پاکستان کا لیگیسی سے ڈیجیٹل میڈیا کا سفر: ایک عہد کا زوال یا نئے دور کی دستک

ایک زمانہ تھا… جب خبر کا ہر لفظ ایک سچائی کی گواہی ہوتا تھا۔ اخبار کی سرخی لوگوں کے دن کا آغاز ہوا کرتی تھی، اور ٹیلی ویژن پر چلنے والی بریکنگ نیوز فیصلہ کن سمجھی جاتی تھی۔ مین اسٹریم میڈیا اقتدار کے ایوانوں میں بھی دھڑکن کی طرح دھڑکتا تھا۔“لیکن وقت کا پہیہ رکا نہیں! وہ اخبارات، وہ نیوز بلیٹنز، وہ تحقیقاتی رپورٹس سب کچھ آج بھی موجود ہے لیکن کیا عوام کی توجہ بھی وہیں ہے؟ ایک انقلاب آیا… ڈیجیٹل انقلاب! اور جیسے جیسے یہ بڑھا، ویسے ویسے مین اسٹریم میڈیا کے اقتدار کی عمارت میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ مگر یہ سوال آج بھی زندہ ہے: کیا یہ زوال ہے… یا ایک نیا جنم؟ یہ وہ زمانہ تھا جب خبر دینے کا حق صرف چند ہاتھوں میں تھا۔ صحافی تحقیق کرتے، معلومات کی چھان بین کرتے، اور پھر ایک ذمہ داری کے ساتھ عوام تک خبر پہنچاتے۔ لوگ خبروں پر یقین کرتے تھے، کیونکہ خبر دینے والے کا اعتبار تھا۔ پھر آیا 21ویں صدی کا سب سے بڑا طوفان: ڈیجیٹل میڈیا! جس نے خبر کی تعریف بدل کر رکھ دی۔ اب ہر کوئی رپورٹر تھا، ہر کوئی اینکر، ہر کوئی مبصر… اور ہر موبائل فون ایک نیوز چینل! خبر کی رفتار تو تیز ہو گئی، مگر سچائی پیچھے رہ گئی۔ آج، ہم ایک ایسے وقت میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ‘کلک بیٹ’ اور ‘ریٹنگ’ نے خبر کی حقیقت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ کیا واقعی مین اسٹریم میڈیا کا وقت ختم ہو چکا؟ کیا یہ صرف ماضی کی ایک یادگار بن کر رہ جائے گا؟ یا پھر یہ ایک نئے انداز میں دوبارہ ابھرے گا؟ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں سچ اور جھوٹ کے درمیان لکیر مدہم ہو چکی ہے۔ خبر کی حقیقت کا فیصلہ ‘ویوز’ اور ‘لائکس’ کی بنیاد پر کیا جانے لگا ہے۔ 2030 میں میڈیا کیسا ہو گا؟ کیا ٹی وی چینلز باقی رہیں گے؟ کیا اخبارات مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے؟ کیا خبریں لکھنے کی بجائے آرٹیفیشل انٹیلیجنس خود خبریں بنائے گی؟ یہ میڈیا کا نیا دور ہے۔ ایک طرف آزادی، دوسری طرف ذمہ داری۔ ایک طرف رفتار، دوسری طرف سچائی۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس راستے کا انتخاب کریں گے؟۔یہ کہانی ختم نہیں ہوئی… یہ تو بس ایک نئے باب کا آغاز ہے!
پاکستانی نوجوان نے کارخانوں، فصلوں کی نگرانی کے لیے اے آئی کیمرے متعارف کرا دیے

