سستی بجلی محض ایک دعویٰ؟ کیا عوامی ردعمل حکومت کو جگا سکے گا؟

پاکستان، ایک ایسا ملک جو توانائی کے بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ ایک طرف حکومت کے دعوے اور وعدے، اور دوسری طرف عوام بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات کے دوران ہر سیاسی جماعت نے بجلی 300 یونٹ تک مفت بجلی، قیمتوں میں 50 روپے تک کمی اور بلاتعطل فراہمی جیسے وعدے کیے، لیکن زمینی حقائق دعوؤں کے بالکل برعکس ہیں۔ دعوے صرف دعوے ہی رہ گئے، عوام کو بجلی کے بلوں کی شکل میں نئے ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،جہاں عوام غربت اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، وہیں حکومت اپنے مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ حکومتی وزراء کی تنخواہوں میں 35% اضافہ ہوا ، سرکاری افسران کو مفت بجلی، گاڑیاں، اور دیگر مراعات دی گئی جبکہ پارلیمنٹ میں وزراء کے سفر اور دیگر اخراجات کے لیے بھی اربوں روپے مختص کیے گئ ہیں۔
موسم سرما کی سوغات، خشک میوہ جات عام آدمی کی قوت خرید سے باہر

سردیوں میں خشک میوہ جات کی اہمیت اور فوائد سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا، لیکن آج کل عوام کی رائے یہ ہے کہ ان کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ یہ صرف امیر طبقے تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ عام عوام کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں خشک میوہ جات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ان کا استعمال زیادہ تر متوسط اور غریب طبقے کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔ ایک عام شہری نے کہا، “ہمیں خشک میوہ جات بہت پسند ہیں، لیکن جب قیمتیں اتنی زیادہ ہو گئیں ہیں، تو ہم ان کو خریدنے سے قاصر ہیں۔” کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان میوہ جات کا سردیوں میں استعمال جسم کو گرم رکھنے اور قوت مدافعت بڑھانے کے لیے ضروری ہے، مگر موجودہ قیمتوں نے ان کی دسترس میں آنا مشکل بنا دیا ہے۔
کینسر سے لڑنے والا کم عمر اویس ‘چائلڈ اسٹار رپورٹر’ کیسے بنا؟

ننھے صحافی اویس شہزاد کے تابڑ توڑ سوالات سے بڑے بڑے سیاستدان، کھلاڑی، اداکار، اور کاروباری شخصیات مشکلات کا شکار کھائی دیتے ہیں۔ شاہ زیب خانزادہ اور حامد میر سے متاثر چائلڈ سٹار رپورٹر کا حقیقت میں آئیڈیل کون؟ والد بھی اپنے بیٹے کی خداداد صلاحیتوں کے معترف ہیں، کیا اویس بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح کرکٹ کا دیوانہ ہے؟، اویس کا پسندیدہ کھلاڑی کون؟ انٹرویو دوران شاہد آفریدی کو مقابلے کے لیے کھلا چیلنج دے دیا۔ ننھے صحافی کے کینسر جیسے خطرناک مرض سے لڑنے کے لیے حوصلے بلند ہیں۔ اویس روزانہ کی بنیاد پر کینسر کا مقابلہ کرنے والے بچوں اور ان کے والدین کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ اویس کی کہانی عزم، امید اور ناقابل تسخیر حوصلے کی مثال ہیں۔
پاکستان میں تیزی سےمقبول ہوتا “پکل بال”، کیا آپ کھیلنے کا طریقہ جانتے ہیں؟

پکل بال ایک منفرد کھیل ہے جسے 1965 میں بین بریج آئی لینڈ، واشنگٹن میں تین افراد نے تخلیق کیا۔ یہ کھیل ٹینس، پنگ پانگ، اور بیڈ منٹن کا دلچسپ امتزاج ہے۔ پکل بال کھیلنے کے لیے ایک چھوٹا کورٹ، ایک چپٹا ریکٹ، اور سوراخوں والی پلاسٹک کی گیند استعمال کی جاتی ہے۔ اس کھیل میں نہ صرف تیز رفتاری کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ حکمت عملی بھی اہمیت رکھتی ہے، جو اسے ہر عمر اور مہارت کے کھلاڑیوں کے لیے چیلنجنگ اور دلچسپ بناتی ہے۔ یہ کھیل بیڈ منٹن کے سائز کے کورٹ پر کھیلا جاتا ہے، جس میں ٹینس کے نیٹ سے تھوڑا چھوٹا نیٹ ہوتا ہے۔ کھلاڑی پنگ پانگ کے پیڈل سے تھوڑا بڑا پیڈل استعمال کرتے ہیں، اور گیند پنگ پانگ کی بال سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔ پکل بال سنگل اور ڈبل کھیلوں میں کھیلا جا سکتا ہے اور اس کے ٹورنامنٹس بھی عالمی سطح پر مقبول ہیں۔ اس کی سادگی اور دلچسپی کی بدولت یہ کھیل ہر نسل میں بڑھتی ہوئی مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔
پاکستان میں الیکٹرک گاڑیاں: ماحولیاتی آلودگی کا حل تو ہیں مگر عمل کیسے ہو؟

حکومت پاکستان کی جانب سے ملک میں روایتی ایندھن کی جگہ الیکٹرک گاڑیوں کا چلن عام کرنے کی غرض سے الیکٹرک چارجنگ اسٹیشنز کے قیام کے لیے خصوصی مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق یہ عوام کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ وہ الیکٹرک وہیکلز پر منتقل ہو کر اپنے سفری اخراجات میں حیران کن کمی لا سکتے ہیں، ای وی سیکٹر ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ قدرتی ماحول کی بہتری میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ حکومت پاکستان نے صاف، سستی اور جدید ٹرانسپورٹ کی جانب پہلا قدم اٹھاتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ الیکٹرک وہیکل پالیسی نہ صرف ایندھن کے اخراجات کم کرے گی بلکہ صاف ہوا، روزگار کے مواقع اور ایک بہتر مستقبل کی ضمانت بھی دے گی۔ ای وی چارجنگ اسٹیشنز کے لیے حکومت کیا مراعات دے رہی ہے، کون سی گاڑیاں چارج ہو سکیں گی؟ اور دیگر موضوعات کی تفصیل دیکھیں پاکستان میٹرز کی اس ڈیجیٹل رپورٹ میں۔