فیملی ولاگنگ: سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی بے حیائی اور اس کے منفی اثرات

سوشل میڈیا پر فیملی ولاگنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان نے معاشرتی اقدار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لوگ اپنی ذاتی زندگیوں کو عوامی سطح پر لانے کے لیے بے حیائی کی حدود پار کر رہے ہیں، جہاں شادی شدہ جوڑے اور خواتین کو سوشل میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے۔ اس رجحان نے نوجوانوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، جن میں شرم و حیا کا خاتمہ اور دنیاوی آسائشوں کی طرف بڑھتا ہوا رجحان شامل ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو فوری طور پر ایسے مواد پر پابندی عائد کرنی چاہیے تاکہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال فروغ پائے اور نوجوان نسل کو صحت مند زندگی گزارنے کی ترغیب دی جا سکے۔
رنگ، فٹنگ اور سادگی: شلوار قمیض کی بے مثال خوبصورتی

شلوار قمیض، ایک منفرد اور شاندار لباس ہے جو آپ کی شخصیت کو بے مثال اور خوبصورت بناتا ہے اس کا ہر سٹائل، ہر رنگ اور ہر فٹنگ آپ کو ایک الگ ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔ رنگوں میں جاندار توازن ہو تو یہ دلکش نظر آتا ہے، چاہے سفید ہو یا چمکتا نیلا، مگر کالا جوڑا بہترین چوائس ہے۔ شلوار قمیض کی فٹنگ وہ راز ہے جو آپ کی شخصیت کو مزید جاذب نظر بناتی ہے۔ کم یا زیادہ ٹائٹ، ہر سٹائل کا اپنا ایک انداز ہے۔ اس کی سادگی میں چھپی ہوئی خوبصورتی، آپ کو راہ چلتے ہوئے بھی ستاروں کی طرح چمکاتی ہے۔
آگمینٹڈ ریئلٹی انقلاب: یہ صحت، تعلیم اور کھیلوں کو کس طرح تبدیل کر رہا ہے؟

ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہماری زندگیوں کو بدل دیا ہے، ان میں سے ایک جدید اور دلچسپ آگمینٹڈ ریئلٹی (اے آر) ہے۔ اے آر ایک ایسی ٹیکنالوجی ہےجو کمپیوٹر گرافکس، آڈیو، ویڈیواور سنسرز کو حقیقی دنیا کے منظر میں شامل کرتی ہے۔ اس کا مقصد حقیقی منظر کو بہتر بنانا اور اس میں اضافی معلومات شامل کرنا ہے۔ آگمینٹڈ ریئلٹی میں حقیقت کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کیا جاتا، جیساکہ ورچوئل ریئلٹی میں ہوتا ہے، بلکہ اس میں حقیقت کی دنیا کے ساتھ ڈیجیٹل مواد کو شامل کیا جاتا ہے۔ اے آر کے کام کرنے کے لیے ایک خصوصی ہارڈوئیر کی ضرورت ہوتی ہے، یہ ہارڈوئیر خاص طور پر سینسرز اور کیمروں سے لیس ہوتے ہیں،جو آپ کے ماحول کو شناخت کرتے ہیں۔ آگمینٹڈ رئیلٹی تعلیمی میدان میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے،اس کی مدد سے طالب علموں کو کتابوں اور نظریات سے ہٹ کر دیکھنے اور سمجھنے کا تجربہ ملتا ہے۔یہ ان کے سیکھنے کے تجربے کو دلچسپ اور مؤثر بناتا ہے۔ اس کا استعمال صحت کے شعبے میں ڈاکٹروں کو سرجری کرنے کے لیے اضافے مواد کی معلومات فراہم کرنے میں کیا جارہا ہے۔اس کی مدد سے مریض کے جسم کی تفصیلا ت ڈاکٹر بہتر قسم سے دیکھ سکتا ہے۔ اے آر کی مدد سے خریداری کے تجربات میں بھی تبدیلی آئی ہے، صارفین کو اپنی مصوناعات کو مختلف جگہوں پر بیٹھ کر دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ آگمینٹڈ ریئلٹی نے گیمز کی دنیا میں نئی سطح پر قدم رکھا ہے۔ اے آر کا مستقبل انتہائی روشن نظر آ رہا ہے، جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ یہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن جائے گا، مستقبل میں اس کا استعمال تعلیم، کھیل اور تفریح میں نمایاں نظر آئےگا۔
دنیا بھر میں یتیموں کا دن کیوں منایا جاتا ہے؟

