دہشتگردی کے خلاف حکمتِ عملی: سندھ حکومت نے انتظامات کر لیے

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کا 32 واں اجلاس منعقد ہوا جس میں اہم سیاسی و انتظامی شخصیات نے شرکت کی۔ اجلاس میں سینئر وزیر شرجیل انعام میمن، وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار، کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل محمد اویس دستگیر، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل محمد شمریز، سیکریٹری داخلہ اقبال میمن، انسپیکٹر جنرل پولیس غلام نبی میمن، پرنسپل سیکریٹری آغا واصف، ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو اور دیگر متعلقہ اداروں کے افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبوں میں اپیکس کمیٹیوں کی تشکیل پر گفتگو کی گئی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس موقع پر کہا کہ سندھ حکومت نے دہشت گردی کو قابو کرنے کے لیے مؤثر پالیسی اپنائی ہے اور صوبے میں دہشت گردی، منشیات اور دیگر سنگین جرائم کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز جاری ہیں۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں شہریوں کو کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ صوبے کو دہشت گردی، منشیات اور دیگر جرائم سے پاک کرنے کے لیے اقدامات کو مزید بہتر کیا جائے گا۔ انہوں نے اجلاس میں بتایا کہ گزشتہ اپیکس کمیٹی اجلاس کی روشنی میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے مزید سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت کراچی میں دو سینٹرز کام کر رہے ہیں اور صوبے بھر میں 31 فرینڈلی پولیس اسٹیشنز قائم کیے جا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ دس پولیس تھانوں کو اپگریڈ کیا گیا ہے اور باقی پر کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ اسلحہ کی نمائش پر سیکشن 144 لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے نجی گاڑیوں پر سول ڈریس میں گارڈز کے خلاف کارروائی تیز کرنے کی ہدایت دی۔ انہوں نے بتایا کہ گاڑیوں پر پولیس لائٹس، رنگین شیشے، فینسی نمبر پلیٹس اور اسلحہ کی نمائش کے خلاف صوبے بھر میں 1474 ایف آئی آرز درج کی گئیں جن پر 34.6 ملین روپے کا جرمانہ وصول کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ آپریشنز کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی پولیس تینوں صوبوں کے ڈاکوؤں کے خلاف مشترکہ آپریشن کرنے کے لیے رابطہ کر رہی ہے۔ سندھ پولیس اور رینجرز کچے میں مشترکہ آپریشن کر رہی ہیں اور دونوں صوبوں میں ایک ہی گینگ کے ڈاکوؤں کی موجودگی کی اطلاع ملی ہے جو دونوں طرف جرائم کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے تینوں صوبوں کی رابطہ کاری سے مشترکہ آپریشن پلان بنانے کا فیصلہ کیا۔ مزید برآں، حب پر مشترکہ چیک پوسٹ قائم کرنے کے لیے 214 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں تاکہ سندھ-بلوچستان بارڈر پر اسمگلنگ اور دیگر جرائم کو روکا جا سکے۔ سندھ حکومت نے فیوژن سینٹر ڈی جی نارکوٹکس آفس میں قائم کیے ہیں جس کے تحت ایجنسیوں کے درمیان بہتر کوآرڈینیشن سے نارکوٹکس کرائم کی کھوج مزید مؤثر ہوگی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ سال 2025ء میں انسداد دہشت گردی کے 23 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے 7 چالان کیے گئے، 4 کو سزائیں ہوئیں اور باقی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ سال 2024ء میں بھی دو مقدمات میں سزائیں ہوئیں۔ وزیراعلیٰ نے انسداد دہشت گردی کے مقدمات کی پراسیکیوشن کو مضبوط کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ وزیراعلیٰ نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ سال 2025ء میں دہشت گردوں کے خلاف 318 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جن میں 153 مقدمات درج کر کے 84 مجرم گرفتار کیے گئے اور 12 دہشت گرد مارے گئے۔ اس کے علاوہ سندھ پولیس نے چائنیز کی سکیورٹی کے لیے خصوصی یونٹ قائم کیا ہے تاکہ سی پیک اور نان سی پیک منصوبوں میں کام کرنے والے چائنیز باشندوں کو سکیورٹی فراہم کی جا سکے۔ سندھ حکومت نے پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کو مزید مضبوط کرنے کے لیے 3.6 بلین روپے مختص کیے ہیں، تاکہ جدید آلات، سافٹ ویئرز اور فرانزک ٹولز کی خریداری کی جا سکے۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس کی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنایا جائے گا اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کے ذریعے مزید دہشت گردوں کو گرفتار کیا جائے گا۔
مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا لیکن سرحدوں کو محفوظ بنانا ضروری ہے، ترجمان دفترِ خارجہ

پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے حالیہ ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں امریکا کی جانب سے ٹیرف کے نفاذ پر پاکستان کے ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے امریکا کے اس اقدام کو نوٹ کیا ہے اور اس معاملے پر وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ ترجمان نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ٹیرف کا اثر ترقی پذیر ممالک پر ہو رہا ہے اور اس مسئلے کا حل نکالنا ضروری ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے ساتھ مشکل وقت میں تعاون کیا ہے، لیکن پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ بنانا اور ان کا کنٹرول ہماری پالیسی کا حصہ ہے۔ یواے ای میں پاکستانی ویزوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستانی شہریوں پر ویزوں کی پابندی مکمل نہیں ہے اور اس سلسلے میں کوئی نئی پابندیاں نہیں لگائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، انھوں نے آئی ایف آر پی انٹرنیشنل فورینرز ریٹرن پروگرام کے نفاذ پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ پاکستان غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کے عمل پر عمل کر رہا ہے۔ امریکا کے بگرام ائیر بیس کی قیام کی افواہوں کو سوشل میڈیا پر زیر بحث لانے والے معاملے پر شفقت علی خان نے کہا کہ یہ ایک افغان اور امریکی حکومت کا آپسی مسئلہ ہے اور پاکستان اس میں مداخلت نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے بیلاروس کے دورے کا اعلان کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ وزیر اعظم 10-11 اپریل کو بیلاروس کا سرکاری دورہ کریں گے، جس دوران وہ صدر لوکاشینکو سے ملاقات کریں گے اور دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے بات چیت کریں گے۔ اس دورے کا مقصد پاکستان اور بیلاروس کے درمیان تعاون کو فروغ دینا اور متعدد معاہدوں پر دستخط کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، وزیر خارجہ نے سعودی عرب اور امریکا کے وزرائے خارجہ سے ٹیلیفونک بات چیت کی اور دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے آخر میں کہا کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ عالمی مسائل پر بات چیت کے ذریعے تعاون بڑھایا جائے، اور اسی سلسلے میں پاکستان نے میانمار کے زلزلہ متاثرین کے لیے 35 ٹن امدادی سامان بھیجا ہے۔
افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی: ارشد ‘چائے والا’ کا بھی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا گیا

