April 30, 2025 10:10 am

English / Urdu

ناریل کے چھلکوں سے بنی ماحول دوست پودوں کی خوراک

اس دریافت کو خاص طور پر ان علاقوں کے لیے فائدہ مند قرار دیا جا رہا ہے جہاں پانی کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے

پاکستان میں تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال نوجوانوں کی کوئی کمی نہیں اور اس کی تازہ ترین مثال کراچی کے ایک باصلاحیت نوجوان نے پیش کی ہے، جس نے ناریل کے چھلکوں اور مختلف کیمیکل کے امتزاج سے ایک منفرد پودوں کی خوراک تیار کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔   یہ جدید طریقہ کار نہ صرف قدرتی وسائل کے بہترین استعمال کی مثال ہے بلکہ زراعت اور باغبانی کے شعبے میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ اس نئے فارمولے میں ناریل کے سخت چھلکوں کو پیس کر ایک خاص شکل میں ڈھالا جاتا ہے اور پھر اس میں ایسے کیمیائی اجزا شامل کیے جاتے ہیں جو زمین میں پانی کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔   تحقیق کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا کہ اس طریقے سے تیار کردہ خوراک استعمال کرنے والے پودے پانی کو زیادہ دیر تک جذب کر سکتے ہیں، جس سے پانی کے استعمال میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس دریافت کو خاص طور پر ان علاقوں کے لیے فائدہ مند قرار دیا جا رہا ہے جہاں پانی کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے اور پودوں کو زیادہ دیر تک نمی فراہم کرنا مشکل ثابت ہوتا ہے۔   یہ نوجوان جدت پسندوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے، جو مقامی سطح پر ایسے سستے اور مؤثر حل تلاش کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو ماحول دوست بھی ہوں اور زراعت کے شعبے کو نئی جہت بھی دیں۔ اگر حکومت اور نجی ادارے اس ایجاد کی سرپرستی کریں تو پاکستان میں زرعی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ پانی کی بچت کا ایک جدید اور پائیدار نظام بھی متعارف کرایا جا سکتا ہے۔   یہ نئی ایجاد ثابت کرتی ہے کہ پاکستان میں نوجوان محض روایتی ملازمتوں کے بجائے جدت طرازی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ایسے منصوبے متعارف کر رہے ہیں جو نہ صرف ملکی معیشت کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کو نمایاں کر سکتے ہیں۔

روبوٹ اب کھانا فرائی کرنے کا کام بھی کریں گے

روبوٹ کا بازو خود بخود کھانے کو تلتا ہے اور مقررہ وقت کے بعد خود نکال کر پیش کرتا ہے، ساتھ ہی اضافی تیل کو فلٹر کر کے ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔

ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں دیگر صنعتوں میں انقلاب برپا کیا ہے، وہیں اب باورچی خانے میں بھی جدید مشینری کا دور شروع ہو چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے کھانے پکانے کی صنعت میں حیرت انگیز تبدیلیاں آ رہی ہیں اور اب ایسا ممکن ہو چکا ہے کہ فرائنگ یعنی تلنے کا عمل انسانی محنت کے بغیر، ایک خودکار روبوٹ کے ذریعے مکمل ہو سکے۔   بین الاقوامی سطح پر روبوٹک فوڈ فرائی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، جہاں خودکار مشینیں کھانے کو تلنے کے تمام مراحل خود انجام دیتی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی خاص طور پر فاسٹ فوڈ انڈسٹری کے لیے نہایت فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے، جہاں معیار، تیزی اور لاگت کی بچت کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔   جدید روبوٹک مشینیں نہ صرف تیل کا درجہ حرارت خود کنٹرول کرتی ہیں بلکہ کھانے کو مخصوص وقت کے بعد خود بخود نکال لیتی ہیں، تاکہ ہر مرتبہ یکساں ذائقہ اور معیاری خوراک فراہم کی جا سکے۔   ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خودکار نظام سینسرز اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلتا ہے، جس کے ذریعے کھانے کے ہر ٹکڑے کو یکساں تلنے کے لیے روبوٹ مخصوص مقدار میں خوراک کو فرائنگ مشین میں ڈالتا ہے۔ اس کے بعد سینسرز تیل کے درجہ حرارت کو مانیٹر کرتے ہیں تاکہ کھانے کی کوالٹی برقرار رہے۔   روبوٹ کا بازو خود بخود کھانے کو تلتا ہے اور مقررہ وقت کے بعد خود نکال کر پیش کرتا ہے، ساتھ ہی اضافی تیل کو فلٹر کر کے ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔   روبوٹک فوڈ فرائی کے بے شمار فوائد ہیں۔ ایک تو یہ روایتی طریقوں کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے، دوسرا یہ کہ ہر مرتبہ کھانے کا معیار اور ذائقہ یکساں رہتا ہے، جس سے کسٹمرز کو ایک جیسا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، ریستوران مالکان کے لیے بھی یہ ایک بہترین حل ہے کیونکہ اس سے مزدوری کے اخراجات کم ہو جاتے ہیں اور پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔   ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ چونکہ روبوٹ کام کرتا ہے، اس لیے باورچی خانے میں جلنے یا کسی حادثے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی، چونکہ مشین تیل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرتی ہے، اس لیے تیل کا ضیاع بھی کم ہوتا ہے، جو ماحولیاتی فوائد کے لیے ایک مثبت پہلو ہے۔   پاکستان میں فاسٹ فوڈ انڈسٹری تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور کئی بڑے برانڈز جدید ٹیکنالوجی کو اپنا رہے ہیں۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں روبوٹک کچن کے متعارف ہونے کے امکانات روشن ہیں، جہاں خودکار نظام کے ذریعے کھانے کی تیاری مزید آسان اور معیاری بنائی جا سکے گی۔   اگر سرمایہ کار اس ٹیکنالوجی میں دلچسپی لیں تو پاکستان میں بھی جلد ایسے ریستوران دیکھنے کو مل سکتے ہیں جہاں باورچی خانے میں انسانوں کے بجائے روبوٹ کام کر رہے ہوں گے۔

کانگو: چمگادڑ کھانے سے ایک سنگین بیماری نے جنم لے لیا

کانگو میں چمگادڑ کھانے کے بعد ایک نامعلوم بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے، جس کی وجہ سے متاثرہ افراد صرف 48 گھنٹوں میں موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اس بیماری کی علامات وائرل ہیموریجک بخار سے ملتی جلتی ہیں، جو مختلف وائرسز کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ مریضوں میں بخار، کمزوری، جوڑوں کا درد، خون بہنے اور جسمانی اعضاء کی خرابی جیسی علامات دیکھی جا رہی ہیں۔ ابھی تک بیماری کے پھیلاؤ کی اصل وجہ معلوم نہیں ہو سکی، لیکن ماہرین صحت کا خیال ہے کہ یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماری ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور مقامی حکام اس پر تحقیق کر رہے ہیں تاکہ اس کے ماخذ اور روک تھام کے طریقے معلوم کیے جا سکیں۔ چمگادڑ کھانے کے علاوہ اگر یہ کسی پھل کو چکھ لے تو اس کے ذریعے بھی وائرس انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اس لیے خوراک کے حوالے سے احتیاط کرنا ضروری ہے۔ صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چمگادڑ اور اس سے متاثرہ پھلوں سے دور رہنا بہتر ہوگا، جبکہ حکومت اور صحت کے اداروں کو اس حوالے سے فوری آگاہی مہم چلانی چاہیے۔

صاف ماحول کی جانب ایک اور قدم: سگریٹ کے ٹکڑوں کی ری سائیکلنگ

تمباکو نوشی ایک عام عادت ہے، لیکن اس کے بعد بچ جانے والے سگریٹ کے ٹکڑے زمین، ماحول اور اشیاء کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ لوگ سگریٹ پینے کے بعد اسے کہیں بھی پھینک دیتے ہیں، جس سے آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اور زمین کے کچرے میں غیر ضروری اضافہ ہوتا ہے۔ اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم نے سگریٹ کے ٹکڑوں کی ری سائیکلنگ پر ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔ کراچی کے نوجوانوں نے گرین ویشن ٹو پوائنٹ او کے نام سے ایک منصوبہ بنایا ہے جس میں وہ سگریٹ کے ٹکڑوں کی ری سائیکلنگ کر رہے ہیں۔ پروجیکٹ شروع کرنے والے احتشام احمد کا کہنا ہے کہ”ہم نے سگریٹ کے ضائع شدہ حصوں کو اکٹھا کرکے ان پر کام کیا۔ سب سے پہلے، ہم نے ان کا کاغذ الگ کیا، پھر ان کے فلٹرز کو الگ کیا اور ان میں موجود مختلف کیمیکلز، بشمول سوڈیم کلورائیڈ، کو الگ کرکے دوبارہ قابل استعمال بنانے کی کوشش کی۔ اس پراسیسنگ کے بعد ہم ایک نیا منصوبہ شروع کر رہے ہیں، جس کے تحت ہم ان مواد کو استعمال کرتے ہوئے مچھر بھگانے والا کاغذ بنا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو نہ صرف فضلے کو کم کرے گا بلکہ اس سے مفید اشیاء بھی تیار کی جا سکیں گی”۔

