بٹ کوائن کی بڑھتی مقبولیت، کیا یہ دیگر کرنسیوں کے لیے خطرہ ہے؟

Bitcoin

کرپٹو کرنسی اور بٹ کوائن دنیا کی پہلی ڈی سینٹرلائزڈ کرنسی ہے جو عالمی مالیاتی نظام کو ایک نیا رخ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بٹ کوائن کی تخلیق کے بعد ہزاروں نئی کرنسیز متعارف ہو چکی ہیں، جنہوں نے مارکیٹ میں طوفان  برپا کر دیا ہے۔ یہ کرنسی نہ صرف سرمایہ کاری کے ایک نئے راستے کے طور پر سامنے آئی ہے، بلکہ اس کی مقبولیت میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کرپٹو کرنسی کی ایک اہم خصوصیت بلاک چین ٹیکنالوجی ہے، جو ہر ٹرانزیکشن کو محفوظ اور قابلِ تصدیق بناتی ہے۔ اگرچہ کرپٹو کرنسی میں پیسہ کمانا ممکن ہے، مگر اس کے ساتھ ہی اس کے نقصانات اور خطرات بھی ہیں۔ یہ ڈی سینٹرلائزڈ کرنسی نہ کسی حکومت کے زیرِ نگرانی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مرکزی ادارہ ہے، جس کی وجہ سے دھوکہ دہی کے واقعات اور مارکیٹ کی غیر مستحکم حالت بڑھ سکتی ہے۔ اس کرنسی کی سپلائی کا عمل بھی مختلف ہوتا ہے، بعض کرنسیز کی محدود سپلائی ہے جیسے بٹ کوائن، جبکہ دیگر کی سپلائی لامحدود ہے۔ اس کے باوجود، کرپٹو کرنسی نے عالمی سطح پر سرحدوں کے بغیر لین دین کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ مثال کے طور پر ایل سلواڈور وہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے بٹ کوائن کو قانونی حیثیت دی، جو کہ کرپٹو کرنسی کے مستقبل کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ لیکن دنیا بھر کے معاشی ماہرین اس نئی کرنسی کے اثرات سے خوف زدہ ہیں کہ کہیں یہ روایتی کرنسیوں اور بینکنگ نظام کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ کرپٹو کرنسی سے وابستہ افراد بھی اسے ایک محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر دیکھتے ہیں، حالانکہ اس کی اتار چڑھاؤ والی قیمتوں کی وجہ سے اس میں سرمایہ کاری کرنا مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے۔ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ کرپٹو کرنسی سونے جیسے قیمتی اثاثوں کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اس کے باوجود، غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے لیے یہ ایک موزوں پلیٹ فارم بن چکا ہے، کیونکہ یہ کرنسی کسی ملک یا حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ کرپٹو کرنسی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے ایک نئی مالیاتی دنیا کو جنم دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس سے جڑے قانونی، مالیاتی، اور سیکیورٹی مسائل کو حل کرنا بھی ضروری ہو گا تاکہ اس کا پائیدار استعمال ممکن ہو سکے۔

