جناح انٹارکٹک اسٹیشن: مفادات کے تحفظ کا انوکھا پلیٹ فارم، کیا پاکستان اسے دوبارہ فعال کر پائے گا؟

Jinnah antarctic station..

روزِ اؤل سے انسان قدرت کے کرشموں کو اپنی عقل سے کھوجتا آیا ہے۔ انسان کی سوچنے اور نئے طریقے دریافت کرنے کی صلاحیت اسے اس قابل بناتی ہے کہ وہ زمین و آسمان کی تہوں میں چھپے قدرت کے رازوں کو دریافت کر سکے۔ کائنات کے پوشیدہ پہلوؤں سے روشنائی کا سفر آج بھی جاری ہے جس کی ایک مثال پاکستان کا جناح انٹارکٹک اسٹیشن ہے۔ جناع انٹارکٹک اسٹیشن براعظم انٹارکٹیکا پہ واقع ایک تحقیقی سٹیشن ہے۔ یہ سٹیشن پاکستان کے انٹارکٹیکا پروگرام کے تحت کام کرتا ہے۔ جس کے تحت پاکستان باقی ممالک کی شراکت داری کے ساتھ اس علاقے میں تحقیق کرتا ہے کہ اس علاقے کو ترقی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہ اسٹیشن مشرقی انٹارکٹیکا کے علاقے جنوبی رونڈین کے پہاڑوں کی ملکہ مود لینڈ میں واقع ہے۔ دوسری جنگ عظیم کےبعد براعظم انٹارکٹکا پہ مختلف ممالک نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں عالمی اداروں کی مدد سے 1958 میں سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق قائم کیا گیا۔ یہ اس براعظم میں سائنسی تحقیق سرانجام دے رہا ہے۔ 1959 میں واشنگٹن میں “انٹارکٹک معاہدہ” ہوا جس میں 12 ممالک کےدستخط ہوئے۔ اب تک کُل ممالک کی تعداد 58 ہو چکی ہے۔ سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق کے قائم ہونے کے بعد وہاں مختلف ممالک نے اپنے اپنے سائنسی سٹیشنز قائم کیے۔ مزید براں کمیٹی وہاں موجود باقی ممالک کے سائنسی پروگرامز کے ساتھ شراکت داری بھی کرتی ہے۔ پاکستان نے ‘سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق’ کے ساتھ انٹارکٹیکا میں تحقیق کے لیے 1991 میں ایک معاہدہ کیا جسے پاکستان آرکیٹک پروگرام کہا جاتا ہے۔ یہ پروگرام پاکستان کی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے تعاون سے ‘نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے محیطیات’ نے پاک بحریہ کے زیر انتظام شروع کیا۔ پاکستان نے اس پروگرام کے تحت وہاں جناح انٹارکٹک اسٹیشن قائم کیا۔ 2001 میں اسٹیشن کے ڈیٹا آپریشنل سسٹم کو ‘بدر بی’ سیٹلائٹ کے ساتھ منسلک کیا گیا جس سے کراچی میں واقع این آئی او کے ہیڈکوارٹرز میں اس علاقے کے ڈیجیٹل مناظر کی ٹرانسمیشن شروع ہو گئی۔ 2002 میں سپارکو کے سائنسدانوں نے اسٹیشن کا دورہ کیا اور وہاں جدید ترین سپر کمپیوٹر نصب کیا۔ 2005 میں پاکستان ائیر فورس کے انجینئرز نے وہاں چھوٹی سی فضائی پٹی اور ایک کنٹرول روم قائم کیا۔ جہاں سے اب پاکستان سے آنے جانے والی پروازوں کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن کا مقصد براعظم انٹارکٹیکا کے متعلق مختلف شعبوں میں تحقیق کرنا ہے۔ جس میں ماحولیاتی معائنہ، سمندری حیاتیات اور برف کی ساخت شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی اورموسموں کے پیٹرنز کو سمجھنا شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے براعظم انٹارکٹکا بھی محفوظ نہیں اور برف پگھلنا اور پئنگوئنز کی نقل و حرکت کا تبدیل ہونا جیسے عوامل کا سامنا کر رہا ہے۔ اسٹیشن پر موجود سائنسدان انٹارکٹیکا پہ موسمیاتی تبدیلی سے نبٹنے کے لیے بھی تحقیق کررہے ہیں۔ اس اسٹیشن میں تحقیق کے لیے تجربہ گاہیں، بنیادی سازوسامان اور لیبارٹریز موجود ہیں۔ سائنسدانوں کے رہنے کے لیے کوارٹرز بھی موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا ہوائی اڈا بھی ہے جہاں سے جہازوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن عالمی سطح پہ پاکستانی شراکت داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ایک اہم سہولت ہے جس کے ذریعے ہم ساتویں براعظم سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کل کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے انسان وہاں مستقل رہائش اختیار کرنے کے قابل بھی ہوجائے۔ جامعہ پنجاب کے شعبہ سپیس سائنسس کے پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جناح انٹارکٹک اسٹیشن کا قیام 1991 میں پاکستان کے انٹارکٹک پروگرام کے تحت عمل میں آیا۔ اس کا بنیادی مقصد انٹارکٹیکا کے ماحولیاتی، موسمیاتی اور جغرافیائی پہلوؤں پر تحقیق کرنا ہے۔ یہ پاکستان کو عالمی سائنسی کمیونٹی میں ایک ذمہ دار رکن کے طور پر پیش کرتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی اور زمین کی قدرتی حالت کو سمجھنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر اس کا فائدہ یہ ہے کہ پاکستان بین الاقوامی تحقیقاتی پروجیکٹس میں شامل ہو کر اپنی سائنسی صلاحیت کو بہتر کر سکتا ہے اور ماحولیاتی تحفظ کے شعبے میں اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتا ہے”۔ دوسری جانب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ سپیس سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر زبیر خان کا کہنا ہے کہ “جناح انٹارکٹک اسٹیشن پاکستان کی سائنسی برتری کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ اسٹیشن موسمیاتی تبدیلیوں اور قطبی تحقیق میں عالمی تعاون کو فروغ دے رہا ہے، یہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے”۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن میں جاری تحقیقاتی شعبوں پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے کہا کہ پاکستان انٹارکٹیکا میں مختلف سائنسی شعبوں پر توجہ دے رہا ہے، جن میں موسمیاتی، سمندری حیات، جغرافیائی، ماحولیاتی اور بائیولوجیکل تحقیق شامل ہیں۔ موسمیاتی تحقیق میں گلوبل وارمنگ اور اوزون لیئر کے نقصان کے اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے، سمندری حیات کی تحقیق میں سمندری ایکوسسٹمز اور ان میں رہنے والے جانداروں کا جائزہ لیا جاتا ہے، جغرافیائی علوم میں گلیشیئرز کی حرکت اور زمین کے اندرونی نظام پر تحقیق کی جاتی ہے، بائیولوجیکل تحقیق میں انٹارکٹک خطے میں مائیکرو آرگینزمز اور ان کے ارتقائی عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے، اور ماحولیاتی تحقیق میں برفانی تہوں میں گیسوں کے اثرات اور قدیم ماحولیاتی حالات کا پتہ لگایا جاتا ہے”۔ دوسری جانب ڈاکٹر زبیر خان کا ماننا ہے کہ ” جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے ذریعے پاکستان سمندری حیاتیات، ماحولیاتی تبدیلی، برفانی تشکیل اور موسمی پیٹرنز جیسے سائنس کے اہم شعبوں پر توجہ دے رہا ہے”۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نتائج اور معلومات پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے کہا کہ ” جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کئی اہم نتائج سامنے آئے ہیں، ادھر سے اوزون لیئر کے حوالے سے ڈیٹا حاصل ہوا ہے، جس نے پاکستان اور دیگر ممالک کو اوزون کی کمی کے اثرات کو سمجھنے میں مدد دی ہے، گلیشیئرز کی پگھلنے کی رفتار اور اس کے سمندر کی سطح پر اثرات کا جائزہ بھی