ریلیف کے نام پر فریب؟ 5 ہزار سے کتنے دن گزارے جا سکتے ہیں؟

وزیرِاعظم پاکستان نے رمضان المبارک میں 40 لاکھ خاندانوں (تقریباً 2 کروڑ افراد) کو ڈیجیٹل والٹ کے ذریعے 5 ہزار روپے فی گھرانہ دینے کا اعلان کیا ہے، جس کے لیے حکومت نے 20 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ بظاہر یہ اقدام مستحق خاندانوں کے لیے ایک بڑا ریلیف دکھائی دیتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ مہنگائی کے دور میں 5 ہزار روپے واقعی کسی خاندان کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں؟ ایک چار افراد پر مشتمل گھرانے (میاں، بیوی اور دو بچے) کی بنیادی اشیائے خورونوش پر ہونے والے اخراجات کچھ یوں ہیں   یہ صرف بنیادی اشیائے خورونوش کی قیمت ہے، جس میں سبزیاں، پھل، گوشت، دودھ اور دیگر اشیاء شامل نہیں۔ اگر افطار میں پکوڑے، فروٹ چاٹ، یا گوشت شامل کرنا چاہیں تو بجٹ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ حکومت کے دیے گئے 5 ہزار روپے میں تو صرف آٹا، چینی، اور دالیں ہی آسکتی ہیں، جبکہ پھل، سبزیاں اور دیگر ضروری اشیاء عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی۔ رمضان میں کیلے، امرود، سیب، اور سٹرابیری جیسا فروٹ تو خواب بن جائے گا،گوشت اور دودھ ایک عام شہری کی پلیٹ میں نظر آنا مشکل ہوگا،شہری سبزی، آلو، پیاز، ٹماٹر خریدنے سے پہلے ہزار بار سوچنے پر مجبور ہوں گے۔ یہاں اصل مسئلہ 5 ہزار روپے کی امداد نہیں، بلکہ وہ مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ہے جس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔  ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا؟ یہ بھی پڑھیں:رمضان المبارک، برکتوں کا مہینہ مگر قیمتیں کیوں بڑھ جاتی ہیں؟  پرائس کنٹرول کمیٹیاں صرف کاغذوں میں ہی کیوں رہتی ہیں؟  رمضان بازاروں میں عوام کو معیاری اور سستی اشیاء کیوں نہیں ملتیں؟  اگر مسئلہ طلب و رسد (ڈیمانڈ اینڈ سپلائی) کا ہے تو حکومت سپلائی بڑھانے کے لیے مؤثر اقدامات کیوں نہیں کرتی؟ حکومت اگر واقعی عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو 5 ہزار روپے تقسیم کرنے کی بجائے مہنگائی پر قابو پانے کے عملی اقدامات کرے، جیسے،ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت کارروائی، بنیادی اشیائے خورونوش پر سبسڈی تاکہ عوام کو سستے داموں اشیاء دستیاب ہوں،پرائس کنٹرول میکانزم کو مضبوط کرنا تاکہ مصنوعی مہنگائی پیدا نہ ہو اور رمضان بازاروں کو حقیقی معنوں میں فعال اور مؤثر بنانا۔ لازمی پڑھیں: پاکستانی شہریوں کے لیے رمضان پیکج کا اعلان، فی خاندان کتنی رقم ملے گی؟ 5 ہزار روپے کی امداد وقتی ریلیف تو دے سکتی ہے، لیکن یہ کسی بھی خاندان کے لیے ایک ماہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صرف اعلانات نہیں، بلکہ عملی اقدامات کرے تاکہ عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف مل سکے اور رمضان کسی غریب کے لیے فاقہ کشی کا مہینہ نہ بنے

