اپریل 9, 2025 4:10 شام

English / Urdu

پابندی یا تحفظ؟ کم عمر صارفین انسٹاگرام پر والدین کی اجازت سے لائیو جاسکیں گے

میٹا نے انسٹاگرام پر کم عمر صارفین کے تحفظ کے لیے بڑا قدم اٹھا لیا، اب 16 سال سے کم عمر نوجوان لائیو براڈکاسٹ صرف والدین کی اجازت سے ہی کر سکیں گے۔ میٹا کی جانب سے اس فیصلے کا مقصد آن لائن دنیا میں کم عمر صارفین کو درپیش خطرات سے بچانا اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ پابندی انسٹاگرام کے اُن سیفٹی فیچرز کا حصہ ہے، جن کا اعلان گزشتہ سال کیا گیا تھا، جنہیں “ٹین اکاؤنٹس” کے نام سے متعارف کرایا گیا تھا۔ یہ پابندیاں صرف انسٹاگرام تک محدود نہیں، بلکہ فیس بک اور میسنجر پر بھی کم عمر صارفین کے لیے یہی اصول لاگو کیے جا رہے ہیں۔ میٹا کے فیملی سینٹر کے تحت والدین 16 سال سے کم عمر نوجوانوں کے انسٹاگرام اکاؤنٹس کو کنٹرول کر سکیں گے۔ انسٹاگرام کی پبلک پالیسی کی گلوبل ڈائریکٹر تارا ہوپکنز کے مطابق یہ اقدامات نوجوانوں کی آن لائن زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ “ٹین اکاؤنٹس” فیچر متعارف ہونے کے بعد سے اب تک ساڑھے 5 کروڑ نوجوان اس پروگرام کا حصہ بن چکے ہیں، جن میں سے 97 فیصد کی عمریں 16 سال سے کم ہیں۔ 13 سے 15 سال کے صارفین پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جن کے تحت وہ اپنی انسٹاگرام سیٹنگز میں والدین کی اجازت کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے، جب کہ 16 سال یا اس سے زائد عمر کے نوجوانوں کے لیے تھوڑی نرمی رکھی گئی ہے۔ یاد رہے کہ میٹا نے ستمبر 2024 میں تین سیفٹی سیٹنگز متعارف کرائی تھیں، جن کے تحت کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس خودکار طور پر پرائیویٹ کر دیے گئے تھے۔ یہ اقدامات ایک ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں، جب میٹا کو مختلف ممالک کی جانب سے کم عمر صارفین کے تحفظ میں ناکامی پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ 2021 میں میٹا نے 19 سال سے زائد عمر کے افراد کو ان نوجوانوں کو میسج بھیجنے سے روک دیا تھا جو انہیں فالو نہ کرتے ہوں۔ 2023 میں ایک نیا ٹول متعارف کرایا گیا تھا جو 18 سال سے کم عمر صارفین کو رات گئے ایپ کے استعمال سے روکتا ہے۔ اس کے علاوہ خودکشی، خود کو نقصان پہنچانے اور ایٹنگ ڈس آرڈرز جیسے مواد تک کم عمر صارفین کی رسائی بھی محدود کر دی گئی ہے۔ جنوری 2024 میں نئی میسجنگ پابندیوں کا اطلاق کیا گیا جس کے تحت اجنبی افراد کم عمر صارفین کو میسج نہیں بھیج سکیں گے اور نہ ہی کسی گروپ چیٹ میں شامل کر سکیں گے۔

سٹار لنک کی سروسز نومبر یا دسمبر تک پاکستان میں شروع ہو جائیں گی، وزیر آئی ٹی کا دعویٰ

  وزیرمملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کمیونیکیشن شازہ فاطمہ خواجہ کا کہنا ہے کہ سٹار لنک، سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس نومبر یا دسمبر تک پاکستان میں شروع ہونے والی ہے۔ شازہ فاطمہ نے یہ اپ ڈیٹ امین الحق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اور ٹیلی کام کے اجلاس کے دوران شیئر کی۔ گزشتہ ماہ، شازہ نے تصدیق کی تھی کہ سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ فراہم کرنے والے کو وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر پاکستان میں عارضی رجسٹریشن دی گئی تھی۔ انہوں نے 21 مارچ کو ایک بیان میں کہاتھا کہ تمام سیکورٹی اور ریگولیٹری اداروں کے اتفاق رائے سے، سٹارلنک کو عارضی عدم اعتراض کا سرٹیفکیٹ این او سی جاری کر دیا گیا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چیئرمین نے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان اسپیس ایکٹیویٹی ریگولیٹری بورڈ نے سٹارلنک کو عارضی لائسنس دیا ہے۔ پی ٹی اے کے چیئرمین نے واضح کیا کہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے ریگولیٹری فریم ورک کو حتمی شکل دینے کے بعد کمپنی کو مکمل لائسنس مل جائے گا۔ کمیٹی کے سوالات کے جواب میں وزیر آئی ٹی  نے یقین دلایا کہ لائسنس جاری کرنے میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ ایک نئی ٹیکنالوجی ہے، جس میں مختلف زاویوں سے محتاط غور و فکر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس میں مدد کرنے کے لیے، حکومت نے قواعد و ضوابط کو ختم کرنے میں مدد کے لیے کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کی تھیں، ضابطے مکمل ہونے کے بعد سٹارلنک کو اپنے مکمل لائسنس کے لیے دوبارہ درخواست دینے کی ضرورت ہوگی۔

‘انسان اور اے آئی میں فرق کرنا مشکل’ نئی تحقیق کیا بتا رہی ہے؟

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان ڈیاگو کی ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ جدید اے آئی ماڈل جیسے جی پی ٹی 4۔5 اب اتنے موثر انداز میں بات چیت کرتے ہیں کہ وہ 73 فیصد انسانوں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ اس مطالعے میں محققین نے تین فریقی ٹیورنگ ٹیسٹ استعمال کیا، جس میں ایک انسان، ایک اے آئی، اور ایک پوچھ گچھ کرنے والا شامل تھا۔ اس ٹیسٹ کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ پوچھنے والا کس حد تک اے آئی کو انسان سمجھتا ہے۔ نتائج کے مطابق، جی پی ٹی 4۔5 جب ایک خاص “پرسونا” پرامپٹ استعمال کرتا ہے، تو وہ 73 فیصد چیٹ سیشنز میں انسان کے طور پر پہچانا گیا۔ اسی طرح، میٹا کا نیا لیاما تھری ماڈل بھی 56 فیصد کی کامیابی کے ساتھ اس حد کو عبور کرتا ہے۔ دوسری جانب، جی پی ٹی 4۔0، جو موجودہ عام استعمال میں آنے والے چیٹ بوٹس کی نمائندگی کرتا ہے، کم از کم ہدایات کے تحت صرف 21 فیصد مواقع پر انسان کے طور پر پہچانا گیا۔ تحقیق کے سربراہ کیمرون جونز کا کہنا ہے کہ ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدید اے آئی ماڈلز مخصوص حکمت عملیوں کے تحت نہ صرف انسانی طرزِ گفتگو کی مؤثر نقل کر سکتے ہیں بلکہ وہ اصل انسان سے زیادہ قائل بھی لگ سکتے ہیں، خاص طور پر جب ایک خاص شخصیت اپنانے کی ہدایت دی جائے۔ یہ نتائج اس پرانے سوال کو بھی تازہ کرتے ہیں کہ کیا ٹیورنگ ٹیسٹ اب بھی “انسان جیسی ذہانت” کو جانچنے کا ایک مؤثر پیمانہ ہے، یا یہ صرف اے آئی کی نقل کرنے کی اعلیٰ صلاحیت کا عکاس بن چکا ہے؟ تحقیق نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ہم انسان، ایک فصیح، روانی سے بولنے والے چیٹ بوٹ سے کتنی آسانی سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ ماڈل واقعی کمپیوٹیشنل ذہانت کی ایک نئی دہلیز کو چھو رہے ہیں، یا ہم صرف ان کی باتوں کی چالاکی سے فریب کھا رہے ہیں؟ ماہرین کا خیال ہے کہ اس تیزی سے ترقی کرتے ہوئے منظرنامے میں AI ماڈلز جلد ہی کسٹمر سروس، ڈیجیٹل صحبت، اور دیگر کئی شعبوں میں انسانوں کی جگہ لے سکتے ہیں، اور اس بات پر غور کرنا ضروری ہو گا کہ ہم ان “انسان نما” مشینوں کے ساتھ کس طرح تعلق استوار کرتے ہیں۔

