ماہ رنگ بلوچ کے آنسو سچ یا میڈیا اسٹنٹ؟

آنسوؤں اور آہوں میں ڈوبی ایک ویڈیو وائرل ہے، یہ ویڈیو ماہ رنگ بلوچ کی ہے، ماہ رنگ جو کہہ رہی ہے کیا وہ سچ ہے یا محض سوشل میڈیا سٹنٹ؟ کیا ہارڈ سٹیٹ ایسے بیانات اور ویڈیوز کا ردعمل ہے یا کہانی کچھ اور ہے؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں ناظرین۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تاریخ دہائیوں سے موجود ہے۔ بلوچستان میں کئی رہنماؤں نے اس پر آواز بلند کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کچھ کے ہونٹ سی دیے گئے جب کہ کچھ لاپتہ ہوگئے۔ ماہ رنگ بلوچ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک انسانی حقوق کی کارکن ہیں جو جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کے والد، عبد الغفار لانگو، کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے رکن تھے، جو 2009 میں لاپتہ ہوئے اور 2011 میں ایک کارروائی میں مارے گئے۔ ماہ رنگ بلوچ نے 2023 میں بلوچستان سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا، اس مارچ کے شرکا نے شہر اقتدار میں دھرنا دیا۔ مارچ کا بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرنا بتایا گیا۔ پچھلے دنوں ماہ رنگ بلوچ اپنے ساتھیوں کے ساتھ احتجاج کر رہی تھی کہ پولیس کے ساتھ جھڑپ میں 3 افراد جاں بحق جب کہ متعدد زخمی ہوگئے۔ پولیس نے ماہ رنگ بلوچ کو گرفتار کر لیا اور کوئٹہ جیل منتقل کر دیا۔ اس واقعہ کا ہونا تھا کہ بلوچستان میں مظاہرے پھوٹ پڑے، انتظامیہ کو شہر بند کرنے پڑے اور مظاہرین کو بزورطاقت روکنا پڑا۔ یہ مظاہرین تو نہتے ہیں پھر اتنی سختی کیوں؟ کیا ان کا تعلق بھی پہاڑوں پر آباد شرپسندوں سے ہے؟ بلوچستان میں ہونے والے دہشتگردانہ واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ان واقعات میں پنجابی مزدوروں کا قتل کیاجاتا ہے۔لیکن ماہ رنگ بلوچ سے کیے جانے والے سوال میں انہوں نےاس کی مذمت تک نہ کی۔ ایک طرف تو ماہ رنگ اپنے لاپتہ افراد کے لیے جدوجہد کرتی نظرآتی ہیں تو دوسری جانب وہ دہشت گرد حملوں میں مارے جانے والے معصوم پنجابیوں اور فورسز کے جوانوں کی موت پر خاموش۔ یہ خاموشی، پراسرار خاموشی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی وہ بلوچستان کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جن کے خلاف وہ جدوجہد کر رہی ہیں اصل میں یہ خود بھی انہی کی کارندہ ہیں۔ اور بلوچ عوام کے سامنے ایک ہیروئن کے طور پر نظر آرہی ہیں۔ ماہ رنگ کو وہاں سے پذیرائی مل رہی ہے جن کو پاکستانیوں کی اکثریت دشمن سمجھتی ہے۔ بظاہر ماہ رنگ بلوچ کا مقصد بلوچ قوم میں شعور بیدار کرنا اور انہیں متحد کرنا ہے، مگر ویڈیو میں کیے گئے دعوؤں اور ان کے سرٹیفکیٹس سے لگتا ہے کہ یہ آنسومگر مچھ کے آنسو ہیں۔ کیا آپ کا بھی یہی خیال ہے؟

