مستقبل کی دنیا کا دروازہ: فائیو جی ٹیکنالوجی پاکستان کو بدلنے کے لیے تیار

5جی ٹیکنالوجی جدید دنیا کی ضرورت پوری کرتے ہوئے تیز ترین انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کررہی ہے۔ 5 جی  نے 2019 کے بعد ٹیلی کمیونیکیشن کی دنیا میں 4 جی کو پچھاڑ کر اپنی جگہ بنائی۔ یہ انٹر نیٹ کی رفتار کو اس حد تک بڑھاتی ہے کہ ڈیٹا ملٹی گیگا بٹ کی رفتار سے ٹریول کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف رابطے بہتر ہو رہے ہیں بلکہ سمارٹ شہروں، خودکار گاڑیوں اور صحت کے شعبے میں ریموٹ سرجری جیسے انقلابی اقدامات کو بھی ممکن بنایا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ٹیکنالوجی تعلیمی اور معاشی ترقی کے لئے نئی راہیں بھی ہموار کر رہی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی معیشت صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں کو کس طرح بدل رہی ہے؟5جی ٹیکنالوجی ریموٹ لرننگ اور انٹرایکٹو کلاس رومز تک آسان رسائی کی مدد سے تعلیم کے شعبے میں انقلاب برپا کر رہی ہے، ٹیلی میڈیسن اور ریموٹ سرجری کو حقیقت میں بدل کر صحت کے شعبے میں مزید جدت لائی جارہی ہے، اسمارٹ انڈسٹریز اور ڈیجیٹل مارکیٹ کو فروغ دے کر نئے معاشی مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح سمارٹ سینسرز اور ڈرونز کے ذریعے فصلوں کی بہتر نگرانی اور پانی کے کم استعمال کو یقینی بنا کر زراعت میں بھی جدیدیت لائی جارہی ہے۔ ورچوئل ریئلٹی اور الٹرا ایچ ڈی اسٹریمنگ کو زیادہ تیز اور ہموار بنا کر انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو نئی بلندیاں لے جایا جا رہا ہے۔ اسی طرح میڈیا اور کنزیومر ایپلی کیشنز میں 254 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا، جس نے مواد کی ترسیل اور تفریح کو نیا رخ دیا۔ انڈسٹریل مینوفیکچرنگ میں 5جی نے 134 بلین ڈالر کا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ پروڈکشن کو تیز اور بہتر بنایا۔ مزید براں فنانشل سروسز ایپلی کیشنز کے شعبے کو 85 بلین ڈالر کا فائدہ ہوا، ساتھ ہی ڈیجیٹل لین دین محفوظ اور تیز ہوا۔5G صرف ایک تیز انٹرنیٹ نہیں بلکہ ایک مستقبل کی دنیا کا دروازہ ہے جہاں ہر کاروبار زیادہ مؤثر، تیز اور جدید ہوتا جا رہا ہے۔

پتنگ بازی کرنے والے کے والد کے خلاف مقدمہ، سڑک پر پٹائی اور گھر مسمار کرنے کی وارننگ

