گھنٹوں کا سفر منٹوں میں بدلنے والا بی آر ٹی منصوبہ تاخیر کا شکار

ملیر ہالٹ سے لے کر نمائش چورنگی تک بننے والے اس پروجیکٹ کا ابتدائی طور پر لاگت کا تخمینہ 79 ارب روپے تھا جو موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق 139 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس پروجیکٹ کو ایک پرائیوٹ کمپنی ماس ٹرانزٹ بنا رہی ہے۔ دنیا بھر میں جب بھی کسی منصوبے کا آغاز کیا جاتا ہے تو اس کےمتبادل روٹس فرایم کیے جاتے ہیں تاکہ عوام کو کسی پریشانی کا سامنہ نہ کرنا پڑے مگر اس پروجیکٹ کی وجہ سے لوگ منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے کرنے پر مجبور ہیں، یونیورسٹی روڈ پر کراچی کی دو سرکاری جامعات کراچی یونیورسٹی اور جامعہ اردو بھی موجود ہیں جبکہ گلشن اقبال ، گلستان جوہر  اور اسکیم 33 میں رہنے والے شہریوں کا گزر بھی اسی روڈ سے ہوتا ہے جو لاکھوں کی تعداد میں روزانہ سفر کرتے ہیں۔ کراچی کے انفراسکٹریکچر کو بہتر طور پر جاننے والے ڈیموگرافر اور اربن پلینر عارف حسن کو بے آر ٹی ریڈلائن پروجیکٹ میں پلینگ کا شدید فقدان  نظر آتا ہے ان کی رائے میں  بی آر ٹیز بڑی تعداد میں لوگوں کو فائدہ  نہیں دے سکیں گی جبکہ ہر روٹ پر بڑی بسوں کو لاکر سفر کی بہتر سہولیات فراہم کی جاسکتی تھی۔ 2001 سے 2005 پرشہری ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ  رہنے والے قاضی صدر الدین سمجھتے ہیں کہ بی آر ٹی گرین لائن کا منصوبہ بھی نامکمل ہے اس ٹریک پر اب بھی ٹریفک کے مسائل موجود ہیں  جبکہ اسی دوران  خطیر رقم سے بی آر ٹی ریڈ لائن کی تعمیر شروع کردی  اور لوگوں کو متبادل راستہ فراہم نہیں کیا گیا کچھ سوچے سمجھے بغیر یہ پروجیکٹ بنایا جارہا ہے جو کہ کسی طور بھی وائبل نہیں ہے۔ اس پروجیکٹ کی تعمیر کا بڑاحصہ  گلشن اقبال میں ہے ٹاؤن چیئرمین ڈاکٹر فواد احمد کہتے ہیں کہ  گلشن اقبال کے رہائشی  بالخصوص  اس سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں مین  یونیورسٹی روڈ اس وقت ایک پتلی گلی میں تبدیل ہوگئی ہے تعمیرات کے دوران کئی دفعہ پانی کی لائن بھی ڈیمج ہوئی جس کے سبب  رہائشی کئی دنوں تک پا نی  کی فراہمی سے محروم  رہے۔ عارف حسن سمجھتے ہیں کہ حکومت کی ترجیح عوام نہیں ہے جبھی اس پروجیکٹ کو اب تک مکمل نہیں گیا ہے۔ قاضی صدرالدین کی رائے میں ماضی میں شہریوں کو گرین لائن کا تحفہ دیا گیا تھا  جو کہ ایک مؤثر پلاننگ کا نتیجہ تھا اس وقت سارا مسئلہ عدم حکمت عملی کا ہےجو کہ کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ میئر کراچی پہلے ہی  کچھ تکنیکی مسائل کو وجہ بنا کر یہ بات کہہ چکے ہیں کہ یہ پروجیکٹ مزید دو سال تاخیر کا شکار ہوچکا ہے۔  ہمارے ذرائع کے مطابق ایک طرف ڈالر ریٹ کا بڑھ جانا اس پروجیکٹ میں تاخیر کی وجہ ہے جبکہ دوسرا اہم مسئلہ شہری اداروں اور ماس ٹرانسزرٹ کے درمیان ورکنگ ریلیشن نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے کراچی کے لاکھوں شہری اذیت کا شکار ہورہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے دور میں اب آپ کو کئی بار اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل فون استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہےپاور بینک اس کا حل ہے مگر بجلی نہ ہو توپاور بینک بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ کراچی کے نوجوان غلام مصطفی نے اس مسئلے کا حل نکال لیا ہے آئیے انہیں کی زبانی جانتے ہیں۔