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں آئی ٹی ایکسپو کا دلچسپ اور معلوماتی میلا سجایا گیا۔ شرکا کے سامنے پیش کیے گئے اے آئی کیمروں نے خوب توجہ سمیٹی۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ سی سی ٹی وی اور ڈرون کیمرے مانیٹرنگ اور نگرانی کے میدان میں منفرد پیشکش قرار دیے گئے ہیں۔ منتظمین کے مطابق آپ ان کیمروں کو اپنی مرضی کی کمانڈز دے کر کہیں سے بھی مانیٹر کر سکتے ہیں۔ اگر یہ کیمرے کسی کارخانے میں نصب ہوں، تو آپ کیمروں ہدایات دے سکتے ہیں کہ جتنے ڈبے بن رہے ہیں، ان میں سے اگر کوئی ڈبہ خراب ہو تو یہ فوری طور پر اس کی نشاندہی کرکے پروڈکشن چین کو اطلاع دیں گے۔ ایک کسان نے ڈرون کیمرے میں ایسی کمانڈ شامل کروائی ہے جس سے ڈرون اس کی فصلوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ اگر کسی جگہ فصل کمزور ہو رہی ہو، تو یہ ڈرون فوراً اطلاع دے کر کسان کو مسئلے کا حل نکالنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ جدید کیمرے نہ صرف سکیورٹی اور مانیٹرنگ کے لیے بہترین ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں استعمال کے لیے کارآمد ہیں۔
کھانے کے شوقین لاہوریوں نے “ہزاروں کھانے بنانے” کا مقابلہ سجا لیا

لاہور میں شیفس ایسوسی ایشن آف پاکستان اور کوتھم گروپ آف کالجز کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل کلینری چیمپئن شپ کا شاندار انعقاد کیا گیا۔ اس چار روزہ ایونٹ میں پاکستان اور دنیا بھر سے 5000 سے زائد شیفس اور کلینری طلباء نے حصہ لیا۔ اس ایونٹ میں 14 سے زائد ممالک کے معروف شیفس ججز کے طور پر شریک ہوئے، جنہوں نے عالمی معیار کے مطابق مقابلوں کا جائزہ لیا۔ چیمپئن شپ میں پاکستانی روایتی پکوان جیسے بریانی، نہاری اور کڑاہی، اور عالمی ذائقے جیسے پاستا، سوشی اور اسٹیکس پیش کیے گئے۔ اس کے علاوہ، پیسٹری آرٹس میں تخلیقی کیک اور چاکلیٹ کے فن پارے دیکھنے کو ملے، جو حاضرین کی توجہ کا مرکز بنے۔ یہ چیمپئن شپ 2017 سے ہر سال منعقد ہو رہی ہے اور کلینری آرٹس کے فروغ اور پاکستان کے ٹیلنٹ کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔ ایونٹ کو دیکھنے کے لیے لاہور اور پورے پاکستان سے لوگ بڑی تعداد میںآتے ہیں، جہاں کھانوں کے مقابلے، ورکشاپس اور فوڈ فیسٹیولز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ ایونٹ نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر کلینری ثقافت کو ایک نیا پہچان دیتا ہے۔
’ہم بھی دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں‘ لاہورمیں جدید ٹیکنالوجی کی شاندار نمائش

پاکستان کے سب سے بڑے ٹیکنالوجی فیسٹیول، فیوچر فیسٹ 2025، نے لاہور کے ایکسپو سینٹر میں تاریخ رقم کر دی۔ اس شاندار ایونٹ میں جدید ٹیکنالوجیز کی نمائش، عالمی ماہرین کی رہنمائی، اور نوجوانوں کے لیے انمول مواقع پیش کیے گئے۔ شرکاء سے بات کی گئی تو ہر چہرے پر امید کی ایک نئی کرن نظر آئی۔ عوام کا کہنا تھا کہ یہ ایونٹ نہ صرف پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کے لیے سنگ میل ہے بلکہ نوجوان نسل کے لیے ایک بہترین موقع بھی ہے۔ ایک نوجوان نے کہا: ‘یہاں آ کر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان بھی دنیا کے جدید ٹیکنالوجی نقشے پر جگہ بنانے کے لیے تیار ہے۔’ ایک اور شریک نے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ‘یہ ایونٹ ہمیں دکھا رہا ہے کہ ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں، ہم بھی دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں۔’ فیوچر فیسٹ 2025 سے نوجوانوں میں نئی امید جاگی ہے، اس فیسٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان نہ صرف ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے جائے گا بلکہ یہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ فیسٹیول، نوجوانوں کے خوابوں کو تعبیر دینے اور پاکستان کو ایک روشن مستقبل کی جانب لے جانے کا عزم ہے۔
ایل پی جی سلنڈر کو خیرباد، کراچی کے نوجوان نے الیکٹرک رکشہ متعارف کرا دیا