اسلام آباد پولیس کے ایک افسر کی ویڈیو سوشل ٹائم لائنز پر وائرل ہوئی ہے جس میں وہ پتنگ بازی کرنے والوں کے لیے منفرد قسم کی سزاؤں کا اعلان کر رہے ہیں۔ ویڈیو میں پولیس افسر کو مبینہ طور پر اسلام آباد کی ایک مقامی مسجد میں اعلان کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ پولیس افسر اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہتے ہیں میں تھانہ سیکرٹریٹ کا ایس ایچ او اشفاق وڑائچ بات کر رہا ہوں۔ انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو پتنگ بازی سے منع کریں، کیونکہ یہ کھیل تفریح تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک خونی کھیل بن چکا ہے جس میں ہر سال کئی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ ایس ایچ او اشفاق وڑائچ نے اس بات پر زور دیا کہ اگر کسی کا بچہ پتنگ بازی کرتے ہوئے پکڑا گیا تو اس کے والد پر ایف آئی آر درج کی جائے گی اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود ان بچوں کو سڑک پر جوتے مار کر سزا دیں گے اور ان کے گھروں کو بھی گرایا جائے گا۔ دوسری جانب پتنگ بازی کے باعث بڑھتی ہوئی اموات پر پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ وہ پورے سال خاص طور پر بہار کے موسم سے پہلے اس معاملے پر کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ پولیس ترجمان کے مطابق  پتنگ بازی پر پابندی کے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر 2855 مقدمات درج کیے گئے ہیں اور 2991 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یاد رہے کے گزشتہ برس فیصل آباد میں ایک افسوسناک سانحہ پیش آیا تھا جس میں 25 سالہ نوجوان گلے پر ڈور پھرنے کی وجہ سے موقع پر ہی دم توڑ گیا تھا۔ یہ نوجوان موٹرسائیکل پر سوار گھر کو جا رہا تھا مگر راستے میں پتنگ کی تیز ڈور نوجوان کی گردن پر پھر گئی، جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی۔ اس واقعے کے فوراً بعد پولیس حکام نے تحقیقات شروع کر دیں اور ساتھ ہی پتنگ بازی کی روک تھام کے لیے مزید اقدامات کا فیصلہ کیا تھا۔ پولیس کے مطابق اس دوران ایک لاکھ سے زائد پتنگیں ضبط کی گئیں اور کئی مقدمات درج کیے گئے۔ پولیس حکام کا کہنا  ہے کہ پتنگ بازی کی روک تھام کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں، والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس خطرناک کھیل سے بچائیں تاکہ کسی بے گناہ کی جان نہ جائے۔

ماحولیاتی تبدیلی: کیا زمین کو بچانے کا وقت ختم ہو رہا ہے؟

#pakistanmatters, #gobalwarming, #pkmatters

ماحولیاتی تبدیلی، جسے گلوبل وارمنگ بھی کہا جاتا ہے، دنیا بھر میں درجہ حرارت میں اضافہ اور قدرتی ماحول کی خرابی کا باعث بن رہی ہے، جس کے سنگین اثرات پاکستان جیسے ممالک پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق، انسانی سرگرمیاں جیسے فوسل فیولز کا استعمال اور جنگلات کی کٹائی اس تبدیلی کے اہم عوامل ہیں۔ اس کی وجہ سے موسموں میں بے ترتیبی، گرمیوں میں شدت، سردیوں کا طویل ہونا اور سموگ جیسے مسائل جنم لے چکے ہیں۔ امریکا جیسے ممالک کی جانب سے ماحولیاتی معاہدوں سے انکار، جیسے کہ پیرس معاہدہ، عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔ اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف قدرتی وسائل کو بچایا جا سکے بلکہ انسانوں کی صحت اور معیشت کو بھی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔  پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے مسائل میں فصلوں کی پیداوار میں کمی، پانی کی کمی اور پینے کے صاف پانی تک رسائی کا فقدان، صحت کے مسائل، جیسے اسموگ اور ہیٹ اسٹروک اور سیلاب اور طوفانوں کے باعث بنیادی ڈھانچے کی تباہی شامل ہے۔

