کھجور: توانائی سے بھرپور قدرت کا بیش قیمت تحفہ

ماہ صیام برکتوں کا مہینہ یقیناً رمضان میں کھجور سے روزہ افطار کرنے کے فوائد بے شمار ہیں اور اس کی اہمیت صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی صحت کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے۔ کھجور میں موجود قدرتی شوگر جیسے کہ گلوکوز اور فروکٹوز روزے کے دوران توانائی کی کمی کو فوراً پورا کر دیتی ہے، اس سے خون میں شوگر کی سطح میں فوری توازن آتا ہے، جو کمزوری اور چکر آنے جیسے مسائل کو دور کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کھجور میں وٹامن بی کمپلیکس اور دیگر ضروری معدنیات بھی پائے جاتے ہیں جو جسم کی قوت مدافعت کو بڑھاتے ہیں اوررمضان کے دوران جسمانی تھکاوٹ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ کھجور میں موجود فائبر ہاضمے کے عمل کو بہتر بناتا ہےجو کہ روزے کے بعد کھانے کی مشکلات جیسے بدہضمی اور قبض کو روکنے میں مددگار ہے۔ اس کے علاوہ، کھجور میں موجود میگنیشیم اور کیلشیم ہڈیوں کو مضبوط بناتے ہیں اور عضلات کے افعال میں توازن برقرار رکھتے ہیں۔ کھجور قدرتی طور پر میٹھی ہوتی ہے جو دن بھر بھوکے رہنے کے بعد فوری توانائی فراہم کرتی ہے۔ کھجور میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہےجو جسمانی افعال کو برقرار رکھنے اور پانی کی کمی کو روکنے کے لیے روزے کے دوران ہائیڈریشن کیلئے ضروری ہے۔ یعنی کھجور نہ صرف ایک سنت ہے بلکہ ایک صحت بخش انتخاب بھی ہے جو روزے کے دوران جسم کو درکار تمام اہم اجزاء فراہم کرتا ہے۔ اس کی کھائی جانے والی مقدار میں معمولی اضافے سے جسم کی توانائی میں توازن برقرار رہتا ہے اور روزے کے دوران آپ کی صحت اور توانائی میں بہتری آتی ہے۔ مختصراً یہ کہ رمضان میں افطار کے وقت کھجور کا استعمال ایک مکمل اور متوازن غذا فراہم کرتا ہے جو آپ کی جسمانی اور روحانی ضروریات دونوں کو پورا کرتی ہے۔

