!کراچی کا جادوئی اسپرے، چند سیکنڈذ میں بلیڈنگ کو روک کر بیکٹیریا کا خاتمہ کرے

Bio raff

کراچی کے ایک باصلاحیت طالب علم نے بایئو ریف نامی ایک نیا اسپرے تیار کیا ہے، جو شریم شیل  سے حاصل ہونے والے قدرتی اجزاء پر مبنی ہے۔ یہ اسپرے بلیڈنگ کو صرف چند سیکنڈز میں روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ساتھ ہی بیکٹیریا کو مؤثر طریقے سے ختم کرتا ہے۔ اس پراڈکٹ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ قدرتی اجزاء سے تیار کی گئی ہے، بایئو ریف اسپرے کا کلینکل ٹیسٹ ابھی جاری ہے، اور اس کے کامیاب نتائج کے بعد اسے مارکیٹ میں متعارف کرایا جائے گا۔ طالب علم کا مقصد اس پراڈکٹ کو پاکستان کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی ایکسپورٹ کرنا ہے تاکہ اس کے فوائد عالمی سطح پر لوگوں تک پہنچ سکیں۔ بایئو ریف کی تیاری میں جدید سائنسی تحقیق اور قدرتی اجزاء کا بہترین امتزاج کیا گیا ہے، جس سے اس کی تاثیر اور فائدہ دونوں کو یقینی بنایا گیا ہے۔ یہ اسپرے خاص طور پر زخمی ہونے یا چوٹ لگنے کی صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ فوری طور پر بلیڈنگ روکنے اور بیکٹیریا کی افزائش کو روکتے ہوئے انفیکشن سے بچاؤ فراہم کرتا ہے۔ بایئو ریف کا یہ سائنسی حل صحت کے میدان میں اہم پیشرفت ہو سکتا ہے اور عالمی سطح پر طبی مصنوعات کی فہرست میں ایک نیا مقام حاصل کر سکتا ہے۔

50 کلومیٹر بغیر ایندھن کے سفر کریں: سولر سائیکل کے ساتھ

Featured image

صوبہ سندھ کے شہر خیر پور کے ایک  نوجوان نے بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔ انہوں نےایک ایسی سائیکل بنائی ہے جو بجلی اور شمسی توانائی دونوں سے چلتی ہے۔ سیف اللہ دھاریجو قائداعظم یونی ورسٹی نواب شاہ میں پڑھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سائیکل کو ہم واپڈا اور سولر انرجی دونوں کی مدد سے چلا سکتے ہیں اور اگر یہ بھی دستیاب نہ ہوں تو ہم چارجنگ کر کے چلا سکتے ہیں۔ انہوں نے سائیکل چلانے کے لیے ایک ایپ بھی بنائی ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں سائیکل کی چارجنگ وغیرہ کا پتا چلتا ہے۔ سیف اللہ مزید کہتے ہیں کہ یہ سائیکل ایک مرتبہ چارج ہونے پر 50 کلومیٹر سفر کرے گی اور اگر سورج کی روشنی کی شدت زیادہ ہوگی تو یہ 70 کلومیٹر تک جا سکتی ہے۔  ابتدائی طور پر اس کی قیمت 80 ہزار ہوگی۔  

پاکستان میں خشک سالی کا خطرہ، بارشوں کی کمی کا آنے والے وقت پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟

Website web image drought

پاکستان میں موسم کے غیر معمولی رجحانات تشویشناک صورت اختیار کر چکے ہیں، جس سے ملک بھر میں خشک سالی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ محکمہ موسمیات کی رپورٹ کے مطابق، یکم ستمبر سے 15 جنوری 2024 تک ملک میں معمول سے 40 فیصد کم بارشیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں بارشوں کی کمی نے زراعت اور پانی کے ذخائر پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پوٹھوہار اور جنوبی پنجاب کے کئی علاقے ہلکی خشک سالی کا شکار ہو گئے ہیں     ماہرین کا کہنا ہے کہ بارشوں کی کمی نہ صرف زراعت بلکہ پانی کی روزمرہ ضروریات پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہے، جس سے کسانوں کی معیشت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ چیف میٹرولوجسٹ علیم الحسن نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فوری طور پر بارشیں نہ ہوئیں تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے مزید بارشوں کی کوئی بڑی پیشگوئی نہیں کی ہے جس سے خشک سالی کے اثرات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔    

