کراچی میں کوڑے سے خزانہ بنانے والی جدید صنعت کیسے کام کرتی ہے؟

کراچی میں ایک ایسی صنعت تیار کی گئی ہے جس میں کوڑے سے کار آمد چیزیں بنائی جا رہی ہیں۔ ٹی جی اے کے نام سے ایک کمپنی ضائع شدہ پلاسٹک سے ضروریاتِ زندگی کی اشیا بنا رہی ہیں۔ وہ ان اشیا سے اینٹیں، فرنیچر، کرسیاں، ٹرے اور گملے وغیرہ بنا رہے ہیں۔ کمپنی کے سی ای او حبیب صاحب کہتے ہیں کہ “ہمارے یہاں سمجھا جاتا ہے کہ ایسی اشیا سے جو چیزیں بنتی ہیں وہ اچھی کوالٹی کی نہیں ہوتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ” ہم تین سال سے یہ کام کر رہے ہیں اور اس سے ماحول کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے”۔

ہمیں نسل کشی کا لفظ استعمال کرنے سے معذرت نہیں کرنی چاہیے، فیصل داؤ جی

اسلام آباد میں “ایکو آف فلسطین” کے نام سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مقامی اور عالمی شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس جماعت اسلامی کی جانب سے کرائی گئی جس میں امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس میں جنوبی افریقا سے آئے ہوئے فیصل داؤ جی  نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمیں زبان کی طاقت اور استعمال کیے گئے الفاظ کے بارے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ متعدد تنظیموں  جیسا کہ  ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے اپنے ادارے اور آئی سی جے جیسی نے غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے نسل کشی قرار دیا ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ “اس میں کوئی شک نہیں۔ یاد رکھیں، نسل کشی راتوں رات نہیں ہوتی۔ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک منظم، منصوبہ بند، فلسطینی عوام کا خاتمہ ہے۔ یہ گزشتہ 80 سالوں سے جاری ہے۔ صرف اب وہ صدمے کا شکار ہیں اور یا کچھ مغربی دانشوروں اور تنظیموں کے درمیان جو فلسطینی عوام کا اس وحشیانہ اور بے مثال قتل عام کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمیں نسل کشی کا لفظ استعمال کرنے سے معذرت نہیں کرنی چاہیے”۔

کراچی میں’درختوں‘ کی منفرد نمائش، مقاصد کیا ہیں؟

ماحول کو بہتر بنانے میں پودے اہم کردار ادا کرتے ہیں،کراچی میں ایک ایسی سوسائٹی کام کررہی ہے جو ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کام کررہی ہے اور شجرکاری کو فروغ دے رہی ہے۔  50 سے 60 سال پرانے درختوں کو دوبارہ اگانا ایک جاپانی طریقہ ہے، جس کو ’بون سائی‘ کہا جاتا ہے، بون مطلب درخت اورسائی مطلب ٹرے تو جو درخت ہے اس کو بنیاد طور پہ ٹرے میں اگایا جاتا ہے۔ کراچی میں کام کرنے والی سوسائٹی کے منتظمین کا بتانا ہے کہ ہم درختوں کو ٹرے میں اگاتے ہیں، اس کا آسان مقصد ہے کہ لوگ گھروں میں پودے لگائیں اور ماحول بچائیں۔ بون سائی ایک آرٹ ہے جو دنیا بھرکی طرح پاکستان میں بھی مقبولیت حاصل کررہا ہے ۔ لوگوں کو شجر کاری کی طرف راغب کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے، گھروں میں اس طریقے سے پودے اگا کر ماحول کو بہتر رکھا جاسکتا ہے۔

جماعت اسلامی غزہ کو درپیش عالمی خطرات پر توجہ مبذول کرانے کے لیے کوشاں

جماعت اسلامی غزہ کو درپیش سنگین عالمی خطرے کی جانب توجہ مبذول کرانے کے لیے کوشاں ہیں جس کا اظہار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے ڈائریکٹر امور خارجہ آصف لقمان قاضی نے مقامی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے بے دفاع عوام کو ایک سنگین حملے کا خطرہ ہے جس کا اظہار علمی طاقت کی جانب سے بھی کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ اس بات  کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ دنیا ایک بغیر قانون کے عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے، اور تنازعات کا مقابلہ عالمی قانون کے بجائے طاقت کے استعمال سے کیا جا رہا ہے۔ آصف لقمان قاضی نے کہا کہ مجھے پچھلے 15 مہینوں میں غزہ  میں ہونے والی نسل کشی اور تباہی کی بڑے پیمانے پر کارروائیوں کے حقائق اور اعدادو شمار کو دُہرانے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے کہا کہ سرائیل اور امریکہ کی طرف سے ہونے والی تباہی کی حوصلہ افزائی غیرموثر عالمی نظام کی عدم موجودگی سے ہوتی ہے۔