‘آسمان سے گِرا کھجور میں اٹکا’ زمین کے بعد اب سیارچہ چاند سے ٹکرا سکتا ہے

ناسا کے سائنسدانوں کے تازہ ترین مشاہدات کے مطابق، ایک سیارچہ جو کبھی زمین سے ٹکرا سکتا تھا، اب اس کے بجائے چاند سے ٹکرانے کے امکانات ہیں۔ اس سیارچے وائی آر کو گزشتہ سال دریافت کیا گیا تھا اور ابتدائی طور پر اس کے بارے میں خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ یہ 2032 میں زمین سے ٹکرا سکتا ہے۔ اس تصادم سے 80 کلومیٹر تک کے علاقے کی تباہی کا خدشہ تھا۔ تاہم مزید تجزیہ اور ٹریکنگ کے بعد یہ امکان ختم ہوگیا ہے اور اب زمین پر اس کا اثر تقریباً صفر ہو چکا ہے۔ ناسا کے جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ سے حاصل ہونے والے نئے اعداد و شمار کے مطابق، اب سیارچے کے چاند سے ٹکرانے کے امکانات 4 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اینڈی ریوکن نے اپنی تحقیق میں لکھا کہ 2032 میں چاند سے ٹکرانے کے اثرات کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ چاند سے ٹکرانے کا امکان کم ہے، لیکن یہ منظر ابھی بھی زیر مشاہدہ ہے، اور 2026 میں اس کی مزید ٹریکنگ کی جائے گی۔ سیارچے کا سائز 53 سے 67 میٹر کے درمیان ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جو ایک 15 منزلہ عمارت کے برابر ہے، اور اس کے چاند سے ٹکرانے کے ممکنہ اثرات کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اثرات سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے مستقبل میں سیارچوں کے خطرات سے نمٹنے کی تیاری بہتر ہو سکتی ہے۔ ناسا نے کہا کہ آنے والے سالوں میں جدید سیارچے سے باخبر رہنے کے نظام کی وجہ سے مزید ممکنہ اثرات کی نشاندہی کی جائے گی۔