رمضان، پاکستانی اور ایرانی کھجوریں، بڑھتی قیمتوں کی وجہ کیا؟

رمضان المبارک کے آغاز سے ہی کھجوروں کی خریدوفروخت میں اضافہ شروع ہو جاتا ہے۔ اگرچہ پاکستان خود بڑی مقدار میں کھجور پیدا کرتا ہے، لیکن پھر بھی بعض خاص اقسام کی کھجوریں دیگر ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں، خاص طور پر سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، عراق اور الجزائر سے۔ ان ممالک سے خاص قسم کی کھجوریں جیسے عجوہ، عنبر، مبروم، صفاوی، خلاص اور مجدول منگوائی جاتی ہیں، کیونکہ ان کی پاکستان میں زیادہ مانگ ہے۔

اقلیت بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں، میثاق سینٹر: جدید اور مفت تحفظ

پنجاب میں اقلیتی برادری کے تحفظ، حقوق اور بہبود کے لیے ایک جدید اور مفت پلیٹ فارم متعارف کرایا گیا ہے۔ میثاق سینٹر اقلیتوں کو قانونی، تعلیمی اور سماجی معاونت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق سے آگاہی دینے کے لیے ایک مؤثر سہولت فراہم کرتا ہے۔ یہ سینٹر ایک سب ڈپارٹمنٹ کے طور پر کام کرتا ہے، جو سی ایم سما کی ایک کاوش ہے۔ اگر پنجاب بھر میں کسی بھی اقلیتی فرد کو کوئی مسئلہ درپیش ہو اور وہ مدد کے لیے 15 پر کال کرے، تو اس کال کا مناسب فالو اپ لیا جاتا ہے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس سینٹر اقلیتوں کو فوری مدد فراہم کرتا ہے، جہاں وہ اپنی شکایات براہ راست درج کروا سکتے ہیں، قانونی و سماجی معاونت حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے تحفظ و حقوق سے متعلق رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ میثاق سینٹر صرف ایک شکایات درج کرنے کا پلیٹ فارم نہیں بلکہ ایک محفوظ اور مساوی ماحول کی تشکیل کا عزم رکھتا ہے، جہاں ہر شہری بغیر کسی تفریق کے عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ یہ نہ صرف اقلیتوں کی آواز بلند کرنے کا ذریعہ ہے بلکہ ان کے تحفظ، حقوق اور مساوات کے فروغ میں بھی ایک اہم قدم ہے۔

یونان میں لاکھوں مظاہرین سڑکوں پرآگئے، معاملہ کیا ہے؟

یہ شہر کبھی علم و فنون کا مرکز ہوا کرتا تھا، اس کی گلیوں میں بچہ بچہ جمہوریت، انسانیت اور اخلاقیات جیسے موضوعات پر بحث کیا کرتا تھا۔ لیکن آج یہاں لاکھوں لوگ سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ جمعہ کے روز ایتھنز میں مظاہرین نے سڑکوں پر پٹرول بم پھینکے اور کوڑے دانوں کو آگ لگا دی۔  یونان بھر میں لاکھوں افراد نے ہڑتال کی اور ملک گیر احتجاج میں سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ مظاہرے ملک کی تاریخ کے سب سے خوفناک ٹرین حادثے کی دوسری برسی کے موقع پر کیے گئے۔ یہ حادثہ 28 فروری 2023 کو وسطی یونان میں پیش آیا ، جب طلبہ سے بھری ایک مسافر ٹرین ایک مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے میں 57 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ سانحہ یونان کے انتظامی ڈھانچے کی مبینہ لاپرواہی کی علامت بن چکا ہے، جسے نہ صرف حادثے سے پہلے بلکہ اس کے بعد کے دو سالوں میں بھی نظرانداز کیا گیا۔ ایتھنز میں ہونے والے مظاہرے میں شریک 57 سالہ موسیقار کرسٹوس مین نے کہا، “حکومت نے انصاف کے لیے کچھ نہیں کیا۔ یہ ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ قتل تھا”۔ یہ یونان میں حالیہ برسوں کے سب سے بڑے احتجاج میں سے ایک تھا، جس کی وجہ سے سرکاری خدمات اور کئی نجی کاروبار معطل ہو گئے۔ لوگ شہروں اور قصبوں کی سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت پر حادثے کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے “قاتل، قاتل” کے نعرے لگائے۔ حکومتی عہدیداران کسی بھی بددیانتی سے انکار کرتی ہے۔ حکام کے مطابق، صرف ایتھنز میں 80 سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا اور پانچ افراد زخمی ہوئے۔ ابتدا میں احتجاج پُرامن تھا، لیکن پھر نقاب پوش نوجوانوں کے ایک گروہ نے پولیس پر پٹرول بم پھینکنے شروع کر دیے اور پارلیمنٹ کی رکاوٹیں توڑنے کی کوشش کی۔ فسادات کنٹرول کرنے والی پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا، جس کے بعد جھڑپیں قریبی علاقوں تک پھیل گئیں۔ یونان کے دوسرے بڑے شہر تھیسالونیکی میں بھی جھڑپیں ہوئیں، جہاں ایک بہت بڑے ہجوم نے شہر کے مرکز کو بھر دیا اور مرنے والوں کی یاد میں سیاہ غبارے فضا میں چھوڑے۔