مصر میں قائم صدیوں پرانے اہرام کی داستان

Abu Al-houf

مصر اپنی تاریخ کے حوالے سے سیاحوں میں بڑی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے، ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح مصر کے ان اہراموں کا دورہ کرتے ہیں جوکہ تین ہزار سال تک قدیم ہیں۔ ایسے ہی ایک اہرام کے متعلق ہم آج کی ویڈیو میں بتا رہے ہیں جوکہ انسان اور شیر کی شکل میں بنایا گیا ہے۔ اس اہرام کو قبروں کے لیے استعمال میں لایا جاتا تھا ، اس میں موجود سینکڑوں کمروں میں مُردوں کو “ممی” کی صورت میں دفنایا جاتا تھا۔ اہرام کو انسان اور شیر کی شکل میں بنانے کا مقصد انسان کی عقل، دانائی کو بیان کرنا تھا جبکہ شیر کی شکل میں اس کی طاقت کو نمایاں کرنا تھا۔

لاہور کا جم خانہ : سرکاری زمین پر امیروں کا سستا کلب

لاہور کا مشہور جم خانہ کلب، جہاں شہر کے طاقتور ترین بزنس مین اور سیاستدان بیٹھتے ہیں، ایک سوال کی زد میں آ گیا ہے۔ اس کلب کی ممبرشپ لاکھوں میں ہے اور یہاں کی سہولتیں زندگی کی عالی ترین آسائشیں فراہم کرتی ہیں، لیکن چونکا دینے والی بات تو یہ ہے کہ یہ کلب سرکاری زمین پر قائم ہے۔ اس سرکاری زمین کو لیز پر لے کر یہاں عالی شان کلب بنایا گیا جو غریب کی پہنچ سے بہت دور ہے لیکن اس زمین کا کرایہ محض 50 پسے فی کینال ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جہاں ایک غریب کی چھوٹی سی دکان کا کرایہ ہزاروں میں ہو، وہاں سرکاری زمین پر اتنی کم قیمت پر استحصال کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ ملک پر بڑھتے ہوئے قرضے اور عوام کی بڑھتی ہوئی مشکلات کے پیش نظر کیا یہ انصاف ہے کہ طاقتور لوگ انتہائی کم قیمتوں پر سرکاری وسائل سے فائدہ اٹھائیں؟