ختم ہوتے جان داروں کو کیسے واپس لایا جارہا ہے؟

امریکی ریاست ٹیکساس میں سائنسدانوں نے اونی میمتھ کو واپس لانے کے لیے ایک نیا تجربہ کیا ہے اور اس عمل میں انہوں نے اونی چوہا بنا لیا ہے۔ کلوسل بائیوسائنسز نامی بائیوٹیک کمپنی نے 2021 میں اونی میمتھ اور ڈوڈو برڈ کو واپس لانے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ معدوم ہو چکے جانوروں کی اہم خصوصیات کو شناخت کر کے انہیں زندہ جانوروں میں شامل کیا جائے۔ اس تحقیق سے نہ صرف معدوم جانوروں کو واپس لانے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ جنگلی حیات کے تحفظ میں بھی اس کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اب کمپنی نے چوہے کے جینز میں سات جینز تبدیل کر کے ایک ایسا چوہا بنایا ہے جس کے بال گھنے، لمبے اور اونی ہیں، جیسے کہ میمتھ کے ہوتے تھے۔ اس چوہے کو طاقتور اونی چوہا کا نام دیا گیا ہے۔ اگلا قدم ایشیائی ہاتھی کو جینیاتی طور پر تبدیل کر کے اسے میمتھ جیسی خصوصیات دینا ہے، تاکہ وہ سردی میں سروائیو کر سکے۔ لیکن کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ اصل میں اونی میمتھ واپس لانے کے بجائے صرف موجودہ جانوروں میں تبدیلی کا عمل ہے۔ یونیورسٹی آف مونٹانا کے ایک ماہر کے مطابق، “آپ کسی معدوم جانور کو واپس نہیں لا رہے، بلکہ صرف ایک ایشیائی ہاتھی کو تبدیل کر رہے ہیں۔” یہ تحقیق ابھی کسی سائنسی جریدے میں شائع نہیں ہوئی اور نہ ہی آزاد سائنسدانوں نے اس کی جانچ کی ہے۔ بفیلو یونیورسٹی کے ایک ماہر نے اسے سائنسی لحاظ سے ایک بڑا کارنامہ قرار دیا، لیکن حتمی نتائج آنا ابھی باقی ہیں۔ یہ چوہا صرف زیادہ بالوں والا ہی نہیں، بلکہ اس میں اونی میمتھ کی تیز چربی جلانے والی صلاحیت بھی شامل کی گئی ہے، جو اسے سردی برداشت کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ یہ جینیاتی تبدیلیاں کچھ عام چوہوں میں پہلے سے موجود تھیں، اور سائنسدانوں نے انہیں ایک چوہے میں اکٹھا کر دیا۔ اگلا بڑا چیلنج ایشیائی ہاتھی پر یہ تجربہ کرنا ہے۔ لیکن چونکہ یہ پہلے ہی ایک خطرے سے دوچار نسل ہے، اس پر تجربہ کرنے سے پہلے کئی قانونی مسائل حل کرنے ہوں گے۔ کمپنی کے سربراہ کے مطابق، اس میں وقت لگ سکتا ہے، لیکن وہ پرامید ہیں کہ یہ تحقیق مستقبل میں بڑے نتائج دے سکتی ہے۔

رمضان المبارک کا تحفہ: صرف دس روپے میں معیاری اور تازہ اشیا

رمضان المبارک برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے، جو صرف عبادات اور روحانی ترقی کا موقع ہی نہیں بلکہ معاشرتی فلاح و بہبود کا درس بھی دیتا ہے۔ اس مقدس مہینے میں، جہاں روزہ رکھنے کا مقصد تقویٰ اور صبر پیدا کرنا ہے، وہیں معاشرے کے مستحق اور ضرورت مند افراد کی مدد کرنا بھی ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں رمضان کے دوران ایک عام رجحان یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ بھیک مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ اس مقدس مہینے کا اصل پیغام عزت و وقار کے ساتھ دوسروں کی مدد کرنا اور خودداری کو فروغ دینا ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر، کراچی کے مین حسن اسکوائر، ایسٹ میں ایک منفرد رمضان سیونگ کیمپ کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جہاں لوگوں کو محض دس روپے میں معیاری اور تازہ اشیاء فراہم کی جا رہی ہیں۔ یہ کیمپ نہ صرف روزانہ سینکڑوں افراد کو ان کی ضروریات پوری کرنے میں مدد دیتا ہے بلکہ انہیں خودداری اور عزت کے ساتھ خریداری کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ مدد تو حاصل کریں مگر بھیک مانگنے کے بجائے اپنی محنت کی کمائی سے خریدیں، تاکہ ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ ان شاء اللہ، ہم اس کوشش کو روز بروز مزید وسعت دیں گے، تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اس سہولت سے مستفید ہو سکیں۔

کراچی کی کم عمر علیزہ آصف نے 12 سال کی عمر میں 3 کتابیں لکھ ڈالیں

چھوٹی عمر میں کتب بینی کے شوق نے 12 سالہ نوجوان علیزہ آصف کے اندر ایک لکھاری کا شوق بھی پیدا کر دیا  اور اسی شوق نے تین کتابیں لکھ ڈالیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن منسٹری آف ایجوکیشن کراچی کی نوجوان علیزہ آصف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب تک میں انگلش اور اردو میں تین کتابیں لکھ چکی ہوں اور اب مزید کتابیں لکھنے کے لیے پر امید ہوں۔ “مجھے بچپن سے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور انہی کتابوں نے میرے اندر ایک اور لکھنے کا شوق پیدا کر دیا، اب تک میں  کافی نظمیں اور کہانیاں ڈان نیوز اور ہونہار میں  لکھ چکی ہوں۔” علیزہ آصف نے بچوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کو چاہیے کو وہ اپنا وقت ضائع کیے بغیر کہانیوں اور نظموں کر پڑھا کریں ، کہانیاں  اور نظمیں پڑھنے سے ہمیں کوئی نہ کوئی نصحیت حاصل ہوتی رہتی ہے۔

