چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی

دنیا بھر میں چوہوں کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف شہری انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ صحت کے لیے بھی خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔ حالیہ تحقیق نے یہ واضح کیا ہے کہ چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا تعلق صرف زیادہ آبادی یا کھانے کی کمی سے نہیں بلکہ ایک اور سنگین عنصر آب و ہوا کی تبدیلی سے ہے۔ یونیورسٹی آف رچمنڈ کے پروفیسر جوناتھن رچرڈسن نے دنیا میں چوہوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر تحقیق شروع کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے امریکا کے 200 بڑے شہروں سے چوہوں کے اعداد و شمار جمع کیے لیکن صرف 13 شہروں میں طویل المدت ڈیٹا دستیاب تھا جو ان کی تحقیق کے لیے ضروری تھا۔ اس کے بعد تحقیق میں بین الاقوامی شہروں ٹورنٹو، ٹوکیو اور ایمسٹرڈیم کو بھی شامل کیا گیا تاکہ جغرافیائی تنوع حاصل کیا جا سکے۔ مزید پڑھیں:مصر میں 5 ہزار سال بعد اسپوٹڈ ہائینا کی واپسی، ماہرین کو حیرت میں مبتلا کردیا اس تحقیق کے نتائج شائع ہونے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کے 16 میں سے 11 شہروں میں چوہوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جن میں واشنگٹن ڈی سی، سان فرانسسکو، نیو یارک، ٹورنٹو اور ایمسٹرڈیم جیسے شہر میں شامل ہیں۔ رپورٹس کتے مطابق ان شہروں چوہوں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جبکہ صرف تین شہروں میں کمی دیکھنے کو ملی جن نیو اورلینز، لوئس ویل اور ٹوکیو شامل ہیں۔ رچرڈسن نے کہا کہ یہ چوہے چھوٹے ممالیہ جانور ہیں جو سردیوں میں پناہ لینے کے لئے محدود ہوتے ہیں لیکن گرم درجہ حرارت، خاص طور پر موسم سرما میں، ان کی افزائش کو بڑھا دیتا ہے۔ رچرڈسن کے بقول، گرم موسم چوہوں کو سال بھر افزائش نسل کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس کے علاوہ یہ موسم انہیں شکار سے محفوظ رکھنے کے لیے زیادہ وقت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ماہر ماحولیات اور جنگلی چوہوں کے ماہر ‘مائیکل پارسنز’ نے کہا کہ گرم موسم چوہوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا سبب بن سکتا ہے۔ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو چوہے کھانے کے ذرائع اور پناہ گاہوں کے لیے مزید مواقع حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ موسم کی گرمی سے کھانے اور کچرے کی بو دور تک پھیلتی ہے جس سے چوہے آسانی سے شہروں میں پھیل جاتے ہیں۔ شہری چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد شہر کے لیے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ چوہے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے ہیں، کھانے کو آلودہ کرتے ہیں اور تاروں کو کاٹ کر آگ بھی لگا سکتے ہیں، اس سے امریکا میں ہر سال 27 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چوہے مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بھی بنتے ہیں۔ کارنیل یونیورسٹی کے ماہر انسیکٹس ‘میٹ فرائی’ کے مطابق چوہے 50 سے زائد جراثیموں کو منتقل کرتے ہیں جن میں لیپٹوسپائروسس جیسے سنگین امراض شامل ہیں جو انسانوں میں گردے اور جگر کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور علاج کے بغیر موت کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ، ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بھی بڑھ گئے واشنگٹن ڈی سی میں چوہوں پر قابو پانے کی مہم کے ذمہ دار ‘جیرارڈ براؤن’ کہتے ہیں کہ کوڑے دان میں کھانا نہ ڈالنے سے چوہوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سردی کے موسم میں چوہوں کی تعداد میں کمی آتی ہے اور یہی وہ وقت ہے جب چوہوں کی آبادی پر قابو پانے کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ رچرڈسن اور ان کی ٹیم نے تحقیق کے دوران یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شہروں کو چوہوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکام کو مشورہ دیا کہ وہ مہلک کنٹرول کے بجائے چوہوں کی افزائش کو روکنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کریں، جیسے کھانے کے فضلے اور کچرے تک رسائی کو کم کرنا۔ اگر شہروں نے چوہوں کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو نہ پایا تو یہ بات صاف ظاہر ہے کہ صورتحال بدتر ہو جائے گی۔
فیشن انڈسٹری میں حجاب کا بڑھتا رجحان، کیا یہ صرف مارکیٹنگ ہے؟