کیریئر کی پہلی سیڑھی، انٹرنشپ اب چند کلکس کی دوری پر

پاکستان  میں بے روزگاری کی شرح گزشتہ دس سالوں کی نسبت ڈیڑھ فیصد سے بڑھ کر سات فیصد پر پہنچ گئی ہے جو بھارت اور بنگلہ دیشن سے بھی زیادہ  ہے ۔بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے سالانہ  15 لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت ہے لیکن ملک کی آبادی میں سالانہ 50 لاکھ افراد کا اضافہ اس میں رکاوٹ ہے جس پر قابو پائے بغیر تعلیم،روزگار اور صحت کی بہتر سہولیات فراہم کرنا  ممکن نہیں ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو رواں سال پلانگ کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ میں شامل ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ اب  روزگار کے حوالے سے  بہتر مواقع فراہم کرنا جو کہ حکومت کی اولین ذمے داریوں میں شامل ہے کیا وہ  اس میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے؟ اس بات کا جواب کسی سے بھی مخفی نہیں ہے۔ایسی صورتحال میں دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ ترقی پاتی ہوئی صنعت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ہے جس کا حال اور مستقبل دونوں ہی تابناک ہے۔ پاکستان میں بھی آئی ٹی سیکٹر میں ہنر مند  افراد کےلیے روزگار کے بہت سے مواقع موجود ہیں کیونکہ گذشتہ سال آئی  ٹی سیکٹر میں پاکستان نےتین ارب ڈالرسے زائد کی ایکسپورٹ کی تھی جو کہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ آئی ٹی سیکٹر میں وسیع کاروبار کے فروغ  اور ہنرمند نوجوانو کو روزگار کے بہتر مواقع  فراہم کرنے کے لیے کراچی کے دو گریجویٹ نوجوان ریان اور حمادنہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں چند سال قبل ہی ایک نجی جامعہ سے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن مکمل  کرنے کےبعد ان دونوں نے  انٹرنی ڈاٹ پی کےکی بنیاد رکھی۔ یہ انٹرنشپ   حاصل کرنے کے لیے تیار کیاگیا ایک آن لائن پورٹل ہے جس میں آئی ٹی سیکٹر کی تعلیم حاصل کر نے والا کوئی بھی فرد اپنے تعلیمی  سفر کے دوران باآسانی کسی بھی  کمپنی میں تجربہ حاصل کرنے کے لیے  انٹرنشپ حاصل کرسکتا ہے اور اس ضمن میں مکمل طور پر یہ پورٹل ان کی معانت کرتا ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئےفاؤنڈر  انٹرنی ڈاٹ پی کے حماد شیخ  کا کہنا تھا  مارکیٹ میں  بہترین انداز کے ساتھ سوفٹ ویئر ڈیلوپمنٹ ،کوڈنگ اور سوفٹ ویئر کے مسائل کو تکنیکی طور پر بہتر جاننے  والے افراد کی کمی ہے جبکہ کہ ہر سال تقریباً 25 ہزار آئی ٹی گریجوٹس نوکریوں کا خواب سجائے مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں مگر نوکری حاصل نہیں کرپاتے    یہی  اس کی بنیادی وجہ ہے ۔ ہمیں بھی یونیورسٹی میں دوران تعلیم اس بات کا خوف تھا کہ کیا ہمیں نوکری مل پائے گی؟ اور کیا ہم انڈسٹری کے جدید تقاضوں کے مطابق کام کر پائیں گے؟ یہی وہ سوالات تھے جو بعد میں انٹرنی ڈاٹ پی کو بنانے کی وجہ بنے ۔ پاکستان میں آئی ٹی سیکٹر میں نوکریاں تو موجود ہیں مگرکسی بھی پوزیشن پر ہائر ہونے والے افراد کمپنی کی توقعات پر پورا نہیں اتر پاتےمثلاً عام طور پرایک ڈیولپر کو 40 ہزارکی تنخواہ  میں نوکری پر رکھا جاتا ہے اور ادارے کی توقعات یہ ہوتی ہیں کہ وہ انہیں کم از کم دولاکھ روپے کما کر دے مگر اکثر ایسا نہیں ہوپاتا۔ اس کی بنیادی وجہ معیاری اسکلز کا نا  ہونا ہے۔ ہم نے اسی لیے انڈسٹری اور یونیورسٹی کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس پروجیکٹ میں شریک ریان کا کہنا ہے کہ اس پورٹل کو ہم نےصرف انٹرنشپ تک محدود نہیں رکھا  ہے بلکہ اس کو ہم لرنگ مینجمنٹ سسٹم کے طور پر بھی چلارہے ہیں ۔ ہم نے مصنوعی ذہانت آے آئی کے کئی ٹولز کواس میں شامل کیا ہے جن کی مدد سے انٹرنشپ کے لیے انٹرویو کی تیاری بھی کی جاسکتی ہے۔ ہم نے ویب ڈولپمنٹ اور سوفٹ ویئر مینجمنٹ کے کئی کورسز کو بھی اس کاحصہ بنایا ہے کہ سیکھنے اور تجربے کے بعد کسی کو اچھی نوکری مل سکے اور اس کی اسکلز میں بھی اضافہ ہو۔ فی الحال تو یہ پورٹل صرف پاکستان تک محدور ہے مگر مستقبل میں ہم اسے بین الاقوامی سطح پر بھی وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں آئی ٹی سیکٹر کی کئی کمپنیز سے ہمارا رابطہ موجود ہے۔پاکستان میں نوکری حاصل کرنے کے کئی پلیٹ فارمز موجود ہیں  جو بہتر کام بھی کر رہے ہیں مگر ہمارا کام اور انداز سب سے مختلف ہے ہم اس کو ایک مکمل کرئیر پلٹ فارم کہتے ہیں جس میں سیکھنے  کے بعد انٹرنشپ اور پھر جاب  کا مرحلہ طے کیا جاتا ہے۔ ہم خود سب سے پہلے کسی بھی جاب آفر کے لیے جاری ہونے والے اشتہار اور کمپنی کے معیار کا جائزہ لیتے ہیں    پھراسے اپنے پورٹل پر اپلوڈ کرتے ہیں ،ہمارے پاس اس وقت لنکڈن پر صرف50 ہزار سے زائد فالورز موجود ہیں۔ ہم فری لانسنگ  کو بھی اپنے مختلف سوشل پلیٹ فارمز سے فروغ دیتے ہیں  کیونکہ کہ لوگ اب نوکری کے علاوہ فری  لانسنگ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جوکہ خوش آئند پیش رفت ہے ۔ حماد  شیخ نے اس اقدام کے بارے میں مزید بتایا کہ کام شروع کرنے سے پہلے یہی خدشات ہوتے ہیں کہ یہ کامیاب ہوگا یا نہیں ؟ کام کے دوران اکثر مورال ڈاؤن بھی ہوجاتا ہے مگر جب ہمیں نوجوان اپنی کالز اور میسجز کے ذریعے بتاتے ہیں کہ آپ کی وجہ سے ہم کسی کمپنی میں انٹرنشپ کر رہے ہیں  اور اس کے بعد ہمیں ملازمت کی آفر ہے تو یہ سب سن کر ہمارا دل مزیدچاہتا ہے کہ ہم بہتر انداز میں کام کریں۔ ہمارے پاس کامیابی انٹرنشپ پروگرام کی کئی  داستانیں ہیں سسٹمز جیسی بڑی آئی کمپنی میں بھی ہمارے توسط سے لوگوں نے انٹرنشپ مکمل کی اور اب وہ باقاعدہ وہاں مختلف پوزیشن پر ملازمت کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں حکومت کی کوئی خاطر خواہ سرپرستی تو حاصل نہیں ہے مگر ہم پھر بھی  ہم قومی سطح پر ہونے والے بہت سے مقابلوں میں تین بار نیشنل چیمپئن رہے ہیں۔ جہاں تک سوال ہے کہ یہ بزنس ماڈل کام کس طرح کرتا  ہے؟ تو ہم نے اس پورٹل کی سبسکرپشن فیس رکھی ہے جبکہ پورٹل پر آن لائن ٹیچر بھی موجود ہیں اس کے ذریعے سے

