April 30, 2025 12:10 pm

English / Urdu

خاموش انقلاب: کمپیوٹر اسکرین سے عالمی سینما کا خواب

لاہور کی خاموش رات میں، جب سڑکیں سائیں سائیں کر رہی تھیں اور گلی کے کتے اپنے اپنے ٹھکانوں میں دبکے بیٹھے تھے، فرسٹ ائیر کی طالبہ دعا زہرہ ایک روشن اسکرین کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کے ہاتھ کی بورڈ پر تیزی سے چل رہے تھے، جیسے وہ ہر کلک کے ساتھ ایک نئی دنیا بنا رہی ہو۔ یہ کوئی اسکول پروجیکٹ نہیں تھا یہ پاکستان کی پہلی اے آئی جنریٹڈ اینیمیشن فلم “ہیچی” کی تخلیق تھی، جو نہ صرف ملک کی تخلیقی حدود کو آزما رہی تھی بلکہ دنیا کے سامنے پاکستانی اینیمیشن کا ایک نیا چہرہ پیش کرنے جا رہی تھی۔ ایک لمحہ، ایک چنگاری، ایک انقلاب، یہ  سب ایک عام سی شام کو شروع ہوا تھا۔ دعا لاہور کی ایک سڑک سے گزر رہی تھی جب اس نے ایک زخمی بے گھر کتے کو دیکھا، جو کانپ رہا تھا۔ “اس کی آنکھوں میں ایک کہانی تھی، لیکن اسے کوئی سننے والا نہیں تھا،” اسی لمحے دعا کے ذہن میں ایک سوال آیا: “اگر جانور بول سکتے؟ اگر وہ اپنی کہانیاں ہمیں محسوس کرا سکتے؟” یہ وہ لمحہ تھا جب “ہیچی” کا بیج بویا گیا۔ پاکستان میں اینیمیشن کی صنعت نہ ہونے کے برابر ہے کوئی پروڈکشن ہاؤس، کوئی تربیت، کوئی راہنما نہیں ہے۔ لیکن دعا نے فیصلہ کیا کہ اگر مواقع نہیں ہیں تو وہ خود انہیں تخلیق کرے گی۔ اس نے اپنے کمرے کو اسٹوڈیو بنا لیا اور یوٹیوب پر دن رات اے آئی ٹولز کے بارے میں سیکھنا شروع کیا۔: Runway ML اور Pika Labs سے اینیمیٹڈ مناظر تخلیق کیے۔ Midjourney سے کرداروں کے لیے دلکش بیک گراؤنڈز تیار کیے۔ اپنے چھوٹے بھائی کو “کریٹیو ڈائریکٹر” بنا کر ہر سین پر بحث کی۔ “ہم چھت پر کہانیاں سوچتے، بجلی کے جانے کے درمیان خاکے بناتے، اور کمپیوٹر کے اوورلوڈ ہونے پر ہنستے۔” پاکستان میں اینیمیشن انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے اکثر لوگ اسے صرف اشتہارات یا بچوں کے کارٹونز تک محدود سمجھتے ہیں۔ “لوگ کہتے تھے، ‘یہ سب فضول ہے، پڑھائی پر دھیان دو،’” دعا ہنستے ہوئے کہتی ہے۔ “لیکن میں نے دیکھا کہ دنیا میں لوگ اے آئی کو استعمال کر کے سینما میں انقلاب لا رہے ہیں۔ میں نے سوچا، ‘اگر وہ کر سکتے ہیں، تو میں کیوں نہیں؟’” دعا نے ایک ایسا ہائبرڈ ماڈل تیار کیا جس میں اے آئی کی طاقت اور انسانی تخلیقیت کو ملایا گیا۔ اے آئی جنریٹڈ بیک گراؤنڈز: لاہور کی گلیوں کو افسانوی انداز میں پیش کیا گیا۔ ہاتھ سے بنی اینیمیشن: کرداروں کے تاثرات کو انسانی جذبات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے۔ “ہیچی” صرف فلم نہیں، ایک تحریک ہے دعا صرف ایک اینیمیٹر نہیں، بلکہ ایک نظریہ لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ وہ اس فلم کو پاکستان میں جانوروں کے حقوق کی مہم میں استعمال کرنا چاہتی ہے، اور ساتھ ہی نئی نسل کو اے آئی اینیمیشن سکھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کا منصوبہ: 1. عالمی اسٹریمنگ پلیٹ فارمز: Netflix، Amazon Prime، اور Zee5 پر “ہیچی” کو ریلیز کرنا۔ 2. اے آئی اینیمیشن ٹریننگ: پاکستانی نوجوانوں کو اینیمیشن کے جدید طریقے سکھانے کے لیے ورکشاپس کا آغاز۔ 3. آسکر کا خواب: “کیوں نہیں؟” وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہے۔ “اگر دی بوائے اینڈ دی ہیرون جیت سکتی ہے، تو لاہور کی ایک لڑکی بھی آسکر لے جا سکتی ہے۔” دعا زہرہ نے جو کام کیا ہے، وہ صرف اس کی کہانی نہیں یہ پورے پاکستان کے خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک پیغام ہے۔ “صلاحیت کسی جغرافیے کی محتاج نہیں۔ اگر لاہور کی ایک لڑکی صرف ایک لیپ ٹاپ اور خواب کے ساتھ یہ کر سکتی ہے، تو تم بھی کر سکتے ہو!”