ایدھی ایمبولینس: رمضان اور عید کے گمنام ہیروز

ایدھی ایمبولینس سروس ضرورت مندوں کے لیے ایک لائف لائن ہے، جو رمضان، عید اور اس کے بعد انتھک کام کرتی ہے۔ ان کے سرشار ملازمین اس بات کو یقینی بناتے ہوئے چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں کہ وقت یا موقع سے قطع نظر ہنگامی طبی امداد لوگوں تک پہنچ جائے۔ چاہے حادثات کا جواب دینا ہو، مریضوں کو منتقل کرنا ہو یا پھر انسانی امداد فراہم کرنا ہو، ان کی بے لوث خدمت ہمدردی کے حقیقی جذبے کی عکاسی کرتی ہے۔ تہوار کے اوقات میں انسانیت کے لیے ان کی وابستگی غیر متزلزل رہتی ہے،جو یہ ثابت کرتی ہے کہ دوسروں کی خدمت احسان کا سب سے بڑا عمل ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے اپنے مشن کے ساتھ لاکھوں لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔کوئی ایمرجنسی ہو یا پھر بم دھماکا ہو، سب سے پہلے جائے وقوعہ پر ایدھی ہی پہنچتی ہے۔ اس کے ملازمین کو انسانیت کی خدمت کرنے سے خوشی ملتی ہے اور وہ بے لوث ہوکر خدمت کرتے ہیں، اس بات سے بالاتر ہوکر کہ فلاں کون ہے اور فلاں کون ہے۔ ان کا مقصد ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہے۔

انڈین سفیر کا اقوام متحدہ میں پاکستان پر الزام: جھوٹا دعویٰ یا حقیقت؟

انڈیا نے ایک بار پھر پاکستان کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے جموں و کشمیر پر پاکستانی دعووں کو ‘غیر ضروری اور غیر قانونی’ قرار دے دیا۔ اقوام متحدہ میں انڈیا کے مستقل مندوب پروتھانینی ہریش نے پاکستانی مندوب کی جانب سے کشمیر کے حوالے سے دیے گئے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ انڈین سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مندوب کا بار بار کشمیر کا حوالہ دینا نہ تو اس کے ‘غیر قانونی دعووں’ کو درست ثابت کرتا ہے اور نہ ہی ‘ریاستی سرپرستی میں سرحد پار دہشت گردی’ کا کوئی جواز پیش کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا پاکستان کے ساتھ پرامن تعلقات چاہتا ہے، لیکن اس کے لیے اسلام آباد کو دہشت گردی اور دشمنی سے پاک ماحول پیدا کرنا ہوگا، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان بامعنی مذاکرات ممکن ہو سکیں۔ مزید پرھیں: بنگلہ دیش سے بڑھتے پاک-چین تعلقات سے انڈیا خوفزدہ دوسری جانب پاکستانی وزیر اعظم کے معاون خصوصی سید طارق فاطمی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دلانے کے لیے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ اقوام متحدہ میں ‘بین الاقوامی امن اور سلامتی کی بحالی’ کے موضوع پر بحث کے دوران طارق فاطمی نے کہا کہ کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق منصفانہ اور حتمی حل کا منتظر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘یہ اس کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو یقینی بنائے اور جموں و کشمیر تنازعے کے منصفانہ اور دیرپا حل کو فروغ دے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ تنازعات کی بنیادی وجوہات کو حل کیا جائے۔

