April 30, 2025 12:54 am

English / Urdu

6 جی ٹیکنالوجی: اتنی رفتار جیسے وقت سے آگے جا رہے ہوں

کیا آپ جانتے ہیں کہ 6G ٹیکنالوجی کیا ہے، یہ کیسے کام کرے گی اور ہماری زندگی کو کیسے بدلے گی؟ آئیے ان سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ 6G ٹیکنالوجی، یعنی چھٹی نسل کی وائرلیس ٹیکنالوجی، 5G کے بعد اگلا بڑا قدم ہے۔ جہاں 5 جی نے ہمیں تیز رفتار انٹرنیٹ، کم تاخیر اور بہتر کنیکٹیویٹی دی، وہیں 6G اس سے کہیں زیادہ آگے جائے گی۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ 6G، 5G سے 100 گنا زیادہ تیز ہوگی اور اس کی رفتار ایک ٹیرا بٹ فی سیکنڈ تک جا سکتی ہے۔ اس میں تاخیر یعنی ڈیٹا بھیجنے اور وصول کرنے کا وقت ایک ملی سیکنڈ سے بھی کم ہو سکتا ہے۔ 6G صرف موبائل فونز تک محدود نہیں ہوگی بلکہ یہ گھریلو آلات، گاڑیوں اور یہاں تک کہ انسانی جسم پر پہنے جانے والے آلات کو بھی آپس میں جوڑ دے گی۔ اس ٹیکنالوجی میں مصنوعی ذہانت (AI) کا زیادہ استعمال ہوگا، جو نیٹ ورک کی کارکردگی کو خودکار طریقے سے بہتر بنائے گا۔ 6 جی کے عام ہونے سے انٹرنیٹ کا استعمال بڑھے گا، جس کا ماحول پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ یہ ایک مہنگی ٹیکنالوجی ہوگی، لیکن اس کی مدد سے ڈاکٹر دور بیٹھ کر مریضوں کا علاج کر سکیں گے اور روبوٹس کے ذریعے سرجری بھی ممکن ہو سکے گی۔ شہروں میں ٹریفک اور پانی کے نظام کو بہتر طریقے سے کنٹرول کیا جا سکے گا۔ ورچوئل ریئلٹی (VR) آگمنٹڈ ریئلٹی کے تجربات مزید حقیقت کے قریب اور بہتر ہو جائیں گے۔ فیکٹریوں میں مشینوں کو 6G کی مدد سے کنٹرول کیا جا سکے گا، جس سے پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ تاہم، اس ٹیکنالوجی کے لیے نئے آلات اور سہولیات کی ضرورت ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی، ڈیٹا کی حفاظت اور پرائیویسی جیسے چیلنجز بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ 6G کے لیے ایک عالمی معیار مقرر کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان کا ایسا علاقہ جہاں انسان بادلوں پر چلتے ہیں

