دنیا بھر میں’پیدائش کا انقلاب‘ کیسے آرہا ہے؟

دنیا بھر میں ‘جڑواں بچوں کی پیدائش’ کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور یہ رجحان موجودہ دور میں اس قدر تیز ہوا ہے کہ اسے تاریخ کا سب سے بڑا ’پیدائش کا انقلاب‘ کہا جا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب جڑواں بچوں کا پیدا ہونا ایک نادر بات سمجھی جاتی تھی مگر اب وہ دور گزر چکا ہے۔ ماہرین کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح گزشتہ چند برسوں میں تین گنا بڑھ چکی ہے اور اب یہ رجحان تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر 60 میں سے ایک حمل جڑواں بچوں کا ہوتا ہے اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ شرح مزید بڑھ سکتی ہے۔ جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافہ کی سب سے بڑی وجہ ’عمر‘ ہے۔ جی ہاں! وہ خواتین جو 35 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہوتی ہیں ان میں جڑواں بچوں کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ سائنسی جوہات اس سب کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کے ہارمونز میں تبدیلیاں آتی ہیں جس کے نتیجے میں ایک سے زیادہ انڈے بیضہ دانی سے خارج ہوتے ہیں اور اس طرح جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔دنیا بھر میں آئی وری ایف کا استعمال بڑھتا جارہا ہے جو جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے یہ رجحان ایک جزو ہےلیکن سماجی اور معاشی عوامل بھی اس میں شامل ہیں۔ دنیا بھر میں خواتین کا بچہ پیدا کرنے کا رجحان دیر سے ہو رہا ہے خواتین اب پہلے کی نسبت زیادہ عمر میں بچے پیدا کر رہی ہیں اور یہ عمل جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 2050 سے 2100 تک تمام ممالک میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو گا۔ اس سب کا بڑا سبب وہ سماجی تبدیلیاں ہیں جن کے تحت خواتین کا اپنے کیریئر اور ذاتی زندگی پر زیادہ توجہ دینے کا رجحان بڑھا ہے جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافہ ایک قدرتی تبدیلی ہے، مگر اس کے ساتھ پیچیدگیاں اور ماؤں کی صحت پر اضافی بوجھ بھی آ سکتا ہے۔ اس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ محض خوش آئند نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں صحت کی سہولتوں اور طبی طریقہ کار ضرورت ہوگی۔
سیف علی خان کی 150 ارب کی جائیداد ضبط، آخر معاملہ کیا ہے؟

سیف علی خان کچھ وقت سے خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ ہسپتال سے گھر چلے گئے ہوں اور خنجر کے حملے کے بعد صحت مند ہونے جا رہے ہوں مگر مشکلات اور پریشانیاں ان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق تقریباً 15کروڑ مالیت کی جائیداد جس کے مالک پٹودی فیملی ہے اور جس کا حصہ سیف علی خان بھی ہیں، اینیمی پراپرٹی ایکٹ 1968کے تحت حکومت ضبط کر سکتی ہے۔ اس سے پہلے 2019 میں، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ان جائیدادوں پر لگائی گئی پابندی کو ہٹا دیا تھا۔ فیصلے میں ان میں سے کچھ جائیدادوں میں سیف کا بچپن کا گھر فلیگ اسٹاف ہاؤس، نور الصباح پیلس، دارالسلام، حبیبی کا بنگلہ، احمد آباد پیلس، کوہیفزہ پراپرٹی، اور دیگر شامل ہیں۔ اب، حکومت ان املاک کو اینیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت ضبط کر سکتی ہے، حکومت کو ان لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دیتا ہے جو تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ اینیمی پراپرٹی ایکٹ 1968 کیا ہے؟ اینیمی پراپرٹی ایکٹ حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ لوگ جو تقسیم ہند کے بعد انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے ہیں ان کی جائیداد ضبط کی جا سکتی ہیں۔ 1965 اور 1971 کی پاک انڈیا جنگ کے بعد بہت سے لوگوں نے اپنی جائیداد چھوڑتے ہوئے انڈیا سے پاکستان ہجرت کی۔ انڈیا کے دفاعی ایکٹ کے مطابق وہ لوگ جو پاکستان کی شہریت حاصل کر لیتے ہیں انڈین حکومت ان کی جائیداد ضبط کر سکتی ہے۔ مرکزی حکومت ان جائیدادوں کو “دشمن کی جائیداد” کے نام سے اپنے قانون میں لکھتی ہے۔ ایسا تب بھی ہوا تھا جب کچھ لوگ 1962 کی سائنو انڈین جنگ کے بعد چین ہجرت کر گئے تھے۔ اینیمی پراپرٹی ایکٹ میں 2017 میں ترمیم ہوئی اور یہ طے پایا کہ جو بھی شخص اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جائے گا چاہے وہ ملک انڈیا کا کسی بھی طرح سے دشمن ہو یا نہ ہو، اس کی جائیداد ضبط کی جا سکتی ہے۔ پٹودی خاندان کی جائیداد اینیمی پراپرٹی ایکٹ سےکیسے تعلق رکھتی ہے؟ تقسیمِ ہند کے وقت ریاست بھوپال کے نواب حمیداللہ تھے۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں جن میں سب سے بڑی عابدہ سلطان تھیں جو پاکستان ہجرت کر گئیں۔ دوسری بیٹی جو انڈیا میں ہی رہیں ان کا نام ساجدہ سلطان تھا اور ان کی شادی نواب افتخار علی خان پٹودی سے ہوئی جنہیں نواب آف پٹودی بھی کہا جاتا ہے۔ ساجدہ اپنے والد کی وفات کے بعد وراثت کی مالکن گئیں۔ساجدہ کا بیٹا منصور علی خان تھا جو کہ ایک کرکٹر تھے۔ ان کا بیٹاسیف علی خان ہے جو ساجدہ سلطان کا پوتا ہے اور جنہیں وراثت میں جائیداد ملی ہے۔ 2014 میں اینیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت بھوپال میں پٹودی خاندان کی جائیداد کو اینیمی پراپرٹی کہا گیا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ عابدہ سلطان جو کہ ساجدہ کی بڑی بہن ہیں پاکستان ہجرت کر گئی تھیں اس لیے اس جائیداد کو اینیمی پراپرٹی کہا جا سکتا ہے۔ یہ مسئلہ تب پیداہوا جب 2016 میں پٹودی خاندان کی جائیداد کے متعلق آرڈیننس دیا جس کے مطابق انڈین حکومت نے کہا کہ ورثاء جائیداد کو حاصل نہیں کر سکتے۔ پٹودی کاندان کی جائیداد کو اینیمی پراپرٹی قرار دینے کے خلاف پٹودی خاندان نے 2015 میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں گئی۔ ہائی کورٹ نے اس وقت جائیداد کو پٹودی خاندان کی ہی رہنے دیا جب کہ بعد میں 2019 میں ساجدہ سلطان کو قانونی وارث تسلیم کر لیا۔ جب کہ پچھلے مہینے ہائی کورٹ نے سیف علی خان کی پٹیشن کو برطرف کر دیا۔ سیف اب تک پٹودی محل کےبھی قانونی وارث بھی ہیں۔ اس سے قبل یہ محل ایک ہوٹل چین کو لیز پر دیا گیا تھا۔ ” سیف نے پہلے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ “میرے والد نے اسے لیز پر دیا اور فرانسس (واکزیرگ) اور امان (ناتھ)، جو وہاں ایک ہوٹل چلاتے تھے، جائیداد کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے تھے۔ میری والدہ (شرمیلا ٹیگور) کیا ایک چھوٹا سا گھر ہے اور وہ ہمیشہ بہت سکون سے رہتی ہیں”۔ سیف نے 2021 میں بالی ووڈ ہنگامہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، “یہ ایک منصفانہ مالیاتی انتظام تھا اور رپورٹس کے برعکس، مجھے اسے واپس خریدنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ میں پہلے ہی اس کا مالک تھا”۔ سیف اب محل کو گرمیوں میں استعمال کرتے ہیں اور اکثر اسے فلم کی شوٹنگ کے مقصد کے لیے فلم پروڈکشنز کو لیز پر دیتے ہیں۔ ہاؤسنگ ڈاٹ کام کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں، ان کی بہن سوہا نے محل کی تاریخ کے بارے میں کچھ اور یادیں شیئر کیں، اور کہا کہ سیف ہی اس کا مالک ہے۔ سوہا نے انکشاف کیا کہ ان کی دادی ساجدہ سلطان بھوپال کی بیگم تھیں اور ان کے دادا پٹودی کے نواب تھے۔ وہ کئی سالوں سے اس سے محبت کرتا تھا لیکن اس کے والد نے اسے اس سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ پٹودی محل ان کے سسر کو متاثر کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ سوہا نے مزید کہا، “انہوں نے اسے 1935 میں بنایا تھا تاکہ وہ شادی کر سکیں۔ وہ اپنے سسر کو متاثر کرنا چاہتا تھا لیکن اسے بنانے کے آدھے راستے میں اس کے پاس پیسے ختم ہو گئے! اس لیے جب آپ وہاں جائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں بہت سارے قالین ہیں اور ان میں سے کچھ کے نیچے سنگ مرمر کے فرش ہیں، لیکن ان میں سے اکثر میں عام سیمنٹ ہے، کیونکہ اس کے پاس پیسے ختم ہو گئے ہیں”۔ سیف علی خان نے ابھی تک عدالت کے اس نئے فیصلے پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی کچھ جائیداد ضبط کی جا سکتی ہے۔ سیف علی خان 16 جنوری کو ممبئی میں ان کی رہائش گاہ پر ہونے والے چاقو کے حملے کے بعد صحت یاب ہو رہے ہیں جب ایک حملہ آور نے چوری کی ناکام کوشش کے بعد فرار ہونے کی کوشش کی۔ اس عمل میں سیف کی ہاتھا پائی ہو گئی اور چور نے
آن لائن جنسی استحصال: اپنے بچوں کو کیسے محفوظ بنائیں؟

بچوں کا آن لائن جنسی استحصال باقاعدگی سے ہو رہا ہے، اور یہ مسئلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کے سدباب کے لیے چند اہم تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق 12 میں سے ایک بچے کو آن لائن جنسی استحصال اوربدسلوکی کا سامنا کرنے کے بعد محققین عالمی سطح پر کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس مطالعے میں عوام اور پالیسی سازوں کی جانب سے آگاہی اور اقدامات میں اضافے کی فوری ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک ہیلتھ میں ہیلتھ پالیسی اور بیہیورل سائنسز کے ریسرچ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ژیانگ منگ فینگ نے کہا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی اور انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون تک رسائی میں اضافہ ، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ، ہر روز زیادہ سے زیادہ بچوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ رسالہ دی لانسیٹ چائلڈ اینڈ ایڈولسٹنٹ ہیلتھ میں منگل کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں 2010 سے 2023 کے درمیان 123 مطالعات کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا۔ اس کے بعد محققین نے 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد کا تجزیہ کیا جو جنسی استحصال کی کسی بھی ذیلی قسم کے سامنے آئے تھے۔ ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ کے Know2 Project مہم کی ڈائریکٹر کیٹ کینیڈی نے کہا کہ ’گزشتہ برس نیشنل سینٹر فار مسنگ اینڈ ایکسپلوٹڈ چلڈرن اینڈ ہوم لینڈ سیکیورٹی انویسٹی گیشنز کو بچوں کے جنسی استحصال کی 3 کروڑ 60 لاکھ سے زائد رپورٹس موصول ہوئیں۔ “انٹرنیٹ ایک کرائم سین بن گیا ہے، جہاں بچوں کو ہر سیکنڈ میں تقریبا دس بار جنسی استحصال اور زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے. فینگ نے ایک ای میل میں کہا کہ یہ ایک عالمی صحت کی ہنگامی صورتحال ہے جس کا تعلق خراب ذہنی اور جسمانی صحت، روزگار کے امکانات میں کمی اور کم متوقع عمر سے ہے۔ “لیکن یہ روک تھام کے قابل ہے، ناگزیر نہیں۔ (آن لائن بچوں کا جنسی استحصال) بچپن کے صحت عامہ کے دیگر بڑے مسائل جیسے دمہ، موٹاپا اور اے ڈی ایچ ڈی کے مقابلے میں زیادہ عام ہے اور اگر ہم ان کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کریں جیسا کہ روک تھام پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے صحت عامہ کے مسئلے کے طور پرتو ہم بچوں کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ یہ جاننا کہ آن لائن جنسی زیادتی اور استحصال کیسا نظر آتا ہے اس کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔ محققین نے آن لائن جنسی استحصال کی تعریف اس طرح کی ہے کہ پیسے یا وسائل کے لئے جنسی عمل کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ فینگ نے کہا کہ یہ “کھانا، کپڑے،رہائش، پیار، تحفظ، تعلق، تحفے، یا نوجوان شخص یا بچے کے لئے قابل قدر کوئی اور چیز ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آن لائن درخواست جنسی پوچھ گچھ اور طویل مدتی جنسی گفتگو ہے ، جس سے جنسی تصاویر یا ویڈیوز کا تبادلہ ہوسکتا ہے۔ ’یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ مختلف قسم کی آن لائن درخواستیں اکثر ساتھیوں کے ساتھ ساتھ بالغ مجرموں کی طرف سے بھی آتی ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ جنسی تصاویر کو غیر رضامندی سے لینا، شیئر کرنا اور ان کے سامنے آنا اس وقت ہو سکتا ہے جب کوئی بچہ نشے کی حالت میں ہو،بھٹکا ہوا ہو، بے ہوش ہو یا رضامندی دینے سے قاصر ہو۔ استحصال اور بدسلوکی اس وقت بھی ہوسکتی ہے جب کسی بچے کا چہرہ کسی اور کی جنسی تصویر پرلگایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر، ڈیپ فیکس اور دیگر تکنیکی ترقی کے استعمال نے جنسی بھتہ خوری، استحصال اور بدسلوکی میں اضافے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ فینگ کا مزید کہنا تھا کہ ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بے ضرر تصاویر نہیں ہیں، یہ انتہائی نقصان دہ ہیں‘۔ فیئرلی ڈکنسن یونیورسٹی میں کمیونیکیشن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کارا الیمو نے کہا کہ بچوں سے ان کی حفاظت کے بارے میں آن لائن بات کرنا انہیں آن لائن جنسی استحصال سے بچانے میں ایک اہم پہلا قدم ہے۔ “اوور دی انفلوئنس” کے مصنف ایلیمو نے کہا کہ جب نگرانی کی بات آتی ہے تو ، آپ کے بچے کی حفاظت پر نظر رکھنے کے طریقے موجود ہیں جبکہ انہیں کچھ رازداری کی اجازت بھی دی جاتی ہے ،جس میں انسٹاگرام پرایک نیا فیچر بھی شامل ہے جو والدین کو یہ رسائی دیتا ہے کہ ان کا بچہ کس کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے جبکہ پیغامات کا مواد بھی شیئر نہیں کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا خواتین اور لڑکیوں کے لئے زہریلا کیوں ہے اور ہم اسے واپس کیسے لے سکتے ہیں۔ ایلیمو نے کہا کہ اپنے بچوں کے ساتھ آن لائن کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں بات چیت کو کھلا رکھیں اور ان کے اسکرین ٹائم کو محدود کریں تاکہ ان کے پاس دیگر صحت مند چیزیں ہوں،جیسے باہر جانا اوراپنے دوستوں کے ساتھ آمنے سامنے وقت گزارنا۔ ایڈنبرا یونیورسٹی میں چائلڈ پروٹیکشن ریسرچ کی پروفیسراورگلوبل چائلڈ سیفٹی انسٹی ٹیوٹ میں چائلڈ لائٹ کے لیے ڈیٹا کی عالمی ڈائریکٹر ڈاکٹرڈیبورافرائی نے کہا کہ والدین اپنے بچوں پر توجہ دیں،ان کی بات سنیں۔ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو بچے اپنے والدین سے رجوع کرتے ہیں۔ الیمو نے مزید کہا کہ جان لیں کہ آپ کے لئے بھی وسائل موجود ہیں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا بچہ آن لائن جنسی استحصال کا شکار ہوا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر بچے آن لائن زیادتی کا شکار ہوتے ہیں تو والدین کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کریں۔
چھوٹے سے گاؤں سے معاشی انقلاب کا آغاز، پاکستان کا پورا گاؤں ’یوٹیوبر‘ بن گیا

ایک سال پہلے تک اپنی زمینوں پرکاشتکاری کرنے والے کسان ’یوٹیوبرز‘بن کر لاکھوں روپے کمانے لگے،ایک ماہ کی کمائی ایک دن میں ہی کرلیتے ہیں،یہ گاؤں ہے کہاں؟ یہ گاؤں کسی اور سیارے پرنہیں بلکہ اسی زمین پرہی واقع ہے،پاکستان کے جنوبی پنجاب میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں’قاضی عبدالرحمن کوریجہ’ہے جہاں بچے،بوڑھے اور جوان سبھی اسی کام پر لگے ہوئے ہیں،یہ گاؤں ایک منفرد انقلاب لارہا ہےاور اس کے پیچھے ایک نوجوان کا خواب چھپاہوا ہے جس نے اپنی زندگی بدلنے کے لیے یوٹیوب چینل بنانے کا فیصلہ کیاتھا۔ برطانوی خبررساں ادارے’بی بی سی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس گاؤں کا نوجوان جس کا نام حیدر علی ہے جو کبھی رحیم یار خان کے سرکاری ہسپتال میں آپریشن تھیٹر میں ٹیکنیشن کے طور پر کام کرتا تھا،اس وقت یہ نوجوان ایک یوٹیوب اسٹاربن چکا ہے۔ اس کا یوٹیوب چینل لاکھوں سبسکرائبرز کے ساتھ کامیابی کی مثال بن چکا ہے۔ حیدر علی نے بتایا کہ جب انہوں نے چینل بنانے کا فیصلہ کیا تو ان کے خاندان نے شدید مخالفت کی تھی، اوریہاں تک کہ مقامی علما سے فتویٰ بھی لیا تاکہ یہ فیصلہ اپنے خاندان کے لیے محفوظ ہو۔ لیکن وہ اپنے خواب کو حقیقت بنانے پر بضد تھے اور آخرکار اس کی محنت رنگ لائی۔ حیدرعلی کا کہنا ہے کہ “جب میری یوٹیوب چینل سے آمدنی شروع ہوئی تو میری زندگی بدل گئی۔ جس رقم کو میں پورے ایک سال میں سرکاری نوکری سے کماتا تھا وہ اب مجھے بعض اوقات ایک دن میں مل جاتی ہے۔” ان کے چینل پر ویڈیوز کی خاصیت انسانی ہمدردی، مزاح اور گاؤں کی زندگی کی عکاسی پر مبنی ہوتی ہیں جو کہ دیکھنے والوں کو بہت متاثر کرتی ہیں۔ حیدر علی کی اس کامیابی نے پورے گاؤں کو یوٹیوب کے میدان میں قدم رکھنے کی ترغیب دی اورا ب گاؤں کے ہر گھر میں کم از کم ایک شخص یوٹیوب پر مواد بنا رہا ہے۔ یہاں تک کہ گاؤں کے بزرگ بھی اس نئے کاروبار کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس گاؤں کےایک 80سالہ بزرگ نذیر احمد جو پہلے گاؤں میں مسجد اور گھر کے درمیان محدود تھے، اب وہ بھی یوٹیوب ویڈیوز میں حصہ لیتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی نے ان کی زندگی میں نیا جوش اورخوشی بھر دی ہے۔ ایک اور دلچسپ کہانی اسی گاؤں کے ایک نوجوان رومان احمد کی ہے جو دبئی میں ایک ڈینٹر کے طور پر کام کرتا تھا، وہ وہاں کی معاشی مشکلات اور اپنے گھر والوں کی مدد کی ضرورت کے باوجود اپنے وطن واپس آ گیا تھا اور حیدر علی کی طرح یوٹیوب چینل شروع کر لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند ماہ بعد ان کا چینل مونیٹائزہوگیا اور وہ بھی گولڈ بٹن کے مالک بن گئے۔