بائیکاٹ یا قانون شکنی؟ کے ایف سی حملے کے بعد اضافی نفری تعینات

پاکستان میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم تیز ہوگئی ہے، کراچی میں انٹرنیشنل فوڈ چین کے ایف سی پر نامعلوم افراد کی توڑ پھوڑ کے بعد کے ایف سی نے ڈائنگ کی سروس معطل کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق منگل کے روز ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں واقع کے ایف سی اور ڈومینو پیزہ پر مشتعل افراد نے دھاوا بول دیا تھا، جس کے نتیجے ریسٹورنٹ کے شیشے اور املاک کو نقصان پہنچا تھا، جس کے بعد کے ایف سی نے بہادر آباد اور ڈیفنس میں ڈائنگ سروس معطل کردی۔ ڈی آئی جی جنوبی اسد رضا کا کہنا ہے کہ ڈنڈا بردار جتھے کی جانب سے املاک کو نقصان پہنچایا گیا، واقعہ کی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے، جب کہ اشتعال انگیزی میں ملوث افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، باقی ملزمان ک تلاش جاری ہے۔ دونوں فوڈ چین کے باہر پولیس کی اضافی نفری تعنیات کردی گئی ہے۔ ضلع گڈاپ میں بھی مشتعل افراد نے کے ایف سی پر حملہ کرنے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے اس کارروائی کو ناکام بنادیا، ایس ایس پی ملیر کاشف عباسی کے مطابق انٹرنیشنل برانڈز کے تمام فرنچائز کی سیکیورٹی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔ مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی فوج کے حملے، مزید 35 افراد شہید انٹرنیشنل برانڈز کے فرنچائز کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ ضلع بھر کے تمام تھانوں کی حدود میں پولیس پٹرولنگ اور اسنیپ چیکنگ میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس تخریب کاری میں ملوث 9 شرپسند وں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے خلاف زور پکڑ رہی ہے۔ اسی سلسلے میں شہر بھر کے بڑے بریانی سینٹرز اور ریسٹورنٹ پر لگے ہوئی غیر ملکی مشروبات کے سائنگ بورڈز بھی مالکان نے ہٹانا شروع کردیے ہیں، جن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مزید یہ کہ گزشتہ ہفتے گلشن اقبال میں بھی ایک انٹرنیشنل فوڈ چین کے سامنے نوجوانوں نے پرامن مظاہرہ کیا تھا۔

فلسطینی عوام تنہا اور امتِ مسلمہ صرف تماشائی بن گئی: قومی فلسطین کانفرنس

فلسطین میں جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف کل جمعہ کو یومِ مظلوم و محصورینِ فلسطین کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں 1967 سے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی اور غاصبانہ قرار دے چکی ہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مسلمہ عالمی قانون کے تحت ہر قوم کو اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کا حق حاصل ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف بھی غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں کو نسل کشی قرار دے چکی ہے۔ اعلامیے کے مطابق فلسطین کے حوالے سے کوئی بھی معاہدہ اہلِ ایمان کو اس جہاد میں شرکت سے نہیں روک سکتا، البتہ فلسطین کے نام پر کسی بھی مسلح کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والے ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غیر مشروط جنگ بندی تک اپنے سفارتی تعلقات معطل کریں۔ اعلامیے میں سلامتی کونسل کا فوری اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان کو اس معاملے میں پہل کرنی چاہیے۔ مزید پڑھیں: بائیکاٹ یا قانون شکنی؟ کے ایف سی حملے کے بعد اضافی نفری تعینات رکن اسلامی نظریاتی کونسل مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ اہلِ فلسطین کی عملی، جانی اور مالی مدد امتِ مسلمہ پر فرض ہے۔ تقاضا یہ تھا کہ ہم یہاں جمع ہونے کی بجائے غزہ میں جمع ہوتے۔ستم طریفی یہ ہے کہ ہم فلسطینی مجاہدین کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کرپارہے۔ قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ فلسطین میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، معاہدے کے باوجود بمباری جاری ہے، اسرائیل کو نہ اخلاقی اقدار کا پاس ہے اور نہ ہی عالمی قوانین کی قدر ہے۔ انہوں نے کہا کہ امتِ مسلمہ قبلہ اول کی حفاظت کے لیے لڑنے والے مجاہدین کی کوئی مدد نہیں کرسکی۔ آج امتِ مسلمہ قراردادوں اور کانفرنسز پر لگی ہوئی ہے۔

