پاکستان نے انڈیا کو پیچھے چھوڑدیا، آخر ایسا کیسے ممکن ہوا؟

پاکستان نے سیاحت کے لیے محفوظ ملکوں کی درجہ بندی میں انڈیا، برطانیہ، امریکہ، اسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ائرلینڈ، سویڈن اور ملائیشیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ درجہ بندی عالمی کراؤڈ سورسڈ پلیٹ فارم نمبو نے جاری کی ہے، جس میں پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ آخر ایسا کیسے ممکن ہوا؟ 2025 کی اس رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے 65ویں نمبر پر جگہ بنائی ہے، جس کا سیفٹی اسکور 56.3 رہا۔ یہ وہی درجہ بندی ہے جس میں پاکستان نے بھارت، امریکہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم سب سے محفوظ ممالک کی بات کریں تو اندورا اس فہرست میں پہلے نمبر پر رہا، جس کا سیفٹی اسکور 84.7 ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات، قطر، تائیوان اور عمان جیسے ممالک شامل رہے۔ یہ درجہ بندی کچھ مغربی ممالک کے لیے حیران کن رہی، کیونکہ ان کی پوزیشن کافی نیچے چلی گئی ہے۔ امریکہ 89ویں اور برطانیہ 87ویں نمبر پر آ گئے، جب کہ فرانس مزید نیچے جا کر 110ویں نمبر پر پہنچ گیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیفٹی درجہ بندی میں اتنی بہتری کیسے آئی؟ تجزیہ کاروں کے مطابق، اس کی ممکنہ وجوہات میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات، امن و امان کی بہتری، اور سیکیورٹی فورسز کی بہتر حکمت عملی شامل ہیں۔ دوسری طرف، اگر سب سے غیر محفوظ ممالک کی بات کریں تو وینزویلا اس فہرست میں سب سے نیچے رہا، جب کہ ہیٹی، افغانستان، جنوبی افریقہ اور پاپوا نیو گنی بھی خطرناک ممالک میں شامل رہے۔ پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری ایک مثبت پیش رفت ہے، جو نہ صرف سیاحت بلکہ ملک کی عالمی ساکھ کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر پاکستان اسی رفتار سے آگے بڑھتا رہا تو مستقبل میں مزید بہتری کے امکانات موجود ہیں۔

حالیہ اغوا اور گرفتاریاں، کیا پاکستان میں صحافت اب ناممکن ہے؟

حالیہ دنوں میں پاکستانی صحافیوں وحیدمراد اور فرحان ملک کا اغوا اور گرفتاری سامنے آئی ہے۔ حکومت سوشل میڈیا صارفین کے خلاف بھی ایکشن میں دیکھائی دیتی ہے۔کیا سب پہلی بار ہو رہا ہے؟ کیا پاکستان میں میڈیا کا سفر ختم اور صحافت ناممکن ہو گئی؟ صحافی سے خوداحتسابی کی ڈیمانڈ کیوں؟ پولرائزیشن میں صحافی متحد ہو کر چیلنج سے نمٹ سکیں گے؟ اس پوڈ کاسٹ میں صدر کراچی پریس کلب فاضل جمیلی، سینیئر صحافی وسیم عباسی، رکن گورننگ باڈی لاہور پریس کلب مدثر شیخ کے ساتھ ایڈیٹر پاکستان میٹرز شاہد عباسی کی گفتگو سنیں۔ پاکستان میں صحافت ایک مشکل اور خطرناک پیشہ بن چکا ہے، جہاں آزاد رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو آئے روز دھمکیوں، تشدد، اغوا اور حتیٰ کہ قتل جیسے سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں آزادیٔ اظہار کے حق کو دبانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں سینسر شپ، دباؤ، جھوٹے مقدمات، اور زبردستی خاموش کرانے کی کوششیں شامل ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں کئی صحافیوں کے اغوا کے واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں بعض کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کچھ آج تک لاپتہ ہیں۔ ان واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں تحقیقاتی صحافت اور طاقتور حلقوں پر تنقید کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ میڈیا اداروں پر بھی دباؤ ڈالا جاتا ہے، جس کے باعث وہ کئی اہم موضوعات پر رپورٹنگ سے گریز کرتے ہیں۔ صحافت کو درپیش ان خطرات کے باوجود کئی بہادر صحافی اپنی جان جوکھم میں ڈال کر عوام کو سچ سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں صحافت مکمل طور پر ناممکن نہیں ہوئی، لیکن آزاد صحافت کا دائرہ کار مسلسل محدود کیا جا رہا ہے، جو ملک میں جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کے لیے ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ ان تمام معاملات کے مختلف پہلو ‘پاکستان میٹرز’ کی حالیہ ایپیسوڈ میں دیکھیں اور اس موضوع پر اپنی رائے کمنٹ سیکشن میں ہم سے شیئر کریں۔