سائنس ایکسپو کراچی میں یو آئی ٹی یونیورسٹی کراچی کے ایک طالب علم محمد تیمور نےٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم کام کر دیا۔ انہوں نے ایک ایسا رکشہ تیار کیا ہے جس میں ایل بی جی سلنڈر لگانے کی ضرورت نہیں رہی۔ ڈھائی لاکھ روپے میں ایل پی جی سے چلنے والا رکشہ الیکٹرک رکشے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ محمد تیمور کا کہنا تھا کہ” گورنمنٹ آف پاکستان کے ساتھ مل کر ہم نے ایل پی جی سے چلنے والا رکشے کو الیکٹرک رکشہ کے اندر تبدیل کر دیا ہے۔ٹو اسٹروک رکشہ جسے آلودگی کی وجہ سے گورنمنٹ کی جانب سے 2012 میں بند کر دیا گیا تھا۔الیکٹرک رکشہ میں تبدیل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس پر لگی پابندی ہٹ سکے۔یہ بہت زیادہ آلودگی پیدا کر رہا تھا اس عنصر کو ہم نے ختم کیا ہے۔ اس کا انجن ہم نے ختم کر دیا ہے۔ فیول پرائس کم کرنے کے لیے ایل پی جی یا سی این جی کٹ استعمال کی جاتی تھی جو محفوظ نہیں تھی۔ مسافروں اور اسکول کے بچوں کیلئے محفوظ نہیں تھا۔ ہم نے سی این جی اور ایل پی جی ہٹا کر بیٹری اور موٹر لگا دی جو کہ مؤثر بھی ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ” نارمل رکشہ میں 12 روپے فی کلومیٹر دینے پڑتے ہیں۔ الیکٹرک رکشہ میں یہ قیمت 3 روپے فی کلومیٹر ہےاس کے اندر لگی بیٹری سے یہ ایک چارج میں 50کلومیٹر چلتا ہے۔یہ گھر کی ساکٹ سے بھی چارج ہو سکتا ہے۔ اس کے اندر پورٹیبل چارجر موجود ہے اسے آپ اپنے ساتھ لے جا بھی سکتے ہیں۔ ڈرائیور سمیت 4 بندے اس میں بٹھا کر چلا کر ٹیسٹ کر چکے ہیں۔
کراچی کے نوجوان کی جدید ایجاد! اب اے آئی ویڈیوز کی حقیقت معلوم ہو سکے گی، مگر کیسے؟

آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ اب اے آئی کی مدد سے تصاویر کے ساتھ ساتھ ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ کراچی کے نوجوان نے ایک ایسا سوفٹ ویئر بنا دیا ہے جس کی مدد سےاے آئی سے بنائی گئی ویڈیوز کی حقیقت معلوم ہوسکے گی۔ میمن انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں مینیجمنٹ سائنس کے طالب علم جہانذیب خان نے یہ کارنامہ کراچی میں ہونے والے سائنس ایکسپو میں انجام دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ” ہم نے ایف آئی اے کا پروجیکٹ بنایا ہے جو کہ ڈیپ فیک ویڈیو ڈیٹیکٹ کرتا ہے۔ آج کل اے آئی سے بہت سی ڈیپ فیک ویڈیوز بنائی جا رہی ہیں لیکن ان کو ڈیٹیکٹ نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے ایک پروٹوٹائپ بنایا ہے ۔ اس کو کوئی بھی وڈیو دکھائیں گے تو یہ بتائے گا کہ یہ ویڈیو اے آئی سے بنی ہے یا اصلی ویڈیو ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ “ابھی یہ صرف پروٹوٹائپ ہے لیکن ہم جلد ہی اسے ویب سائٹ اور ایپلیکیشن کے طرف لا رہے ہیں”۔
پاکستان کا پہلا سائبر ٹرک: تخلیق محنت اور عزم کی مثال

