اسرائیلی ناکہ بندی: رمضان میں فلسطینیوں کی امداد پر پابندی کیوں؟

غزہ کی پٹی میں ایک بار پھر جنگ کی گھن گرج سنائی دینے لگی ہے۔ اسرائیل نے دو ماہ سے جاری جنگ بندی کو ختم کرتے ہوئے غزہ کے شمالی اور جنوبی حصوں میں فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے ہیں۔ بابرکت رمضان المبارک کے ماہ میں بھی فلسطینیوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ،جس سے ان کی امداد پر مزید ان پر پابندیاں ہائد کر دی گئی ہیں۔ جس کے نتیجے میں 91 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں، غزہ کی وزارت صحت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ حملے گزشتہ روز اسرائیل کی طرف سے دوبارہ حملوں کی شدت بڑھانے کے بعد ہوئے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں جاری جنگ کو ڈیڑھ سال ہو گیا ہے اور شاید ہی کوئی اتنی طویل جنگ چلی ہو۔ اتنی بمب باری ہیروشیما اور ناگاساکی میں نہیں ہوئی گی جتنی ان ڈیڑھ سالوں میں غزہ کی چھوٹی سی پٹی پر ہوچکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینیوں نے اس بابرکت ماہ میں تراویح بھی کھنڈرات ملبےپر پڑھی ہیں،یہ جنگ نہیں بلکہ ایک نسل کشی ہے جو فلسطینیوں کو مار کر ایک نئی بستی بسانہ چاہتے ہیں۔
پاکستانی حکومت فلسطینیوں کے حق میں امریکا کے ساتھ سخت مؤقف سے بات کرے:منعم ظفر خان

فلسطین میں امریکا اور اسرائیلی بربریت کے خلاف جماعت اسلامی کی جانب سے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے منعقد ہوئے ، امیر جماعت اسلامی کراچی کاکہنا ہے کہ ہمارا مطالبا ہے کہ پاکستانی حکومت فلسطینیوں کے حق میں امریکا کے ساتھ سخت مؤقف سے بات کرے امیرجماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کی قیادت میں بوٹ بیسن تا امریکی قونصلیٹ مارچ کیا گیا، کراچی کے شہری تمام اضلاع سے قافلوں اور جلوسوں کی صورت میں بوٹ بیسن پہنچے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں پچھلے ڈیڑھ سال سے نسل کشی کی جا رہی ہے اور اس کی امریکا ہتھیار اور ڈالر دے کر پشت پنہائی کر رہا ہے، گزشتہ تین دنوں میں 727 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یواین او، او آئی سی اور کریمنل کورٹ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، کیا انہیں فلسطین میں نسل کشی ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہی؟ منعم ظفر خان نے مزید کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستانی حکومت فلسطنیوں کے حق میں او آئی سی کا اجلاس بلائے اور امریکا کے ساتھ سخت مؤقف سے بات کرے۔
بابر اور رضوان کی چھٹی: کیا ان کے متبادل مل گئے؟

پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرا ٹی ٹوئنٹی میچ شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے نو وکٹوں سے جیت لیا۔ اس کامیابی کے ساتھ، پاکستان نے پانچ میچوں کی سیریز میں دو میچ ہارنے کے بعد زبردست واپسی کی۔ آکلینڈ میں کھیلے گئے اس میچ میں نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 204 رنز بنائے اور پوری ٹیم آؤٹ ہو گئی۔ پاکستان نے یہ ہدف صرف 16 اوورز میں ایک وکٹ کے نقصان پر حاصل کر لیا۔ حسن نواز، جو اپنا تیسرا ٹی ٹوئنٹی میچ کھیل رہے تھے، نے شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے اپنی پہلی انٹرنیشنل سنچری بنائی۔ انہوں نے صرف 45 گیندوں پر 10 چوکوں اور 7 چھکوں کی مدد سے 100 رنز مکمل کیے۔ یہ پاکستان کی جانب سے ٹی ٹوئنٹی میں سب سے تیز سنچری تھی۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ بابر اعظم کے پاس تھا، جنہوں نے 49 گیندوں پر سنچری بنائی تھی۔