’اپنی دنیا آپ پیدا کر‘ شیخوپورہ میں بھی’بنوقابل‘ پروگرام کا آغاز

امیر جماعتِ اسلامی کا کہنا ہے کہ” پاکستان میں تعلیم کی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہے۔ انہوں نے شیخوپورہ میں ہونے والے بنو قابل پروگرام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ اس پروگرام کا حصہ بنے۔ یہ “بنو قابل” پروگرام پورے پاکستان میں نوجوانوں کے لیے سب سے کامیاب تعلیمی پروگرام بن چکا ہے، اور یہ محض ایک پروگرام نہیں بلکہ ان شاء اللہ ایک انقلاب ثابت ہوگا، ایک ریولوشن بنے گا، اور آپ سب اس کا حصہ ہوں گے۔ میں رضاکاروں سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے پیپرز تیار رکھیں، اور جیسے ہی بات مکمل ہو، یہاں سے اعلان کیا جائے اور پیپرز تقسیم کر دیے جائیں۔” اب میں دو تین اہم نکات پر بات کروں گا۔ پہلی بات یہ کہ جو موقع آپ کو ملا ہے، وہ ایک اہم فیصلہ ہے جو ہم نے الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت کیا تاکہ ایک ایسا پروگرام متعارف کرایا جا سکے جو ہمارے نوجوانوں کو مثبت سمت میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دے اور انہیں ایسی مہارتیں حاصل کرنے کا موقع فراہم کرے جو انہیں اپنے قدموں پر کھڑا کر سکیں۔ پاکستان میں تعلیم کی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہے۔ المیہ یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے تعلیم حاصل کرنا دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جو لوگ اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں، وہ بڑی قربانیوں  سے،” پیٹ کاٹ کر، محنت مزدوری کر کے انہیں تعلیم دلا رہے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی 25 کروڑ آبادی میں سے 10 کروڑ 50 لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں 2 کروڑ 75 لاکھ بچے، جن کی عمر 5 سے 16 سال کے درمیان ہے، اسکول سے باہر ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسا نظام مسلط کر دیا گیا ہے کہ پنجاب جیسے بڑے صوبے میں، جہاں کے بارے میں ہر روز اشتہارات میں ترقی اور نوجوانوں کی پذیرائی کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، عملی طور پر حالات یہ ہیں کہ تقریباً 1 کروڑ 25 لاکھ (12 ملین) بچے، جن کی عمریں 5 سے 16 سال کے درمیان ہیں، اسکول نہیں جا رہے۔ اس کے برعکس، اس مسئلے پر کام کرنے اور اسکولوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے، پہلے سے موجود سرکاری اسکولوں سے بھی جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انہیں مختلف این جی اوز کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ نتیجتاً، سرکاری تعلیمی نظام کا معیار اس قدر گرا دیا گیا ہے کہ اگر کوئی والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے معیاری تعلیم حاصل کریں، تو وہ انہیں نجی تعلیمی اداروں میں داخل کرواتے ہیں، جبکہ سرکاری ادارے محض مجبوری کا انتخاب بن چکے ہیں۔ یہ صورتحال ہمارے لیے لمحہِ فکریہ ہے، اور ہمیں اس کے سدباب کے لیے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ جبکہ آئینِ پاکستان یہ کہتا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کو معیاری اور مفت تعلیم فراہم کرنی ہے، جو کہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کتنے عرصے تک اس بوجھ کو اٹھا سکتا ہے؟ تعلیم کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، کیونکہ ہم ٹیکس دیتے ہیں، یہاں تک کہ موبائل کے استعمال پر بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہ ہمارا حق ہے کہ ہمیں معیاری اور مفت تعلیم ملے۔ میں آپ سب سے یہ عہد لینا چاہتا ہوں کہ جو بچے اسکول سے باہر ہیں یا معیاری تعلیم سے محروم ہیں، ان کے لیے آپ آواز بلند کریں گے اور اپنے اس حق کو حکمرانوں سے منوا کر رہیں گے۔ پاکستان کے ہر بچے کو معیاری تعلیم ملنی چاہیے۔ تعلیم کو دولت کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر فراہم کیا جانا چاہیے۔ تمام انسان برابر ہیں، کوئی بھی پیدائشی طور پر ذہین نہیں ہوتا۔ یہ ماحول اور مواقع ہوتے ہیں جو کسی شخص کی صلاحیتوں کو نکھارتے اور اسے آگے بڑھنے کا موقع دیتے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سب کے لیے برابر” کے مواقع فراہم کرے تاکہ ہر فرد اپنی اہلیت کے مطابق ترقی کر سکے۔ پاکستان ایک نوجوانوں کا ملک ہے، جہاں 30 سال تک کی عمر کے افراد کی تعداد 60 فیصد سے زائد ہے، جبکہ 40 سال تک کی عمر کے افراد کی تعداد 80 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ 20 کروڑ کی آبادی میں نوجوانوں کی یہ بڑی تعداد موجود ہے، لیکن بدقسمتی سے انہیں معیاری تعلیم کے مواقع میسر نہیں۔ اگر آج کی دنیا میں کسی چیز کے ذریعے ایک ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے تو وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کون سا سرکاری ادارہ ایسا ہے جو ایک لاکھ روپے سے کم فیس میں ڈگری پروگرام فراہم کر رہا ہو؟ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غریب طبقہ تو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے، اور متوسط طبقہ بھی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ جو لوگ کسی نہ کسی طرح تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں، جبکہ نجی اداروں میں تعلیم مزید مہنگی ہے۔ مزید پڑھیں: ڈاکٹر ذاکر نائیک کی منصورہ لاہور آمد، امیر جماعت اسلامی سے ملاقات اس صورتحال میں نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں اور اس تحریک کا حصہ بنیں، کیونکہ تعلیم ہمارا حق ہے، خیرات نہیں۔ ہم فری ایجوکیشن، معیاری ایجوکیشن اور آئی ٹی ایجوکیشن کا مطالبہ کرتے ہیں اور حکومت سے اپنا حق چھین کر لیں گے۔ یہ صرف زبانی مطالبہ نہیں، بلکہ ہم نے دنیا کو عملی طور پر دکھا دیا ہے کہ اگر خلوصِ نیت سے کام کیا جائے تو ایک ادارہ اور ایک تنظیم لاکھوں نوجوانوں کو انقلاب کا حصہ بنا سکتی ہے۔ ہمارے اس سفر کا آغاز کراچی سے ہوا، اور دو سال کے اندر چار لاکھ نوجوان ہمارے پروگرام میں رجسٹر ہو چکے ہیں، جن میں سے 50 ہزار سے زائد طلبہ کورس مکمل کر کے سرٹیفکیٹ حاصل کر چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر یا تو ملازمت حاصل کر چکے ہیں یا فری لانسنگ کر رہے ہیں، جو اس پروگرام کی سب سے بڑی کامیابی