کراچی کے ’آدم خور‘ ڈمپرز ڈراؤنا خواب بن گئے

سڑکوں پر پڑی مسخ شدہ دو لاشیں، بکھرے ہوئے انسانی اعضاء اور شہری کے ہاتھ میں دم توڑتا نومولود، یہ مناظر کسی جنگ زدہ علاقے کے نہیں تھے، بلکہ عروس البلاد کراچی کی مصروف شاہراہ ملیر ہالٹ پر پیش آنے والے اندوہناک ٹریفک حادثے کے تھے ، جس میں عبدالقیوم اس کی اہلیہ اور نومولود کو آدم خور واٹر ٹینکر نے تیز رفتاری کے باعث کچل دیا تھا۔ موٹر سائیکل سوار شاہ فیصل کالونی کے علاقے ناتھا خان کا 26 سالہ رہائشی عبدالقیوم اپنی حاملہ اہلیہ کے ہمراہ ہسپتال سے واپس گھر جارہا تھا، جہاں ملیر ہالٹ بریج کے سامنے انہیں رانگ سائڈ سے آتے ہوئے تیز رفتار واٹر ٹینکر نے ٹکر مار دی، جس کے نتیجے میں وہ دونوں شدید زخمی ہوگئے۔ 24 سالہ زینب نے زخمی حالت میں بچے کو جنم دیا، جس کے بعد شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت نومولود کو قریبی ہسپتال میں فوری طبی امداد کے لیے بھیجا۔ زخمی والدین کو فوری طور پر جناح ہسپتال روانہ کیا گیا، مگر بدقسمتی کے ساتھ وہ دونوں دم توڑ گئے۔ پولیس نے موقع پر ہی ڈرائیور اور اس کے ساتھی کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کو ڈرائیور کے پاس سے لائسنس نہیں مل سکا، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ لوگوں کو ڈمپر اور ٹینکر کی تیز رفتاری کے باعث موت کے گھاٹ اتارنے والے ڈرائیوروں کے پاس گاڑی چلانے کا لائسنس بھی موجود نہیں ہے۔ حادثے میں جاں بحق ہونے والے لواحقین کا کہنا ہے کہ ’ڈرائیور اور ٹینکر مالکان کو سخت سزا دی جائے، یہ ہماری خوشیوں کے قاتل ہیں، عید سے قبل گھر میں صف ماتم بچھ گئی ہے‘۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی ویڈیو نے دل دہلا دیے ہیں، سوشل میڈیا پر ہیوی ٹریفک اور ڈمپر مافیا کے خلاف منظم مہم بھی چلائی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے پولیس اور صوبائی انتظامیہ کو ان حادثات کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اس دلخراش حادثے کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر کا کہنا تھا کہ ’ڈمپر موت بانٹ رہے ہیں اور حکومت سو رہی ہے۔ جماعت اسلامی نے اس حوالے سے سارے دروازے کھٹکھٹائے ہیں، ہم نے اس پر سفارشات بھی پیش کی ہیں، مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ناردرن بائی پاس پر ہیوی ٹریفک کیوں نہیں جاتی؟ حکومت بے حس ہے ان میں حس موجود نہیں ہے، حکومت زخمیوں کے علاج کے لیے کوئی میکینزم بنائے۔ سندھ حکومت اور ٹریفک پولیس ٹینکرز و ڈمپرز کے ڈرائیوروں کو لگام دینے اور شہریوں کے تحفظ میں بُری طرح ناکام ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جماعت اسلامی شہریوں کو لاوارث نہیں چھوڑے گی، منگل کی شام ملیر ہالٹ پر ڈمپر مافیا کے خلاف احتجاج کریں گے اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان بھی کریں گے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے رکن صوبائی اسمبلی شارق جمال کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹریفک قوانین کے حوالے سے ترمیم بھی جمع کروائی ہے، مگر صوبائی حکومت صرف دلاسے دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ  کراچی میں ڈمپر اور ٹینکر کی وجہ سے انسانی جانوں کی ہلاکت لسانی نہیں انسانی مسئلہ ہے، جسے کچھ لوگ تعصب کی ہوا دے رہے ہیں جو کہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ شارق جمال نے کہا ہے کہ اصل ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے، وہ قانون پر عمل کروائے، شہر میں واٹر ٹینکر دن دیہاڑے دندناتے پھر رہے ہیں اور کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔ پولیس رشوت لے کر ہیوی ٹریفک کو سڑکوں پر چھوڑ دیتی ہے اور یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ شارق جمال نے مزید کہا کہ عوام میں ان حادثات کو لے کر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، جو کہ جائز بھی ہے۔ شہر میں ہونے والے ہر پر امن احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس میں انتشار نہ ہو کیونکہ پولیس قانون توڑنے والوں کے خلاف توکارروائی نہیں کرتی مگر احتجاج کرنے والوں کو فوری گرفتار کرلیتی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان اس حوالے سے اپنا مؤثر کردار ادا کرے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کراچی کے صدر راجہ اظہر نے اس المناک حادثے کا ذمہ دار ڈی آئی جی ٹریفک اور صوبائی حکومت کو قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے ان قاتل ٹینکروں اور ڈمپروں کو بھاری بھتوں کے عوض کراچی جیسے ہیوی ٹریفک والے شہر میں دن دہاڑے آزاد گھومنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹریفک پولیس کے پاس اس ہیوی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی پلان نہیں، ٹریفک پولیس کا کام صرف رشوت لینا رہ گیا ہے۔ دن کے اوقات میں ڈمپرز، ٹینکرز اور بڑی گاڑیوں کا شہر میں داخلہ بند کیا جائے، ورنہ پھر عوام کو لے کر سڑکوں پر آئیں گے۔ سندھ حکومت نے عوام کو مرنے کے لیے چھوڑدیا ہے، ٹیکس کے پیسوں سے آپ عیاشیاں کرتے ہیں خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ ٹریفک قوانین اور بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے پر سزاؤں کے حوالے سے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عثمان فاروق ایڈوکیٹ نے کہا کہ ٹریفک قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد کروانا ضروری ہے۔ ایڈووکیٹ عثمان فاروق کا کہنا ہے کہ موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 کے مختلف سیکشن کے تحت گاڑیوں کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے۔ اگر ڈرائیور کے پاس لائسنس موجود ہے اور کسی بداحتیاطی کے سبب کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے تو آرٹیکل 320 قتل خطا  کے تحت دس سال قید اور دیت کی سزا دی جائے گی، جب کہ لائسنس نہ ہونے کی صورت میں 322 قتل بالسبب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا، جس میں حکومت پاکستان کی جانب سے متعین کردہ دیت کی رقم دینا لازم ہوگی۔ رواں سال میں ہیوی ٹریفک کی وجہ ہلاک ہونے کا پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی ملینیم مال گلستان جوہر کے علاقے میں تیز رفتار ڈمپر کی ٹکر سے میاں اور بیوی سمیت دو افراد جاں بحق اور 3 زخمی ہوگئے تھے، جب کہ ملیر ہالٹ کے مقام پر تیز رفتار ڈمپر

