بلوچستان: سونے کی چڑیا یا دہکتا انگارہ؟

ریت کے طوفان میں لپٹے اس بنجر پہاڑی علاقے میں جہاں سورج کی تپش زمین کو جھلسا دیتی ہے، وہ خزانے چھپے ہیں جن میں کسی بھی ملک کی تقدیر بدلنے کی طاقت ہوتی ہے۔ بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا مگر سب سے زیادہ محروم، قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ مگر یہ دولت یہاں کے باسیوں کے لیے خوشحالی کی نوید کم اور مشکلات کا پہاڑ زیادہ ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ جس زمین کے نیچے اربوں ڈالر کے خزانے دفن ہوں، وہاں کے لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہوں؟ چاغی کے تپتے ریگستان میں واقع ریکوڈک کی زمین کے نیچے چھپے خزانے کی کہانی نے جہاں بین الاقوامی کمپنیوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے، وہیں یہ مقامی لوگوں کے لیے ایک اور سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ جب 2022 میں پاکستان اور بیرک گولڈ کارپوریشن کے درمیان معاہدہ ہوا تو حکومتی بیانات میں یہ ظاہر کیا گیا کہ بلوچستان کواس کا 25 فیصد حصہ ملے گا۔ مگر بلوچ قوم پرست جماعتوں کا اعتراض تھا کہ یہ 25 فیصد محض ایک دکھاوا ہے، اصل منافع تو بیرونی کمپنیوں اور وفاقی حکومت کی تجوری میں جائے گا۔ اس منصوبے نے اس سوال کو جنم دیاہے کہ اگر بلوچستان کو واقعی 25 فیصد حصہ دیا گیا ہے، تو اس کا اثر مقامی ترقی پر کیوں نظر نہیں آتا؟ بلوچستان میں معدنی وسائل کا ایک اور مرکز سینڈک ہے، جہاں چینی کمپنی MCC (میتھالرجیکل کارپوریشن آف چائنا) سالانہ لاکھوں ٹن تانبہ، سونا اور چاندی نکال رہی ہے۔ 2022 میں یہاں سے تقریباً 400 ملین ڈالر کی برآمدات ہوئیں، مگر بلوچستان کے عوام کو اس سے کیا ملا؟ بلوچستان ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے مطابق سینڈک منصوبے میں 80 فیصد مزدوروں کا تعلق بلوچ قبائل سے نہیں، مقامی لوگوں کو زیادہ تر نچلے درجے کی نوکریاں دی گئی ہیں۔ اگر یہ بلوچستان کا خزانہ ہے تو پھر یہاں کے لوگوں کو اس خزانے سے خوشحالی کیوں نہیں مل رہی؟ بلوچستان کا ایک اوراہم اثاثہ سوئی گیس ہے۔ اوگرا (OGRA) کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل گیس پیداوار کا 45% بلوچستان سے حاصل ہوتا ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ خود بلوچستان کے 75% دیہاتی علاقے گیس کی سہولت سے محروم ہیں۔ یہ گیس پورے ملک کو توانائی فراہم کر رہی ہے، مگر بلوچوں کی سرزمین پر آج بھی لکڑیاں جلائی جارہی ہیں۔ بلوچستان میں کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جن میں چمالانگ، دُکی اور تربت کے کوئلہ فیلڈز قابلِ ذکر ہیں۔ بلوچستان مائننگ ڈیپارٹمنٹ کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق چمالانگ کوئلہ منصوبے سے 2 بلین ڈالر کا کوئلہ نکالا جا چکا ہے۔ پاکستان کا 70% ماربل بلوچستان سے حاصل ہوتا ہے اور دنیا بھر میں برآمد کیا جاتا ہے، مگر کیا اس رقم میں سے بلوچستان کے عوام کو بھی کچھ ملا؟ بلوچستان کی ترقی کے سب سے بڑے دعوے سی پیک اور گوادر بندرگاہ سے جڑے ہیں۔ 2015 میں جب پاکستان اور چین نے 62 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا، تو حکومت نے دعویٰ کیا کہ گوادر ترقی کا مرکز بنے گا۔ مگر حقیقت اس سے مختلف ہے۔ گوادر پورٹ 40 سال کے لیے چین کو لیز پر دے دی گئی اور یہاں سے ہونے والی آمدنی کا صرف 9 فیصد پاکستان کو ملے گا، جب کہ باقی چین لے جائے گا۔ کیا پاکستان کے لیے اتنا کم حصہ لینا واقعی ایک اچھا سودا تھا؟
