خوشی کا تعلق بیرونی عوامل سے نہیں بلکہ ہمارے ذہن سے ہے

اتوار کا دن ہے اور صبح کے وقت ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہے۔ آپ چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے موسم سے مکمل لطف اٹھا رہے ہیں۔ ۔ آپ یو ں محسوس کرتے ہیں جیسے زندگی مزید خوبصورت ہوگئی ہو۔ اچانک آپ کے موبائل پر ایک نوٹیفیکیشن آتا ہے جو آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے یا آپ کا تمام بنک بیلنس چوری ہوگیا ہے۔آپ اسی لمحے افسردہ ہوجاتے ہیں اور وہ خوشی رخصت ہو جاتی ہے۔ موسم تو اب بھی خوبصورت تھا لیکن آپ کے دل کا موسم غمگین ہوگیا ہے۔ آج خوشی کا عالمی دن ہے اور آئیے جانتے ہیں کہ آخر ایسی کیا چیزیں ہیں جو ہمیں خوش یا غم زدہ رکھتی ہیں۔ خوشی ایک ایسا احساس ہے جسے ہر انسان حاصل کرنا چاہتا ہے اور ساری زندگی اسی کے تعاقب کرتے ہوئے گزار دیتا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے پاس دولت ہو تو آپ زیادہ خوش رہ سکتے ہیں۔ لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ خوش رہنے کے لیے کسی بڑی کامیابی یا دولت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی عادتیں اور مثبت رویہ ہماری خوشی میں حیرت انگیز اضافہ کر سکتے ہیں۔ خوشی کا تعلق صرف بیرونی عوامل سے نہیں بلکہ ہماری ذہنی اور جسمانی صحت سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ سائنس کے مطابق، خوشی ،محسوس کرنے کا ایک حیاتیاتی عمل ہوتا ہے۔ ہمارے دماغ میں “سیروٹونن”، “ڈوپامائن”، “آکسیٹوسن” اور “اینڈورفنز” جیسے نیورو ٹرانسمیٹرز خارج ہوتے ہیں جو خوشی اور اطمینان کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ جب ہم کوئی مثبت کام کرتے ہیں جیسے ورزش، ہنسی مذاق، دوسروں کی مدد، یا پسندیدہ سرگرمیاں، تو ہمارا دماغ ان ہارموں کو خارج کرتا ہے، جس سے ہم خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم روزمرہ کی زندگی میں کس طرح آسانی سے خوش رہ سکتے ہیں؟ اس کے کئی طریقے ہیں جو نہ صرف ہمیں ذہنی سکون فراہم کرتے ہیں بلکہ ہماری صحت کو بھی بہتر بناتے ہیں۔ سب سے پہلے، شکر گزاری خوش رہنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ جب ہم اپنی زندگی میں موجود مثبت چیزوں پر توجہ دیتے ہیں اور ان کا شکر ادا کرتے ہیں تو ہمارا دماغ مثبت سوچنا شروع کر دیتا ہے، جس سے ہماری خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق روزانہ شکر گزاری لکھنے والے افراد زیادہ خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔ دوسرا اہم طریقہ جسمانی سرگرمی ہے۔ ورزش کرنا، چہل قدمی، یا کسی بھی قسم کی فزیکل ایکٹیویٹی دماغ میں اینڈورفنز خارج کرتی ہے، جسے قدرتی “خوشی کے کیمیکل” کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورزش کے بعد ہمیں ذہنی سکون اور تازگی محسوس ہوتی ہے۔ دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنا بھی خوشی کو بڑھاتا ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق، وہ لوگ جو مضبوط سماجی تعلقات رکھتے ہیں، وہ زیادہ خوش اور مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے، اپنی خوشیاں اور مسائل شیئر کرنے سے ہم جذباتی طور پر مضبوط محسوس کرتے ہیں۔ مسکراہٹ اور قہقہہ بھی خوشی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ جب ہم ہنستے ہیں تو ہمارے جسم میں اینڈورفنز خارج ہوتے ہیں، جو ہمیں خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔ حتیٰ کہ مصنوعی مسکراہٹ بھی ہمارے موڈ کو بہتر کر سکتی ہے۔ مدد کرنا اور دوسروں کے لیے کچھ اچھا کرنا ہماری خوشی میں اضافہ کرتا ہے۔ جب ہم کسی ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں یا کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہیں، تو ہمیں ایک اندرونی خوشی اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق، وہ لوگ جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں، وہ زیادہ خوش اور صحت مند رہتے ہیں۔ اچھی نیند بھی خوشی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ نیند کی کمی نہ صرف ہمارے موڈ کو متاثر کرتی ہے بلکہ ذہنی دباؤ اور بے چینی کو بھی بڑھاتی ہے۔ روزانہ سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند لینے سے دماغ تروتازہ رہتا ہے اور ہم زیادہ خوش محسوس کرتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی میں خوش رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم چھوٹی خوشیوں پر توجہ دیں، مثبت سوچ اپنائیں، اور اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ خوشی کسی بڑی کامیابی کا انتظار کرنے میں نہیں بلکہ ان لمحات میں ہے جو ہم ابھی جی رہے ہیں۔
جدید دور حاضر کی اہم سروس کرپٹو گرافی ، کیسے ہماری معلومات کوخفیہ رکھتی ہے ؟

کرپٹوگرافی ایک ایسا سائنسی اور ریاضیاتی طریقہ ہے جس کے ذریعے معلومات کو خفیہ اور محفوظ بنایا جاتا ہے تاکہ غیر متعلقہ افراد ان معلومات تک رسائی حاصل نہ کر سکیں۔ یہ تکنیک قدیم زمانے سے استعمال ہو رہی ہے، لیکن آج کے دور میں ڈیجیٹل دنیا میں کرپٹوگرافی کا استعمال بہت زیادہ بڑھ چکا ہے، خاص طور پر آن لائن سیکیورٹی، بینکنگ، پاس ورڈز، اور ڈیجیٹل کمیونیکیشن میں۔ کرپٹو گرافی کا استعمال صدیوں سے ہوتا آیا ہے۔ قدیم زمانے میں بادشاہ اور فوجی اپنے پیغامات کو محفوظ بنانے کے لیے خفیہ کوڈز استعمال کرتے تھے۔ مثال کے طور پر، سیزر سائفِرایک قدیم تکنیک تھی جس میں حروف تہجی کو کچھ پوزیشنز آگے یا پیچھے کر کے پیغام کو خفیہ بنایا جاتا تھا۔ کرپٹوگرافی آج کے ڈیجیٹل دور کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جو ہماری آن لائن سیکیورٹی، پرائیویسی، اور ڈیٹا پروٹیکشن کو یقینی بناتی ہے۔ اس کے بغیر انٹرنیٹ پر محفوظ لین دین اور کمیونیکیشن ممکن نہیں۔
کیا عید پر نئے نوٹ دستیاب ہوں گے؟

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ ملک میں نئے کرنسی نوٹوں کی قلت ہے۔ بینک کا کہنا ہے کہ وہ عید الفطر کی تیاری کے لیے کمرشل بینکوں کو تازہ نوٹ فراہم کرنے کے معمول کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ عوام کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسٹیٹ بینک کے سرکاری بیان کے مطابق، ملک بھر میں 17,000 کمرشل بینکوں کی برانچوں کو 27 ارب روپے کے نئے کرنسی نوٹ پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ عید سے پہلے اپنے قریبی بینکوں سے نئے نوٹ حاصل کر سکیں۔ مرکزی بینک نے واضح کیا کہ اس نظام کے تحت ہر شخص کو تازہ نوٹوں تک آسانی سے رسائی دی جا رہی ہے تاکہ وہ تہوار کی خوشیوں کو بہتر طریقے سے منا سکیں۔ اسٹیٹ بینک نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ عید کے دوران اے ٹی ایمز میں اعلیٰ معیار کے کرنسی نوٹ موجود ہوں گے اور ان کی مسلسل فراہمی یقینی بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ کسی بھی وقت اے ٹی ایم سے رقم نکال کر نئے نوٹ حاصل کر سکیں گے، اور اس دوران کسی بھی رکاوٹ سے بچنے کے لیے ضروری انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ مزید برآں، اسٹیٹ بینک نے نئے نوٹوں کی تقسیم کے عمل کو شفاف اور آسان بنانے کے لیے کیش مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔ یہ ٹیمیں مختلف بینکوں کی برانچوں کا دورہ کر کے اس بات کو یقینی بنا رہی ہیں کہ نئے کرنسی نوٹ مناسب طریقے سے عوام میں تقسیم ہو رہے ہیں۔ اس کا مقصد کسی بھی قسم کی بدانتظامی یا مشکلات سے بچنا ہے تاکہ ہر فرد کو عید سے پہلے بآسانی نئے نوٹ مل سکیں۔ یہ اعلان ان افواہوں کے جواب میں دیا گیا ہے جن میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ملک میں نئے نوٹوں کی قلت ہو گئی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے ان افواہوں کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ عید کے موقع پر عوام کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ عوام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صرف مستند ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات پر یقین کریں اور کسی بھی غیر مصدقہ خبر پر بھروسہ نہ کریں۔
عید کی آمد آمد ہے مگر بازاروں میں رش کیوں نہیں؟

عید کی آمد پر ہر سال مارکیٹس میں بےپناہ رش دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں لوگ کپڑے، جوتے، جیولری اور دیگر ضروری اشیاء کی خریداری میں مصروف ہوتے ہیں۔ تاہم، اس مرتبہ صورتحال مختلف نظر آ رہی ہے، اور مارکیٹس میں روایتی گہماگہمی کم دکھائی دے رہی ہے۔ تاجروں کے مطابق، مہنگائی میں مسلسل اضافے اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے عوام کی قوتِ خرید متاثر ہوئی ہے، جس کے باعث خریداروں کی تعداد میں واضح کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس کے علاوہ، آن لائن خریداری کے رجحان میں اضافہ بھی ایک اہم وجہ ہے۔ بہت سے لوگ اب مارکیٹس جانے کے بجائے گھروں میں بیٹھ کر ہی اپنی پسندیدہ اشیاء آرڈر کر رہے ہیں، جس سے بازاروں میں ہجوم کم ہو گیا ہے۔ دوسری جانب، پچھلے سالوں کے مقابلے میں سیکیورٹی خدشات اور ٹریفک مسائل بھی لوگوں کو رش والے مقامات سے دور رکھنے کا سبب بن رہے ہیں۔ تاجر اور کاروباری حضرات اس صورتِ حال سے پریشان ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ عید کے قریب آتے ہی خریداری میں تیزی آئے گی۔ تاہم، موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اس سال عید کی خریداری روایتی جوش و خروش سے کچھ کم رہے گی۔
کمپنی تو یہی چلے گی

’ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کے بارے میں بیان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں‘ شاہ جی نے ملتان روڈ کے ڈھابے پر چائے کی چسکی لیتے ہوئے سوال کیا، میں نے ادھر ادھر دیکھا اور جواب دیا کہ یہ تو ٹرمپ کا معمول ہے، میڈیا میں رہنے کا ٹرک ہے، جیسے ’کپتان‘ کا تھا، صبح بات کی شام کو’یوٹرن‘ لے لیا ۔ نہیں۔ چائے کی دوسری چسکی لیتے ہوئے شاہ جی بولے’یہ کوئی روٹین بات نہیں، آپ کو چند دن بات اندازہ ہوجائے گا کہ کیا ہونے والا ہے‘۔ میں بھی ٹھہرا ایک ضدی ایڈیٹراورشاہ جی ایک صحافت کے ’کیڑے‘۔ جھنجلا کے بولے کہ ’پاکستان کی قوم ایک بار پھربکے گی، حکومت اور ادارے ایک بار پھر سہولت کاری کریں گے، یہ کمپنی یوں ہی چلتی رہے گی‘۔ میں اٹھا اور سیدھا دفتر پہنچا توپتا چلا کہ’ جعفر ایکسپریس کو درہ بولان پریرغمال بنالیا گیا ہے‘۔ ٹی وی چینلز پر دیکھا تو مین سٹریم میڈیا پر’سب اچھا ہے‘ کی خبریں چل رہی تھیں۔ مگر ہمارے ذرائع پل پل کی خبر دے رہے تھے جن کو روکا جارہا تھا۔ مین سٹریم میڈیا تو قابو میں تھا سوشل میڈیا پر کچھ ٹھیک تو کچھ فیک خبریں بھی چل رہی تھیں ۔ کچھ خبریں تو’بی ایل اے‘ کے پیجز اور واٹس ایپ نمبرزسے بھی پھیلائی جارہی تھیں۔ ذرا پیچھے گئے تو ایک خبر ایسی بھی تھی جس کا پاکستانی میڈیا کو علم نہیں تھا مگرڈونلڈ ٹرمپ نے کانگرس ارکان کے ساتھ ایک خوشخبری کے طور پر شیئر کیا اور ساتھ ہی پاکستان کا ’شکریہ‘ بھی ادا کیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ سب کنٹرول میں ہے سوائے ان کے جن کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ تم یہ نہیں بول سکتے، تم یہ نہیں کہہ سکتے،تم یہ لکھوگے تو غدار کہلائے جاؤ گے، یہ بولو گے تو ماردئیے جاؤ گے،فلاں فلاں تمھاری حد ہے اسے عبور کرو گے تو اٹھا لئے جاؤ گے، یہ اپنی مرضی سے بولتا ہے، یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے ، یہ بے ادب مقدس لوگوں پر حرف اٹھاتا ہے، یہ ان کے بارے میں پوچھتا ہے جن کے بارے میں سوال کرنا گناہ ہے، یہ وہ پابندیاں ہیں جن میں پاکستانی معاشرہ جکڑا ہوا ہے۔ مقرر اپنی مرضی سے تقریر نہیں کرسکتا، لکھاری آزادی سے لکھ نہیں سکتا۔ صحافی کے پاس خبر ہوتی ہے لیکن وہ اسے من و عن اپنے قارئین یا ناظرین تک پہنچانے سے قاصر ہے۔ کتنی افسوسناک بات ہے کہ پاکستان بھر میں 17 فروری 2024 سے بند ہونے والی ’ایکس‘ کی سروس تاحال بلا تعطل بحال نہیں ہوسکی ہے، شرمندگی کی بات یہ ہے کہ حکومت کے اہم عہدیدار بھی جواب دینے سے قاصر ہیں اور لاعلم نظر آتے ہیں کہ اسے کیوں بند کیا گیا؟بلکہ اقتدار پارٹی کے رہنماء بھی اس کو کھولنے کے حق میں آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ وہی ایکس کی سروس حکومت وی پی این لگا کے دھڑلے سے استعمال کرتی نظرآتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو ’ففتھ جنریشن‘اور باجوہ ڈاکٹرائن کے بڑے چرچے تھے۔ایک منصوبے کے تحت اس مخصوص نظریے کو نوآموز ذہنوں میں انڈیلا گیا ،اس وقت نوجوانوں کو ’وارئیرز‘قراردیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ جو برتری پاکستان اور اس کے ادارے کو حاصل ہے وہ انڈیا کو بھی نہیں، پھر وقت بدلا،حالات بدلے اور جذبات بھی بدل دئیے گئے۔ جو محب وطن تھے وہ غدار ٹھہرے اور جو کرپٹ تھے وہ’صادق اورامین‘ بن گئے۔ زبان وبیان کل بھی کنٹرول کیا جارہا تھا اور آج بھی ۔ قلم ،مائیک ،کی بورڈ کو کنٹرول میں رکھنے والے چاہتے کیا ہیں؟ ان کی چاہت ہے کہ یہ ان کے قصیدہ خواں بنے رہیں،جو ہم کہیں وہی سنیں،جو ہم بولیں وہی لکھیں، یہ چاہتے ہیں کہ کوئی سوال اٹھانے کے قابل نہ رہے، یہ چاہتے ہیں کہ کوئی دانش کی بات نہ کرسکے، یہ چاہتے ہیں کہ جو ہم کہیں اسی کو سچ سمجھ کر قبول کیا جائے، یہ بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں، عہد حاضر کے بچے دس سال سے پیچھے نہیں سوچتے ،یہ بچے ’’لانگ ٹرم میموری لاس‘‘ کا شکار ہوچکے ہیں، 10 سال سے پیچھے ان کے دماغ بند ہوجاتے ہیں۔ پہلے کیا سے کیا ہوتا رہا؟ کچھ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتا ۔ یہ ایک سوچ اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ۔ اداروں کو بانجھ کرنے ،ذہنوں کو قید کرنے کا کام تین دہائیاں پہلے شروع کیا گیا اب اس کا پھل اٹھا رہے ہیں ۔ایک ایک کرکے عقل وشعور کی بات کرنے والے ادارے بانجھ بنادیے گئے،اب وہ انقلابی شاعر نہیں ملیں گے جن کے ایک ایک مصرعے پرشرکاء میں زلزلہ پیدا ہوجاتا ،اب وہ لکھاری نہیں رہے جن کے جملے دستور بن جاتے،اب وہ طلباءنہیں جن کے نعروں سے ایوان کانپتے تھے،اب تو تعلیمی ادارے برائلر پالنے والے مرغی فارم بن چکے ہیں جن کے تیار کردہ بچے خود اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکتے۔ ہم ایک ہجوم بن گئے ایک قوم نہ بن سکے۔ کچھ چیدہ چیدہ پرانے لوگ رہ گئے ہیں ان کو بھی بزور طاقت جھکانا چاہتے ہیں، ان کو ڈرایا جارہا ہے، دھمکایا جارہا ہے، پھر بھی باز نہیں آئے تو سوشل میڈیا پر رلایا جارہا ہے۔ سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے ہر در پہ جو جھک جائے اسے سر نہیں کہتے یہی کام انڈیا کا مودی کرتا ہے تو ہم اسے فسطائی کہتے ہیں۔ یہی کام امریکا کا ٹرمپ کرتا ہے تو ہم ’گالیاں‘ دیتے، یہی کام اسرائیلی نیتن یاہو کرتا تو اسے ہم کیا سے کیا کہتے۔ ہمیں اپنا سچ سچ کیوں لگتا ہے؟ کسی دوسرے کا سچ سننے کا بھی دل گردہ ہونا چاہئے۔ شاہ جی کی باتوں میں کمال تھا، چائے میں جتنی کڑواہٹ تھی اس سے کہیں زیادہ شاہ جی کی باتوں میں تھی، وہ کہتے گئے ہم سنتے گئے، وہ فرما رہے تھے’امریکا نے موجودہ بندوبست کو قبول کرلیا ہے، یہ بندوبست افغانستان کے خلاف ’اسلحہ وصولی‘ کے لیے استعمال ہوگا۔ یعنی’کمپنی تو یہی چلے گی‘۔ کیا آپ کوبھی یہی لگتا ہے؟۔
یوٹیوب سے کمائی کے چکر میں حقیقی زندگی سے دوری

یوٹیوب پر ویڈیوز بنا کر ڈالرز کمانے کا رجحان نوجوانوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بظاہر یہ ایک مثبت سرگرمی لگتی ہے، لیکن اس کے کئی منفی اثرات بھی ہیں جو نوجوانوں کی ذہنی، سماجی اور تعلیمی زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر نوجوان فوری پیسہ کمانے کی خواہش میں تعلیم پر توجہ نہیں دیتے۔ وہ پڑھائی کے بجائے ویڈیوز بنانے اور وائرل کرنے پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں، جس سے ان کے تعلیمی نتائج متاثر ہوتے ہیں۔ بہت سے نوجوان یوٹیوب کو ایک آسان ذریعہ سمجھ کر مستقل ملازمت یا ہنر سیکھنے کے بجائے صرف اسی پر انحصار کرنے لگتے ہیں، جو مستقبل میں عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک اور بڑا نقصان ذہنی دباؤ اور بے چینی ہے۔ یوٹیوب پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے ویوز، لائکس اور سبسکرائبرز کی دوڑ میں نوجوان اپنی ذہنی صحت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر ویڈیو وائرل نہ ہو یا ان کے چینل پر مطلوبہ کامیابی نہ ملے تو وہ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مسلسل سوشل میڈیا کے دباؤ میں رہنے کی وجہ سے ان میں عدم اعتماد اور احساس کمتری پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، یوٹیوبرز اکثر غیر معیاری اور سنسنی خیز مواد بناتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ناظرین حاصل کر سکیں۔ کچھ نوجوان شہرت اور پیسہ کمانے کے لیے غیر اخلاقی اور غیر حقیقی مواد تیار کرتے ہیں، جس سے نہ صرف ان کی اپنی شخصیت متاثر ہوتی ہے بلکہ ناظرین پر بھی غلط اثر پڑتا ہے۔ بعض اوقات وہ جھوٹی خبروں، غلط معلومات یا غیر اخلاقی چیلنجز کو فروغ دے کر سماجی بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ نوجوانوں کی جسمانی صحت پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زیادہ تر یوٹیوبرز گھنٹوں اسکرین کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی نیند متاثر ہوتی ہے اور وہ جسمانی سرگرمیوں سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس سے موٹاپا، آنکھوں کی کمزوری اور دیگر صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ خاندانی اور سماجی تعلقات بھی یوٹیوب کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ نوجوان اپنی فیملی اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے زیادہ تر وقت ویڈیوز بنانے، ایڈیٹنگ کرنے اور سوشل میڈیا پر مصروف رہنے میں گزارتے ہیں۔ اس سے ان کے قریبی تعلقات کمزور پڑ جاتے ہیں اور وہ حقیقی زندگی میں تنہائی محسوس کر سکتے ہیں۔ یوٹیوب پر کمائی کا یہ سلسلہ اگر مثبت طریقے سے کیا جائے تو فائدہ مند ہو سکتا ہے، لیکن نوجوانوں کو اس کا متوازن استعمال سیکھنا ہوگا۔ انہیں چاہیے کہ وہ تعلیم، ذہنی صحت اور حقیقی زندگی کی اہمیت کو نظر انداز نہ کریں اور صرف معیاری اور تعمیری مواد تخلیق کریں تاکہ یہ سرگرمی ان کے لیے نقصان کے بجائے فائدہ مند ثابت ہو۔
ہاتھ کی نفاست اور روایت کی عظمت کا شاندار امتزاج

غریب شاہ بازار، کراچی میں ہاتھ سے چپلیں بنانے کا عمل ایک روایتی ہنر ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا آ رہا ہے۔ یہاں کے ہنر مند کاریگر چمڑے، ربڑ اور دیگر مقامی مواد کا استعمال کرتے ہوئے مکمل طور پر ہاتھ سے چپلیں تیار کرتے ہیں۔ چپل سازی کا عمل مختلف مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ سب سے پہلے، چمڑے یا ربڑ کو مخصوص سانچوں کے مطابق کاٹا جاتا ہے۔ اس کے بعد، کاریگر باریک دھاگے اور مضبوط گوند کی مدد سے ان حصوں کو جوڑتے ہیں۔ بعض چپلوں پر روایتی نقش و نگار یا دھاگے کی کڑھائی کی جاتی ہے، جو انہیں منفرد اور خوبصورت بناتی ہے۔ آخر میں، چپلوں کو چمکانے اور ان کی مضبوطی جانچنے کے بعد فروخت کے لیے پیش کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہنر مند نہ صرف سادہ دیسی چپلیں بناتے ہیں بلکہ جدید ڈیزائن اور آرڈرز کے مطابق بھی چپلیں تیار کرتے ہیں۔ ان چپلوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نہ صرف پائیدار ہوتی ہیں بلکہ خالص ہاتھ سے بننے کی وجہ سے ہر جوڑی ایک منفرد انداز رکھتی ہے۔ غریب شاہ بازار میں بننے والی یہ چپلیں کم قیمت اور اعلیٰ معیار کی وجہ سے مقامی خریداروں کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک بھی مقبول ہو رہی ہیں۔