کیا ناپا فنکاری سیکھنے کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے؟

پاکستان میں فنون لطیفہ کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرنے والا ادارہ، نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس ( ناپا)ملک کے باصلاحیت فنکاروں کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ثابت ہو رہا ہے۔ نہ صرف تھیٹر اور موسیقی کی اعلیٰ تعلیم فراہم کرتا ہے بلکہ عملی تربیت کے ذریعے طلبہ کو پروفیشنل دنیا میں قدم رکھنے کے لیے بھی تیار کرتا ہے۔ ناپا کا قیام 2005 میں عمل میں آیا تھا اور تب سے یہ ادارہ پاکستان میں تھیٹر، موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ کی ترقی کے لیے سرگرم عمل ہے۔ یہاں ملک کے نامور اساتذہ اداکاری، اسٹیج پروڈکشن اور موسیقی کی تربیت دیتے ہیں، جس سے طلبہ بین الاقوامی معیار کے مطابق مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے اسامہ نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ناپا پاکستان میں تھیٹر اور فنی مہارت سکھانے میں بہترین ثابت ہو رہا ہے،اس ادارے میں پنجاب، سندھ، کے پی اور بلوچستان سے بھی طالب علم سیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ انس خالد نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ ناپا میں آپ کو سکرپٹ،سٹوری ٹیلنگ اور خصوصی طور پر ایکٹنگ کی کلاسز دیکھنے کو ملے گی اور یہ ادارہ پاکستان میں بہترین کارکردگی کہ وجہ سے اپنی مثال آپ ہے۔  

لیڈی پولیس بائیک سکواڈ، پہیوں پر جرائم کے خلاف جنگ

پنجاب حکومت نے عیدالفطر کے دوران بازاروں میں سیکیورٹی بڑھانے کے لیے خواتین پر مشتمل بائیک اور سائیکل اسکواڈ تشکیل دے دیا ہے۔ اس اسکواڈ کا مقصد شہریوں، خصوصاً خواتین کو جرائم پیشہ عناصر سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ یہ اسکواڈ بازاروں اور عوامی مقامات پر تعینات ہوگا اور چوری، جیب تراشی، ہراسمنٹ اور دیگر جرائم کی روک تھام کے لیے کارروائی کرے گا۔ پولیس کے مطابق، اسکواڈ کو فوری رسپانس، پیٹرولنگ اور عوامی شکایات پر فوری کارروائی کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ عید کے دنوں میں سیکیورٹی مزید سخت کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شہری کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر پولیس ہیلپ لائن پر دیں تاکہ بروقت کارروائی کی جا سکے

ٹک ٹاک، انسٹاگرام کا مقابلہ کرنے کے لیے یوٹیوب نے نیا فیچر متعارف کرادیا

یوٹیوب نے مختصر ویڈیوز پوسٹ کرنے والے صارفین کے لیے  کا اعلان کر دیا، جس کے مطابق یوٹیوب کے شارٹس ویڈیوز کے ویوز کاؤنٹ سسٹم میں تبدیلی کی جائے گا۔ یوٹیوب کمپنی کے مطابق 31 مارچ سے صارفین کو اپنی مختصر ویڈیوز کی کارکردگی جانچنے کے لیے مزید واضح اعداد و شمار فراہم کیے جائیں گے۔ نئے سسٹم کے تحت یوٹیوب شارٹس ویڈیوز میں یہ دیکھا جا سکے گا کہ کسی ویڈیو کو کتنی بار پلے یا ری پلے کیا گیا، جب کہ اس سے قبل صرف ویڈیو دیکھنے کا مجموعی وقت شمار کیا جاتا تھا۔ مزید پڑھیں: اضافی بجلی کو کرپٹو مائننگ کے لیے استعمال کرنے کا مشورہ یوٹیوب کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ صارفین کی درخواست پر کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی ویڈیوز کی رسائی کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور اپنی مواد کی حکمت عملی میں بہتری لا سکیں۔ اس اپ ڈیٹ کے بعد یوٹیوب شارٹس کا ویوز سسٹم ٹک ٹاک اور انسٹاگرام ریلز جیسا ہو جائے گا، جہاں ویڈیوز کو دیکھے جانے یا ری پلے کے نمبروں کو واضح طور پر دکھایا جاتا ہے۔ کمپنی کے مطابق اس تبدیلی سے یوٹیوب پارٹنر پروگرام میں شمولیت کی اہلیت یا صارفین کی آمدنی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔  صارفین اب بھی شارٹس ویڈیوز دیکھے جانے کے دورانیے کو ایڈوانسڈ موڈ میں جا کر دیکھ سکیں گے، جسے اب ‘انگیجڈ ویوز’ کا نام دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ نئی اپ ڈیٹ 31 مارچ سے نافذ العمل ہوگی۔

