کو بھی نگل رہی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی معیشت کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصان غذائی قلت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق غذائی قلت کے شکار بچے بڑے ہو کر جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور رہتے ہیں، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور وہ ایک پیداواری شہری کے طور پر معیشت میں اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر پاتے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں ہر سال لاکھوں ٹن گندم، چاول، دالیں اور دیگر غذائی اجناس پیدا ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے عام طور پر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی قلت کا شکار کیوں ہے؟ ماہرین نے اس کی تین بڑی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی کے سبب معیاری اور متوازن خوراک عام آدمی کی پہنچ سے باہر جا چکی ہے۔ غلط ترجیحات کی وجہ سے خوراک کی تقسیم اور غذائی اجزاء کی شمولیت پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ مزید یہ کہ پاکستان میں 70 فیصد سے زائد پانی آلودہ ہے، جس کی وجہ سے بچوں میں اسہال اور دیگر بیماریاں عام ہو رہی ہیں، جو غذائی قلت کو مزید بڑھا رہی ہیں۔ پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسا بحران بن چکا ہے جو صرف غربت یا مہنگائی کی وجہ سے نہیں، بلکہ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کا نتیجہ بھی ہے۔ یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کی بڑی آبادی غذائی کمی کا شکار کیوں ہے؟ پاکستان میں ہر حکومت غذائی قلت پر بڑے بڑے دعوے تو کرتی ہے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ‘احساس نشوونما پروگرام’، ‘فوڈ سیکیورٹی پالیسی’ اور مختلف فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا گیا، لیکن یہ پروگرام یا تو بیوروکریسی کی نذر ہو گئے یا ناکافی ثابت ہوئے۔ ماہر خوراک ڈاکٹر زین کا کہنا ہے کہ حکومت غذائی قلت کے اعداد و شمار تو جمع کرتی ہے، لیکن ان پر عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ بچوں کو متوازن خوراک دینے کے بجائے حکومتی سطح پر سبسڈی کم کی جا رہی ہے، جس سے صحت مند خوراک مزید مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسی تباہی لا سکتی ہے جس کا اثر دہائیوں تک محسوس کیا جائے گا۔ یہ بحران پانی کی کمی، غربت اور مہنگائی سے جڑا ہوا ہے۔ اگر حکومت نے صحت مند خوراک کو سستا اور آسانی سے دستیاب نہ کیا، تو پاکستان میں آنے والی نسلیں مزید کمزور ہوں گی اور ہم ایک صحت مند قوم بنانے کے خواب کو کھو دیں گے۔” پاکستان کو بھوک کے خلاف نہیں، بلکہ غذائی کمی
موبائل میں گم بچپن، کیا بچے ٹیکنالوجی کے غلام بن رہے ہیں؟

کیا واقعی اسکرین اور گیجٹس کا زیادہ استعمال بچوں کے لیے نقصان دہ ہے؟ اور اگر ہے تو عام والدین اپنے بچوں کو اس ڈیجیٹل دنیا سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت تمام ہی والدین کے سامنے ایک چیلنج کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ سلیکون ویلی جہاں دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی تخلیق ہوتی ہے، وہاں کے بڑے ٹیک لیڈر اپنے بچوں کو اسکرین سے دور رکھنے کے لیے خصوصی اسکولوں میں داخل کراتے ہیں۔ گوگل، ایپل اور دیگر بڑی ٹیک کمپنیوں کے ایگزیکٹوز اپنے بچوں کو ایسے والڈورف اور دیگر روایتی تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں جہاں اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس اور کمپیوٹرز کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ حیرت انگیز حقیقت کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ اس ضمن میں گیجٹس کے بچوں کی نفسیاتی صحت پر اثرات کو جاننا بھی ضروری ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہرِ نفسیات طوبیٰ اشرف نے کہا ہے کہ اکثر والدین کہتے ہیں کہ اگر بچوں کو موبائل فون نہ دیا جائے تو ان کا رویہ خراب ہوجاتا ہے، وہ اسکول کا کام نہیں کرتے،کھانا نہیں کھاتے یا پھر اپنی ناراضگی کا اظہار بات چیت بند کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ بچوں کا تو ہر کام ہی اسکرین کے ساتھ نتھی ہے، یعنی وہ کھانا کھاتے اور ہوم ورک کرتے ہوئے بھی اسکرین پر کارٹون یا پھر میوزک سننے کی عادی ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں والدین بالکل بے بس ہوجاتے ہیں اور وہ ماہر نفسیات سے اس مسئلے کا حل مانگتے ہیں۔ طوبی اشرف نے ہمیں مزید بتایا کہ گیجٹس کا زیادہ استعمال بچوں کی نفسیات پر بہت برے اثرات مرتب کر رہا ہے، کیونکہ انفارمیشن صرف ایک کلک پر موجود ہوتی ہے۔ بچوں میں اس کے سبب عدم برداشت کی صورتِ حال جنم لے رہی ہے، وہ ہر کام کو جلدی کرنا چاہتے ہیں، ان کا رویہ اور مزاج بہت جلدی تبدیل ہونے لگتا ہے،عجلت پسندی ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے اور وہ ایک غیر متوازن انسان کی صورت میں اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ ابتدائی عمر میں بچوں کو گیجٹس سے دور رکھنا نہایت ضروری ہے ورنہ ان کی حرکت کرنے اور چیزوں کو تھامنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے، یعنی ان کو جن چیزوں کو چھو کر دیکھنا چاہے، وہ اسکرین پر صرف اسے محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک خلا ہے جو کہ ڈیجیٹل اسکرین کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے۔ طوبی اشرف ٹیکنالوجی کو انسانوں کا متبادل نہیں سمجھتی انہوں نے حالیہ دنوں میں مغرب میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کچھ عرصے کے لیے بچوں کو کلاس ٹیچر کے بجائے گیجٹس سے تعلیم دینے کا تجربہ کیاگیا، نتیجہ یہ نکلا کہ بچے چیزیں تو سیکھ گئے، مگر ان میں تمیز سے رہنے، بول چال کے آداب اور مزاج کی خرابی کے مسائل سامنے آئے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اتالیق فاؤنڈیشن کے سی ای او شہزاد قمر نے کہا ہے کہ ٹیکنالوجی ایک طاقتور آلہ ہے، جس کے فوائد اور نقصانات دونوں ہیں۔ اس کا استعمال غیر متوازن یا زیادہ ہونے سے بچوں کی صحت، دماغی صلاحیت، تعلیم اور معاشرتی رویے پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اخلاقیات کے حوالے سے بھی خطرات ہوسکتے ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ آپ بچوں کو ٹیکنالوجی سے دور نہیں رکھ سکتے۔ بچے اس کا استعمال کر رہے ہیں اور اس میں مزید اضافہ ہوگا، لہذا اس کے محفوظ اور مفید استعمال پر بات ہونی چاہیے، تاکہ اس کا فائدہ حاصل کیا جا سکے اور کسی بھی منفی اثرات سے بچا جا سکے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے شعبہ تدریس سے منسلک عبدالولی نے کہا ہے کہ گیجیٹس کا استعمال بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابتدا ہی میں روک دیتا ہے۔ انسان عمومی طور پر سہل پسند واقع ہوا ہے، لہذا اگر ٹیکنالوجی سارے مسائل حل کرنے لگے گی توانسان خود کیا کرے گا،؟ بچے پہلے انٹرنیٹ سے ڈھونڈ کر اسائنمنٹ بناتے تھے، اب مصنوعی ذہانت سے پوچھتے ہیں اور کام ہو جاتا ہے۔ گیجیٹس استعمال کیے جائیں لیکن اس سے قبل آپ کو وہی کام خود کرنا آنا چاہیے۔ اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم نے حساب کتاب زبانی شروع کیا اور اس کے بعد کیلکولیٹر سے چیک کر لیا، لیکن اب تو بچے دماغ میں چھوٹا سا حساب نہیں کر سکتے، یعنی ذہنی صلاحیتوں و تخلیقی مزاج کو پنپنے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔ کلاس روم میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عبدالولی نے کہا ہے کہ ہمارے کلاس رومز سادہ ہوں اور وہ روایتی تعلیم سے بچوں کو آشنا کر دیں، تو یہ ہی غنیمت ہے۔ ٹیکنالوجی کے نام پر اسکولوں میں واٹس ایپ گروپ بن گئے ہیں اور بھی دیگر آن لائن کلاسز وغیرہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے سب ہی آگاہ ہیں۔ قدیم طریقہ تعلیم ہی رائج رہے تو بہتر ہے، ٹیکنالوجی نے ہم سے اچھے اور برے کی تمیز چھین لی ہے، ہم معاشرتی طور پر تنہا ہو گئے ہیں۔ عبدالولی نے کہا ہے کہ صرف امریکا یا سلیکون ویلی کی بات نہیں بلکہ ایپل کے بانی آسٹیو جابز، جس کا آئی فون دنیا بھر میں مقبول ہے، نے اپنے بچوں کے استعمال پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے اے آئی کنسلٹنٹ عثمان صدیقی نے کہا ہے کہ کوئی بھی ٹیکنالوجی کا بزنس کرنے والا فرد عام افراد کی نسبت دور اندیش ہوتا ہے اور وہ اس کے مہلک اثرات سے باخبر ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اے آئی انسانیت کے لیے جہاں مفید ہے، وہیں اس کے نقصانات بھی موجود ہیں، جن کے اثرات بہت دیر پا ہیں۔ چین نے امریکی اے آئی ٹول چیٹ جی پی ٹی کے مقابلے میں ایک تہائی کی قمیت میں ڈیپ سیک تیار کرکے سب کو جہاں حیران کردیا ہے، وہیں یہ بات لمحہ فکری ہے کہ اے آئی کے بدلتے ہوئے فیچرز کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جائے، کیونکہ کسی بھی قسم کی بداحتیاطی کسی بڑے نقصان کا سبب
