دودھ، مکھن اور نازونعم سے پلے قربانی کے جانور : اس سال قیمتیں کیا ہوں گی؟

پاکستان میں بچھڑوں کی پرورش کا عمل نہ صرف ایک فن ہے، بلکہ اس میں ہر قدم پر خصوصی توجہ اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مویشی منڈی میں گلہ بانی کرنے والوں کاکہنا ہے کہ الحمدللہ، ہم اپنے بچھڑوں کی پرورش کا آغاز دو سال کی عمر سے کرتے ہیں، جب ان کے دانت نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ اس دوران، ان کی خوراک اور نگہداشت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے تاکہ وہ نہ صرف صحت مند رہیں بلکہ ان کا گوشت بھی اعلی معیار کا ہو۔ خوبصورت گوشت کے لیے خصوصی خوراک ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنے بچھڑوں کو خوش ذائقہ خوراک دیتے ہیں، جس میں خشک میوہ جات، گھی، مکھن، دودھ اور تیل شامل ہیں۔ ان اجزاء کا استعمال ان کے کوٹ کو چمکدار اور ان کے گوشت کو مزید نرم بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ پروٹین کی مقدار پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ ان کے جسم میں اضافی چربی کے بجائے پروٹین بڑھے اور گوشت کا معیار مزید بہتر ہو۔ صحت اور ویکسی نیشن پر زور ویکسینیشن کے حوالے ان کا کہنا تھا کہ اپنے بچھڑوں کی صحت کا مکمل خیال رکھتے ہیں اور کسی بھی بیماری سے بچاؤ کے لیے انہیں مناسب ویکسی نیشن دیتے ہیں۔ ان کے خون کے ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں تاکہ کسی بھی بیماری کا پتہ چل سکے اور فوری علاج فراہم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، ان کی نیوٹریشنل ضروریات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق پورا کیا جاتا ہے، تاکہ وہ بہترین معیار کے گوشت کے لیے تیار ہوں۔ قیمتوں پر اثرات ان کا مزید کہنا تھا کہ مہنگائی اور محنت کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بچھڑوں کی پرورش کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم، عالمی منڈی میں پاکستانی گوشت کی بڑھتی ہوئی طلب نے ہمارے جانوروں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے باوجود، ہم اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کے عمل کو مکمل طور پر مستحکم رکھتے ہیں تاکہ ان کی قیمتوں میں توازن برقرار رہے۔ جانوروں کی قیمتیں اور پرورش کا بجٹ انہوں نے کہا کہ آج کل، ہمارے فارم پر ایک بچھڑے کی اوسط قیمت تقریباً ایک ملین روپے ہے۔ اگر کسی خاص شوق کے جانور کی بات کی جائے تو اس کی قیمت اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے فارم میں، جانوروں کی پرورش کاا بجٹ خاص طور پر مینیج کیا جاتا ہے تاکہ ان کی صحت، خوراک اور معیار کو بہتر بنایا جا سکے اور ہمارے گاہکوں کو بہترین گوشت فراہم کیا جا سکے۔
کراچی میں وال چاکنگ کے خلاف کریک ڈاؤن، پولیس نے گرفتاریوں کا آغاز کر دیا

شہر کراچی کے مختلف علاقوں میں وال چاکنگ کرنے والوں کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق شہر کی دیواروں پر غیر قانونی طور پر تحریریں اور تصاویر بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے اور اس مہم میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی جائے گی۔ شہریوں نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہر کی خوبصورتی اور صفائی کے حوالے سے یہ قدم ضروری تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹریٹ کرمنلز اور ان افراد کو بھی پکڑنا ضروری ہے جو شہر میں بد امنی کا سبب بن رہے ہیں۔ پولیس حکام نے بتایا کہ کریک ڈاؤن کے دوران مشتبہ افراد کی شناخت کی جا رہی ہے اور شہر بھر میں مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ وال چاکنگ کے ساتھ ساتھ اسٹریٹ کرمنلز کی بھی گرفتاری کی جائے تاکہ کراچی کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکے۔ کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہم کامیاب ہو تو شہر کی سڑکوں پر منفی سرگرمیوں کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ کراچی میں وال چاکنگ کے خلاف کریک ڈاؤن ایک اہم قدم ہے جو شہر کی صفائی اور خوبصورتی کے لیے ضروری ہے۔ شہریوں کی حمایت سے یہ مہم شہر میں امن قائم کرنے اور منفی سرگرمیوں کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، اگر یہ کامیاب ہو تو کراچی کا ماحول بہتر ہو گا۔
خبردار! امتحان میں نقل کرنے پر تین سال قید، 50 ہزار روپے جرمانہ ہوگا