“یہ کہانی ہے خوابوں کی سرزمین پر ایک ایسے کارنامے کی، جو تخلیق، محنت اور عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لاہور کے سعد سہیل، جنہوں نے ایک ایسا خواب دیکھا جسے حقیقت میں ڈھالنے کی ہمت کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔ دنیا کے مشہور ٹیسلا سائبر ٹرک کی طرز پر ایک شاندار نقل اب پاکستان میں تیار ہو چکی ہے۔ سعد سہیل کے مطابق، یہ خیال انہیں تقریباً ایک سال پہلے آیا۔ ان کے دوستوں نے ان کی بھرپور سپورٹ کی، اور یوں ایک منفرد خواب کی بنیاد رکھی گئی۔ محض 10 لاکھ روپے کی لاگت اور 6 ماہ کی شب و روز محنت کے بعد، یہ پاکستانی سائبر ٹرک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سڑکوں پر چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ جب سعد اور ان کی ٹیم اسے لے کر پہلی بار سڑک پر نکلے، تو لوگ حیرت میں گم ہو گئے۔ یہ گاڑی ظاہری طور پر ٹیسلا کے مشہور سائبر ٹرک جیسی دکھائی دیتی ہے، لیکن اس کے پیچھے چھپی ہے پاکستانی ذہانت، ہنر اور لگن کی بے مثال کہانی۔ سعد سہیل اور ان کی ٹیم نے اس پراجیکٹ پر ایسا کام کیا ہے، جو ہر تفصیل میں مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ تاہم، جہاں اس کارنامے کی تعریف ہو رہی ہے، وہیں کچھ حلقے اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ایلان مسک کے مشہور سائبر ٹرک کی محض ایک نقل ہے، اور یہ کہ پاکستانیوں کو بجائے دوسروں کو کاپی کرنے کے، اپنے منفرد آئیڈیاز پر کام کرنا چاہیے تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسی صلاحیتوں کو اگر تخلیقیت اور جدت کے ساتھ استعمال کیا جائے، تو یہ پاکستان کو عالمی سطح پر پہچان دلانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس گاڑی نے دھوم مچا دی ہے۔ اسے ’پاکستانی ٹیسلا‘ کا خطاب ملا ہے، اور تصاویر و ویڈیوز نے لاکھوں دلوں کو جیت لیا ہے۔ لیکن تعریفوں کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ہمیں صرف نقل پر اکتفا کرنا چاہیے یا کچھ نیا اور منفرد تخلیق کرنے کی طرف بڑھنا چاہیے؟ سعد سہیل کا کہنا ہے کہ یہ ان کا پہلا پراجیکٹ ہے، اور وہ مستقبل میں مزید منفرد اور تخلیقی آئیڈیاز پر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ سائبر ٹرک صرف ایک گاڑی نہیں، بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب خوابوں کو محنت اور جذبے کا سہارا ملے، تو کچھ بھی ممکن ہے۔ یہ کہانی پاکستان کے ہنر مند ذہنوں کی ہے—ایک ایسی قوم کی، جو اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینا جانتی ہے، مگر تنقید یہ بھی ہے کہ اس حقیقت کو تخلیقیت اور انفرادیت کا رنگ دینا اب وقت کی ضرورت ہے۔”
دھول اور آلودگی سے متاثر کراچی، ڈاکٹروں کے مطابق انفلوئینزا سے بچاؤکے لیے کیا احتیاطی تدابیر ضروری ہیں؟