کوئی چھت نہ باقاعدہ انتظام، کراچی کا منفرد سی فوڈ پوائنٹ

Sea food

روشنیوں کا شہر کراچی اپنے منفرد اور لذیز کھانوں کی بدولت ملک بھر میں مشہور ہے، شہر قائد کا اسٹریٹ فوڈ کلچر تو اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کے کھانے منفرد ذائقے کے ساتھ ساتھ نہایت سستے بھی ہوتے ہیں۔ ‘راشد سی فوڈ پوائنٹ’ کراچی کا ایسا فوڈ پوائنٹ ہے جس کی ناکوئی چھت ہے اور نہ ہی کوئی باقاعدہ انتظام ہے مگر پھر بھی گاہکوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں۔ مچھلی کی خوشبو دور دور سے لوگوں کو کھینچ لاتی ہے۔ راشد سی فوڈ کے مالک محمد راشد کا دعویٰ ہے کہ “پہلے مچھلی کا باربی کیو صرف بڑے ہوٹلوں پر ملتا تھا اور اب جو یہ ہر جگہ مل رہا ہے یہ محنت میری ہے۔” گزشتہ 8 سالوں سے راشد کے ہاتھ سے بنی سی فوڈ کھانے والے شہری کا کہنا ہے کہ انہوں نے شروع سے ہی معیار کو برقرار رکھا ہوا ہے، ہمارے پاس جو بھی مہمان آتا ہے ہم یہاں ہی آتے ہیں۔

حکومت کے وعدے اور بجلی کا بحران: حقائق اور افواہیں

پاکستان، ایک ایسا ملک جو توانائی کے بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ ایک طرف حکومت کے دعوے اور وعدے، اور دوسری طرف عوام بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ الیکشن 2024 کے دوران ہر سیاسی جماعت نے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے وعدے کیے۔ حکومتی شخصیات کے بیانات کو یاد کریں تو کہا کچھ تھا، کیا کچھ اور۔ سندھ میں اکثریت رکھنے والے حکومتی اتحادی بلاول بھٹو اور وزیر اعلی پنجاب مریم نواز دونوں نے 200 اور 300 یونٹ تک بجلی میں سبسڈی دینے کا اعلان کیا مگر پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں ابھی بھی3 سے 4 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ اسی طرح سندھ میں بھی بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اور بیان میں کہا گیا کہ ہم بجلی کی قیمتوں میں 50 روپے تک کمی کریں گے۔ عوام کو سستی اور معیاری بجلی فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ دعوے صرف دعوے ہی رہ گئے، اور عوام کو بجلی کے بلوں کی شکل میں نئے ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے بجلی کے بل میں اصل بجلی کے استعمال سے زیادہ ٹیکس شامل ہیں؟عوام طرح طرح کے ٹیکسز دے رہے ہیں ۔یہ سب ٹیکس عوام کو اس بجلی کے لیے ادا کرنے پڑتے ہیں، جو وہ استعمال ہی نہیں کرتے۔ جب عوام غربت اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، حکومت اپنے مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کر رہی ہے، صرف 2024 میں حکومتی وزراء کی تنخواہوں میں 35% اضافہ ہوا۔ حتیٰ کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہیں کئی گنا بڑھا دی گئی ہیں۔ سرکاری افسران کو مفت بجلی، گاڑیاں، اور دیگر مراعات دی جا رہی ہیں۔ پارلیمنٹ میں وزراء کے سفر اور دیگر اخراجات کے لیے اربوں روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب عوام اپنے بجلی کے بل تک ادا کرنے کے قابل نہیں۔” عوام بجلی کے بل بھرنے کے لیے اپنے زیورات اور زمینیں بیچ رہے ہیں، جبکہ حکومتی نمائندے سرکاری مراعات کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ کیا یہ عوامی خدمت ہے؟۔پاکستان میں بجلی کا بحران صرف ٹیکسوں یا مہنگائی کا مسئلہ نہیں۔ یہ ایک نظامی خرابی ہے، جہاں بجلی کی ترسیل کا نظام ناقص ہے۔ آئی پی پیز کے خفیہ معاہدے عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔ کپیسٹی پیمنٹ کے تحت عوام اس بجلی کی قیمت ادا کر رہے ہیں جو وہ استعمال نہیں کرتے۔گزشتہ سال بجلی کے بلوں کی وجہ سے 18 افراد نے اپنی زندگیاں ختم کر لیں۔ یہ محض اعدادوشمار نہیں، بلکہ ہر موت کے پیچھے ایک کہانی ہے۔کچھ ماہرین کے مطابق حکومت اگر چاہے تو اس بحران کو حل کر سکتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ عوام کے لیے فیصلے کیے جائیں، نہ کہ نجی کمپنیوں کے مفادات کے لیے۔ کیا حکومت اپنے وعدے پورے کرے گی، یا عوام مزید قربانیاں دیں گے؟