قرضوں کے بوجھ تلے دبی بے حال معیشت، متبادل کیا ہے؟

ورلڈ بینک کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کا کُل بیرونی قرضہ 130 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے جو اس کی اوسط سالانہ برآمدات سے 352 فی صد زیادہ ہے۔ گزشتہ حکومت کی نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے ملک پر واجب الادا بیرونی قرضے کے حجم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ملک کہا تھا۔ مالی سال 25-2024  کے بجٹ میں اخراجات کا سب سے بڑا حصہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کا ہے جس کی مد میں 9775 ارب روپے ادا کیے جائیں گے۔ یہ رقم دفاعی اخراجات سے تقریبا چار گنا زیادہ ہے۔ فیڈرل بیورو آف ریونیو نے اس سال بجٹ میں 12900 ارب روپے تک ٹیکس جمع کرنے کا ہدف رکھا ہے اور یہ رقم گزشتہ سال کے مجموعی ہدف سے 40 فی صد زیادہ ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے 6 سے 8 ارب ڈالر کا قرضہ لیا ہے اور اس قرض کی شرائط محنت کش طبقے اور عام لوگوں کے لیے معاشی طور پر نہایت تباہ کن ہیں۔ اس بجٹ میں آئی ایم ایف کے حکم پر گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا گیا۔ جبکہ تنخواہ میں اضافہ ملک میں مہنگائی کی موجودہ شرح سے کئی گنا کم ہے۔ حل کیا ہے؟ سابق صوبائی وزیرخزانہ اور سابق امیر جماعت اسلامی کے مطابق مخلص قیادت کا فقدان، کرپشن اور اشرافیہ کی مراعات ہمارے معاشی مسائل کی جڑ ہیں۔ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوں گے تب تک عوام معیشت کی بہتری کے لیے عملاً حکومت اور ادروں کا ساتھ ضروری تعاون نہیں کریں گے۔ معروف معیشت دان قانت خلیل اللہ کے مطابق پاکستان کے سنگین معاشی مسائل کا حل مکمل ریزرو بینکنگ کا نفاذ ہے۔ جو کہ عین اسلامی اصولوں کے مطابق ہے۔ یہ منظم مالیاتی نظام بھاری سرکاری قرضوں کے بوجھ اوران پر سود کے اخراجات کو ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ نظام ان بنیادی اصولوں پر کام کرے گا ۱۔تجارتی بینکس قرض جاری کرنے اور انویسٹمنٹ کرنے کے عمل میں نیا پیسہ /کرنسی تخلیق نہیں کرسکیں گے۔ ۲۔ پیسہ تخلیق کرنے کی صلاحیت ایک خود مختار ادارے جیسے اسٹیٹ بینک کو منتقل کی جائے گی جو جی ڈی پی میں اضافے کے برابر نیا پیسہ تخلیق کرے گا تاکہ مہنگائی یا افراط زر نہ ہو۔ فل ریزرو سسٹم میں، بینکوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنے تمام ڈپازٹس کیلئے 5 فیصد کی جگہ 100فیصد تک مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی رکھیں۔ نتیجتاً، بینک کے قرضوں سے نیا پیسہ تخلیق کرنے کا عمل بند ہو جائے گا۔ اس نظام میں حکومت کا چھ ہزار ارب کا سودی خرچ ختم ہوجائے گا اور اسکے پاس ٹیکس کے علاوہ تقریباً 2ہزار ارب کی نئی تخلیق کردہ کرنسی ہوگی۔ اس لیے حکومت کو اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے بینکوں سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، جس سے افراط زر کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی ختم ہوجائے گی ۔ فل ریزرو بینکنگ پاکستان کے سنگین اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جدید اور پائیدار حل پیش کرتی ہے، اور ایک طویل عرصے بعد مالیاتی استحکام کو یقینی بنا سکتی ہے۔

ہمیں جنگ کے بعد فلسطینی بیانیہ تبدیل کرنا چاہیے، علی ابو رزق

اسلام آباد میں “ایکو آف فلسطین” کے نام سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مقامی اور عالمی شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس جماعت اسلامی کی جانب سے کرائی گئی جس میں امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس میں نشریاتی ادارے الجزیرہ کے صحافی علی ابو رازق  نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ”غزہ میں نسل کشی کے بعد ہمیں ایک نیا بیانیہ اپنانا چاہیے کیوں جنگ کے بعد ایک نئی قسم کے سامعین سامنے آئے ہیں”۔

ٹیم کرکٹ کھیلے ہمارے جذبات سے نہیں،شائقین نے سینئرز کو تارے دکھا دیے

چیمپئنز ٹرافی میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی سے شائقین مطمئن دکھائی نہیں دے رہے۔ شائقین نے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی سے اپیل کی ہے کہ ان کھلاڑیوں کو فوری طور پر گھر بھجوایا جائے اور نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے۔