ٹیلی پورٹیشن: بغیر جسمانی سفر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ کیسے جا سکتے ہیں؟

صدیوں سے انسان نے وقت اور فاصلے پر قابو پانے کے خواب دیکھے ہیں۔ جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی گئی، بہت سے ایسے تصورات ابھرتے گئے جو کبھی صرف افسانوی کہانیوں یا فلموں میں ممکن سمجھے جاتے تھے۔ انہی حیران کن تصورات میں ایک ہے ٹیلی پورٹیشن، یعنی کسی شے یا انسان کو ایک مقام سے اچانک دوسرے مقام پر منتقل کر دینا، وہ بھی بغیر کسی جسمانی سفر کے۔ ٹیلی پورٹیشن کا تصور ہمیں نہ صرف سائنسی دنیا میں ملتا ہے بلکہ یہ قدیم فلسفوں، مذہبی عقائد اور سائنسی افسانوں میں بھی اپنی جگہ رکھتا ہے۔ آج کے دور میں، جہاں کوانٹم فزکس نے مادے کی فطرت کے کئی راز فاش کیے ہیں، وہاں ٹیلی پورٹیشن ایک سنجیدہ سائنسی تحقیق کا موضوع بھی بن چکا ہے۔

پاکستان اور انڈیا میں فضائی برتری کی دوڑ: کیا یہ اقدام کسی بڑے تصادم کا پیش خیمہ ہیں؟

25a33a00 4342 4971 8069 472458fce5f2

خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بدلتی ہوئی دفاعی حکمت عملیوں کے پیش نظر، انڈیا اور پاکستان تیزی سے اپنی فضائی افواج کو جدید خطوط پر استوار کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک اپنی فضائی طاقت کو مضبوط بنانے کے لیے نئی جہتوں پر کام کر رہے ہیں جس سے جنوبی ایشیا میں فضائی برتری کی دوڑ میں شدت آ گئی ہے۔ انڈیا، فرانس سے حاصل کردہ جدید رافیل طیاروں کے علاوہ مقامی سطح پر تیار کردہ ہلکے لڑاکا طیارے “تیجس” میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے چین کے ساتھ دفاعی تعاون کو فروغ دیتے ہوئے “جے ایف-17 تھنڈر” جیسے مشترکہ منصوبوں کے ذریعے اپنی فضائی طاقت کو وسعت دی ہے۔

کیا پاکستان میں عجائب گھر ہمیں تاریخ سے دور کر رہے ہیں؟

پاکستان جیسے تاریخی و ثقافتی ورثے سے مالا مال ملک میں عجائب گھروں (میوزیمز) کا کردار نہایت اہم ہے، کیونکہ یہ مقامات نہ صرف ماضی کی جھلک دکھاتے ہیں بلکہ نئی نسل کو اپنے تاریخی پس منظر سے جوڑنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ تاہم، افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں میوزیمز کی دیکھ بھال، جدید تقاضوں کے مطابق تزئین و آرائش، اور علمی و تحقیقی پہلوؤں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اس غفلت کے باعث نہ صرف نوادرات و اشیاء قدیمہ متاثر ہو رہی ہیں، بلکہ تاریخ کو سمجھنے اور محسوس کرنے کا عمل بھی کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ جب ماضی کے آثار گرد آلود شیشوں کے پیچھے گم ہو جائیں، تو قوموں کی اجتماعی یادداشت بھی دھندلا جاتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے عجائب گھر ماضی سے تعلق جوڑ رہے ہیں یا اسے مٹا رہے ہیں؟ دیکھیے پاکستان میٹرز کی یہ ویڈیو۔

حافظ نعیم کا ایل او سی کا دورہ، شہداء کے لیے دعا

Ca27b1b5 b853 4b6c 8b52 3f6886f3d80f

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے پاکستان انڈیا حالیہ کشیدگی کے دوران شہید ہونے والے افراد کے لیے دعا کی۔ حافظ نعیم الرحمان نے انڈین گولہ باری میں شہید ہونے والے جوان کے گھر جاکر ورثا سے تعزیت کی ۔