مسلم لیگ ن کو کسی ‘سیانے’ کی ضرورت ہے

ہمارے ہاں دیہات، قصبات میں عام رواج ہے کہ اگر کوئی مریض صحت یاب نہ ہو رہا ہو، حکیم، ہومیو پیتھک اور محلے، شہر کے ڈاکٹروں سے معاملہ نہ سنبھلے، مریض کو قریبی بڑے شہر لے جا کر دکھایا جائے اور تب بھی اگر مریض کی حالت نہ سدھرے تو پھر بڑے بوڑھوں میں سے کوئی مشورہ دیتا ہے کہ اسے کسی سیانے کو دکھاؤ۔ یہ سیانا ٗکوئی بھی ہوسکتا ہے، دم درود کرنے والا کوئی بزرگ، کسی قدیمی ٹوٹکے کا مالک کوئی عمر رسیدہ آدمی یا پھر کوئی دوردراز کا ایسا حاذق حکیم جس کے نسخے صدیوں سے سینہ در سینہ چلے آ رہے ہیں اور جس کی شہرت بھی اسی طرح پھیلی ہو۔ مسلم لیگ ن کا بھی یہی حال ہے۔ یہ پارٹی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس حاصل کرے، اس کے لیے ہر ممکن نسخے، ہر تجویز اور مشورے پر عمل ہو رہا ہے، (براہ کرم لفظ مقبولیت کو ماضی بعید کے صیغے میں پڑھیں، انگریزی میں اسے شائد پاسٹ پرفیکٹ کہتے ہیں)۔ بدقسمتی سے ان تمام کوششوں کے نتائج نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ن لیگ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کسی قسم کا سحر ان پر پھونکا گیا ہے یا کچھ اور۔ ان سے بات بن نہیں رہی۔ ویسے اس کی اصل ذمہ داری خود ن لیگ پر عائد ہوتی ہے۔ یہ آج کے دور میں یعنی دو ہزار پچیس (2025) میں نوے کے عشرے کی سیاست کر رہی ہے۔ وہی پرانے ہتھکنڈے ، حربے، حیلے، ہوشیاریاں۔ یہ سب کچھ اتنی آوٹ آف ڈیٹ اور فرسودہ حرکتیں لگتی ہیں کہ اب اس پر تنقید کرنے کا بھی جی نہیں چاہتا۔ یعنی یہ تنقید کے کم از کم لیول پر بھی پورا نہیں اترتیں۔ مثال کے طور پر کون ہے جو آج کل بھی اخبارات پر بطور رشوت اشتہارات کی بھرمار کر دے؟ ساٹھ ساٹھ صفحات کے سپلیمنٹ وہ بھی اخبارات کو جنہیں شائد وہاں کام کرنے والے صحافی بھی اب دلچسپی سے نہیں پڑھا کرتے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں پرنٹ میڈیا تو بہت پہلے ختم ہوا، اب تو الیکٹرانک میڈیا کی بھی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ لوگ خبر اور رائے کے لئے ڈیجیٹل میڈیا (نیوز ویب سائٹس، ولاگ وغیرہ) کی طرف دیکھتے ہیں یا پھر اپنی فیس بک نیوز فیڈ اور واٹس ایپ گروپس کی طرف جاتے ہیں۔ جسے زیادہ دلچسپی ہو، وہ وی پی این چلا کر (ایکس) ٹوئٹر ٹرینڈز دیکھ لیتا ہے۔ ان سپلیمنٹس کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوا کہ فوری طور پر لاہور، پنجاب کا ٹکٹ کٹایا جائے اور بقیہ تمام عمر وہیں گزاری جائے۔ پھر اچانک یاد آگیا کہ میں پچھلے اٹھائیس برسوں سے لاہور ہی میں مقیم ہوں اور سال ڈیڈھ سے تو پنجاب سے باہر بھی نہیں گیا۔ جو کارنامے مریم نواز شریف کے گنوائے گئے ہیں، معلوم نہیں وہ کس پنجاب میں سرانجام دئیے گئے؟ بھارتی پنجاب تو ظاہر ہے نہیں ہو گا، پھر یقینی طور پر خیالی پنجاب ہی ہو سکتا ہے۔ خیر یہ تو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے کارنامے تھے جن پر کبھی الگ سے بات کریں گے۔ سردست تو جناب وزیراعظم شہباز شریف کی بات کر لیتے ہیں۔ چند دن پہلے شہباز شریف نے فرمایا کہ میں نے انڈیا کو پیچھے نہ چھوڑ دیا تو میرا نام بدل دینا۔ فیس بک پر ایک نوجوان کی پوسٹ دیکھی جس نے کچھ وقت لگا کر ریسرچ کی اور اعداد وشمار کے ساتھ ثابت کیا کہ پاکستان انڈیا کو پیچھے تب ہی چھوڑ سکتا ہے جب کرشماتی سپیڈ سے ہماری اکانومی ترقی کرےاور بھارتی معیشت اسی ایک جگہ پر رک جائے، تب بھی پاکستانی موجودہ جی ڈی پی کے حساب سے ستر سے نوے سال میں انڈیا کو کراس کرے گا۔ اس ریسرچ کے  مطابق  اگر پاکستان 10 فیصد سالانہ کی جناتی ترقی کی رفتار تک پہنچ جائے (جو کہ ناممکن ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان کی امپورٹ خوفناک حد تک بڑھ جائے گی، تجارتی خسارہ بھیانک شکل اختیار کر لے گا، زرمبادلہ ختم ہوجائے گا اور ہم دیوالیہ ہوجائیں گے، لیکن اگر کسی معجزے سے ایسا نہ ہو) تب بھی ہمیں 20 پچیس سال لگ جائیں گے، وہ بھی تب جب اس پورے عرصے میں بھارتی معیشت بیٹھ جائے۔ یعنی اس اعتبار سے پاکستان کبھی معاشی طور پر انڈیا سے آگے نہیں نکل سکتا۔ سوال اب بس یہی ہے کہ شہبازشریف صاحب کا نام بدل کر کیا رکھا جائے؟ ہمارے ہاں عام طور سے لمبی لمبی چھوڑنے والوں کو شیخ چلی کہہ دیا جاتا ہے۔ اب پتہ نہیں میاں صاحب شیخ کہلانا پسند کریں گے یا نہیں۔ باتیں اتنی بڑی بڑی، دعوے ایسے بلند وبانگ اور حال یہ کہ کمزور حال معیشت، قرضوں سےہماری کمر ٹوٹنے کو ہے اور اس پر اتنے سارے نئے وزیر بنا لیے گئے ہیں۔ کابینہ میں اس قدر بڑے اضافے کی کیا تک اور جواز ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ صرف ہارڈ کور ن لیگی ہی اس کا دفاع یا تاویل پیش کر سکتے ہیں۔ ایک سینئر صحافی جو ن لیگ کے سابق دور میں چیئرمین پیمرا بھی رہے، انہوں نے اس اضافے پر فرمایا ہے کہ وفاقی کابینہ میں توسیع کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ کیونکہ اتحادیوں کی جانب سے حکومت پر مختلف اوقات میں پریشر ڈالا جاتا تھا کہ کابینہ میں توسیع کی جائے۔ انہوں نے مزید یہ بھی فرمایا کہ کابینہ میں توسیع سے حکومت اور بھی مضبوط ہو گئی ہے، اتحادیوں کا اعتماد بڑھ گیا ہے اور شکایات کم ہوئی ہیں۔ ن لیگ کی حمایت اپنی جگہ لیکن اگر سینئر صحافی اس فہرست پر نظر ڈال لیتے تو سمجھ آ جاتی کہ ان گروپوں کو اگر نمائندگی نہ بھی دی جاتی تو ان میں کہاں اتنی جرات تھی کہ بغاوت کر سکتے۔ اسلام آباد سے طارق فضل چودھری، عقیل ملک، پنڈی سے حنیف عباسی جبکہ رانا مبشر، معین وٹو، عون چودھری، جنید انور وغیرہ کو بھی حصہ بنایا گیا۔ شزہ فاطمہ اور علی پرویز ملک بھی شامل ہیں۔ لودھراں سے عبدالرحمن کانجو کو بھی وزیر بنایا گیا۔ میلسی سے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے جیتنے والے اورنگ زیب کھچی کو وفاداری تبدیل