مارک زکر برگ کا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو 2025 میں نئی انتہاؤں تک لے جانے کا اعلان

Mark-zukerburg

مارک زکربرگ کا کہنا ہے کہ 2025 میں میٹا آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) منصوبے پر 60 سے 65 ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ یہ سال مصنوعی ذہانت (AI) کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ مجھے توقع ہے کہ 2025 میں میٹا اے آئی میں ایک ایسا نمایاں اسسٹنٹ ہوگا جو ایک ارب سے زائد افراد کو خدمات فراہم کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ Llama 4 دنیا کا سب سے جدید ماڈل بن جائے گا۔ ہم ایک ایسا AI انجینئر تیار کریں گے جو ہمارے تحقیقی اور ترقیاتی کاموں میں تیزی سے زیادہ کوڈ لکھ کر تعاون کرے گا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے میٹا ایک 2 گیگا واٹ سے زیادہ کا ڈیٹا سینٹر بنا رہا ہے جو اتنا بڑا ہے کہ مین ہٹن کے ایک بڑے حصے کو کور کر سکے۔ مارک زکر برگ نے کہا کہ 2025 میں تقریباً 1 گیگا واٹ کمپیوٹ پاور کو فعال کریں گے اور سال کے اختتام تک ہمارے پاس 13 لاکھ سے زائد جی پی یوز ہوں گے۔ ہم اس سال سرمایہ کاری کے طور پر 60-65 بلین ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنے AI ٹیموں میں بھی نمایاں اضافہ کریں گے۔ ہمارے پاس آئندہ سالوں میں بھی سرمایہ کاری جاری رکھنے کے لیے مالی وسائل موجود ہیں۔ مارک زکر برگ نے مزید کہا کہ یہ ایک وسیع منصوبہ ہے۔ آنے والے سالوں میں یہ ہماری بنیادی مصنوعات اور کاروبار کو تقویت دے گا، تاریخی جدتوں کا دروازہ کھولے گا، اور امریکی ٹیکنالوجی کی برتری کو مزید آگے بڑھائے گا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ آئیں! مل کر یہ خواب حقیقت بنائیں۔

ایف آئی اے کریک ڈاؤن، انٹرنیشنل ایکٹیو سمز کے ذریعے مجرمانہ سرگرمیاں کرنے والا گینگ گرفتار