زمین کی بڑھتی پیاس: کیا ہم خشک سالی کو دعوت دے رہے ہیں؟

دنیا بھر میں ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد میٹھے پانی کے بحران اور اس کے حل کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں گلیشیئرز کی اب تک کی سب سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1975 سے اب تک گلیشیئرز سے 9,000 گیگاٹن برف کا نقصان ہو چکا ہے، جو جرمنی کے سائز کے برفانی بلاک کے برابر ہے اور اس کی موٹائی 25 میٹر ہے۔ عالمی گلیشیئر مانیٹرنگ سروس کے ڈائریکٹر مائیکل زیپ نے جنیوا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ “یہ منظرنامہ انسانیت کے لیے ایک اہم اشارہ ہے۔” گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کے باعث دنیا کے مختلف خطوں، جیسے قطب شمالی، الپس، جنوبی امریکا اور تبت کی سطح مرتفع میں سیلابوں کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ عمل موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدت اختیار کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں زراعت اور توانائی کے شعبے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مائیکل زیپ کے مطابق پچھلے چھ برسوں میں سے پانچ میں سب سے زیادہ برف کا نقصان ریکارڈ کیا گیا ہے، جب کہ 2024 میں اب تک 450 گیگاٹن برف پگھل چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کی رپورٹ کے مطابق دو ارب سے زائد افراد صاف پانی کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں اور ہر دو منٹ میں ایک پانچ سال سے کم عمر کا بچہ آلودہ پانی اور ناقص صفائی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔” اس کے علاوہ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ “دنیا کے تین میں سے ایک اسکول میں پانی کی بنیادی سہولت نہیں ہے جو کہ اس مسئلے کی اہمیت کو مزید واضح کرتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی کمی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق پروونشنل ہیڈ واٹر ایڈ یوکے، فراقت علی نے کہا کہ پاکستان میں بارشیں تو ہوتی ہیں، مگر ہم اسے محفوظ نہیں کرتے، جس کی وجہ سے وہ رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہیں۔ پانی اور موسم کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے اور گلیشیئرز اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جب کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے ان دریاؤں کا موسمی بہاؤ متاثر ہو رہا ہے، جو لاکھوں افراد کی زراعت، پینے کے پانی کی فراہمی اور ہائیڈرو پاور کے لیے بہت ضروری ہیں۔ فراقت علی نے کہا ہے کہ ہماری ناقص منصوبہ بندی اور پانی کے غیر مؤثر استعمال نے ہمیں اس نہج پر پہنچایا ہے۔ جنوبی افریقہ کے بعد دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں پانی کا بحران شدت اختیار کرنے والا ہے۔ عالمی اکانونمک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “گلیشیئرز کی پگھلنے کے عمل کو روکنا یا اس سے بچنا ممکن نہیں ہے مگر ہم ان کے پگھلنے کے اثرات کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ ہمیں گلیشیئرز کے پانی کو زیادہ مستحکم اور پائیدار طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لاکھوں افراد کو محفوظ پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے۔” پاکستان میں پانی کے غیر ضروری استعمال پر بات کرتے ہوئے فراقت علی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر شخص پانی کا ضیاع کرتا ہے، چولستان میں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں، لیکن لاہور کی ہر گلی میں گاڑیاں دھوتے لوگ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم نے پانی کی قدر نہ کی تو ساؤتھ افریقہ کے بعد پاکستان کا نمبر ہوگا۔ آج کے دور میں عالمی اکانومک فورم کا ‘اپ لنک پلیٹ فارم’ ایسے انٹرپرینیورز کی حمایت کرتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی انحطاط اور غربت جیسے عالمی چیلنجز کے حل کے لیے کام کر رہے ہیں۔ فراقت علی کے مطابق پاکستان میں صرف 16 فیصد پانی پینے کے قابل ہے، جب کہ 84 فیصد آلودہ پانی استعمال ہو رہا ہے، جو صحت عامہ کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے سندھ میں پانی کی قلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں جانور اور انسان ایک ہی تالاب سے پانی پینے پر مجبور ہیں، جب کہ پنجاب کے بہاولپور، خانیوال اور جھنگ کے کچھ علاقوں میں بھی پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پانی کے ضیاع کی وجہ سے خشک سالی کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔ فراقت علی نے کہا ہے کہ مستقبل میں جنگیں پانی کے لیے ہوں گی، یہ صرف پاکستان یا ایشیا کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی پانی کے معاملے پر تنازع شدت اختیار کر سکتا ہے، کیونکہ بھارت پانی کے ذرائع پر کنٹرول کر رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں ایک طرف سندھ سے نکالی جانے والی نہروں کا مسئلہ تنازعے کا شکار ہے، وہیں دوسری جانب ڈیمز میں پانی کی خطرناک حد تک ہوتی کمی نے تشویش پیدا کردی ہے۔ فراقت علی کے مطابق پاکستان میں بارشوں کی کمی کے باعث ڈیموں میں پانی کا لیول خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے اور جب بھی کوئی نیا ڈیم بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو سیاسی انتشار شروع ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے واٹر اینڈ جوڈیشل کمیشن قائم کیا ہے تاکہ پانی کے تحفظ کے لیے مؤثر حکمت عملی ترتیب دی جا سکے، لیکن عملی اقدامات اب بھی ناکافی ہیں۔ عالمی سطح پر چند ایسے اقدامات کا ہونا نہایت ضروری ہے جن سے ان پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کو بچایا جاسکے اور پانی کے وسائل کو محفوظ کیا جا سکے۔ ان گلیشیئرز کے پگھلنے کے عمل سے پانی کے وسائل غیر متوقع اور غیر یقینی ہوتے جارہے ہیں، جس کے نتیجے میں طویل خشک سالی، مٹی کی نمی میں کمی اور پانی کے ذخیروں کی سطح میں کمی جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ فراقت علی نے کہا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ بڑے پیمانے پر پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات کرے، عوامی سطح پر
نئی نہریں، پرانا تنازع: گرین پاکستان انیشیٹو کی حقیقت کیا ہے؟