مردان کا رہائشی ارشد خان، جو 2016 میں ایک چائے والے کے طور پر سوشل میڈیا پر مشہور ہو گیا تھا، اس نے اپنے CNIC اور پاسپورٹ کے بلاک ہونے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ ارشد خان کا کیس ایک قانونی جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے جس میں نہ صرف حکومت کے فیصلے پر سوال اٹھایا جا رہا ہے بلکہ اس کے ذاتی حقوق اور شہرت کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ ارشد خان کی شہرت 2016 میں اُس وقت بڑھی جب اس کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی وہ تصویر اُس وقت کی سب سے مشہور میم بن گئی، جس میں ارشد خان چائے کی ٹھیلے پر نظر آ رہا تھا اور اس کا اسٹائل نیا اور منفرد تھا۔ اس تصویر نے ارشد کو راتوں رات شہرت کی بلندیاں عطا کیں اور اس کے بعد وہ ایک مشہور شخصیت بن گیا۔ لیکن اب وہ ایک نئی پریشانی میں مبتلا ہے۔ ارشد خان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کر دیا گیا ہے اور حکومتی ادارے اس کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی تجدید سے انکار کر رہے ہیں۔ اس معاملے کی وضاحت دیتے ہوئے ارشد خان کے وکیل، بیرسٹر عمر اعجاز گلانی نے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ارشد خان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے حکومتی ادارے جان بوجھ کر اس کے حقوق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ بیرسٹر گلانی نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ارشد خان کا خاندان ملک کی شہریت کے حوالے سے مکمل طور پر دستاویزی ریکارڈ رکھتا ہے اور حکومتی اداروں کی جانب سے 1978 سے پہلے کے رہائشی ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک واضح مثال ہے کہ حکومتی ادارے ارشد خان کے حقوق کو غیر ضروری طور پر متاثر کر رہے ہیں۔ اس درخواست کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جاوید حسن نے وفاقی حکومت اور دیگر متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ عدالت نے 17 اپریل تک تمام متعلقہ فریقوں کو جواب دینے کی ہدایت کی ہے اور اس دوران ارشد خان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے نادرا اور وزارت داخلہ کے افسران کو متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف دو روزہ سرکاری دورے پر بیلاروس پہنچ گئے

وزیرِاعظم شہبازشریف بیلاروس کے دو روزہ سرکاری دورے پر بیلاروس پہنچ گئے، جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے منسک کے وکٹری سکوائر کا دورہ کیا اور یادگار پر پھول رکھے۔ وکٹری سکوائر جنگِ عظیم دوم میں جاں بحق فوجی اہلکاروں کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ وزیرِاعظم کے ہمراہ نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار، وزیرِاطلاعات عطاء اللہ تاڑر اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی موجود ہیں۔ وزارتِ خارجہ، حکومتِ پاکستان کے ترجمان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف، صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی دعوت پر 10 اور 11 اپریل 2025 کو جمہوریہ بیلاروس کا سرکاری دورہ کریں گے۔ اس اعلیٰ سطحی وفد میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز، دیگر وزراء اور سینئر حکام شامل ہیں۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ دورہ نومبر 2024 میں صدر لوکاشینکو کے اہم دورۂ پاکستان کے تسلسل میں ہو رہا ہے۔ اپنے قیام کے دوران، وزیراعظم پاکستان صدر لوکاشینکو سے ملاقات کریں گے، جس میں دوطرفہ دلچسپی کے شعبوں میں پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔ ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان اور بیلاروس کے درمیان اعلیٰ سطحی روابط میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جن میں فروری 2025 میں آٹھویں مشترکہ وزارتی کمیشن کا اجلاس اور اپریل 2025 میں ایک اعلیٰ سطحی مخلوط وزارتی وفد کا بیلاروس کا دورہ شامل ہیں۔ ان روابط نے وزیراعظم کے دورے کی راہ ہموار کی ہے۔ دورے کے دوران مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے کئی معاہدوں پر دستخط کی توقع ہے۔ ترجمان کے مطابق، وزیراعظم کا یہ دورہ پاکستان اور بیلاروس کے درمیان مضبوط اور مسلسل شراکت داری کا مظہر ہے، جو دونوں ممالک کے باہمی مفاد اور خطے میں امن و ترقی کے لیے اہم ثابت ہوگا۔
پاکستانی معدنیات: کیا امریکا کی نظریں اسلام آباد پر ہیں؟

