مسجد کے حجرے سے کوچنگ سینٹر کے کمرے تک، آنکھ کھلی رکھنی ہوگی

چار سالہ علی کو اب رنگوں سے ڈر لگتا ہے۔ وہ جب بھی اپنی کاپی پر رنگ بھرنے بیٹھتا ہے تو اس کی چھوٹی سی انگلیاں کانپنے لگتی ہیں۔ اس کی ماں، شمیم بی بی، جب اسے گود میں بٹھا کر پیار کرنا چاہتی ہیں تو وہ ہڑبڑا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ لاہور کے ایک متوسط علاقے میں رہنے والا علی ان ہزاروں بچوں میں سے ایک ہے جو جنسی استحصال کا شکار ہوئے۔ لیکن علی کے چہرے پر لکھی یہ دردناک کہانی معاشرے کی آنکھوں سے اکثر اوجھل رہتی ہے۔ ہر سال 18 نومبر کو بچوں کے جنسی استحصال کے خاتمے کے لیے عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد صرف یہ نہیں کہ ہم ایک دن موم بتیاں جلا کر تصویریں کھینچیں، بلکہ اصل مقصد ان خاموش چیخوں کو آواز دینا ہے جو اکثر دیواروں کے پیچھے، بند کمروں میں دب جاتی ہیں۔ پاکستان میں بچوں کے جنسی استحصال کے کیسز کی تعداد حیران کن ہے۔ NGO ساحل کی رپورٹ کے مطابق صرف 2023 میں 4000 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف “آئس برگ کا سرا” ہے۔ زیادہ تر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ وجہ؟ خوف، شرمندگی، اور سب سے بڑھ کر، “کیا کہیں گے لوگ؟” پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کراچی کے سوشل ورکر اور بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے عمران شہزاد بتاتے ہیں، “اکثر والدین کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کا بچہ کسی اذیت سے گزر رہا ہے۔ بچہ جب خاموش ہو جائے، باتیں کرنے سے گریز کرے، یا اچانک رویے میں تبدیلی آئے، تو یہ علامات ہوتی ہیں جنہیں ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔” لیکن کیا صرف آگاہی کافی ہے؟ ہم بطور معاشرہ کب یہ سمجھیں گے کہ بچے صرف جسمانی طور پر نہیں، بلکہ جذباتی اور ذہنی طور پر بھی متاثر ہوتے ہیں؟ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے پشاور کی رہائشی طیبہ نور جو خود بچپن میں ایسے ہی ایک واقعے سے گزری ہیں، کہتی ہیں، “مجھے کئی سال لگے یہ سمجھنے میں کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اس نے میری شخصیت بدل دی۔ میں اعتماد کھو بیٹھی۔ لیکن سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ جب میں نے اپنی ماں کو بتایا، تو انہوں نے کہا خاموش رہو، خاندان کی عزت کا سوال ہے۔” یہی وہ رویہ ہے جو مجرموں کو مزید طاقت دیتا ہے۔ اگر ہم بچوں کی بات سننے کو تیار نہیں، تو وہ کس پر بھروسہ کریں گے؟ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بچوں کے حقوق کے ماہر اور معروف وکیل آصف محمود کے مطابق، پاکستان میں موجود قوانین جیسے کہ “زینب الرٹ بل 2020” اور “تحفظِ اطفال ایکٹ 2016” ایک اچھی شروعات ضرور ہیں، مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ کہتے ہیں، “ہم نے قانون تو بنا لیا، مگر زمین پر پولیس کو نہ ٹریننگ ہے، نہ وسائل۔ کئی دفعہ تو ایف آئی آر درج کروانا بھی پہاڑ چڑھنے جیسا مشکل ہوتا ہے۔” میڈیا، اسکول، والدین اور حکومت؛ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کے لیے ایک محفوظ ماحول مہیا کیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچوں سے متعلق گفتگو کو شرم، حیا اور غیرت کے پردے میں چھپا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے بول نہیں پاتے، اور مجرم آزاد گھومتے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے لاہور کی ایک پرائمری اسکول ٹیچر مہرین فاطمہ کہتی ہیں، “ہم نے اب اپنے اسکول میں ’سیفٹی ایجوکیشن‘ کے نام سے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے ایکپاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے چھوٹا پروگرام شروع کیا ہے۔ بچوں کو ان کے جسم کی حدود، ’گڈ ٹچ‘ اور ’بیڈ ٹچ‘ کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ کچھ والدین اسے پسند نہیں کرتے، مگر وقت آ گیا ہے کہ ہم بچوں کو ان کے حقوق سکھائیں۔” مسئلہ صرف دیہات یا کم پڑھے لکھے علاقوں تک محدود نہیں۔ شہروں میں، بڑے بڑے گھروں اور اسکولوں میں بھی یہ درندے موجود ہیں۔ اور زیادہ تر کیسز میں جاننے والا، قریبی رشتہ دار یا پڑوسی ملوث ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے عدالتی نظام میں بچوں کو انصاف ملتا ہے؟ بدقسمتی سے نہیں۔ اکثر مقدمات سالوں تک چلتے ہیں، اور جب تک فیصلہ آتا ہے، متاثرہ بچہ عمر کے اُس حصے میں پہنچ چکا ہوتا ہے جہاں وہ ماضی کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے، لیکن عدالتی کاروائی اسے بار بار اس واقعے کی یاد دلاتی ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صحافی اور بچوں پر تحقیق کرنے والے مبشر شاہ کہتے ہیں، “ہمیں ایک ایسا نظام بنانا ہو گا جو بچے کی حفاظت کو مقدم سمجھے۔ اسکولوں میں کونسلنگ لازمی ہونی چاہیے، اور میڈیا پر بچوں کے استحصال کے موضوعات پر کھل کر بات ہونی چاہیے۔ جب تک ہم خاموش رہیں گے، تب تک علی جیسے ہزاروں بچے خاموشی سے اپنی معصومیت کھوتے رہیں گے۔” یہ عالمی دن صرف ایک یاد دہانی ہے، ایک کال ہے ہم سب کے ضمیر کے لیے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے محفوظ ہوں، تو ہمیں ان کی آواز بننا ہو گا۔ گھر کے دروازے کے اندر، اسکول کی دیواروں کے بیچ، مسجد کے حجرے سے لے کر کوچنگ سینٹر کے کمرے تک، ہر جگہ ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی۔ علی اب بھی رنگوں سے ڈرتا ہے، مگر اس کی ماں نے اب ہمت پکڑ لی ہے۔ وہ اب ہر میٹنگ میں، ہر تقریب میں، یہ بات ضرور کہتی ہیں، “ہم نے پہلے دیر کر دی، آپ نہ کریں۔ اپنے بچوں سے بات کریں۔ ان کی خاموشی کو سمجھیں۔” شاید یہی پہلا قدم ہے ایک محفوظ مستقبل کی طرف۔ جہاں بچپن صرف گڑیا، گاڑی اور کہانیوں کی دنیا تک محدود ہو، نہ کہ ایسی یادوں سے بھرا ہو جنہیں کوئی بھی یاد نہیں رکھنا چاہتا۔ اگر ہم نے آج ان بچوں کے لیے آواز نہ اٹھائی، تو کل کو ہمیں خود اپنی خاموشی کا حساب دینا پڑے گا۔

موبائل میں گم بچپن، کیا بچے ٹیکنالوجی کے غلام بن رہے ہیں؟

کیا واقعی اسکرین اور گیجٹس کا زیادہ استعمال بچوں کے لیے نقصان دہ ہے؟ اور اگر ہے تو عام والدین اپنے بچوں کو اس ڈیجیٹل دنیا سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت تمام ہی والدین کے سامنے ایک چیلنج کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ سلیکون ویلی جہاں دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی تخلیق ہوتی ہے، وہاں کے بڑے ٹیک لیڈر اپنے بچوں کو اسکرین سے دور رکھنے کے لیے خصوصی اسکولوں میں داخل کراتے ہیں۔ گوگل، ایپل اور دیگر بڑی ٹیک کمپنیوں کے ایگزیکٹوز اپنے بچوں کو ایسے والڈورف اور دیگر روایتی تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں جہاں اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس اور کمپیوٹرز کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ حیرت انگیز حقیقت کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ اس ضمن میں گیجٹس کے بچوں کی نفسیاتی صحت پر اثرات کو جاننا بھی ضروری ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہرِ نفسیات طوبیٰ اشرف نے کہا ہے کہ اکثر والدین کہتے ہیں کہ اگر بچوں کو موبائل فون نہ دیا جائے تو ان کا رویہ خراب ہوجاتا ہے، وہ اسکول کا کام نہیں کرتے،کھانا نہیں کھاتے یا پھر اپنی ناراضگی کا اظہار بات چیت بند کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ بچوں کا تو ہر کام ہی اسکرین کے ساتھ نتھی ہے، یعنی وہ کھانا کھاتے اور ہوم ورک کرتے ہوئے بھی اسکرین پر کارٹون یا پھر میوزک سننے کی عادی ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں والدین بالکل بے بس ہوجاتے ہیں اور وہ ماہر نفسیات سے اس مسئلے کا حل مانگتے ہیں۔ طوبی اشرف نے ہمیں مزید بتایا کہ گیجٹس کا زیادہ استعمال بچوں کی نفسیات پر بہت برے اثرات مرتب کر رہا ہے، کیونکہ انفارمیشن صرف ایک کلک پر موجود ہوتی ہے۔ بچوں میں اس کے سبب عدم برداشت کی صورتِ حال جنم لے رہی ہے، وہ ہر کام کو جلدی کرنا چاہتے ہیں، ان کا رویہ اور مزاج بہت جلدی تبدیل ہونے لگتا ہے،عجلت پسندی ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے اور وہ ایک غیر متوازن انسان کی صورت میں اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ ابتدائی عمر میں بچوں کو گیجٹس سے دور رکھنا نہایت ضروری ہے ورنہ ان کی حرکت کرنے اور چیزوں کو تھامنے کی صلاحیت متاثر  ہوجاتی ہے، یعنی ان کو جن چیزوں کو چھو کر دیکھنا چاہے، وہ اسکرین پر صرف اسے محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک خلا ہے جو کہ ڈیجیٹل اسکرین کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے۔ طوبی اشرف ٹیکنالوجی کو انسانوں کا متبادل نہیں سمجھتی انہوں نے حالیہ دنوں میں مغرب میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کچھ عرصے کے لیے بچوں کو کلاس ٹیچر کے بجائے گیجٹس سے تعلیم دینے کا تجربہ کیاگیا، نتیجہ یہ نکلا کہ بچے چیزیں تو سیکھ گئے، مگر ان میں تمیز سے رہنے، بول چال کے آداب اور مزاج کی خرابی کے مسائل سامنے آئے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اتالیق فاؤنڈیشن کے سی ای او شہزاد قمر نے کہا ہے کہ ٹیکنالوجی ایک طاقتور آلہ ہے، جس کے فوائد اور نقصانات دونوں ہیں۔ اس کا استعمال غیر متوازن یا زیادہ ہونے سے بچوں کی صحت، دماغی صلاحیت، تعلیم اور معاشرتی رویے پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اخلاقیات کے حوالے سے بھی خطرات ہوسکتے ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ آپ بچوں کو ٹیکنالوجی سے دور نہیں رکھ سکتے۔ بچے اس کا استعمال کر رہے ہیں اور اس میں مزید اضافہ ہوگا، لہذا اس کے محفوظ اور مفید استعمال پر بات ہونی چاہیے، تاکہ اس کا فائدہ حاصل کیا جا سکے اور کسی بھی منفی اثرات سے بچا جا سکے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے شعبہ تدریس سے منسلک عبدالولی نے کہا ہے کہ گیجیٹس کا استعمال بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابتدا ہی میں روک دیتا ہے۔ انسان عمومی طور پر سہل پسند واقع ہوا ہے، لہذا اگر ٹیکنالوجی سارے مسائل حل کرنے لگے گی توانسان خود کیا کرے گا،؟ بچے پہلے انٹرنیٹ سے ڈھونڈ کر اسائنمنٹ بناتے تھے، اب مصنوعی ذہانت سے پوچھتے ہیں اور کام ہو جاتا ہے۔ گیجیٹس استعمال کیے جائیں لیکن اس سے قبل آپ کو وہی کام خود کرنا آنا چاہیے۔ اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم نے حساب کتاب زبانی شروع کیا اور اس کے بعد کیلکولیٹر سے چیک کر لیا، لیکن اب تو بچے دماغ میں چھوٹا سا حساب نہیں کر سکتے، یعنی ذہنی صلاحیتوں و تخلیقی مزاج کو پنپنے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔ کلاس روم میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عبدالولی نے کہا ہے کہ ہمارے کلاس رومز سادہ ہوں اور وہ روایتی تعلیم سے بچوں کو آشنا کر دیں، تو یہ ہی غنیمت ہے۔ ٹیکنالوجی کے نام پر اسکولوں میں واٹس ایپ گروپ بن گئے ہیں اور بھی دیگر آن لائن کلاسز وغیرہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے سب ہی آگاہ ہیں۔ قدیم طریقہ تعلیم ہی رائج رہے تو بہتر ہے، ٹیکنالوجی نے ہم سے اچھے اور برے کی تمیز چھین لی ہے، ہم معاشرتی طور پر تنہا ہو گئے ہیں۔ عبدالولی نے کہا ہے کہ صرف امریکا یا سلیکون ویلی کی بات نہیں بلکہ ایپل کے بانی آسٹیو جابز، جس کا آئی فون دنیا بھر میں مقبول ہے، نے اپنے بچوں کے استعمال پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے اے آئی کنسلٹنٹ عثمان صدیقی نے کہا ہے کہ کوئی بھی ٹیکنالوجی کا بزنس کرنے والا فرد عام افراد کی نسبت دور اندیش ہوتا ہے اور وہ اس کے مہلک اثرات سے باخبر ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اے آئی انسانیت کے لیے جہاں مفید ہے، وہیں اس کے نقصانات بھی موجود ہیں، جن کے اثرات بہت دیر پا ہیں۔ چین نے امریکی اے آئی ٹول چیٹ جی پی ٹی کے مقابلے میں ایک تہائی کی قمیت میں ڈیپ سیک تیار کرکے سب کو جہاں حیران کردیا ہے، وہیں یہ بات لمحہ فکری ہے کہ اے آئی کے بدلتے ہوئے فیچرز کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جائے، کیونکہ کسی بھی قسم کی بداحتیاطی کسی بڑے نقصان کا سبب

آن لائن جنسی استحصال: اپنے بچوں کو کیسے محفوظ بنائیں؟

بچوں کا آن لائن جنسی استحصال باقاعدگی سے ہو رہا ہے، اور یہ مسئلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کے سدباب کے لیے چند اہم تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق 12 میں سے ایک بچے کو آن لائن جنسی استحصال اوربدسلوکی کا سامنا کرنے کے بعد محققین عالمی سطح پر کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس مطالعے میں عوام اور پالیسی سازوں کی جانب سے آگاہی اور اقدامات میں اضافے کی فوری ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔  جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک ہیلتھ میں ہیلتھ پالیسی اور بیہیورل سائنسز کے ریسرچ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ژیانگ منگ فینگ نے کہا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی اور انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون تک رسائی میں اضافہ ، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ، ہر روز زیادہ سے زیادہ بچوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔  رسالہ دی لانسیٹ چائلڈ اینڈ ایڈولسٹنٹ ہیلتھ میں منگل کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں 2010 سے 2023 کے درمیان 123 مطالعات کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا۔ اس کے بعد محققین نے 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد کا تجزیہ کیا جو جنسی استحصال کی کسی بھی ذیلی قسم کے سامنے آئے تھے۔   ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ کے Know2 Project مہم کی ڈائریکٹر کیٹ کینیڈی نے کہا کہ ’گزشتہ برس نیشنل سینٹر فار مسنگ اینڈ ایکسپلوٹڈ چلڈرن اینڈ ہوم لینڈ سیکیورٹی انویسٹی گیشنز کو بچوں کے جنسی استحصال کی 3 کروڑ 60 لاکھ سے زائد رپورٹس موصول ہوئیں۔ “انٹرنیٹ ایک کرائم سین بن گیا ہے، جہاں بچوں کو ہر سیکنڈ میں تقریبا دس بار جنسی استحصال اور زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے. فینگ نے ایک ای میل میں کہا کہ یہ ایک عالمی صحت کی ہنگامی صورتحال ہے جس کا تعلق خراب ذہنی اور جسمانی صحت، روزگار کے امکانات میں کمی اور کم متوقع عمر سے ہے۔ “لیکن یہ روک تھام کے قابل ہے، ناگزیر نہیں۔ (آن لائن بچوں کا جنسی استحصال) بچپن کے صحت عامہ کے دیگر بڑے مسائل جیسے دمہ، موٹاپا اور اے ڈی ایچ ڈی کے مقابلے میں زیادہ عام ہے اور اگر ہم ان کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کریں جیسا کہ روک تھام پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے صحت عامہ کے مسئلے کے طور پرتو ہم بچوں کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ یہ جاننا کہ آن لائن جنسی زیادتی اور استحصال کیسا نظر آتا ہے اس کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔ محققین نے آن لائن جنسی استحصال کی تعریف اس طرح کی ہے کہ پیسے یا وسائل کے لئے جنسی عمل کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ فینگ نے کہا کہ یہ “کھانا، کپڑے،رہائش، پیار، تحفظ، تعلق، تحفے، یا نوجوان شخص یا بچے کے لئے قابل قدر کوئی اور چیز ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آن لائن درخواست جنسی پوچھ گچھ اور طویل مدتی جنسی گفتگو ہے ، جس سے جنسی تصاویر یا ویڈیوز کا تبادلہ ہوسکتا ہے۔ ’یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ مختلف قسم کی آن لائن درخواستیں اکثر ساتھیوں کے ساتھ ساتھ بالغ مجرموں کی طرف سے بھی آتی ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ جنسی تصاویر کو غیر رضامندی سے لینا، شیئر کرنا اور ان کے سامنے آنا اس وقت ہو سکتا ہے جب کوئی بچہ نشے کی حالت میں ہو،بھٹکا ہوا ہو، بے ہوش ہو یا رضامندی دینے سے قاصر ہو۔ استحصال اور بدسلوکی اس وقت بھی ہوسکتی ہے جب کسی بچے کا چہرہ کسی اور کی جنسی تصویر پرلگایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر، ڈیپ فیکس اور دیگر تکنیکی ترقی کے استعمال نے جنسی بھتہ خوری، استحصال اور بدسلوکی میں اضافے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ فینگ کا مزید کہنا تھا کہ ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بے ضرر تصاویر نہیں ہیں، یہ انتہائی نقصان دہ ہیں‘۔ فیئرلی ڈکنسن یونیورسٹی میں کمیونیکیشن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کارا الیمو نے کہا کہ بچوں سے ان کی حفاظت کے بارے میں آن لائن بات کرنا انہیں آن لائن جنسی استحصال سے بچانے میں ایک اہم پہلا قدم ہے۔ “اوور دی انفلوئنس” کے مصنف ایلیمو نے کہا کہ جب نگرانی کی بات آتی ہے تو ، آپ کے بچے کی حفاظت پر نظر رکھنے کے طریقے موجود ہیں جبکہ انہیں کچھ رازداری کی اجازت بھی دی جاتی ہے ،جس میں انسٹاگرام پرایک نیا فیچر بھی شامل ہے جو والدین کو یہ رسائی دیتا ہے کہ ان کا بچہ کس کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے جبکہ پیغامات کا مواد بھی شیئر نہیں کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا خواتین اور لڑکیوں کے لئے زہریلا کیوں ہے اور ہم اسے واپس کیسے لے سکتے ہیں۔ ایلیمو نے کہا کہ اپنے بچوں کے ساتھ آن لائن کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں بات چیت کو کھلا رکھیں اور ان کے اسکرین ٹائم کو محدود کریں تاکہ ان کے پاس دیگر صحت مند چیزیں ہوں،جیسے باہر جانا اوراپنے دوستوں کے ساتھ آمنے سامنے وقت گزارنا۔  ایڈنبرا یونیورسٹی میں چائلڈ پروٹیکشن ریسرچ کی پروفیسراورگلوبل چائلڈ سیفٹی انسٹی ٹیوٹ میں چائلڈ لائٹ کے لیے ڈیٹا کی عالمی ڈائریکٹر ڈاکٹرڈیبورافرائی نے کہا کہ والدین اپنے بچوں پر توجہ دیں،ان کی بات سنیں۔ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو بچے اپنے والدین سے رجوع کرتے ہیں۔ الیمو نے مزید کہا کہ جان لیں کہ آپ کے لئے بھی وسائل موجود ہیں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا بچہ آن لائن جنسی استحصال کا شکار ہوا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر بچے آن لائن زیادتی کا شکار ہوتے ہیں تو والدین کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کریں۔