پاکستان کا لیگیسی سے ڈیجیٹل میڈیا کا سفر: ایک عہد کا زوال یا نئے دور کی دستک

ایک زمانہ تھا… جب خبر کا ہر لفظ ایک سچائی کی گواہی ہوتا تھا۔ اخبار کی سرخی لوگوں کے دن کا آغاز ہوا کرتی تھی، اور ٹیلی ویژن پر چلنے والی بریکنگ نیوز فیصلہ کن سمجھی جاتی تھی۔ مین اسٹریم میڈیا اقتدار کے ایوانوں میں بھی دھڑکن کی طرح دھڑکتا تھا۔“لیکن وقت کا پہیہ رکا نہیں! وہ اخبارات، وہ نیوز بلیٹنز، وہ تحقیقاتی رپورٹس سب کچھ آج بھی موجود ہے لیکن کیا عوام کی توجہ بھی وہیں ہے؟  ایک انقلاب آیا… ڈیجیٹل انقلاب! اور جیسے جیسے یہ بڑھا، ویسے ویسے مین اسٹریم میڈیا کے اقتدار کی عمارت میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ مگر یہ سوال آج بھی زندہ ہے: کیا یہ زوال ہے… یا ایک نیا جنم؟  یہ وہ زمانہ تھا جب خبر دینے کا حق صرف چند ہاتھوں میں تھا۔ صحافی تحقیق کرتے، معلومات کی چھان بین کرتے، اور پھر ایک ذمہ داری کے ساتھ عوام تک خبر پہنچاتے۔ لوگ خبروں پر یقین کرتے تھے، کیونکہ خبر دینے والے کا اعتبار تھا۔ پھر آیا 21ویں صدی کا سب سے بڑا طوفان: ڈیجیٹل میڈیا! جس نے خبر کی تعریف بدل کر رکھ دی۔ اب ہر کوئی رپورٹر تھا، ہر کوئی اینکر، ہر کوئی مبصر… اور ہر موبائل فون ایک نیوز چینل! خبر کی رفتار تو تیز ہو گئی، مگر سچائی پیچھے رہ گئی۔ آج، ہم ایک ایسے وقت میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ‘کلک بیٹ’ اور ‘ریٹنگ’ نے خبر کی حقیقت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ کیا واقعی مین اسٹریم میڈیا کا وقت ختم ہو چکا؟ کیا یہ صرف ماضی کی ایک یادگار بن کر رہ جائے گا؟ یا پھر یہ ایک نئے انداز میں دوبارہ ابھرے گا؟ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں سچ اور جھوٹ کے درمیان لکیر مدہم ہو چکی ہے۔ خبر کی حقیقت کا فیصلہ ‘ویوز’ اور ‘لائکس’ کی بنیاد پر کیا جانے لگا ہے۔ 2030 میں میڈیا کیسا ہو گا؟ کیا ٹی وی چینلز باقی رہیں گے؟ کیا اخبارات مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے؟ کیا خبریں لکھنے کی بجائے آرٹیفیشل انٹیلیجنس خود خبریں بنائے گی؟ یہ میڈیا کا نیا دور ہے۔ ایک طرف آزادی، دوسری طرف ذمہ داری۔ ایک طرف رفتار، دوسری طرف سچائی۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس راستے کا انتخاب کریں گے؟۔یہ کہانی ختم نہیں ہوئی… یہ تو بس ایک نئے باب کا آغاز ہے!  