سندھ کا زرعی بجٹ: موسمیاتی چیلنجز کے مقابل جدید اسکیموں کا اعلان

جیسے ہی سندھ حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری کے آخری مراحل میں داخل ہوئی تو محکمہ زراعت کی ایک اہم بیٹھک نے سیاسی، ماحولیاتی اور زرعی حلقوں میں اہم فیصلے کیے ہیں۔  ایک طرف بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلی تو دوسری طرف پانی کی سنگین قلت، ان دونوں چیلنجز نے زرعی معیشت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ وزیر زراعت سردار محمد بخش مہر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں مستقبل کی زراعت کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ رکھنے اور کم پانی والی جدید زرعی اسکیموں پر زور دیا گیا۔  اجلاس میں محکمہ زراعت کے اعلیٰ افسران، سیکریٹری زراعت سہیل احمد قریشی، ایڈیشنل سیکریٹری ادریس کھوسو، ڈپٹی سیکریٹری احمد علی شیخ، ڈی جی ندیم شاہ اور دیگر شریک تھے۔ یہ اجلاس ایک نئے زرعی دور کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، جس میں سردار محمد بخش مہر نے واضع پیغام دیا ہے کہ “موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں پانی کی کمی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور مستقبل کی زراعت جدید اور کم پانی والی ٹیکنالوجی پر منحصر ہوگی۔” اسی مقصد کے تحت بجٹ میں ایسی اسکیمیں شامل کی جا رہی ہیں جو زراعت کو کم پانی میں بھی ممکن بنائیں گی۔ 772 ڈرپ ایریگیشن سسٹم، جن سے 12,190 ایکڑ زمین کو فائدہ پہنچے گا جو کہ پہلے ہی کسانوں کو فراہم کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت نے شمسی توانائی سے چلنے والے 536 ٹیوب ویلز پر بھی سبسڈی دی ہے تاکہ بجلی کی بڑھتی قیمتوں سے کسانوں کو تحفظ ملے۔  دوسری جانب 24,191 خواتین کو کچن گارڈن کٹس فراہم کی گئی ہیں جو نہ صرف گھریلو ضرورتیں پوری کر رہی ہیں بلکہ انہیں بااختیار بھی بنا رہی ہیں۔ اس اجلاس میں “بینظیر ہاری کارڈ” اسکیم کے تحت کسانوں کی آن لائن رجسٹریشن کو مزید تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔  اب تک 15,000 ہاری آن لائن جبکہ 16,000 مینوئل طریقے سے رجسٹر ہو چکے ہیں۔  وزیر زراعت کا کہنا تھا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ سندھ کا ہر ہاری اس سہولت سے مستفید ہو۔” اس کے علاوہ زرعی مشینری پر سبسڈی دینے کی تجویز بھی بجٹ میں شامل کی گئی ہے تاکہ کسان جدید آلات سے لیس ہو کر اپنی پیداوار میں اضافہ کر سکیں۔  اس اقدام سے نہ صرف فصل کی لاگت کم ہوگی بلکہ پیداوار بھی دوگنی ہو سکتی ہے۔ سندھ حکومت کی یہ کوشش بظاہر ایک انقلابی قدم ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کسان ان جدید تقاضوں کے لیے تیار ہیں؟ کیا وہ ان اسکیموں سے پوری طرح مستفید ہو پائیں گے؟ یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے چولستان کینال منصوبے کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد جمع کروا دی