چلچلاتی دھوپ میں پسینہ رکنے کا نام نہ لے اور درجہ حرارت 50 ڈگری کو چھو رہا ہو ایسے میں 18 سے 25 ڈگری کا معتدل موسم انجوائے کرنے کو ملے تو  کون انکار کرے گا؟  سوال مگر یہ ہے کہ ایسے موسم کے لیے بھاری بھرکم ایئرکنڈیشنر اور بجلی کے مہنگے بل کون بھگتے؟ پاکستانی صوبہ پنجاب کے جنوب میں ایک ایسا مقام ہے جہاں کے رہنے والے بغیر کسی ایئرکنڈیشنر اور مہنگی بجلی کے یہ سہولت استعمال کرتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کا گرم علاقہ اور ایسا ٹھنڈ پروگرام، یقین نہیں آتا نا؟  لیکن ماننا تو پڑے گا کیوں کہ “جنوبی پنجاب کا مری” کہلانے والا فورٹ منرو ایسا ہی ہے۔ جنوبی پنجاب کا نام سن کر ایک گرم ریتیلے میدان کا تاثر ذہن میں آتا ہے جب کہ حقیقت میں یہ خطہ صرف تاریخی مقامات ہی نہیں بلکہ، صحرا، پہاڑ، جھیل، دریاؤں، جنگلات اور ہل اسٹیشن کا ایسا گلدستہ ہے جو کم کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس گلدستے کے خوبصورت ترین پھولوں میں سے ایک تسلیم کیا جانے والا فورٹ منرو منفرد بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ پنجاب کے گرم ترین شہر ملتان سے 185 اور ڈیرہ غازی خان سے 85 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع فورٹ منرو کوہِ سلیمان کے بلند پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے صرف امریکا ہی نہیں بلکہ فورٹ منرو بھی دریافت کیا تھا۔ سرد علاقوں کے رہنے والے انگریز برصغیر کے وسائل پر قابو پانے کے لیے یہاں قابض ہوئے تو ان سے مقامی گرمی برداشت نہ ہو سکی۔ موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے انہوں نے برصغیر کے کونے کونے میں ایسے مقامات کی کھوج کی جو ٹھنڈے ہوں۔ ان مقامات تک پہنچنے کے لیے سڑکیں بنوائیں۔ انتظامیہ کے لیے گھر، دفاتر، بیمار فوجیوں کے لیے سینی ٹوریم، لانڈری جیسی سہولیات اور مقامی لوگوں کے لیے سرونٹ کوارٹر بنوائے۔ نتھیاگلی، زیارت، مری، ایبٹ آباد، سکیسر، سیلانگ، سری نگر، اوٹی، لہہ، پہلگام، مسوری اور فورٹ منرو جیسے ہل اسٹیشنز اس دور سے نمایاں ہوئے۔ فورٹ منرو ضلع ڈیرہ غازی خان میں پنجاب اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔ بلوچی زبان میں ”تْمن لغاری” کے نام سے معروف علاقہ سطحِ سمندر سے 6470 فٹ (1970 میٹر) بلندی رکھتا ہے۔ مقامی روایت کے مطابق یہ جگہ انیسویں صدی کے آخر میں انگریز فوجی افسر سر رابرٹ گرووز سنڈیمن نے دریافت کی، البتہ اس کا نام اس وقت کے ڈیرہ جات ڈویژن کے کمشنر، کرنل اے اے منرو کے نام پر رکھا گیا۔ جنوبی پنجاب کا یہ معروف ہل اسٹیشن لغاری خانہ بدوشوں کے لیے جنت ہے۔ موسمِ گرما میں نزدیکی اضلاع ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور مظفرگڑھ کے مقامی لوگ ہر ہفتہ یہاں کا رخ کرتے اور خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ محمد تقویم کا کہنا تھا کہ وہ  فورٹ منرو کی سیر کے لیے عام طور پر گرمیوں میں جانا پسند کرتے ہیں کیونکہ جنوبی پنجاب کے دیگر علاقوں کی نسبت یہاں موسم خوشگوار ہوتا ہے، جب  گرمی شدت اختیار کر جاتی ہے، تو وہ دوستوں کے ہمراہ ہفتہ وار جاتے ہیں۔ فورٹ منرو تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ ملتان یا راجن پور سے ڈیرہ غازی خان، سخی سرور اور فورٹ منرو زیادہ استعمال ہونے والا روٹ ہے۔ بلوچستان میں ژوب اور کوئٹہ سے آنے والے افراد لورالائی اور پھر میختر اور رکھنی کے راستے فورٹ منرو پہنچتے ہیں۔ دماس جھیل فورٹ منرو کا سب سے خوبصورت مقام کہلاتا ہے جس کی رعنائی، دلکشی اور حسن سیاحوں کو اپنا گرویدہ بنالیتا ہے۔سردیوں میں یہ جھیل سکڑ کر اپنی خوب صورتی میں اضافہ کرتی ہے تو گرمیوں میں برساتی پانی اور خوشگوار موسم کی بدولت اس کا حسن اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ دماس یہاں کی اکلوتی جھیل نہیں، تریموں اور لال خان جھیلیں بھی دیکھنے کے قابل ہیں۔ دماس جھیل سے مختصر فاصلے پر ایک قلعہ موجود ہے جسے عرفِ عام میں فورٹ منرو کہا جاتا ہے۔ قلعے کے اوپر ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے ساتھ موجود برجی ظاہر کرتی ہے کہ یہاں کبھی عالیشان قلعہ ہوا کرتا تھا۔ محمد تقویم کا کہنا تھا کہ محض گرمیوں میں ہی نہیں بلکہ سردیوں میں بھی یہاں کا دلچسپ اور قابلِ دید ہوتا ہے۔ مظفرگڑھ سے شہریوں کی ایک بڑی تعداد سردیوں میں بھی برفباری دیکھنے کے لیے فورٹ منرو کا رخ کرتی ہے، جو جنوبی پنجاب کے علاوہ اور کہیں نہیں ملتا۔ فورٹ منرو کی قدرتی خوبصورتی، پہاڑی راستے اور وہاں کا پرسکون ماحول ہر بار جانے پر ایک نئی تازگی بخشتا ہے۔ فورٹ منرو میں موجود گورا قبرستان ایک ایسی جگہ ہے جو اپنے اندر کئی راز سموئے ہوئے ہے، جس کے بارے میں مختلف کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ راجن پور سے تعلق رکھنے والے شہری محمد جہانزیب ریاض نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ گورا قبرستان کے بارےمیں  کہا جاتا ہے کہ انگریز دور میں یہاں جب سڑکیں اور گھر بنے تو علاقے پر قابض گورے اہل و عیال کے ساتھ یہاں رہنے لگے، ان میں سے کچھ فوت ہوئے تو انہیں یہیں دفن کیا گیا۔ گورا قبرستان میں موجود پانچ قبریں ایسی ہیں جو ایک جنگلے میں بند ہیں اور ان پر لگے مخصوص کتبے پڑھے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک قبر جنوبی افریقہ کے 30 سالہ ایچ اسمتھ کی ہے جو نہاتے ہوئے ڈوب کر مرے تو یہاں دفن ہوئے۔ ایڈووکیٹ محمد تقویم کا کہنا ہے کہ فورٹ منرو ایک پرفضا اور دلچسپ مقام ہے اور وہ باقیوں کو بھی مشورہ دیں گے کہ وہاں جائیں اور جنت نظیر وادی کے حسن سے لطف اندوز ہوں۔ یہ  ایک سکونت بخش مقام ہے جہاں آپ قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ فورٹ منرو سے چند کلومیٹر دور اناری مقام سیاحوں کے لیے ایک دلچسپ جگہ ہے کیوں کہ یہاں بادل نیچے اور لوگ اوپر ہوتے ہیں ۔ یوں لوگ بادلوں میں سے گزرتے ہوئے محظوظ ہوتے ہیں۔ فورٹ منرو کے ذائقے ہر علاقہ اپنے منفرد کھانوں کی وجہ سے خاص انفرادیت کا حامل ہوتا ہے۔ بلوچ قبائل کی سرزمین کہلانے والا یہ علاقہ بھی روایتی بلوچی کھانوں کا اہم مرکز ہے۔