اس نوجوان یوٹیوبر رومان احمد کا کہنا ہے کہ “دبئی میں رہ کر گزارہ مشکل تھا لیکن اب پاکستان میں اپنے یوٹیوب چینل کی مدد سے میری زندگی بدل گئی ہے۔” اس گاؤں کے ظہیر الحق، جو ایک سرکاری سکول ٹیچرہیں،انہوں نے بھی یوٹیوب چینل کے ذریعے وہ آمدنی حاصل کی ہے جو وہ اپنی چھ سالہ سرکاری ملازمت میں نہیں کما سکے تھے۔اور آج وہ اپنے بچوں کو بڑے نجی سکولز میں پڑھا رہے ہیں۔ ظہیر الحق نے یوٹیوب کے ذریعے مالی استحکام حاصل کیا ہے اور اب وہ اپنے سرکاری ملازمت سے گولڈن ہینڈ شیک حاصل کرنے پر غور کر رہے ہیں تاکہ مزید پیسے کما سکیں۔ یہ گاؤں نہ صرف سوشل میڈیا کے میدان میں کامیاب ہو چکا ہے بلکہ یہاں کے لوگ خود کو نئی مہارتوں میں ڈھالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ حیدر علی نے گاؤں کے نوجوانوں کو یوٹیوب کی دنیا سے روشناس کرایا اور اپنی ٹیم میں شامل کر لیا۔اس وقت گاؤں کے ہر فرد کو یوٹیوب کے ذریعے روزگار حاصل ہو رہا ہے اور سب کی زندگیوں میں خوشی کا نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ یہ کہانی صرف حیدر علی کی نہیں ہےبلکہ ایک پورے گاؤں کی ہے جس نے ایک چھوٹے سے خواب سے شروع ہو کر بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی محنت اور لگن نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر انسان کے پاس ہمت اور ارادہ ہو، تو دنیا کا کوئی بھی خواب پورا ہو سکتا ہے۔ آج اس گاؤں کا ہر بچہ، نوجوان اور بزرگ یوٹیوب کی کامیابی کی ایک کہانی بن چکا ہے اور یہ گاؤں دنیا بھر میں ایک مثال بن گیا ہے کہ کیسے سادہ سے لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی تقدیر بدل ڈالی۔
جاپان کی جیل بزرگ خواتین کی’پناہ گاہ‘بن گئی

جاپان کے بزرگ شہریوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے زندگی کا درد اور تنہائی کا سامنا ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ بعض معمر خواتین اپنی زندگی کو جیل کی کال کوٹھریوں میں گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ تنہائی کے بجائے کمیونٹی اور تحفظ کا احساس پاتی ہیں۔ یہ کہانی جاپان کی سب سے بڑی خواتین کی جیل ‘توچیگی ویمنز پرزن’ کی ہے جہاں معمر قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد جیل کے اندرونی ماحول کو ایک نرسنگ ہوم کی طرح بنا چکی ہے۔ ‘توچیگی ویمنز پرزن’جو ٹوکیو کے شمال میں واقع ہے،اس جیل میں بوڑھی خواتین کی بڑی تعداد قید ہےاور جیل کے افسران کے مطابق یہ خواتین زیادہ تر اپنی زندگی میں تنہائی اورغربت کا شکار ہوتی ہیں اور جیل کی دیواروں کے اندر جہاں معمر قیدی آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور واکر کا سہارا لیتے ہیں،وہیں وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں سکون اور تحفظ کی تلاش میں ہیں،کچھ خواتین تو یہاں ہمیشہ رہنے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔ توچیگی ویمنز پرزن کی ایک 81 سالہ قیدی ‘آکیو’ نے ’سی این این‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”یہ جیل شاید میری زندگی کا سب سے مستحکم حصّہ ہے،یہاں اچھے لوگ ہیں اور زندگی گزارنے کا ماحول بھی بہتر ہے۔آکیو ضرورت کی بنا پر کھانے پینے کی اشیاء چوری کرنے کے جرم میں جیل کاٹ رہی ہیں۔ان کی یہ واردات اس وقت ہوئی جب وہ اپنی چھوٹی سی پنشن پر زندگی گزار رہی تھیں اور ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ یہ صورتحال جاپان کے بڑھتے ہوئے معاشی اور سماجی بحران کی عکاسی کرتی ہے جہاں 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد میں اضافے ہورہا ہے جبکہ بزرگ افراد غربت اور تنہائی کا بھی شکار ہیں۔ 1 2022 میں جاپان کی جیلوں میں 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کی خواتین قیدیوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے اور ان میں سے زیادہ تر خواتین کھانے پینے کی چیزیں چوری کرنے کے جرم میں قید ہیں۔ جاپان میں 65 سال سے زائد عمر کے 20فیصد افراد غربت کا شکار ہیں اور یہ شرح او ای سی ڈی کے 38 رکن ممالک کے اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔اکثر بزرگ قیدی جیل میں اس لیے آتے ہیں کیونکہ یہاں ان کو کھانا،مفت علاج،اورعمر رسیدہ نگہداشت ملتی ہے جو کہ باہر کی دنیا میں انہیں دستیاب نہیں ہوتی۔ توچیگی ویمنزپرزن کے ایک افسر تکیوشی شیرا ناگا نے سی این این کو بتایا کہ “کچھ لوگ یہاں آکر بس اس لیے رہنا چاہتے ہیں کہ وہ سردی اور بھوک سے بچ سکیں”۔ پہلی بار قید ہونے والی آکیو کی کہانی ایک سنگین حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔ آکیو نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں جب غربت اور تنہائی کا سامنا کیا،تو انہوں نے کھانا چوری کرنے کا فیصلہ کیا۔ آکیو کا کہنا ہے کہ”اگر میری زندگی میں مالی سکونت ہوتی تو میں ایسا کبھی نہ کرتی۔” ان کے بیٹے نے اکثر ان سے کہا کہ وہ بس “چلی جائیں” اور یہی رویہ آکیو کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتا رہا۔ توچیگی ویمنز پرزن میں معمر خواتین قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے جیل کی انتظامیہ کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ان کے لیے خصوصی نگہداشت اور مدد فراہم کریں۔ جیل میں اب انہیں نہ صرف قید کی حالت میں رکھا جاتا ہے بلکہ ان کی جسمانی دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے۔ وہاں موجود خواتین کو ان کے جسمانی مسائل جیسے کہ بیڈ سورز،کمزوری اور دیگر بیماریوں کا علاج فراہم کیا جاتا ہے۔جیل کی نگہداشت کی سہولتیں اب نرسنگ ہوم کی طرح کام کر رہی ہیں۔ لیکن مسئلہ صرف جیل کے اندر کے حالات تک محدود نہیں ہے۔ جب ان خواتین کو جیل سے رہا کیا جاتا ہے تو انہیں دوبارہ معاشرتی زندگی میں قدم رکھنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ توچیگی کے ایک افسرمیگومی نے بتایا کہ جب یہ قیدی رہا ہو کر باہر آتی ہیں تو ان کے پاس نہ کوئی خاندان ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مدد فراہم کرنے والا،ان کے لیے دوبارہ سے زندگی شروع کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ جاپانی حکومت نے اس مسئلے کی سنجیدگی سے لینا شروع کردیا ہے،اور تسلیم کیا ہے2021 میں اعلان کیا تھا کہ جو بزرگ قیدی رہا ہو کر واپس معاشرے میں جاتے ہیں انہیں مدد دینے والے پروگرامز میں شامل کیا جائے گا تاکہ وہ دوبارہ جرائم کا ارتکاب نہ کریں۔ تاہم جاپان کی بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی اور کم پیدائش کی شرح حکومت کےلیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے جس پر حکومت کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایسی جگہ جہاں لوگ پیسے دے کر تھپڑ کھاتے ہیں

اگر میں آپ کو یہ پتا چلے کہ دنیا میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں لوگ خود پیسےدے کر تھپڑ کھاتے ہیں تو آپ یقیناً حیران ہوں گے۔ عام طور پر ریستوران کھانا اور پرسکون ماحول فراہم کرتے ہیں مگر دنیا میں ایسے ریستوران بھی موجود ہیں جوکھانوں کے ساتھ تھپڑ بھی مہیاکرتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہاں پر آنے والے گاہک کھانے کے ساتھ ہوٹل سٹاف سے تھپڑ کھاکر بل ادا کرتے ہیں۔ اس طرح کے زیادہ تر ہوٹل جاپان میں پائے جاتے ہیں۔ جاپان کے جنوبی ساحل پر واقع ناگویا کے ایک ریستوران میں خواتین پر مشتمل عملہ گاہکوں کے چہرے پر تھپڑ رسید کرتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گاہک جانتے ہیں کہ اس ہوٹل میں تھپڑ رسید کیے جائیں گے، اس کے باوجود وہ آتے ہیں اوراپنی مرضی سے سخت سے سخت تھپڑ کھاتے ہیں۔ خبر رساں ادارے العربیہ اردو کے مطابق کیمونو پہنے فی میل ویٹرز باربار صارفین کے چہرے پر تھپڑ مارتی ہیں۔ پہلے ویٹرس صارفین کے چہرے پر تھپڑ مارتی ہیں جس کے بعد پورے رستوران میں لوگ تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے بعد ویٹرس اور صارفین دونوں جھک کر ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ تھپڑوں کے عوض انھیں 300 ین دیے جاتے ہیں ۔ 1 جاپانی ین 1.83 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ ہوٹل عملے میں سے من پسند ویٹرس سے گال لال کروانے پر 500 ین کی فیس دینی پڑتی ہے۔ ازاکیا اور جاپان کےاکثر شراب خانوں میں تھپڑ رسید کیے جاتے ہیں جوکہ اتنے زوردار ہوتے ہیں کہ گاہک کبھی کبھار اپنی نشستوں سے دور جاگرتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں سوشل میڈیا پر کئی ویڈیو وائرل ہوئیں جس میں ویٹرس کو گاہکوں کو نہایت بےدردی سے تھپڑ مار تے ہوئے دیکھا گیا۔ جنوبی ساحل پر واقع ناگویا کے اس ریستوران کا نام شاچیہوکویا ہے۔ہوٹل کی مالکن بتاتی ہیں ابتدامیں یہ ہوٹل خسارے میں رہا اور بند ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا، ہم نے ہوٹل بچانے کی بہت کوششیں کیں مگر کوئی فائدہ نہ ہو سکا۔ آخر میں ہم نے یہ عجیب و غریب چال چلی، یہ منفرد طریقہ اتنا کامیاب ثابت ہوا کہ ہمیں مزید ویٹریس کو ہائر کرنا پڑا۔ ہوٹل کے گاہک کہتے ہیں کہ یہ ایک دلچسب تجربہ ہے۔ ہمیں خوبصورت لڑکی تھپڑ مارتی ہے جس سے ہم محظوظ ہوتے ہیں اور بہتر محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ذہن کو بھی اچھا لگتا ہےجس سے ہم اپنے کاموں پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں۔ ہوٹل عملہ اپنے منفرد ملبوسات کی وجہ سے پہچان رکھتا ہے، میل عملہ نےسونے سےبنےباڈی سوٹ اورمچھلی کے سائز کے ہیڈڈریس جبکہ فی میل عملہ نے کیمونیا پہنا ہوتا ہے۔ جاپان میں مارکیٹنگ کے نت نئےمنفرد طریقے دیکھنے کو ملتے ہیں جوکہ عوام کو اپنی جانب راغب کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔ کھانے کے حوالے سے بڑے پیمانے پرآئے روز نئے عجیب وغریب تجربات کیے جاتے ہیں۔ جاپان کےایک ہوٹل میں گاہکوں کو سیل میں ہتھکڑیاں لگا کر بند کیا جاتا ہے جہاں انھیں ویٹرس کھانا مہیا کرتی ہیں ۔ ٹوکیو میں موجودایک ریستوران کو ایلیمنٹری سکول کے کلاس روم کی طرح سجاکرگاہکوں کو بٹھایا جاتا ہےاور عملہ انھیں اساتذہ کے لباس میں کھانا مہیا کرتا ہے۔
ویپنگ کا بڑھتا رجحان، کیا یہ واقعی محفوظ ہے؟

“بھائی میں تو سموکنگ نہیں کرتا میں تو ویپنگ کرتا ہوں۔ میرا بھائی، میرا بیٹا ویپنگ کرتا ہے۔ سموکنگ چھوڑنی ہے تو ویپنگ شروع کر دو۔ نہیں نہیں ویپنگ صحت کے لیے خطرناک نہیں ہے۔” یہ وہ تمام جملے ہیں جو ہمیں عام سننے کو ملتے ہیں۔ کیا آپ کو بھی ویپنگ کرنے کا شوق ہے؟ منہ سے دھواں نکالتے ہوئے ویڈیوز بنانا اور دوستوں کے ساتھ شیئر کرنا آج کل فیشن بن چکا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں تمباکو نوشی کو صحت کے لئے ایک سنگین خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ اس لت کے باعث زندگیاں گنوا رہے ہیں اورکروڑوں مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔لیکن کیا آپ جانتے ہیں سگریٹ نوشی زیادہ خطرناک ہے یا پھر ویپنگ؟ ویپنگ انسانی صحت پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے؟ کیا ویپنگ یا ای سگریٹ تمباکو نوشی چھوڑنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے یا پھر تمباکو نوشی کی لت کا باعث بنتی ہے؟ حکومت پا کستان نے 2015 میں سگریٹ کے پیکٹس پر خوفناک تصاویر شائع کرنا لازم قرار دیا تھا تاکہ تمباکو نوشی کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کیا جا سکے۔ طبی ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان میں یومیہ 460 افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے زندگیاں گنوا رہے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی’ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 39 لاکھ سے زائد افراد تمباکو نوشی کے عادی ہیں، جن میں سے ایک کروڑ 60 لاکھ افراد سگریٹ کے ذریعے تمباکو نوشی کرتے ہیں جبکہ باقی افراد دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ حقہ اور بیڑی تو تمباکو نوشی کے پرانے یا روایتی طریقے ہیں جن سے ہر کوئی واقف ہے لیکن ویپنگ ایک ایسا طریقہ ہے جو نوجوانوں خصوصا شہری علاقوں میں تیزی سے عام ہوا ہے۔ ویپنگ ایک ایسا فعل ہے جس میں نکوٹین کو دھویں کی شکل میں ای سگریٹ یا الیکڑانک سگریٹ کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک ماہ تک تحقیق کی گئی جس میں 114 سگریٹ نوشوں نے حصہ لیا۔ تحقیق کے نتائج کے مطابق ویپنگ سے دل کے دورے اور فالج کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن یہ مکمل طور پر صحت کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ سگریٹ نوشی کے تمام طریقوں کو ترک کرنا ہی صحت کے لئے محفوظ ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں میں موجود کیمیائی مادے خون میں شامل ہو کر شریانوں سے گزرتے وقت چربی کے ساتھ چپک جاتے ہیں جس سے شریانیں تنگ ہو جاتی ہیں۔ شریانوں کی پھیلنے کی صلاحیت سے ہی ان کی صحت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ برٹش جنرل آف کارڈیالوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق شریانوں کے پھیلنے اور ہارٹ اٹیک کے طویل مدتی خطرات کے درمیان مثبت تعلق پایا گیا ہے، صحت مند اور سگریٹ نوشی نہ کرنے والوں کا سکور 7.7 فیصد، سگریٹ نوشی کرنے والوں کا سکور 5.5 فیصد جبکہ ویپنگ کرنے والوں کا سکور 6.7 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ طبی ماہرین کے مطابق ای سگریٹ میں موجود نکوٹین دماغی نشوونما پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جو کہ عادی بنانے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے محلول میں موجود کیمیائی مادے پھیپھڑوں اور دل کی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان میٹرز نے منصورہ ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر عمیر احمد صدیقی سے اس معاملے پر سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ”ویپنگ معاشرے میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نوجوان اسے فیشن سمجھ کر چھوٹی عمر سے ہی اپنا رہے ہیں۔ ویپنگ سیگریٹ نوشی سے کم نقصان پہنچاتی ہے لیکن پھر بھی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ دل اور پھیپھڑوں پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ پھیپھڑوں پر اس کے اثرات سے دمہ اور پیرینچیمل جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ویپنگ انسان کی شریانوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “نوجوان نسل میں ویپنگ اس لیے بڑھ رہی ہے کیوں کہ اس کو فیشن کے طور پر اپنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ویپنگ مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور نوجوانوں تک آسان رسائی اس کے استعمال کو بڑھا رہی ہے۔ حکومت کو ویپنگ پہ بھی قانون سازی کرنی چاہیے تا کہ اس کے استعمال کو محفوظ بنایا جا سکے۔ جس طرح سگریٹ پہ پابندیاں لگائی گئی ہیں اسی طرح ویپنگ پہ بھی لگائی جانی چاہیے”۔ ماہرین کی رائے اور دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات کے مطابق ویپنگ تمباکو نوشی سے کم مگر نقصان دہ اور انسانی صحت کے لیے مہلک ہے۔ فیشن کے طور پر ویپنگ کرنے والے افراد کی بڑی تعداد تمباکو نوشی کی عادی ہو جاتی ہے جو مزید طبی نقصانات کا باعث ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سنٹرز: اب آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانےکی ضرورت نہیں!

ڈاکٹر یا ہسپتال جانے کا جھنجھٹ ختم ،ایک کال پر ڈاکٹر خود آپ کے پاس حاضر ہوگا،کیا ایسا ممکن ہے؟جی ہاں ،سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایسا انقلاب برپا کیا ہے کہ اب اس کے بغیر رہنا ناممکن ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں عالمی سطح پر صحت کی فراہمی اور دیکھ بھال کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ دنیا کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان نے قابلِ قدر کوشش کی ہے کہ صحت کے مراکز میں بہتری لائی جائے۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والی جگہوں کوہیلتھ کئیر سنٹرز کہا جاتا ہے جبکہ انٹرنیٹ کی مدد سے صحتِ عامہ کی خدمات کو مؤثر بنانا ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سسٹم کہلاتا ہے۔ ڈیجیٹل ہیلتھ کئیرسسٹم صحت عامہ کے مسائل پر بروقت مدد فراہم کرتا ہے۔ ڈیجیٹل سائٹ ہیلتھ وائرکےاعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 2022 سے 2023 تک آن لائن ریکارڈ مریضوں کی تعداد میں 40 سے 55 لاکھ تک کا اضافہ ہوا ہے۔ 195 ممالک کی فہرست میں صحت کے اعتبار سے پاکستان کا122واں نمبر ہے ۔کورونا کے بعد حکومتِ پاکستان کی جانب سے صحت کو لے کر بہت سے اقدامات کیےگئے۔صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے ٹیلی میڈیسن جیسی ڈیجیٹل سہولتیں متعارف کرائی گئیں، ٹیلی میڈیسن گھر بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے علاج کا نام ہے۔ فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی میں ٹیلی میڈیسن مرکز قائم ہے جو ویڈیو کال کے ذریعے مفید مشورے دیتا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے ٹیلی میڈیسن پلیٹ فارمز اور الیکٹرانک ہیلتھ ریکارڈ سسٹمز جیسے ڈیجیٹل سلوشنز تیار کرنےپرکام کیا جارہا ہے۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی آیشن (پیما) کی ہیلتھ لائن پروجیکٹ کی سربراہ ڈاکٹر حوریہ نے مئی 2020 میں نجی چینل ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ پیما ٹیلی کلینک سروس کا اجراء اس لیے کیا گیا ہےکہ لوگ کورونا کے دوران گھروں سے کم سے کم نکلیں اور اگر انھیں صحت کا کوئی مسئلہ درپیش ہو یا فوری طبی مدد چاہئے ہو تو وہ آسانی سے کال کر کے مشورہ لے سکیں۔ ہیلتھ لائن کی سروس ملک بھر میں بالکل مفت ہے اورصبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ امن ٹیلی ہیلتھ سروس کے انچارج شیخ نادر نےڈان نیوز کو بتایا کہ یہ سروس گزشتہ 10 سال سے فعال ہے اور ہیلپ لائن نمبر 9123 ہے۔ 2020 میں نفسیاتی پریشانیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے امن ٹیلی اور پاکستان برائے ایکسیلینس ان سائیکالوجی کی جانب سے مل کر ایک فون کال سروس کا آغاز کیا گیا جس کے اوقات کار دوپہر 2 سے شام 4 بجے تک مختص کیے گئے۔ ڈان نیوز کے مطابق خواتین مریضوں کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سارہ سعید اور ڈاکٹر عفت ظفر کی جانب سے 2019 میں صحت کہانی ٹیلی میڈیسن ایپ سروس کا آغاز کیا گیا ۔ ایپ کا مقصد تھا کہ خواتین بنا کسی جھنجھٹ اور پریشانی کے خواتین ڈاکٹروں کو اپنے مسائل بتاسکیں۔ منصورہ ہسپتال لاہور سے ڈاکٹر عمیراحمد صدیقی نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “جو بھی سسٹم شروع کیا جاتا ہے اس کی فائدے و نقصان ہوتے ہیں۔ جب تک مریض آپ کے سامنے نہیں ہے آپ مکمل طور پر اس کا معائنہ نہیں کرسکتے۔ ہمارے دوستوں میں بھی جب کوئی بیمار ہوتا ہےتو ایک حد تک ہم ان کو موبائل پہ ٹریٹ کرتےہیں لیکن اس کے بعد ہم اس کو ہمارے پاس آنے کا کہتے ہیں تا کہ بہتر طریقے سے معائنہ کیا جائے۔ جب مریض آپ کے پاس ہوگا تو آپ اس کی حرکات و سکنات کو دیکھتے ہوئے بہتر معائنہ کر سکتے ہیں”۔ پاکستان کا 195 مین سے 122ویں نمبر پہ ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ “پاکستان میں آگاہی کی بہت کمی ہے۔ لوگوں کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں لوگوں کو بیماریوں کی علامات کے بارے میں مکمل علم ہوتا ہے جب کہ پاکستان میں ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ہماری گھریلو تربیت میں شامل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمارے اسپتالوں میں بھی بہتری کی بہت گنجائش باقی ہے”۔
یوگا : اپنے آپ سے ملاقات کی مشق

ورزش انسانی زندگی کا ایک اہم ساتھی ہے۔ روزانہ ورزش کرنا انسان کو بہتر زندگی اور بیماریوں سے نجات بخشتا ہے۔ دنیا بھر میں ورزش کے کئی طریقے پائے جاتے ہیں جن میں سب سے مشہور اور یوگا ہے جو ورزش سے بہت بڑھ کر ہے۔ کیا آپ نے کبھی اپنے آپ سے ملاقات کی ہے؟ دنیا کے تمام کاموں اور پریشانیوں کو ایک طرف رکھ کر خودکو محسوس کرنا ، یوگا کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم اپنی زندگی میں روزانہ کئی طرح کے جذبات سے گزرتے ہیں۔ ہماری زندگی کے تجربات ہمیں مختلف جذبات سے روشنائی حاصل کرواتے ہیں۔کچھ جذبات ہمارے ذہن کو خوش جب کہ کچھ ہمارے ذہن کو غمگین کر دیتے ہیں۔ ہمارا خوش یا غمگین ہونا ہمارے دماغ پہ منحصر ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے دماغ کو فتح کر لیں تو آپ ٹینشن، پریشانی، تناؤ اور دباؤ جیسے احساسات سے نکل کرتے ہیں۔ یوگا اور مراقبہ کرنا آپ کو ایسے ہی خوشگوار احساسات سے ملواتا ہے۔ یوگا سنسکرت کے لفظ “یوج” سے نکلا ہے جس کا مطلب “جوڑنا” یا “ملانا” کے ہیں۔ یہ ذہنی سکون کے لیے انتہائی مؤثر عمل ہے۔ یوگا کی شروعات قدیم انڈیا میں آج سے تقریباً 5000 سال پہلے وادیِ سندھ کی تہذیب سے ہوئی۔ وادیِ سندھ کی تہذیب سے جو مجسمات ہمیں ملے ہیں ان میں سے بہت سے مجسموں پہ انسان کو یوگا کرتے ہوئے بنایا گیا ہے جو ہمیں اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ وادیِ سندھ میں لوگ یوگا کیاکرتے تھے۔ اس دور کو ویدوں سے پہلے کا دور بھی کہا جاتا ہے ۔ وید ایسے لکھے ہوئے نسخوں کو کہا جاتا ہے جو ہندومت کے ابتدائی عرصے میں لکھے گئے اور اس کی تعلیمات کا ذکر کرتے ہیں۔ 1500 سے 500 سال قبل مسیح میں یوگا کو خدا سے ملنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ قدیم ویدوں میں ابتدائی مراقبہ، گیتوں اور رسومات کا ذکر ہے جو یو گا کے دوران کیے جاتے تھے۔ ریگ وید ، جو کہ ویدوں کی ایک قسم ہے، میں ایسے اشعار بھی ملے ہیں جس میں خود(آتمان) اور برہمن(اعلی حقیقت)کے درمیان تعلق کو بیان کیا گیا ہے۔ یوگا ، مراقبہ اور عبادت کی مشقوں سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ 800 سے 400 سال قبل مسیح میں ہندومت کی بنیار رکھنے والے نسخے “اپنشد” تخلیق کیے گئے۔ ان نسخوں میں روحانی طور پہ مراقبہ کرنے اورخود پر قابو پانے پر زور دیا گیا تا کہ علم حاصل کیاجا سکے اور بری طاقتوں سے آزادی حاصل کی جا سکے۔ ہندومت کے کلاسیکی دور میں پہلی مرتبہ ہندومت کے مشہور فلسفی پتنجلی نے یوگا کو باقاعدہ متعارف کروایا ۔ اسی دورمیں ہندوں کی مقدس کتاب گیتا ابھری جس میں یوگا کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یوگا اجتمائی طور پہ مختلف مشقوں کا نام ہے جس سے انسانی جسم اور دماغ سکون حاصل کرتا ہے۔یوگا کے دوران انسان خود کو قدرتی مناظر سے جوڑتا ہے۔ اس میں گہری سانس لینا، ورزش کرنا، اورمختلف پوزیشنز میں اپنے جسم کو لے کر جانا شامل ہیں۔ جب کہ مراقبہ یوگا میں سے لی گئی ایک مشق کا نام ہے۔ مراقبہ میں انسان ایک جگہ بیٹھ کر اپنی توجہ کسی ایک نقطے پہ مرکوز کر لیتا ہے جس سے وہ سکون حاصل کرتا ہے۔ مراقبہ کا بنیادی مقصد ذہن کی خاموشی کو سننا اور خود کو جاننا ہے ۔ ہر انسان کچھ عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے یوگا اور مراقبہ کو اپنے طریقے سے کر سکتا ہے ۔ یہ مکمل طور پرایک انفرادی عمل ہے ۔ آپ خود اپنا اور اپنے ارد گرد موجود قدرت کا تعلق روحانی طور پہ جوڑ سکتے ہیں۔ آج کے دور میں دنیا میں کروڑوں لوگ روزانہ یوگا کرتے ہیں۔ یوگا اور مراقبہ دونوں انسانی زہن اور دماغ میں توازن پیدا کرتے ہیں جس سے انسان میں سٹریس کم ہوتا ہے اور تناؤ سے آزادی ملتی ہے۔ اس سے انسان کے جسم میں لچک اور طاقت پیدا ہوتی ہے۔ انسان اپنے اندر کی روح کو پہچانتا ہے اوراپنے جذبات کو بہتر طریقے سے کنٹرول کرتا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر یوگا انسان کی خود سے ملاقات کراتا ہے۔