! دوا کی ایکسپائری جاننا ہوا آسان فارمیسی طالبات کا رنگین حل

Website web image medicine

کراچی یونیورسٹی کی طالبات نے ایک نیا اور منفرد پراجیکٹ تیار کیا ہے جس میں رنگوں کی مدد سے دوا کی ایکسپائری کا پتہ چلایا جا سکے گا۔ اس پراجیکٹ کا مقصد دوا کی حفاظت اور معیار کو بہتر بنانا ہے تاکہ لوگ استعمال کی مدت ختم ہونے پر دوا کے خطرات سے بچ سکیں۔ اس پروجیکٹ میں طالبات نے مختلف رنگوں کو دوا کی مادی خصوصیات سے جوڑا ہے۔   جب دوا کی ایکسپائری کی تاریخ قریب آتی ہے، تو دوا کی رنگت تبدیل ہو جاتی ہے، جو صارف کو یہ بتاتی ہے کہ دوا استعمال کرنے کے لیے محفوظ نہیں رہی۔ یہ ایک سادہ لیکن مؤثر طریقہ ہے جس سے صارفین کو دوا کے استعمال سے پہلے اس کی تازگی اور حفاظت کی یقین دہانی ہوتی ہے۔ یہ انوکھا آئیڈیا نہ صرف سائنسی تحقیق کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، بلکہ یہ اس بات کا بھی غماز ہے کہ طالبات نے کس طرح تخلیقی سوچ اور جدید ٹیکنالوجی کو ملا کر ایک عملی حل پیش کیا ہے جو عوام کی صحت کو بہتر بنا سکتا ہے۔ !

کراچی کے تاجر پنجاب میں کاروبار کرنے کے خواہاں! آخر وجہ کیا ہے؟

Website web image traders

کراچی کے تاجر اس وقت شدید مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، کیونکہ بڑھتے ہوئے بلز اور مہنگائی نے ان کے کاروباری حالات کو سنگین بنا دیا ہے۔ شہر میں کاروباری ماحول میں کمی آ رہی ہے اور تاجر اس بات سے پریشان ہیں کہ ان کی آمدنی ان بڑھتے ہوئے اخراجات کا مقابلہ نہیں کر پا رہی۔ بجلی، گیس، اور دیگر ضروری خدمات کے بلوں میں اضافہ نے ان کے کاروبار کو نقصان پہنچایا ہے، جس سے کاروباری فیصلے متاثر ہو رہے ہیں اور کئی تاجرانِ کراچی کو اپنی روزمرہ کی کارروائیاں چلانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ پنجاب کو ایک نسبتاً بہتر کاروباری ماحول کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔   کاروباری افراد پنجاب کو کاروبار کے لیے ایک زیادہ سازگار اور محفوظ جگہ سمجھتے ہیں، جہاں بہتر ماحول اور اقتصادی استحکام کے باعث ترقی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ کراچی اور پنجاب کے درمیان اس فرق کی وجہ سے تاجر دونوں علاقوں میں کاروباری حکمت عملی پر نظر ثانی کر رہے ہیں، اور بعض تو اپنے کاروبار کو پنجاب منتقل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ کراچی میں بڑھتی ہوئی مشکلات کے باوجود شہر کی معاشی اہمیت اور عالمی تجارت میں اس کی پوزیشن کے پیش نظر تاجر اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ حکومت اس بحران پر قابو پانے کے لیے جلد اقدامات کرے گی۔  

آلودہ فضا میں سانس لینا کتنا خطرناک ہے؟ماہرین کے انکشافات

#paksitanmatters, #Pollution, #pkmatters

کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ یہاں کی فضا میں موجود آلودگی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ فضا میں آلودگی کا تناسب 201 پی ایم تک پہنچ چکا ہے، جو انسانی صحت کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق، آلودہ ہوا انسانی صحت اور ماحول دونوں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس سے سانس کی بیماریوں، الرجی، اور دل کے امراض میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق، ایئر کوالٹی انڈیکس ایک ایسا پیمانہ ہے جس سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ہوا کس حد تک مضر ہے۔ فضا کو بہتر بنانے کے لیے قوانین کا مؤثر نفاذ ناگزیر ہے۔ اگر ان قوانین کو صحیح طریقے سے لاگو کیا جائے تو آلودگی کے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور قانون کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف حکومتی اقدامات کافی نہیں، عوام کو بھی چاہیے کہ وہ فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر ماحول فراہم کیا جا سکے۔