پاکستان کے تعلیمی نظام میں نقل اور امتحانی بے ضابطگیوں کے خلاف سخت اقدامات کا آغاز،لاہور تعلیمی بورڈ نے نئے ضوابط کا اعلان کر دیا۔ اب امتحانات میں نقل یا کسی بھی قسم کی بے ضابطگی پر تین سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ نجی سکول کے پرنسپل مدثر چیمہ نے بتایا کہ کمرہ امتحان میں چیٹنگ کس طرح ہوتی ہے اور عملہ اس میں کیسے ملوث ہوتا ہے۔ “اکثر طلبہ نقل کے لیے چھوٹے نوٹس، یا ایک دوسرے سے سوالات پوچھنے کے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ بعض اوقات عملہ بھی اس میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ایک طالب علم نے کہا،”کمرہ امتحان میں نقل کے لیے عام طور پر عملے کو کچھ پیسے دیتے ہیں تو وہ ہمیں پرچہ کروا دیتے ہیں۔لیکن کیا سخت قوانین ہی اس مسئلے کا حل ہیں؟ہم نے ایک ماہرِ تعلیم سے اس پر بات کی، “نقل کو روکنے کے لیے سخت سزا سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ تعلیمی نظام میں شفافیت لائی جائے اور امتحانات کا طریقہ کار بہتر بنایا جائے۔”نقل کے خاتمے کے لیے کیا صرف سزا کافی ہے؟ یا ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی؟ “یہ صرف قوانین کا نہیں، سوچ اور رویوں کا مسئلہ ہے۔ آئیں، تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔”
‘پاکستانی ٹیسلا’گوجرانوالہ کے انجینئر کی تخلیقی مہارت

“یہ کہانی ہے خواب، تخلیق اور عزم کی—جہاں ایک خیال حقیقت کا روپ دھارتا ہے۔ گوجرانوالہ کے انجینئر ولی محمد نے اپنی ہنر مندی اور محنت سے وہ کر دکھایا جو شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو۔ ٹیسلا کے مشہور سائبر ٹرک، جسے دنیا نے ایک شاندار تخیل کے طور پر دیکھا، اس کی نقل اب پاکستان کی سرزمین پر تیار ہو چکی ہے۔ اس گاڑی کو نہایت باریک بینی اور مہارت سے بنایا گیا۔ کمپنی کے مطابق، یہ گاڑی کلائنٹ کی خواہش پر محض 30 لاکھ روپے کی لاگت سے تیار کی گئی۔ ولی محمد اور ان کی ٹیم نے نہ صرف ٹیسلا کے سائبر ٹرک کے ڈیزائن کو کامیابی سے نقل کیا، بلکہ ہر تفصیل میں اپنے فن کی چھاپ چھوڑی۔ یہ ’پاکستانی سائبر ٹرک‘ نہ صرف ظاہری طور پر اصلی ٹیسلا کی جھلک پیش کرتا ہے بلکہ پاکستانی انجینئرنگ کے تخلیقی ذہن کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ گاڑی دھوم مچا رہی ہے، اور انٹرنیٹ صارفین نے اسے ’پاکستانی ٹیسلا‘ کا خطاب دے دیا ہے۔ تصاویر اور ویڈیوز نے لاکھوں دلوں کو جیت لیا ہے، اور لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کارنامہ پاکستان کے ہنر مند کاریگروں کی صلاحیتوں کا روشن مظہر ہے۔ یہ شاہکار نہ صرف ایک گاڑی ہے بلکہ ایک پیغام ہے—کہ جب خوابوں کو محنت اور تخلیق کے رنگ دیے جائیں، تو کچھ بھی ممکن ہے۔ یہ ہے پاکستان کے ہنر، جذبے، اور صلاحیتوں کی کہانی، جو ثابت کرتی ہے کہ ہم دنیا کے کسی کونے میں بھی کسی سے کم نہیں۔
قذافی اسٹیڈیم کی نئی لُک: کرکٹ کے روشن مستقبل کے لیے اہم سنگِ میل