جاپان میں شرح پیدائش 125 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی

جاپان میں شرح پیدائش 125 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، مسلسل 9ویں سال شرح پیدائش میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ 2024 کے مقابلے میں بھی 5 فیصد کم ہے جب 7 لاکھ 20 ہزار 988 بچوں کی پیدائش ریکارڈ کی گئی تھیں۔ شرح پیدائش میں سالہہ سال گراوٹ کے باعث جاپان میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو کہ ملکی معیشت اور قومی سلامتی پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ جاپان میں گزشتہ برس 16 لاکھ اموات ریکارڈ ہوئیں جس کی وجہ سے آبادی میں تقریباً 9 لاکھ افراد کی کمی ہوئی، اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو جاپان چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے یعنی ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کے مقابلے میں دو افراد کی موت واقع ہوئی۔ وزیراعظم شگیرو اشیبا نے شادیوں میں اضافہ ریکارڈ ہونے کے باوجود تسلیم کیا ہے کہ شرح پیدائش میں کمی کو اب تک روکا نہیں جا سکا ہے، ان کا کہنا تھا ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے۔ شادیوں اور پیدائش کی تعداد کے درمیان قریبی تعلق ہے، ہمیں اس پہلو پر توجہ دینی چاہئے۔ عمر رسیدہ آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب نے پالیسی سازوں اور محققین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ ملک کی تقریباً 30 فیصد آبادی پہلے ہی 65 سال سے زیادہ عمر کی ہے۔ جاپان میں 2024 میں شادیوں کی تعداد 2.2 فیصد بڑھ کر 5 لاکھ تک پہنچ گئی لیکن اس سے پہلے 2020 میں 12.7 فیصد کی نمایاں گراوٹ ریکارڈ ہوئی تھی جو کہ انتہائی مشکل صورتحال ہے۔ سابق وزیراعظم فومیو کشیدا کی حکومت نے شرح پیدائش میں اضافے کے لیے مختلف اقدامات کیے تھے جن میں ٹوکیو میٹروپولیٹن گورنمنٹ کے ملازمین کے لیے تجرباتی طور پر ہفتے میں چار روزہ کام کا منصوبہ بھی متعارف کروایا گیا تھا۔ جاپانی ماہرین کا ماننا ہے کہ جنوبی کوریا کی طرح کام اور خاندانی زندگی میں توازن، بچوں کی دیکھ بھال اور رہائش کی سہولت جیسے اقدامات کر کے جاپان میں بھی شرح پیدائش میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