پاکستان میٹرز اسپیشل: ترکیہ میں احتجاج کیوں، قصوروار کون، اصل معاملہ کیا ہے؟

استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کی ہفتہ بھر قبل گرفتاری کے بعد سے ترکیہ میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ کوئی ان مظاہروں کو بڑا تو کوئی بہت بڑا قرار دیتا ہے۔ اردوان مخالفین، اپوزیشن رہنما کے خلاف کارروائی کو سیاسی انتقام جب کہ حکومت اسے کرپشن کے خلاف عدلیہ کا اقدام کہتی ہے۔ مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق ان مظاہروں کے نتیجے میں جہاں تاریخی مسجد کی بےحرمتی کی گئی، تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے وہیں 1100 سے زائد افراد گرفتار ہیں۔ ترک اداروں نے احتجاج سے امریکی اور دیگر غیرملکی شہریوں کو بھی گرفتار کیا ہے۔ اسرائیلی فوج سے ربط رکھنے والے ایک امریکی شہری کو ترکیہ بدر کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ ترکیہ میں احتجاج کی اصل وجہ کیا، اپوزیشن رہنما کا قصور کتنا، ترک صدر اردوان کس  مشکل میں ہیں اور دیگر موضوعات پر ’پاکستان میٹرز‘ کے خصوصی نشریہ میں سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ انقرہ سے ترک صحافی مہمت اوزترک، پاکستان سے ترک امور کے ماہر اور ترکیہ اردو کے ایڈیٹر حافظ محمد احسان، ایڈیٹرپاکستان میٹرز شاہد عباسی نے شرکت کی ۔ مہمت اوز ترک نے کہا کہ ترکیہ ایک جمہوری ملک ہے اور پر امن احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے، لیکن اس وقت ترکیہ میں جو بھی ہو رہا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ مہمت اوزترک کے مطابق استبول کے میئر کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کے دعوی کے برعکس اصل معاملہ کچھ اور ہے، حقیقت میں اس معاملے کا آغاز صدر اردوان نے نہیں بلکہ خود اکرم امام اوغلو کی جماعت کے لوگوں کی شکایت پر ہوئی تفتیش سے ہوا ہے۔ ترکیہ میں احتجاج کے مختلف پہلو ‘پاکستان میٹرز’ کی حالیہ ایپیسوڈ میں دیکھیں اور اس موضوع پر اپنی رائے کمنٹ سیکشن میں ہم سے شیئر کریں۔

ٹرمپ کا ٹیرف کیا ہے؟

ٹیرف ایک قسم کا درآمدی ٹیکس ہوتا ہے جو کسی ملک میں بیرون ملک سے آنے والی اشیاء پر لگایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد مقامی صنعتوں کو تحفظ دینا، تجارتی خسارہ کم کرنا یا بعض ممالک پر اقتصادی دباؤ ڈالنا ہو سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ماضی میں بھی اس پالیسی کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ جب وہ 2016 میں صدر بنے تو انہوں نے چین، یورپی یونین، میکسیکو اور کینیڈا جیسے ممالک سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کیے تھے۔ اس وقت بھی ان کا مؤقف یہی تھا کہ زیادہ ٹیرف لگانے سے امریکی معیشت کو فائدہ ہوگا کیونکہ لوگ مقامی مصنوعات خریدنے پر مجبور ہوں گے۔ 2025 میں دوبارہ امریکی صدر بننے کے بعد  وہ پھر سے  اسی پالیسی پر زور دے رہے ہیں۔ اس کا ایک مقصدیہ بھی ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی عدم توازن کو کم کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے امریکی معیشت کو فائدہ ہوگا اور ملازمتوں کو تحفظ ملے گا۔ اپنے دوسرے دورِ حکومت میں انہوں نے تمام ممالک پراسٹیل اور ایلومینیم  درآمد کرنے پر 25 فیصد ٹیرف لگایا ہے۔ اس کے علاوہ میکسیکواور  کینیڈا پر سوائے توانائی کی مصنوعات کے تمام اشیا پر25 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے۔ امریکا نے  نے چین کی مصنوعات پر اضافی 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا، جس کا مقصد چین سے آنے والی منشیات، خاص طور پر فینٹینائل، کی روک تھام تھا۔ امریکا کے اس اقدام کے بعد کچھ ممالک نے امریکا پر جوابی ٹیرف لگایا ہے۔ جس میں چین، میکسیکو، کینیڈا اور یورپین یونین شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر ٹیرف بڑھانے سے درآمد شدہ اشیاء مہنگی ہو جائیں گی، جس کا براہ راست اثر عام صارفین پر پڑے گا۔ بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کی تجارتی پالیسیاں عالمی معیشت پر بھی اثر ڈال سکتی ہیں اور دیگر ممالک سخت جوابی اقدامات کر سکتے ہیں۔