ظلمت سے ضیاء تک، حبیب جالب ایک شاعر یا تحریک؟

“آج 24 مارچ ہے، وہ دن جب عوامی شاعر، انقلابی سپاہی اور بغاوت کا استعارہ حبیب جالب پیدا ہوا۔ وہ شاعر جس نے نہ صرف الفاظ سے انقلاب برپا کیا, بلکہ ہر آمر کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوا۔ آج بھی جب کوئی ناانصافی کے خلاف بولتا ہے، تو جالب کی آواز خود بخود گونجنے لگتی ہے کہ ‘تم سے پہلے بھی جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا۔۔۔۔اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا!”۔ حبیب جالب 24 مارچ 1928 کو ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ جب پاکستان بنا، تو وہ بھی لاکھوں مہاجروں کے ساتھ لاہور پہنچے۔ ایک چھاپہ خانے میں کام شروع کیا، مگر دل ہمیشہ لفظوں کی بغاوت میں دھڑکتا رہا۔ یہاں سے ایک عوامی شاعر کی پیدائش ہوئی، وہ شاعر جس نے اقتدار کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیا۔ ایوب خان کے مارشل لا کے دوران جب انہوں نے یہ نظم کہی، ‘ایسے دستور کو، صبح بے نور کو۔۔۔۔میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا۔’ تو ہر زبان پر یہی الفاظ تھے۔ حبیب جالب نے ہر آمر کے خلاف قلم اٹھایا۔ ایوب خان کے خلاف بولے، یحییٰ خان کو للکارا، بھٹو کے عدالتی قتل پر خاموش نہ رہے اور ضیاء الحق کے ظلم کو بے نقاب کرتے رہے، ظلمت کو ضیاء، صر صر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا۔’ ہر بار انہیں جیل میں ڈالا گیا، مگر ہر بار وہ پہلے سے زیادہ بلند آواز کے ساتھ نکلے۔ ان کے لیے شاعری صرف لفظوں کا کھیل نہ تھا، بلکہ یہ ایک تحریک تھی، ایک جنگ تھی، جو آج بھی جاری ہے۔ حبیب جالب نے عوام کے لیے سب کچھ دیا، مگر ان کے اپنے آخری دن بیماری اور غربت میں گزرے۔ 12 مارچ 1993 کو وہ دنیا سے رخصت ہو گئے، مگر کیا وہ واقعی چلے گئے؟ جب بھی کوئی حکمران عوام کے حق پر ڈاکا ڈالتا ہے، جب بھی کوئی جابر قانون بنتا ہے، تو جالب کی نظمیں زندہ ہو جاتی ہیں۔ وہ شاعر جو مرنے کے بعد بھی حکمرانوں کے لیے ایک خوف کی علامت ہے۔’یہ جو دس کروڑ ہیں۔۔۔جہل کا نچوڑ ہیں۔’