خاموش انقلاب: کمپیوٹر اسکرین سے عالمی سینما کا خواب

لاہور کی خاموش رات میں، جب سڑکیں سائیں سائیں کر رہی تھیں اور گلی کے کتے اپنے اپنے ٹھکانوں میں دبکے بیٹھے تھے، فرسٹ ائیر کی طالبہ دعا زہرہ ایک روشن اسکرین کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کے ہاتھ کی بورڈ پر تیزی سے چل رہے تھے، جیسے وہ ہر کلک کے ساتھ ایک نئی دنیا بنا رہی ہو۔ یہ کوئی اسکول پروجیکٹ نہیں تھا یہ پاکستان کی پہلی اے آئی جنریٹڈ اینیمیشن فلم “ہیچی” کی تخلیق تھی، جو نہ صرف ملک کی تخلیقی حدود کو آزما رہی تھی بلکہ دنیا کے سامنے پاکستانی اینیمیشن کا ایک نیا چہرہ پیش کرنے جا رہی تھی۔ ایک لمحہ، ایک چنگاری، ایک انقلاب، یہ  سب ایک عام سی شام کو شروع ہوا تھا۔ دعا لاہور کی ایک سڑک سے گزر رہی تھی جب اس نے ایک زخمی بے گھر کتے کو دیکھا، جو کانپ رہا تھا۔ “اس کی آنکھوں میں ایک کہانی تھی، لیکن اسے کوئی سننے والا نہیں تھا،” اسی لمحے دعا کے ذہن میں ایک سوال آیا: “اگر جانور بول سکتے؟ اگر وہ اپنی کہانیاں ہمیں محسوس کرا سکتے؟” یہ وہ لمحہ تھا جب “ہیچی” کا بیج بویا گیا۔ پاکستان میں اینیمیشن کی صنعت نہ ہونے کے برابر ہے کوئی پروڈکشن ہاؤس، کوئی تربیت، کوئی راہنما نہیں ہے۔ لیکن دعا نے فیصلہ کیا کہ اگر مواقع نہیں ہیں تو وہ خود انہیں تخلیق کرے گی۔ اس نے اپنے کمرے کو اسٹوڈیو بنا لیا اور یوٹیوب پر دن رات اے آئی ٹولز کے بارے میں سیکھنا شروع کیا۔: Runway ML اور Pika Labs سے اینیمیٹڈ مناظر تخلیق کیے۔ Midjourney سے کرداروں کے لیے دلکش بیک گراؤنڈز تیار کیے۔ اپنے چھوٹے بھائی کو “کریٹیو ڈائریکٹر” بنا کر ہر سین پر بحث کی۔ “ہم چھت پر کہانیاں سوچتے، بجلی کے جانے کے درمیان خاکے بناتے، اور کمپیوٹر کے اوورلوڈ ہونے پر ہنستے۔” پاکستان میں اینیمیشن انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے اکثر لوگ اسے صرف اشتہارات یا بچوں کے کارٹونز تک محدود سمجھتے ہیں۔ “لوگ کہتے تھے، ‘یہ سب فضول ہے، پڑھائی پر دھیان دو،’” دعا ہنستے ہوئے کہتی ہے۔ “لیکن میں نے دیکھا کہ دنیا میں لوگ اے آئی کو استعمال کر کے سینما میں انقلاب لا رہے ہیں۔ میں نے سوچا، ‘اگر وہ کر سکتے ہیں، تو میں کیوں نہیں؟’” دعا نے ایک ایسا ہائبرڈ ماڈل تیار کیا جس میں اے آئی کی طاقت اور انسانی تخلیقیت کو ملایا گیا۔ اے آئی جنریٹڈ بیک گراؤنڈز: لاہور کی گلیوں کو افسانوی انداز میں پیش کیا گیا۔ ہاتھ سے بنی اینیمیشن: کرداروں کے تاثرات کو انسانی جذبات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے۔ “ہیچی” صرف فلم نہیں، ایک تحریک ہے دعا صرف ایک اینیمیٹر نہیں، بلکہ ایک نظریہ لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ وہ اس فلم کو پاکستان میں جانوروں کے حقوق کی مہم میں استعمال کرنا چاہتی ہے، اور ساتھ ہی نئی نسل کو اے آئی اینیمیشن سکھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کا منصوبہ: 1. عالمی اسٹریمنگ پلیٹ فارمز: Netflix، Amazon Prime، اور Zee5 پر “ہیچی” کو ریلیز کرنا۔ 2. اے آئی اینیمیشن ٹریننگ: پاکستانی نوجوانوں کو اینیمیشن کے جدید طریقے سکھانے کے لیے ورکشاپس کا آغاز۔ 3. آسکر کا خواب: “کیوں نہیں؟” وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہے۔ “اگر دی بوائے اینڈ دی ہیرون جیت سکتی ہے، تو لاہور کی ایک لڑکی بھی آسکر لے جا سکتی ہے۔” دعا زہرہ نے جو کام کیا ہے، وہ صرف اس کی کہانی نہیں یہ پورے پاکستان کے خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک پیغام ہے۔ “صلاحیت کسی جغرافیے کی محتاج نہیں۔ اگر لاہور کی ایک لڑکی صرف ایک لیپ ٹاپ اور خواب کے ساتھ یہ کر سکتی ہے، تو تم بھی کر سکتے ہو!”