لمحاتی مسائل کو بھول کر منزل پر نظر رکھیں اور آگے بڑھیں

ہم سب کو ایک دن مرنا ہے۔ چاہے سو سال بھی جی لیں، آخرکار وقت گزر ہی جاتا ہے۔ آج جن باتوں کے لیے ہم پریشان ہیں، وہ وقت کے ساتھ بھول جائیں گی۔ معمولی باتوں پر فکر مند ہونا چھوڑ دیں اور چھوٹی چیزوں کو اپنے دن کا سکون برباد نہ کرنے دیں۔ اگر آپ کی گاڑی خراب ہو جائے، یہ ایک عارضی مسئلہ ہے۔ اگر آپ کسی ملاقات میں دیر سے پہنچیں، تو زندگی پھر بھی چلتی رہے گی۔ ہم عام طور پر ان چیزوں کے لیے پریشان ہوتے ہیں جو زیادہ دیر تک نہیں رہتیں۔ کام کے دوران برا دن گزر جانا، کسی دوست کے ساتھ تلخ کلامی، یا کسی کام کا بروقت مکمل نہ ہونا یہ سب لمحاتی مسائل ہیں۔ زندگی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں میں الجھنے کے لیے نہیں ہے۔ ان چیزوں پر توجہ دیں جو واقعی اہم ہیں۔ اپنے پیاروں کے ساتھ خوش رہیں، اپنے خوابوں کا تعاقب کریں، اور زندگی کو بھرپور انداز میں جئیں۔ دوسروں کی رائے کی زیادہ فکر نہ کریں اور مادی چیزوں کے پیچھے نہ بھاگیں۔ نئے تجربات حاصل کریں، زندگی میں رسک لینے سے نہ گھبرائیں، اور سادہ خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے مواقع کو گلے لگائیں۔ یاد رکھیں، ہم سب ایک سفر میں ہیں، اور اگر آپ روزانہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور عظمت حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو یہی درست وقت ہے اس سفر میں شامل ہونے کا۔