Fia11

انٹرنیشنل ایکٹیو سمز کے ذریعےلوگوں کو بلیک میل اور فراڈ کرنے کا رحجان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے آئے روز ایک نئی خبر سننے کو ملتی ہے کہ فلاں بندے کے ساتھ فارڈ یا سکیم ہو گیا، اس طرح کےفراڈ میں زیادہ تر وہ لوگ شکار ہوتے ہیں جو رواں دور میں ہونے والے سائبر کرائم سے بلکل نہ واقف ہوتے ہیں۔ سائبر کرائم کی سہنکڑوں مثالیں ہیں جنہیں انٹرنیشنل نمبرز سے دھمکیاں، فراڈ، اور بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب کچھ ممکن ہو رہا ہے انٹرنیشنل ایکٹیو سمز کے ذریعے، جو پاکستان میں غیر قانونی طریقے سے اسمگل ہو کر بھتہ خوری اور مالی جرائم کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ انٹرنیشنل ایکٹیو سمز وہ موبائل سمز ہیں جو بیرون ملک جاری ہوتی ہیں اور ان کا استعمال بین الاقوامی کالز اور انٹرنیٹ سروسز کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ سمز پاکستان میں غیر قانونی طور پر اسمگل کی جاتی ہیں اور مقامی مجرم ان کا استعمال شناخت چھپانے اور قانون سے بچنے کے لیے کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) نے ایک مراسلے کے ذریعے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو آگاہ کیا کہ برطانیہ میں مقیم بعض افراد مسافروں کے ذریعے انٹرنیشنل ایکٹیو سمز پاکستان بھجوا رہے ہیں۔ ان سمز کا استعمال غیر قانونی مقاصد کے لیے کیا جا رہا تھا۔ فیڈرل انوسٹیگیٹواٹھارٹی ( ایف آئی اے )نے لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں ایک کامیاب آپریشن کیا اور چار افراد کو گرفتار کیا۔ گرفتار ہونے والوں میں سعد اشفاق، محمد عاطف، شعیب حیدر، اور جمشید حیدر شامل ہیں۔ ان کے قبضے سے سینکڑوں انٹرنیشنل ایکٹیو سمز برآمد ہوئیں، جنہیں مختلف جرائم میں استعمال کیا جا رہا تھا۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے  نے ان مجرموں سے سینکڑوں انٹرنیشنل ایکٹیو سمز، متعدد موبائل فونز، متاثرین کو کی جانے والی کالز کی ریکارڈنگ اور مجرمانہ سرگرمیوں سے متعلق دیگر شواہد برآمد کیے۔ یہ لوگ اپنے مختلف ذرائع سے برطانیہ کی انٹرنیشنل ایکٹیو سمز کو منگوا کر پاکستان میں مخصوص سم ڈیلرز کو فروخت کر دیتے تھے ، جو انہیں غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔یہ سمز شناخت چھپانے اور بین الاقوامی کالز کے لیے استعمال کرتے تھے، جس سے مجرموں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچنا آسان ہو جاتا تھا۔ انٹرنیشنل ایکٹیو سمز کو مختلف قسم کے جرائم میں استعمال کیا جاتا ہے، جن میں متاثرین کو بین الاقوامی نمبرز سے کال کر کے پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ،جعلی آن لائن ٹرانزیکشنز اور ای کامرس کے ذریعے لوگوں سے پیسہ بٹورا جاتا  اور ان سمز کا سب سے بڑا فائدہ بلیک میلر اپنی شناخت چھپانے کے لیے کرتے ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیشنل ایکٹیو سمز کے استعمال کو روکنے کے لیے موجودہ قوانین ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، اس نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے بہت سے  مسائل درپیش ہیں ، جن میں سائبر کرائم ونگ کے پاس جدید ٹولز اور وسائل کی کمی ،موجودہ سائبر کرائم قوانین میں انٹرنیشنل سمز کے غیر قانونی استعمال پر خصوصی توجہ نہ دینا،شہری انٹرنیشنل کالز اور دھوکہ دہی کی شناخت نہ کر پانا شامل ہیں۔ ان ایکیٹیو سمز سے متاثرین کے مطابق ان سائبر  جرائم نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے ہیں ،لاہور کے ایک تاجر نے بتایا کہ انہیں برطانیہ کے ایک نمبر سے کال آئی، جس نے  بھتہ دینے کا مطالبہ کیا ،ایک اور متاثرہ خاتون نے کہا کہ ان کی ذاتی معلومات استعمال کر کے جعلی ٹرانزیکشنز کی گئیں، جس سے انہیں مالی اور ذہنی نقصان اٹھانا پڑا۔ دیگر ممالک میں انٹرنیشنل سمز کے غلط استعمال کے خلاف سخت قوانین نافذ ہیں، اور مجرموں کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں، انڈیا میں  غیر قانونی سمز کے استعمال پر بھاری جرمانے اور 7 سال قید کی سزا دی جاتی ہے، یورپئن ممالک میں بین الاقوامی سمز کی نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور اداروں کے درمیان تعاون یقینی بنایا جاتا ہے۔ ماہرین اور حکام کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے چند اقدامات کی ضرورت ہے جن میں سائبر کرائم قوانین میں ترامیم کی جائیں، جس میں انٹرنیشنل سمز کے غیر قانونی استعمال پر سخت سزائیں شامل ہوں ،ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو جدید نگرانی کے آلات فراہم کیے جائیں۔  سائبر کرائم کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ شہریوں کو بین القوامی  کالز اور مشکوک سرگرمیوں کی شناخت کے لیے آگاہی مہمات چلائی جائیں،بیرون ملک مقیم نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کے لیے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ انٹرنیشنل ایکٹیو سمز کے ذریعے ہونے والے جرائم نے پاکستان میں سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ حکومت، ادارے، اور عوام کو مل کر ان جرائم کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی تاکہ مجرموں کے نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔

واٹس ایپ صارفین کے لیے ’میٹا‘ نیا فیچر لے آیا،یہ کیسی تبدیلی ہے؟

Meta

میٹا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے سب سے مقبول میسجنگ ایپ واٹس ایپ میں ایک نیا فیچر متعارف کرانے جا رہا ہے جو یقیناً آپ کی آن لائن دنیا کو بدل کر رکھ دے گا۔ میٹا کا کہنا ہے کہ بہت جلد آپ اپنے واٹس ایپ اکاؤنٹ کو ‘اکاؤنٹس سینٹر’ میں شامل کر سکیں گے اور یہ تبدیلی صارفین کی سوشل میڈیا زندگی کو اتنا آسان بنا دے گی کہ صآرفین حیران رہ جائیں گے۔ اکاؤنٹس سینٹر وہ جدید پلیٹ فارم ہے جو میٹا کی تمام ایپس کو ایک جگہ جوڑتا ہے یعنی اب فیس بک، انسٹاگرام اور میٹا کوئیسٹ کو ایک ہی ہب سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اب صارفین اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس کو بآسانی انسٹاگرام اور فیس بک پر کراس پوسٹ کر سکیں گے یعنی واٹس ایپ اسٹیٹس اپ لوڈ کرنے کے لیے الگ سے ایپس کھولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ ایک ہی کلک میں آپ کا اسٹیٹس انسٹاگرام اور فیس بک پر آپ کی موجودگی ظاہر کرے گا۔ اس کے علاوہ میٹا کا سنگل سائن آن فیچر بھی متعارف کرایا جائے گا جس کا مطلب ہے کہ آپ ایک ہی اکاؤنٹ سے تمام میٹا ایپس میں لاگ ان کر سکیں گے۔ فیس بک سے انسٹاگرام تک رسائی حاصل کرنا اب اتنا آسان ہو جائے گا کہ آپ کو پاسورڈ یاد رکھنے کی پریشانی نہیں ہوگی۔ یہ فیچر مکمل طور پر آپشنل ہوگا یعنی صارفین کو یہ خود ان ایبل کرنا پڑے گا اور بائی ڈیفالٹ یہ فیچر ڈس ایبل رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ واٹس ایپ کی اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کی سیکیورٹی بدستور برقرار رہے گی، یعنی آپ کے پیغامات اور کالز کسی بھی غیر متعلقہ شخص کی دسترس سے محفوظ رہیں گے۔ اگرچہ یہ فیچر ابھی پوری دنیا میں دستیاب نہیں ہوگا مگر اس کا آغاز ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔جب یہ فیچر فعال ہوگا تو آپ کو یہ آپشن واٹس ایپ کی سیٹنگز میں ملے گا۔

آن لائن تعلیم: ٹیکنالوجی نے سیکھنے کو کیسے بدلا؟

Students using technology

اگر آپ اپنے گھر میں بیٹھے پوری دنیا کی خبروں کو سن سکتے ہیں، دنیا کے کسی بھی ملک میں بیٹھے اپنے دوست سے بات کر رہے ہیں تو آپ ڈیجیٹل دنیا میں جی رہے ہیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں جب ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کا حصہ نہیں بنی تھی لیکن جب سے ٹیکنالوجی آئی ہے اس نے ہماری زندگیوں میں حقیقی معنوں مین انقلاب برپا کیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہمیشہ سے انسان کو ترقی کی نئی راہیں نکالنے میں مدد فراہم کی ہے۔ چاہے وہ شعبہِ صحت ہو یا شعبہِ تعلیم، یا کوئی بھی اور میدان، ٹیکنالوجی نے ہمیشہ انسان کا ہاتھ پکڑا اور نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ حالیہ برسوں میں تعلیم کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی مدد سے کافی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ جہاں پہلے زمانے میں  صرف کچھ طالب علموں اور ایک استاد کے ہونے سے کلاس روم  بنتا تھا۔  استاد کا کام صرف لیکچر دینا اور طالب علموں کے سوالوں کا جواب دینا ہوتا تھا۔ طالب علموں کے لیےصرف کلاس روم ہی پڑھنے کا ذریعہ ہوتا تھا۔ اس وقت کتب خانے اتنے عام اور معیاری نہیں ہوتے تھے۔ صرف کچھ ہی  لوگوں کو کتب خانے تک جانے کی اجازت ہوتی تھی۔ اس وقت چھاپا خانہ کی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ جوہن گٹن برگ نے 1440 میں چھاپا  خانہ ایجاد کیا۔ چھاپا خانے کی ایجاد نے تعلیم میں انقلاب برپا کر دیا۔ کتابیں تیزی سے چھپنے  لگی اور لوگوں تک رسائی آسان ہوگئی۔  اسی وجہ سے یورپ میں نشاتہِ ثانیہ کا دور شروع ہوا۔ حالیہ دور میں آن لاین  تعلیمی نظام طالب علموں کی بہت سی مشکلات حل کرتا دیکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آن لائن  تعلیمی نظام طالب علموں کو مزید سہولیات دیتا ہے۔ کتابوں، خبروں، اور انسائیکلوپیڈیا ویب سائیٹس کی آسان دستیابی تعلیمی نظام کو پراثر بناتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اقسام کی تعلیمی ایپس جیسا کہ دولینگو ، یودیمی، کوئزلٹ، اور خان اکیڈمی طالب علموں کو پڑھنے کے لیے بہترین مواد مہیا کرتی ہیں۔ طالب علم  گھر بیٹھے ان تمام ایپس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ زوم اور  گوگل میٹ جیسی ایپس استعمال کر کے تمام طالب علم آن لائن کلاس سے جڑ سکتے ہیں۔ سکول کے سخت اور تھکا دینے والے اوقات کار سے اب طالب علموں کو آزادی مل سکتی ہے، جوس کی وجہ سے طالب علموں کو تفصیل سے پڑھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا تھا۔ ہر طالب علم ایک جیسی صلاحیت کا مالک نہیں ہوتا ہے۔ کچھ طالب علم پڑھ کر زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں جب کے کچھ طالب علم ویڈیوز  دیکھ کر بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ آن لائن  تعلیمی نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر طالب علم کو اس کی صلاحیتوں اور دلچسبی کے مطابق  تعلیم ملے۔ تعلیمی ایپس اور  ویب سائیٹس پڑھنے کے لیے اور ویڈیوز دونوں اقسام کا مواد مہیا کرتی ہیں۔ یہ طالب علموں کی ذاتی نوعیت کو مدِظر رکھتے ہوئے  ان کو پڑھنے کا تجربہ فراہم کرتی ہیں جس سے انہیں سمجھنے اور بیان کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے آنے سے جہاں پر طالب علموں کی معلومات تک رسائی آسان ہوئی ہے وہی پہ کلاس روم کا ماحول بھی اس بات پہ زور دیتا  ہے کہ طالب علموں  کے لیے پڑھنے کا ماحول سازگار رہے۔ اب طالب علم بغیر کسی مسلے کے آرام سے بہترین تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ کچھ طالب علم پڑھنے کے دوران دلچسبی کھو دیتے ہیں۔ آن لائن تعلیمی گیمز ایسے مسائل کو حل کرتی ہیں۔ آن لائن تعلیمی گیمز کو کھیل کر طالب علم مصروف اور لطف اندوز محسوس کرتے ہیں۔ یہ گیمز طالب علموں کو پڑھنے کی مزید تحریک بھی دیتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے آنے سے نہ صرف تعلیمی آسانی کے لیے تعلیمی ایپس اور ویب سائیٹس ایجاد ہوئی ہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے آنے سے پڑھائی کے عمل میں بھی انقلاب برپا ہوا ہے۔ مختلف اقسام کے آلات ایجاد ہوئے جن میں کچھ مندرجہ ذیل ہیں ڈیسک ٹاپس اور لیپ ٹاپ دور سے تعلیم حاصل کرنا پروجیکٹر الیکٹرانک وائٹ بورڈز ورچوئل فیلڈ ٹرپس فلپڈ لرننگ مزیدبراں، اگر ٹیچرز طالب علموں کی کارکردگی دیکھنا چاہیں تو آن لائن طریقوں سے کار کردگی جانچ سکتے ہیں۔ آن لائن طریقے طالب علموں کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کا حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ حالیہ دور میں سب سے بڑا انقلاب مصنوئی ذہانت کی آمد سے آیا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی اور جیمینی جیسی ایپس طالب علموں کو تفصیل سے ان کے سوالات کے جوابات دیتی ہیں۔ یہ ایپس تمام اقسام کی ریاضی کی مشکلات حل کرتی ہیں، دستاویزات بنانا اور نئی چیزیں بنانا بھی آسانی سے ممکن بناتی ہیں۔ یہ ایپس تصاویر، ویڈوز، اور انفوگرافکس بھی بنا سکتی ہیں۔ طالب علم ان تمام ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے آن لائن تعلیمی نظام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں

جھوٹ پھیلانے پر 3 برس قید 20 لاکھ جرمانہ، پاکستان کے الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں نئی ترامیم کیا؟

Social media fake news

پاکستان میں انٹرنیٹ سے متعلق قوانین میں تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت نے الیکٹرانک کرائم سے متعلق پیکا ایکٹ میں مزید ترامیم کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق پیکا (دی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ) میں ترامیم کر کے ‘ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی’ قائم کی جائے گی جو سوشل میڈیا کے مواد کو ’ریگولیٹ‘ کرنے کا اختیار رکھتی اور شکایات پر کسی بھی قسم کے مواد کو حذف یا بلاک کر سکے گی۔ مسودہ کی کاپی اور حکومتی ذرائع سے سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق ‘جعلی خبروں اور سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی پر مبنی نکات کو جلد منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔’ مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈرپا) نامی اتھارٹی قائم کر کے اسے ممنوعہ مواد شیئر کرنے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار دینا تجویز کیا گیا ہے۔ اتھارٹی وفاقی اور صوبائی حکومت کو ’ڈیجیٹل اخلاقیات سمیت متعلقہ شعبوں’ میں تجاویز دے گی۔ تعلیم وتحقیق سے متعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرے گی، صارفین کے آن لائن تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ نئے قانون کے تحت پاکستان نے ایک مرتبہ پھر عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ملک میں موجودگی یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔ مسودہ کے مطابق نئی اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے ٹائم فریم دے گی اور انہیں پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔ مسودے کے مطابق سوشل میڈیا کی تعریف تبدیل کی جائے گی۔ نئی تعریف کے مطابق سوشل پلیٹ فارمز تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز، ان سے متعلق سروسز فراہم کرنے والے افراد اور ایپس بھی ‘سوشل میڈیا’ کہلائیں گی۔ سوشل میڈیا کی نئی تعریف کے مطابق ’ویب سائٹ‘، ’ایپلی کیشن‘ یا ’مواصلاتی چینل‘ بھی اسی ڈومین میں تصور کیے جائیں گے۔ ڈرپا کیسے کام کرے گی؟ سوشل میڈیا ریگولیٹر کے طور پر بنائی جانے والی مجوزہ اتھارٹی ایک چیئرپرسن سمیت دیگر چھ ارکان پر مشتمل ہوگی۔ وفاقی حکومت چیئرپرسن اور تین ارکان کو تین برس کے لیے مقرر کرے گی جب کہ سیکرٹری اطلاعات، سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی آئی بربنائے عہدہ اتھارٹی کے ارکان ہوں گے۔ اتھارٹی کے فیصلے اکثریتی ارکان کی رضامندی سے ہوں گے۔ سربراہ کو اختیار ہو گا کہ وہ کسی بھی غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک کرنے کی ہدایت دے سکے، ایسے احکامات کی اتھارٹی کو 48 گھنٹوں میں ’توثیق‘ کرنا ہوگی۔ نئی اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ’رجسٹرڈ‘ اور ان کے لیے شرائط وضع کرسکے گی۔ اسے اختیار ہوگا کہ حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک کرنے یا ہٹانے کا حکم دے سکے۔ نئے قوانین میں خاص کیا؟ موجودہ قوانین کے تحت صرف وہ کنٹینٹ ‘غیر قانونی مواد’ کہلاتا ہے جو ‘اسلام مخالف، پاکستان کی سلامتی یا دفاع کے خلاف’ ہو۔ پیکا ایکٹ کے سیکشن 37 میں ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کے تحت 16 مختلف اقسام کے مواد کو اسی ضمن میں شمار کیا جائے گا۔ ‘امن عامہ سے متعلق، غیرشائستگی، غیراخلاقی، توہین عدالت یا کسی جرم کے لیے اکسانے والا، فحش، گستاخانہ، تشدد، فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا’ بھی ‘غیرقانونی مواد’ کہلائے گا۔ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی، جعلی یا جھوٹی رپورٹس، آئینی اداروں اور ان کے افسران بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ اور ہتک عزت کو بھی ‘غیرقانونی مواد’ شمار کیا جائے گا۔ انٹرنیٹ سے متعلق اعدادوشمار کے پلیٹ فارم اسٹیٹسٹا کے مطابق جنوری 2025 تک پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 11 کروڑ 10 لاکھ ہے۔ یہ تعداد ملکی آبادی کا تقریبا نصف بنتی ہے۔ گزشتہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 4 کروڑ ہے۔