چیمپئنز ٹرافی پاکستان سے باہر: شائقین کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا

لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں چیمپئنز ٹرافی کا دوسرا سیمی فائنل نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقا کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جا رہا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی کے باقی میچوں کے بر عکس آج قذافی اسٹیڈیم میں شائقین کرکٹ کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا ہے اور گراؤنڈ اور اس کے آس پاس بہت کم لوگ دکھائی دے رہے ہیں۔ ممکنہ وجوہات میں چیمپئنز ٹرافی کا پاکستان سے باہر ہونا اور پاکستان کا چیمپئنز ٹرافی سے باہر ہونا شامل ہے۔

مصنوعی ذہانت سے کھیتی باڑی: لاہور میں فوڈ ایگریکلچر مینوفیکچرنگ کی نمائش

پاکستان کے شہر لاہور میں فوڈ ایگریکلچر کی نمائش منعقد ہوئی۔ یہ نمائش لاہور ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوئی۔ یہاں کھیتی باڑی سے منسلک تمام اقسام کی ٹیکنالوجی کی مصنوعات موجود تھیں۔ مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی سے چلنے والے آلات نمائش میں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے زمین کو جانچنے کا عمل آسان ہو گیا ہے۔ اس طرح کسان زمین سے اچھی فصلیں  لے سکتے ہیں۔  

نوجوانوں کی زندگیاں بدلنے والا ‘بنو قابل’ پروگرام کیا ہے؟

بنو قابل نوجوانوں کو جدید اسکلز سے روشناس کروا کر خود مختار بنا رہا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کا یہ انقلابی منصوبہ ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں بدل چکا ہے اور اب پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔ اگر آپ بے روزگاری سے تنگ ہیں اور اپنا مستقبل خود بنانا چاہتے ہیں تو یہ موقع ضائع نہ کریں۔ جدید ڈیجیٹل اسکلز حاصل کریں، عالمی مارکیٹ میں قدم رکھیں اور “قابل” بنیں۔ بنو قابل پروگرام 2022 میں کراچی سے شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد نوجوانوں کو ڈیجیٹل مارکیٹ کے لیے تیار کرنا تھا۔ اب تک اس پروگرام میں 80,000 سے زائد طلبہ رجسٹر ہو چکے ہیں جبکہ 45,000 طلبہ مختلف کورسز میں زیرِ تعلیم ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے اس پروگرام کو ملک بھر میں وسعت دینے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت اگلے دو سالوں میں 10 لاکھ نوجوانوں کو تربیت دی جائے گی۔ پروگرام میں داخلے کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت میٹرک رکھی گئی ہے اور عمر کی حد 30 سال مقرر ہے۔ رجسٹریشن کیسے کریں؟ امیدوار “بنو قابل” کی ویب سائٹ پر جا کر خود کو رجسٹر کروا سکتے ہیں۔ یہ تمام کورسز مکمل طور پر مفت فراہم کیے جا رہے ہیں اور ٹاپ کرنے والے طلبہ کو فری لیپ ٹاپ بھی دیے جا رہے ہیں تاکہ وہ ڈیجیٹل دنیا میں آگے بڑھ سکیں۔ “بنو قابل” پروگرام ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں بدل چکا ہے۔ یہ صرف ایک کورس نہیں بلکہ ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ اگر آپ بھی جدید مہارتیں سیکھ کر اپنی زندگی بدلنا چاہتے ہیں تو فوراً رجسٹریشن کریں اور “قابل” بنیں!