آسٹریلیا کی سوشل میڈیا پر پابندیاں: پاکستان کیا سیکھ سکتا ہے؟

#pakistanmatters, #socialmedia, #pkmatters

سوشل میڈیا کا استعمال بچوں کے لیے ایک حساس اور اہم موضوع بن چکا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز کم عمر بچوں پر گہرا ذہنی اور جسمانی اثر ڈال سکتے ہیں۔ والدین، اساتذہ، اور ماہرین مسلسل اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ بچوں کو ان پلیٹ فارمز کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں بچوں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کے قوانین بنائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر سخت قوانین متعارف کروائے ہیں۔ ان قوانین کا مقصد بچوں کو انٹرنیٹ کے نقصان دہ اثرات سے بچانا اور ان کی ذہنی و جسمانی صحت کو محفوظ بنانا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان جیسے ملک میں ایسے قوانین مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں؟ ہم نے والدین، بچوں، اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز سے یہ سوال کیا، جس کے نتیجے میں ایک دلچسپ بحث نے جنم لیا۔ بچوں کے مطابق سوشل میڈیا ان کے لیے نہ صرف ایک تفریحی ذریعہ ہے بلکہ یہ انہیں نئی چیزیں سیکھنے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود مختلف کورسز، جیسے گرافک ڈیزائننگ، ایس ای او، کوڈنگ، اور دیگر موضوعات، بچوں کی تعلیم و تربیت میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ والدین اس بات پر فکر مند ہیں کہ بچوں کا زیادہ وقت اسکرین کے سامنے گزرنے کی وجہ سے ان کی نیند، تعلیم، اور حقیقی تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا کے غیر حقیقی دنیا میں وقت گزارنے سے بچوں کے اندر احساس کمتری اور مقابلے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ ماہرین اور انفلوئنسرز کا کہنا ہے کہ بچوں میں سوشل میڈیا کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے والدین کو تربیت دینا ضروری ہے۔ انہیں نہ صرف بچوں کے لیے حدود کا تعین کرنا چاہیے بلکہ یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ بچے سوشل میڈیا کو مثبت اور تعمیری طریقے سے استعمال کریں۔ یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ سوشل میڈیا پر مکمل پابندی ممکن نہیں ہے، خاص طور پر جب روزمرہ کے کاموں میں ٹیکنالوجی کا استعمال لازم ہو چکا ہے۔ اس کے بجائے بچوں کو رہنمائی فراہم کرنا اور انہیں سکھانا زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتا ہے تاکہ وہ خود سمجھ سکیں کہ ٹیکنالوجی کا درست استعمال کیسے کیا جائے۔ پاکستان کے مستقبل کے لیے یہ فیصلہ نہایت اہم ہے کہ آیا بچوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے یا انہیں۔

پاکستان سٹاک ایکسچینج: مارکیٹ کی ترقی کے پیچھے چھپا راز

Stock

پاکستان کی سٹاک مارکیٹ نے گزشتہ کچھ سالوں میں ایسی غیر معمولی ترقی کی ہے کہ پوری دنیا دنگ رہ گئی۔ جہاں پاکستان کی معیشت مختلف مشکلات جیسے مہنگائی، سیاسی عدم استحکام، اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، وہاں اسٹاک مارکیٹ نے اپنی کارکردگی سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ 2024  پاکستان کی سٹاک مارکیٹ نے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی جگہ مضبوط کی۔ اس میں 60 فیصد تک اضافہ دیکھنے کو ملا، اور انڈیکس 118,000 تک پہنچ گیا۔ کچھ عرصے میں منافع کی وجہ سے میں مارکیٹ میں کمی آئی، مگر مجموعی طور پر یہ مارکیٹ اب بھی مثبت سمت میں بڑھ رہی ہے اور اس میں مزید ترقی کے امکانات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مقامی سرمایہ کاروں کا بڑھتا ہوا اعتماد اور عالمی سطح پر پاکستان کی اقتصادی پوزیشن کے بارے میں مثبت سوچ ہے۔ گزشتہ برسوں میں جب دوسرے شعبے مشکلات کا شکار تھے، سٹاک مارکیٹ نے 7 بلین ڈالر کے آئی ایم ایف پیکیج سے اپنی قوت میں اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ، مقامی ادارے اور سرمایہ کار بھی مارکیٹ کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی سٹاک مارکیٹ نے نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو بھی متوجہ کیا ہے۔ یہاں کا سرمایہ کاری ماحول بہتر ہوا ہے اور کمپنیوں کے منافع میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کچھ بہتری، تیل کی قیمتوں میں کمی، اور بینکوں کی شرح سود میں کمی نے مارکیٹ کو مزید مضبوط کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں، پاکستان کی سٹاک مارکیٹ نہ صرف مقامی سرمایہ کاروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے بلکہ یہ ملک کی معیشت کی ترقی کا بھی ایک مضبوط اشارہ ہے۔ لیکن یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ سٹاک مارکیٹ کی ترقی کا تعلق صرف معاشی عوامل سے نہیں، بلکہ سیاسی صورتحال سے بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ حالات بہتر رہیں، تو پاکستان کی سٹاک مارکیٹ مزید کامیاب ہو سکتی ہے۔ مجموعی طور پر، اگر سٹاک مارکیٹ میں یہ ترقی جاری رہی، تو یہ نہ صرف سرمایہ کاروں کے لیے، بلکہ پورے پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بڑی کامیابی بن سکتی ہے۔