شادیوں میں دولت کی نمائش:ضرورت یا مجبوری

’لوگ کیا کہیں گے‘یہ وہ جملہ ہے جس کے لیے پاکستان میں شادیوں پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے،مفت کا مال سمجھ کرہوا میں اڑایا جاتا ہے اور پھر کم حیثیت لوگ کئی سال تک قرضوں کی دلدل میں پھنسے رہتےہیں۔ گزشتہ دنوں یوٹیوبر رجب بٹ کی شادی میں ملک کے نامورسوشل میڈیاسٹارزکی جانب سے پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا۔ رائفل سے لےکرشیرکےبچے تک لوگوں نے بے شمار تحائف دیے، جس کی وجہ سے دولہے کو پولیس اسٹیشن کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایک طرف پیسہ اڑانے جیسی فضول رسم پروان چڑھ رہی ہے تو دوسری طرف جہیز میں طرح طرح کی چیزیں مانگنا بھی ایک الگ مسئلہ بن گیا ہے،پنجاب حکومت نے شادیوں کو سادہ کرنے کے بجائے سرکارکی طرف سے’دھی رانی پروگرام‘کے تحت ایک لاکھ روپے سلامی اوردو لاکھ کے تحائف دینے کا اعلان کیا گیا، آخر شادیوں پر فضول خرچی کرنے کی وجہ کیا ہے؟ ہرسال ستمبر کے آتے ہی شادیوں کا موسم شروع ہوجاتا ہے اوردسمبر تک جاری رہتا ہے۔ اس دورانیے میں سڑکوں پر باراتیوں کی لمبی لمبی گاڑیاں نظرآتی ہیں، بے دریغ خرچ ہوتا ہوا پیسہ نظر آئے گا۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ جہاں ایک طرف ملک میں لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں وہیں دوسری طرف فضول خرچ ہوتا ہوا پیسہ نظر آرہا ہو؟ ایک عام فرد سوچنے پر مجبورہوجاتا ہے کہ ’کیسے جاہل لوگ ہیں فضول میں پیسے کا ضیاع کر رہے ہیں‘ یا پھر آپ کہیں گےکہ یہ پیسے کی نمائش کی جارہی ہے، مگر ہم سب انہی رسومات میں جکڑے ہوئے ہیں۔ نومبر کو ’شادی ماہ‘ کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ شادیاں نومبر میں ہوتی ہیں، شادیوں میں سب سے زیادہ خرچہ متوسط طبقے کی جانب سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ خاندان والوں سے شراکت داری ہونے کے نام پر قرضہ لے کر شادی کرنے کا رواج عام ہوچکا ہے،دیہات میں عزت کا کہہ کر پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔ لیکن شہروں نے اب دیہات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ شادی ہالز کے بننے کے بعد شہر کے سارے شادی ہال ہر وقت بُک ہی نظر آتے ہیں۔ فضول خر چی کا یہ عالم ہے کہ چھوٹے ہالز میں شادی کی بجائے صرف جنم دن کے کیک کاٹے جارہے ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو امیر ہیں بلکہ یہ وہ ہیں جو امیر دکھنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کی شاد یوں پر بے تحاشا پیسہ خرچ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے آبا ؤ اجداد نے اس طرح کی شادیاں کی تھیں اور اگر وہ فضول خرچی نہیں کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے۔اشتہارات اور ڈراموں نے فضول خرچی کو ہوا دی ہے، بلاوجہ ایسی چیزیں دکھاتے ہیں جن سےلگتا ہےکہ ان کے بغیر شاید شادی ادھوری ہے۔ شادیوں میں یوں فضول خرچی کرنے کی وجہ دکھاوا ہے یا احساس کمتری؟ یہ ایک نفسیاتی سوال ہے، ماہرین اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں، ماہرین کے مطابق دونوں جواب ہی اپنی جگہ پر صحیح ہیں، اگر غور کیا جائےتو پتہ چلتا ہے کہ یہ احسا س کمتری ہے جس کے پیشِ نظر فضول خرچی نے جنم لیا ہے۔ اسائنمنٹ ایڈیٹر 24 نیوز اینڈ بلاگر ثنا نقوی کا پاکستان میٹرز خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فضول خرچی کی ایک بڑی وجہ معاشرتی رسومات کی قید ہے ۔ اس کے علاوہ دکھاوے ، رشتےداروں میں احساس برتری اورذاتی تسکین کےلئے بھی شادیوں پر فضول خرچی کی جاتی ہے ۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ شادیوں پر بے بہا پیسہ خرچ کرنے والوں کو لگتا ہے کہ پیسہ خرچ نہ کرنے سے انہیں لوگ اپنے سے کم تر سمجھیں گے،یا عزت نہیں کی جائے گی۔ ایسے لوگوں کو لگتا ہے کہ عزت پیسے سے ملتی ہے اور وہ عزت خریدنے نکل پڑتے ہیں مگر وہ شاید نہیں جانتے کہ عزت خریدی نہیں جاتی بلکہ کمانی پڑتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق، وہ احسا س کمتری کا شکار ہوتے ہیں، اپنی دھاک بٹھانے کی غرض سے فضول خرچی کرتے ہیں اور بعد میں پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں،۔ یہ ز یادہ تر سفید پوش لوگ ہوتے ہیں ۔ عزت اوراحسا س کمتری میں آکر خود کو مصیبتوں میں ڈال دیتے ہیں۔ ثنا نقوی نے کہا کہ قریبی رشتے داروں اور دوست احباب سے اپنا موازنہ کرنے کی وجہ سے سفید پوش طبقہ احساسِ کمتری کا شکار ہوچکا ہے۔ شادیوں پر کی جانے والی فضول خرچیوں کو روکنے کےلئے ضروری ہے کہ شادی کی رسومات کو سادگی اور شرعی طریقے سے کیا جائے۔ اس کے علاوہ شادی هالز کے اوقات کار اور ون ڈش کی پابندی میں انتظامیہ کی جانب سے سختی فضول خرچی کو روکنے میں صحیح معنوں میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ہر پڑھا لکھا انسان اس بات کو بخوبی جانتا ہے مگرجب وقت آتا ہے تو وہ بھی انہی فضول رسومات کا شکار ہو جاتا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ہم سب کو اس پر سوچنے کی ضرورت ہے، آخر کونسی وجوہات ہیں جنہوں نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے اورہم لوگ ایک مصنوعی زندگی جینے پر مجبور ہوکررہ گئے ہیں۔