“یہ کہانی ہے ایک میدان کی، جو دہائیوں سے کرکٹ کے تاریخی لمحات کا گواہ رہا اور اب ایک نئی روح، نئے عزم اور شاندار انداز میں دنیا کے سامنے آنے کو تیار ہے۔ لاہور کا قذافی اسٹیڈیم، جہاں خواب سجتے ہیں اور تاریخ رقم ہوتی ہے، اب عالمی کرکٹ کے جدید ترین میدانوں کی صف میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی 2025 کی میزبانی کے لیے اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کو صرف پانچ ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ نئے فلڈ لائٹس ٹاورز، روشن بلبوں کے ساتھ جگمگانے کو تیار ہیں، اسٹینڈز میں جدید کرسیوں کی تنصیب آخری مراحل میں ہے، اور ڈیجیٹل اسکرینز کھیل کے ہر لمحے کو مزید دلکش انداز میں پیش کریں گی۔ چیمپئنز ٹرافی سے قبل قذافی اسٹیڈیم سہ فریقی سیریز کے میچوں کی میزبانی کرے گا، جس میں پاکستان، نیوزی لینڈ، اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔ اور پھر وہ لمحہ! 22 فروری کو کرکٹ کی دنیا کے دو روایتی حریف، انگلینڈ اور آسٹریلیا، قذافی اسٹیڈیم کے اس نئے انداز میں چیمپئنز ٹرافی کا افتتاحی میچ کھیلیں گے۔ یہ دن شائقین کے لیے یادگار ہوگا، جہاں ہر لمحہ ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ قذافی اسٹیڈیم کی یہ تبدیلی محض تعمیراتی نہیں، یہ پاکستان کے عزم، ہنر اور کرکٹ کے مستقبل کا روشن استعارہ ہے۔ ایک ایسا میدان، جو شائقین کے لیے خوابوں کا گھر اور کرکٹ کے لیے تاریخ ساز سرزمین ہوگا۔”
طلبہ يونينز كی بحالی کیوں ضروری ہے؟نائب امیر جماعت اسلامی کابیان

نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ طلبہ یونینز کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ یہ نہ صرف نوجوانوں کو جمہوری تربیت فراہم کرتی ہیں بلکہ انہیں ملک کے مستقبل کے لیے تیار کرنے کا ایک مضبوط ذریعہ بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مریم نواز اور دیگر سیاسی شخصیات یونیورسٹیز میں جا کر سیاسی گفتگو کر سکتی ہیں، تو طلبہ کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی قیادت کا انتخاب کریں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کریں۔ لیاقت بلوچ نے مزید کہا کہ 18 سال کا نوجوان جب قومی انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنے کا اہل ہے، تو پھر اسے تعلیمی اداروں میں اپنی قیادت منتخب کرنے سے محروم رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک منظم سازش ہے کہ نوجوان نسل کو ان کے جمہوری حقوق سے محروم رکھا جائے، انہیں چھوٹے مسائل میں الجھا دیا جائے، اور ان کے درمیان تقسیم پیدا کی جائے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ طلبہ یونینز کو سیاسی جماعتوں کے اثر سے آزاد رکھنے کے لیے مؤثر قوانین اور ضوابط وضع کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں طلبہ یونینز کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا گیا اور ان پر تشدد، جھگڑوں اور مسائل کا الزام لگایا گیا، وہ حقیقت سے زیادہ مفروضات پر مبنی تھا۔ مسائل کا حل یہ نہیں کہ طلبہ کے جمہوری حقوق کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ ان کے لیے ایک مثبت اور منظم پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں اور نوجوانوں کو قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کریں۔ ان کے بقول، طلبہ یونینز نہ صرف جمہوری تربیت کا ذریعہ ہیں بلکہ نوجوانوں کو قیادت کی صلاحیتیں سکھانے کا ایک اہم پلیٹ فارم بھی ہیں، جو مستقبل میں ایک مضبوط اور ترقی یافتہ پاکستان کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
ٹرمپ کادوسرادورحکومت:کیا امریکا پاکستان میں دلچسپی نہیں لےگا؟

ٹرمپ کے دوسرے دور حکومت میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی نوعیت اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔ کیا امریکا پاکستان سے لاتعلق ہو جائے گا؟ ماضی میں دہشت گردی کے الزامات اور پاکستان کے کردار کو لے کر امریکا کی پالیسی کیا ہوگی؟ ٹرمپ اور عمران خان کی دوستی اور تعلقات کو صرف ایک مخصوص مدت تک محدود رکھنے کا کیا امکان ہے؟ کیا امریکی حکومت پاکستان کو اہمیت دے گی یا اس کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ جمود میں ڈالے گی؟ اس سوال کا جواب امریکا کی پاکستان کو دی جانے والی ترجیحات اور شرائط کے تحت ملے گا، جو خطے میں امن و استحکام، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اقتصادی تعلقات سے جڑے اہم امور پر منحصر ہوں گی۔ اس ڈسکرپشن میں ان تمام نکات پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی تاکہ پاکستان اور امریکا کے مستقبل کے تعلقات کا جائزہ لیا جا سکے۔
غذائیت سے بھرپورسبزیاں اب گھر میں اگانا ہوا آسان!لیکن کیسے؟