مصطفیٰ عامر قتل کیس کیوں اہم ہے: جانیے کرائم رپورٹر ثاقب صغیر کی زبانی

حال ہی میں سامنے آنے والا مصطفی عامر قتل کیس اہمیت حاصل کر چکا ہے۔ تمام لوگ اس کے نت نئے انکشافات پر بات کر رہے ہیں۔ یہ کیس نا صرف قتل کا کیس ہے بلکہ منشیات کے گروہ کی نشان دہی کر رہا ہے۔ مبینہ طور پر ملزمان کو گرفیار بھی کیا گیا ہے لیکن پھر بھی یہ معاملہ ایک کیس سے بہت بڑھ کر ہے۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے سینیئر کرائم رپورٹر ثاقب صغیر نے مکمل کیس کی تفصیلات بتائیں۔ آئیے جانتے ہیں کب کیا ہوا؟

رمضان کی آمد: پاکستان میں مہنگائی کے بارے میں سروے کیا کہتا ہے؟

پاکستان میں رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور اس کے ساتھ ہی عوام کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والے معاشی چیلنجز کے ساتھ، پاکستان کی عوام کی زندگیوں میں مہنگائی، بے روزگاری اور مالی عدم استحکام کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حالیہ سروے، جو آئی پی ایس او ایس پاکستان نے کیا ہے، انہوں نے ملک کے معاشی حالات اور عوامی مالی صورتحال پر ایک تلخ حقیقت کو سامنے رکھا ہے۔ سروے کے نتائج میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ 88 فیصد پاکستانیوں کے لیے روزمرہ اشیاء کی خریداری ایک پیچیدہ اور مشکل عمل بن چکا ہے۔ رمضان کے مہینے میں جب لوگوں کی ضروریات میں اضافے کا سامنا ہوتا ہے، ایسے میں اشیائے خوردونوش کی خریداری پاکستانی عوام کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ اس سروے میں شامل 88 فیصد افراد نے کہا ہے کہ وہ مستقبل میں پیسے بچانے کے قابل نہیں ہوں گے، جب کہ 94 فیصد کا خیال ہے کہ گاڑی یا جائیداد خریدنا اب ان کے لیے تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ سروے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی جانب واضح اشارہ کرتا ہے۔ 81 فیصد پاکستانی عوام نے اپنے یا اپنے قریبی افراد کے کاروبار یا نوکریوں کے جانے کے خوف کا اظہار کیا ہے، جس سے معاشی عدم استحکام کی ایک اور گھنٹی بج رہی ہے۔ سروے کے مطابق، 70 فیصد افراد نے ملک کی موجودہ سمت کو غلط قرار دیا ہے۔ عوام کے لیے اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ حکومت کے معاشی فیصلے عوام کی ضروریات کے مطابق نہیں ہیں۔ اس کے باوجود 69 فیصد پاکستانی مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں، جبکہ 61 فیصد بے روزگاری کو ملک کا سب سے بڑا چیلنج گردانتے ہیں۔ 63 فیصد افراد نے ملکی معیشت کو کمزور قرار دیا اور 40 فیصد کو خدشہ ہے کہ آئندہ چھ ماہ میں ملکی معیشت مزید بگڑ سکتی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ:سڑک کنارے بم دھماکے سے راہگیروں سمیت 9 افراد زخمی سروے کے نتائج میں یہ بھی شامل ہے کہ 60 فیصد پاکستانیوں کو اپنی ذاتی مالی صورتحال مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ اس سب کے باوجود سروے میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کچھ اہم اشاریے جیسے کہ ملکی سمت اور گھریلو خریداری کا اعتماد، کچھ حد تک بہتر ہوئے ہیں، لیکن عوام کے درمیان مہنگائی اور روزگار کے تحفظ کے حوالے سے خدشات بدستور موجود ہیں۔ ایپسوس پاکستان کے ‘سی ای او عبدالستار بابر’ نے سروے کے نتائج پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ “اگرچہ اکثریت معیشت اور روزگار کے تحفظ کے حوالے سے خدشات رکھتی ہے، لیکن امید کی سطح میں اضافہ حکومت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر حکومت ایک مربوط اور مستحکم حکمت عملی اپنائے، تو عوامی اعتماد میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔” عالمی سطح پر پاکستانی صارفین کا اعتماد بھارت اور چین جیسے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں کم ہے لیکن برازیل اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک کے مقابلے میں پاکستان بہتر پوزیشن پر ہے۔ اس سب صورتحال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کو ابھی بھی کئی معاشی اور حکومتی چیلنجز کا سامنا ہے جن پر حکومت کو مسلسل توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لازمی پڑھیں: ’وزیرڈبل سے پہلے سنگل ڈیکربس تو چلا کردکھائیں‘ حافظ نعیم کی سندھ حکومت پرکڑی تنقید یہ سروے ایپسوس پاکستان نے مکمل طور پر آزادانہ طور پر کیا ہے، اور اس میں کسی بیرونی ادارے یا اسپانسر کا مالی یا تکنیکی تعاون شامل نہیں تھا، تاکہ نتائج مکمل طور پر غیر جانبدار اور شفاف ہوں۔ سروے 11 سے 18 فروری 2025 کے درمیان پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے 1000 شہریوں سے حاصل کردہ ڈیٹا پر مبنی ہے۔ یہ سروے ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رمضان المبارک کا آغاز ہونے والا ہے اور حکومت نے مہنگائی کو سنگل ڈیجٹ میں لانے اور معیشت کو مستحکم کرنے کے دعوے کیے ہیں۔ تاہم، عوام کی مایوسی اور خدشات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ حکومت کے دعوے زمینی حقیقتوں سے میل نہیں کھا رہے ہیں۔ رمضان کی آمد میں جب عوام روزمرہ کی ضروریات کی خریداری کے لیے پریشان ہیں، تو حکومت کے لیے عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ کے بعد پنجاب کابینہ میں توسیع کا فیصلہ، کتنے اراکین شامل؟

پنجاب پولیس کا خواتین کی حفاظت کے لیے انقلابی قدم

خواتین کو انصاف اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک انقلابی قدم! پاکستان کا پہلا ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن، جو کسی بھی وقت، کہیں بھی خواتین کو مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے زیر انتظام قائم ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن، خواتین پر تشدد کے خاتمے اور فوری انصاف کی فراہمی میں ایک نئی امید بن چکا ہے۔ خواتین نے اس پلیٹ فارم پر اپنی شکایات درج کروائیں، اور انصاف کے دروازے تک ان کی رسائی ممکن بنائی گئی۔ پہلے چھ ماہ کے دوران، ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن نے فوری ایکشن لیتے ہوئے 23 ہزار 575 ایف آئی آرز درج کروائیں۔ ہراسگی، گھریلو تشدد، گھریلو ناچاقی، لڑائی جھگڑے اور دیگر سنگین مسائل پر پہلے 6 ماہ میں 1 لاکھ 99 ہزار 38 کیسز میں مدد فراہم کی گئی۔ اگر آپ کو بھی مدد درکار ہے، تو اب آپ کو تھانے جانے کی ضرورت نہیں! اپنے گھر بیٹھے ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن سے رابطہ کریں اور فوری مدد حاصل کریں۔ یہ قدم خواتین کے تحفظ اور انصاف کی جانب ایک روشن راہ ہے۔ کیونکہ ہر عورت کو تحفظ، ہر عورت کو انصاف!