گھنٹوں کا سفر منٹوں میں بدلنے والا بی آر ٹی منصوبہ تاخیر کا شکار

ملیر ہالٹ سے لے کر نمائش چورنگی تک بننے والے اس پروجیکٹ کا ابتدائی طور پر لاگت کا تخمینہ 79 ارب روپے تھا جو موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق 139 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس پروجیکٹ کو ایک پرائیوٹ کمپنی ماس ٹرانزٹ بنا رہی ہے۔ دنیا بھر میں جب بھی کسی منصوبے کا آغاز کیا جاتا ہے تو اس کےمتبادل روٹس فرایم کیے جاتے ہیں تاکہ عوام کو کسی پریشانی کا سامنہ نہ کرنا پڑے مگر اس پروجیکٹ کی وجہ سے لوگ منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے کرنے پر مجبور ہیں، یونیورسٹی روڈ پر کراچی کی دو سرکاری جامعات کراچی یونیورسٹی اور جامعہ اردو بھی موجود ہیں جبکہ گلشن اقبال ، گلستان جوہر  اور اسکیم 33 میں رہنے والے شہریوں کا گزر بھی اسی روڈ سے ہوتا ہے جو لاکھوں کی تعداد میں روزانہ سفر کرتے ہیں۔ کراچی کے انفراسکٹریکچر کو بہتر طور پر جاننے والے ڈیموگرافر اور اربن پلینر عارف حسن کو بے آر ٹی ریڈلائن پروجیکٹ میں پلینگ کا شدید فقدان  نظر آتا ہے ان کی رائے میں  بی آر ٹیز بڑی تعداد میں لوگوں کو فائدہ  نہیں دے سکیں گی جبکہ ہر روٹ پر بڑی بسوں کو لاکر سفر کی بہتر سہولیات فراہم کی جاسکتی تھی۔ 2001 سے 2005 پرشہری ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ  رہنے والے قاضی صدر الدین سمجھتے ہیں کہ بی آر ٹی گرین لائن کا منصوبہ بھی نامکمل ہے اس ٹریک پر اب بھی ٹریفک کے مسائل موجود ہیں  جبکہ اسی دوران  خطیر رقم سے بی آر ٹی ریڈ لائن کی تعمیر شروع کردی  اور لوگوں کو متبادل راستہ فراہم نہیں کیا گیا کچھ سوچے سمجھے بغیر یہ پروجیکٹ بنایا جارہا ہے جو کہ کسی طور بھی وائبل نہیں ہے۔ اس پروجیکٹ کی تعمیر کا بڑاحصہ  گلشن اقبال میں ہے ٹاؤن چیئرمین ڈاکٹر فواد احمد کہتے ہیں کہ  گلشن اقبال کے رہائشی  بالخصوص  اس سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں مین  یونیورسٹی روڈ اس وقت ایک پتلی گلی میں تبدیل ہوگئی ہے تعمیرات کے دوران کئی دفعہ پانی کی لائن بھی ڈیمج ہوئی جس کے سبب  رہائشی کئی دنوں تک پا نی  کی فراہمی سے محروم  رہے۔ عارف حسن سمجھتے ہیں کہ حکومت کی ترجیح عوام نہیں ہے جبھی اس پروجیکٹ کو اب تک مکمل نہیں گیا ہے۔ قاضی صدرالدین کی رائے میں ماضی میں شہریوں کو گرین لائن کا تحفہ دیا گیا تھا  جو کہ ایک مؤثر پلاننگ کا نتیجہ تھا اس وقت سارا مسئلہ عدم حکمت عملی کا ہےجو کہ کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ میئر کراچی پہلے ہی  کچھ تکنیکی مسائل کو وجہ بنا کر یہ بات کہہ چکے ہیں کہ یہ پروجیکٹ مزید دو سال تاخیر کا شکار ہوچکا ہے۔  ہمارے ذرائع کے مطابق ایک طرف ڈالر ریٹ کا بڑھ جانا اس پروجیکٹ میں تاخیر کی وجہ ہے جبکہ دوسرا اہم مسئلہ شہری اداروں اور ماس ٹرانسزرٹ کے درمیان ورکنگ ریلیشن نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے کراچی کے لاکھوں شہری اذیت کا شکار ہورہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے دور میں اب آپ کو کئی بار اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل فون استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہےپاور بینک اس کا حل ہے مگر بجلی نہ ہو توپاور بینک بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ کراچی کے نوجوان غلام مصطفی نے اس مسئلے کا حل نکال لیا ہے آئیے انہیں کی زبانی جانتے ہیں۔