اسلام آباد کی فضا ان دنوں قدرے مختلف ہے، خاموش مگر گہری سیاسی چہل پہل، سفارتی سرگرمیوں کی غیر معمولی جنبش اور ایک اہم پیغام۔ 8 اور 9 اپریل کو اسلام آباد کی سڑکوں پر ایک ایسا مہمان گھوم رہا تھا جو صرف رسمی دورے پر نہیں آیا تھا بلکہ وہ کچھ خاص لے کر آیا تھا جیسا کہ امریکی دلچسپی، سرمایہ کاری اور ایک عالمی دوڑ کا آغاز۔ یہ مہمان کوئی اور نہیں بلکہ امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے سینیئر عہدیدار ایرک میئر تھے۔ ایرک میئر کا کہنا تھا کہ “صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ دنیا بھر میں قیمتی معدنیات کے قابل اعتماد ذرائع تک رسائی اب امریکا کی ایک تزویراتی ترجیح ہے۔” یہ محض ایک بیان نہیں بلکہ ایک عالمی اعلان تھا۔ ایک ایسی دوڑ جس میں امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اس کا پارٹنر بنے، زمین کے نیچے دفن ان معدنیات کی بدولت جنہیں عالمی ٹیکنالوجی، دفاع اور صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ایرک میئر نے پاکستان منرلز انوسٹمنٹ فورم میں شرکت کی اور واضح پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ “پاکستان کی معدنی دولت اگر ذمہ داری اور شفافیت کے ساتھ تیار کی جائے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی شراکت داروں کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔” اس کے علاوہ میئر نے اور بھی ملاقاتیں کیں جن میں وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک سمیت کئی کلیدی شخصیات شامل ہیں۔ ان ملاقاتوں میں انہوں نے معاشی تعاون، سرمایہ کاری اور انسداد دہشت گردی کے تحت باہمی تعاون کی نئی تجاویز پیش کیں۔ ایرک میئر نے امریکی چیمبرز آف کامرس، سابق طالبعلموں اور خارجہ پالیسی کے اسٹیک ہولڈرز سے بھی ملاقات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اب صرف “دوستی” کا خواہاں نہیں بلکہ “شراکت داری” کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے، ایک ایسی بنیاد جس کی جڑیں معیشت، وسائل اور عوامی تعلقات میں پیوست ہوں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دورے کے بعد کئی امریکی کمپنیاں پاکستان کے معدنی شعبے میں عملی سرمایہ کاری کی تیاری کر رہی ہیں۔ اس میں صرف لیتیھیم یا کوبالٹ جیسے قیمتی مادے شامل نہیں بلکہ مستقبل کی ٹیکنالوجیز کا خواب بھی جڑا ہے، وہ خواب جو پاکستان کی زمین میں چھپا ہوا ہے اور اب دنیا کی نظریں اس پر ہیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستان عالمی افق پر صرف جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے اہم سمجھا جاتا تھا۔ اب منظر بدل رہا ہے۔ اب اہمیت اس دولت کی ہے جو زیرزمین ہے۔
کراچی میں ڈمپر حادثہ: ایک ٹکر، 9 گاڑیاں نذرِ آتش

شہر قائد ایک بار پھر آگ، غصے اور چیخ و پکار کی لپیٹ میں آگیا، جہاں نارتھ کراچی کے پاور ہاؤس چورنگی پر ایک معمولی ٹریفک حادثے نے دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد ہنگامے کی صورت اختیار کر لی۔ ایک ڈمپر کی موٹرسائیکل کو ٹکر کیا لگی، مشتعل ہجوم نے انتقام کی ایسی آگ بھڑکائی جس میں نو گاڑیاں خاکستر ہو گئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ڈمپر کا ڈرائیور محض 17 یا 18 سالہ لڑکا تھا جو ریس لگاتے ہوئے پاور ہاؤس چورنگی کے قریب پہنچا اور اچانک اُس کی بے قابو گاڑی ایک موٹرسائیکل سے ٹکرا گئی، جس پر سوار شخص شدید زخمی ہو گیا۔ آس پاس لوگوں نے ڈرائیور کو پکڑنے کی کوشش کی تو وہ فرار ہونے کی کوشش میں مزید دو موٹرسائیکلوں پر چڑھ دوڑا۔ خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن علاقے میں اشتعال کی چنگاری بھڑک چکی ہے۔ پھر وہی ہوا جو اکثر غصے میں اندھے ہجوم کرتے ہیں، ڈمپروں اور واٹر ٹینکروں کو گھیر کر اُن پر پٹرول چھڑکا گیا اور پھر شعلوں نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانچ ڈمپر اور چار واٹر ٹینکر آگ کی نذر ہوگئے۔ پولیس کے مطابق یہ پرتشدد کارروائیاں صرف پاور ہاؤس چورنگی تک محدود نہ رہیں۔ فور کے چورنگی اور سرجانی کے بابا موڑ پر بھی واٹر ٹینکروں کو نذر آتش کیا گیا۔ صورتحال اتنی خراب ہو چکی تھی کہ پورے علاقے میں رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی۔ فائر بریگیڈ کی ٹیمیں بروقت پہنچیں اور کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پایا گیا۔ ڈمپر ایسوسی ایشن کے رہنما لیاقت محسود میڈیا کے سامنے آئے اور اپنی فریاد پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ “میری 11 گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اگر واقعی کوئی زخمی ہوا ہے تو اُسے سامنے لایا جائے، ہماری گاڑیوں کو جلانے والے کہاں سے آئے؟ حکومت ہمیں تحفظ دینے میں ناکام کیوں ہوئی؟” پاور ہاؤس چورنگی کا معاملہ ابھی تھما نہیں تھا کہ سپر ہائی وے پر ڈمپر ڈرائیوروں نے احتجاج شروع کر دیا۔ لدھا ہوا کچرا سڑک پر گرا کر ٹریفک کا نظام درہم برہم کر دیا گیا۔ سہراب گوٹھ کے آس پاس کئی گھنٹوں تک گاڑیاں رینگتی رہیں اور عوام کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ادھر پولیس نے بھی حرکت میں آتے ہوئے رات گئے علاقے میں کریک ڈاؤن شروع کیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج اور موبائل ویڈیوز کی مدد سے مشتبہ افراد کی شناخت کی جا رہی ہے۔ کئی افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے اور پولیس کا کہنا ہے جبکہ حالات پر مکمل کنٹرول ہے۔ ایس ایس پی سینٹرل نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ “ہم نے پاور ہاؤس کی تمام سڑکیں کھول دی ہیں، امن و امان کو خراب کرنے والے عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی جائے گی۔” یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کراچی میں ہیوی گاڑیوں کی غفلت سے ہونے والے حادثات روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ صرف گزشتہ 99 دنوں میں 78 افراد ان گاڑیوں کی زد میں آ کر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 256 ہو چکی ہے۔
21 سال بعد منافع: کیا پی آئی اے اپنے سنہری دور میں جا سکتی ہے؟

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) نے مالی سال 2024 کے سالانہ نتائج جاری کر دیے ہیں، جنہیں پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے باقاعدہ منظوری دے دی ہے۔ ان نتائج کے مطابق، قومی ایئرلائن نے 21 سال کے طویل وقفے کے بعد خالص منافع حاصل کیا ہے، جو ادارے کے لیے ایک تاریخی اور حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ رپورٹ کے مطابق پی آئی اے نے رواں سال 3.9 ارب روپے کا آپریشنل منافع حاصل کیا، جبکہ خالص یا نیٹ منافع 2.26 ارب روپے رہا۔ مالی کارکردگی کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی آئی اے کا آپریٹنگ مارجن 12 فیصد سے تجاوز کر گیا، جو کہ عالمی سطح پر بہترین سمجھی جانے والی ایئرلائنز کی کارکردگی کے ہم پلہ ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی آئی اے نے آخری مرتبہ منافع سال 2003 میں حاصل کیا تھا، جس کے بعد تقریباً دو دہائیوں تک ادارہ مسلسل خسارے کا شکار رہا۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے حکومت پاکستان کی سرپرستی میں پی آئی اے میں متعدد جامع اصلاحات متعارف کروائی گئیں۔ ان اصلاحات کے تحت پی آئی اے کی افرادی قوت اور غیر ضروری اخراجات میں واضح کمی کی گئی، منافع بخش روٹس کو مستحکم کیا گیا، نقصان دہ روٹس بند کر دیے گئے، اور ادارے کی بیلنس شیٹ کو ریسٹرکچر کیا گیا۔ ان اقدامات کا مقصد ادارے کو مالیاتی طور پر مستحکم بنانا اور اسے دوبارہ خود انحصار ادارہ بنانا تھا۔ پی آئی اے کے دوبارہ منافع بخش ادارہ بننے سے نہ صرف اس کی ساکھ میں نمایاں بہتری آئے گی بلکہ یہ ملک کی معیشت کے لیے بھی ایک مثبت اشارہ ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس کامیابی کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی یہ اعلیٰ مالیاتی کارکردگی نجکاری کے عمل میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پی آئی اے کو ایک جدید، منافع بخش اور عالمی معیار کی ایئرلائن بنانے کے عزم پر قائم ہے، اور یہ حالیہ نتائج اس عزم کی عملی مثال ہیں۔