’’ہمارے حوصلے بلند، کشمیر آزاد ہوکر رہے گا‘‘

Loc

ایل او سی پر بسنے والے مقامی افراد نے کہا ہے کہ انڈیا کی جانب سے شدید شیلنگ کے دوران ایک میزائل ایک رہائشی مکان پر آ گرا، جس سے مکان مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ مذکورہ مکان کے مالک کاری تحسین شدید زخمی ہوئے، جب کہ ان کا بیٹا، جو فرسٹ ایئر کا طالبعلم تھا، وہ شہید ہو گیا اور ان کی بیٹی بھی زخمی ہوئی۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول کے قریب بسنے والے مقامی افراد نے انڈیا کی جانب سے بے وجہ مسلط کی گئی جارحیت کے حوالے سے بتایا۔ مقامی افراد نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان اور دفاعی ادارے عوام کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور انہیں ضروری امداد و اسلحہ فراہم کریں تاکہ وہ بھی اپنا دفاع کر سکیں۔ عوام نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ہر محاذ پر اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بہادر افواج نے دشمن کو مؤثر جواب دیا، جس کے باعث انڈین افواج کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا اور ان کے مورال میں واضح کمی آئی۔ مقامی باشندوں کے مطابق انڈین افواج کی طرف سے اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ پاک فوج نے مثالی جوابی کارروائی کرتے ہوئے انڈین گن پوزیشنز کو خاموش کروا دیا۔ دس مئی کی صبح تک دشمن کی متعدد گن پوزیشنز تباہ کر دی گئیں اور اب ایل او سی کے اس حصے پر انڈین افواج کی کوئی فائرنگ کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔ شہریوں نے میڈیا نمائندوں کو دعوت دی کہ وہ ایل او سی کے فرنٹ لائن کا دورہ کریں تاکہ دشمن کے تباہ شدہ بنکرز کی موجودہ حالت دیکھی جا سکے، جو اب کھنڈر کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ عوام نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر اور حکومت پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور کہا کہ جس جرات، بہادری اور استقامت کا مظاہرہ کیا گیا، وہ قابلِ فخر ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ یہ جنگ جو زبردستی ہم پر مسلط کی گئی تھی، ہم نے حوصلے، اتحاد اور قربانی سے جیتی ہے۔

خلاباز اب راستہ نہیں بھولیں گے، چاند پر بھی ’جی پی ایس‘ ٹیکنالوجی کا آغاز

اسپین کی ٹیکنالوجی کمپنی جی ایم وی نے یورپی خلائی ایجنسی کے تعاون سے چاند کے لیے پہلا نیویگیشن سسٹم “لوپِن GPS” تیار کیا ہے، جو زمین کے جی پی ایس کی طرز پر کام کرے گا۔ اب خلا باز چاند پر اپنی لوکیشن ریئل ٹائم میں جان سکیں گے، بغیر زمین سے تاخیر والے رابطے کے۔ اس سسٹم کو اسپین کے جزیرے فورٹی وینچورا میں ٹیسٹ کیا گیا، جو اپنے چاند جیسے ماحول کی وجہ سے منتخب ہوا۔ یہ پیش رفت نہ صرف چاند پر محفوظ سفر، تحقیق اور ممکنہ انسانی بستیاں ممکن بنائے گی، بلکہ مریخ پر نیویگیشن کے لیے بھی ایک بڑا قدم ہے۔