حجاب کا فیشن فروغ پارہا ہے اور فیشن انڈسٹری اسے قبول بھی کررہی ہے، کھیلوں کے میدان میں باحجاب خواتین دوڑتی نظر آتی ہیں تو دفاتر، کام کی جگہوں پر سکارف پہنے لڑکیاں کام کرتی نظر آتی ہیں ۔ حتیٰ کے ٹی وی چینلز پر نیوز اینکرز، رپورٹزز بھی سرکو ڈھانپے دکھائی دیتی ہیں، سوال یہ ہے کہ فیشن انڈسٹری نے حجاب کو قبول کرلیا؟ حجاب کا تعلق صرف اسلام تک محدود نہیں ہے بلکہ مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں بھی اس کی اہمیت کو دیکھا جا سکتا ہے، جیسا کہ یہودی اور مسیحی روایات میں خواتین کا سر ڈھانپنا پاکیزگی اور عبادت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ہندو اور سکھ ثقافت میں بھی خواتین دوپٹے یا چادر سے خود کو ڈھانپتی ہیں، جو حیا اور احترام کی نشانی تصور کیا جاتا ہے۔ قدیم یونانی اور رومی معاشروں میں بھی مخصوص لباس عورت کی عزت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ممبر اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ “انسان کو اللہ تعالیٰ نے شرم و حیا کا فطری جذبہ بخشا ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی ہے کہ حضرت آدم ؑ پر شیطان نے سب سے پہلا حملہ کیا، انھیں بے پردہ اور بے لباس کیا۔ حضرت آدم نے خود کو درختوں کے پتوں سے ڈھانپا، جس کا مطلب ہے کہ خود کوباپردہ رکھنا انسان کی فطرت میں حضرت آدم ؑ سے شامل ہے۔” انھوں نے مزید کہا کہ “شیطان کا پسندیدہ ترین مشغلہ اسے بے حجاب کرنا ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے وہ انسان کو بے حجاب کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بے لباس اور بے حجاب ہونا حیوان کی فطرت میں شامل ہے۔” موجودہ وقت میں حجاب کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہےاور کئی مسلم خواتین اسے اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت کے طور پر اپنا رہی ہیں۔ دوسری طرف مغربی ممالک میں حجاب آزادیِ اظہار کی علامت کے طور پر بھی مقبول ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس بعض ممالک میں حجاب کو خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے۔ حجاب پر جاری عالمی بحث مذہبی آزادی، سماجی ہم آہنگی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک اہم موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سمیحہ راحیل کا کہنا ہے کہ “جو عورت باحجاب ہوتی ہے وہ زیادہ خوبصورت لگتی ہے۔ تمام مذاہب میں جب عورت اپنی مذہبی فرائض سرانجام دیتی ہے تو وہ ڈھیلے ڈھالے اور جسم کو ڈھکنے والے لباس زیب تن کرتی ہے۔ ہر مذہب میں باحجاب رہنا عزت کی علامت ہے اور یہی وجہ ہے کہ حجاب آزادی اور توانائی کی علامت ہے۔” اس وقت حجاب کے حوالے سے عالمی سطح پر دو متضاد نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک جانب بہت سی مسلمان خواتین اسے اپنی خودمختاری، مذہبی آزادی اور ثقافتی شناخت کا حصہ قرار دیتی ہیں تو دوسری جانب بعض خواتین اسے جبر کی علامت کا نام دیتی ہیں۔ نجی خبررساں ادارے ‘جیو نیوز’ کی نامہ نگار اور سینیئر صحافی دعا مرزا نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ””خواتین کی خود مختاری کا انحصار ان کی خود اعتمادی پر ہوتا ہے۔ اگر خواتین حجاب پہن کر پراعتماد ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ ورنہ بہت ساری ایسی خواتین ہیں جو حجاب کرتی تو ہیں لیکن وہ سماجی دباؤ کے تحت کرتی ہیں۔ جب یہ خواتین اس پر واپس ردِعمل دیتی ہیں تو بہت منفی بحث ہوتی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “یونیورسٹیز، اسکولز اور مدارس میں حجاب کرنا ضروری ہوتا ہے ساتھ ہی خاندان کا بھی دباؤ ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں جب باہر جا کر ابایا اترتا ہے تو اندر سے بغیر آستین کے لباس زین تن کیے ہوئے خواتین نکلتی ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک خودمختاری خود اعتمادی پر ہی منحصر ہے چاہے حجاب کیا ہو یا نہ کیا ہو”۔ حالیہ برسوں میں کئی عالمی فیشن برانڈز نے اپنے کلیکشنز میں حجاب کو شامل کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم خواتین کی فیشن مارکیٹ کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب لاہور کے شعبہ ابلاغیات کی پروفیسر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے نزدیک “فیشن انڈسٹری میں حجاب کا بڑھتا ہوا رجحان مسلم خواتین کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس سے فیشن انڈسٹری میں ان کی نمائندگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ اپنی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے فیشن کا حصہ بھی بن رہی ہیں۔” دنیا بھر میں مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنی مرضی اور پسند سے حجاب پہننے کو ترجیح دے رہی ہے۔ حجاب کو جبر کے بجائے خودمختاری اور مذہبی آزادی کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر مغربی ممالک میں جہاں اب مسلم خواتین اپنی شناخت کو فخر سے اپنا رہی ہیں۔ سینیئر صحافی دعا مرزا کا کے نزدیک “حجاب کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے کوئی دباؤ یا پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ جو جس طرح پرسکون ہے اسی طرح رہے۔ اس پر کوئی بھی فیصلہ تھونپا نہیں جانا چاہیے۔ ملازمت میں بھی حجاب کو لے کر مسائل کا سامنا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت ساری ایسی خواتین ہیں جو حجاب کرتی ہیں اور غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل ہیں۔ کسی پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔” آج کے جدید حجاب نہ صرف روایتی انداز کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ انہیں فیشن کے نئے رنگوں، ٹیکسچرز اور اسٹائلز میں متعارف کرایا جا رہا ہے جو نوجوان مسلم خواتین میں مقبول ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور جدید فیشن انڈسٹری میں بھی حجاب کو نت نئے انداز سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق “کچھ عالمی برانڈز مسلم خواتین کی ضروریات اور ثقافتی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے حجاب ڈیزائن کر رہے ہیں۔ لیکن یہاں یہ ضروری ہے کہ وہ مقامی ثقافتوں اور روایات کا احترام بھی کریں۔” حجاب اب صرف مذہبی فریضہ نہیں بلکہ خواتین کی خوداعتمادی اور آزادیِ اظہار کا مظہر بھی بن چکا ہے۔ میڈیا انڈسٹری میں بھی اس حوالے سے ایک اہم کردار رہا ہے۔ ڈاکٹر سمیعہ کے مطابق “کسی حد تک میڈیا کا ماننا ہے کہ جو عورتیں حجاب نہیں کرتیں وہ ماڈرن عورتیں ہیں، مگر یہ
سٹریس اور انزائٹی: خاموش قاتل جو زندگی کو متاثر کرتے ہیں

نئے سال کی پہلی صبح، ایک معمولی دن میں کچھ ایسا ہوا جس نے ہر انسان کی زندگی میں خوف اور دباؤ کی ایک نئی لہر دوڑا دی۔ یہ صرف ایک رپورٹ نہیں بلکہ حقیقت ہے جو ہمارے سامنے روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ذہن کی بے چینیاں، آپ کی زندگی کو کیسے تہس نہس کر سکتی ہیں؟ اسٹریس اور انزائٹی! یہ دونوں لفظ شاید آپ نے کئی بار سنے ہوں گے، لیکن کیا آپ ان کے درمیان فرق کو سمجھ پاتے ہیں؟ آج کی دنیا میں ہر انسان کہیں نہ کہیں اسٹریس کا شکار ہے۔ یہ وہ تناؤ ہوتا ہے جو ہم اپنی روزمرہ زندگی میں محسوس کرتے ہیں۔ کسی امتحان کی تیاری، یا دفتر کے کام کا دباؤ، گھر میں مسائل یا پھر زندگی کے بڑے فیصلوں کا خوف۔ یہ سب اسٹریس کے مختلف پہلو ہیں جو مختلف حالات میں ہمیں گھیر لیتے ہیں اور پھر ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ کیفیت وقتی ہوگی جیسے ہی وہ پریشانی ختم ہوگی اسٹریس بھی ختم ہو جائے گا۔ اسٹریس کا ردعمل جب جڑ پکڑ لیتا ہے تو وہ اس سے آگے بڑھ کر انزائٹی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ انزائٹی! یہ وہ خوف ہے جو ہماری زندگی کے ہر حصے میں سرایت کر جاتا ہے اور ہم یہ سمجھ نہیں پاتے کہ ہمارے دماغ میں یہ کیا ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹریس اور انزائٹی کے درمیان ایک باریک سا فرق ہے لیکن حقیقت میں یہ دونوں ہمارے دماغ پر اتنی گہری چھاپ چھوڑتے ہیں کہ ہم ان سے نجات پانے کے لیے اکثر ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسٹریس وہ مشکل لمحات ہیں جو وقتی طور پر آ کر ہمیں پریشان کر دیتے ہیں۔ آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ آپ کسی امتحان کے قریب آ کر شدید پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں؟ یا پھر کسی اہم کام کی تکمیل سے پہلے آپ کا دل دھڑکنے لگتا ہے؟ یہ وہ لمحے ہیں جب اسٹریس آپ کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے لیکن جوں ہی وہ امتحان یا کام ختم ہو جاتا ہے اسٹریس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن انزائٹی کا معاملہ مختلف ہے۔ انزائٹی اُس خوف کا نام ہے جو مسلسل آپ کے اندر بڑھتا رہتا ہے چاہے آپ کے ارد گرد کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہ خوف آپ کے دماغ میں ایک عذاب بن کر بیٹھا رہتا ہے، اور یہ وقت کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی سکون نہیں ملتا، اور آپ کی زندگی جیسے ایک مسلسل غمگینی کے سائے تلے ڈوب جاتی ہے۔ انزائٹی آپ کے دماغ کے اس پیچیدہ عمل کا نتیجہ ہوتی ہے جو اسٹریس کی شدت کو دلی خوف میں بدل دیتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں کے اثرات سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ اس پر قابو پانے کے لیے سادہ لیکن اہم باتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ ایکسرسائز، یوگا، نیند کا مکمل دورانیہ، اور صحت مند غذا ان مسائل کا مقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ کو اسٹریس اور انزائٹی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ذہنی سکون کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اپنے خیالات کو لکھنا بھی ایک بہترین طریقہ ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ سب تدابیر تب تک مفید رہیں گی جب تک آپ کی زندگی میں اسٹریس یا انزائٹی کی شدت نہ بڑھے۔ اگر آپ ان عوامل پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں تو ماہرِ نفسیات کی مدد ضرور حاصل کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ انزائٹی اور اسٹریس جیسے مسائل جسمانی اور ذہنی صحت پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ مسلسل پریشانی، سر میں درد، جسمانی تھکاوٹ، ہائی بلڈ پریشر، اور نیند کی کمی جیسے مسائل ان کا حصہ بنتے ہیں۔ اور جب یہ مسائل ایک دن یا ایک ہفتے تک نہ رکیں، تو انسان کی زندگی مکمل طور پر بدل جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا آپ انزائٹی اور اسٹریس کو اپنی زندگی کی کمزوری سمجھ کر ان سے فرار اختیار کریں گے؟ یا پھر ان کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کو نئے سرے سے ترتیب دیں گے؟ فیصلہ آپ کا ہے لیکن اسٹریس اور انزائٹی کو شکست دینے کے لیے خود کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان کی حقیقت کو جاننا ضروری ہے اور اس کے بعد ایک ایسا راستہ تلاش کرنا ضروری ہے جو آپ کو سکون کی طرف لے جائے۔ یاد رکھیں اسٹریس اور انزائٹی کا مقابلہ ایک جنگ ہے لیکن اگر آپ اپنی زندگی میں کچھ اہم تبدیلیاں کریں تو یہ جنگ جیتنا ممکن ہے۔
پاکستان انڈیا کرکٹ جنگ، نیٹ فلکس نے ٹریلر جاری کر دیا

نیٹ فلکس کی جانب سے کرکٹ اور سینیماکے شائقین کے لیے ” دی گریٹیسٹ رائولری: انڈیا ورسس پاکستان” کے نام سے سیریز لانے کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ سیریز 7 فروری کو نیٹ فلکس پر ریلیز ہوگی۔ نیٹ فلکس نے اپنی ویب سائٹ پر سیریز کا ٹریلر جاری کرتے ہوئے لکھا ۔ “پاکستان اور انڈیا کے درمیان سب سے بڑی جنگ کو کھوجتے ہوئے، یہ ڈاکیومینٹری کرکٹ پیچ کے پیچیدہ ماضی اور غیریقینی حال کی عکاسی کرے گی”۔ ٹریلر میں پاکستان اور انڈیا کے بڑے کھلاڑیوں کو دکھایا گیا ہے جن میں شعیب اختر، رمیز راجہ، وقار یونس، وریندر سہواگ، سارؤ گنگولی، سنیل گواسکر اور شیکر دھون شامل ہیں۔ سیریز کا ٹریلر دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کی جنگ، تاریخی، ثقافتی اور جذباتی پس منظر کے ساتھ دکھاتا ہے۔ لیجنڈ کرکٹرز ٹریلر میں انڈیا بمقابلہ پاکستان کے میچ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ View this post on Instagram A post shared by Netflix India (@netflix_in) ٹریلر میں سارؤ گنگولی کہتے ہیں کہ “کہنے کو تو اسے دوستانہ دورے کا نام دیا جاتا تھا لیکن شعیب اختر 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینک رہا ہے، اس میں دوستی کہاں ہے؟” یہ سیریز گرے میٹر میڈیا کی جانب سے بنائی جائے گی جس میں چاندرادیو، اور سٹیورٹ سوگ ہدایت کاری کریں گے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والے کرکٹ کے مقابلے سنسنی اور دلچسبی سے بھرپور ہوتا ہے۔ شائقین امید کر رہے ہیں کہ یہ سیریز پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی کرکٹ جنگ کو مزید دلچسب بنائے گی اور ہم محظوظ ہو سکیں گے۔
پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ، ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بھی بڑھ گئے

پاکستان میں پولیو کے کیسز ایک بار پھر بڑھتے جا رہے ہیں اور یہ خطرہ ملک کے سب سے غیر مستحکم اور شورش زدہ علاقوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ 2021 میں صرف ایک کیس رپورٹ ہونے کے بعد 2022 میں 73 کیسز سامنے آچکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ پولیو کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان ایک بار پھر شکست کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پاکستان کے صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سیاسی کشمکش اور دہشت گردی کی وجہ سے پولیو ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بڑھ گئے ہیں۔ جیسا کہ 2024 میں بھی کئی ٹیموں اور ان کے محافظوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ یہ پولیو زدہ علاقے افغانستان کی سرحد سے ملتے ہیں جہاں پولیو کے کیسز بڑھ رہے ہیں اور یہاں عالمی پولیو مہم کو سب سے زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان کے درمیان گہرے تعلقات کے بعدٹی ٹی پی نے پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال پولیو ٹیموں پر 25 سے زائد حملے ہو چکے ہیں۔ ایک طرف جہاں ملک کی حکومت پولیو کے خلاف لڑنے والے ہیروز کو تحفظ دینے کی کوششیں کر رہی ہے وہیں دوسری طرف دہشت گردگروپ سمجھتے ہیں کہ یہ مہم کسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد ان کی لڑائی کے خلاف جاسوسی کرنا ہے۔ نجی خبر رساں ادارے ‘دا واشنگٹن پوسٹ’ کے مطابق 2011 میں امریکی سی آئی اے نے اس مہم کو اس لیے بدنام کیا تھا کہ اس نے اسلحہ کی تلاش میں ایک جعلی ہیپاٹائٹس ویکسی نیشن مہم چلائی تھی۔ اس اقدام نے دہشت گردوں میں یہ تاثر پیدا کیا کہ یہ ویکسی نیشن مہم ایک قسم کی جاسوسی ہے۔ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کے کارکنان جنہیں روزانہ صرف 18 ڈالر ملتے ہیں ،وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کام کر رہے ہیں۔ دا واشنگٹن پوٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک علاقے میں 24 سالہ احمد بھٹانی نے اپنے جان کے خوف سے پولیو ویکسی نیشن کے کام سے استعفیٰ دے دیا۔ اس نوجوان نے بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی پولیس کی حفاظت میں ویکسین دینے جا رہے تھے جب ایک حملہ آور گروپ نے ایک پولیس افسر کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد اس کے لیے اپنے ہی گاؤں جانا بھی خطرے سے خالی نہیں رہا۔ احمد بھٹانی کا مزید کہنا تھا” کہ اب میں اپنے گاؤں بھی نہیں جا سکتا کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ دہشت گرد مجھے مار ڈالیں گے”۔ ٹی ٹی پی کی نظر میں اگر ویکسی نیشن ٹیمیں پاکستانی فوج کی بجائے ان کے ساتھ تعاون کریں تو وہ ان کی مکمل حفاظت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پولیو کے حوالے سے ایک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کو دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا تو ہے ہی اس کے ساتھ ہی ساتھ پولیو ویکسین کی ترسیل میں درپیش مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سردی کی حالت میں ویکسین کی حفاظت میں نقائص اور ویکسین کی ناکافی فراہمی ان مسائل میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گاؤں دیہات میں صاف پانی کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ پولیو وائرس آلودہ پانی پینے سے پھیلتا ہے۔ پاکستان کے مشہور معالج ڈاکٹر نسیر رانا کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پولیو ویکسی نیشن ٹیموں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ صحت کے کارکنوں کے لیے بہتر مراعات فراہم کرے۔انہوں نے کہا کہ “یہ کارکنان قومی ہیروز ہیں جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر لوگوں کی زندگی بچا رہے ہیں، ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔” پاکستان اور افغانستان میں پولیو کی وبا کا بڑھنا ایک عالمی بحران بن سکتا ہے۔اور اگر عالمی سطح پر اس مسئلے کا فوری حل نہ نکالا گیا تو پولیو کا وائرس پوری دنیا میں پھیل سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکہ نے پاکستان کو پولیو کے خلاف مہم کے لیے تقریباً 7 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی تھی لیکن اگر اس امداد میں کمی آئی تو یہ پاکستان اور افغانستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان کے سابق پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے خبردار کیا ہے کہ “اگر پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے خلاف اس وقت کے اقدامات میں کمی آئی تو اس کے اثرات بہت سنگین ہو سکتے ہیں اور یہ نہ صرف ان دونوں ملکوں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جائے گا۔” اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو نہ صرف بچے مفلوج ہو سکتے ہیں بلکہ یہ وائرس دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی پھیلنے کا خطرہ بن سکتا ہے۔ حکومت اور عالمی برادری کو اس بحران کا فوری اور مؤثر حل نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید بچوں کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔
فلمی نغموں سے حمدونعت کا سفر، روحانی سکینت بخشتی شاعری نے مظفر وارثی کو امر کر دیا

آج اُردو ادب اور اسلامی شاعری کے عظیم شاعر، نغمہ نگار اور نعت خواں مظفر وارثی کی چودہویں برسی منائی جارہی ہے۔ 28 جنوری 2011 کو لاہور میں وفات پانے والے مظفر وارثی کا نام صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری کی گونج آج بھی دلوں میں زندہ ہے اور ان کا کلام اردو ادب اور اسلامی شاعری کے خزانے کا ایک انمول حصہ ہے۔ مظفر وارثی 1933 میں بھارت کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا ادبی سفر ابتدا میں فلمی نغمہ نگاری کے ذریعے شروع ہوا، جہاں انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ تاہم، بہت جلد ان کی طبیعت میں ایک گہری روحانیت اور دینی لگاؤ پیدا ہوا، جس کے باعث انہوں نے نعت و حمد کے میدان میں قدم رکھا۔ ان کی شاعری کا رنگ اور اثر الگ تھا، اور یہی وہ وقت تھا جب مظفر وارثی نے اپنا نام عالمی سطح پر روشن کیا۔ مظفر وارثی کی شاعری نے انہیں ایک خاص مقام دلایا۔ ان کی نعتیں اور حمدیہ اشعار ایمان کی گہرائیوں تک پہنچتے ہیں اور ان کی زبان میں ایک ایسی تاثیر تھی کہ ان کا کلام سنتے ہی دل میں سکون اور محبت کا ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ ان کی ایک مشہور نعت “یہ روشنی جہاں سے آئی ہے” آج بھی لوگوں کے دلوں میں گونج رہی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں حضرت محمد ﷺ سے محبت کی ایک لہر پیدا کی اور ان کی حمد اور نعتوں میں اللہ کی عظمت کو بے مثال انداز میں بیان کیا۔ ان کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے سادگی کے ساتھ گہری روحانیت کو پیش کیا، جو ہر کسی کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔ مظفر وارثی کی شاعری کی کامیابیاں اور پذیرائیاں صرف پاکستان تک محدود نہیں رہیں۔ انہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے عالمی سطح پر بھی شہرت حاصل کی۔ ان کی نعتوں اور حمد کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اور ان کے کلام نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں لاکھوں دلوں کو چھوا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں “پرائیڈ آف پرفارمنس” ایوارڈ سے نوازا، جو ملک کے اعلیٰ ترین ادبی اعزازات میں شمار ہوتا ہے۔ 28 جنوری 2011 کو مظفر وارثی کا انتقال ہو گیا، لیکن ان کی شاعری کا اثر آج بھی زندہ ہے۔ ان کے کلام کی محبت میں کمی نہیں آئی، بلکہ ہر گزرتے سال کے ساتھ ان کی شاعری کی اہمیت اور گہرائی کو مزید سراہا گیا ہے۔ آج بھی مختلف محافل اور محافلِ نعت میں ان کے کلام کو پیش کیا جاتا ہے، اور ان کی آواز کا اثر آج بھی لوگوں کے دلوں میں محسوس ہوتا ہے۔ ان کی شاعری نہ صرف اُردو ادب کا خزانہ ہے بلکہ اسلامی شاعری کے لیے بھی ایک نیا سنگ میل ثابت ہوئی۔ ان کا کلام انسانیت کی خدمت اور محبت کا پیغام ہے، جو کسی بھی زبان یا سرحد سے آزاد ہے۔ آج، مظفر وارثی کی چودہویں برسی کے موقع پر ادبی حلقوں، شاعروں اور علمی تنظیموں نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ مختلف شہروں میں ان کی شاعری کی محافل منعقد کی گئیں اور ان کی نعتوں کو سن کر لوگوں نے اپنے دلوں کو سکون بخشا۔ اس دن کی اہمیت اس بات میں بھی ہے کہ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ شاعری صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک زبان ہے جو دلوں کی گہرائیوں میں اثر ڈالتی ہے۔ مظفر وارثی کی چودہویں برسی پر ان کی شاعری اور نعتوں کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ ان کا کلام آج بھی دنیا بھر میں لوگوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے۔ ان کی شاعری نے نہ صرف اردو ادب کو مالا مال کیا بلکہ اسلامی شاعری کے دائرے میں بھی ایک نیا باب رقم کیا۔ مظفر وارثی کی تخلیقات کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی، اور ان کا کلام آنے والی نسلوں کو محبت، عقیدت اور روحانیت کا پیغام دیتا رہے گا۔
سڑکوں پر’کش‘ لگانے پر پابندی، جاپان ایسا کیوں کررہا ہے؟

جاپان کے شہر اوساکا میں 2025 کی ورلڈ ایکسپو کی تیاریاں جاری ہیں، عالمی ایونٹ سے قبل ہی سڑکوں پر تمباکو نوشی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ ایکسپو اپریل میں شروع ہوگی، جس میں تقریباً 160 ممالک اور علاقے حصہ لیں گے۔ سیگریٹ نوشی پر پابندی لگانے کا مقصد شہر کو صاف اور دھوئیں سے پاک بنانا ہے۔ پابندی پیر27 جنوری سے نافذ کردی گئی ہے۔ جب کہ اوساکا اسٹیشن کے قریب پہلے سے کچھ علاقوں میں پابندیاں تھیں۔ پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 1,000 ین (6.40 ڈالر) جرمانہ ہوگا۔ اوساکا کے میئر ہیڈی یوکی یوکویاما نے کہا کہ پابندی کا مقصد شہر کو دنیا بھر سے آنے والے لوگوں کے لیے خوشگوار اور محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے۔ اگرچہ جاپان کے دوسرے علاقوں میں سڑکوں پر تمباکو نوشی پہلے ہی ممنوع ہے، کچھ قانون سازوں کی مزاحمت کی وجہ سے ملک بھر میں مزید سخت قوانین نافذ نہیں ہو سکے۔ اوساکا میں اب بھی کچھ ریستورانوں میں مخصوص کمروں میں تمباکو نوشی کی اجازت ہے، مگر اپریل سے 30 مربع میٹر سے زیادہ جگہ والے کھانے پینے کے مقامات کے اندر تمباکو نوشی پر پابندی ہوگی۔ اوساکا کے لیے 2025 کا ایکسپو ایک بہت اہم ایونٹ ہے، لیکن ٹکٹوں کی فروخت میں سستی کی وجہ سے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ جنوری کے اوائل تک 7.5 ملین ٹکٹ فروخت ہو چکے تھے، جو 15 ملین کے ہدف سے کم ہیں۔ اس کے علاوہ، ایونٹ کے لیے تعمیراتی بجٹ پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ 2018 میں ٹوکیو اولمپکس کی تیاری کے دوران، ٹوکیو نے بھی تمام ریستورانوں میں تمباکو نوشی پر پابندی عائد کی تھی، مگر کچھ علاقوں میں باہر تمباکو نوشی کی اجازت اب بھی ہے۔ جاپان کی معیشت میں تمباکو کی فروخت اہم کردارادا کرتی ہے، کیونکہ حکومت سگریٹ ٹیکس سے تقریباً دو ٹریلین ین (13 بلین امریکی ڈالر) کماتی ہے اور جاپان ٹوبیکو کمپنی میں حکومت کا ایک تہائی حصہ ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں جاپان میں تمباکو نوشی کی شرح کم ہو رہی ہے، اور 2023 میں صرف 15.7 فیصد لوگ تمباکو نوشی کرتے ہیں، جو عالمی رجحان کی عکاسی ہے۔