غلام فرید صابری کیوں آج بھی ہر دل میں زندہ ہیں؟

فرید صابری پاکستان کے معروف قوالوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے صابری برادران کے پلیٹ فارم سے قوالی کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا۔ اُن کا تعلق ایک روحانی اور موسیقی کے حوالے سے مشہور خاندان سے تھا، اور اُن کے والد غلام محی الدین قوال خود بھی قوالی کے فن میں مہارت رکھتے تھے۔ فرید صابری نے اپنے بھائی مقبول احمد صابری کے ساتھ مل کر صابری برادران کی بنیاد رکھی، اور دونوں نے مل کر قوالی کو محض مذہبی یا روحانی روایت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک فن کی صورت میں دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ فرید صابری کی آواز میں ایک خاص طرح کی گہرائی، درد اور روحانیت تھی جو سننے والوں کو وجد میں لے آتی تھی۔ اُن کی قوالیوں میں کلاسیکی موسیقی کی جھلک بھی نمایاں تھی اور انہوں نے ہمیشہ روایت اور جدت کا خوبصورت امتزاج پیش کیا۔ “تاجدارِ حرم”، “بھردو جھولی”، اور “سرکار کی گلیوں میں” جیسی قوالیاں آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ فرید صابری نہ صرف ایک عظیم قوال تھے بلکہ ایک متواضع انسان بھی تھے۔ اُن کا اندازِ گفتگو، سادگی اور روحانی رجحان اُن کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ اُنہوں نے قوالی کو کبھی صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ اسے ایک روحانی پیغام کے طور پر پیش کیا۔ اُن کی قوالیاں عشقِ رسول، تصوف، اور معرفت کے مضامین سے بھرپور ہوتی تھیں۔ اُن کا فن آج بھی نوجوان قوالوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ فرید صابری کی خدمات کو پاکستان میں قوالی کے فروغ کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اُن کی گائیکی ایک ورثہ ہے، جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہے گی۔
میکسڈ ریئلٹی: وہ جگہ جہاں خواب بھی حقیقت لگیں، یہ حقیقت ہے یا فریبِ نظر؟

ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبے کو بدل کر رکھ دیا ہے اور اب ایک نئی اور دلچسپ ایجاد ‘میکسڈ ریئلٹی،’ حقیقت اور ڈیجیٹل دنیا کو یکجا کر رہی ہے۔ میکسڈ ریئلٹی یا ایم آر، ورچوئل ریئلٹی اور آگمنٹڈ ریئلٹی کا امتزاج ہے۔ یہ ٹیکنالوجی صارف کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتی ہے، جہاں وہ حقیقی ماحول میں رہتے ہوئے، ڈیجیٹل اشیاء کے ساتھ براہِ راست تعامل کر سکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں جدید سینسرز، کیمرے، آڈیو سینسنگ اور کمپیوٹر ویژن کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کا مقصد ڈیجیٹل مواد کو حقیقت سے ہم آہنگ بنانا۔ مکسٹ ریالٹی کے استعمال کے لیے مخصوص ہیڈسیٹ یا سمارٹ گلاسز کی ضرورت ہوتی ہے، جو صارف کی آنکھوں کے سامنے حقیقی اور ڈیجیٹل دنیا کو ایک ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ صارف اپنے ہاتھوں سے ڈیجیٹل اشیاء کو “پکڑ” بھی سکتا ہے، جو اس تجربے کو مزید حقیقت کے قریب لے آتا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں طلبہ سائنسی تجربات، تاریخی مناظر اور جغرافیائی حقائق کو نہ صرف دیکھتے ہیں، بلکہ سمجھ بھی پاتے ہیں۔ طبی میدان میں سرجنز، پیچیدہ آپریشنز کی منصوبہ بندی مکسٹ ریالٹی کے ذریعے کرتے ہیں، جب کہ صنعتی شعبے میں ملازمین کو ٹریننگ دینے کے لیے بھی یہی ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔ سیاحت کے شوقین افراد، گھر بیٹھے دنیا کے مختلف حصوں کی سیر بھی کر سکتے ہیں، وہ بھی حقیقت جیسے تجربے کے ساتھ، تاہم، اس ٹیکنالوجی کو درپیش کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ مکسٹ ریالٹی نہ صرف سستی ہوگی، بلکہ عام صارف کے لیے بھی باآسانی دستیاب ہو گی۔ مستقبل کی دنیا اب صرف تصور نہیں، حقیقت کا روپ دھار رہی ہے۔
چولستان: ریت کا وہ سمندر جہاں زندگی آج بھی قدرت کے رحم و کرم پر ہے

جنوبی پنجاب کے اس ویرانے میں جہاں زمین پیاسی ہے، وہاں انسان بھی پیاسا ہے۔ پانی کی ایک بوند یہاں کسی نعمت سے کم نہیں۔ صدیوں سے چولستان کے باسی مویشی پال کر اور دستکاری کر کے گزارا کرتے آ رہے ہیں۔ اونٹ، گائیں اور بکریاں… یہی ان کا سرمایہ ہیں۔ دودھ، گوشت اور روزگار کے تمام ذرائع ان ہی سے وابستہ ہیں۔ گرمیوں میں درجہ حرارت جب پچاس ڈگری کو چھو لیتا ہے، تو پانی کے ذخائر سوکھ جاتے ہیں۔ زندگی مزید کٹھن ہو جاتی ہے۔ تعلیم کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ بیشتر علاقوں میں اسکول سرے سے ہیں ہی نہیں اور جہاں ہیں، وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان۔ بچے میلوں کا سفر کر کے علم کی تلاش میں نکلتے ہیں، مگر غربت کئی والدین کو بچوں کو اسکول بھیجنے نہیں دیتی۔ صحت کی بات کریں تو اسپتال اور ڈاکٹرز کی کمی، ایک المیہ بن چکی ہے۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں کو مناسب طبی سہولیات نہ ملنے کے باعث شرحِ اموات تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود، چولستان کے لوگ اپنی ثقافت اور روایات سے جڑے ہوئے ہیں۔ میلے، موسیقی، اور روایتی دستکاری… یہ سب ان کی پہچان ہیں۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہے… اور دلوں میں امید۔ چولستان کا یہ صحرا صدیوں سے آزمائشوں کا گواہ ہے، مگر یہاں کے لوگ… جفاکش بھی ہیں اور باہمت بھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور فلاحی ادارے آگے بڑھیں، تاکہ اس ریگزار میں زندگی کو بھی وہ سہولیات میسر آ سکیں، جو پاکستان کے دیگر شہری علاقوں کو حاصل ہیں۔
ٹلہ جوگیاں: جہاں بادشاہ اپنی جھولی پھیلانے آیا کرتے تھے