ٹرمپ کا دورہ خلیج: دفاعی معاہدے کاروبار یا خطے میں نئی جنگ کی تیاری؟

Whatsapp image 2025 05 16 at 6.41.07 pm

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلیجی ممالک کے چار روزہ دورے نے مشرق وسطیٰ میں نئی سفارتی صف بندی، دفاعی معاہدوں اور ٹریلین ڈالرز کی ممکنہ سرمایہ کاری کے امکانات کو ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ یہ دورہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات پر محیط تھا، جسے امریکی و خلیجی ذرائع نے ایک بڑے سفارتی و اقتصادی کھیل سے تعبیر کیا ہے۔ ٹرمپ نے ریاض میں ہونے والے سعودی-امریکا سرمایہ کاری فورم میں اعلان کیا کہ سعودی عرب اگلے چار سالوں میں توانائی، دفاع اور مائننگ کے شعبوں میں امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق متحدہ عرب امارات کی 1.4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری اور قطر کی خفیہ سرمایہ کاری کو شامل کیا جائے تو مجموعی مالیت 2 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچتی ہے۔ عالمی خبررساں ادارے رائٹرز کی ایک فیکٹ شیٹ کے مطابق امریکا اور خلیجی ممالک کے درمیان صرف دفاعی معاہدے 142 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتے ہیں، جن میں ممکنہ طور پر ایف-35 جیٹ طیارے بھی شامل ہیں۔ ٹرمپ نے ریاض میں سعودی وژن 2030 کی حمایت کرتے ہوئے سعودی حکام پر اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے پر زور دیا۔ اس سلسلے میں 3.5 ارب ڈالر کے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کے معاہدے کو بھی حتمی شکل دی گئی، جسے امریکی تاریخ کی سب سے بڑی دفاعی فروخت قرار دیا جا رہا ہے۔ عمان میں پسِ پردہ مذاکرات کے دوران امریکی نمائندوں نے ایرانی حکام سے خفیہ ملاقاتیں کیں تاکہ ایک نئے نیوکلیئر معاہدے کی بنیاد رکھی جا سکے، جب کہ ٹرمپ نے یہ واضح کیا کہ فوجی آپشن بدستور زیر غور ہے۔ دوحہ میں ایک امریکی یرغمالی کی رہائی پر تقریب بھی منعقد کی گئی، جس کے ساتھ ہی خلیجی رہنماؤں پر حماس کے خلاف اقدامات کرنے کے لیے دباؤ بھی ڈالا گیا۔ ٹرمپ کے اس دورے میں ایلون مسک اور سیم آلٹمین جیسے ٹیکنالوجی ماہرین کی موجودگی نے اس سفارتی مہم کو تیل، اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی نئی صف بندی میں بدل دیا ہے۔ برطانوی اخبار ‘دی گارڈین’ کے مطابق اس دورے کو امریکہ کی ‘اسٹریٹجک انویسٹمنٹ ڈپلومیسی’ کی نئی شکل قرار دیا جا رہا ہے۔ علاقائی سطح پر خلیجی ریاستیں تیل کی قیمتوں میں کمی اور کووِڈ کے بعد مالی مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں، جس کے باعث یہ سرمایہ کاری کے وعدے موجودہ معاشی حالات میں مزید اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ ٹرمپ نے سعودی نیوکلیئر ڈیل کو اسرائیلی تعلقات سے الگ کرتے ہوئے ریاض کو ایک نئی خودمختاری دی ہے، جو خطے میں طویل المدتی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ یہ دورہ آنے والے دنوں، مہینوں اور ممکنہ طور پر برسوں تک مشرق وسطیٰ کی خارجہ پالیسی، عالمی اتحادوں اور اقتصادی تعلقات کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

پاکستان یا پھر انڈیا، ففتھ جنریشن طیارہ پہلے کون لائے گا؟

50baeea0 4c70 48be bbea d92c59cea049

جنوبی ایشیا میں دفاعی مسابقت نئی سطح پر پہنچ گئی ہے، جہاں انڈیا اور پاکستان پانچویں جنریشن کے لڑاکا طیاروں کی دوڑ میں صف اول میں آ چکے ہیں۔ دوسری جانب انڈیا نے AMCA (ایڈوانسڈ میڈیم کومبیٹ ایئرکرافٹ) پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھایا ہے جبکہ پاکستان چین کے ساتھ مل کر “پراجیکٹ عزم” کے تحت جدید اسٹیلتھ ٹیکنالوجی پر مبنی طیارے تیار کر رہا ہے۔ دونوں ممالک جدید ایویانکس، راڈار سے بچاؤ کی صلاحیت اور اگلی جنریشن کے ہتھیاروں کے ساتھ فضائی برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تکنیکی دوڑ مستقبل کی فضائی جنگی حکمت عملی اور علاقائی طاقت کا توازن بدل سکتی ہے۔