انکرپشن اور ڈِکرپشن: ڈیٹا کو محفوظ بنانے کا جدید طریقہ

انکرپشن اور ڈِکرپشن جدید دنیا میں معلومات کے تحفظ کے بنیادی طریقے ہیں جو ڈیجیٹل کمیونیکیشن، بینکنگ، آن لائن ٹرانزیکشنز اور حساس ڈیٹا کو غیر مجاز رسائی سے محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ انکرپشن ایک ایسا عمل ہے، جس میں کسی بھی قسم کے ڈیٹا (جیسے پیغامات، فائلز، پاسورڈز یا دیگر معلومات) کو ایک خاص الگورتھم کی مدد سے خفیہ کوڈ میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس کوڈ کو صرف وہی شخص یا سسٹم پڑھ سکتا ہے، جس کے پاس مخصوص ڈِکرپشن کی (Key) موجود ہو۔ اس کا مقصد حساس معلومات کو غیر متعلقہ افراد، ہیکرز اور سائبر حملوں سے محفوظ رکھنا ہے۔ ڈِکرپشن انکرپشن کا الٹا عمل ہے، جس میں خفیہ کوڈ شدہ ڈیٹا کو دوبارہ اصل شکل میں بدلا جاتا ہے تاکہ اسے قابلِ فہم اور استعمال کے قابل بنایا جا سکے۔ یہ عمل اس وقت ضروری ہوتا ہے، جب کسی محفوظ شدہ معلومات کو دوبارہ قابلِ مطالعہ بنایا جائے۔ انکرپشن حساس معلومات کو غیر مجاز رسائی اور ہیکرز سے محفوظ رکھتا ہے، صارفین کی ذاتی معلومات کو غیر متعلقہ افراد سے بچاتا ہے۔ انٹرنیٹ بینکنگ، کریڈٹ کارڈ ٹرانزیکشنز اور دیگر مالی لین دین کو محفوظ بنانے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ہیکرز، ڈیٹا لیکس اور میلویئر حملوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے، ای میلز، پیغامات اور دیگر آن لائن کمیونیکیشن چینلز کو غیر مجاز رسائی سے بچاتا ہے۔ انکرپشن جدید دنیا میں سیکیورٹی کے لیے ایک ناگزیر ٹیکنالوجی بن چکی ہے، جو نہ صرف عام صارفین بلکہ کاروباری اداروں اور سرکاری محکموں کے لیے بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔

کراچی کے فٹ پاتھ پر پیدل چلنا خواب بن گیا

کراچی کے مصروف ترین علاقوں میں فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لیے نہیں، بلکہ کاروباری سرگرمیوں اور تجاوزات کے لیے مختص ہو چکے ہیں۔ صدر کے علاقے میں جہاں کسی زمانے میں فٹ پاتھ صرف پیدل چلنے کے لیے ہوا کرتے تھے، آج وہاں کھانے پینے کے ٹھیلے، دکانوں کی توسیع اور دیگر غیر قانونی تجاوزات نے جگہ بنا لی ہے۔ شہریوں کے لیے سڑک پار کرنا تو دور کی بات، فٹ پاتھ پر بھی چلنا مشکل ہو چکا ہے۔ پریس کلب چورنگی کے قریب جہاں ایک طرف فٹ پاتھ کا تصور ہونا چاہیے، وہاں حقیقت میں حلیم، گریانے اور سموسے کے ٹھیلے لگے ہوئے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں پیدل چلنے کے لیے بھی مناسب راستے دستیاب نہیں، اور جب پارکنگ کی جگہ بھی محدود ہو، تو صورتحال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ ریگل چوک جو کراچی کے مرکزی تجارتی مراکز میں شمار ہوتا ہے، وہاں بھی یہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ دائیں جانب ٹھیلے، بائیں جانب پارک شدہ گاڑیاں اور درمیان میں خریداروں کا ہجوم، ایسے میں چار لوگ بھی ایک ساتھ فٹ پاتھ پر چلنے سے قاصر ہیں۔ شہری کہتے ہیں کہ اگر کراچی میں شاپنگ کے لیے آنا ہو تو وہ کار میں آنے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ نہ صرف پارکنگ کا مسئلہ ہے، بلکہ فٹ پاتھ پر بھی آزادانہ چلنا ممکن نہیں۔ کراچی میں پارکنگ کے مسائل بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حکومتی دعوے اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ چارجڈ پارکنگ آج بھی شہریوں سے فیس وصول کر رہی ہے۔ اگر آپ پارکنگ فیس نہیں دیتے، تو آپ کی موٹر سائیکل یا گاڑی لفٹر کی نذر ہو سکتی ہے اور پھر اسے چھڑانے کے لیے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ کراچی کے چند علاقوں میں اگرچہ فٹ پاتھ موجود ہیں، مگر ان کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ سندھی مسلم سوسائٹی کے علاقے میں صفائی کی صورتحال ناقص ہے اور عام دنوں میں شہری ان فٹ پاتھس کو استعمال کرنے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ یہ رپورٹ پیش کرنے کا مقصد یہی ہے کہ انتظامیہ اس معاملے پر فوری توجہ دے، کیونکہ کراچی کے شہریوں کو جہاں پہلے ہی ٹرانسپورٹ کی سہولتیں میسر نہیں، وہیں پیدل چلنے کے لیے بھی مناسب راستے موجود نہیں۔ شہریوں کو بھی چاہیے کہ وہ حکام سے مطالبہ کریں کہ فٹ پاتھ کو اصل مقصد کے مطابق بحال کیا جائے تاکہ کراچی میں پیدل چلنے کا حق محفوظ کیا جا سکے۔