تخت ہزارے کا رانجھا شکستہ قدموں اور رنجور دل سے پہاڑ کی کٹھن چڑھائی چڑھ رہا ہے۔ اس کی بانسری کی تانیں فضا میں درد گھول رہی ہیں۔ یہ ہیر سے بچھڑنے کا غم ہے جس میں وہ دنیا تیاگ کر جوگ لینے گرو بال ناتھ کے پاس پہنچتا ہے۔ گرو بال ناتھ اس غم زدہ عاشق کو اپنی محبت کے سائے میں سمیٹ لیتے ہیں اور اسے اپنے قبیلے میں شامل کر لیتے ہیں اور یوں رانجھا جوگی بن جاتا ہے۔ ہیر رانجھا کا یہ قصہ آج بھی پنجاب کے لوگوں کو بے قرار رکھتا ہے۔ اگرچہ اس قصے کو بیتے صدیاں گزر گئی ہیں لیکن وہ پہاڑ، جہاں رانجھے نے جوگ لیا، ٹلّہ جوگیاں کا تھا اور جہاں پتھر کا ایک تخت آج بھی رانجھے کے جوگ کی یادگار کے طور موجود ہے۔ جہلم سے تقریباً 20 کلومیٹر فاصلے پر سطح سمندر سے 3200 فٹ کی بلندی پر واقع ’ٹلّہ جوگیاں‘ یا جوگیوں کے ٹیلے کے اجڑے کھنڈرات میں صدیاں سانس لیتی ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں زمینی بادشاہ کبھی تخت اور کبھی اپنے محبوب کو حاصل کرنے آتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند ہمیشہ سے جاہ و جلال سے لے کر تصوف کی بلندیوں تک پہنچنے والے عظیم لوگوں کی آماجگاہ رہا ہے۔ اس کی مٹی میں علم و فضل کی خوشبو مہکتی دکھائی دیتی ہے۔ نا صرف جنوبی ایشیا بلکہ باقی دنیا کے لوگ بھی یہاں تشریف لا کر اپنی بپھری ہوئی زندگی کو سکون کا تحفہ دیتےرہے ہیں۔ یہاں بے شمار مقامات ایسے ہیں جہاں آج بھی علم و سکون کے متلاشی اپنے آپ سے روشناس ہونے تشریف لاتے ہیں۔ بے مثال تاریخ اور عظیم الشان شخصیات کے فیض کو اپنے اندر سموئے ٹلہ جوگیاں بھی ان ہی مقامات میں سے ایک ہے۔ ٹلہ پنجابی میں ٹیلے کو کہتے ہیں جس سے مراد بلندی والی جگہ ہے اور لفظ جوگیاں سنسکرت کے لفظ جوگ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے دو یا زیادہ چیزوں کے ملنے کی حالت یا کیفیت۔جو لوگ دنیا و مافیہاسے بے خبر علم کی تلاش میں نکلتے ہیں انہیں جوگی کہا جاتا ہے۔ چوں کہ ٹلہ جوگیاں برصغیر پاک و ہند کے جوگیوں کی آماجگاہ رہی ہے اس لیے اس کا نام ٹلہ جوگیاں مشہور ہوا۔ تاریخ میں یہ ٹلہ گورکھ ناتھ اور ٹلہ بال ناتھ بھی کہلاتا رہا ہے۔ گورکھ ناتھ اور بال ناتھ مختلف ادوار میں جوگیوں کے دو گُرو رہے ہیں۔ ٹلہ جوگیاں کم و بیش چار ہزار سال پرانی تاریخ رکھتا ہے۔ آریا چار ہزار سال پہلے وسطِ ایشیا سے اس خطے میں وارد ہوئے۔ وہ قدرتی مظاہر جیسے چاند اور سورج وغیرہ کی پرستش کیا کرتے تھے۔ ٹلہ جوگیاں پر ایسا مقام بھی موجود ہے جہاں سے اگر سورج کو دیکھا جائے تو طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک سورج ایک خاص زاویہ بناتے ہوئے گزرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ آریاؤں کی پہلی قیام گاہ وادیِ جہلم ہی تھی۔ سطح سمندر سے 3200 فٹ کی بلندی پرہونے کی وجہ سےآریاؤں نے ٹلہ جوگیاں کو اپنی مقدس عبادت گاہ کا درجہ دیا۔ ماضی میں کئی عظیم شخصیات اس ٹلے پہ تشریف لائیں اور یہاں موجود جوگیوں سےجوگ حاصل کیا جن میں رانجھے سے لے کر زمانے کے سلطان شہنشاہِ اکبر شامل ہیں۔کہا جاتا ہے کہ راجہ پورس کے ساتھ لڑائی کے بعد سکندرِ اعظم کا گھوڑااسی پہاڑپہ چڑ گیا جس سے سکندر کو بھی پہاڑ پہ چڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی اور پھر ٹلہ جوگیاں بھی سکندر کا مسکن بنا۔ اس مقام پہ کسی مذہبی تفریق کے بغیر ہندومت، اسلام، جین مت، بدھ مت اور عیسائیت کے پیروکار تشریف لاتے رہے ہیں۔ ہیر کا رانجھا بھی ہیر کی محبت میں ونجلی(بانسری) بجاتا ہواسکون حاصل کرنے اسی مقام پہ آیا تھا۔ سکھ مذہب کے بانی گرونانک یہیں پہ آ کے چلہ کاٹتے تھے۔ گرو گورکھ ناتھ، گرو بال ناتھ، راجا سلواہن، راجا بھرت ہری، مغل بادشاہ جلال الدین اکبر، نورالدین جہانگیر، غرض کہ ہر عہد کے سلاطین اور ہر مذہب کے پیشوا یہاں تشریف لائے ہیں۔ پورےبرصغیر سے جوگیوں، سادھوں اور فقیروں کے گروہ یہاں آ کر اپنے اپنے انداز میں سچ کی کھوج کیا کرتے تھے۔ جوگی جنگلوں میں رہ کر جڑی بوٹیوں سے نت نئے علاج کے طریقے ڈھونڈتے تھے۔ آیورویدک طریقہِ علاج اور یوگا جیسی ورزش ان ہی جوگیوں کے مرہونِ منت ہے۔ اس کے علاوہ اس ٹلے سے بے شمار کہانیاں منسوب ہیں جو بتاتی ہیں کہ کیسے بادشاہوں سے لے کر غلاموں تک لوگ یہاں آئے اور نروان حاصل کیا۔ ٹلہ جوگیاں کو آباد اور برباد کرنے کے لیے بہت سے لوگ آئے۔ برباد کرنے والوں میں احمد شاہ ابدالی کا نام سرِ فہرست ہے۔ شہنشاہ اکبر جب یہاں آیا تو وہ اِن جوگیوں سے بہت متاثر ہوا اور ان سے پوچھنے لگا کہ میں تمہاری کیا سیوا کر سکتا ہوں۔ جوگیوں نے پانی کے لیے ایک تالاب کا مطالبہ کیا جس کے بعد یہاں ایک عظیم الشان تالاب تعمیر کیا گیا جو آج بھی موجود ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد یہاں موجود ہندو جوگی انڈیا کوچ کر گئے جو اس روایت کے زوال کی وجہ بنی۔ اس وجہ سے آج وہاں تالاب، مندر، سمادھیاں ، اور مختلف عبادت گاہیں تو موجود ہیں مگر جوگی موجود نہیں۔ آج یہ مقام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے جسے حکومتی نظر کی سخت ضرورت ہے۔
معاشرے کا ڈر نکال کر خود اعتمادی پیدا کریں ، لوگوں کےبارے میں سوچنا چھوڑ دیں

اگر آپ اب بھی ان خیالوں میں گم ہیں کہ ہمارے بارے میں لوگ کیا سوچتے ہیں تو لوگ کچھ کہیں یا نہ کہیں، مگر آپ کی زندگی عذاب ضرور بن جائے گی، تو ضروری ہے کہ خود اعتمادی پیدا کریں۔ یہ کہاوت آپ نے بار بار سنی ہو گی کہ کھاؤ من بھاتا، پہنو جگ بھاتا یعنی کھاؤ اپنی مرضی کا، پہنوں لوگوں کی مرضی کا۔ اگر آپ سوچیں گے کہ جو میں پہن رہا ہوں، لوگ اسے دیکھ کر کیا کہیں گے تو یہ آپ خود کی توہین کر رہے ہیں، اس سے آپ کا اعتماد ٹوٹے گا اور آپ احساس کمتری کا شکار ہوں گے۔ آپ کسی فیملی فنکشن پر جاتے ہیں، لوگوں سے ملتے جلتے ہیں، مگر آپ نے کچھ ایسا پہن لیا ہے، جس سے آپ کے لیےحرکت کرنا بھی مشکل ہو جائے ، تو آپ اس سےکمفرٹ ایبل فیل نہیں کر سکے گے۔ اس کا اثر آپ کی پرسنالٹی پہ بھی پڑے گا اور لوگوں کے سامنے آپ کا امیج بھی اچھا نہیں بنے گا۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے آخر ایسا پہنا کیوں؟کیونکہ معاشرہ آپ کو بتاتا ہے کہ اگر آپ فٹنگ والے کپڑے پہنیں گے تو آپ پر زیادہ سوٹ کرے گا لیکن حقیقت اس سے برعکس ہےآپ نے اپنے اعتماد کی بجائے دوسروں کو ترجیع دے کراپنے کونفیڈنس پر سوالیہ نشان چھوڑ دیا ۔ اس کے برعکس جب آپ اپنی مرضی کا پہنتے ہیں، تو آپ کم فرٹ ایبل محسوس کرتے ہیں۔ آپ کا اعتماد بڑھتا ہے اور آپ کی پرسنالٹی پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ جب تک آپ دوسروں کی مرضی کے مطابق جیئں گے تو آپ کو کبھی بھی سکون نہیں آئے گا۔ اصل خوشی خود کو قبول کرنے میں اور اپنی پسند و نا پسند کو پہچاننے میں ہے۔ لہٰذا، لوگوں کی فکر کرنا چھوڑ دیں اور اپنی زندگی خود جینا شروع کریں۔ آپ اپنی زندگی کے مالک ہیں، کسی اور کو یہ حق نہ دیں کہ وہ آپ کے فیصلے کرے۔ خود پر یقین رکھیں، اپنی پسند کو اہمیت دیں اور اپنی شخصیت کو نکھاریں۔ کیونکہ آپ کیلئے اگر کوئی ضروری ہے تو آپ خود ہیں
چولستان میں چار صحابہ کرام کی تاریخی قبریں

چولستان میں قلعہ دراوڑ کے ساتھ صحابہ کرام کی سینکڑوں سال سے قبریں موجود ہیں جن میں حضرت طاہر رضی ، حضرت جواد رضی ، حضرت جوار رضی ، حضرت طیب رضی شامل ہیں۔ ان صحابہ اکرام کے حوالے سے کتابوں میں تو معلومات نہیں ملتی لیکن یہاں کہ لوگوں سے عرصہ دراز سے زبانی کلامی سن رہے ہیں کہ یہ صحابہ اکرام کی قبریں ہیں۔ ان قبروں کو صحابہ اکرام کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے لیکن ان کو ریسرچ کرنے سے یا کتابوں سے ڈھونڈنے سےمعلومات نہیں ملتی۔
قلعہ دراوڑ: وقت کے نشیب و فراز سے گزرتا ہوا عظمت کا منبع

قلعہ دراوڑ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے صحرائی علاقے چولستان میں واقع ایک تاریخی قلعہ ہے، جو بہاولپور سے تقریباً 130 کلومیٹر دور جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ قلعہ اپنی مضبوط فصیلوں، شاندار تعمیرات اور وسیع رقبے کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے مشہور قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ قلعہ دراوڑ کی بنیاد راجپوت بھٹی حکمران رائے ججہ نے نویں صدی میں رکھی تھی، لیکن بعد میں یہ قلعہ عباسی حکمرانوں کے قبضے میں آگیا۔ 1733 میں نواب محمد مبارک خان عباسی نے اسے فتح کرکے اپنے خاندان کی حکمرانی کا حصہ بنا لیا۔ عباسی خاندان نے اسے اپنی ریاست بہاولپور کے دفاع کے لیے ایک مضبوط قلعے کے طور پر استعمال کیا۔ یہ قلعہ 40 بلند میناروں اور تقریباً 1500 میٹر طویل دیواروں پر مشتمل ہے، جن کی بلندی 30 میٹر تک ہے۔ یہ قلعہ نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتا ہے بلکہ چولستان کے ثقافتی ورثے کی علامت بھی ہے۔ ہر سال یہاں چولستان جیپ ریلی سمیت مختلف ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں، جو ملک بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ قلعہ دراوڑ کی حالت خستہ ہو چکی ہے، لیکن یہ آج بھی بہاولپور کے تاریخی ورثے کا ایک شاندار نشان ہے، جو ماضی کی عظمت کی عکاسی کرتا ہے۔
عید پر ادھوری خوشیاں: اولڈ ایج ہوم میں اپنوں کے انتظار میں آبدیدہ آنکھیں