’مہنگا خرید کر سستا کیسے  بیچ سکتے ہیں‘ دکاندار بھی مہنگائی سے تنگ آگئے

اس سال بھی پاکستان بھر میں یہ مہینہ مہنگائی کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ ملک بھر میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوکاندار بھی اس مہنگائی سے تنگ آگے ہیں۔ رمضان کے آتے ہی حکومت سبسڈی اور اشیائے خورونوش سستی کرنے کا اعلان کرتی ہے، مگر بازاروں میں ہر چیز کا دام دگنا ملتا ہے، جس کی وجہ سے عام عوام یہ سوال کرتی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یک لخت مہنگائی کا پہاڑ اس مقدس مہینے میں ان پر مسلط ہو جاتا ہے؟ اگر بات کی جائے اس کی وجوہات کی تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان کے دوران مہنگائی کی بنیادی وجوہات میں طلب اور رسد میں عدم توازن، ذخیرہ اندوزی، حکومتی کنٹرول کی کمی اور عوامی بے بسی شامل ہیں۔ اس مقدس مہینے میں اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض تاجر مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ قیمتیں بڑھائی جا سکیں۔ پاکستان میٹرز سے ایک شہری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ خوردونوش کی قیمتیں رمضان کے آتے ہی آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں، سیب رمضان سے پہلے دو سو کا مل جاتا تھا لیکن اب 250 سے 300 سے کم نہیں مل رہا، روزہ افطار کے لیے کھجور ضروری ہے مگر کھجور کی قیمت دیکھ کر جیب اجازت نہیں دیتا۔ ایک فروٹ بیچنے والے نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ مہنگائی کی وجہ سے بازار میں گاہک بلکل نہ ہونے کے برابر ہے، مہنگائی کو دیکھ کر گاہک کے لیے اپنی جیب سے رقم نکالنا نہ ممکن ہوتا ہے۔

انڈیا کی دبئی میں آسٹریلیا کو شکست، لاہور سے فائنل کی میزبانی چھن گئی

انڈیا نے دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں چیمپئنز ٹرافی کے پہلے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو چار وکٹوں سے شکست دے دی ۔ اب فائنل لاہور کے بجائے دبئی میں کھیلا جائے گا۔ اس فتح نے انڈیا کو مسلسل تیسری بار چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پہنچا دیا اور اس کا مقابلہ جنوبی افریقہ یا نیوزی لینڈ سے ہوگا، جس کا فیصلہ کل دوسرے سیمی فائنل کے بعد ہو گا۔ انڈیانے آسٹریلیا کی جانب سے ملنے والا 265 رنز کا ہدف 48.1 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا، بھارت کی جانب سے ویرات کوہلی 84 رنز کیساتھ نمایاں رہے۔ انڈیا کی جانب سے اننگز کا آغاز کپتان روہت شرما اور شبمن گل نے کیا تاہم یہ جوڑی زیادہ دیر تک ساتھ نہ نبھا سکی اور شبمن گل 8 رنز بناکر پویلین لوٹ گئے جبکہ کپتان روہت شرما 28 رنز بناکر چلتے بنے۔ ویرات کوہلی اور اور شریاس آئیر کی ذمہ دارانہ بیٹنگ نے ٹیم کے مجموعی سکور کو آگے بڑھایا تاہم شریاس آئیر 45 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے، اکشر پٹیل 27 رنز بناکر بولڈ ہوئے ، ویرات کوہلی 84 جبکہ ہارڈک پانڈیا 28 رنز بناکر کیچ تھما بیٹھے۔ پانڈیا نے 24 گیندوں پر 28 رنز بنائے جبکہ راہول نے 34 گیندوں پر دو چوکوں اور اتنے ہی چھکوں کی مدد سے ناقابل شکست 42 رنز بنائے۔ دوسری جانب آسٹریلیا نے ناتھن ایلس اور زمپا نے دو دو وکٹیں حاصل کیں جب کہ دوارشوئس اور کونولی نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ آسٹریلیا کی جانب سے اننگز کا آغاز بہتر ثابت نہ ہوسکا اور پہلی وکٹ صرف 4 رنز کے مجموعی سکور پر گری جب اوپننگ بلے باز کوپر کونولی بغیر کوئی رن بنائے پویلین لوٹ گئے جبکہ دوسری وکٹ 54 رنز کے مجموعی سکور پر گری جب جارح مزاج بلے باز ٹریوس ہیڈ 39 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے۔ اس طرح آسٹریلیا کی کارکردگی کچھ زیادہ بہتر ثابت نہ ہوئی اور پوری ٹیم 264 رنز پر ڈھیر ہو گی۔ بھارت کی جانب سے محمد شامی نے 3، روندرا جڈیجا اور ورون چکرورتھی نے 2، 2، ہاردک پانڈیا اور اکشر پٹیل نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