کم زمین، زیادہ پیداوار: زراعت میں انقلاب

زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ دیہات میں رہنے والے کسان اس ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مگر وہ جدید سہولیات سے محروم ہیں۔ قدرتی وسائل جیسے پانی، زمین، سورج کی روشنی اور ہوا زراعت کی ترقی میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے ان وسائل کا تحفظ ضروری ہے تاکہ ایک پائیدار اور فائدہ مند نظام برقرار رکھا جا سکے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق، دنیا کی آبادی 2030 تک 8.5 ارب اور 2050 تک 9.7 ارب تک پہنچ سکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق، 2050 تک خوراک کی پیداوار کو 2007 کے مقابلے میں 70 فیصد بڑھانا ہوگا تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ اناج کی پیداوار 2.1 ارب ٹن سے بڑھ کر 3 ارب ٹن تک پہنچنے کا امکان ہے۔ قدرتی وسائل کی حفاظت کے لیے جدید طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ورٹیکل فارمنگ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ ایک جدید طریقہ ہے جس میں پودے زمین پر اُگانے کے بجائے اونچائی پر مختلف سطحوں پر کاشت کیے جاتے ہیں۔ ورٹیکل فارمنگ کا آغاز 1999 میں ہوا اور اس نے زراعت میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس طریقے سے زمین کے استعمال میں 97 فیصد کمی آتی ہے اور پانی 90 فیصد کم استعمال ہوتا ہے۔ بڑے شہروں میں جگہ کی کمی کے باعث یہ طریقہ زراعت کے لیے بہترین ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان میں خیبر پختونخوا میں ورٹیکل فارمنگ کے ذریعے بڑی مقدار میں ٹماٹر اگائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور، کراچی، فیصل آباد اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں بھی یہ طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔ ورٹیکل فارمنگ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اس کی ترقی کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان میں فوڈ پروسیسنگ پلانٹ کا افتتاح کیا تاکہ خوراک کی حفاظت کو بہتر بنایا جا سکے اور ماحول پر منفی اثرات کم ہوں۔ حکومت نے نجی شعبے کو آرگینک فارمنگ میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی ہے۔ اس کے علاوہ زرعی تحقیق کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے تاکہ فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہو اور پانی کا بہتر استعمال ممکن بنایا جا سکے۔  

موسمیاتی تبدیلی کا ایک اہم پہلو: کیا انسان صاف پانی کو ترسے گا؟

زمین پر موجود گلیشیئرز قدرتی ذخائر کی حیثیت رکھتے ہیں، جو دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کو پانی کی فراہمی میں مدد دیتے ہیں۔ یہ برفانی تودے گرمیوں میں پگھل کر دریا اور ندیوں کو پانی فراہم کرتے ہیں، جو زرعی، صنعتی اور گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ لیکن بڑھتی ہوئی عالمی حدت کے باعث گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کے نتیجے میں نہ صرف تازہ پانی کے وسائل خطرے میں پڑ رہے ہیں بلکہ سمندری سطح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ یہ عمل شدت اختیار کر رہا ہے اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا بھر کے ساحلی علاقے سیلاب کی زد میں آ سکتے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہو سکتے ہیں اور پانی کی قلت شدید بحران کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار اور اس کے تباہ کن اثرات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے تاکہ ہم مستقبل میں ممکنہ ماحولیاتی بحران کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو سکیں۔