‘گرین پاکستان انیشیٹو’ جس کا مقصد ملک میں جدید زرعی فارمنگ کو فروغ دینا اور بنجر زمینوں کو قابلِ کاشت بنانا ہے، آج ایک بڑے تنازعے کا شکار ہو چکا ہے۔ حالیہ کچھ مہینوں سے گرین پاکستان انیشیٹو اور سندھ سے نکالی جانے والی متنازعہ نہروں کا مسئلہ شدت اختیار کرچکا ہے، سندھی عوام اور حکومت کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے دریائے سندھ سے نکالی جا نے والی نہروں پر شدید مخالفت کی جارہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ وہ پیپلز پارٹی جو کبھی اس منصوبے کے حق میں تھی اب مخالف کیوں؟ آخر یہ گرین پاکستان منصوبہ ہے کیا؟ یہ بات ہے جون 2023 کی جب حکومتِ پاکستان نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (SIFC) قائم کی۔ جس میں متعلقہ حکومتی اداروں کے علاوہ فوج کے سربراہان کو بھی شامل کیا گیا۔ اس کے تحت ‘گرین پاکستان انیشیٹو’ کا آغاز کیا گیا، جس کا مقصد جدید زراعت کو فروغ دینا اور ملکی زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا۔ گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت چولستان، تھل اور دیگر بنجر علاقوں کو قابلِ کاشت بنانے کے لیے دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ بنایا گیا ، جن میں 211 ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی چولستان کنال بھی شامل ہے۔ یہ 176 کلومیٹر طویل نہر سلیمانکی ہیڈورکس سے فورٹ عباس تک تعمیر کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ دریائے ستلج سے پانی لے گی، نہ کہ دریائے سندھ سے، اس لیے سندھ کے پانی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مگر دریائے ستلج تو خود پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے ، کیسے ممکن ہے کہ وہ چولستان کی صحرائی زمین کے لیے پانی مہیا کرے؟ سندھی عوام کی جانب سے اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بنجر زمین کو آباد کرنے کے اس منصوبے سے ہماری سرسبز زمینیں بنجر ہو جائیں گی، یہ کون سی عقل مندی ہے۔ پہلے ہی پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث اہم فصلوں کی پیداوار میں غیر معمولی کمی ہو رہی ہے۔” یہ کہنا ہے ایوانِ زراعت سندھ کے جنرل سیکریٹری زاہد بھرگڑی کا جن کی فصل کا دارومدار نہری پانی پر ہے جو اُن کے بقول ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہو رہا ہے۔ گرین پاکستان انیشٹو تو زراعت کو جدید اور کم خرچے میں زیادہ پیداوار کا منصوبہ ہے، پھر جنرل سیکرٹری ایوانِ زراعت سندھ نے ایسا کیوں کہا کہ اس منصوبے سے زمینیں بنجر ہو جائیں گی؟ پاکستان پیپلز پارٹی، جو کبھی اس منصوبے کی حامی تھی، اب اس کی سخت مخالف بن چکی ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے دسمبر 2024 میں دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے حکومتی فیصلے کو یکطرفہ اور متنازع قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے کہ وہ ایسے فیصلے کریں جو متنازع ہوں۔ انہوں نے زور دیا کہ کالا باغ ڈیم کی طرح یہ فیصلہ بھی یکطرفہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات شازیہ مری نے بھی دریائے سندھ سے 6 نئی نہریں نکالنے کے فیصلے کو ارسا ایکٹ اور 1991ء کے پانی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ایسے فیصلوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور وفاقی حکومت کی جانب سے سی سی آئی کا اجلاس طلب نہ کرنا آئینی خلاف ورزی ہے۔ مگر صدر آصف علی زرداری کی جانب سے اس پر واضح طور پر کوئی بیان نہیں دیا گیا، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی کچھ یک طرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں، خاص طور پردریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے کی یکطرفہ تجویز کی بطور صدر میں حمایت نہیں کر سکتا۔ حکومت اس موجودہ تجویز کو ترک کرے، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ متفقہ اتفاق رائے کی بنیاد پر قابل عمل اور پائیدار حل نکالا جاسکے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 1950 کی دہائی میں 5000 کیوبک میٹر تھی، جو 2018 تک 1000 کیوبک میٹر سے بھی کم ہو چکی ہے۔ ایسے میں اگر مزید پانی چولستان کی طرف موڑا گیا، تو سندھ کی زراعت شدید متاثر ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب حکومتِ پنجاب کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد جدید کارپوریٹ فارمنگ کے ساتھ ساتھ چھوٹے کسانوں کی مدد کرنا ہے، جو پاکستان کے زرعی شعبے کا 95 فیصد ہیں۔ اب تک 0.9 ملین ایکڑ اراضی الاٹ کی جا چکی ہے، جس میں پنجاب میں 811,619 ایکڑ، سندھ میں 52,713 ایکڑ، بلوچستان میں 47,606 اور خیبرپختونخوا میں 74,140 ایکڑ اراضی شامل ہے۔ چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ شروع ہو چکی ہے اور اب تک دو لاکھ ایکڑ اراضی کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ منصوبہ چھوٹے کاشتکاروں کے مفاد کے لیے بنایا گیا ہے؟ پیپلز پارٹی کے اس منصوبے کی مخالفت کی وجہ عوامی فکر ہے یا پھر کوئی سیاسی چال اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
حق آگیا، باطل مٹ گیا:بدر سے مکہ تک، اسلام کی کامیابی کا پیغام

بد ر کے مقام پر 17 رمضان کو حق آگیا باطل مٹ گیا یقینا باطل تو مٹنے والا ہی ہےاور 20 رمضان المبارک کو حضور اکرمؐ کے نگرانی میں فتح مکہ ،فتح مبین مسلمانوں کے نام ہوئی۔ سورہ فتح میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں بے شک اللہ آپ کی زبردست مدد فرمائیں گے، اللہ تعالیٰ نے وعدہ پورہ کیا اور 313 صحابہ کی صورت میں 1 ہزار کفار کے مقابلے میں فتح دلائی، فتح مکہ، جب دنیا پر اسلام کی سچائی آشکار ہو رہی ہے۔ فتح مکہ، جب سرزمین عرب سے باطل کا اندھیرا چھٹ رہا ہے۔ فتح مکہ، جب رحمت اللعالمینؐ اپنے مبارک ہاتھوں سے کعبۃ اللہ کو شرک کی آلائشوں سے پاک کر رہے ہیں۔ فتح مکہ، جب 360 بت یکے بعد دیگرے گرائے جا رہے ہیں اور حق کی روشنی ہر سمت پھیل رہی ہے۔ فتح مکہ، جب مسلمان شوق و عقیدت کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہو رہے ہیں اور اللہ کے گھر کا طواف کر رہے ہیں۔ فتح مکہ، جب حضرت بلالؓ کعبے کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دے رہے ہیں اور اللہ کی وحدانیت کی صدا آسمانوں تک گونج رہی ہے۔ یہ وہی مکہ ہے جہاں ایک وقت تھا کہ اسلام کا نام لینا جرم تھا، جہاں حضرت بلالؓ کو دہکتے انگاروں پر لٹا دیا جاتا، جہاں حضرت یاسرؓ اور حضرت سمیہؓ کو شہید کر دیا جاتا، جہاں رسول اللہؐ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے، جہاں شعب ابی طالب میں محصور رہنا پڑا، جہاں کعبے کے در و دیوار شرک کی نجاست میں ڈوبے ہوئے تھے۔ آج وہی کفار مکہ ہتھیار ڈالیں ،اپنی قسمت کے منتظر ہیں ،رحمت اللعالمین ہونے کا منظر دنیا دیکھ رہی ہے اور تاریخ میں لکھا جا رہا ہے، آپ پر کنکری مارنے والے گندگی پھینکنے والے برا بھلا کہنے والے کانپ رہے ہیں ۔چاروں طرف دوڑ رہے ہیں، امان مانگ رہے ہیں ،آج زمین پر ان کے پاس چھپنے کی کوئی جگہ موجود نہیں، خوف میں سارا عالم ڈوبا ہوا ہے۔ لیکن قربان جائیے آقا کریم کی ذات اقدس پر جن کی رحمت کے سائے میں سب نے امان پائے، مسلمانوں کے لشکر میں قبیلہ بنو خرچ کی کمان حضرت سعود بن عبادہ کے ہاتھ میں ہے، وہ ابو سفیان کو دور سے دیکھ کر ہی پہچان لیتے ہیں اور زور سے اعلان کرتے ہیں آج خون کی ندیاں بہانے کا دن ہے آج کعبے کو پاک کر دیا جائے ،ابو سفیان یہ منظر دیکھ رہا ہے ،پریشانی میں محمد مصطفی احمد مجتبی کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے منظر بیان کرتا ہے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ آج کا دن رحمت کا دن ہے آج کا دن وہ دن ہے جس میں کعبے کی تعظیم کی جائے گی پھر رحمت اللعالمین اعلان کروا رہے ہیں کہ جس کو امان چاہیے بیت اللہ میں آجائے جس کو امان چاہیے وہ ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے جس کو امان چاہیے وہ اپنے گھر کے دروازوں کو بند کر لیں تاریخ انسانی کا جو واقعہ ہے کہ جہاں فاتحین سروں کو جھکائے رب کے حضور پیش ہو رہا ہے ۔ دشمن ایسی شکست پر مشکور ہے ایسا منظر نہ پہلے کبھی دیکھا اور نہ اس کے بعد پتہ ہے مکہ کی خوشیاں صرف زمین پر نہیں ہیں اسمان پر بھی منائی ہے یہ صرف مکہ کو فتح کرنے کا دن نہیں ہے بلکہ یہ ہزاروں دلوں کو فتح کرنے کا دن ہے
فتح مکہ: وہ منظر جودنیا نے کبھی نہ دیکھا

غزوہ فتح مکہ نبی پاک ﷺ کے اہم ترین غزوات میں سے ایک تھا جس کے نتیجے میں 8 ہجری (10 جنوری 630 عیسوی) کو مکہ فتح ہوا۔ اس فتح کے بعد جزیرہ نما عرب کے بیشتر قبائل نے 10 ہجری تک اسلام قبول کر لیا اور یوں پورے عرب میں اسلام کی حکمرانی قائم ہوگئی۔ حضرت محمد (ﷺ) نے اپنی حکمت عملی اور تدبیر سے جو کہ اچانک حملے کی جنگی حکمت عملی کے اصولوں کے مطابق تھی اور حیران کن بات تو یہ ہے اس جنگ میں بغیر کسی خونریزی کے مکہ کو فتح کیا۔ فتح مکہ کے دوران نبی اکرم (ﷺ) نے “آج کا دن عفو و درگزر کا دن ہے” کے الفاظ کے ساتھ عام معافی کا اعلان کیا۔ کچھ تاریخی روایات کے مطابق فتح مکہ کے بعد حضرت علیؑ نے پیغمبر اکرم (ﷺ) کے کہنے پر پیغمبر کے کندھوں پر سوار ہو کر بتوں کو گرایا اور انہیں باب بنی شیبہ (مسجد الحرام کا داخلی دروازہ) کے سامنے دفن کردیا۔
منفرد اندازِ بیاں اور گہری سوچ رکھنے والی شاعری کی خالق

شاعری کے عالمی دن کے موقع پر، ہم نے معروف شاعرہ ماہ نور رانا کے ساتھ ایک خصوصی پوڈکاسٹ کا اہتمام کیا، جہاں ہم نے شاعری کی خوبصورتی، اس کے اثرات اور اس کے مستقبل پر تفصیلی گفتگو کی۔ ماہ نور رانا، جو اپنے منفرد اندازِ بیاں اور گہری سوچ رکھنے والی شاعری کے لیے جانی جاتی ہیں، نے اس نشست میں اپنے خیالات اور تجربات کا نچوڑ پیش کیا۔ یہ گفتگو نہ صرف شاعری کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ اس بات پر بھی روشنی ڈالتی ہے کہ کیسے یہ فن انسانی جذبات، احساسات اور معاشرتی رویوں کو ایک منفرد انداز میں پیش کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شاعری محض الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ ایک گہرا جذبہ اور سوچنے کا ایک منفرد زاویہ ہے جو دلوں کو چھو لیتا ہے۔ اس پوڈکاسٹ میں ہم نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ آج کے جدید دور میں شاعری کی مقبولیت کیسے برقرار رکھی جا سکتی ہے اور نوجوان نسل اس سے کس طرح جُڑ سکتی ہے۔ اگر آپ شاعری سے محبت کرتے ہیں اور اس کی گہرائی کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو یہ گفتگو آپ کے لیے نہایت دلچسپ ثابت ہوگی۔
نوروز تہوار: ایرانی اور دیگر لوگ بہار کی آمد پر اسے کیوں مناتے ہیں؟