پوڈکاسٹ کلچر: نئی نسل کی آواز یا ریٹنگ کا کھیل؟

آمنے سامنے بیٹھیں اور دنیا جہاں کے موضوعات پر بحث کر ڈالیں، ہر ایک موضوع کو کرید کرید کے بیان کریں، چبھتے سوالات کا بہترین جواب ملے تو ویوز کی بھرمار ہوجائے، جی ہاں اب ٹاک شوز کون دیکھتا ہے سبھی تو موبائل فونز پر ’پوڈ کاسٹ‘ دیکھتے ہیں۔ دنیا بھرمیں 30 ستمبرکوپوڈ کاسٹ ڈے منایا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل پوڈ کاسٹ ڈے کا سفر 2013 میں شروع ہوا، جب ڈیو لی نے ریڈیو پر نیشنل سینئرز ڈے کا اعلان سنا اور سوچا کہ پوڈ کاسٹنگ کو منانے کے لیے ایک دن کی بہت ضرورت ہے۔ پوڈکاسٹ ایک ڈیجیٹل ذریعۂ ابلاغ ہے، جو آڈیو فارم میں دستیاب ہوتاہے، جسے کمپیوٹر یا موبائل ڈیوائس کی مدد سے آسانی سے سنا جاسکتا ہے۔ عام طور پر پوڈکاسٹ سلسلہ وار نشر کیا جاتا ہے۔ پوڈکاسٹ دو الفاظ پلے ایبل آن ڈیمانڈ اور براڈکاسٹ سے مل کر بنا ہے۔ آج کے دور میں پوڈکاسٹ دنیا بھر کے نوجوانوں میں خاصا مقبول ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ پوڈ کاسٹنگ افراد کو جلد بازی میں مواد استعمال کرنے کا ایک مددگار اور کھلا راستہ فراہم کرتا ہے۔ آج کے اس ترقی یافتہ ڈیجیٹل دور میں پوڈکاسٹ تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں اور اسے روایتی میڈیا کا متبادل کہا جارہا ہے۔ پوڈکاسٹ کی مقبولیت کی بڑی وجہ انفارمیشن کا نئے طریقہ کار سے سامنے آنا ہے۔ پوڈکاسٹ سیاست، کامیڈی، ٹیکنالوجی اور لائف اسٹائل سمیت مختلف موضوعات پر بنائی جا رہی ہیں، یہ سامعین کو روایتی ذرائع سے ہٹ کر ایک نیا تجربہ فراہم کرتے ہیں۔ ماہرین اس کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں، کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ پوڈکاسٹ معلومات کا طاقتور ذریعہ ہیں، جب کہ کچھ اسے تفریحی پلیٹ فارم قرار دیتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی سننے کی شرح اور عالمی سطح پر ان کی مقبولیت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پوڈکاسٹ جدید دور کے میڈیا کا ایک اہم جزو بن چکے ہیں۔ اگر پوڈکاسٹ کے بزنس ماڈل کی بات کی جائے توان کا بزنس ماڈل اسپانسرشپ، ایڈورٹائزنگ اور پیڈ سبسکرپشن ہے، یہ ذرائع اب ذریعہ آمدنی بن چکے ہیں۔ پوڈکاسٹس کے تخلیق کار زیادہ سے زیادہ سامعین حاصل کرنے کے لیے وائرل کنٹینٹ اور ریٹنگز پر زور دیتے ہیں، جس کے باعث مواد کے معیار کے بجائے سنسنی خیزی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اکثر پوڈکاسٹرز متنازعہ بیانات اور غیر معیاری گفتگو کے ذریعے مقبولیت حاصل کررہے ہیں، جس سے میڈیا انڈسٹری میں اخلاقی اور پیشہ ورانہ اصولوں پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ پاکستان میں ابھی پوڈکاسٹ انڈسٹری ابھر رہی ہے، جس کی وجہ سے اسے کئی بڑے مسائل کا سامنا ہے، جن میں محدود مونیٹائزیشن آپشنز، تکنیکی وسائل کی کمی اور انٹرنیٹ کی بہتر رسائی اہم ہیں۔ یہ پلیٹ فارم نئے ٹیلنٹ کو آگے لانے کا موقع بھی فراہم کر رہا ہے، اگرچہ کچھ حلقے اسے پہلے سے مشہور شخصیات کی اجارہ داری قرار دیتے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے پوڈکاسٹ ایک مفید ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے، لیکن کامیابی کے حصول کے لیے معیار، مستقل مزاجی اور تخلیقی انداز کی سخت ضرورت ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے ڈیجیٹل میڈیا ایکسپرٹ حمزہ قریشی نے پوڈکاسٹ کلچر کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پوڈکاسٹ کلچر نوجوانوں میں تنقیدی سوچ، آگاہی اور سیکھنے کے مواقع فراہم کر رہا ہے، خاص طور پر وہ پوڈکاسٹ جو سوشل ایشوز، تاریخ اور خود ترقی پر مبنی ہیں۔ لیکن کچھ پوڈکاسٹ صرف تفریح تک محدود ہیں اور نوجوانوں کو سنجیدہ موضوعات کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ حمزہ قریشی نے کہا ہے کہ روایتی میڈیا خبروں اور رپورٹنگ پر توجہ دیتا ہے، جب کہ پوڈکاسٹ زیادہ غیر رسمی، تفصیلی اور ذاتی نوعیت کے مکالمے پر مبنی ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ پوڈکاسٹ زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے کیونکہ یہ تفصیلی گفتگو کا موقع دیتا ہے، لیکن خبروں اور حقائق کی تصدیق کے لیے روایتی میڈیا ابھی بھی زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا ایکسپرٹ کا کہنا ہے کہ پوڈکاسٹ انڈسٹری میں وائرل ہونے کا رجحان معیار کو متاثر کر رہا ہے، کیونکہ زیادہ تر میزبان سنسنی خیز اور متنازعہ موضوعات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، تاکہ زیادہ ناظرین حاصل کیے جا سکیں۔ اس رجحان کو روکنے کے لیے معیاری اور تحقیقی مواد کو فروغ دینا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں پوڈکاسٹ انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے زیادہ اسپانسرشپ، معیاری پروڈکشن، اور تعلیمی و تحقیقی مواد پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ اگر میڈیا ادارے اور برانڈز پوڈکاسٹ کو سپورٹ کریں تو یہ ایک مستحکم انڈسٹری بن سکتی ہے۔ حمزہ قریشی نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر پوڈکاسٹ اظہارِ رائے کا ایک آزاد ذریعہ تھا، لیکن اب بہت سے پوڈکاسٹ اسپانسرشپ اور برانڈنگ کے باعث بزنس ماڈل میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اگرچہ کچھ آزاد پوڈکاسٹ اب بھی موجود ہیں، لیکن زیادہ تر مواد مالی فوائد کو مدنظر رکھ کر بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا ریسرچر عائشہ ندیم نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ پوڈکاسٹ کلچر نے نوجوانوں میں معلومات تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے، لیکن زیادہ تر مواد صرف تفریحی نوعیت کا ہوتا ہے۔ نوجوانوں کو تعمیری اور تحقیقی پوڈکاسٹ سننے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی سوچ میں حقیقی مثبت تبدیلی آسکے۔ عائشہ ندیم نےپوڈکاسٹ کلچر کے وائرل ہونے کی وجہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ روایتی میڈیا کے برعکس پوڈکاسٹ میں آزادی زیادہ ہے، جو اسے ایک منفرد اور مؤثر پلیٹ فارم بناتی ہے۔ یہ ان موضوعات پر بات چیت کا موقع دیتا ہے جو روایتی میڈیا نہیں دےپاتے، مگر اسے مکمل طور پر روایتی میڈیا کا متبادل سمجھنا غلط ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ وائرل کنٹینٹ کی دوڑ نے کئی پوڈکاسٹ کو صرف تفریح اور مزاح تک محدود کر دیا ہے، جس کی وجہ سے سنجیدہ اور معلوماتی مواد نظرانداز ہو رہا ہے۔ سامعین کو چاہیے کہ وہ معیار پر سمجھوتہ نہ کریں اور تحقیق پر مبنی پوڈکاسٹ کی حوصلہ افزائی کریں۔ میڈیا ریسرچر نے کہا ہے کہ پوڈکاسٹ اب بھی اظہارِ رائے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے، لیکن بزنس ماڈل میں تبدیل ہونے کی وجہ سے بہت سے میزبان مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر مجبور ہیں۔ سامعین کو چاہیے کہ وہ غیر جانبدار
کیا صرف طرزِ زندگی بدلنے سے کینسر سے بچاؤ ممکن ہے؟

کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسم کے خلیے بے قابو ہو کر بڑھنے لگتے ہیں اور جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ بیماری عام طور پر جینیاتی تغیرات کی وجہ سے ہوتی ہے اور مختلف اقسام میں پائی جاتی ہے۔ لاہور کے نجی ہسپتال کے سرجن ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “کینسر کی متعدد اقسام ہیں، جن میں بریسٹ کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، خون کا کینسر (لیوکیمیا)، اور کولون کینسر شامل ہیں۔ کینسر عام طور پر جینیاتی تبدیلیوں، تمباکو نوشی، غیر صحت بخش خوراک، موٹاپے اور ماحولیاتی عوامل جیسے ریڈی ایشن یا زہریلے کیمیکلز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جلد تشخیص اور مناسب علاج سے اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔” کینسر کی علامات میں غیر معمولی گلٹیاں، وزن میں اچانک کمی یا اضافہ، مسلسل تھکاوٹ، جلد پر غیر معمولی تبدیلیاں، مستقل کھانسی، آواز میں تبدیلی، کھانے میں دشواری، ہاضمے کے مسائل، خون بہنا، زخموں کا نہ ٹھیک ہونا اور مستقل جسمانی درد وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عاصم رضا کے مطابق “کینسر کی علامات اس کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہیں، لیکن عام طور پر مسلسل تھکن، بغیر کسی وجہ کے وزن میں کمی، کسی بھی جگہ غیر معمولی گلٹی یا سوجن، طویل عرصے تک کھانسی یا خون آنا، اور زخموں کا دیر سے بھرنا شامل ہیں۔ اگر یہ علامات برقرار رہیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے معائنہ کروانا ضروری ہے۔” عالمی سطح پر کینسر کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں موروثی (جینیاتی) عوامل، ماحولیاتی آلودگی، تابکاری اثرات، غیر صحت مند خوراک، موٹاپا، تمباکو نوشی، شراب نوشی اور دیگر مضر صحت عادات شامل ہیں۔ ماہر جینیٹکس ڈاکٹر خدیجہ قمر نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” تمباکو نوشی اور شراب نوشی میں موجود مضر کیمیکل خلیوں کے ڈی این اے کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے کینسر پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تمباکو میں شامل نکوٹین اور دیگر زہریلے اجزا خاص طور پر پھیپھڑوں، منہ، گلے اور مثانے کے کینسر کا سبب بن سکتے ہیں، جبکہ شراب نوشی جگر، معدے اور بریسٹ کینسر کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ ان عادات سے پرہیز کر کے کینسر سے بچاؤ ممکن ہے۔” کینسر یا سرطان کی کئی اقسام ہیں اور ان سے بچاؤ کے طریقوں پر سبھی ماہرین متفق بھی نہیں ہیں، تاہم محققین اس بات پر ضرور اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ طرزِ زندگی بدلنے سے کینسر کی نصف سے زائد اقسام سے بچاؤ ممکن ہے۔ ڈاکٹر خدیجہ کے نزدیک “صحت مند خوراک اور باقاعدہ ورزش کینسر کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کر سکتی ہیں، لیکن یہ خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جینیاتی عوامل، ماحولیاتی آلودگی، اور کچھ وائرس بھی کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لیے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ باقاعدہ طبی معائنہ بھی ضروری ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کو بروقت پہچانا جا سکے۔” طبی ماہرین کے مطابق طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں جیسے متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش، وزن کو کنٹرول میں رکھنا اور نشہ آور اشیا سے پرہیز کینسر کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ابتدائی تشخیص، جدید علاج اور احتیاطی تدابیر اپنا کر اس مہلک بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش، اور وزن کو کنٹرول میں رکھ کر کینسر کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ صحت مند طرزِ زندگی مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہے اور جسم کو ان عوامل سے بچاتی ہے جو کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم جینیاتی عوامل اور ماحولیاتی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے باقاعدہ طبی معائنہ بھی ضروری ہے۔” متوازن اور صحت مند خوراک جیسے نامیاتی غذا، سبزیاں، پھل اور کم چکنائی والے کھانے جسمانی قوت مدافعت کو مضبوط بناتے ہیں۔ باقاعدہ ورزش اور جسمانی سرگرمیاں موٹاپے، دل کی بیماریوں اور کینسر کے امکانات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ خاص طور پرتمباکو اور الکحل سے پرہیز صحت مند طرزِ زندگی کا لازمی جزو ہے۔ ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ ڈاکٹر خدیجہ قمر کے مطابق “ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتی ہیں، جس سے کینسر کے خلیے بڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مسلسل تناؤ کی حالت میں ہارمونز کی عدم توازن پیدا ہو سکتی ہے، جو کینسر کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ اس لیے ذہنی سکون اور مناسب نیند صحت کے لیے ضروری ہیں۔” طبی ماہرین کے مطابق طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں بیماریوں کے خطرے کو کم کر سکتی ہیں، مگر جینیاتی عوامل بھی کینسر کے امکانات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جن پر طرزِ زندگی کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “جینیاتی عوامل بعض صورتوں میں اتنے طاقتور ہو سکتے ہیں کہ صحت مند طرزِ زندگی اپنانے کے باوجود بھی کینسر ہونے کے امکانات رہتے ہیں۔ کچھ مخصوص جینیاتی تغیرات (mutations) موروثی طور پر منتقل ہوتے ہیں، جو کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ تاہم متوازن غذا، باقاعدہ ورزش، اور نقصان دہ عادات سے پرہیز کرنے سے اس خطرے کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔” دوسری طرف قدرتی جڑی بوٹیاں اور روایتی ادویات بھی مریضوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہیں، مگر ماہرین انہیں مکمل علاج کا متبادل نہیں سمجھتے۔ پاکستان میں بھی بہت سے افراد اس بیماری کی علامات کو نظرانداز کرتے ہیں اور روایتی ٹوٹکوں پر انحصار کرتے ہیں جس سے یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر خدیجہ قمر کے نزدیک ” متبادل طریقہ علاج جیسے ہربل میڈیسن یا ہومیوپیتھی بعض کیسز میں مدافعتی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں، لیکن سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ کینسر کے مکمل علاج یا بچاؤ میں مؤثر ثابت نہیں ہوئے۔ کینسر کا مؤثر علاج جدید طبی طریقوں جیسے کیموتھراپی، ریڈیوتھراپی، اور سرجری سے ممکن ہے، اس لیے مریضوں کو مستند طبی ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے اور بغیر تحقیق کے
کولڈ پلے کا بھارت میں عالمی ریکارڈ: 1 کروڑ 3 لاکھ افراد نے کنسرٹس میں شرکت کر کے تاریخ رقم کر دی

دنیا بھر میں پاپ میوزک کے مداحوں کے دلوں پر راج کرنے والا برطانوی راک بینڈ ‘کولڈ پلے’ نے بھارت میں اپنے شاندار کنسرٹس کے ذریعے تاریخ رقم کر دی ہے۔ بینڈ نے اپنے کنسرٹس میں ایک کروڑ تین لاکھ سے زائد شائقین کو اپنی موسیقی کے جادو میں محصور کر لیا جس کے نتیجے میں ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم ہوا۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق کولڈ پلے نے 18 جنوری سے 26 جنوری تک ممبئی اور احمد آباد کے بڑے اسٹیڈیموں میں شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ ان شوز میں تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار افراد نے ہر شو میں شرکت کی جس نے ٹیلر سوئفٹ کے کنسرٹس کا ریکارڈ توڑ دیا۔ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق اس سے پہلے یہ اعزاز مارچ 2022 میں کوسٹاریکا کے کنسرٹ کے پاس تھا جہاں سب سے زیادہ افراد نے شرکت کی تھی۔ مگر اب بھارت میں کولڈ پلے کے کنسرٹس نے یہ ریکارڈ بھی اپنے نام کر لیا ہے۔ کولڈ پلے نے اس شاندار کامیابی کے بعد اپنے بھارتی مداحوں کا دل سے شکریہ ادا کیا اور کہا “شکریہ احمد آباد، شکریہ بھارت! ہم ان دو ہفتوں کو کبھی نہیں بھولیں گے, آپ کی محبت اور مہربانی ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہے گی۔” کولڈ پلے نے اپنے کامیاب دورے کا اختتام بھارت میں کیا اور اب اگلا کنسرٹ اپریل میں ہانگ کانگ میں شیڈول ہے۔ اس کے بعد وہ سیئول اور امریکا میں بھی اپنے مداحوں سے ملاقات کریں گے۔ یہ شو نہ صرف کولڈ پلے کی کامیابی کا عکاس ہے بلکہ یہ بھارت میں موسیقی کے شوقین افراد کے لیے ایک ناقابل فراموش لمحہ بھی بن گیا ہے۔
پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی

ایک حیران کن میڈیکل بریک تھرو کے طور پر امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے ایک نئی غیر اوپیئڈ درد کش دوا سوزیٹریجین کی منظوری دے دی ہے، جو درد کے علاج میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ منظوری اس شاندار سائنسی دریافت کا نتیجہ ہے جس میں ایک پاکستانی خاندان کی منفرد جینیاتی خصوصیات کو مدنظر رکھا گیا، جن کے افراد جلتی ہوئی آگ پر بے درد چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس خاندان کے افراد کے جسم میں ایک ایسا جین موجود نہیں تھا جو درد کے سگنلز کو فعال کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ شدید گرمی اور جلنے کے احساس سے بچ جاتے تھے۔ سوزیٹریجین پچھلے بیس سالوں میں درد کی پہلی نئی قسم کی دوا ہے۔ ایف ڈی اے کی جانب سے جمعرات کو اس دوا کی منظوری ایک تاریخی سنگ میل ہے، جو اوپیئڈز کے متبادل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اوپیئڈز عام طور پر درد کو کم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ان میں نشے کی لت اور انحصار کا خطرہ ہوتا ہے۔ سوزیٹریجین کا طریقہ کار مختلف ہے، یہ دوا درد کے سگنل دینے والی اعصابی رگوں کو فعال ہونے سے روکتی ہے جس سے دماغ تک درد کا پیغام ہی نہیں پہنچتا۔ یہ بھی پڑھیں: چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی اس دوا کی دریافت کا آغاز ایک شاندار جینیاتی مشاہدے سے ہوا۔ پاکستانی خاندان کے افراد کو دیکھ کر محققین نے پایا کہ یہ لوگ آتش چمچوں اور گرم کوئلوں پر چلنے میں کامیاب ہیں، جبکہ ان میں معمولی ترین درد کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ان افراد کے جسم میں وہ جین نہیں ہے جو درد کے سگنل کو فعال کرتا ہے۔ یہی جینیاتی خصوصیت اس دوا کی بنیاد بنی، جس نے اس مخصوص سوڈیم چینل کو ہدف بنایا جو درد کی ترسیل میں ملوث ہوتا ہے۔ سوزیٹریجین کی تشکیل کے بعد اس کے کلینیکل ٹرائلز 600 سے زائد مریضوں پر کیے گئے، جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ دوا سرجری کے بعد درد کو مؤثر طریقے سے کم کرتی ہے۔ اگرچہ یہ معجزاتی علاج نہیں ہے تاہم اس نے درد کی شدت کو 0-10 کے پیمانے پر تقریباً 3.5 پوائنٹس تک کم کر دیا، جو ویکوڈن جیسے عام اوپیئڈ درد کش دوا کے اثرات کے مساوی تھا۔ تاہم، یہ دوا دائمی درد جیسے سیاٹیکا کے لیے اتنی موثر ثابت نہیں ہوئی۔ سوزیٹریجین کی ترقی ایک امید کی کرن بن کر سامنے آئی ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکا اوپیئڈ بحران سے دوچار ہے۔ تقریباً 80 ملین امریکی ہر سال درد کش ادویات استعمال کرتے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ اوپیئڈز ہیں، جو اکثر نشے کا سبب بنتے ہیں۔ سوزیٹریجین کی منظوری ایک قدم آگے کی جانب ہے کیونکہ یہ اوپیئڈز کا ایک محفوظ متبادل پیش کرتی ہے۔ اس دوا کی قیمت 15.50 ڈالر فی گولی رکھی گئی ہے جو کہ مریضوں کے لیے ایک چیلنج ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس کی افورڈبیلٹی اور انشورنس کوریج اس کے استعمال میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ضرور پڑھیں: دس سال کے بعد ٹیکنالوجی دنیا کو کون سا نیا روپ دے گی؟ خوش قسمتی سے مریضوں کے لیے معاونت کے پروگرامز بھی موجود ہیں جو دوا کی قیمتوں میں کمی فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سوزیٹریجین کی منظوری نے درد کے علاج کے ماہرین کو امید کی ایک نئی کرن دکھائی ہے کیونکہ یہ ایک اور آپشن فراہم کرتی ہے جو اوپیئڈز کے خطرات سے بچا سکتی ہے۔ اس کی کامیابی نہ صرف درد کش ادویات کی دنیا میں ایک نئی تبدیلی لائے گی بلکہ ممکنہ طور پر اوپیئڈ بحران کے خاتمے کی جانب بھی ایک اہم قدم ہو سکتی ہے۔ اس دوا کی جینیاتی بنیاد پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیتوں سے جڑی ہوئی ہے اور اس نے عالمی سطح پر درد کش ادویات کے لیے ایک نئی راہ ہموار کی ہے۔ آنے والے سالوں میں، سوزیٹریجین مزید تحقیق کے ذریعے دوسرے درد کے مسائل جیسے ذیابیطس کی نیوروپیتھی کے لیے بھی ایک موثر علاج بن سکتی ہے۔ ایک نئی اور محفوظ درد کش دوا کے طور پر سوزیٹریجین کی آمد کا مطلب ہے کہ درد کے علاج کے لیے مریضوں کے پاس اب ایک بہتر، غیر اوپیئڈ آپشن ہوگا، جو نہ صرف درد کو کم کرے گا بلکہ انحصار اور نشے کے خطرات سے بھی محفوظ رکھے گا۔ مزید پڑھیں: آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟
شادیوں پر فضول خرچی دکھاوا ہے یا پھر احساسِ کمتری، حقیقت کیا ہے؟

حالیہ مہینوں میں یوٹیوبر رجب بٹ کی شادی میں ملک کے نامور سوشل میڈیا سٹارز کی جانب سے پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا۔ رائفل سے لے کر شیر کے بچے تک لوگوں نے بے شمار تحائف دیے، جس کی وجہ سے دولہے کو پولیس اسٹیشن کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایک طرف پیسہ اڑانے جیسی فضول رسم پروان چڑھ رہی ہے تو دوسری طرف جہیز میں طرح طرح کی چیزیں مانگنا بھی ایک الگ مسئلہ بن گیا ہے، آخر شادیوں پر فضول خرچی کرنے کی وجہ کیا ہے؟ ہرسال ستمبر کے اوائل سے ہی شادیوں کا موسم شروع ہو جاتا ہے اور دسمبر تک جاری رہتا ہے۔ اس دورانیے میں آپ کو سڑکوں پر باراتیوں کی لمبی لمبی گاڑیاں اور بے دریغ خرچ ہوتا ہوا پیسہ نظر آئے گا، مگر غلطی سے کہیں آپ نے ان لوگوں کے سامنے مہنگائی کا نام لے لیا تو ایسا رونا رو ئیں گے کہ آپ ہفتوں پچھتاتے رہیں گے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ جہاں ایک طرف ملک میں لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر رہے ہوں، وہیں دوسری طرف فضول پیسہ خرچ ہو رہا ہو؟ ایک عام فرد یہ سوچنے پر مجبورہو جاتا ہے کہ ’کیسے جاہل لوگ ہیں جو فضول میں پیسے کا ضیاع کر رہے ہیں‘ یا پھر آپ کہیں گےکہ یہ پیسے کی نمائش کی جارہی ہے، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب انھیں رسومات میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب اگر نومبر کو ’شادی ماہ‘ کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ شادیاں نومبر میں ہوتی ہیں، جن میں سب سے زیادہ خرچہ متوسط طبقے کی جانب سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس وقت خاندان والوں سے شراکت داری ہونے کے نام پر قرضہ لے کر شادی کرنے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دیہاتوں میں عزت کے نام پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے، لیکن شہروں نے اب دیہاتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ شادی ہالوں کے افتتاح کے بعد سے شہر کے تمام شادی ہال ہر وقت بھرے ملتے ہیں۔ فضول خر چی کا یہ عالم ہے کہ چھوٹے ہالوں میں شادی کی بجائے صرف جنم دن کے کیک کاٹے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ لوگ نہیں جو امیر ہیں، بلکہ یہ وہ ہیں جو امیر دکھنا چاہتے ہیں۔ اگر شادیوں پر بے تحاشا پیسہ خرچ کرنے کی وجوہات دیکھی جائیں تو بڑی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ ان کے آبا ؤ اجداد نے اس طرح کی شادیاں کی تھیں، اب اگر وہ فضول خرچی نہیں کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟ دوسری طرف اشتہارات اور ڈرامو ں نے فضول خرچی کو ہوا دی ہے، بلاوجہ ایسی چیزیں دکھاتے ہیں جن سےلگتا ہے کہ ان کے بغیر شاید شادی ادھوری ہے۔ عام طور پر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ شادیوں میں یوں فضول خرچی کرنے کی وجہ دکھاوا ہے یا پھر احسا س کمتری؟ یہ ایک نفسیاتی سوال ہے، جس کے بارے میں ماہرین اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق دونوں جواب ہی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ مگر کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ احسا س کمتری ہے جس کے پیشِ نظر فضول خرچی نے جنم لیا ہے۔ فضول خرچی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شادیوں پر بے بہا پیسہ خرچ کرنے والوں کو لگتا ہے کہ پیسہ خرچ نہ کرنے سے لوگ انھیں اپنے سے کم تر سمجھیں گے اور ان کی عزت نہیں کی جائے گی۔ ایسے لوگوں کو لگتا ہے کہ عزت پیسے سے ملتی ہے اور وہ عزت خریدنے نکل پڑتے ہیں، مگر وہ شاید نہیں جانتے کہ عزت خریدی نہیں جاتی بلکہ کمانی پڑتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق ایسے لوگ احسا س کمتری کا شکار ہوتے ہیں، اپنی دھاک بٹھانے کی غرض سے فضول خرچی کرتے ہیں اور بعد میں پریشانیوں کا شکار رہتے ہیں۔ یہ ز یادہ تر سفید پوش طبقے کے لوگ ہوتے ہیں، جو عزت اور احسا س کمتری میں آکر خود کو مصیبتوں میں ڈال لیتے ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے شادیوں پر کی جانے والی فضول خرچی کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسائنمنٹ ایڈیٹر اینڈ بلاگر 24 نیوز ثنا نقوی کا کہنا تھا کہ شادیوں پرکی جانے فضول خرچی کی ایک بڑی وجہ معاشرتی رسومات کی قید ہے۔ اس کے علاوہ دکھاوے، رشتےداروں میں احساسِ برتری اور ذاتی تسکین کے لئے بھی لوگ شادیوں پر فضول خرچی کرتے ہیں۔ ثنا نقوی کا کہنا تھا کہ قریبی رشتے داروں اور دوست احباب سے اپنا موازنہ کرنے کی وجہ سے سفید پوش طبقہ احساسِ کمتری کا شکار ہوچکا ہے۔ شادیوں پر کی جانے والی فضول خرچیوں کو روکنے کےلئے ضروری ہے کہ شادی کی رسومات کو سادگی اور شرعی طریقے سے کیا جائے، اس کے علاوہ شادی هالز کے اوقات کار اور ون ڈش کی پابندی میں انتظامیہ کی جانب سے سختی فضول خرچی کو روکنے میں صحیح معنوں میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ ہر پڑھا لکھا انسان یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ شادیوں پر فضول خرچی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، مگر جب وقت آتا ہے تو وہ بھی انھیں فضول رسومات کا شکار ہو جاتا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم سب کو اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ آخر کون سی ایسی وجوہات ہیں، جنھوں نے ہمیں اندر سے اتنا کھوکھلا کر دیا ہے کہ ہم لوگ ایک مصنوعی زندگی جینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