کراچی میں سڑکوں کی کھدائی اور ترقیاتی کاموں کی وجہ سے شہر بھر میں اڑتی ہوئی دھول نے شہریوں کی صحت کو متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں نزلہ زکام اور انفلوئنزا وائرس کے کیسز میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ماہر امراض اطفال ڈاکٹر اظہر چغتائی کا کہنا ہے کہ شہر میں وائرس کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے، اور بچے بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال سے بچاؤ کا واحد حل ماسک کا استعمال ہے، جس کی اہمیت پر ڈاکٹر اظہر نے اسکول انتظامیہ کو ہدایت دی ہے کہ نزلہ زکام میں مبتلا بچوں کو کلاسوں میں ماسک پہننے کی اجازت دی جائے۔ ڈاکٹر سیف نے بھی موسمیاتی تبدیلیوں اور صفائی ستھرائی کی کمی کی وجہ سے ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دیتے ہوئے والدین سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں ۔ کراچی میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں جہاں حادثات کا سبب بن رہی ہیں، وہیں یہ انفلوئنزا اور نزلہ زکام جیسے امراض کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ بھی بن رہی ہیں، اور طبی ماہرین کے مطابق ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر جیسے ماسک کا استعمال ضروری ہے۔
!کراچی کا جادوئی اسپرے، چند سیکنڈذ میں بلیڈنگ کو روک کر بیکٹیریا کا خاتمہ کرے

کراچی کے ایک باصلاحیت طالب علم نے بایئو ریف نامی ایک نیا اسپرے تیار کیا ہے، جو شریم شیل سے حاصل ہونے والے قدرتی اجزاء پر مبنی ہے۔ یہ اسپرے بلیڈنگ کو صرف چند سیکنڈز میں روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ساتھ ہی بیکٹیریا کو مؤثر طریقے سے ختم کرتا ہے۔ اس پراڈکٹ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ قدرتی اجزاء سے تیار کی گئی ہے، بایئو ریف اسپرے کا کلینکل ٹیسٹ ابھی جاری ہے، اور اس کے کامیاب نتائج کے بعد اسے مارکیٹ میں متعارف کرایا جائے گا۔ طالب علم کا مقصد اس پراڈکٹ کو پاکستان کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی ایکسپورٹ کرنا ہے تاکہ اس کے فوائد عالمی سطح پر لوگوں تک پہنچ سکیں۔ بایئو ریف کی تیاری میں جدید سائنسی تحقیق اور قدرتی اجزاء کا بہترین امتزاج کیا گیا ہے، جس سے اس کی تاثیر اور فائدہ دونوں کو یقینی بنایا گیا ہے۔ یہ اسپرے خاص طور پر زخمی ہونے یا چوٹ لگنے کی صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ فوری طور پر بلیڈنگ روکنے اور بیکٹیریا کی افزائش کو روکتے ہوئے انفیکشن سے بچاؤ فراہم کرتا ہے۔ بایئو ریف کا یہ سائنسی حل صحت کے میدان میں اہم پیشرفت ہو سکتا ہے اور عالمی سطح پر طبی مصنوعات کی فہرست میں ایک نیا مقام حاصل کر سکتا ہے۔
50 کلومیٹر بغیر ایندھن کے سفر کریں: سولر سائیکل کے ساتھ

صوبہ سندھ کے شہر خیر پور کے ایک نوجوان نے بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔ انہوں نےایک ایسی سائیکل بنائی ہے جو بجلی اور شمسی توانائی دونوں سے چلتی ہے۔ سیف اللہ دھاریجو قائداعظم یونی ورسٹی نواب شاہ میں پڑھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سائیکل کو ہم واپڈا اور سولر انرجی دونوں کی مدد سے چلا سکتے ہیں اور اگر یہ بھی دستیاب نہ ہوں تو ہم چارجنگ کر کے چلا سکتے ہیں۔ انہوں نے سائیکل چلانے کے لیے ایک ایپ بھی بنائی ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں سائیکل کی چارجنگ وغیرہ کا پتا چلتا ہے۔ سیف اللہ مزید کہتے ہیں کہ یہ سائیکل ایک مرتبہ چارج ہونے پر 50 کلومیٹر سفر کرے گی اور اگر سورج کی روشنی کی شدت زیادہ ہوگی تو یہ 70 کلومیٹر تک جا سکتی ہے۔ ابتدائی طور پر اس کی قیمت 80 ہزار ہوگی۔