سیف علی خان کے 15 ہزار کروڑ داؤ پر لگ گئے

معروف بالی وڈ اداکار سیف علی خان اس وقت ایک قانونی تنازعے میں گھِرے ہوئے ہیں جس کی جڑیں پاکستان سے جڑتی ہیں،بالی ووڈ کے اس اسٹار پر چاقو سےحملے کی خبریں تو میڈیا کی سرخیوں میں رہ چکی ہیں لیکن اب ان کی جائیداد اور پاکستان سے تعلق کا تنازعہ زیادہ زور پکڑ چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا کی حکومت سیف علی خان کی 15 ہزار کروڑ روپے مالیت کی جائیداد ضبط کرنے جا رہی ہے؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہو گی؟ بھوپال کا شاہی خاندان اور پاکستان کا تعلق یہ تمام تنازعہ اس جائیداد کے حوالے سے ہے جو بھوپال کے نواب خاندان کی موروثی ملکیت تھی۔ ہندوستان کی آزادی سے پہلے بھوپال ایک شاہی ریاست تھی اور اس کے نواب حمید اللہ خان کی سب سے بڑی بیٹی عابدہ سلطان 1948 میں پاکستان چلی گئیں۔ اس کے بعد 2015 میں حکومتِ ہند نے اس زمین کو “دشمن کی جائیداد” قرار دے دیا، اس ایک فیصلے نے پورے تنازعے کو جنم دیا، اور سوالات اٹھنے لگے کہ اس جائیداد کا کیا ہوگا؟ پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1965 کی جنگ کے بعد “اینیمی پراپرٹی ایکٹ” منظور کیا گیا تھا جس کے تحت وہ افراد جنہوں نے انڈیا چھوڑ کر پاکستان کا رخ کیا ان کی جائیدادوں اور کاروباروں کا کنٹرول حکومتِ انڈیا نے سنبھال لیا۔ اس قانون کے مطابق پاکستان یا چین کی شہریت اختیار کرنے والے افراد کی جائیداد “دشمن کی جائیداد” قرار پاتی ہے اور ان کا انتظام حکومت کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ دوسری جانب سیف علی خان کی جائیداد میں کئی اہم جائیدادیں شامل ہیں جن میں بھوپال کی موروثی جائیداد “فلیگ سٹاف ہاؤس”، “نور الصباح پیلس”، “دارالسلام”، “حبیبی بنگلہ”، “احمد آباد پیلس”، اور “کوہِ فضا” کی پراپرٹیز شامل ہیں۔ قبل ازیں جب حکومتِ ہند نے 2015 میں ان جائیدادوں کو “دشمن کی جائیداد” قرار دیا تو سیف علی خان کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا ہو گیا۔ ان کی والدہ شرمیلا ٹیگور اور خود سیف علی خان نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس فیصلے کے خلاف قانونی جنگ شروع کر دی۔ سیف علی خان کا اس جائیداد سے تعلق اس وقت بنتا ہے جب ہم عابدہ سلطان کی کہانی پر نظر ڈالیں۔ عابدہ سلطان جو بھوپال کے نواب حمید اللہ خان کی بیٹی تھیں،انہوں نے 1948 میں پاکستان جانے کا فیصلہ کیااور اس فیصلے کے بعد ان کی جائیداد پر حکومت انڈیا نے اپنا قبضہ جمانا شروع کیا۔ 2015 میں جب حکومتِ انڈیا نے ان جائیدادوں کو “دشمن کی جائیداد” قرار دیا، تو یہ بات مزید پیچیدہ ہو گئی کہ آیا سیف علی خان ان جائیدادوں کے قانونی وارث ہیں یا نہیں؟ بی بی سی اردو کے مطابق سیف علی خان اور ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ یہ جائیدادیں دراصل ان کی دادی ساجدہ سلطان کی ہیں اور اس پر ان کا قانونی حق ہے۔ ساجدہ کی شادی پٹودی کے نواب افتخار علی خان سے ہوئی تھی جو انڈیا کے سابق کرکٹ کپتان منصور علی خان پٹودی کے والد تھے اور سیف علی خان کے دادا تھے۔ اس بنیاد پر سیف علی خان کے وکلا کا موقف ہے کہ یہ جائیدادیں “دشمن کی جائیداد” قرار نہیں دی جا سکتیں کیونکہ یہ انڈیا میں واقع ہیں اور اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دسمبر 2024 میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اس تنازعے پر فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ سیف علی خان اور ان کے خاندان کو اینیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت اپیل دائر کرنی ہو گی۔ اس فیصلے کے بعد یہ سوالات مزید گمبھیر ہو گئے کہ آیا سیف علی خان کی 15 ہزار کروڑ کی جائیداد حکومتِ انڈیا کے قبضے میں چلی جائے گی یا وہ اس قانونی جنگ میں کامیاب ہو پائیں گے۔ اس وقت تمام نظریں اس قانونی جنگ پر مرکوز ہیں اور کوئی بھی یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ سیف علی خان کی جائیداد پر حکومت کا قبضہ ایک پیچیدہ قانونی مسئلہ بن چکا ہے جس میں ان کے خاندان کا حق تسلیم کرنے کی جدوجہد جاری ہے۔ یہ تنازعہ صرف قانونی نہیں بلکہ انڈیا اور پاکستان کے سیاسی اور تاریخی تعلقات سے بھی جڑا ہے جس کی قیمت مالی سے بڑھ کر ایک گہرا سیاسی پہلو اختیار کر چکی ہے۔
رجب بٹ کو شیر کے بچے کو غیر قانونی طور پر رکھنے پر سزا