گرین پاکستان انیشیٹو: ’چولستان کینال کی تعمیر کومعطل رکھا جائے‘

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں ایک قرارداد جمع کرائی جس میں انہوں نے “گرین پاکستان انیشیٹیو” کے تحت سندھ کے پانی کے حقوق پر اثر انداز ہونے والے چولستان کینال منصوبے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔  اس قرارداد کو اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کی قیادت میں تیار کیا گیا تھا اور اس میں پارٹی کے اہم رہنماؤں جیسے زرتاج گل، علی محمد خان اور مجاہد خان نے دستخط کیے۔ قرارداد میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ چولستان کینال کے منصوبے کو فوراً روکے تاکہ سندھ کے پانی کے حقوق اور زرعی شعبے پر اس کے منفی اثرات سے بچا جا سکے۔  پی ٹی آئی نے حکومت سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ صوبہ سندھ کے اعتراضات کو سنجیدگی سے لے اور تمام متعلقہ فریقوں کی مشاورت کے بغیر اس منصوبے پر کسی بھی قسم کا فیصلہ نہ کرے۔ قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا کہ پنجاب کے چولستان کینال منصوبے، جو کہ 2024 کے اکتوبر میں سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کی منظوری سے شروع ہوئے ہیں، اب سندھ کے پانی کی فراہمی، زرعی پیداوار اور ماحولیاتی نظام پر سنگین اثرات ڈال سکتے ہیں۔  اس قرارداد میں وفاقی حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ چولستان کینال کی تعمیر کو اس وقت تک معطل رکھا جائے جب تک کہ کونسل آف کامن انٹرسٹس (سی سی آئی) سے رسمی اجازت نہ مل جائے۔ پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکلز 154 اور 155 کے تحت اس منصوبے کی منظوری ضروری ہے اور سندھ کے پانی کے حقوق کی حفاظت کی جانی چاہیے۔  سندھ کے 48.76 ملین ایکڑ فٹ پانی کی فراہمی کی ضمانت دی جانی چاہیے اور کوٹری بیراج کے نیچے 10 ملین ایکڑ فٹ پانی کی ماحولیاتی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی حفاظت کی جا سکے۔ یہ قرارداد اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ سندھ کے عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے 1991 کے معاہدے کی مکمل عملداری ضروری ہے۔  پی ٹی آئی نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ایریسا) کی پانی کی فراہمی کے حوالے سے ایک آزاد آڈٹ کرایا جائے جس میں ماہرین کی ایک غیرجانبدار ٹیم شامل ہو تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ آیا منصوبہ سندھ کے آبی حقوق سے ہم آہنگ ہے یا نہیں۔ پی ٹی آئی کی قرارداد میں شفاف مشاورت اور فیصلوں کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔  قرارداد میں کہا گیا کہ چولستان کینال منصوبے کے حوالے سے تمام فیصلے سندھ کے منتخب نمائندوں، سول سوسائٹی اور دیگر متعلقہ فریقوں کے ساتھ مشاورت کے بعد کیے جائیں اور ان مشاورتوں کی کارروائیوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ کسی بھی شک و شبے کی گنجائش نہ ہو۔ اس قرارداد کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس منصوبے پر سندھ اور پنجاب حکومتوں کے درمیان تیز ہوتی ہوئی لفظی جنگ نے اس تنازعہ کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔  کراچی میں گزشتہ اتوار کے روز ہونے والی ایک احتجاجی ریلی میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس منصوبے کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھیں گے اور کراچی کی پانی کی فراہمی کو متاثر کرنے کی دھمکی دی ہے۔ دریں اثنا، سندھ اسمبلی نے مارچ میں اس منصوبے کے خلاف ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں اس منصوبے کے آغاز کی مخالفت کی گئی تھی۔  اس قرارداد کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ سندھ کے سیاسی حلقوں میں اس مسئلے پر شدید اختلافات نظر آ رہے ہیں۔