مصنوعی ذہانت اور سوشل میڈیا کا انضمام، xAI نے X خرید لیا

معروف بزنس ٹائیکون ایلون مسک نے اعلان کیا ہے کہ ان کی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کمپنی xAI نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (جو پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا) کو خرید لیا ہے۔ نجی خبررساں ادارے دی نیشن کے مطابق یہ اعلان جمعہ کے روز خود ایلون مسک نے ایکس پر کیا کہ @xAI نے @X کو ایک آل اسٹاک معاہدے کے تحت حاصل کر لیا ہے، جس میں xAI کی مجموعی مالیت 80 ارب ڈالر، جب کہ X کی 33 ارب ڈالر رکھی گئی ہے۔ یاد رہے کہ ایلون مسک نے مارچ 2023 میں xAI کی بنیاد رکھی تھی، جو AI چیٹ بوٹ “گروک” کی تیاری کے لیے مشہور ہے۔ یہ چیٹ بوٹ اب X کے پلیٹ فارم پر ضم ہو چکا ہے۔ ایلون مسک کے مطابق X ایک ڈیجیٹل ٹاؤن اسکوائر ہے، جہاں 600 ملین سے زائد صارفین حقیقی وقت میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں میں X کو ایک مؤثر اور کامیاب کمپنی میں بدلا گیا ہے، جو مستقبل میں مزید ترقی کرے گی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ xAI اور X کا مستقبل ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اور یہ خریداری دونوں کمپنیوں کے انضمام کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔  