21 توپوں کی سلامی کا راز! علامتِ امن یا رعب کا اظہار

Canon

ملک خداد پاکستان میں یوم آزادی اور دیگر اہم ریاستی و حکومتی سرکاری دنوں کے موقع پر 21 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز ہوتا ہے بلکہ امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، چین، بھارت اور کینیڈا سمیت دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں اہم ریاستی و حکومتی دنوں کے آغاز پر 21 توپوں کی سلامی ضرور دی جاتی ہے۔ لیکن آخر سلامی کے لیے 21 توپیں ہیں کیوں، یہ 20 یا 22 بھی ہوسکتی تھیں، یا ان کی تعداد ایک درجن تک بھی محدود ہوسکتی تھی؟ اُس وقت توپوں کو چلانے کا کام نہ صرف فوجیں کرتی تھیں، بلکہ عام اور بیوپاری افراد بھی توپیں چلایا کرتے تھے۔ توپوں کو چلانے کی تاریخ پہلے پہل قرون وسطیٰ کے زمانے میں اُس وقت ہوئی، جب دنیا میں جنگیں یا ایک دوسرے سے لڑنا معمول تھا۔ قریباً 14 ویں صدی میں پہلی بار توپوں کو چلانے کی روایت اُس وقت شروع ہوئی، جب کوئی فوج بحری راستے کے ذریعے دوسرے ملک جاتی تو ساحل پر پہنچتے ہی توپوں کے فائر کرکے یہ پیغام دیتی کہ ان کا مقصد لڑنا یا جنگ کرنا نہیں۔ افواج کی اس روایت کو دیکھتے ہوئے اُس وقت کے بیوپاری اور کاروباری افراد نے بھی ایک سے دوسرے ملک سفر کرنے کے دوران توپوں کو چلانے کا کام شروع کیا۔ روایات کے مطابق جب بھی کوئی بیوپاری کسی دوسرے ملک پہنچتا یا کوئی فوج کسی دوسرے ملک کے ساحل سمندر پہنچتی تو توپوں کے فائر کرکے یہ پیغام دیا جاتا کہ وہ لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور یہ فائر امن کا پیغام ہیں۔ چودہویں صدی تک فوج اور بیوپاریوں کی جانب سے 7 توپوں کے فائر کیے جاتے تھے اور اس کا بھی کوئی واضح سبب موجود نہیں کہ آخر 7 فائر ہی کیوں کیے جاتے تھے۔ غیر مستند تاریخ اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے جیسے دنیا میں ترقی ہوتی گئی اور بڑے بحری جہاز بنتے گئے، ویسے ہی توپوں کے فائر کرنے کی تعداد بھی بڑھتی گئی، جو 21 تک آ پہنچی۔  برطانوی فوج نے پہلی بار 1730 میں توپوں کو شاہی خاندان کے اعزاز کے لیے چلایا اور ممکنہ طور پر اسی واقعے کے بعد دنیا بھر میں سلامی اور سرکاری خوشی منانے کے لیے 21 توپوں کی سلامی کا رواج پڑا۔ جلد ہی 21 توپوں کی سلامی نے اہمیت اختیار کرلی اور برطانوی فوج نے 18 ویں صدی کے آغاز تک برطانوی شاہی خاندان کی عزت افزائی، فوج کے اعلیٰ سربراہان اور اہم سرکاری دنوں پر توپوں کی سلامی کو لازمی قرار دیا۔ اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ممالک اپنے یوم آزادی، اہم ریاستی و حکومتی دنوں پر توپوں کے فائر کرتے ہیں، جب کہ تمام ممالک ریاست اور حکومت کے سربراہ کی شان سمیت دیگر ریاستوں اور ممالک کے مہمانوں کو عزت دینے کے طور پر بھی 21 توپوں کی سلامی دیتے ہیں۔ پاکستان بھی اپنے یوم آزادی کا آغاز 21 توپوں کی سلامی سے کرتا ہے، لیکن ملک میں اس دن کے علاوہ بھی توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔

میرا برینڈ پاکستان“ شاندار نمائش پاکستانی کی خدمات پاکستانی کے لیے

#pakistanbrands, #pakistanmatters #localbrands

آجکل کی نسل میں برینڈ کا بہت زیادہ تعصب پایا جات ہے ، جسے سنو وہ ایک نئے برینڈ کا تذکرہ کرے گا ۔ اگر غیر ملکی برینڈ کا پاکستان میں بائیکاٹ کیا جائے تو مقامی مصنوعات کی قدر میں اضافہ ہو جائے گا۔ اسی مقصد کے لیے کراچی میں” میرا برینڈ پاکستان ” کے نام سے پاکستان بیزنس فورم کے تعاون سے 2 روزہ نمائش ایکسپو سنٹر کراچی میں جا رہی ہے۔ ہفتہ کے روز جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے اس 2 روزہ نمائش کا ایکسپوسنٹر کراچی میں افتتاح کیا۔ نمائش کے افتتاح کے موقع پرامیر جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری جاوید بلوانی ،جماعت اسلامی پاکستان کے جنرل سیکرٹری امیر العظیم، امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفرخان،،صدر پاکستان بزنس فورم کراچی چیپٹر سہیل عزیز،جنرل سیکرٹری عامر رفیع،سینئر نائب صدرفیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ثاقب فیاض مگوں و دیگر بھی موجود تھے۔ اس دفعہ نمائش میں پاکستان کے 500 برینڈز نے حصہ لیا ہے ، جن کے 400 اسٹالز لگائے گئے ہیں، جبکہ گزشتہ سال یعنی کہ 2024 میں میرا برینڈ پاکستان میں 200 اسٹالز لگائے گئے تھے۔ میرا برینڈ پاکستان کا مقصد پاکستانی صنعتوں کی مہارت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی اشیاء کو عالمی سطح پر فروغ دینا ہے۔ ملک کی اقتصادی ترقی کو نئی جہت نیا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے تا کہ پاکستانی کاروباری، سرمایہ کار اور جدت پسندوں کو اپنی مصنوعات اور خدمات کو فروغ دینے کے لیے ایک موقع ملے وہ اپنے آپس کے تعاون کو فروغ دیں۔ نمائش”میرا برینڈ پاکستان ” میں چھوٹے کاروبار سے منسلک افراد کے لیے شاندار موقع ہے جس میں وہ اپنے برینڈ کو ایک بڑے پلیٹ فارم کے ذریعے لوگوں تک متعارف کروا سکتے ہیں۔ یہ چھوٹے کاروبار سے منسلک افراد کے لیے مارکیٹنگ کا اہم موقع ہے۔ کراچی ایکسپو سنٹر میں جاری نمائش میں ہزاروں شہریوں نے شرکت کی ۔ شہریوں نے غیر ملکی برینڈ کو خریدنے کی بجائے پاکستانی برینڈز کو ترجیع دی اور اس نمائش کے حوالے سے شہریوں نے پاکستان میٹرز کے ساتھ اپنے مثبت تجربات شئیر کیے ہیں

سوشل میڈیا عوام کی آواز یا سیاسی پروپیگنڈے کا ذریعہ؟

Politicians

آج کے تیز رفتار ڈیجیٹل دور میں جہاں ہر خبر اور بیان صرف ایک کلک کی دوری پر ہے، سوشل میڈیا نے سیاسی جماعتوں کو عوام تک اپنے پیغامات پہنچانے کا ایک طاقتور اور مؤثر طریقہ فراہم کیا ہے۔ یہ پلیٹ فارم نہ صرف عوام سے براہ راست جڑنے کا ذریعہ بن چکا ہے، بلکہ سیاسی نظریات کو پھیلانے اور عوامی شعور کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا واقعی عوام کی آواز بن رہا ہے؟ یا یہ محض سیاسی پروپیگنڈے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے؟ سیاسی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی مہمات اور سوشل میڈیا پر ان کی موجودگی ایک اہم پہلو ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا سائنسز کی پروفیسر ڈاکٹر یاسمین فاروقی کے مطابق، سیاسی جماعتوں کو سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے دوران اخلاقی حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ انہیں اپنے کارکنوں کو تربیت دینی چاہیے تاکہ وہ درست اور ذمہ دارانہ طریقے سے معلومات پھیلائیں اور سماج میں سیاسی شعور کو بہتر انداز میں فروغ دیں۔ تاہم، سوشل میڈیا کی مہمات بعض اوقات معاشرتی نفرت اور سیاسی اختلافات کو بڑھا دیتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا کا استعمال مثبت، تعمیری اور تعلیمی انداز میں کریں تاکہ ایک صحت مند جمہوری معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ تو سوال یہ ہے: کیا سوشل میڈیا کی طاقت عوام کے فائدے میں استعمال ہو گی؟ یا اس کا غلط استعمال معاشرتی تفرقے اور نفرت کو بڑھا دے گا؟