اسلام میں یتیموں کی کفالت اور ان کا خیال رکھنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، اور 15 رمضان المبارک کو “یتیموں کا دن” کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ معاشرے میں ان کی فلاح و بہبود کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں یتیم بچوں کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے اور انہیں بھی وہی محبت، شفقت اور سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں جو ایک عام بچے کو ملتی ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے یتیموں کے حقوق کی خصوصی تاکید کی اور فرمایا: “میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں” (بخاری)۔ اس حدیث مبارکہ سے یتیم پروری کی فضیلت اور اس کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ 15 رمضان کا انتخاب اس لیے بھی معنی خیز ہے کیونکہ یہ دن رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد، حضرت علیؓ کی ولادت کا دن بھی ہے، جو یتیموں کی سرپرستی اور مدد میں پیش پیش رہے۔ یہ دن ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ ہمیں یتیم بچوں کی مدد کرنی چاہیے، چاہے وہ تعلیم ہو، خوراک ہو، لباس ہو یا محبت اور توجہ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، جو شخص یتیموں پر خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے رزق میں برکت عطا کرتا ہے۔ اس دن کا مقصد صرف یتیموں کی مدد کرنا نہیں بلکہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جہاں ہر یتیم کو تحفظ، محبت اور بہتر زندگی کے مواقع میسر ہوں۔ ہم سب کو چاہیے کہ اس دن کو صرف رسمی طور پر نہ منائیں بلکہ عملی طور پر یتیم بچوں کی کفالت کریں اور ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بھی۔
کٹوا گوشت: جو انگلیاں چاٹنے پر مجبور کردے!

کھانے پینے کے شوقین افراد بارہ مہینے ہی مختلف قسم کے کھانے کھاتے اور لطف اٹھاتے ہیں مگر موسمی اعتبار سے لوازمات کالطف اٹھانے کا مزہ ہی الگ ہے۔ پاکستان میں چار موسم ہیں اور ہر موسم اپنی الگ سوغات رکھتا ہے مگر جب سردیاں آتی ہیں تو اپنے ساتھ بھوک لاتی ہیں۔ تازہ اور گرم کھانا ہر پاکستانی کی خواہش ہوتی ہے۔ ریستورانوں اور ہوٹلوں میں کھانے والوں کی لہر دیکھائی دیتی ہے۔ مچھلی اور گوشت خوروں کی ایک بڑی تعداد ہروقت ہوٹل میں موجود رہتی ہے اور منگوائی جانے والی گوشت سے بنی ڈشوں میں کڑاہی صفِ اول ہوتی ہے۔ ویسے توپاکستان کے ہر شہر کی اپنی منفرد ڈش ہے جو اپنامنفرد ذائقہ رکھتی ہے جس کی مثال کہیں نہیں ملتی، مگر پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے قریب پنجاب کے سرحدی شہر اٹک میں پائی جانے والی کٹوا گوشت کی ڈش کا کوئی ثانی نہیں۔ اس ڈش کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو کھانے کے بعد بندہ اپنی تو انگلیاں چاٹتا ہی ہے مگر ساتھ میں بنانے والے کے ہاتھ چومنے کا دل بھی کرتا ہے۔ اس ڈش کو ایک بار کھانے سے آپ کو کڑاھی کا ذائقہ بھول جائے گا اور آپ دوبارہ کھانے کے لئے خصوصا” اٹک کا دورہ کریں گے۔ اٹک کے ہوٹلوں پر ملنے والی اس ڈش کو کھانے کے لئے ہروقت خاصارش لگا رہتا ہے۔ اس کو کھانے میں جتنا مزا پوشیدہ ہے اتنا ہی اس کو پکانے میں محنت بھی ہے اورشاید اسی لئے کہا جاتا ہے “جتنا گڑ اتنا میٹھا!” اس کے علاوہ اگرکوئی شادی پر بنی روایتی کٹوا ڈش کھالے تو شاید ہی قیامت تک بھول پائے۔ کھانے کا نام آئے اور اس کے ذہن میں کٹوا ڈش نہ آئے ایسا تو ناممکن ہے۔ صدیوں پرانی کٹواگوشت ڈش آج بھی اٹک کی روایتی شادیوں اور تقریب میں بنائی جاتی ہے۔ اس ڈش کی تیاری میں بہت وقت لگتا ہے۔ اس ڈش کو لکڑی کی آگ کی مدد سے مٹی کے برتنوں میں تیار کیا جاتا ہے۔دس کلو گوشت کو تیار کرنے میں 6 سے 7 گھنٹے لگتے ہیں جبکہ اگر گھر پر کم گوشت کے ساتھ بنائی جائے تو 2 سے 3 گھنٹوں میں تیار ہوجاتی ہے۔ مٹی کے برتن میں گوشت ڈالنے کے بعد اس پر 2 کلو پیاز اور ساتھ میں ادرک، لہسن اور ہری مرچ حسبِ ضرورت ڈال کر ہلائے بغیر اس پرڈھکنا دے کر نیچے ہلکی آنچ میں آگ لگائی جاتی ہے۔ 1 گھنٹہ گزرنے کے بعد ڈھکنا اتار کر آگ کو نیچےتیز کردیا جاتا ہے اور ساتھ میں چمچہ ہلا کر حسبِ ضرورت نمک، مرچ اور گھی ڈال کر بھونا جاتا ہے۔ اس ڈش کو مٹی کے برتن میں پکانے کے بعد مٹی کے برتن میں کھانے سے ہی مزا دوبالا ہوتا ہے۔مٹی کے برتنوں کو شرکوٹی کہا جاتا ہے اور ان میں گندم سے بنی روٹی کو ہاتھوں کے ذریعے باریک باریک ٹکڑے کرکے ڈال کر کھایا جاتا ہے۔ نامور ریستورانوں کی بنی کڑاہیوں کو بھلانے کے لئے مٹی کے برتنوں میں پکے اس کٹواگوشت کے چند لقمے ہی کافی ہیں۔یہ اٹک اور آس پاس کے علاقوں جیسا کہ حسن ابدال، ہری پور، تناول،حضرو اور چھچھ کے رہنے والے لوگوں کی پسندیدہ غذا ہے ۔ ‘ ہمارا تو یقین ہے، اچھا اور لذیز کھانا ہر شخص کا حق ہے، آئندہ چھٹیوں میں یہاں کی سیاحت کے ساتھ کٹوا گوشت کھانااپنے کیلنڈر کا حصہ بنائیں، آپ بھی ‘پاکستان میٹرز’ کے قائل ہو جائیں گے۔
لاہور میں گرینڈ سحری: عوامی خدمت یا سیاسی اسٹنٹ؟

پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی طرف سے لاہور میں گرینڈ سحری کا انتظام کیا جارہا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں سحر و افطار جیسی سیاسی چالیں چلتی ہیں، جن کا مقصد عوامی خدمت نہیں بلکہ سیاسی چال ہوتا ہے۔ لاہور میں پاکستان مرکزی مسلم لیگ کی جانب سے گرینڈ سحری کا انتطام آئے روز کسی نہ کسی جگہ پہ ہوتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے مرکزی مسلم لیگ کے ورکروں کا کہنا تھا کہ سحری کا یہ کام انھوں نے کرونا کی دنوں میں شروع کیا تھا اور تب سے ہی فیصلہ کیا کہ ہرسال سحری کروائی جائے گی۔ انھوں نے بتایا کہ جو لوگ سحری نہیں کر پاتے یا تو وہ ہمارے دستر خوان پر آتے ہیں اور بعض اوقات ان ے گھروں پر بھی سحری کا سامان پہنچایا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ انسانیت کی خدمت بھی ہے اور دین کی طرف لوگوں کی ایک ترغیب بھی ہے۔ جو لوگ روزہ اس وجہ سے نہیں رکھ پاتے کہ وہ سحری نہیں کرسکتے، ان کو سحری کروانا ہی ان کا مقصد ہے۔ مرکزی مسلم لیگ کے ورکروں کے مطابق لاہور میں 150 سے زائد کچن ایسے ہیں جہاں پر سحری بنا کر مستحق افراد تک پہنچائی جاتی ہے، تاکہ وہ روزہ رکھ سکیں۔ ورکروں نے بتایا کہ سحری کا خرچہ مقامی سطح پر اکٹھا کیا جاتا ہے اور ہر ٹیم اپنا حصہ جمع کر کے سحری کا پروگرام کرتی ہے۔
نیکی کی دعوت دیتی ہوئی ہمہ وقت آپ کی ساتھی: اسلام 360