پاکستانی نوجوان نے کارخانوں، فصلوں کی نگرانی کے لیے اے آئی کیمرے متعارف کرا دیے

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں آئی ٹی ایکسپو کا دلچسپ اور معلوماتی میلا سجایا گیا۔ شرکا کے سامنے پیش کیے گئے اے آئی کیمروں  نے خوب توجہ سمیٹی۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ سی سی ٹی وی اور ڈرون کیمرے مانیٹرنگ اور نگرانی کے میدان میں منفرد پیشکش قرار دیے گئے ہیں۔ منتظمین کے مطابق آپ ان کیمروں کو اپنی مرضی کی کمانڈز دے کر کہیں سے بھی مانیٹر کر سکتے ہیں۔ اگر یہ کیمرے کسی کارخانے میں نصب ہوں، تو آپ کیمروں ہدایات دے سکتے ہیں کہ جتنے ڈبے بن رہے ہیں، ان میں سے اگر کوئی ڈبہ خراب ہو تو یہ فوری طور پر اس کی نشاندہی کرکے پروڈکشن چین کو اطلاع دیں گے۔ ایک کسان نے ڈرون کیمرے میں ایسی کمانڈ شامل کروائی ہے جس سے ڈرون اس کی فصلوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ اگر کسی جگہ فصل کمزور ہو رہی ہو، تو یہ ڈرون فوراً اطلاع دے کر کسان کو مسئلے کا حل نکالنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ جدید کیمرے نہ صرف سکیورٹی اور مانیٹرنگ کے لیے بہترین ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں استعمال کے لیے کارآمد ہیں۔

کھانے کے شوقین لاہوریوں نے “ہزاروں کھانے بنانے” کا مقابلہ سجا لیا

لاہور میں شیفس ایسوسی ایشن آف پاکستان اور کوتھم گروپ آف کالجز کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل کلینری چیمپئن شپ کا شاندار انعقاد کیا گیا۔ اس چار روزہ ایونٹ میں پاکستان اور دنیا بھر سے 5000 سے زائد شیفس اور کلینری طلباء نے حصہ لیا۔ اس ایونٹ میں 14 سے زائد ممالک کے معروف شیفس ججز کے طور پر شریک ہوئے، جنہوں نے عالمی معیار کے مطابق مقابلوں کا جائزہ لیا۔ چیمپئن شپ میں پاکستانی روایتی پکوان جیسے بریانی، نہاری اور کڑاہی، اور عالمی ذائقے جیسے پاستا، سوشی اور اسٹیکس پیش کیے گئے۔ اس کے علاوہ، پیسٹری آرٹس میں تخلیقی کیک اور چاکلیٹ کے فن پارے دیکھنے کو ملے، جو حاضرین کی توجہ کا مرکز بنے۔ یہ چیمپئن شپ 2017 سے ہر سال منعقد ہو رہی ہے اور کلینری آرٹس کے فروغ اور پاکستان کے ٹیلنٹ کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔ ایونٹ کو دیکھنے کے لیے لاہور اور پورے پاکستان سے لوگ بڑی تعداد میںآتے ہیں، جہاں کھانوں کے مقابلے، ورکشاپس اور فوڈ فیسٹیولز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ ایونٹ نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر کلینری ثقافت کو ایک نیا پہچان دیتا ہے۔

’ہم بھی دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں‘ لاہورمیں جدید ٹیکنالوجی کی شاندار نمائش