رمضان میں میٹھے سے ہاتھ کیوں نہیں رکتا؟

رمضان میں سحر و افطار کے وقت میٹھے کی مختلف ڈشیں روایتی دسترخوان کا لازمی حصہ سمجھی جاتی ہیں، جن کو دیکھ کر میٹھے سے پرہیز کرنے والے بھی ہاتھ روک نہیں پاتے۔ بہت سے روزہ داروں کی رمضان کے دوران میٹھے کی طلب بڑھ جاتی ہے، جس کی وجہ صرف جسم کی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے کھانے پینے کے معمولات بھی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ’مسئلہ ہمارے کھانے کے انداز میں ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی روزہ دار افطار کے آغاز میں زیادہ کھجور کھاتا ہے، جس میں شکر ہوتی ہے تو یہ خون میں انسولین کی سطح کو بڑھاتا ہے، جس سے مجموعی طور پر کھانے کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے خاص طور پر میٹھے کی خواہش بڑھ جاتی ہے۔‘ ’زیادہ تر روزہ دار جو غلطی کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ افطار کا آغاز تین سے پانچ کھجوریں کھا کر کرتے ہیں، پھر جوس پیتے ہیں، خاص طور پر وہ تیار شدہ رمضان سپیشل جوس جن میں چینی کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے لبلبہ مسلسل انسولین خارج کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ سحری کا وقت آ جاتا ہے۔ اور زیادہ جوس پینے سے وزن بڑھنے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔‘ ماہرِ غذائیت نے رمضان میں بعض لوگوں کے زیادہ میٹھا کھانے کی عادت کو روزے کے دوران ان کے جسم میں شوگر کی سطح کم ہونے کا ردِ عمل بھی قرار دیا، جس کی وجہ سے انھیں میٹھے کی زیادہ طلب محسوس ہوتی ہے۔ سائنسی جریدے سیل میٹابولزم میں ڈنمارک کی یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کے محققین کی ایک سائنسی تحقیق شائع ہوئی ہے، جس نے میٹھا کھانے کی خواہش اور جگر کی صحت کے درمیان تعلق کو ظاہر کیا ہے۔  تحقیق میں بتایا گیا کہ ’جب کوئی شخص میٹھا کھاتا ہے، تو جگر ایک مخصوص ہارمون (FGF21) خارج کرتا ہے جو مسلسل میٹھا اور شکر کھانے کی طلب کا سبب بن سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق اس ہارمون کے اخراج کی شرح ہر شخص میں مختلف ہوتی ہے اور یہاں تک کہ طبی طریقوں سے بھی اسے مکمل طور پر قابو میں رکھنا مشکل ہے۔‘ مطالعے میں یہ بھی سامنے آیا کہ جن افراد کے جگر میں اس مخصوص ہارمون کا اخراج زیادہ ہوتا ہے، انھیں مسلسل میٹھا کھانے کی طلب عام لوگوں کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ غذا پہلے معدے اور آنتوں سے گزرتی ہے اور اس کے بعد جگر کھانے کو پراسیس کرنا شروع کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کھانے کے بعد ہمیں کبھی محسوس ہوتا ہے کہ پیٹ بھر چکا ہے جبکہ بعض اوقات مزید کھانے کی ہماری خواہش برقرار رہتی ہے۔ روزہ داروں کو چاہیے کہ وہ افطار کے فوراً بعد میٹھا نہ کھائیں کیونکہ بھوک کی شدت کی وجہ سے زیادہ کھانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ افطار کے فوراً بعد میٹھا کھانے سے بدہضمی بھی ہو سکتی ہے۔ میٹھے کا سب سے مناسب وقت افطار کے دو سے تین گھنٹے بعد ہے اور وہ بھی محدود مقدار میں۔ جو مٹھائی آپ کھا رہےہیں، اس کی مقدار پر دھیان دیں یعنی میٹھا اعتدال میں کھائیں، ضرورت سے زیادہ نہیں۔ کوشش کریں کہ روزانہ میٹھی ڈش نہ کھائیں بلکہ وقفے وقفے سے کھائیں۔