آرٹیفیشل انٹیلی جینس تیز رفتار لیکن چیلنجز کی بھر مار، اے آئی صنعت منافع بخش کیسے ہوسکتی ہے؟

Ai

انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کا مستقبل بے حد روشن اور ترقی پذیر ہے، خصوصاً مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے میدان میں جس نے دنیا بھر میں منافع بخش انڈسٹری کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ آئی ٹی ایک ایسی صنعت ہے جو کسی جغرافیائی حدود کی پابند نہیں، اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے ماہرین عالمی سطح پر اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔ اے آئی نہ صرف ڈیفنس، ہیلتھ کیئر، ایئرلائن بُکنگ سسٹمز اور تعلیمی شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں لا رہی ہے بلکہ روایتی ملازمتوں کے انداز کو بھی بدل رہی ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کا ڈیٹا مینجمنٹ ہو یا مسائل کا فوری حل، اے آئی ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ 2024 میں اس ٹیکنالوجی پر 98 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اس کی اہمیت اور تیزی سے بڑھتی ہوئی ترقی کا واضح ثبوت ہے۔ اگر آپ بھی جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں تو یہ وقت بہترین ہے کیونکہ اے آئی نہ صرف بے شمار فوائد فراہم کرتی ہے بلکہ مستقبل کی معیشت میں نمایاں مقام حاصل کرنے جا رہی ہے۔

ماحول کے تحفظ کی طرف اہم قدم ،الیکٹرک وہیکلز کیا کردارادا کریں گی؟

electricvehicles, pollution, pakistan matters,

الیکٹرک گاڑیاں ماحولیاتی تحفظ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں کیونکہ یہ روایتی ایندھن پر چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں کم کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر گیسوں کا اخراج کرتی ہیں۔ فضائی آلودگی میں کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ نہایت ضروری ہے۔ یہ گاڑیاں توانائی کے متبادل ذرائع کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جو طویل المدتی، ماحول دوست اور پائیدار ترقی کی ضمانت ہیں۔ الیکٹرک گاڑیوں کی مقبولیت اور فروغ معیشت پر مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ مقامی صنعتوں میں بیٹری کی تیاری اور چارجنگ انفراسٹرکچر کی ترقی سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ایندھن کی درآمدات میں کمی سے زرمبادلہ کی بچت بھی ہوگی۔ان گاڑیوں کے استعمال سے آسان اور سستی آمدورفت بھی میسر ہو گی۔

سستی بجلی محض ایک دعویٰ؟ کیا عوامی ردعمل حکومت کو جگا سکے گا؟

#electrictybills #cheapelectricity #pakistanipeopleangry #protest

پاکستان، ایک ایسا ملک جو توانائی کے بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ ایک طرف حکومت کے دعوے اور وعدے، اور دوسری طرف عوام بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات کے دوران ہر سیاسی جماعت نے بجلی 300 یونٹ تک مفت بجلی، قیمتوں میں 50 روپے تک کمی اور بلاتعطل فراہمی جیسے وعدے کیے، لیکن زمینی حقائق دعوؤں کے بالکل برعکس ہیں۔ دعوے صرف دعوے ہی رہ گئے، عوام کو بجلی کے بلوں کی شکل میں نئے ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،جہاں عوام غربت اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، وہیں حکومت اپنے مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ حکومتی وزراء کی تنخواہوں میں 35% اضافہ ہوا ، سرکاری افسران کو مفت بجلی، گاڑیاں، اور دیگر مراعات دی گئی جبکہ پارلیمنٹ میں وزراء کے سفر اور دیگر اخراجات کے لیے بھی اربوں روپے مختص کیے گئ ہیں۔