معروف ٹک ٹاکر رجب بٹ کو شیر کے بچے کو غیر قانونی طور پر رکھنے کے الزام میں عدالت نے سزا سنادی۔ اس کیس میں جیوڈیشل مجسٹریٹ نے رجب بٹ کو ایک سال کی کمیونٹی سروس کرنے کا حکم دیا، لیکن اس سزا کی نوعیت اور رجب بٹ کا اعتراف جرم اس کیس کو ایک منفرد اور دلچسپ موڑ دیتا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب وائلڈ لائف آفیسر نے رجب بٹ کے خلاف ایک درخواست جمع کروائی جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ رجب بٹ نے شیر کا بچہ اپنے پاس رکھا تھا۔ رجب بٹ نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ جانتے بوجھتے نہیں تھے کہ جنگلی جانوروں کو غیر قانونی طور پر رکھنا جرم ہے۔ رجب بٹ نے عدالت میں بیان دیا، کہ”میں نے اس عمل سے ایک غلط مثال قائم کی اور اب مجھے احساس ہو گیا ہے کہ جنگلی جانوروں کو اس طرح رکھنا غیر مناسب ہے۔” اس کے بعد انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور کہا کہ “مجھے یہ علم نہیں تھا کہ جنگلی جانور تحفے کے طور پر وصول نہیں کیے جا سکتے تھے۔” اس بیان کے بعد عدالت نے رجب بٹ کو ایک سال کی کمیونٹی سروس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں وہ پروبیشن آفیسر کے ماتحت کام کرے گا۔ اس کمیونٹی سروس کا حصہ یہ تھا کہ رجب بٹ ہر ماہ اپنے سوشل میڈیا پر وی لاگ کے ذریعے جانوروں کے حقوق اور تحفظ کے بارے میں آگاہی فراہم کرے گا۔ ان وی لاگ میں وہ اس بارے میں گفتگو کرے گا کہ جنگلی جانوروں کے تحفظ اور ان کے حقوق کو کس طرح یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ رجب بٹ کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ یہ وی لاگ اپنے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپلوڈ کرے گا۔ یہ فیصلہ نہ صرف رجب بٹ کے لیے ایک سبق ہے بلکہ ایک بڑا پیغام بھی دیتا ہے کہ سوشل میڈیا پر مشہور شخصیات کو اپنے اثر و رسوخ کا درست استعمال کرنا چاہیے۔ عدالت نے وائلڈ لائف محکمہ کو ہدایت کی کہ وہ رجب بٹ کو جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے تمام ضروری مواد فراہم کرے تاکہ وہ آگاہی مہم میں بھرپور حصہ لے سکے۔ رجب بٹ نے اپنے عمل پر پچھتاوا ظاہر کیا اور کہا کہ اب وہ جنگلی جانوروں کے حقوق کے بارے میں مثبت پیغام رسانی کرے گا۔ اس فیصلے کے بعد رجب بٹ نے عدالت سے درخواست کی کہ اسے اپنی غلطی کو سدھارنے کا موقع دیا جائے۔ عدالت نے اس درخواست پر غور کرتے ہوئے اسے ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ رجب بٹ کے اس معاملے نے نہ صرف لاہور بلکہ پورے ملک میں جنگلی جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹک ٹکر اس ایک سال کی کمیونٹی سروس کے دوران کس حد تک لوگوں کو آگاہی دے پاتا ہے اور اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔
دنیا بھر میں’پیدائش کا انقلاب‘ کیسے آرہا ہے؟

دنیا بھر میں ‘جڑواں بچوں کی پیدائش’ کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور یہ رجحان موجودہ دور میں اس قدر تیز ہوا ہے کہ اسے تاریخ کا سب سے بڑا ’پیدائش کا انقلاب‘ کہا جا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب جڑواں بچوں کا پیدا ہونا ایک نادر بات سمجھی جاتی تھی مگر اب وہ دور گزر چکا ہے۔ ماہرین کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح گزشتہ چند برسوں میں تین گنا بڑھ چکی ہے اور اب یہ رجحان تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر 60 میں سے ایک حمل جڑواں بچوں کا ہوتا ہے اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ شرح مزید بڑھ سکتی ہے۔ جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافہ کی سب سے بڑی وجہ ’عمر‘ ہے۔ جی ہاں! وہ خواتین جو 35 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہوتی ہیں ان میں جڑواں بچوں کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ سائنسی جوہات اس سب کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کے ہارمونز میں تبدیلیاں آتی ہیں جس کے نتیجے میں ایک سے زیادہ انڈے بیضہ دانی سے خارج ہوتے ہیں اور اس طرح جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔دنیا بھر میں آئی وری ایف کا استعمال بڑھتا جارہا ہے جو جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے یہ رجحان ایک جزو ہےلیکن سماجی اور معاشی عوامل بھی اس میں شامل ہیں۔ دنیا بھر میں خواتین کا بچہ پیدا کرنے کا رجحان دیر سے ہو رہا ہے خواتین اب پہلے کی نسبت زیادہ عمر میں بچے پیدا کر رہی ہیں اور یہ عمل جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 2050 سے 2100 تک تمام ممالک میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو گا۔ اس سب کا بڑا سبب وہ سماجی تبدیلیاں ہیں جن کے تحت خواتین کا اپنے کیریئر اور ذاتی زندگی پر زیادہ توجہ دینے کا رجحان بڑھا ہے جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافہ ایک قدرتی تبدیلی ہے، مگر اس کے ساتھ پیچیدگیاں اور ماؤں کی صحت پر اضافی بوجھ بھی آ سکتا ہے۔ اس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ محض خوش آئند نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں صحت کی سہولتوں اور طبی طریقہ کار ضرورت ہوگی۔