اسلام 360 ایک جدید اسلامی ایپلی کیشن ہے جو مسلمانوں کو قرآن پاک، احادیث، اور دیگر اسلامی مواد تک آسان رسائی فراہم کرتی ہے۔ یہ ایپ خاص طور پر ان افراد کے لیے مفید ہے جو دینی معلومات کو جلد اور مستند ذرائع سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس ایپ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کا مکمل متن عربی، اردو اور دیگر زبانوں میں دستیاب ہے، اور صارفین آیات کو ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، تجوید کے اصولوں کے ساتھ تلاوت سننے کا آپشن بھی موجود ہے، جو قاری حضرات کے لیے نہایت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اسلام 360 میں احادیث کا ایک وسیع ذخیرہ بھی موجود ہے، جس میں صحیح بخاری، صحیح مسلم، ترمذی، ابو داؤد اور دیگر مشہور مجموعے شامل ہیں۔ صارفین کسی بھی حدیث کو عربی متن، اردو ترجمے اور مکمل حوالہ کے ساتھ تلاش کر سکتے ہیں، جو تحقیق کے لیے ایک بہترین سہولت ہے۔ مزید برآں، ایپ میں نماز کے اوقات، قبلہ رخ معلوم کرنے کا آپشن، اور روزمرہ کے اذکار بھی موجود ہیں، جو اسے ایک مکمل اسلامی ایپ بناتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اسلام 360 دین کے علم کو پھیلانے اور عام افراد کو آسانی سے مستند معلومات فراہم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
لیاری میں کشتی کی طرز پر مسجد: فنِ تعمیر کا خوبصورت شاہکار

کراچی کے قدیم علاقے لیاری میں واقع ‘کشتی والی مسجد’، جس کا اصل نام ‘کچھی جامعہ مسجد’ ہے، اپنی منفرد کشتی نما تعمیر کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ مسجد مرزا آدم خان روڈ پر دھوبی گھاٹ کے علاقے میں واقع ہے اور تقریباً 130 سال قدیم ہے۔ ابتدائی طور پر کچی مٹی اور گھارے سے تعمیر کی گئی یہ مسجد 2007ء میں بحری جہاز کی طرز پر دوبارہ تعمیر کی گئی، جس میں تقریباً پانچ سال کا عرصہ لگا۔ اس کی تعمیرِ نو میں کچھی میمن برادری کے افراد نے اہم کردار ادا کیا۔ تین منزلہ اس مسجد میں ایک ہزار نمازیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ دور سے دیکھنے پر یہ مسجد مصروف سڑک کے بیچوں بیچ لنگر انداز ایک بڑی کشتی کی مانند نظر آتی ہے، لیکن قریب جانے پر اس کے دو بڑے مینار اور سبز رنگ کا گنبد واضح ہوتا ہے، جو اس کی مسجد ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس منفرد طرزِ تعمیر کی وجہ سے ‘کشتی والی مسجد’ کراچی کی خوبصورت مساجد میں شمار کی جاتی ہے اور یہ علاقائی خوبصورتی میں نمایاں اضافہ کرتی ہے۔
صدقہ فطر کن لوگوں پر لازم ہے، یہ کب اور کیسے دیا جاتا ہے؟

ہر مسلمان پر عید فطر ادا کرنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔ جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا تجارت کےسامان میں سے کوئی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو, تو ایسے مرد و عورت پر صدقہ الفطر ادا کرنا واجب ہے۔ یہ ہر مسلمان پر چاہے وہ آزاد ہو یا غلام، عورت ہو یا مرد، بالغ ہو یا نابالغ، اولاد کی طرف سے اس کے سرپرست کو صدقۂ فطر ادا کرنا ہوگا۔ حتیٰ کہ سرپرست کو اپنے اس بچے کی طرف سے بھی صدقۂ فطر ادا کرنا ہوگا جو عید الفطر کے دن صبح صادق سے چند لمحہ قبل ہی پیدا ہوا ہو۔ صدقۂ فطر عیدالفطر کی نماز سے پہلے ادا کر دینا چاہیے جبکہ غرباء کی آسانی کے لیے رمضان میں کسی بھی وقت صدقہ فطر دیا جاسکتا ہے۔ اگر نماز عید سے پہلے صدقہ فطر نہ دیا جاسکے تو یہ صدقہ ساقط نہیں ہوگا بلکہ بعد میں بھی اس کو ادا کرنا ہوگا ۔
’انڈیا بلوچستان میں دہشت گردی کا اسپانسر ہے‘ ڈی جی آئی ایس پی آر