کوئی چھت نہ باقاعدہ انتظام، کراچی کا منفرد سی فوڈ پوائنٹ

Sea food

روشنیوں کا شہر کراچی اپنے منفرد اور لذیز کھانوں کی بدولت ملک بھر میں مشہور ہے، شہر قائد کا اسٹریٹ فوڈ کلچر تو اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کے کھانے منفرد ذائقے کے ساتھ ساتھ نہایت سستے بھی ہوتے ہیں۔ ‘راشد سی فوڈ پوائنٹ’ کراچی کا ایسا فوڈ پوائنٹ ہے جس کی ناکوئی چھت ہے اور نہ ہی کوئی باقاعدہ انتظام ہے مگر پھر بھی گاہکوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ مچھلی کی خوشبو دور دور سے لوگوں کو کھینچ لاتی ہے۔ راشد سی فوڈ کے مالک محمد راشد کا دعویٰ ہے کہ “پہلے مچھلی کا باربی کیو صرف بڑے ہوٹلوں پر ملتا تھا اور اب جو یہ ہر جگہ مل رہا ہے یہ محنت میری ہے۔” گزشتہ 8 سالوں سے راشد کے ہاتھ سے بنی سی فوڈ کھانے والے شہری کا کہنا ہے کہ انہوں نے شروع سے ہی معیار کو برقرار رکھا ہوا ہے، ہمارے پاس جو بھی مہمان آتا ہے ہم یہاں ہی آتے ہیں۔

حکومت کے وعدے اور بجلی کا بحران: حقائق اور افواہیں

پاکستان، ایک ایسا ملک جو توانائی کے بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ ایک طرف حکومت کے دعوے اور وعدے، اور دوسری طرف عوام بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ الیکشن 2024 کے دوران ہر سیاسی جماعت نے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے وعدے کیے۔ حکومتی شخصیات کے بیانات کو یاد کریں تو کہا کچھ تھا، کیا کچھ اور۔ سندھ میں اکثریت رکھنے والے حکومتی اتحادی بلاول بھٹو اور وزیر اعلی پنجاب مریم نواز دونوں نے 200 اور 300 یونٹ تک بجلی میں سبسڈی دینے کا اعلان کیا مگر پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں ابھی بھی3 سے 4 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ اسی طرح سندھ میں بھی بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اور بیان میں کہا گیا کہ ہم بجلی کی قیمتوں میں 50 روپے تک کمی کریں گے۔ عوام کو سستی اور معیاری بجلی فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ دعوے صرف دعوے ہی رہ گئے، اور عوام کو بجلی کے بلوں کی شکل میں نئے ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے بجلی کے بل میں اصل بجلی کے استعمال سے زیادہ ٹیکس شامل ہیں؟عوام طرح طرح کے ٹیکسز دے رہے ہیں ۔یہ سب ٹیکس عوام کو اس بجلی کے لیے ادا کرنے پڑتے ہیں، جو وہ استعمال ہی نہیں کرتے۔ جب عوام غربت اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، حکومت اپنے مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کر رہی ہے، صرف 2024 میں حکومتی وزراء کی تنخواہوں میں 35% اضافہ ہوا۔ حتیٰ کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہیں کئی گنا بڑھا دی گئی ہیں۔ سرکاری افسران کو مفت بجلی، گاڑیاں، اور دیگر مراعات دی جا رہی ہیں۔ پارلیمنٹ میں وزراء کے سفر اور دیگر اخراجات کے لیے اربوں روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب عوام اپنے بجلی کے بل تک ادا کرنے کے قابل نہیں۔” عوام بجلی کے بل بھرنے کے لیے اپنے زیورات اور زمینیں بیچ رہے ہیں، جبکہ حکومتی نمائندے سرکاری مراعات کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ کیا یہ عوامی خدمت ہے؟۔پاکستان میں بجلی کا بحران صرف ٹیکسوں یا مہنگائی کا مسئلہ نہیں۔ یہ ایک نظامی خرابی ہے، جہاں بجلی کی ترسیل کا نظام ناقص ہے۔ آئی پی پیز کے خفیہ معاہدے عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔ کپیسٹی پیمنٹ کے تحت عوام اس بجلی کی قیمت ادا کر رہے ہیں جو وہ استعمال نہیں کرتے۔گزشتہ سال بجلی کے بلوں کی وجہ سے 18 افراد نے اپنی زندگیاں ختم کر لیں۔ یہ محض اعدادوشمار نہیں، بلکہ ہر موت کے پیچھے ایک کہانی ہے۔کچھ ماہرین کے مطابق حکومت اگر چاہے تو اس بحران کو حل کر سکتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ عوام کے لیے فیصلے کیے جائیں، نہ کہ نجی کمپنیوں کے مفادات کے لیے۔ کیا حکومت اپنے وعدے پورے کرے گی، یا عوام مزید قربانیاں دیں گے؟