موسم سرما کی سوغات، خشک میوہ جات عام آدمی کی قوت خرید سے باہر

dryfruits, winter, infilation, pakistan, pakistanmatters, karachi matters,

سردیوں میں خشک میوہ جات کی اہمیت اور فوائد سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا، لیکن آج کل عوام کی رائے یہ ہے کہ ان کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ یہ صرف امیر طبقے تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ عام عوام کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں خشک میوہ جات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ان کا استعمال زیادہ تر متوسط اور غریب طبقے کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔ ایک عام شہری نے کہا، “ہمیں خشک میوہ جات بہت پسند ہیں، لیکن جب قیمتیں اتنی زیادہ ہو گئیں ہیں، تو ہم ان کو خریدنے سے قاصر ہیں۔” کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان میوہ جات کا سردیوں میں استعمال جسم کو گرم رکھنے اور قوت مدافعت بڑھانے کے لیے ضروری ہے، مگر موجودہ قیمتوں نے ان کی دسترس میں آنا مشکل بنا دیا ہے۔  

کینسر سے لڑنے والا کم عمر اویس ‘چائلڈ اسٹار رپورٹر’ کیسے بنا؟

owais shahzad, pakistanmatters,interview, young journalist

ننھے صحافی اویس شہزاد کے تابڑ توڑ سوالات سے بڑے بڑے سیاستدان، کھلاڑی، اداکار، اور کاروباری شخصیات مشکلات کا شکار کھائی دیتے ہیں۔ شاہ زیب خانزادہ اور حامد میر سے متاثر چائلڈ سٹار رپورٹر کا حقیقت میں آئیڈیل کون؟ والد بھی اپنے بیٹے کی خداداد صلاحیتوں کے معترف ہیں، کیا اویس بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح کرکٹ کا دیوانہ ہے؟، اویس کا پسندیدہ کھلاڑی کون؟ انٹرویو دوران شاہد آفریدی کو مقابلے کے لیے کھلا چیلنج دے دیا۔ ننھے صحافی کے کینسر جیسے خطرناک مرض سے لڑنے کے لیے حوصلے بلند ہیں۔ اویس روزانہ کی بنیاد پر کینسر کا مقابلہ کرنے والے بچوں اور ان کے والدین کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ اویس کی کہانی عزم، امید اور ناقابل تسخیر حوصلے کی مثال ہیں۔

پاکستان میں تیزی سےمقبول ہوتا “پکل بال”، کیا آپ کھیلنے کا طریقہ جانتے ہیں؟

pickle ball, tennis court, pakistan

پکل بال ایک منفرد کھیل ہے جسے 1965 میں بین بریج آئی لینڈ، واشنگٹن میں تین افراد نے تخلیق کیا۔ یہ کھیل ٹینس، پنگ پانگ، اور بیڈ منٹن کا دلچسپ امتزاج ہے۔ پکل بال کھیلنے کے لیے ایک چھوٹا کورٹ، ایک چپٹا ریکٹ، اور سوراخوں والی پلاسٹک کی گیند استعمال کی جاتی ہے۔ اس کھیل میں نہ صرف تیز رفتاری کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ حکمت عملی بھی اہمیت رکھتی ہے، جو اسے ہر عمر اور مہارت کے کھلاڑیوں کے لیے چیلنجنگ اور دلچسپ بناتی ہے۔ یہ کھیل بیڈ منٹن کے سائز کے کورٹ پر کھیلا جاتا ہے، جس میں ٹینس کے نیٹ سے تھوڑا چھوٹا نیٹ ہوتا ہے۔ کھلاڑی پنگ پانگ کے پیڈل سے تھوڑا بڑا پیڈل استعمال کرتے ہیں، اور گیند پنگ پانگ کی بال سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔ پکل بال سنگل اور ڈبل کھیلوں میں کھیلا جا سکتا ہے اور اس کے ٹورنامنٹس بھی عالمی سطح پر مقبول ہیں۔ اس کی سادگی اور دلچسپی کی بدولت یہ کھیل ہر نسل میں بڑھتی ہوئی مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