ڈیجیٹل دور کا نیا ‘ڈبل شاہ،’ ٹریثر این ایف ٹی کیا چیز ہے؟

پاکستان میں ایک نئی ڈیجیٹل اسکیم Treasure NFT تیزی سے مقبول ہو رہی ہے، جسے ماہرین ایک جدید پونزی اسکیم قرار دے رہے ہیں، اس اسکیم میں لوگ رقم جمع کرواتے ہیں اور مزید افراد کو شامل کرنے پر کمیشن حاصل کرتے ہیں۔ جوں جوں نیٹ ورک بڑھتا جاتا ہے، ابتدائی سرمایہ کاروں کو منافع ملتا رہتا ہے، ایپ مالک کو لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں روپے ملتے جائیں گے، وہ ان میں سے تھوڑا تھوڑا کمیشن دیتا جاتا ہے تاکہ مزید لالچی لوگ شامل ہوتے جائیں ، جب اس کا ہدف پورا ہو جائے گا تب وہ کھربوں روپے لے کر اڑن چھو ہو جائے گا اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ دینِ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ پیسہ اس طریقے سے کمائے جائیں؟ آج کل لوگ پیسہ کمانے کے لیے اندھا دھند دوڑ رہے ہیں، اس میں مفتی مولوی پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ ایپ بنانے والا بھی ایک پڑھا لکھا ڈاکٹر اور بزنس مین ہے، اسی کو آپ اربوں کا فائدہ دے رہے ہیں لگے رہو مسلمانو لگے رہو۔ اصل افسوس اس بات کا ہے کہ اب پیسے کو ایمان بنا لیا گیا ہے، یعنی لوگوں کو پرواہ ہی نہیں کہ کمائی کا ذریعہ حلال ہے یا حرام؟ جن لوگوں کو وقتی فائدہ ہو رہا ہے، وہ خوش ہو رہے کہ ہم کامیاب ہو گئے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہی فلاح ہے؟ اسے کامیابی کہتے ہیں؟ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں ایک عالم دین Treasure NFT کی کمائی کو “جائز” قرار دے رہے ہیں۔ اس بیان پر عوامی ردِعمل سامنے آیا اور کئی لوگوں نے اسے اسلامی اصولوں کے منافی قرار دیا۔ اب تک حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس اسکیم پر کوئی واضح ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اس معاملے پر بروقت کارروائی نہ کی گئی، تو ہزاروں افراد کی زندگی بھر کی جمع پونجی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب ایسی اسکیمیں پاکستان میں مقبول ہوئی ہوں، ماضی میں ڈبل شاہ اسکینڈل سمیت کئی پونزی اسکیموں نے عوام کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا، لیکن اس کے باوجود لوگ بغیر تحقیق کے ایسی اسکیموں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام ایک بار پھر لالچ کے جال میں پھنس رہی ہے؟ اور کیا حکومت اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، کوئی عملی قدم اٹھائے گی؟

اضافی بجلی کو کرپٹو مائننگ کے لیے استعمال کرنے کا مشورہ

پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی) کے پہلے اجلاس میں بٹ کوائن مائننگ کے لیے اضافی بجلی کے مؤثر استعمال کی تجویز پیش کر دی گئی۔ پاکستان کرپٹو کونسل کا باضابطہ قیام 15 مارچ کو عمل میں آیا، جس کا مقصد کرپٹو اور بلاک چین ٹیکنالوجیز کو مالیاتی نظام میں ضم کرنا اور اس شعبے کے لیے ایک مؤثر ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنا ہے۔ اس تاریخی اقدام نے ملک میں ڈیجیٹل معیشت کے ایک نئے باب کا آغاز کر دیا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت اجلاس میں اسٹیٹ بینک کے گورنر، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین، وفاقی آئی ٹی اور لاء سیکریٹریز سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں کرپٹو اسپیس میں پاکستان کی غیر استعمال شدہ صلاحیت کو اجاگر کیا گیا۔ کونسل کے سی ای او بلال بن ثاقب کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے منفرد حالات کے مطابق ریگولیٹری ماڈلز اپنانے چاہییں، تاکہ کرپٹو انڈسٹری کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اضافی بجلی جو کم طلب اور ناکافی انفراسٹرکچر کے باعث ضائع ہو رہی ہے، اسے بٹ کوائن مائننگ کے لیے استعمال کر کے ملک کے مالیاتی وسائل میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: پاکستان میں کرپٹو انقلاب، وفاقی حکومت نے ’پاکستان کرپٹو کونسل‘ قائم کر دی دوسری جانب وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا پاکستان کرپٹو کونسل کے اس وژن کو سراہتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ہماری معیشت کے لیے ایک نئے ڈیجیٹل باب کا آغاز ہے۔ ہم ایک شفاف اور جدید مالیاتی نظام بنانے کے لیے پرعزم ہیں، جو سرمایہ کاری کو راغب کرے، نوجوانوں کو بااختیار بنائے اور پاکستان کو ٹیکنالوجی کے میدان میں عالمی سطح پر نمایاں کرے۔ مزید یہ کہ اجلاس میں ریگولیٹری وضاحت، صارفین کے تحفظ، لائسنسنگ سسٹم اور قومی بلاک چین پالیسی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ شرکاء نے اتفاق کیا کہ عالمی معیار کی روشنی میں مقامی ضروریات کے مطابق ماڈلز تیار کیے جائیں، جب کہ ابتدائی پائلٹ پروجیکٹس اور بین الاقوامی ضابطوں کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے۔