پاکستان کا لیگیسی سے ڈیجیٹل میڈیا کا سفر: ایک عہد کا زوال یا نئے دور کی دستک

ایک زمانہ تھا… جب خبر کا ہر لفظ ایک سچائی کی گواہی ہوتا تھا۔ اخبار کی سرخی لوگوں کے دن کا آغاز ہوا کرتی تھی، اور ٹیلی ویژن پر چلنے والی بریکنگ نیوز فیصلہ کن سمجھی جاتی تھی۔ مین اسٹریم میڈیا اقتدار کے ایوانوں میں بھی دھڑکن کی طرح دھڑکتا تھا۔“لیکن وقت کا پہیہ رکا نہیں! وہ اخبارات، وہ نیوز بلیٹنز، وہ تحقیقاتی رپورٹس سب کچھ آج بھی موجود ہے لیکن کیا عوام کی توجہ بھی وہیں ہے؟  ایک انقلاب آیا… ڈیجیٹل انقلاب! اور جیسے جیسے یہ بڑھا، ویسے ویسے مین اسٹریم میڈیا کے اقتدار کی عمارت میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ مگر یہ سوال آج بھی زندہ ہے: کیا یہ زوال ہے… یا ایک نیا جنم؟  یہ وہ زمانہ تھا جب خبر دینے کا حق صرف چند ہاتھوں میں تھا۔ صحافی تحقیق کرتے، معلومات کی چھان بین کرتے، اور پھر ایک ذمہ داری کے ساتھ عوام تک خبر پہنچاتے۔ لوگ خبروں پر یقین کرتے تھے، کیونکہ خبر دینے والے کا اعتبار تھا۔ پھر آیا 21ویں صدی کا سب سے بڑا طوفان: ڈیجیٹل میڈیا! جس نے خبر کی تعریف بدل کر رکھ دی۔ اب ہر کوئی رپورٹر تھا، ہر کوئی اینکر، ہر کوئی مبصر… اور ہر موبائل فون ایک نیوز چینل! خبر کی رفتار تو تیز ہو گئی، مگر سچائی پیچھے رہ گئی۔ آج، ہم ایک ایسے وقت میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ‘کلک بیٹ’ اور ‘ریٹنگ’ نے خبر کی حقیقت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ کیا واقعی مین اسٹریم میڈیا کا وقت ختم ہو چکا؟ کیا یہ صرف ماضی کی ایک یادگار بن کر رہ جائے گا؟ یا پھر یہ ایک نئے انداز میں دوبارہ ابھرے گا؟ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں سچ اور جھوٹ کے درمیان لکیر مدہم ہو چکی ہے۔ خبر کی حقیقت کا فیصلہ ‘ویوز’ اور ‘لائکس’ کی بنیاد پر کیا جانے لگا ہے۔ 2030 میں میڈیا کیسا ہو گا؟ کیا ٹی وی چینلز باقی رہیں گے؟ کیا اخبارات مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے؟ کیا خبریں لکھنے کی بجائے آرٹیفیشل انٹیلیجنس خود خبریں بنائے گی؟ یہ میڈیا کا نیا دور ہے۔ ایک طرف آزادی، دوسری طرف ذمہ داری۔ ایک طرف رفتار، دوسری طرف سچائی۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس راستے کا انتخاب کریں گے؟۔یہ کہانی ختم نہیں ہوئی… یہ تو بس ایک نئے باب کا آغاز ہے!  