پاکستان کے سب سے بڑے ٹیکنالوجی فیسٹیول، فیوچر فیسٹ 2025، نے لاہور کے ایکسپو سینٹر میں تاریخ رقم کر دی۔ اس شاندار ایونٹ میں جدید ٹیکنالوجیز کی نمائش، عالمی ماہرین کی رہنمائی، اور نوجوانوں کے لیے انمول مواقع پیش کیے گئے۔ شرکاء سے بات کی گئی تو ہر چہرے پر امید کی ایک نئی کرن نظر آئی۔ عوام کا کہنا تھا کہ یہ ایونٹ نہ صرف پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کے لیے سنگ میل ہے بلکہ نوجوان نسل کے لیے ایک بہترین موقع بھی ہے۔ ایک نوجوان نے کہا: ‘یہاں آ کر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان بھی دنیا کے جدید ٹیکنالوجی نقشے پر جگہ بنانے کے لیے تیار ہے۔’ ایک اور شریک نے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ‘یہ ایونٹ ہمیں دکھا رہا ہے کہ ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں، ہم بھی دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں۔’ فیوچر فیسٹ 2025 سے نوجوانوں میں نئی امید جاگی ہے، اس فیسٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان نہ صرف ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے جائے گا بلکہ یہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ فیسٹیول، نوجوانوں کے خوابوں کو تعبیر دینے اور پاکستان کو ایک روشن مستقبل کی جانب لے جانے کا عزم ہے۔

ایل پی جی سلنڈر کو خیرباد، کراچی کے نوجوان نے الیکٹرک رکشہ متعارف کرا دیا

سائنس ایکسپو کراچی میں یو آئی ٹی یونیورسٹی کراچی کے ایک طالب علم  محمد تیمور نےٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم کام کر دیا۔ انہوں نے ایک ایسا رکشہ تیار کیا ہے جس میں ایل بی جی سلنڈر لگانے کی ضرورت نہیں رہی۔ ڈھائی لاکھ روپے میں ایل پی جی سے چلنے والا رکشہ الیکٹرک رکشے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ محمد تیمور کا کہنا تھا کہ” گورنمنٹ  آف پاکستان  کے ساتھ مل کر ہم نے ایل پی جی سے چلنے والا رکشے کو  الیکٹرک  رکشہ کے اندر تبدیل  کر دیا ہے۔ٹو اسٹروک رکشہ جسے آلودگی کی وجہ سے گورنمنٹ کی جانب سے 2012 میں بند کر دیا گیا تھا۔الیکٹرک رکشہ میں تبدیل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس پر لگی پابندی ہٹ سکے۔یہ بہت زیادہ آلودگی پیدا کر رہا تھا اس عنصر کو ہم نے ختم کیا ہے۔ اس کا انجن ہم نے ختم کر دیا ہے۔ فیول پرائس کم کرنے کے لیے  ایل پی جی یا سی این جی کٹ استعمال کی جاتی تھی جو محفوظ نہیں تھی۔ مسافروں اور اسکول کے بچوں کیلئے محفوظ نہیں تھا۔ ہم نے سی این جی اور ایل پی جی ہٹا کر بیٹری اور موٹر لگا دی  جو کہ مؤثر بھی ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ” نارمل رکشہ میں 12 روپے فی کلومیٹر دینے پڑتے ہیں۔ الیکٹرک رکشہ میں یہ قیمت 3 روپے فی کلومیٹر ہےاس کے اندر لگی بیٹری سے یہ ایک چارج میں 50کلومیٹر چلتا ہے۔یہ گھر کی ساکٹ سے بھی چارج ہو سکتا ہے۔ اس کے اندر پورٹیبل چارجر موجود ہے اسے آپ اپنے ساتھ لے جا بھی سکتے ہیں۔ ڈرائیور سمیت 4 بندے اس میں بٹھا کر چلا کر ٹیسٹ کر چکے ہیں۔

کراچی کے نوجوان کی جدید ایجاد! اب اے آئی ویڈیوز کی حقیقت معلوم ہو سکے گی، مگر کیسے؟

آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ اب اے آئی کی مدد سے تصاویر کے ساتھ ساتھ ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ کراچی کے نوجوان نے ایک ایسا سوفٹ ویئر بنا دیا ہے جس کی مدد سےاے آئی سے بنائی گئی ویڈیوز کی حقیقت معلوم ہوسکے گی۔ میمن انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں مینیجمنٹ سائنس کے طالب علم جہانذیب خان نے یہ کارنامہ کراچی میں ہونے والے سائنس ایکسپو میں انجام دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ” ہم نے ایف آئی اے کا پروجیکٹ بنایا ہے جو کہ ڈیپ فیک ویڈیو ڈیٹیکٹ کرتا ہے۔ آج کل اے آئی سے بہت سی ڈیپ فیک ویڈیوز بنائی جا رہی ہیں لیکن ان کو ڈیٹیکٹ نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے ایک پروٹوٹائپ بنایا ہے ۔ اس کو کوئی بھی وڈیو دکھائیں گے تو یہ بتائے گا کہ یہ ویڈیو اے آئی سے بنی ہے یا اصلی ویڈیو ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ “ابھی یہ صرف پروٹوٹائپ ہے لیکن ہم جلد ہی اسے ویب سائٹ اور ایپلیکیشن کے طرف لا رہے ہیں”۔

پاکستان کا پہلا سائبر ٹرک: تخلیق محنت اور عزم کی مثال

“یہ کہانی ہے خوابوں کی سرزمین پر ایک ایسے کارنامے کی، جو تخلیق، محنت اور عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لاہور کے سعد سہیل، جنہوں نے ایک ایسا خواب دیکھا جسے حقیقت میں ڈھالنے کی ہمت کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔ دنیا کے مشہور ٹیسلا سائبر ٹرک کی طرز پر ایک شاندار نقل اب پاکستان میں تیار ہو چکی ہے۔ سعد سہیل کے مطابق، یہ خیال انہیں تقریباً ایک سال پہلے آیا۔ ان کے دوستوں نے ان کی بھرپور سپورٹ کی، اور یوں ایک منفرد خواب کی بنیاد رکھی گئی۔ محض 10 لاکھ روپے کی لاگت اور 6 ماہ کی شب و روز محنت کے بعد، یہ پاکستانی سائبر ٹرک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سڑکوں پر چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ جب سعد اور ان کی ٹیم اسے لے کر پہلی بار سڑک پر نکلے، تو لوگ حیرت میں گم ہو گئے۔ یہ گاڑی ظاہری طور پر ٹیسلا کے مشہور سائبر ٹرک جیسی دکھائی دیتی ہے، لیکن اس کے پیچھے چھپی ہے پاکستانی ذہانت، ہنر اور لگن کی بے مثال کہانی۔ سعد سہیل اور ان کی ٹیم نے اس پراجیکٹ پر ایسا کام کیا ہے، جو ہر تفصیل میں مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ تاہم، جہاں اس کارنامے کی تعریف ہو رہی ہے، وہیں کچھ حلقے اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ایلان مسک کے مشہور سائبر ٹرک کی محض ایک نقل ہے، اور یہ کہ پاکستانیوں کو بجائے دوسروں کو کاپی کرنے کے، اپنے منفرد آئیڈیاز پر کام کرنا چاہیے تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسی صلاحیتوں کو اگر تخلیقیت اور جدت کے ساتھ استعمال کیا جائے، تو یہ پاکستان کو عالمی سطح پر پہچان دلانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔   سوشل میڈیا پر اس گاڑی نے دھوم مچا دی ہے۔ اسے ’پاکستانی ٹیسلا‘ کا خطاب ملا ہے، اور تصاویر و ویڈیوز نے لاکھوں دلوں کو جیت لیا ہے۔ لیکن تعریفوں کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ہمیں صرف نقل پر اکتفا کرنا چاہیے یا کچھ نیا اور منفرد تخلیق کرنے کی طرف بڑھنا چاہیے؟ سعد سہیل کا کہنا ہے کہ یہ ان کا پہلا پراجیکٹ ہے، اور وہ مستقبل میں مزید منفرد اور تخلیقی آئیڈیاز پر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ سائبر ٹرک صرف ایک گاڑی نہیں، بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب خوابوں کو محنت اور جذبے کا سہارا ملے، تو کچھ بھی ممکن ہے۔ یہ کہانی پاکستان کے ہنر مند ذہنوں کی ہے—ایک ایسی قوم کی، جو اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینا جانتی ہے، مگر تنقید یہ بھی ہے کہ اس حقیقت کو تخلیقیت اور انفرادیت کا رنگ دینا اب وقت کی ضرورت ہے۔”