کیا غزہ کے نام پر لی گئی امداد حقیقت میں غزہ میں پہنچ رہی ہے؟

کچھ عرصہ قبل خبریں زیرِ گردش رہیں کہ پاکستان میں غزہ متاثرین کے نام پر جو عطیات اور امدادی  اکٹھی کی جارہی ہے وہ غزہ تک نہیں پہنچ رہی۔ الخدمت فاونڈیشن پاکستان کی سب سے بڑی این جی اوز میں سے ایک ہے۔ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت سے شدید بحران پیدا ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور دنیا بھر سے اکٹھی کی جانے والی امدادی چار طریقوں سے غزہ تک پہنچائی جارہی ہے۔ پاکستان اور دیگر ممالک سے اشیاء خرید کر غزہ پہنچائی جا رہی ہیں، غزہ میں موجود مقامی این جی اوز کی مدد سے بھی ضروریاتِ زندگی کے سامان کی ترسیل ہو رہی ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن دیگر مقامی اور عالمی این جی اوز کے اشتراک سے غزہ میں صحت، تعلیم اور معیارِ زندگی کو بہتر کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر سے بھیجی گئی امداد غزہ میں کیسے تقسیم کی جاتی ہے؟ الخدمت بھیجے جانے والی امداد کا ریکارڈ کیسے برقرار رکھا جاتا ہے؟ اب تک کتنی مالیت کا امدادی سامان غزہ بھیجا جا چکا ہے؟ مصر سے الخدمت غزہ میں کس طرح امدادی کارروائیوں کو چلا رہی ہے؟ اقوام متحدہ کس طرح سارے امدادی نظآم کی مانیٹرنگ کر رہا ہے؟ اسرائیلی جارحیت کس طرح امدادی سامان کی ترسیل کو مشکل بنارہی ہے؟ الخدمت کیسے غزہ کے بچوں کو تعلیم مہیا کر رہی ہے؟ یہ سب اور مزید جاننے کے لیے ویڈیو ملاخطہ کریں۔

پاکستان-انڈیا کشیدگی: چین کی دفاعی قربت پر امریکا اور مغرب بے چین کیوں؟

Pak india

جنوبی ایشیا میں کشیدگی ایک بار پھر عروج پر ہے، پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی حالیہ کشیدگی نے خطے میں طاقت کے توازن پر نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ عالمی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق ایک اعلیٰ سکیورٹی ذرائع نے اس لڑائی میں پاکستان اور انڈیا کے 100 سے زائد لڑاکا طیارے شریک ہونے کی خبر دیتے ہوئے یہ خبر دیتے ہوئے اسے جدید فضائی جنگ کی تاریخ کی سب سے طویل اور شدید لڑائی قرار دیا۔ واضح رہے کہ کشیدگی کے دوران دونوں ممالک کے طیارے اپنی اپنی فضائی حدود کے اندر موجود رہے، لڑاکا طیاروں کی تعداد، رفتار اور تیاری نے واضح طور پر جنگی ماحول پیدا کر دیا۔ اس کشیدگی میں پاکستان نے جدید، تیز رفتار اور انتہائی مؤثر چینی ساختہ جے-10 سی لڑاکا طیارے استعمال کیے، ان طیاروں نے پی ایل-15 ای میزائل فائر کیے، جن کی حد مار 250 کلومیٹر تک ہے اور یہ نظروں سے اوجھل اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ پاکستانی فضائیہ کے مطابق ان میزائلوں کی موجودگی نے پاکستان کو فضائی برتری دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان نے اس آپریشن میں چین کے تیار کردہ جے ایف-17 تھنڈر طیارے، سی ایچ-4 ڈرونز اور ایچ کیو-9 و ایچ کیو-16 فضائی دفاعی نظام بھی استعمال کیے۔ یہ ڈرونز 40 گھنٹے تک مسلسل پرواز کر سکتے ہیں اور زمین و سمندر پر حملوں کی صلاحیت رکھتے ہیں، جب کہ میزائل دفاعی نظام نہ صرف لڑاکا طیاروں بلکہ بیلسٹک اور کروز میزائلز کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ ماضی میں امریکہ پاکستان کا بڑا اسلحہ فراہم کنندہ تھا، مگر اب بیجنگ اور اسلام آباد کی بڑھتی ہوئی دفاعی قربت کو واشنگٹن میں تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ انڈیا ماضی میں روسی ہتھیاروں پر انحصار کرتا تھا، مگراب تیزی سے امریکہ، فرانس اور اسرائیل کی طرف جھک رہا ہے۔ نئی دہلی نے رافال طیارے حاصل کیے اور اب امریکہ سے جدید ڈرونز اور میزائل دفاعی نظام خریدنے کے معاہدے بھی زیر غور ہیں۔ یاد رہے کہ اس وقت کشمیر بدستور ایک خطرناک تنازع کا مرکز ہے، جہاں پاکستان، انڈیا اور چین، تینوں ایٹمی طاقتیں بیک وقت مفادات رکھتی ہیں۔