پاکستانی نوجوان نے کارخانوں، فصلوں کی نگرانی کے لیے اے آئی کیمرے متعارف کرا دیے

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں آئی ٹی ایکسپو کا دلچسپ اور معلوماتی میلا سجایا گیا۔ شرکا کے سامنے پیش کیے گئے اے آئی کیمروں  نے خوب توجہ سمیٹی۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ سی سی ٹی وی اور ڈرون کیمرے مانیٹرنگ اور نگرانی کے میدان میں منفرد پیشکش قرار دیے گئے ہیں۔ منتظمین کے مطابق آپ ان کیمروں کو اپنی مرضی کی کمانڈز دے کر کہیں سے بھی مانیٹر کر سکتے ہیں۔ اگر یہ کیمرے کسی کارخانے میں نصب ہوں، تو آپ کیمروں ہدایات دے سکتے ہیں کہ جتنے ڈبے بن رہے ہیں، ان میں سے اگر کوئی ڈبہ خراب ہو تو یہ فوری طور پر اس کی نشاندہی کرکے پروڈکشن چین کو اطلاع دیں گے۔ ایک کسان نے ڈرون کیمرے میں ایسی کمانڈ شامل کروائی ہے جس سے ڈرون اس کی فصلوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ اگر کسی جگہ فصل کمزور ہو رہی ہو، تو یہ ڈرون فوراً اطلاع دے کر کسان کو مسئلے کا حل نکالنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ جدید کیمرے نہ صرف سکیورٹی اور مانیٹرنگ کے لیے بہترین ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں استعمال کے لیے کارآمد ہیں۔

کھانے کے شوقین لاہوریوں نے “ہزاروں کھانے بنانے” کا مقابلہ سجا لیا

لاہور میں شیفس ایسوسی ایشن آف پاکستان اور کوتھم گروپ آف کالجز کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل کلینری چیمپئن شپ کا شاندار انعقاد کیا گیا۔ اس چار روزہ ایونٹ میں پاکستان اور دنیا بھر سے 5000 سے زائد شیفس اور کلینری طلباء نے حصہ لیا۔ اس ایونٹ میں 14 سے زائد ممالک کے معروف شیفس ججز کے طور پر شریک ہوئے، جنہوں نے عالمی معیار کے مطابق مقابلوں کا جائزہ لیا۔ چیمپئن شپ میں پاکستانی روایتی پکوان جیسے بریانی، نہاری اور کڑاہی، اور عالمی ذائقے جیسے پاستا، سوشی اور اسٹیکس پیش کیے گئے۔ اس کے علاوہ، پیسٹری آرٹس میں تخلیقی کیک اور چاکلیٹ کے فن پارے دیکھنے کو ملے، جو حاضرین کی توجہ کا مرکز بنے۔ یہ چیمپئن شپ 2017 سے ہر سال منعقد ہو رہی ہے اور کلینری آرٹس کے فروغ اور پاکستان کے ٹیلنٹ کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔ ایونٹ کو دیکھنے کے لیے لاہور اور پورے پاکستان سے لوگ بڑی تعداد میںآتے ہیں، جہاں کھانوں کے مقابلے، ورکشاپس اور فوڈ فیسٹیولز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ ایونٹ نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر کلینری ثقافت کو ایک نیا پہچان دیتا ہے۔

’ہم بھی دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں‘ لاہورمیں جدید ٹیکنالوجی کی شاندار نمائش

پاکستان کے سب سے بڑے ٹیکنالوجی فیسٹیول، فیوچر فیسٹ 2025، نے لاہور کے ایکسپو سینٹر میں تاریخ رقم کر دی۔ اس شاندار ایونٹ میں جدید ٹیکنالوجیز کی نمائش، عالمی ماہرین کی رہنمائی، اور نوجوانوں کے لیے انمول مواقع پیش کیے گئے۔ شرکاء سے بات کی گئی تو ہر چہرے پر امید کی ایک نئی کرن نظر آئی۔ عوام کا کہنا تھا کہ یہ ایونٹ نہ صرف پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کے لیے سنگ میل ہے بلکہ نوجوان نسل کے لیے ایک بہترین موقع بھی ہے۔ ایک نوجوان نے کہا: ‘یہاں آ کر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان بھی دنیا کے جدید ٹیکنالوجی نقشے پر جگہ بنانے کے لیے تیار ہے۔’ ایک اور شریک نے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ‘یہ ایونٹ ہمیں دکھا رہا ہے کہ ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں، ہم بھی دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں۔’ فیوچر فیسٹ 2025 سے نوجوانوں میں نئی امید جاگی ہے، اس فیسٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان نہ صرف ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے جائے گا بلکہ یہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ فیسٹیول، نوجوانوں کے خوابوں کو تعبیر دینے اور پاکستان کو ایک روشن مستقبل کی جانب لے جانے کا عزم ہے۔