بس فون اٹھائیں، کال ملائیں اور انصاف پائیں

چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے ‘اینٹی کرپشن ہاٹ لائن’ کا قیام کیا گیا ہے اپنے حق کے لیے اینٹی کرپشن کے( 03264442444) اس نمبر پر کال کریں اور اپنا انصاف حاصل کریں۔ یہ نمبر یاد رکھیں اور ہر لمحہ اس نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ سے کوئی بھی رشوت مانگے، کوئی بھی انصاف میں رکاوٹ ڈالے، یا پھر کوئی بھی آپ کا حق دبانے کی کوشش کرے تو فوراً فون اٹھائیں اور اس نمبر پر اطلاع دیں۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا ہے کہ “نظام عدل میں تیز ترین انصاف کی فراہمی میری اولین ترجیح ہے”۔ یہ صرف الفاظ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ پچھلے پانچ ماہ میں سات ہزار 633 نئے کیس دائر ہوئے لیکن حیرت انگیز طور پر 11 ہزار 779 کیسز کے فیصلے کیے جا چکے ہیں۔ انصاف کی مشینری اب پہلے سے کہیں زیادہ برق رفتاری سے کام کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ نئے ججوں کی تقرری کے بعد یہ رفتار مزید تیز ہو جائے گی۔ یہ ہاٹ لائن صرف ایک نمبر نہیں، یہ انصاف کی آواز ہے۔ یہ عدلیہ میں احتساب کا نیا معیار ہے۔ یہ عوام کے حقوق کی جیت ہے۔

‘سہولیات ایتھوپیا جیسی اور نتائج اسپین جیسے’ ڈاکٹرز کا حکومت کے خلاف احتجاج

پنجاب میں صحت کے شعبے کی نجکاری کے خلاف احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے۔ آج لاہور کے جنرل ہسپتال کے باہر ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ مظاہرین نے حکومت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے سخت نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ نجکاری کا فیصلہ فوری طور پر واپس لیا جائے۔ احتجاج میں شریک ڈاکٹروں نے حکومتی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “ہمیں ایتھوپیا والی سہولیات دی جا رہی ہیں لیکن نتائج اسپین اور اٹلی جیسے مانگے جا رہے ہیں۔” انکا کہنا تھا کہ “حکومت اگر ہمارے مسائل حل نہیں کر سکتی تو کم از کم ہماری نوکریاں نہ چھینے۔” احتجاج میں شریک تنظیموں کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت بنیادی مراکز صحت (BHU) اور رورل ہیلتھ سنٹرز (RHC) کی نجکاری کر کے ہزاروں ملازمین کو بے روزگار کرنے جا رہی ہے۔ مظاہرین کی جانب سے پرائم منسٹر ہیلتھ انیشیٹو (PMHI) پروگرام کے ملازمین جو تین ماہ سے تنخواہوں اور روزگار سے محروم ہیں ان کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ طبی عملے نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈسپنسرز، آیا، سینٹری ورکرز اور معاون طبی عملے کو بھی ریگولر کیا جائے تاکہ ان کی سالوں کی محنت ضائع نہ ہو۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ نجکاری کا مطلب صحت کی سہولیات کو مہنگا اور ناقص بنانا ہے جو عوام کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ یہ احتجاج پنجاب میں صحت کے شعبے میں نجکاری کے خلاف جاری تحریک کا تسلسل ہیں۔ اس احتجاج میں تقریباً 23 تنظیموں نے گنگا رام ہسپتال سے محکمہ ہیلتھ اینڈ پاپولیشن تک لانگ مارچ کیا تھا جس میں ہزاروں ملازمین نے شرکت کی تھی۔ احتجاج میں نمایاں تنظیمیں جیسے کہ ‘ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن’ (YDA)، ینگ نرسز ایسوسی ایشن، (YNA)پاکستان پیرا میڈیکل اسٹاف ایسوسی ایشن، لیڈی ہیلتھ وزیٹر ایسوسی ایشن اور پنجاب ڈسپنسرز ایسوسی ایشن شامل ہیں۔ مظاہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کر دیا جائے گا اور آئندہ پنجاب بھر کے سرکاری اسپتالوں میں مکمل ہڑتال کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ تاحال پنجاب حکومت نے اس احتجاج پر کوئی واضح ردعمل نہیں دیا لیکن محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس معاملے پر غور کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹروں اور طبی عملے نے اعلان کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو احتجاج کا دائرہ بڑھا کر پورے پنجاب میں اسپتالوں کو بند کرنے کی کال دی جائے گی۔ مزید پڑھیں: ‘پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ ہو گیا ہے’ وزیر اعظم شہباز شریف