عیدالفطر کی خوشیاں ہر کسی کے لیے مسرت اور محبت کا پیغام لاتی ہیں، لیکن بعض افراد کے لیے یہ دن تنہائی اور ماضی کی یادوں میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ کراچی کے علاقے کورنگی میں واقع المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کے اولڈ ایج ہوم میں مقیم بزرگ شہریوں کی عید بھی کچھ ایسی ہی تھی، جہاں انہوں نے اپنے جذبات اور تجربات کا اظہار کیا۔ اس ادارے میں مقیم ایک 68 سالہ بزرگ کا کہنا تھا کہ وہ یہاں تقریباً ڈیڑھ سال سے رہ رہے ہیں۔ انہوں نے ماضی کے کراچی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے شہر کی آبادی کم تھی، ہر جگہ محبت اور اپنائیت کا ماحول تھا، لیکن وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ باپے بڑے ہو گئے تو ناکارہ ہو گئے، ماں بڑی ہو گئی تو اُس کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو گئیں۔ ایک اور بزرگ شہری نے کہا کہ وہ تیرہ سال کی عمر میں ہی نوکری کرنے لگے تھے اور اب اپنے نواسوں اور پوتوں کو بڑا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ والدین سرمایہ ہوتے ہیں اور بچوں کو چاہیے کہ ان کا خیال رکھیں۔ ماں باپ نے آپ کو بچپن میں نہیں پھینکا تو آپ بھی ان کو بڑھاپے میں تنہا نہ چھوڑیں۔ ادارے کی انتظامیہ کے مطابق یہاں رہنے والے بزرگ شہریوں کو عید کے موقع پر خصوصی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ انہیں عید کے روز نئے کپڑے دیے گئے، خصوصی کھانے کا انتظام کیا گیا اور ان کے اہل خانہ کو ملنے کی اجازت دی گئی۔ ایک بزرگ نے بتایا کہ ان کی اہلیہ اور بیٹے ہر عید پر ان سے ملنے آتے ہیں، جب کہ کچھ افراد ایسے بھی ہیں جنہیں ان کے پیارے یاد تک نہیں کرتے۔ ادارے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہاں بزرگ شہریوں کی صحت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ انہیں میڈیکل فیسلیٹیز، موسمی ضروریات کے مطابق اشیاء اور روزانہ چیک اپ فراہم کیا جاتا ہے۔ “اگر کسی کو شگر یا بلڈ پریشر کا مسئلہ ہو تو ان کے ٹیسٹ باقاعدگی سے کیے جاتے ہیں۔” المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کے اولڈ ایج ہوم میں مقیم بزرگوں کا کہنا ہے کہ عید کا دن یہاں بھی خوشیوں سے خالی نہیں ہوتا، لیکن اپنے گھر کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔ ان کا پیغام تھا کہ جوائنٹ فیملی سسٹم کو مضبوط کیا جائے اور والدین کو ان کے بڑھاپے میں اکیلا نہ چھوڑا جائے۔
ثوبت: خیبر پختونخوا کا روایتی کھانا، جنوبی پنجاب کی ثقافتی شناخت کیسے بن گیا؟

صوبت، جو خیبر پختونخوا کا ایک روایتی پکوان ہے مگر اب پنجاب میں بھی مقبولیت حاصل کر رہا ہے اور کھانے کے شوقین افراد کو اپنی منفرد لذت اور ثقافتی اہمیت سے محظوظ کر رہا ہے۔ پشتون cuisine سے تعلق رکھنے والا یہ پکوان ایک اجتماعی طور پر پیش کیا جانے والا کھانا ہے جس میں نرم گوشت اور بھیگے ہوئے روٹی شامل ہوتی ہے، جو مہمان نوازی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جیسے جیسے لوگ اس کی منفرد ذائقہ سے آشنا ہو رہے ہیں، پنجاب میں ریسٹورنٹس اور کھانے کے شوقین افراد اسے اپنی ڈشوں میں شامل کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں دونوں علاقوں کے درمیان کھانے کی ایک حسین امتزاج دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی مانگ سے پاکستان کی متنوع غذائی ثقافت اور مختلف علاقوں کے پکوانوں کے ذریعے کمیونٹیز کے مابین تعلقات مضبوط ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