اپنے گھر کو تازگی اور زندگی سے بھرپور بنانے کا بہترین طریقہ سبزیاں اگانا ہے۔ اپنی جگہ کو ایک چھوٹے سے باغ میں تبدیل کریں اور قدرت کے قریب ہونے کا لطف اٹھائیں۔ تازہ سبزیوں کی خوشبو نہ صرف آپ کے کھانے کا ذائقہ دوبالا کرے گی بلکہ آپ کی روزمرہ کی زندگی میں خوشی اور سکون کا اضافہ بھی کرے گی۔ یہ عمل نہ صرف آپ کے ماحول کو خوبصورت بنائے گا بلکہ آپ کو یہ فخر بھی دے گا کہ آپ اپنی خوراک خود اگا رہے ہیں۔ سبزیاں اگانا صرف ایک شوق نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے جو صحت، سکون اور خود انحصاری کی علامت ہے۔ اپنے ہاتھوں سے بوئے بیج اور ان کی نشوونما دیکھنا ایک ایسا تجربہ ہے جو دل کو خوشی اور اطمینان سے بھر دیتا ہے۔ قدرت کے اس حسین تحفے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں !
قذافی اسٹیڈیم کی نئی لک: کرکٹ کے روشن مستقبل کے لیے اہم سنگ میل

یہ کہانی ہے ایک میدان کی، جو دہائیوں سے کرکٹ کے تاریخی لمحات کا گواہ رہا اور اب ایک نئی روح، نئے عزم اور شاندار انداز میں دنیا کے سامنے آنے کو تیار ہے۔ لاہور کا قذافی اسٹیڈیم، جہاں خواب سجتے ہیں اور تاریخ رقم ہوتی ہے، اب عالمی کرکٹ کے جدید ترین میدانوں کی صف میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی 2025 کی میزبانی کے لیے اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کو صرف پانچ ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ نئے فلڈ لائٹس ٹاورز، روشن بلبوں کے ساتھ جگمگانے کو تیار ہیں، اسٹینڈز میں جدید کرسیوں کی تنصیب آخری مراحل میں ہے، اور ڈیجیٹل اسکرینز کھیل کے ہر لمحے کو مزید دلکش انداز میں پیش کریں گی۔ چیمپئنز ٹرافی سے قبل قذافی اسٹیڈیم سہ فریقی سیریز کے میچوں کی میزبانی کرے گا، جس میں پاکستان، نیوزی لینڈ، اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔ اور پھر وہ لمحہ! 22 فروری کو کرکٹ کی دنیا کے دو روایتی حریف، انگلینڈ اور آسٹریلیا، قذافی اسٹیڈیم کے اس نئے انداز میں چیمپئنز ٹرافی کا افتتاحی میچ کھیلیں گے۔ یہ دن شائقین کے لیے یادگار ہوگا، جہاں ہر لمحہ ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ قذافی اسٹیڈیم کی یہ تبدیلی محض تعمیراتی نہیں، یہ پاکستان کے عزم، ہنر اور کرکٹ کے مستقبل کا روشن استعارہ ہے۔ ایک ایسا میدان، جو شائقین کے لیے خوابوں کا گھر اور کرکٹ کے لیے تاریخ ساز سرزمین ہوگا۔
ماحولیاتی تبدیلی : گلوبل وارمنگ کا خطره،کیازمین کو بچانے کا وقت ختم ہو رہا ہے؟

ماحولیاتی تبدیلی، جسے گلوبل وارمنگ بھی کہا جاتا ہے، دنیا بھر میں درجہ حرارت میں اضافہ اور قدرتی ماحول کی خرابی کا باعث بن رہی ہے، جس کے سنگین اثرات پاکستان جیسے ممالک پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق، انسانی سرگرمیوں جیسے فوسل فیولز کا استعمال اور جنگلات کی کٹائی اس تبدیلی کے اہم عوامل ہیں۔ اس کی وجہ سے موسموں میں بے ترتیبی، گرمیوں میں شدت، سردیوں کا طویل ہونا، اور سموگ جیسے مسائل جنم لے چکے ہیں۔ امریکا جیسے ممالک کی جانب سے ماحولیاتی معاہدوں سے انکار، جیسے کہ پیرس معاہدہ، عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔ اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف قدرتی وسائل کو بچایا جا سکے بلکہ انسانوں کی صحت اور معیشت کو بھی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات: فصلوں کی پیداوار میں کمی۔ پانی کی کمی اور پینے کے صاف پانی تک رسائی کا فقدان۔ صحت کے مسائل، جیسے اسموگ اور ہیٹ اسٹروک۔ سیلاب اور طوفانوں کے باعث بنیادی ڈھانچے کی تباہی۔ عالمی سطح پر غیر سنجیدگی: امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک کا ماحولیاتی معاہدوں سے پیچھے ہٹنا عالمی کوششوں کو کمزور کر رہا ہے۔ پیرس معاہدہ جیسے اقدامات کو عالمی سطح پر پذیرائی اور عمل درآمد کی ضرورت ہے۔