کیا جعفر ایکسپریس عید سے پہلے بحال ہوگی؟

جعفر ایکسپریس پر حملے کے دس روز بعد بھی ٹرین سروس تا حال بحال نہیں ہوسکی۔ ریلوے حکام کے مطابق سیکیورٹی کلیئرنس ملنے کے بعد ہی ٹرین سروس بحال کی جائے گی۔ حملے کے بعد کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے داخلی راستوں پر تالے لگا دیے گئے ہیں۔ 11 مارچ کو بلوچستان کے ضلع بولان میں نامعلوم مسلح افراد نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر حملہ کر کے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔حملے میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 26 افراد مارے گئے جبکہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 33 عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے۔ ریلوے حکام کے مطابق جعفر ایکسپریس  9 بوگیوں پر مشتمل تھی ۔ ٹرین منگل کی صبح 9 بجے کوئٹہ سے روانہ ہوئی تھی، مسافر ٹرین کوئٹہ سے پشاور جارہی تھی کہ اس دوران پہلے ٹریک پر دھماکا کیا گیا اور پھر ٹرین پر فائرنگ ہوئی جس کے بعد ٹرین میں موجود سکیورٹی اہلکاروں اور دہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق حملہ بولان کے علاقےمیں پیش آیا، جہاں مسلح افراد نے ٹرین پر فائرنگ کر کے اسے روک لیا۔ شدت پسندوں نے مسافروں کو یرغمال بنا کر پہاڑی علاقے کی طرف لے جانے کی کوشش کی۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق دہشت گردوں نے خواتین اور بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا، جس کی وجہ سے کلیئرنس آپریشن میں مشکلات درپیش آئیں۔ فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر شدت پسندوں کے خلاف کارروائی جاری رکھی، جس کے نتیجے میں مسافر بحفاظت بازیاب کروا لیے گئے۔ کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گرد سیٹلائٹ فونز کے ذریعے اپنے سہولت کاروں  سے رابطے میں تھے اور مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ریلوے حکام نے تصدیق کی تھی  کہ حملے کے بعد پشاور سے کوئٹہ آنے والی جعفر ایکسپریس اور کراچی سے کوئٹہ آنے والی بولان میل  کو روک دیا گیا ہے، تاکہ مسافروں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔

آرمی چیف کا  پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کا مشورہ ، آخر یہ ہارڈ اسٹیٹ ہوتی کیا ہے؟

ہارڈ اسٹیٹ ایسی ریاست کو کہا جاتا ہے جہاں حکومت کا کنٹرول سخت اور مرکزی ہوتا ہے، قوانین پر سختی سے عمل کروایا جاتا ہے، اور عوامی آزادیوں پر سخت پابندیاں ہوتی ہیں۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان کو ایک ہارڈ اسٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئےکہی۔ ایسی ریاستوں میں فیصلہ سازی عام طور پر چند افراد یا ایک مخصوص گروہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اور سیاسی اختلاف یا اپوزیشن کو دبانے کے لیے سخت اقدامات کیے جا تے ہیں۔ اکثر اوقات، سیکیورٹی ادارے اور فوج کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہوتے ہیں، اور میڈیا پر بھی سخت نگرانی رکھی جاتی ہے۔ اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہارڈ اسٹیٹ کا تصور قدیم ادوار سے موجود رہا ہے۔ بادشاہتیں، سلطنتیں اور آمرانہ حکومتیں اکثر ایسی ریاستوں کی مثال رہی ہیں جہاں عوام پر سخت کنٹرول رکھا گیا۔ قدیم چین، رومی سلطنت، اور قرون وسطیٰ کی یورپی بادشاہتیں اس کی کچھ مثالیں ہیں۔ جدید دور میں فاشزم، کمیونزم اور فوجی حکومتوں میں بھی ہارڈ اسٹیٹ کے عناصر دیکھے جا سکتے ہیں، جیسے کہ جرمنی میں نازی حکومت، سوویت یونین میں اسٹالن کا دور، اور شمالی کوریا کی موجودہ حکومت۔