مصنوعی ذہانت ہی ہمارے مستقبل کی بنیاد ہے

مصنوعی ذہانت تیزی سے دنیا کے ہر شعبے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے ہمارے مستقبل کی بنیاد سمجھا جا رہا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بدل رہی ہے، خواہ وہ صحت کا شعبہ ہو، تعلیم ہو، کاروبار ہو یا روزمرہ کی زندگی کے معمولات۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے جدید روبوٹس اور خودکار نظام تیار کیے جا رہے ہیں جو انسانی کام کو زیادہ مؤثر اور تیز تر بنا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، میڈیکل فیلڈ میں اے آئی بیماریوں کی تشخیص میں ڈاکٹروں کی مدد کر رہی ہے، جبکہ کاروباری دنیا میں یہ ڈیٹا اینالسس کے ذریعے بہتر فیصلے لینے میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔ اسی طرح، خودکار گاڑیاں، سمارٹ ہوم سسٹمز اور وائس اسسٹنٹس جیسے ایجادات بھی ہمارے روزمرہ کے کاموں کو آسان بنا رہی ہیں۔ مستقبل میں مصنوعی ذہانت مزید ترقی کرے گی اور انسانوں کے لیے نئی راہیں کھولے گی۔ تاہم، اس کے ساتھ چیلنجز بھی موجود ہیں، جیسے ملازمتوں پر اس کا اثر اور اخلاقی مسائل، جنہیں دانشمندانہ پالیسیوں کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اسے درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو اے آئی انسانیت کی ترقی میں ایک انقلابی کردار ادا کرے گی اور ایک بہتر اور آسان زندگی کا ذریعہ بنے گی۔
‘پورے پاکستان میں یہی منظر نظر آئے گا’ پاکستان میں ہندوؤں کی ہولی

پاکستان میں بسنے والے ہندو برادری کے افراد جوش و خروش سے ہولی کا تہوار منا رہے ہیں۔ رنگوں کا یہ تہوار ہر سال موسم بہار کی آمد پر منایا جاتا ہے اور خوشی، محبت اور بھائی چارے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس دن ہندو برادری کے لوگ ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں، گلال لگاتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان میں خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں جیسے کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، عمرکوٹ اور لاہور میں ہولی کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، جہاں مندروں اور کھلی جگہوں پر خصوصی اجتماعات ہوتے ہیں۔ یہ تہوار برائی پر نیکی کی فتح کی علامت بھی ہے اور بھگوان کرشن سے منسوب کیا جاتا ہے، جو خوشی، رنگ اور محبت کے دیوتا مانے جاتے ہیں۔ ہولی کے موقع پر خصوصی عبادات کی جاتی ہیں، ہولی کی آگ جلائی جاتی ہے اور لوگ روایتی گیت گاتے اور رقص کرتے ہیں۔ پاکستانی حکومت بھی اس دن پر اقلیتی برادری کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتی ہے اور سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ ہولی کا تہوار اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان میں مختلف مذاہب کے لوگ مل جل کر اپنی روایات کو زندہ رکھتے ہیں اور ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں۔
ہماری زندگی کے ہر پہلو میں بسنے والی ریاضی کا عالمی دن

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری دنیا ریاضی کے بغیر کیسی ہوتی؟ ہر وہ چیز جسے ہم دیکھتے، محسوس کرتے، یا استعمال کرتے ہیں، چاہے وہ قدرتی حسن ہو، سائنسی ایجادات ہوں یا روزمرہ کی ٹیکنالوجی، کچھ بھی ریاضی کے بغیر ممکن نہیں۔ آج پوری دنیا میں ریاضی کا عالمی دن منا یا جا رہا ہے۔ ایک ایسا دن جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ریاضی محض نمبروں اور فارمولوں کا کھیل نہیں، بلکہ یہ ہماری زندگی کے ہر پہلو میں سرایت کر چکا ہے۔ ریاضی کی دنیا میں بے شمار عظیم دماغ آئے، لیکن کچھ ایسے بھی تھے جن کی زندگی خود کسی پیچیدہ مساوات سے کم نہیں تھی۔ ہم بات کر رہے ہیں جان فوربز نیش جونیئر کی، جن کی کہانی ریاضی کی طرح پراسرار اور شاندار ہے۔ نیش جونیئر شیزوفرینیا جیسی پیچیدہ بیماری میں مبتلا تھے۔جس کی وجہ سے انہیں حقیقت اور فریب میں فرق کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وہ برسوں تک مختلف ذہنی اسپتالوں میں رہے، لیکن ان کی ذہانت کہیں نہ کہیں زندہ تھی۔ آہستہ آہستہ، انہوں نے اپنے ہی دماغ کو چیلنج کرنا سیکھا اور تحقیق کی دنیا میں آئے۔ 1950 میں صرف 28 صفحات پر مشتمل ایک مقالہ لکھا جو آنے والے وقتوں میں نیش ایکوی لبریم کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ صرف ایک تھیوری نہیں تھی یہ ایک ایسا اصول تھا جس نے معاشیات، سیاست، اور مصنوعی ذہانت کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ کامیابی کا یہ لمحہ ان کی زندگی میں ایک نیا موڑ لے کر آیا۔ مگر جو کوئی نہیں جانتا تھا، وہ یہ تھا کہ نیش کے ذہن میں ایک ایسی جنگ چھڑ چکی تھی جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آ رہا تھا۔ انہیں 1994 میں معاشیات کا نوبل انعام اور 2015 میں ریاضی کا سب سے بڑا اعزاز ایبل پرائز دیا گیا۔ نیش کی زندگی پر 2001 میں ہالی وُڈ کی مشہور فلم آ بیوٹی فل مائنڈ بنائی گئی، جس نے چار آسکر ایوارڈز جیتے۔ 14 مارچ کو ورلڈ میتھز ڈے کے حوالے سے دنیا بھر کے مختلف اسکولوں، یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں منعقد کی جاتی ہیں۔ اس دن ریاضی کے مختلف مقابلے، ورکشاپس، سیمینارز، اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ طلباء اور اساتذہ کے درمیان ریاضی کے چیلنجز اور دلچسپ مسائل حل کیے جاتے ہیں تاکہ ریاضی کے بارے میں آگاہی حاصل کی جا سکے اور لوگوں کی اس میں دلچسپی بڑھ سکے۔ ورلڈ میتھز ڈے نہ صرف ریاضی کے حوالے سے آگاہی پیدا کرتا ہے بلکہ یہ دنیا بھر میں تعلیمی اداروں میں ریاضی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا ایک بہترین موقع بھی ہے۔ اس دن کو منانے سے نہ صرف ریاضی کے بارے میں معلومات بڑھتی ہیں بلکہ یہ افراد کی ذہنی صلاحیتوں کو بھی نکھارنے کا ایک ذریعہ بنتا ہے۔
رنگوں سے بھرا محبت کے پھول بانٹنے والا دن

ہولی ہندوؤں کا ایک مشہور تہوار ہے، جو ہر سال فالسے (مارچ) کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ یہ رنگوں اور خوشیوں کا تہوار کہلاتا ہے، جو محبت، بھائی چارے اور بُرائی پر نیکی کی جیت کی علامت ہے۔ ہولی کو خاص طور پر انڈیا، نیپال اور دیگر ممالک میں بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے، جہاں ہندو برادری آباد ہے۔ یہ تہوار لوگوں کو پیار، ہم آہنگی اور خوشی کا پیغام دیتا ہے۔ ہولی نہ صرف مذہبی تہوار ہے بلکہ اسے دنیا بھر میں موسم بہار کے آغاز اور نئی شروعات کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
‘خونی چاند’ کا مکمل قمری گرہن، کب اور کہاں دیکھ سکتے ہیں؟

دنیا بھر کے آسمان تماشائی ایک شاندار قدرتی منظر کے منتظر ہیں کیونکہ تین سالوں میں پہلی بار مکمل قمری گرہن نظر آئے گا۔ 13 اور 14 مارچ 2025 کو شمالی امریکا کے آسمانوں پر ایک عجیب و غریب منظر ہوگا جب چاند زمین کے سائے میں چھپ جائے گا اور ایک خونخوار سرخ رنگ اختیار کر لے گا۔ یہ صرف ایک قدرتی مظہر نہیں بلکہ ایک ایسا لمحہ ہے جو ہر کسی کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تاریخی گرہن کو کب اور کہاں دیکھا جا سکتا ہے؟ اور وہ کیا وجوہات ہیں جو اس چاند کو اس قدر سرخ اور پراسرار بناتی ہیں؟ قمری گرہن اُس وقت ہوتا ہے جب زمین سورج اور چاند کے درمیان آ جاتی ہے جس کی وجہ سے زمین کا سایہ چاند پر پڑتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ سیاہ پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ تاہم، اس کا سب سے دلکش پہلو وہ وقت ہوتا ہے جب چاند کی سطح پر سرخ رنگ پھیل جاتا ہے جسے خونی چاند (بلڈ مون) کا نام دیا جاتا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکی نجی خلائی جہاز “بلیو گھوسٹ مشن” کی چاند پر کامیاب لینڈنگ یہ سرخ رنگ اس لیے نظر آتا ہے کیونکہ زمین کی فضا میں سورج کی روشنی پھیل کر کم و بیش سب رنگوں کو چھنک دیتی ہے لیکن سرخ روشنی کا پھیلاؤ باقی رہتا ہے جو چاند تک پہنچ کر اسے سرخ کر دیتا ہے۔ یہ وہی اثر ہے جو سورج غروب ہونے کے وقت آسمان کو سرخ بناتا ہے۔ اس سرخ رنگ کی شدت کا انحصار ماحول کے حالات پر ہوتا ہے۔ اگر فضا صاف ہو تو چاند زیادہ چمکدار اور نارنجی رنگ کا دکھائی دیتا ہے لیکن اگر فضا میں دھواں یا ذرات زیادہ ہوں تو چاند گہرا اور زیادہ سرخ نظر آتا ہے۔ اس بار کی پیش گوئیاں بتاتی ہیں کہ فضا میں خاصا صاف ماحول ہوگا جس سے چاند کی رنگت نسبتا چمکدار اور روشن سرخ نظر آنے کی توقع ہے۔ 13 اور 14 مارچ 2025 کو ہونے والے اس مکمل قمری گرہن کا دورانیہ چھ گھنٹے کا ہوگا جس دوران آسمان میں چاند کا منظر آہستہ آہستہ تبدیل ہوتا جائے گا۔ مکمل گرہن کا منظر سب سے زیادہ دلچسپ ہوگا جو 66 منٹ تک جاری رہے گا۔ ضرور پڑھیں: “دماغ کا خفیہ راز بے نقاب! سائنسدانوں نے ٹیلی پیتھی کی اصل حقیقت دریافت کرلی” اس دوران چاند کی رنگت گہری سرخ نارنجی یا تانبے کی سی دکھائی دے گی جو ایک شاندار قدرتی منظر پیش کرے گا۔ شمالی امریکا کے مشرقی حصوں میں یہ گرہن 14 مارچ کی رات کے بعد شروع ہوگا جبکہ مغربی حصوں میں 13 مارچ کی رات کو اس کا آغاز ہوگا۔ اس کے علاوہ یورپ کے مغربی حصے میں لوگ چاند کو غروب ہوتے ہوئے اس کا سرخ رنگ دیکھ سکیں گے جبکہ نیوزی لینڈ میں چاند مکمل طور پر گرہن کی حالت میں مشرق سے اُٹھتا ہوا دکھائی دے گا۔ اگر کوئی اس شاندار منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہو تو سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ باہر جا کر کھلی جگہ پر بیٹھ کر چاند کی تبدیلیوں کو دیکھیں۔ خاص طور پر قمری گرہن کے دوران آپ کو کسی خاص چشمے کی ضرورت نہیں ہوگی جیسے سورج گرہن کے دوران ہوتی ہے۔ 14 مارچ 2025 کا یہ گرہن نہ صرف سائنس کے دلچسپ پہلو کو اجاگر کرتا ہے بلکہ قدرت کے اس شاندار منظر سے انسانوں کی کمزوریوں اور کائنات کی بے پایاں خوبصورتی کا بھی اظہار کرتا ہے۔ لازمی پڑھیں: ڈومزڈے مچھلی: کیا اوآرفش کی سطح پر آنا قدرتی آفات کی پیش گوئی ہے؟
پاکستان میں گوگل والٹ کیا آسانیاں پیدا کرے گا؟

گوگل نے پاکستان میں گوگل والٹ کی باضابطہ دستیابی کا اعلان کر دیا ہے، جس کے ذریعے صارفین اپنے ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز، بورڈنگ پاسز اور لائلٹی کارڈز کو اینڈرائیڈ فون اور ویئر او ایس ڈیوائسز پر محفوظ کر سکتے ہیں۔ اس سروس کا مقصد ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دینا اور صارفین کے لیے لین دین کو آسان اور محفوظ بنانا ہے۔ پاکستان میں مختلف بینکوں کے صارفین اب اپنے کارڈز کو گوگل والٹ سے جوڑ کر کانٹیکٹ لیس ادائیگیاں، آن لائن خریداری اور ان ایپ ٹرانزیکشنز کر سکتے ہیں، جبکہ مزید بینکوں کو بھی جلد اس سروس میں شامل کیا جائے گا۔ گوگل والٹ نہ صرف ادائیگیوں کے لیے کارآمد ہے بلکہ اس کے ذریعے صارفین اپنے بورڈنگ پاسز اور ٹکٹ بھی محفوظ کر سکتے ہیں۔ مسافر اپنی منتخب ایئر لائنز کے بورڈنگ پاسز اور آن لائن خریدے گئے ٹکٹ گوگل والٹ میں محفوظ کر کے سفری سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس سروس میں سیکیورٹی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے، جس کے تحت ٹوکنائزیشن ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے تاکہ مالیاتی ڈیٹا کو محفوظ بنایا جا سکے۔ اگر کسی صارف کا فون گم یا چوری ہو جائے تو “فائنڈ مائی ڈیوائس” فیچر کے ذریعے وہ اپنا ڈیٹا لاک یا مکمل طور پر حذف کر سکتا ہے تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو۔ گوگل والٹ کی پاکستان میں دستیابی ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ اس سروس سے نہ صرف صارفین بلکہ کاروباری ادارے بھی تیز، محفوظ اور جدید ڈیجیٹل ادائیگیوں سے مستفید ہو سکیں گے، جو پاکستان میں آن لائن لین دین کو مزید آسان اور قابلِ اعتماد بنانے میں مدد دے گا۔
ٹرمپ کا غیر روایتی طرزِ حکومت: دنیا کس سمت میں جائے گی؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا دور امریکی تاریخ میں ایک غیر روایتی اور غیر متوقع دور کے طور پر جانا جاتا ہے۔ 2016 میں صدر بننے کے بعد، ٹرمپ نے کئی ایسے فیصلے کیے جو نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا میں بحث و مباحثے کا سبب بنے۔ ان کے سیاسی انداز، متنازعہ بیانات اور اچانک کیے گئے فیصلوں نے عالمی سیاست میں ایک نئی ہلچل مچا دی۔ چاہے وہ امیگریشن پالیسی ہو، چین کے ساتھ تجارتی جنگ، ایران پر اقتصادی پابندیاں ہوں یا پھر عالمی معاہدوں سے علیحدگی ٹرمپ نے اپنے غیر متوقع اور جارحانہ طرزِ حکمرانی سے ایک نئی مثال قائم کی۔ ان کے فیصلے روایتی امریکی پالیسیوں سے یکسر مختلف نظر آئے، جس کی وجہ سے ان کے حامی اور ناقدین دونوں حیران رہے۔ یہ دور عالمی سفارت کاری، داخلی پالیسیوں اور معیشت کے لحاظ سے ایک نیا موڑ ثابت ہوا۔ ان کے فیصلوں نے جہاں کچھ حلقوں میں مقبولیت حاصل کی، وہیں کئی مواقع پر سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں نے امریکا کے اتحادیوں اور مخالفین دونوں کے لیے کئی چیلنجز پیدا کیے اور عالمی منظرنامے کو ایک نئی شکل دی۔ اس موضوع پر پروفیسر سید ذیشان الحسن صفی نے ہمارے ساتھ بات کی۔
کوانٹم کمپیوٹنگ: ایک انقلابی ایجاد یا ڈیجیٹل دنیا کے لیے زہرِ قاتل

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کوئی آپ کے خفیہ ڈیٹا یا راز فاش کر سکتا ہے؟ کوانٹم کمپیوٹنگ کی دنیا میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے، جہاں آپ کی اینکرپٹڈ فائلز کو کھولا جا سکتا ہے، اور اسے کوانٹم تباہی کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کوانٹم کمپیوٹنگ کیا ہے؟ اور اس کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں؟ آئیے اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ کوانٹم کمپیوٹر جدید ترین ٹیکنالوجی ہے جو آج کے کمپیوٹرز سے کئی گنا آگے ہے۔ اس میں عام کمپیوٹرز کے برعکس بٹس کی جگہ کوانٹم بٹس یا کیو بٹس استعمال کیے جاتے ہیں۔ عام کمپیوٹرز میں معلومات زیرو اور ون کی شکل میں محفوظ ہوتی ہیں، جبکہ کوانٹم کمپیوٹرز میں کیو بٹس ایک ساتھ زیرو اور ون دونوں کی حالت میں رہ سکتے ہیں، جسے سپر پوزیشن کہا جاتا ہے۔ یہ خاصیت کوانٹم کمپیوٹرز کو ایک ہی وقت میں بے شمار کیلکولیشنز کرنے کی صلاحیت دیتی ہے، جو عام کمپیوٹرز کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ کوانٹم کمپیوٹنگ کے کئی فائدے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ انتہائی پیچیدہ مسائل کو جلد حل کر سکتی ہے، جیسے ماحولیاتی تبدیلیوں کے نئے حل پیش کرنا اور سائبر سیکیورٹی میں نئی اینکرپشن تکنیکوں کا استعمال۔ لیکن اگر اس کا غلط استعمال کیا جائے تو اس کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کوانٹم کمپیوٹرز موجودہ ڈیٹا اینکرپشن کو کمزور کر سکتے ہیں۔ اگر یہ آج کے اینکرپشن سسٹم کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے تو ہماری ذاتی معلومات، بینک اکاؤنٹس اور دیگر اہم ڈیٹا خطرے میں پڑ سکتا ہے، جو اخلاقی اور قانونی لحاظ سے ایک سنگین مسئلہ ہوگا۔ آج ہم جو بھی انٹرنیٹ پر کرتے ہیں، جیسے آن لائن شاپنگ، بینک ٹرانزیکشنز، سوشل میڈیا تبصرے— سب کچھ ایک خفیہ کوڈ میں محفوظ ہوتا ہے۔ لیکن اگر مکمل طور پر فعال کوانٹم کمپیوٹر بن گیا تو یہ کوڈ کسی بھی وقت توڑا جا سکتا ہے۔ امریکہ، چین، روس، برطانیہ اور دیگر ممالک اس سپر فاسٹ کوانٹم کمپیوٹر بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور اس میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ سائبر سیکیورٹی، اسٹریٹیجک اور دفاعی معاملات میں سبقت حاصل کر سکیں۔ کوانٹم کمپیوٹنگ ایک طاقتور ٹیکنالوجی ہے جو ہمارے مستقبل کو بدل سکتی ہے، لیکن ہمیں اس کے فوائد اور نقصانات دونوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
کراچی برنس روڈ کی فوڈ اسٹریٹ: افطار کے ذائقے، روایات اور رونقیں برقرار

کراچی کے تاریخی برنس روڈ پر واقع سب سے بڑی فوڈ اسٹریٹ رمضان میں اپنی پوری رونق پر ہے۔ افطار کے وقت یہاں کا منظر دیدنی ہوتا ہے، جہاں دیسی اور روایتی پکوانوں کی خوشبو ہر جانب پھیلی ہوتی ہے۔ نہ یہاں کے لوگ بدلے، نہ کھانوں کا ذائقہ۔ فریسکو اور دہلی کے روایتی دہی بڑے آج بھی روزہ داروں کی اولین پسند ہیں، جب کہ پکوڑے، اندرسے، بن کباب، رول سموسہ اور دودھ سوڈا بھی ہر میز پر نظر آتے ہیں۔ مزیدار آلو کے سموسے اور کچوریاں اپنی مخصوص چٹنی کے ساتھ لطف دیتے ہیں، جب کہ تکے اور کبابوں کی مہک پورے بازار کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جلیبیاں اور گول گپے شوقین افراد کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں، جب کہ تلی ہوئی مچھلی کی خریداری بھی ایک منفرد روایت بن چکی ہے۔ یہاں نہ صرف دوستوں اور خاندانوں کے لیے شاندار افطاری کا بندوبست ہے، بلکہ حلیم اور بریانی کی دکانیں بھی گاہکوں کی من پسند ہیں۔ فوڈ اسٹریٹ میں فیمیلیز کے لیے فری وائی فائی کی سہولت بھی موجود ہے، جو نوجوانوں کے لیے مزید کشش کا باعث ہے۔ رمضان کی یہ خصوصی رونقیں اس تاریخی بازار کی پہچان بن چکی ہیں۔
جعفر ایکسپریس حملہ، اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟

11 مارچ کو کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو بلوچستان کے ضلع بولان میں دہشت گردوں نے نشانہ بنایا, یہ واقعہ گڈالر اور پیرو کنری کے درمیان پیش آیا ہے، جہاں مسلح شدت پسندوں نے ٹرین کو زبردستی روک کر 440 مسافروں کو یرغمال بنا لیا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی اور حکومت کو 48 گھنٹوں کی مہلت دی کہ وہ بلوچ سیاسی قیدیوں اور لاپتہ افراد کو رہا کرے، بصورت دیگر یرغمالیوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی گئی۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز نے علاقے کا محاصرہ کر لیا۔ دہشت گردوں کی موجودگی اور یرغمالیوں کی سلامتی کے پیش نظر آپریشن کی منصوبہ بندی انتہائی احتیاط سے کی گئی، ریلوے حکام نے راولپنڈی، کوئٹہ اور پشاور میں ہیلپ ڈیسک قائم کر دیے تاکہ مسافروں کے اہل خانہ کو معلومات فراہم کی جا سکیں۔ 12 مارچ کی صبح سیکیورٹی فورسز نے جدید ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق دہشت گردوں کی افغانستان میں موجود معاونین سے ہونے والی گفتگو کو بھی پکڑا گیا، جو غیر ملکی مداخلت کا واضح ثبوت ہے۔ دوپہر تک 190 یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کرا لیا گیا، جب کہ 30 سے زائد دہشت گرد مارے جا چکے تھے۔ وزیر ریلوے حنیف عباسی نے بیان جاری کیا کہ آپریشن کے دوران یرغمالیوں کی موجودگی کے سبب انتہائی احتیاط برتی جا رہی ہے۔ شام 5 بج کر 55 منٹ پر سیکیورٹی فورسز نے اعلان کیا کہ جعفر ایکسپریس کے تمام یرغمالیوں کو محفوظ نکال لیا گیا ہے، جب کہ حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا، مگر کچھ معصوم مسافر دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بنے۔ ضرور پڑھیں: ڈی جی آئی ایس پی آر: آپریشن میں کسی مسافر کو نقصان نہیں پہنچا، تمام دہشتگرد ہلاک اس واقعے کے بعد بلوچستان اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کی مشیر برائے کھیل مینا مجید نے قرارداد پیش کی، جس میں کہا گیا کہ بلوچ خواتین کو خودکش حملوں اور دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے، جو نہ صرف صوبے بلکہ ملک کی سیکیورٹی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کی جائے۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کی بہادری کو سراہا۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بلوچستان حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے جعفر ایکسپریس پر حملے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 11مارچ کو ایک بجے بولان کے قریب ریلوے ٹریک کو پہلے دھماکے سے اڑایا گیا، دہشت گردوں نے بعد میں جعفر ایکسپریس کو روک کر مسافروں کو یرغمال بنایا، دہشت گرد افغانستان میں اپنے سہولت کاروں سے رابطے میں تھے۔ احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے فوری ایکشن لیتے ہوئے آپریشن شروع کیا اور تمام یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کرا لیا۔ انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز کے نشانہ بازوں نے خودکش بمباروں کو ہلاک کیا، جب کہ تمام دہشتگردوں کا صفایا کر دیا گیا، لیکن بدقسمتی اس کارروائی میں 4 ایف سی اہلکار شہید ہوئے۔ کارروائی میں 33 دہشتگرد ہلاک کیے گئے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن سے پہلے دہشتگردوں نے 21 معصوم شہریوں کو شہید کر دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی کی بدولت کسی بھی مسافر کو نقصان نہیں پہنچا، اور تمام یرغمالیوں کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔ احمد شریف چودھری نے کہا کہ دہشتگردوں نے عورتوں اور بچوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کیا، دہشتگردوں نے یرغمالیوں کو ٹولیوں میں تقسیم کر رکھا تھا، جنھیں پاک فوج نے باحفاظت محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاک فوج نے اپنی مہارت کی بنا پر ایک بھی خودکش بمبار کو پھٹنے کا موقع نہیں دیا۔ مزید پڑھیں: جعفر ایکسپریس گھناؤنے حملے میں کی گئی سیاست کی شدید مذمت کرتے ہیں، وفاقی وزیرِاطلاعات انہوں نے بتایا کہ بازیابی کا آپریشن فوری طور پر شروع کیا گیا، بازیابی کے آپریشن میں پاک فوج، ایئر فورس، ایف سی اور ایس ایس جی کے جوانوں نے حصہ لیا، دہشت گردوں نے تین ٹولیوں میں مسافروں کو بٹھایا ہوا تھا، مرحلہ وار یرغمالیوں کو بازیاب کرایا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ہم نے بغیر نقصان کے یرغمالیوں کو فائنل آپریشن میں بازیاب کرایا، فائنل کلیئرنس آپریشن میں کسی مسافر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، بڑی احتیاط اور پروفیشنل طریقے سے آپریشن کیا گیا۔