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے جعفر ایکسپریس پر حالیہ حملے کے بعد بھارت پر بلوچستان میں دہشت گردی کا مرکزی سرپرست ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کا اصل اسپانسر ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ہمرا ہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حملہ اس وقت شروع ہوا جب ٹرین کو دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) کے ذریعے تقریباً ایک بجے پہاڑی علاقے میں روکا گیا۔ اس سے پہلے عسکریت پسندوں نے فرنٹیئر کور (ایف سی) کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا جس میں تین فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جعفر ایکسپریس واقعہ ہندوستان کی جاری دہشت گردانہ ذہنیت کا حصہ ہے،بلوچستان اور ماضی کے واقعات میں دہشت گردی کا اصل اسپانسر ہمارا مشرقی پڑوسی ہے۔ جعفر ایکسپریس حملہ ہندوستان کی دہشت گردانہ ذہنیت کا تسلسل ہے۔ احمد شریف نے حملے کے بارے میں وسیع تر بیانیے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بھارتی میڈیا پر الزام لگایا کہ وہ بی ایل اے کی حمایت میں ایک مربوط معلوماتی جنگی مہم کی قیادت کر رہا ہے۔ جیسے ہی دہشت گردوں نے ٹرین پر حملہ کیا، ہندوستانی میڈیا نے حملہ آوروں کی حمایت میں رپورٹنگ شروع کردی، انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستانی آؤٹ لیٹس نے اے آئی سے تیار کردہ فوٹیج کا استعمال کرتے ہوئے حملے کی تعریف کی۔ ڈائریکٹر جنرل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، “ہندوستانی میڈیا نے اس تقریب کو خوش کرنے کے لیے اے آئی فوٹیج کا استعمال کیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا سے پرانی ویڈیوز اٹھائیں اور دہشت گرد گروپ کی طرف سے تیار کردہ فوٹیج کو نشر کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ بی ایل اے کے عسکریت پسند متعدد گروپوں میں موجود تھے، بشمول آس پاس کی پہاڑیوں پر، انہوں نے مسافروں کو یرغمال بنایا، خواتین اور بچوں کو ٹرین کے اندر الگ کر دیا جبکہ باقی یرغمالیوں کو باہر مختلف مقامات پر لے گئے۔ جنرل احمد شریف نے یہ بھی انکشاف کیا کہ 11 مارچ کی شام کو یرغمالیوں کے ایک گروپ کو نسلی بنیادوں پر رہا کیا گیا، جس سے کشیدگی اور تقسیم کو مزید ہوا دی گئی۔ انہوں نے اس کے نتیجے میں شروع ہونے والے بچاؤ آپریشن کی وضاحت کی، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح سیکورٹی فورسز نے 12 مارچ کو علاقے کو گھیرے میں لے کر عسکریت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کیا۔ تبادلے کے دوران کچھ یرغمالی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ فوجی اہلکار نے اس بات پر زور دیا کہ، قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپریشن کے دوران ایک بھی یرغمالی ہلاک نہیں ہوا، جسے انہوں نے حالیہ برسوں میں انسداد دہشت گردی کی سب سے کامیاب کارروائیوں میں سے ایک قرار دیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ریمارکس دیے کہ یہ عالمی تاریخ میں یرغمالیوں کو بچانے کا سب سے کامیاب آپریشن تھا، چیلنجوں کے باوجود، ہماری افواج نے مشن کو درستگی اور کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ انجام دیا۔ انہوں نے اس حملے کو جاری علاقائی عدم استحکام سے بھی جوڑا، خاص طور پر افغانستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی حمایت کا ذریعہ ہے کیونکہ اس نے نوٹ کیا کہ بہت سے حملہ آوروں کا تعلق افغان تربیت یافتہ عسکریت پسندوں سے تھا، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ پاکستان کی شمالی سرحد کے قریب واقع تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید دعویٰ کیا کہ خطے میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو افغانستان کی پشت پناہی حاصل تھی، خاص طور پر غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد، جس نے رات کو دیکھنے والے آلات جیسے آلات چھوڑے جو اب عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں ہیں۔