کراچی کے نوجوان کا کمال: اب کوئی بھی کتاب انگلش سے سندھی میں ترجمہ کریں

کتابیں علم و حکمت کا خزانہ ہیں، جو ہمیں نئی دنیاں دکھاتی ہیں، سوچ کے دروازے کھولتی ہیں اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں، جہاں ہر چیز ڈیجیٹل ہو چکی ہے، مطالعے کے شوقین افراد کے لیے ایک نئی اور منفرد ایپلیکیشن متعارف کرائی گئی ہے جو انگلش اور سندھی زبان میں کتابوں کے ذخیرے تک آسان رسائی فراہم کرتی ہے۔ یہ ایپلیکیشن نہ صرف علم کے متلاشیوں کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے بلکہ سندھی زبان و ادب کو فروغ دینے کا بھی ایک اہم ذریعہ ثابت ہوگی۔ چاہے آپ جدید ادب پڑھنا چاہتے ہوں یا کلاسیکی کتابوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہوں، یہ پلیٹ فارم ہر ذوق کے قارئین کے لیے بہترین انتخاب ہے۔ اب مطالعہ پہلے سے کہیں زیادہ آسان اور دلچسپ ہو گیا ہے، کیونکہ آپ کسی بھی وقت، کہیں بھی اپنی پسندیدہ کتاب پڑھ سکتے ہیں۔

خون کی ہنگامی ضرورت پوری کرنا اب ہوا آسان، 15 پر کال کریں اور انسانی زندگی بچائیں

زندگی بچانے کے لیے ایک قطرہ خون بھی قیمتی ہوتا ہے! اب پنجاب کے شہریوں کے لیے خون کی ہنگامی ضرورت پوری کرنا مزید آسان ہو گیا ہے، 15 پر کال کر کے ہنگامی صورتحال میں ضرورت پوری کریں۔ لاہور سیف سٹی اتھارٹی نے پنجاب ایمرجنسی ہیلپ لائن 15 پر ورچوئل بلڈ بینک کی سہولت متعارف کرا دی ہے۔ کسی بھی وقت، کسی بھی ہنگامی صورتحال میں، خون کی ضرورت ہو تو 15 پر کال کریں اور 4 کا ہندسہ دبائیں۔ آپ کی کال موصول ہوتے ہی، سیف سٹی کا آفیسر آپ کو بلڈ بینک ڈیٹا بیس میں موجود ڈونر سے جوڑے گا، تاکہ خون کی دستیابی فوری ممکن بنائی جا سکے۔ اس ورچوئل بلڈ بینک کو خون عطیہ کرنے والے اداروں، این جی اوز، اور تعلیمی اداروں کے بلڈ بینکس سے منسلک کر دیا گیا ہے جبکہ پنجاب پولیس کے بہادر افسران و جوان بھی بڑی تعداد میں اس مشن کا حصہ بن رہے ہیں۔ اب تک 10 ہزار سے زائد پولیس اہلکار خود کو بطور بلڈ ڈونر رجسٹر کروا چکے ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔” اگر آپ بھی زندگی بچانے کے اس مشن کا حصہ بننا چاہتے ہیں، تو ابھی 15 پر کال کریں یا سیف سٹی کی ویب سائٹ پر جا کر خود کو بطور بلڈ ڈونر رجسٹر کریں۔

پنجاب میں بچوں کی حفاظت کے لیے مرکز قائم: کیسے کام کرتا ہے؟

صرف بچے ہی نہیں، بزرگ اور ذہنی معذور افراد بھی ہماری ذمہ داری ہیں! اگر کوئی پیارا بچھڑ جائے تو گھبرائیں نہیں، سیف سٹی ورچوئل سنٹر فوری مدد کے لیے تیار ہے۔ پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے تحت قائم ورچوئل سنٹر فار چائلڈ سیفٹی جو نہ صرف بچوں بلکہ گمشدہ، لاوارث، یا ذہنی معذور افراد کے کیسز میں بھی مدد فراہم کر رہا ہے۔ صرف پہلے پانچ دنوں میں، سنٹر کو 600 سے زائد شکایات موصول ہوئیں، اور فوری کارروائی کرتے ہوئے 100 سے زائد ایف آئی آرز درج کروائی گئیں۔ چاہے بچہ ہو، کوئی معمر فرد، یا ذہنی طور پر کمزور شخص, اگر وہ راستہ بھٹک جائے، لاوارث ہو، یا کسی بھی مشکل میں ہو، یہ سنٹر فوری کارروائی کرتا ہے۔ پنجاب پولیس، چائلڈ پروٹیکشن بیورو، ویلفیئر ادارے، اور جدید ڈیٹا سسٹمز کے ذریعے معلومات کو فوری طور پر مرتب کیا جا رہا ہے، تاکہ ہر فرد اپنے پیاروں سے جلد مل سکے۔ ورچوئل سنٹر سے رابطہ 15 پر کال، پنجاب پولیس پاکستان ایپ، چائلڈ پروٹیکشن بیورو یا آن لائن چیٹ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ یہ صرف ایک سروس نہیں، بلکہ ہر بے بس، ہر کمزور، اور ہر ضرورت مند کے لیے امید کی کرن ہے۔ اگر کوئی بچہ، بزرگ، یا ذہنی معذور فرد گم ہو جائے یا ملے، فوراً اطلاع دیں اور ایک معصوم زندگی کو محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

مغربی میڈیا کے اندر کوئی معیار نہیں ہے، انیس تکریدی

اسلام آباد میں “ایکو آف فلسطین” کے نام سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مقامی اور عالمی شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس جماعت اسلامی کی جانب سے کرائی گئی جس میں امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس میں قرطبہ فاؤنڈیشن کے انیس تکریدی  نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “مغربی میڈیا کے اندر کوئی معیار نہیں ہے۔ یہ منافقت کی بات نہیں ہے۔” انہوں نے کہا “امریکا ٹک ٹاک نامی ایپ کے خلاف کیوں ہے؟ کیونکہ اس کا 75 یا 78 فیصد سے زیادہ مواد فلسطین کے حامیوں کا ہے”۔  

مصطفیٰ عامر قتل، کب کیا ہوا؟

کراچی کے پوش علاقوں سے عام طور پر خبریں بہت کم موصول ہوتی ہیں لیکن اگر کسی خبر کا  چرچہ ہوتو وہ دل دہلانے کے لئے اور اداروں کی بے بسی کا ماتم کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔  نور مقدم کیس ہو یا ارمغان کا مصطفیٰ عامر کو گھر بلا کر بے رحمی سے قتل کر دینا ہو۔ ایک 23 سالہ طالب علم مصطفیٰ عامر کو قتل کردیا گیا، قاتل کوئی اور نہیں ہے اس کا اپنا دوست ہی قاتل نکلا ۔  چھ جنوری 2025 کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے مصطفیٰ عامر کو اغوا کیا گیا۔ ان کی والدہ کو دو کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہوئی، جس کے بعد کیس کی تحقیقات اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) کو منتقل کی گئیں۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ مصطفیٰ کے قریبی دوست ارمغان قریشی اس واقعے میں ملوث ہیں۔ دونوں کے درمیان ایک خاتون، مارشا، کے باعث تنازعہ پیدا ہوا تھا۔  ارمغان نے مصطفیٰ کو اپنے گھر بلایا، جہاں اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعد ازاں قتل کر دیا گیا۔ لاش کو حب کے علاقے میں لے جا کر جلایا گیا تاکہ شواہد مٹائے جا سکیں۔    ملزم ارمغان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے ابتدائی طور پر جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کیا، جس پر پراسیکیوشن نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم کو پولیس ریمانڈ پر دینے کا حکم دیا۔ تفتیش کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ ملزم ارمغان کی سہولت کاری میں گزری تھانے کا ایک پولیس اہلکار ملوث تھا، جس کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ یہ واقعہ ہمارے معاشرے اور نظامِ عدل کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