دہشتگردی کے خلاف حکمتِ عملی: سندھ حکومت نے انتظامات کر لیے

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کا 32 واں اجلاس منعقد ہوا جس میں اہم سیاسی و انتظامی شخصیات نے شرکت کی۔ اجلاس میں سینئر وزیر شرجیل انعام میمن، وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار، کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل محمد اویس دستگیر، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل محمد شمریز، سیکریٹری داخلہ اقبال میمن، انسپیکٹر جنرل پولیس غلام نبی میمن، پرنسپل سیکریٹری آغا واصف، ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو اور دیگر متعلقہ اداروں کے افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبوں میں اپیکس کمیٹیوں کی تشکیل پر گفتگو کی گئی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس موقع پر کہا کہ سندھ حکومت نے دہشت گردی کو قابو کرنے کے لیے مؤثر پالیسی اپنائی ہے اور صوبے میں دہشت گردی، منشیات اور دیگر سنگین جرائم کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز جاری ہیں۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں شہریوں کو کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ صوبے کو دہشت گردی، منشیات اور دیگر جرائم سے پاک کرنے کے لیے اقدامات کو مزید بہتر کیا جائے گا۔ انہوں نے اجلاس میں بتایا کہ گزشتہ اپیکس کمیٹی اجلاس کی روشنی میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے مزید سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت کراچی میں دو سینٹرز کام کر رہے ہیں اور صوبے بھر میں 31 فرینڈلی پولیس اسٹیشنز قائم کیے جا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ دس پولیس تھانوں کو اپگریڈ کیا گیا ہے اور باقی پر کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ اسلحہ کی نمائش پر سیکشن 144 لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے نجی گاڑیوں پر سول ڈریس میں گارڈز کے خلاف کارروائی تیز کرنے کی ہدایت دی۔ انہوں نے بتایا کہ گاڑیوں پر پولیس لائٹس، رنگین شیشے، فینسی نمبر پلیٹس اور اسلحہ کی نمائش کے خلاف صوبے بھر میں 1474 ایف آئی آرز درج کی گئیں جن پر 34.6 ملین روپے کا جرمانہ وصول کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ آپریشنز کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی پولیس تینوں صوبوں کے ڈاکوؤں کے خلاف مشترکہ آپریشن کرنے کے لیے رابطہ کر رہی ہے۔ سندھ پولیس اور رینجرز کچے میں مشترکہ آپریشن کر رہی ہیں اور دونوں صوبوں میں ایک ہی گینگ کے ڈاکوؤں کی موجودگی کی اطلاع ملی ہے جو دونوں طرف جرائم کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے تینوں صوبوں کی رابطہ کاری سے مشترکہ آپریشن پلان بنانے کا فیصلہ کیا۔ مزید برآں، حب پر مشترکہ چیک پوسٹ قائم کرنے کے لیے 214 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں تاکہ سندھ-بلوچستان بارڈر پر اسمگلنگ اور دیگر جرائم کو روکا جا سکے۔ سندھ حکومت نے فیوژن سینٹر ڈی جی نارکوٹکس آفس میں قائم کیے ہیں جس کے تحت ایجنسیوں کے درمیان بہتر کوآرڈینیشن سے نارکوٹکس کرائم کی کھوج مزید مؤثر ہوگی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ سال 2025ء میں انسداد دہشت گردی کے 23 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے 7 چالان کیے گئے، 4 کو سزائیں ہوئیں اور باقی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ سال 2024ء میں بھی دو مقدمات میں سزائیں ہوئیں۔ وزیراعلیٰ نے انسداد دہشت گردی کے مقدمات کی پراسیکیوشن کو مضبوط کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ وزیراعلیٰ نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ سال 2025ء میں دہشت گردوں کے خلاف 318 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جن میں 153 مقدمات درج کر کے 84 مجرم گرفتار کیے گئے اور 12 دہشت گرد مارے گئے۔ اس کے علاوہ سندھ پولیس نے چائنیز کی سکیورٹی کے لیے خصوصی یونٹ قائم کیا ہے تاکہ سی پیک اور نان سی پیک منصوبوں میں کام کرنے والے چائنیز باشندوں کو سکیورٹی فراہم کی جا سکے۔ سندھ حکومت نے پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کو مزید مضبوط کرنے کے لیے 3.6 بلین روپے مختص کیے ہیں، تاکہ جدید آلات، سافٹ ویئرز اور فرانزک ٹولز کی خریداری کی جا سکے۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس کی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنایا جائے گا اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کے ذریعے مزید دہشت گردوں کو گرفتار کیا جائے گا۔

مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا لیکن سرحدوں کو محفوظ بنانا ضروری ہے، ترجمان دفترِ خارجہ

پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے حالیہ ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں امریکا کی جانب سے ٹیرف کے نفاذ پر پاکستان کے ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے امریکا کے اس اقدام کو نوٹ کیا ہے اور اس معاملے پر وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ ترجمان نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ٹیرف کا اثر ترقی پذیر ممالک پر ہو رہا ہے اور اس مسئلے کا حل نکالنا ضروری ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے ساتھ مشکل وقت میں تعاون کیا ہے، لیکن پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ بنانا اور ان کا کنٹرول ہماری پالیسی کا حصہ ہے۔ یواے ای میں پاکستانی ویزوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستانی شہریوں پر ویزوں کی پابندی مکمل نہیں ہے اور اس سلسلے میں کوئی نئی پابندیاں نہیں لگائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، انھوں نے آئی ایف آر پی انٹرنیشنل فورینرز ریٹرن پروگرام کے نفاذ پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ پاکستان غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کے عمل پر عمل کر رہا ہے۔ امریکا کے بگرام ائیر بیس کی قیام کی افواہوں کو سوشل میڈیا پر زیر بحث لانے والے معاملے پر شفقت علی خان نے کہا کہ یہ ایک افغان اور امریکی حکومت کا آپسی مسئلہ ہے اور پاکستان اس میں مداخلت نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے بیلاروس کے دورے کا اعلان کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ وزیر اعظم 10-11 اپریل کو بیلاروس کا سرکاری دورہ کریں گے، جس دوران وہ صدر لوکاشینکو سے ملاقات کریں گے اور دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے بات چیت کریں گے۔ اس دورے کا مقصد پاکستان اور بیلاروس کے درمیان تعاون کو فروغ دینا اور متعدد معاہدوں پر دستخط کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، وزیر خارجہ نے سعودی عرب اور امریکا کے وزرائے خارجہ سے ٹیلیفونک بات چیت کی اور دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے آخر میں کہا کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ عالمی مسائل پر بات چیت کے ذریعے تعاون بڑھایا جائے، اور اسی سلسلے میں پاکستان نے میانمار کے زلزلہ متاثرین کے لیے 35 ٹن امدادی سامان بھیجا ہے۔

افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی: ارشد ‘چائے والا’ کا بھی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا گیا

مردان کا رہائشی ارشد خان، جو 2016 میں ایک چائے والے کے طور پر سوشل میڈیا پر مشہور ہو گیا تھا، اس نے اپنے CNIC اور پاسپورٹ کے بلاک ہونے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔  ارشد خان کا کیس ایک قانونی جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے جس میں نہ صرف حکومت کے فیصلے پر سوال اٹھایا جا رہا ہے بلکہ اس کے ذاتی حقوق اور شہرت کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ ارشد خان کی شہرت 2016 میں اُس وقت بڑھی جب اس کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی وہ تصویر اُس وقت کی سب سے مشہور میم بن گئی، جس میں ارشد خان چائے کی ٹھیلے پر نظر آ رہا تھا اور اس کا اسٹائل نیا اور منفرد تھا۔  اس تصویر نے ارشد کو راتوں رات شہرت کی بلندیاں عطا کیں اور اس کے بعد وہ ایک مشہور شخصیت بن گیا۔ لیکن اب وہ ایک نئی پریشانی میں مبتلا ہے۔ ارشد خان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کر دیا گیا ہے اور حکومتی ادارے اس کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی تجدید سے انکار کر رہے ہیں۔  اس معاملے کی وضاحت دیتے ہوئے ارشد خان کے وکیل، بیرسٹر عمر اعجاز گلانی نے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔  ان کا کہنا تھا کہ ارشد خان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے حکومتی ادارے جان بوجھ کر اس کے حقوق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ بیرسٹر گلانی نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ارشد خان کا خاندان ملک کی شہریت کے حوالے سے مکمل طور پر دستاویزی ریکارڈ رکھتا ہے اور حکومتی اداروں کی جانب سے 1978 سے پہلے کے رہائشی ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہے۔  ان کے مطابق یہ ایک واضح مثال ہے کہ حکومتی ادارے ارشد خان کے حقوق کو غیر ضروری طور پر متاثر کر رہے ہیں۔ اس درخواست کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جاوید حسن نے وفاقی حکومت اور دیگر متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔  عدالت نے 17 اپریل تک تمام متعلقہ فریقوں کو جواب دینے کی ہدایت کی ہے اور اس دوران ارشد خان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے نادرا اور وزارت داخلہ کے افسران کو متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف دو روزہ سرکاری دورے پر بیلاروس پہنچ گئے