ماہ رنگ بلوچ کے آنسو سچ یا میڈیا اسٹنٹ؟

آنسوؤں اور آہوں میں ڈوبی ایک ویڈیو وائرل ہے، یہ ویڈیو ماہ رنگ بلوچ کی ہے، ماہ رنگ جو کہہ رہی ہے کیا وہ سچ ہے یا محض سوشل میڈیا سٹنٹ؟ کیا ہارڈ سٹیٹ ایسے بیانات اور ویڈیوز کا ردعمل ہے یا کہانی کچھ اور ہے؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں ناظرین۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تاریخ دہائیوں سے موجود ہے۔ بلوچستان میں کئی رہنماؤں نے اس پر آواز بلند کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کچھ کے ہونٹ سی دیے گئے جب کہ کچھ لاپتہ ہوگئے۔ ماہ رنگ بلوچ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک انسانی حقوق کی کارکن ہیں جو جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کے والد، عبد الغفار لانگو، کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے رکن تھے، جو 2009 میں لاپتہ ہوئے اور 2011 میں ایک کارروائی میں مارے گئے۔ ماہ رنگ بلوچ نے 2023 میں بلوچستان سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا، اس مارچ کے شرکا نے شہر اقتدار میں دھرنا دیا۔ مارچ کا بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرنا بتایا گیا۔ پچھلے دنوں ماہ رنگ بلوچ اپنے ساتھیوں کے ساتھ احتجاج کر رہی تھی کہ پولیس کے ساتھ جھڑپ میں 3 افراد جاں بحق جب کہ متعدد زخمی ہوگئے۔ پولیس نے ماہ رنگ بلوچ کو گرفتار کر لیا اور کوئٹہ جیل منتقل کر دیا۔ اس واقعہ کا ہونا تھا کہ بلوچستان میں مظاہرے پھوٹ پڑے، انتظامیہ کو شہر بند کرنے پڑے اور مظاہرین کو بزورطاقت روکنا پڑا۔ یہ مظاہرین تو نہتے ہیں پھر اتنی سختی کیوں؟ کیا ان کا تعلق بھی پہاڑوں پر آباد شرپسندوں سے ہے؟ بلوچستان میں ہونے والے دہشتگردانہ واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ان واقعات میں پنجابی مزدوروں کا قتل کیاجاتا ہے۔لیکن ماہ رنگ بلوچ سے کیے جانے والے سوال میں انہوں نےاس کی مذمت تک نہ کی۔ ایک طرف تو ماہ رنگ اپنے لاپتہ افراد کے لیے جدوجہد کرتی نظرآتی ہیں تو دوسری جانب وہ دہشت گرد حملوں میں مارے جانے والے معصوم پنجابیوں اور فورسز کے جوانوں کی موت پر خاموش۔ یہ خاموشی، پراسرار خاموشی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی وہ بلوچستان کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جن کے خلاف وہ جدوجہد کر رہی ہیں اصل میں یہ خود بھی انہی کی کارندہ ہیں۔ اور بلوچ عوام کے سامنے ایک ہیروئن کے طور پر نظر آرہی ہیں۔ ماہ رنگ کو وہاں سے پذیرائی مل رہی ہے جن کو پاکستانیوں کی اکثریت دشمن سمجھتی ہے۔ بظاہر ماہ رنگ بلوچ کا مقصد بلوچ قوم میں شعور بیدار کرنا اور انہیں متحد کرنا ہے، مگر ویڈیو میں کیے گئے دعوؤں اور ان کے سرٹیفکیٹس سے لگتا ہے کہ یہ آنسومگر مچھ کے آنسو ہیں۔ کیا آپ کا بھی یہی خیال ہے؟