رات کی تاریکی میں اچانک روشنی پھیل گئی، ویڈیو میں لمحہ قید

کراچی میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب رات 2 بج کر 43 منٹ پر شہاب ثاقب کو گزرتے دیکھا گیا اور اس نظارے کو شہریوں نے کیمرے کی آنکھ میں قید کر لیا، جس کے بعد ویڈیو سوشل میڈیا پھر وائرل ہو گئی۔ نظام شمسی میں مریخ اور مشتری کے مدار کے درمیان چکر لگانے والے خلائی پتھر جنہیں ’’ سیارچے ‘‘کہا جاتا ہے بعض اوقات زمین کی طرٖف آجاتے ہیں اور زمین کی فضا سے رگڑ کھانے سے ان میں اتنی حرارت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں اور اس کی روشنی ہمیں نظر آتی ہے اس کو ہم تارا ٹوٹنے سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ شہاب ثاقب سیارچوں کے ٹوٹے ہوئے ذرات ہوتے ہیں جو زمین کے ماحول میں آتے ہوئے آکسیجن اور کشش کے باعث جلتے نظر آتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کےگرد مدارمیں کروڑوں کی تعداد میں شہاب ثاقب ہیں، اسے عام زبان میں شوٹنگ اسٹار بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے مطابق شہاب ثاقب کے واقعات سالانہ یا باقاعدگی سے کچھ وقفوں سے ہوتے رہتے ہیں۔ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے مطابق ہر روز زمین پر 100 سے 300 ٹن کے درمیان خلائی مٹی اور پتھروں کی بارش ہوتی ہے مگر ان کا حجم کسی ریت کے ذرے سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا۔
فیملی ولاگنگ: سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی بے حیائی اور اس کے منفی اثرات

سوشل میڈیا پر فیملی ولاگنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان نے معاشرتی اقدار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لوگ اپنی ذاتی زندگیوں کو عوامی سطح پر لانے کے لیے بے حیائی کی حدود پار کر رہے ہیں، جہاں شادی شدہ جوڑے اور خواتین کو سوشل میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے۔ اس رجحان نے نوجوانوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، جن میں شرم و حیا کا خاتمہ اور دنیاوی آسائشوں کی طرف بڑھتا ہوا رجحان شامل ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو فوری طور پر ایسے مواد پر پابندی عائد کرنی چاہیے تاکہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال فروغ پائے اور نوجوان نسل کو صحت مند زندگی گزارنے کی ترغیب دی جا سکے۔
رنگ، فٹنگ اور سادگی: شلوار قمیض کی بے مثال خوبصورتی

شلوار قمیض، ایک منفرد اور شاندار لباس ہے جو آپ کی شخصیت کو بے مثال اور خوبصورت بناتا ہے اس کا ہر سٹائل، ہر رنگ اور ہر فٹنگ آپ کو ایک الگ ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔ رنگوں میں جاندار توازن ہو تو یہ دلکش نظر آتا ہے، چاہے سفید ہو یا چمکتا نیلا، مگر کالا جوڑا بہترین چوائس ہے۔ شلوار قمیض کی فٹنگ وہ راز ہے جو آپ کی شخصیت کو مزید جاذب نظر بناتی ہے۔ کم یا زیادہ ٹائٹ، ہر سٹائل کا اپنا ایک انداز ہے۔ اس کی سادگی میں چھپی ہوئی خوبصورتی، آپ کو راہ چلتے ہوئے بھی ستاروں کی طرح چمکاتی ہے۔