نوروز ایک قدیم تہوار ہے جو ہر سال بہار کی آمد پر منایا جاتا ہے۔ نوروز کا مطلب ہے نیا دن، اور یہ نہ صرف ایرانی بلکہ وسطی ایشیا، ترکی، افغانستان، پاکستان اور دیگر کئی ممالک میں منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار ہزاروں سال پرانا ہے اور اسے فارسی کیلنڈر کے مطابق نئے سال کے پہلے دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن قدرت کی تازگی اور زندگی کے نئے آغاز کی علامت ہے۔ اس دن کو گھروں کی صفائی کی جاتی ہے، نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں، اور خاندان کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں بانٹتے ہیں۔ نوروز کی ایک خاص روایت ‘ہفت سین’ کہلاتی ہے جس میں سات ایسی چیزیں رکھی جاتی ہیں جو حرف ‘س’ سے شروع ہوتی ہیں، جیسے سیب، سبزہ اور سرکہ، جو خوشحالی، صحت اور محبت کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ نوروز کی دلچسپ سرگرمیوں میں چہار شنبہ سوری بھی شامل ہے ،نوروز سے پہلے منگل کی رات کو ایران اور افغانستان میں چہارشنبہ سوری منایا جاتا ہے، جس میں لوگ جلتی ہوئی آگ کے اوپر سے چھلانگ لگاتے ہوئے یہ کہتے ہیں “زردی من از تو، سرخی تو از من” (یعنی میری زردی تجھ میں اور تیری سرخی مجھ میں) اسی طرح ایرانی ہفت سین میں رکھا جانےوالا سبزہ نوروز کے 13ویں دن دریا یا نہر میں بہا دیتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ پچھلے سال کی مشکلات ختم ہو گئیں اور نیا سال خوشیوں کا پیام لے کر آیا ہے۔ نوروز کا سب سے خاص پہلو لوگوں کا آپس میں میل جول بڑھانا اور گلے شکوے مٹا کر ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ بچے عیدی لیتے ہیں، لوگ دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں اور روایتی کھانے بنائے جاتے ہیں۔ کچھ مقامات پر موسیقی، رقص اور مختلف ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جیسے بہار آ کر درختوں کو نیا رنگ دیتی ہے، ہمیں بھی ویسے ہی بہار کے ساتھ اپنی زندگی کو ایک نیا رنگ دینا چاہیے ، پرانی تلخیوں کو بھلا کر آگے بڑھنا چاہیے اور نئے مواقع کا استقبال کرنا چاہیے۔ نوروز صرف ایک تہوار نہیں، بلکہ امید، خوشی اور زندگی کے حسن کا جشن ہے۔
خوشی کا تعلق بیرونی عوامل سے نہیں بلکہ ہمارے ذہن سے ہے

اتوار کا دن ہے اور صبح کے وقت ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہے۔ آپ چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے موسم سے مکمل لطف اٹھا رہے ہیں۔ ۔ آپ یو ں محسوس کرتے ہیں جیسے زندگی مزید خوبصورت ہوگئی ہو۔ اچانک آپ کے موبائل پر ایک نوٹیفیکیشن آتا ہے جو آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے یا آپ کا تمام بنک بیلنس چوری ہوگیا ہے۔آپ اسی لمحے افسردہ ہوجاتے ہیں اور وہ خوشی رخصت ہو جاتی ہے۔ موسم تو اب بھی خوبصورت تھا لیکن آپ کے دل کا موسم غمگین ہوگیا ہے۔ آج خوشی کا عالمی دن ہے اور آئیے جانتے ہیں کہ آخر ایسی کیا چیزیں ہیں جو ہمیں خوش یا غم زدہ رکھتی ہیں۔ خوشی ایک ایسا احساس ہے جسے ہر انسان حاصل کرنا چاہتا ہے اور ساری زندگی اسی کے تعاقب کرتے ہوئے گزار دیتا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس دولت ہو تو آپ زیادہ خوش رہ سکتے ہیں۔ لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ خوش رہنے کے لیے کسی بڑی کامیابی یا دولت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی عادتیں اور مثبت رویہ ہماری خوشی میں حیرت انگیز اضافہ کر سکتے ہیں۔ خوشی کا تعلق صرف بیرونی عوامل سے نہیں بلکہ ہماری ذہنی اور جسمانی صحت سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ سائنس کے مطابق، خوشی ،محسوس کرنے کا ایک حیاتیاتی عمل ہوتا ہے۔ ہمارے دماغ میں “سیروٹونن”، “ڈوپامائن”، “آکسیٹوسن” اور “اینڈورفنز” جیسے نیورو ٹرانسمیٹرز خارج ہوتے ہیں جو خوشی اور اطمینان کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ جب ہم کوئی مثبت کام کرتے ہیں جیسے ورزش، ہنسی مذاق، دوسروں کی مدد، یا پسندیدہ سرگرمیاں، تو ہمارا دماغ ان ہارموں کو خارج کرتا ہے، جس سے ہم خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم روزمرہ کی زندگی میں کس طرح آسانی سے خوش رہ سکتے ہیں؟ اس کے کئی طریقے ہیں جو نہ صرف ہمیں ذہنی سکون فراہم کرتے ہیں بلکہ ہماری صحت کو بھی بہتر بناتے ہیں۔ سب سے پہلے، شکر گزاری خوش رہنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ جب ہم اپنی زندگی میں موجود مثبت چیزوں پر توجہ دیتے ہیں اور ان کا شکر ادا کرتے ہیں تو ہمارا دماغ مثبت سوچنا شروع کر دیتا ہے، جس سے ہماری خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق روزانہ شکر گزاری لکھنے والے افراد زیادہ خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔ دوسرا اہم طریقہ جسمانی سرگرمی ہے۔ ورزش کرنا، چہل قدمی، یا کسی بھی قسم کی فزیکل ایکٹیویٹی دماغ میں اینڈورفنز خارج کرتی ہے، جسے قدرتی “خوشی کے کیمیکل” کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورزش کے بعد ہمیں ذہنی سکون اور تازگی محسوس ہوتی ہے۔ دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنا بھی خوشی کو بڑھاتا ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق، وہ لوگ جو مضبوط سماجی تعلقات رکھتے ہیں، وہ زیادہ خوش اور مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے، اپنی خوشیاں اور مسائل شیئر کرنے سے ہم جذباتی طور پر مضبوط محسوس کرتے ہیں۔ مسکراہٹ اور قہقہہ بھی خوشی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ جب ہم ہنستے ہیں تو ہمارے جسم میں اینڈورفنز خارج ہوتے ہیں، جو ہمیں خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔ حتیٰ کہ مصنوعی مسکراہٹ بھی ہمارے موڈ کو بہتر کر سکتی ہے۔ مدد کرنا اور دوسروں کے لیے کچھ اچھا کرنا ہماری خوشی میں اضافہ کرتا ہے۔ جب ہم کسی ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں یا کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہیں، تو ہمیں ایک اندرونی خوشی اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق، وہ لوگ جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں، وہ زیادہ خوش اور صحت مند رہتے ہیں۔ اچھی نیند بھی خوشی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ نیند کی کمی نہ صرف ہمارے موڈ کو متاثر کرتی ہے بلکہ ذہنی دباؤ اور بے چینی کو بھی بڑھاتی ہے۔ روزانہ سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند لینے سے دماغ تروتازہ رہتا ہے اور ہم زیادہ خوش محسوس کرتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی میں خوش رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم چھوٹی خوشیوں پر توجہ دیں، مثبت سوچ اپنائیں، اور اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ خوشی کسی بڑی کامیابی کا انتظار کرنے میں نہیں بلکہ ان لمحات میں ہے جو ہم ابھی جی رہے ہیں۔