اسٹار لنک کو این او سی جاری، کمپنی پاکستان میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرے گی

ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک کو این او سی جاری کیے جانے کے بعد پاکستان سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی دنیا میں قدم رکھنے کو تیار ہے۔ اسٹار لنک کے پاکستان میں آپریشنز کے حوالے سے بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے مطابق پاکستان اسپیس ایکٹیوٹیز ریگولیٹری بورڈ نے اسٹار لنک کو این او سی جاری کردیا ہے۔ نجی نشریاتی ادارہ جیو نیوز کے مطابق اسٹار لنک نے اسپیس ریگولیٹری بورڈ کے تمام تقاضے پورے  کرلیے ہیں، جس کے بعد وزارت داخلہ کی کلیئرنس کے بعد اسپیس ریگولیٹری بورڈ نے این او سی جاری کیا ہے اور اب پی ٹی اے آئندہ 4 ہفتوں میں اسٹار لنک کو لائسنس جاری کردے گا۔ واضح رہے کہ اسٹار لنک پہلے ہی پی ٹی اے میں لائسنس کے لیے درخواست دینے کے علاوہ پی ٹی اے میں ٹیکنیکل اور بزنس پلان بھی جمع کروا چکا ہے ۔ اسٹار لنک نے پاکستان میں رجسٹریشن کے حوالے سے 3 مراحل مکمل کرلیے ہیں۔ ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک نے ایس ای سی پی اور پاکستان سافٹوئیر ایکسپورٹ بورڈ سے رجسٹریشن حاصل کی  ہے۔ علاوہ ازیں کمپنی نے پاکستان اسپیس ایکٹیوٹیز ریگولیٹری بورڈ سے بھی رجسٹریشن حاصل کرلی  اور اب آخری مرحلہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی  سے رجسٹریشن حاصل کرنا ہے۔ پی ٹی اے کی جانب سے لائسنس کے اجرا کے بعد کمپنی اپنی سروسز کا آغاز کرسکے گی ۔ پی ٹی اے اسٹار لنک کی جمع کروائی گئی دستاویزات کا جائزہ لے رہا ہے۔ اسٹار لنک کی سروسز موجودہ نیٹ ورک میں کسی قسم کا خلل پیدا نہیں کریں گی۔ یاد رہے کہ پاکستان نے 2023ء  میں نیشنل سیٹلائٹ پالیسی متعارف کروائی  تھی اور 2024ء  میں پاکستان اسپیس کمیونی کیشن کو مضبوط بنانے کے لیے اسپیس ایکٹیویٹیز رولز متعارف کرائے گئے تھے