آئین میں مسلسل تبدیلیاں: کب آئین کو مستقل تسلیم کیا جائے گا؟

پاکستان کے آئین میں مسلسل تبدیلیاں ایک حقیقت بن چکی ہیں۔ پاکستان کے جمہوری سفر کی بنیاد سمجھے جانے والے 1973 کے آئین نے ملک کو ایک واضح قانونی اور سیاسی فریم ورک فراہم کیا۔ لیکن اس میں بار بار کی جانے والی ترامیم نے اس کی پائیداری پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں پہلی بڑی تبدیلی 1977 میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران ہوئی، جب 1973 کے آئین کو معطل کر دیا گیا۔ اس کے بعد 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے ایک نیا آئینی فریم ورک متعارف کرایا گیا۔ ضیاء الحق کی حکومت کے بعد، 1990 کی دہائی میں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے دوران کئی بار آئین میں ترمیم کی گئی۔ ان تبدیلیوں کا مقصد حکومتی استحکام کو برقرار رکھنا اور مختلف سیاسی بحرانوں سے نمٹنا تھا۔ آئین میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان کی سیاست پر نمایاں رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئین میں بار بار تبدیلیاں ملک کی جمہوریت کی پختگی کی طرف نہیں بلکہ اس کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان کا کہنا تھا کہ “پاکستان میں آئین میں بار بار کی جانے والی تبدیلیوں کا ملک کی سیاسی استحکام پر گہرا اثر پڑا ہے۔ آئین کی مستقل مزاجی کسی بھی ریاستی نظام کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اگر اس میں بار بار ترامیم کی جائیں تو اداروں کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف عوام اعتماد کی کمی کا شکار ہوتی ہے بلکہ سیاسی کشمکش میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔” پاکستان میں آئینی ترامیم کا عمل سیاسی جماعتوں کے مفادات کے تابع رہا ہے۔ کبھی پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترامیم کیں، تو کبھی مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے اسی طرح کی سیاست کی۔ اس کے باوجود، عوام میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آئین میں کی جانے والی یہ ترامیم کیا واقعی ملک کے مفاد میں ہوتی ہیں؟ یا پھر یہ سیاسی جماعتوں کے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں؟ ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ “پاکستان میں آئینی ترامیم وقتی سیاسی مفادات کے لیے کی جاتی ہے اور یہ عمل ملک میں جمہوریت کی کمزوری ظاہر کرتا ہے۔ اگر ترامیم عوامی فلاح کے لیے کی جائیں تو یہ جمہوریت کو مضبوط کرتی ہیں۔ لیکن ذاتی یا کسی خاص جماعت کے مفاد پر مبنی ترامیم ملکی اور جمہوری اقدار کو نقصان پہنچاتی ہیں۔” پاکستان میں آئینی ترامیم کے معاملے میں عدلیہ کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ 1990 کی دہائی میں جب آئین میں کچھ ترامیم کی گئیں تو ان ترامیم کو عدلیہ نے چیلنج کیا تھا اور کئی بار عدالتوں نے ان ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا۔ اس کے بعد 2000 کی دہائی میں جب جنرل پرویز مشرف نے آئین میں ترامیم کیں تو اس کا بھی عدلیہ پر گہرا اثر پڑا۔ ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان نے اس معاملے پر کہا کہ “عدلیہ کا آئینی ترامیم پر نظرثانی کا اختیار جمہوری عمل کی بقاء کے لیے ناگزیر ہے۔ جب عدلیہ غیر جانبدارانہ انداز میں ترامیم کا جائزہ لیتی ہے تو یہ آئینی اقدار اور بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ تاہم عدالتی مداخلت اگر سیاسی رنگ اختیار کرے تو یہ خود جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔” پاکستان کے عوام ہمیشہ آئین میں ہونے والی تبدیلیوں کو بہت غور سے دیکھتے ہیں۔ جب بھی آئین میں کوئی بڑی ترمیم کی جاتی ہے، تو اس پر مختلف رائے سامنے آتی ہے۔ کچھ لوگ اسے حکومت کی طاقت کو مستحکم کرنے کی کوشش سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ اسے جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ماہر قانون ایڈووکیٹ شیر جنگ خان کا کہنا ہے کہ “پاکستان میں زیادہ تر آئینی ترامیم مخصوص سیاسی حالات اور سیاسی جماعتوں کے مفادات کے لیے کی گئی ہیں۔ عوامی مفاد کے نام پر ترامیم کی جاتی ہیں لیکن اصل مقصد اکثر اقتدار کو مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ آئین کی روح کے مطابق ترامیم کا مقصد صرف اور صرف عوامی فلاح ہونا چاہیے جس کا پاکستان میں شدت سے فقدان نظر آتا ہے۔” پاکستان میں آئین کی مستقل حیثیت کو ہمیشہ ایک سوالیہ نشان کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ کئی بار آئین کو معطل کیا گیا، اور اس کی جگہ عارضی آئین یا مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ 1973 کے آئین کو ایک مستحکم اور مستقل آئین کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، مگر بار بار اس میں تبدیلیاں کی گئیں۔ ایڈوکیٹ لاہور ہائیکورٹ جعفر جمال نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ “پاکستان میں مستقل اور مستحکم آئین کے حصول کے لیے ہمیں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اتفاق رائے نہ صرف آئین میں کی جانے والی ترامیم کے حوالے سے ہونا چاہیے، بلکہ اس کے نفاذ کے عمل میں بھی ضروری ہے۔ آئین کی مستقل حیثیت کے حصول کے لیے تمام اداروں کو آئین کی بالا دستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔” آئینی ترامیم کے عمل میں عوامی رائے کو کتنا اہمیت دی جانی چاہیے؟ کیا آئین میں تبدیلیاں عوام کی خواہشات کے مطابق کی جانی چاہئیں یا سیاسی جماعتوں کے مفاد کے مطابق ہونی چاہیے؟ ان سوالات ک جواب میں ماہر قانون ایڈووکیٹ جعفر جمال نے کہا کہ “ملک میں آئینی ترامیم کے عمل میں عوامی رائے کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ عوامی حمایت اور مشاورت کے بغیر کی جانے والی ترامیم جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ عوامی رائے کے مطابق آئین میں تبدیلیاں کرنے سے جمہوریت کا استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔” پاکستان میں آئینی ترامیم ملکی ترقی پر بھی کسی حد تک اثر ڈالتی ہیں۔ آئین میں کی جانے والی تبدیلیاں اقتصادی ترقی کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہیں اور نقصان دہ بھی۔ ایڈووکیٹ جمال جعفر کے مطابق “آئینی ترامیم کا اثر ملک کی ترقی پر مختلف طریقوں سے پڑتا ہے۔ اگر یہ ترامیم حکومتی اداروں کے درمیان طاقت کی تقسیم کو
وزیرِاعلیٰ سندھ کا پاکستان اسٹیل ملز کے مسائل کے حل کے لیےاقدامات کا اعلان

وزیرِاعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرِ صدارت پاکستان اسٹیل ملز سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس وزیرِاعلیٰ ہاؤس کراچی میں منعقد ہوا، جس میں اسٹیل ملز کی موجودہ صورتحال، ملازمین کے مسائل، بنیادی سہولیات کی فراہمی اور ادارے کی بحالی کے اقدامات پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں صوبائی وزراء شرجیل میمن، ضیاء الحسن لنجار، شاہد تھہیم، سعید غنی، وقار مہدی، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، آئی جی پولیس غلام نبی میمن، کمشنر کراچی حسن نقوی، سیکریٹری لیبر رفیق قریشی، سی ای او واٹر بورڈ احمد صدیقی، سی او او واٹر بورڈ اسد اللہ خان، سی ای او اسٹیل ملز اسد اسلام مہانی، کنوینر پاکستان اسٹیل گرینڈ الائنس شمشاد قریشی اور پاکستان اسٹیل آل ایمپلائیز گرینڈ الائنس کے اراکین نے شرکت کی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس موقع پر کہا کہ سندھ حکومت پاکستان اسٹیل ملز کو بحال کرنا چاہتی ہے اور ملازمین کے مسائل کا مستقل حل اولین ترجیح ہے۔ اجلاس کے دوران چیئرمین اسٹیل ملز شمشاد قریشی نے ادارے کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا، جبکہ سی ای او اسد اسلام مہانی نے بتایا کہ نئی اسٹیل مل کے لیے کمرشل اسٹڈی جاری ہے۔ اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو بند کرنے کا فیصلہ وفاقی کابینہ کی سطح پر کیا گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان کیا کہ وہ حال ہی میں برطرف کیے گئے 1370 ملازمین کی بحالی کے لیے وزیراعظم سے رجوع کریں گے۔ انہوں نے 49 انٹرن شپ ملازمین اور 2020-21 میں نکالے گئے ہنر مند کارکنان کی بحالی کے لیے بھی سفارش کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ اسٹیل ٹاؤن میں پانی کی فراہمی بند ہونے پر وزیراعلیٰ نے واٹر بورڈ کو فوری بحالی کی ہدایت دی اور چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ واٹر بورڈ اور اسٹیل مل انتظامیہ کے ساتھ مل کر مسئلہ حل کیا جائے۔ وزیراعلیٰ نے اسٹیل ٹاؤن کے اسکولوں، کالجوں اور 100 بستروں پر مشتمل اسپتال کو بھی فوری طور پر بحال کرنے کی ہدایت کی اور اعلان کیا کہ اب ان اداروں کا انتظام سندھ حکومت سنبھالے گی۔ مزید پڑھیں: پنجاب حکومت کا ٹیکساس، جدہ اور دوحہ طرز پر لاہور میں اسٹیٹ آف دی آرٹ میڈیکل سٹی بنانے کا فیصلہ اس موقع پر یونین نمائندوں نے بجلی کے اضافی چارجز کی شکایت کی، جس پر وزیراعلیٰ نے مسئلہ حل کرنے کی ہدایت دی۔ سی ای او اسٹیل ملز نے آگاہ کیا کہ 30 ملین روپے کے بل میں سے صرف 12 ملین روپے وصول ہوئے ہیں، جبکہ بجلی 60 روپے فی یونٹ کے کمرشل ریٹ پر خریدی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے حال ہی میں شہید ہونے والے اسٹیل ملز کے ملازم سلیم خشک کے خاندان کے لیے 50 لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا اور برطرف ملازمین کو واجبات کی ادائیگی نہ ہونے تک ملازم تصور کرنے کی ہدایت بھی دی۔
پنجاب حکومت کا ٹیکساس، جدہ اور دوحہ طرز پر لاہور میں اسٹیٹ آف دی آرٹ میڈیکل سٹی بنانے کا فیصلہ

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کی زیر صدارت ہیلتھ ریفارمز سے متعلق اہم اجلاس ہوا، جس میں سرکاری اسپتالوں میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ریفرل سسٹم نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ترجمان حکومت پنجاب کے مطابق ریفرل سسٹم کا مقصد ہیلتھ کلینکس، مراکز صحت اور چھوٹے اسپتالوں سے بڑے اسپیشلائزڈ اسپتالوں پر مریضوں کے بے جا لوڈ میں کمی لانا ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس نظام کے نفاذ کے لیے فوری طور پر جامع پلان طلب کر لیا ہے۔ اجلاس میں لاہور میں عالمی معیار کا میڈیکل سٹی قائم کرنے کی اصولی منظوری دی گئی ہے، جو ٹیکساس، جدہ اور دوحہ جیسے ماڈلز کی طرز پر ہوگا۔ میڈیکل سٹی کے لیے حکومت بنیادی سہولیات فراہم کرے گی، جبکہ پروفیشنل کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ وزیراعلیٰ نے لاہور میڈیکل سٹی کے لیے اراضی مختص کرنے کی بھی ہدایت جاری کر دی۔ اسی طرز پر ہر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں میڈیکل سٹی قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، جب کہ ضلع سطح پر جدید میڈیکل فسیلٹی قائم کرنے کی بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ مزید یہ کہ سرکاری اسپتالوں کے مسائل کے فوری حل کے لیے خصوصی ہیلپ لائن 999 کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ سیکریٹری اسپیشلائزڈ ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کی جانب سے اجلاس میں دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ انفیکشن کنٹرول اور ادویات کی فراہمی میں 92 فیصد بہتری ریکارڈ کی گئی ہے، مریضوں کو دستیاب سہولتوں میں 83 فیصد بہتری آئی ہے، صفائی، فائر سیفٹی، ڈائیگناسٹک، بلڈ بنک، پارکنگ اور ہوم ڈلیوری میڈیسن جیسے شعبوں میں بھی نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کا کہنا تھا کہ پنجاب کے عوام کو جدید اور معیاری طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہم پرعزم ہیں، اسپتالوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق اپ گریڈ کیا جائے گا۔