مکمل آزادی کا احساس: کیا لوگ اب گاڑیوں میں رہیں گے؟

یہ طرزِ زندگی نہ صرف نوجوانوں بلکہ ریٹائرڈ افراد اور قدرت سے محبت کرنے والوں میں بھی بے حد مقبول ہو رہا ہے۔

امریکہ میں روایتی گھروں اور اپارٹمنٹس سے ہٹ کر ایک منفرد طرزِ زندگی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، جسے ری کیریشنل وہیکل یا آر وی میں رہنے کا رجحان کہا جاتا ہے۔ آر وی وہ موٹر ہومز یا ٹریلرز ہوتے ہیں جنہیں لوگ اپنے گھروں کی طرح استعمال کرتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ بآسانی سفر کر سکتے ہیں۔   یہ طرزِ زندگی نہ صرف نوجوانوں بلکہ ریٹائرڈ افراد اور قدرت سے محبت کرنے والوں میں بھی بے حد مقبول ہو رہا ہے۔   آر وی کلچر کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ آزادی کا احساس اور روزمرہ کے مہنگے اخراجات سے نجات ہے۔ امریکہ میں مکانات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کرائے کے اخراجات کے باعث کئی افراد آر وی کو ایک بہترین متبادل سمجھتے ہیں، جہاں وہ کم لاگت میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں۔   آر وی پارکس اور کیمپ گراؤنڈز کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ طرزِ زندگی اب صرف ایک رجحان نہیں بلکہ ایک مکمل تحریک بن چکا ہے۔ کئی لوگ اپنے آر وی میں جدید سہولیات شامل کر رہے ہیں، جن میں شمسی توانائی سے چلنے والے آلات، جدید انٹرنیٹ سسٹمز اور کمپیکٹ لیکن آرام دہ فرنیچر شامل ہیں۔   نوجوانوں میں آر وی کلچر کو خاص طور پر مقبولیت حاصل ہو رہی ہے کیونکہ وہ ایک ہی جگہ محدود رہنے کے بجائے مختلف شہروں، ریاستوں اور حتیٰ کہ دوسرے ممالک کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔ ڈیجیٹل خانہ بدوش، جو آن لائن کام کرتے ہیں، اس رجحان کو زیادہ اپناتے ہیں کیونکہ وہ انٹرنیٹ کے ذریعے کہیں بھی رہ کر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر سکتے ہیں۔   دوسری جانب، ریٹائرڈ افراد کے لیے بھی یہ طرزِ زندگی ایک پرکشش انتخاب بن گیا ہے۔ امریکہ میں “سنوبردز” (Snowbirds) کہلانے والے وہ ریٹائرڈ افراد جو شدید سردیوں میں شمالی ریاستوں سے نکل کر گرم علاقوں جیسے فلوریڈا، ایریزونا یا کیلیفورنیا چلے جاتے ہیں، آر وی کو اپنا مستقل مسکن بنا رہے ہیں۔   تاہم، آر وی طرزِ زندگی میں چیلنجز بھی موجود ہیں۔ گیس کی قیمتوں میں اضافہ، پارکنگ کے مسائل اور پائیدار رہائش کے لیے درکار سہولیات جیسے پانی اور بجلی کی دستیابی بعض اوقات مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔   ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں آر وی کلچر مزید ترقی کرے گا، کیونکہ لوگ زیادہ سے زیادہ روایتی طرزِ زندگی سے ہٹ کر فریڈم اور سادگی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجیز اور سہولیات کی بدولت آر وی ہومز مزید آرام دہ اور سمارٹ بنتے جا رہے ہیں، جس سے یہ طرزِ زندگی نہ صرف ممکن بلکہ ایک خواب کی تعبیر بن چکا ہے۔