وزیرِاعظم شہبازشریف بیلاروس کے دو روزہ سرکاری دورے پر بیلاروس پہنچ گئے، جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے منسک کے وکٹری سکوائر کا دورہ کیا اور یادگار پر پھول رکھے۔ وکٹری سکوائر جنگِ عظیم دوم میں جاں بحق فوجی اہلکاروں کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ وزیرِاعظم کے ہمراہ نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار، وزیرِاطلاعات عطاء اللہ تاڑر اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی موجود ہیں۔ وزارتِ خارجہ، حکومتِ پاکستان کے ترجمان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف، صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی دعوت پر 10 اور 11 اپریل 2025 کو جمہوریہ بیلاروس کا سرکاری دورہ کریں گے۔ اس اعلیٰ سطحی وفد میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز، دیگر وزراء اور سینئر حکام شامل ہیں۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ دورہ نومبر 2024 میں صدر لوکاشینکو کے اہم دورۂ پاکستان کے تسلسل میں ہو رہا ہے۔ اپنے قیام کے دوران، وزیراعظم پاکستان صدر لوکاشینکو سے ملاقات کریں گے، جس میں دوطرفہ دلچسپی کے شعبوں میں پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔ ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان اور بیلاروس کے درمیان اعلیٰ سطحی روابط میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جن میں فروری 2025 میں آٹھویں مشترکہ وزارتی کمیشن کا اجلاس اور اپریل 2025 میں ایک اعلیٰ سطحی مخلوط وزارتی وفد کا بیلاروس کا دورہ شامل ہیں۔ ان روابط نے وزیراعظم کے دورے کی راہ ہموار کی ہے۔ دورے کے دوران مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے کئی معاہدوں پر دستخط کی توقع ہے۔ ترجمان کے مطابق، وزیراعظم کا یہ دورہ پاکستان اور بیلاروس کے درمیان مضبوط اور مسلسل شراکت داری کا مظہر ہے، جو دونوں ممالک کے باہمی مفاد اور خطے میں امن و ترقی کے لیے اہم ثابت ہوگا۔

پاکستانی معدنیات: کیا امریکا کی نظریں اسلام آباد پر ہیں؟

اسلام آباد کی فضا ان دنوں قدرے مختلف ہے، خاموش مگر گہری سیاسی چہل پہل، سفارتی سرگرمیوں کی غیر معمولی جنبش اور ایک اہم پیغام۔ 8 اور 9 اپریل کو اسلام آباد کی سڑکوں پر ایک ایسا مہمان گھوم رہا تھا جو صرف رسمی دورے پر نہیں آیا تھا بلکہ وہ کچھ خاص لے کر آیا تھا جیسا کہ امریکی دلچسپی، سرمایہ کاری اور ایک عالمی دوڑ کا آغاز۔ یہ مہمان کوئی اور نہیں بلکہ امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے سینیئر عہدیدار ایرک میئر تھے۔  ایرک میئر کا کہنا تھا کہ “صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ دنیا بھر میں قیمتی معدنیات کے قابل اعتماد ذرائع تک رسائی اب امریکا کی ایک تزویراتی ترجیح ہے۔” یہ محض ایک بیان نہیں بلکہ ایک عالمی اعلان تھا۔ ایک ایسی دوڑ جس میں امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اس کا پارٹنر بنے، زمین کے نیچے دفن ان معدنیات کی بدولت جنہیں عالمی ٹیکنالوجی، دفاع اور صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ایرک میئر نے پاکستان منرلز انوسٹمنٹ فورم میں شرکت کی اور واضح پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ “پاکستان کی معدنی دولت اگر ذمہ داری اور شفافیت کے ساتھ تیار کی جائے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی شراکت داروں کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔” اس کے علاوہ میئر نے اور بھی ملاقاتیں کیں جن میں وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک سمیت کئی کلیدی شخصیات شامل ہیں۔ ان ملاقاتوں میں انہوں نے معاشی تعاون، سرمایہ کاری اور انسداد دہشت گردی کے تحت باہمی تعاون کی نئی تجاویز پیش کیں۔ ایرک میئر نے امریکی چیمبرز آف کامرس، سابق طالبعلموں اور خارجہ پالیسی کے اسٹیک ہولڈرز سے بھی ملاقات کی۔  ان کا کہنا تھا کہ امریکا اب صرف “دوستی” کا خواہاں نہیں بلکہ “شراکت داری” کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے، ایک ایسی بنیاد جس کی جڑیں معیشت، وسائل اور عوامی تعلقات میں پیوست ہوں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دورے کے بعد کئی امریکی کمپنیاں پاکستان کے معدنی شعبے میں عملی سرمایہ کاری کی تیاری کر رہی ہیں۔ اس میں صرف لیتیھیم یا کوبالٹ جیسے قیمتی مادے شامل نہیں بلکہ مستقبل کی ٹیکنالوجیز کا خواب بھی جڑا ہے، وہ خواب جو پاکستان کی زمین میں چھپا ہوا ہے اور اب دنیا کی نظریں اس پر ہیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستان عالمی افق پر صرف جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے اہم سمجھا جاتا تھا۔ اب منظر بدل رہا ہے۔ اب اہمیت اس دولت کی ہے جو زیرزمین ہے۔