ڈرائیور کے موڈ کے مطابق چلنے والی الیکٹرک کاریں: ہونڈا کا حیرت انگیز شاہکار متعارف

ہونڈا کی نئی الیکٹرک گاڑی جو ڈرائیور کے مزاج کے مطابق چلے گی۔

دنیا تیزی سے ٹیکنالوجی کی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے اور جدید دور کی اختراعات مصنوعی ذہانت اور الیکٹرک گاڑیوں میں نمایاں ہیں۔ الیکٹرک کاروں نے نہ صرف خام تیل کے ذخائر کے حوالے سے خدشات کو کم کیا ہے بلکہ انہیں ماحول دوست اور قابل اعتماد ذرائع سفر کے طور پر بھی اپنایا جا رہا ہے۔ مختلف کمپنیاں ان گاڑیوں میں نت نئی خصوصیات متعارف کرا رہی ہیں تاکہ مستقبل کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ گزشتہ ہفتے امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں کاروں کا میلا سجایا گیا جس میں کاروں کی مختلف کمپنیز نے اپنے نئے ماڈل متعارف کرائے۔ اس میلےمیں چین میں ٹیسلا کا نیا ماڈل اور فورڈ کی مہنگی ترین اسپورٹس کار بھی متعارف کروائی گئی ، جس کی رفتار 325 کلومیٹر فی گھنٹہ بتائی گئی ہے۔ جاپانی کمپنی ہنڈانے لاس ویگاس میں منعقدہ کنزیومر الیکٹرانکس شو میں دو نئےالیکٹرک ماڈلز متعارف کرائے ہیں جنھیں زیرو سیریز کا نام دیا گیا ہےاور یہ ماڈلز 2026 ءمیں مارکیٹ میں  پیش کیے جائیں گے۔ غیر ملکی نیوز چینل بی بی سی نیوز کے مطابق ہنڈاکا زیرو سیریز میں لانچ ہونے والا پہلاماڈل ایک ایس یو وی ہے۔ اس گاڑی کےڈیزائن کا  اگلا حصہ کم و بیش روایتی ہے تاہم اس کار کا پچھلا حصہ چھوٹے شیشے، اونچی اور لمبی باڈی اور یو شیپ لائیٹوں کے ساتھ اسے ایس یو وی کاروں کی مارکیٹ میں منفرد بناتا ہے۔ بی بی سی نیوز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ  ہنڈا نے ابھی تک ان کاروں کی تکنیکی تفصیلات جاری نہیں کی ہے، لیکن  یہ کاریں  ایک چارج پر 482 کلومیٹر کا فاصلہ طے کریں گی۔ اس کے علاوہ گاڑی کا سٹیئرنگ وہیل بھی مکینکلی ٹائروں کے ساتھ منسلک نہیں ہے بلکہ اسے الیکٹرانک طریقے سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ جاپانی کار مینوفیکچرنگ کمپنی ہونڈا کے مطابق   یہ نیا آپریٹنگ سسٹم کار ڈرائیور کے مزاج اور عادات کو سمجھنے اور جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ ڈرائیور کے مزاج کے مطابق کار کے فیچرز اور ماحول کو ترتیب دیتا ہے۔ اس آپریٹنگ سسٹم میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا گیا ہے، اس کے علاوہ کار میں ڈرائیور سے بات کرنے کی صلاحیت بھی ہوگی۔ کارمینوفیکچرنگ کمپنی ہونڈا کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں دیکھایا گیا ہے کہ کس طرح آپریٹنگ سسٹم کی مدد سے  آسیمو  کو ڈرائیور بتاتا ہے کہ وہ کچھ اچھا محسوس نہیں کر رہا اور وہ اداس ہے، جس کے بعد آسیمو ڈرائیور کےلیے ایک خوشگوار گانا چلاتا ہے۔ مزید یہ کہ ہنڈا کے ان نئے ماڈل میں اے آئی کے ہونے کی وجہ سے کچھ سڑکوں پر ڈرائیور اسٹیئرنگ سے ہاتھ اٹھا سکتا ہے اور کار خود کار ٹیکنالوجی کی مدد سے چلتی رہے گی۔  ان ماڈلز کے علاوہ سات اور ماڈلز بھی 2030 تک مارکیٹ میں متعارف کرائے جائیں گے۔ واضح رہے کہ ہنڈا نے ایک اور افیلا نامی الیکٹرک کار تیار کرنے کے لیے جاپانی کمپنی سونی کارپوریشن کے ساتھ بھی اشتراک کر رکھاہے۔ یہ کار اگلے برس سے مارکیٹ میں فروخت کے لیے دستیاب ہو گی اور اس کی تعارفی قیمت 90 ہزار ڈالرز رکھی گئی ہے۔ دنیا میں بڑھتے ہوئے ٹیکنالوجی کے رجحانات کے ساتھ الیکٹرک گاڑیاں انسانی زندگی کو آسان بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ گاڑیاں خام تیل کے ذخائر کے تحفظ کے ساتھ ماحولیاتی تحفظ میں بھی اہم ہیں اور مہنگے تیل پر انحصار کم کر رہی ہیں۔ ہنڈا کا زیرو سیریز کا منصوبہ انقلابی اقدامات کی ایک مثال ہے جو ٹیکنالوجی کے مستقبل کی راہ ہموار کر رہا ہے۔