وکٹورین کراؤن پجن”: دنیا کا سب سے بڑا اور نایاب کبوتر”

#pakistanmatters, #pigion, #karachi

دنیا کا سب سے بڑا کبوتر سمجھا جانے والا “وکٹورین کراؤن پجن” ایک انتہائی نایاب اور ایکسوٹک پرندہ ہے۔ اس کی قیمت عالمی سطح پر 3000 سے 4000 ڈالر تک ہے۔ پاکستان میں اس کی تعداد بہت کم ہے، اور یہاں صرف چند جوڑے ہی موجود ہیں، یہ پرندہ انسانوں سے مانوس ہے اور اس سے رابطہ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کا نام “وکٹورین کراؤن پجن” رکھا گیا ہے کیونکہ ملکہ وکٹوریا کو اپنے تاج میں نیلے پرندوں کے پر بہت پسند تھے اور یہ کبوتر ان کے تاج کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہ پرندہ اس قدر نایاب ہے کہ دنیا میں اس کی تعداد بہت کم ہے اور یہ ایک انتہائی قیمتی پرندہ مانا جاتا ہے۔ اس کا مالک، ملک نبیل صاحب، اس کی دیکھ بھال میں انتہائی محنت کرتے ہیں۔ وہ اس پرندے کو بچپن سے اپنے ساتھ رکھ کر اسے تربیت دیتے ہیں تاکہ یہ انسانوں کے ساتھ مانوس ہو سکے۔ صبح اس کو اُبالے ہوئے انڈے اور سیب کھلائے جاتے ہیں، جبکہ دوپہر میں اس کی مخصوص غذا تیار کی جاتی ہے، جس میں ڈاگ فوڈ اور دیگر دانے شامل ہیں۔ یہ کبوتّر اس قدر خاص ہے کہ اس کو کتے کے کھانے کی خوراک بھی دی جاتی ہے۔ پاکستان میں اس پرندے کی تعداد انتہائی محدود ہے، اور اگر کوئی ایسا کبوتّر مل جائے تو اس کی قیمت لاکھوں روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ تاہم، ملک نبیل صاحب کا کہنا ہے کہ وہ اس کبوتّر کو صرف نمائش کے لیے لائے ہیں تاکہ لوگوں کو اس نایاب پرندے کے بارے میں آگاہی ہو سکے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ابھی تک اس کبوتّر کو بیچنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، چاہے ان کے پاس اس کے لئے بڑی قیمت کی پیشکشیں بھی آئیں۔ یہ پرندہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی نایاب نوعیت کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

سندھ میں وائس چانسلرز کی تقرری، جامعات کی خود مختاری پرحملہ؟

Website web image logo ئنی

سندھ حکومت کی جانب سے یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کی جارہی ہے جس کے تحت اب 20 یا 21 گریڈ کے افسران کو وائس چانسلر مقرر کرنے کی اجازت دی جائے گی، یہ فیصلہ ایک تنازعہ بن چکا ہے کیونکہ اس سے یونیورسٹیوں کی خود مختاری پر اثر پڑ سکتا ہے اور تعلیمی معیار متاثر ہو سکتا ہے۔ اس ترمیم کے تحت اگر یونیورسٹیوں میں انتظامی مسائل ہیں تو حکومت کو ان کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، مگر بیوروکریٹس کے ذریعے وائس چانسلر کی تقرری سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ تعلیمی ادارے کے انتظام اور معیار کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اساتذہ اور ماہرین تعلیم نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا ہے اور اس پر ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیوروکریٹس کو وائس چانسلر بنانا تعلیمی اداروں کی خود مختاری پر حملہ ہے اور یہ فیصلہ قابل قبول نہیں۔ ماہرین کا مطالبہ ہے کہ وائس چانسلر کا انتخاب صرف تعلیمی شعبے کے ماہرین میں سے کیا جائے تاکہ تعلیمی معیار اور اداروں کی خود مختاری کو یقینی بنایا جا سکے۔ یونیورسٹی ایکٹ میں اس ترمیم کے اثرات یونیورسٹیوں کے انتظام پر پڑ سکتے ہیں، خاص طور پر اگر بیوروکریٹس کو تعلیمی شعبے کا تجربہ نہ ہو تو اس سے تعلیمی اداروں کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔ اس فیصلے کے بعد طلبہ اور اساتذہ کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے جو کہ تعلیمی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ یونیورسٹیوں کی خود مختاری اور تعلیمی معیار کا تحفظ سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ سوالات اب بھی موجود ہیں کہ کیا حکومت اس احتجاج کو سن کر اپنا فیصلہ واپس لے گی اور کیا پاکستانی جامعات اپنی خود مختاری کھو رہی ہیں۔