پاکستان کے مستقبل کو روشن خیالات سے جوڑتا ہوا بیٹھک اسکول نیٹ ورک

تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے، لیکن پاکستان میں لاکھوں بچے معاشی، سماجی اور جغرافیائی رکاوٹوں کے باعث اس حق سے محروم ہیں۔ بیٹھک اسکول نیٹ ورک ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جو معیاری اور مفت تعلیم کی فراہمی کے ذریعے ان محروم اور پسماندہ طبقے کے بچوں کے روشن مستقبل کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے۔ یہ نیٹورک خاص طور پر ان علاقوں میں کام کرتا ہے جہاں رسمی تعلیمی اداروں تک رسائی محدود ہے۔ سادہ مگر مؤثر تدریسی طریقہ کار، جدید تعلیمی وسائل، اور تربیت یافتہ اساتذہ کی مدد سے بیٹھک اسکول نیٹ ورک کمزور طبقے کے بچوں کو تعلیمی مواقع فراہم کرتا ہے، تاکہ وہ نہ صرف بنیادی خواندگی حاصل کریں بلکہ خود مختار اور بااختیار شہری بن سکیں۔ پاکستان بھر میں 140 جبکہ لاہور میں 19 بیٹھک سکول فعال ہیں، جہاں سماجی و معاشی طور پر پسماندہ بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم دی جا رہی ہے۔ یہ نیٹ ورک صرف کتابی تعلیم تک محدود نہیں، بلکہ بچوں میں تخلیقی سوچ، اخلاقی اقدار اور عملی مہارتوں کو فروغ دے کر انہیں زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کے لیے تیار کرتا ہے۔ بیٹھک اسکول نیٹ ورک کا خواب ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں ہر بچہ سیکھنے، ترقی کرنے اور اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کا موقع حاصل کر سکے۔

’عورت کے حقوق اس کی دہلیز پر ملنے چاہئیں‘ خواتین مارچ کا مطالبہ

سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر حمیر اطارق نے کہا ہے کہ “خواتین کے حقوق کے حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کالائحہ عمل یہ ہے کہ خواتین کو ان کے شرعی، قانونی اور سماجی حقوق ان کی دہلیز پر ملنے چاہئیں۔ وراثت کا مسئلہ ہو، یا تعلیمی مواقع کی عدم دستیابی کام کی جگہ پر استحصال، یا فرسو دور سومات کا خاتمہ۔ جماعت اسلامی ان مسائل پر پر زور آواز بلند کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ جماعت اسلامی پارلیمان میں، عدالت میں تھانے کچہری ہر جگہ عورت کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “جماعت اسلامی کی قیادت خواتین کو ان کے اصل اسلامی حقوق سے آگاہی دینے اور عملی طور پر ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کام کر رہی ہے، تاکہ وہ عزت، وقار اور تحفظ کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزار سکیں”۔ ڈپٹی سیکرٹری حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ “پاکستان کے قبائلی و دیہاتی علاقوں میں رائج رسومات در اصل ہندوانہ اور جاگیر دارانہ سوچ کا نتیجہ ہیں، جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ صدیوں سے جاری ان غیر اسلامی روایات کو طاقتور طبقات نے اپنے مفادات کے لیے زندہ ر کھا ہوا ہے۔ اسلام نے عورت کو مکمل انسانی وقار دیا اور اس کے حقوق کا تعین کیا، لیکن ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں طاقتور عناصر نے اپنے فائدے کے لیے ان حقوق کو چھین لیا۔ ریاست اور سول سوسائٹی کو ان غیر انسانی رسومات کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے”۔ سیکرٹری ثمینہ سعید نے کہا کہ “آج کا دن فلسطین اور کشمیر کی مظلوم عورت کے لیے آواز بلند کرنے کا دن ہے اور فلسطین اور کشمیر کی عورت پر ہونے والے ظلم کے خلاف سب کو مل جد وجہد کرنا ہو گی۔ ان مظلوم عورتوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے”۔ صدر ضلع لاہورعظمٰی عمران نے کہا کہ “یوم خواتین پر دنیا بھر میں خواتین کے حقیقی مسائل پر بات کرنی چاہئے، وراثت میں خواتین کا حق دین اسلام نے واضح طور پر مقرر کر دیا ہے، لیکن عملی طور پر انہیں جائز حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے”۔  لاہور میں ہونے والے مارچ میں گھریلو خواتین، طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔

لاہور کی سڑکوں پر دوڑتی گرین بسیں، خاص بات کیا ہے؟

لاہور، جو پاکستان کا ثقافتی اور تاریخی مرکز ہے، روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹریفک کے دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسے میں عوام کو معیاری، آرام دہ اور سستی سفری سہولیات فراہم کرنا ایک بڑی ضرورت بن چکی ہے۔ اسی مقصد کے تحت گرین بس سروس کا آغاز کیا گیا، جو لاہور کے شہریوں کے لیے جدید اور ماحول دوست سفری سہولت فراہم کرتی ہے۔ یہ بسیں نہ صرف سستی کرایوں پر چلتی ہیں بلکہ ماحولیات کے تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں، کیونکہ یہ کم دھواں خارج کرنے والی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ گرین بس سروس کا آغاز شہریوں کے لیے ایک خوش آئند قدم ہے، جو انہیں ٹریفک کے جھنجھٹ سے نکال کر آرام دہ اور تیزرفتار سفری سہولت فراہم کرتی ہے۔ یہ سروس لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدید بنانے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے، جو نہ صرف سفری مشکلات کم کرے گی بلکہ شہر میں آلودگی کے خاتمے میں بھی معاون ثابت ہوگی۔

الخدمت فاؤنڈیشن نے عید سے پہلے یتیم بچوں کی عید کرا دی

رمضان اور عید خوشیوں کے تہوار ہیں جو ہر دل میں مسکراہٹیں بکھیرتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے بچے بھی ہیں جن کے لیے عید کے دن عام دنوں کی طرح ہی ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس نہ نئے کپڑے ہوتے ہیں، نہ تحفے اور نہ ہی کوئی خوشی منانے کا موقع۔ ان بچوں کو وہ تمام خوشیاں دینے کے لیے جو ہر بچے کا حق ہیں، الخدمت کراچی ہر سال یتیم بچوں کے لیے عید شاپنگ پروگرام منعقد کرتا ہے، جس میں ان بچوں کو ان کے پسندیدہ کپڑے اور ضروری اشیاء خود منتخب کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام نہ صرف ان بچوں کی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ ان میں خود اعتمادی اور خوشیوں کو اپنے طور پر اپنانے کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ کراچی کے مختلف علاقوں سے تقریباً 2400 بچوں کو یہاں لایا جاتا ہے، جہاں انہیں  6000 روپے کے شاپنگ واؤچرز دیے جاتے ہیں، ساتھ ہی انہیں عیدی کی رقم بھی فراہم کی جاتی ہے۔ چیس ویلیو سینٹر میں ہونے والی یہ سرگرمی والنٹیئرز کی مدد سے منعقد کی جاتی ہے، جہاں ہر بچے کو آزادی دی جاتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خریداری کرے، بالکل اسی طرح جیسے عام بچے اپنے والدین کے ساتھ بازار جاتے ہیں۔ یہ سرگرمی معاشرے میں یتیم بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو رہی ہے، جس کے ذریعے یہ بچے نہ صرف عید کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں بلکہ ان میں محرومی کے احساس کو کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے اس اقدام کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ کوئی بھی بچہ عید کی خوشیوں سے محروم نہ رہے اور ہر چہرے پر مسکراہٹ ہو!

شہبازحکومت کا ایک سال، وزرا کے دعوؤں میں کتنی سچائی ہے؟

آٹھ فروری کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی شہباز شریف حکومت نے اپنا ایک سال کا جائزہ پیش کیا ہے، حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ ہم ملک میں استحکام لائے ہیں، ہم نے ملک کو دیوالیہ نہیں ہونے دیا، اتحادی حکومت کے مختلف وزراء نے  اپنی وزارتوں کی کارکردگی بھی پیش کی ہے۔ وزیر دفاع نے اپنی وزارت پر بات کرنے کے بجائے اپنے سیاسی حریفوں کو تنقید کا نشانہ بنایا،وزیرمنصوبہ بندی نے ترقی نہ ہونے کی وجہ سابقہ حکومت کو قراردیا ساتھ ساتھ اڑان پاکستان منصوبے کو اپنی کامیابی بھی قراردیا۔احسن اقبال کہتے ہیں کہ سی پیک ایک بار پھر ٹریک پر آگیا ہے ۔ آئی ٹی کی وفاقی وزیرنے بھی اپنی تعریفوں کے پل باندھے ہیں مگرانٹرنیٹ کی سپیڈ کم ہونے اور تعطل کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کے بجائے ای گورنمنٹ لانے اور سب میرین کیبل بچھانے کا دعویٰ کیا ہے،ان دعوؤں میں کتنی صداقت ہے؟