کراچی میں ڈمپر حادثہ: ایک ٹکر، 9 گاڑیاں نذرِ آتش

شہر قائد ایک بار پھر آگ، غصے اور چیخ و پکار کی لپیٹ میں آگیا، جہاں نارتھ کراچی کے پاور ہاؤس چورنگی پر ایک معمولی ٹریفک حادثے نے دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد ہنگامے کی صورت اختیار کر لی۔  ایک ڈمپر کی موٹرسائیکل کو ٹکر کیا لگی، مشتعل ہجوم نے انتقام کی ایسی آگ بھڑکائی جس میں نو گاڑیاں خاکستر ہو گئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ڈمپر کا ڈرائیور محض 17 یا 18 سالہ لڑکا تھا جو ریس لگاتے ہوئے پاور ہاؤس چورنگی کے قریب پہنچا اور اچانک اُس کی بے قابو گاڑی ایک موٹرسائیکل سے ٹکرا گئی، جس پر سوار شخص شدید زخمی ہو گیا۔  آس پاس لوگوں نے ڈرائیور کو پکڑنے کی کوشش کی تو وہ فرار ہونے کی کوشش میں مزید دو موٹرسائیکلوں پر چڑھ دوڑا۔  خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن علاقے میں اشتعال کی چنگاری بھڑک چکی ہے۔ پھر وہی ہوا جو اکثر غصے میں اندھے ہجوم کرتے ہیں، ڈمپروں اور واٹر ٹینکروں کو گھیر کر اُن پر پٹرول چھڑکا گیا اور پھر شعلوں نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔  دیکھتے ہی دیکھتے پانچ ڈمپر اور چار واٹر ٹینکر آگ کی نذر ہوگئے۔ پولیس کے مطابق یہ پرتشدد کارروائیاں صرف پاور ہاؤس چورنگی تک محدود نہ رہیں۔ فور کے چورنگی اور سرجانی کے بابا موڑ پر بھی واٹر ٹینکروں کو نذر آتش کیا گیا۔  صورتحال اتنی خراب ہو چکی تھی کہ پورے علاقے میں رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی۔  فائر بریگیڈ کی ٹیمیں بروقت پہنچیں اور کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پایا گیا۔ ڈمپر ایسوسی ایشن کے رہنما لیاقت محسود میڈیا کے سامنے آئے اور اپنی فریاد پیش کی۔  ان کا کہنا تھا کہ “میری 11 گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اگر واقعی کوئی زخمی ہوا ہے تو اُسے سامنے لایا جائے، ہماری گاڑیوں کو جلانے والے کہاں سے آئے؟ حکومت ہمیں تحفظ دینے میں ناکام کیوں ہوئی؟” پاور ہاؤس چورنگی کا معاملہ ابھی تھما نہیں تھا کہ سپر ہائی وے پر ڈمپر ڈرائیوروں نے احتجاج شروع کر دیا۔ لدھا ہوا کچرا سڑک پر گرا کر ٹریفک کا نظام درہم برہم کر دیا گیا۔  سہراب گوٹھ کے آس پاس کئی گھنٹوں تک گاڑیاں رینگتی رہیں اور عوام کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ادھر پولیس نے بھی حرکت میں آتے ہوئے رات گئے علاقے میں کریک ڈاؤن شروع کیا۔  سی سی ٹی وی فوٹیج اور موبائل ویڈیوز کی مدد سے مشتبہ افراد کی شناخت کی جا رہی ہے۔ کئی افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے اور پولیس کا کہنا ہے جبکہ حالات پر مکمل کنٹرول ہے۔ ایس ایس پی سینٹرل نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ “ہم نے پاور ہاؤس کی تمام سڑکیں کھول دی ہیں، امن و امان کو خراب کرنے والے عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی جائے گی۔” یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کراچی میں ہیوی گاڑیوں کی غفلت سے ہونے والے حادثات روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔  صرف گزشتہ 99 دنوں میں 78 افراد ان گاڑیوں کی زد میں آ کر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 256 ہو چکی ہے۔