پنجاب حکومت نے مفت وائی فائی سروس کو جدید ٹیکنالوجی سے اپ گریڈ کردیا

پنجاب حکومت نے اپنی مفت وائی فائی سروس کو مزید جدید اور تیز تر بنانے کے لیے ایک اقدم اٹھایا ہے۔ اس سروس میں اب جدید ترین Wi-Fi 6 ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا جو صارفین کو پہلے سے زیادہ تیز اور مستحکم انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرے گی۔ یہ تبدیلی نہ صرف لاہور بلکہ صوبے کے دیگر شہروں تک بھی پہنچ چکی ہے جس سے لاکھوں افراد کو فائدہ ہو گا۔ لاہور میں جہاں پہلے 200 مفت وائی فائی ہاٹ اسپاٹس موجود تھے اب ان کی تعداد 230 تک بڑھا دی گئی ہے۔ اس سے لاہور کے شہریوں کو بہتر انٹرنیٹ کی سہولت ملے گی۔ اس نئی ٹیکنالوجی کی بدولت اب انٹرنیٹ کا استعمال زیادہ تیز اور مستحکم ہو گا اور خاص طور پر شہر کے اہم مقامات پر وائی فائی سروس کا معیار مزید بہتر ہوگا۔ پنجاب کی سیف سٹیز اتھارٹی نے اس سروس کو 11 اضلاع تک بڑھا دیا ہے جن میں لاہور، قصور، نانکانہ صاحب، شیخوپورہ، سیالکوٹ، گجرات، جہلم اور اٹک شامل ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: صوبہ سندھ میں خسرہ کی وبا شدت اختیار کر رہی ہے: 17 بچوں کی ہلاکت اس کے علاوہ ساہیوال، اوکاڑہ اور مری جیسے علاقوں میں بھی اہم مقامات پر یہ سروس فراہم کی جا رہی ہے۔ سیف سٹیز اتھارٹی کا کہنا ہے کہ یہ مفت وائی فائی سروس جلد ہی پورے صوبے میں دستیاب ہو گی جس سے مزید افراد فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اب تک اس سروس سے 17.7 ملین سے زائد صارفین نے استفادہ کیا ہے اور مجموعی طور پر 438 ٹیرا بائٹس ڈیٹا استعمال کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی باشندوں نے اس سروس کی تعریف کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ سہولت ان کی روزمرہ کی زندگی کو نہ صرف آسان بلکہ زیادہ مؤثر بھی بنا رہی ہے۔ سیف سٹیز اتھارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مفت وائی فائی سروس صرف ایمرجنسی مقاصد کے لیے دستیاب ہے اور اس کا استعمال ویڈیو اسٹریمنگ یا تفریحی مقاصد کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔ اس سروس کا مقصد شہریوں کو ایسے حالات میں مدد فراہم کرنا ہے جب وہ ایمرجنسی میں ہوں یا ضروری معلومات تک رسائی کی ضرورت ہو۔ لازمی پڑھیں: جدید پاسپورٹ سسٹم: پاکستان جرمنی سے ‘ہائی ٹیک ای-پاسپورٹ’ درآمد کرے گا پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اس منصوبے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام صوبے کو ڈیجیٹل مرکز بنانے کی جانب ایک اور قدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمیں اپنے نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے تیار کرنا ہے تاکہ وہ عالمی منڈی کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو سکیں۔” مریم نواز نے اس بات پر زور دیا کہ صوبے کے تعلیمی اداروں میں اس ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کے لیے حکومت نے منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ اسی مقصد کے لیے حکومت پنجاب نے سرکاری سکولوں میں سمارٹ کلاس رومز اور ڈیجیٹل لیبز بنانے کی منصوبہ بندی کی ہے تاکہ طلباء کو جدید تعلیمی سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ اس کے علاوہ، پنجاب میں بین الاقوامی معیار کے آئی ٹی کورسز جیسے کہ مصنوعی ذہانت (AI)، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ اور فری لانسنگ کی تعلیم بھی فراہم کی جا رہی ہے، تاکہ نوجوان نسل عالمی سطح پر اپنی مہارتوں کا لوہا منوا سکے۔ یہ منصوبہ نہ صرف پنجاب کو ایک ڈیجیٹل مرکز میں تبدیل کرنے کی جانب اہم قدم ہے بلکہ اس سے صوبے کے نوجوانوں کو عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کی تیاری بھی فراہم ہو گی۔ مزید پڑھیں: سابق کمشنر کی بیٹی نے پی آئی اے کی ایئر ہوسٹس پر حملہ کرکے زخمی کر دیا