انٹرنیٹ پرپابندی؟کیا پاکستان یونہی کچھوے کی چال چلتا رہے گا؟

Net

دنیا تیزترین انٹر نیٹ کی جانب بڑھ رہی ہے، تھری جی اور فورجی کا زمانہ پرانا ہوا ہے تو فائیو جی کا دور آرہا ہے مگرپاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے، جو انٹرنیٹ میسر ہے وہ بہت سست ہے۔ انٹرنیٹ کی سست روی پر حکومت تنقید کی زد میں ہے،سوشل میڈیا سے ایوانوں تک آواز اٹھائی جارہی ہے، کبھی فائر وال تو کبھی وی پی این کا بہانہ بنایا جاتا ہے، اب حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ انٹرنیٹ کی اسپیڈ کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کررہی ہے۔ حکومت نے انٹرنیٹ کی تیز ترین فراہمی والی کمپنی اسٹارلنک کو بھی رجسٹرڈ کرلیا ہے۔ جس کے بعد یہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ انٹرنیٹ کی سست روی اورسوشل میڈیا ایپس میں خلل دور ہوجائے گا، فی الحال انٹرنیٹ کی بندش سے صارفین اور فری لانسرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی سست روی کی ایک وجہ زیر سمندر سب میرین کیبل ایشیا افریقہ یورپ ون کی خرابی بتائی جارہی ہے اور اِسکی مرمت پر پی ٹی سی ایل ہاتھ کھڑے کرتا نظر آرہا ہے۔ پی ٹی سی ایل کا کہنا ہے کہ میرین کیبل کی مرمت کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا ہے۔یعنی انٹرنیٹ کتنی دیر تک سلو رہتا ہے اِس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔اب حکومت کی جانب سے وقفے وقفے سے انٹرنیٹ کی بندش پر صفائیاں دی جارہی ہیں ۔جیسا کہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ ہر ملک کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی سائبر سیکیورٹی پر توجہ دے ،کچھ مسائل کا سامنا ہے جو دو تین چار مہینے کے اندر حل ہو جائیں گے ایسا نہیں ہے کہ پانچ سال اسی طرح ہی چلتا رہے گا۔ اب ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن انٹرنیٹ کی رفتار بہتر نہیں ہوسکی ایسے میں صارفین یہ سوال تو اُٹھائیں گے کہ انٹرنیٹ کا مسئلہ موجودہ حکومت کے دور میں ٹھیک بھی ہوسکے گا یا نہیں۔ بہرحال سوال تو انٹرنیٹ وائی فائی پر بھی اُٹھ رہا ہےاور یہ سوال خود حکومت اُٹھا رہی ہے۔خبر کے مطابق حکومت نے وائی فائی نیٹ ورکس کو غیر محفوظ قراردیدیا۔ اس حوالے سے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے تمام اداروں کو وائرلیس نیٹ ورکس کے بارے میں سیکیورٹی تھریٹ سے متعلق ایڈوائزری جاری کردی۔ انٹرنیٹ سپیڈ پرکھنے والی عالمی تنظیم ‘اوکلا سپیڈ ٹیسٹ گلوبل انڈیکس’ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق حالیہ پابندیوں کے باعث پاکستان انٹرنیٹ کی رفتار کے لحاظ سے دنیا کے سست ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے، اس فہرست میں پاکستان موبائل انٹرنیٹ سپیڈ کے اعتبار سے 111 ممالک میں سے 100ویں نمبر پر ہے جبکہ براڈبینڈ سپیڈ کے لحاظ سے 158 ممالک میں سے 141ویں نمبر پر آگیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ سپیڈ کم ہونے کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے فائروال کی تنصیب ہے، فائروال ایک ایسا نیٹ ورک سکیورٹی سسٹم ہے جو نیٹ ورک پر آنے اور جانے والی ٹریفک کو قوانین کے مطابق بلاک کرتا ہے یا اجازت دیتا ہے۔  اس سسٹم کی تنصیب سے حکومت شہریوں کی نگرانی کر سکتی ہے۔ آئی ٹی کے ماہر عمار جعفری نے پاکستان میٹرز سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ “انٹرنیٹ بہتے ہوئے پانی کی طرح ہے اور اگر آپ اس کے آگے جالی لگادیں گے تو وہ آہستہ ہو جائے گا۔  سوال یہ ہے کہ جالی کتنی پتلی یا موٹی ہے۔ اگر جالی میں سوراخ  بڑے ہوں گے تو اس میں سے تیزی سے پانی جائے گااور اگر سوراخ چھوٹے ہوں گے تو پانی آہستہ ہوجائے گا۔ اسی طرح ہمارے انٹرنیٹ میں بھی اب ایسی  ٹیکنالوجی متعارف کروائی جا رہی ہے جس سے زیادہ معلومات ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ آہستہ کام کرتا ہے۔ کیوں کہ یہ ٹیکنالوجی ہماری اپنی نہیں ہے بلکہ بیرون ملک سے لی گئی ہے اس لیے ہمارے یہاں آہستہ ہے۔” انٹرنیٹ کی بندش اور سست رفتاری سے آن لائن کاروبار کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کے سدِباب کے لئے صارفین نے ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک (وی پی این) کا استعمال شروع کیا، لیکن حکومت کی جانب سے وی پی این کی بندش بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ موجودہ دورمیں انٹرنیٹ اورمصنوعی ذہانت (اے آئی) دنیا میں انقلاب برپا کر رہے ہیں، اس کے برعکس پاکستان میں صارفین کی انٹرنیٹ تک رسائی محدود ہوتی جارہی ہے، صارفین کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہےکہ میسجنگ ایپ ‘واٹس ایپ’ کے ذریعے بھی عزیز و اقارب سے رابطے میں مشکلات درپیش ہیں۔ انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے. پاکستان سوفٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سجاد سید کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش کے باعث پاکستان کو یومیہ ایک ارب 30 کروڑ روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ ایک گھنٹہ انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے 9 لاکھ 10 ہزار ڈالر کا نقصان ہو رہاہے۔ جبکہ یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سے عالمی کمپنیوں نے مختلف آپریشنز باہر منتقل کرنا شروع کردیے ہیں۔ جبکہ حکومت پر انٹرنیٹ کی ناقص اسپیڈ کی وجہ سے تنقید بھی ہورہی ہے ۔پی ٹی آئی کے رہنما شعیب شاہین کا میڈیا سے گفتگومیں کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سلو کرنے سے ہماری یوتھ اور ہمارے کاروبار کا نقصان ہوا۔اِس کا جواب کون دے گا۔ انٹرنیٹ کی بندش اور سست رفتار نے تیزی سے ترقی کرتی فری لانسنگ انڈسٹری کو بھی مشکلات میں دھکیل دیا ہے،ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 5 سے 6 لاکھ فری لانسرز اور  تقریباً 25 ہزار کمپنیاں اسی وجہ سے نقصان اٹھا رہی ہیں۔،آئی ٹی سیکٹر کے فروغ اوراس کی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے حکومتی دعووں کے باوجود یہ انڈسٹری صرف 2.7 بلین ڈالر تک ہی پہنچ پائی ہے، دوسری جانب ہمسایہ ملک بھارت آئی ٹی ایکسپورٹ سے سالانہ 300 بلین ڈالرز سے زائد کی آمدنی حاصل کر رہا ہے۔ عمارجعفری کا کہنا تھا کہ “یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔  دنیا بھر میں اس طرح کی ٹیکنالوجیز آتی ہیں جس سے انٹرنیٹ پہ شائع ہونے

آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟

Carbon footprint1

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ اپنے گھر میں اپنے بیڈ پہ ٹیک لگا ئے بیٹھے ہیں اور اپنے موبائل سے گوگل پر اپنی پسندیدہ فلم سرچ کرتے ہیں، آپ ماحول کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جی ہاں! آپ کے اس چھوٹے سے عمل سے بھی ماحول کو نقصان پہنچتا ہے۔ نہ صرف ایسے موبائل سے سرچ کرنے سے بلکہ کھانا پکانے اور سفر کرنے جیسے روزمرہ کے کام بھی ماحول کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ ایسا کیسے ہوتا ہے۔ کاربن فٹ پرنٹ ایسی گیسوں کے اخراج کے ماپنے کو کہتے ہیں جو ماحول کو نقصان دینے کا سبب بنتی ہیں۔ ان گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ اور فلوسینیٹد گیسز، جنہیں ایف گیسز بھی کہا جاتا ہے، شامل ہیں۔ کیونکہ ان گیسز میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج سب سے زیادہ ہے اس لیے انہیں “کاربن فٹ پرنٹ” کا نام دیا گیا ہے۔ ان گیسوں کو گرین ہاؤس گیسز بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گیسز زمین کے گرد موجود اوزون کی تہہ، جو زمین کو سورج کی خطرناک شعاعوں سے بچاتی ہے، کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس نقصان کے نتیجے میں اوزون کی تہہ پتلی ہو جاتی ہے اور سورج کی خطرناک اور زہریلی شعاعیں اس تہہ میں سے گزر کر زمین پر پہنچتی ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنتی ہیں جس کے باعث سیلاب، سخت موسم اور سونامی وغیرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کاربن فٹ پرنٹ کی سب سے بڑی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی شکاگو کے مطابق دنیا میں 30 فیصد کاربن فٹ پرنٹ کا اخراج بجلی کے شعبے سے منسلک ہے جبکہ 26 فیصد پیٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اسی طرح فیکٹریوں کی وجہ سے 21 فیصد، زرعی شعبے کی وجہ سے 9 فیصد اور رہائشی و تجارتی شعبے کی وجہ سے 12 فیصد گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ پنجاب یونی ورسٹی میں ماحولیاتی تحقیق کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر سیدہ عدیلہ بتول کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 26 فیصد کاربن فٹ پرنٹ ہماری خوراک سے منسلک ہے۔ اس 26 فیصد آدھے سے زیادہ حصہ صرف جانوروں کے گوشت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک کلو گرام بھیڑ کے گوشت یا ایک کلو گرام پنیر تیار کرنے پر 20 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے روزمرہ کی سرگرمیاں، جیسا کہ نقل و حرکت، بھی کاربن فٹ پرنٹ کا سبب بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم اڑھائی کلومیٹر پیدل سفر کرتے ہیں تو اس کا کاربن فٹ پرنٹ صفر ہوگا لیکن اگر ہم پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں تو یہ 20 منٹ میں 244 گرام گیسز کا اخراج ہوگا۔ اسی طرح اپنی کار پہ سفر کرنے سے یہ اخراج 560 گرام ہوگا۔ ہماری روزمرہ کی سرگرمیوں میں استعمال ہونے والی اشیا مثلاً ایک پلاسٹک کا شاپر سے 33 گرام کاربن فٹ پرنٹ ہوتا ہے۔ حیران کن طور پر اگر آپ گوگل پہ ایک سرچ کرتے ہیں تو اس سے بھی 0.2 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ ایک پلاسٹک کی بوتل 83 گرام جبکہ پھولوں کا گل دستہ 32 ہزار گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے۔ گوکہ پاکستان پوری دنیا کے مقابلے میں ایک فیصد سے بھی کم کاربن فٹ پرنٹ کا ذمہ دار ہے لیکن جو ممالک موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ان میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ اس وجہ سے پاکستان کو اس تبدیلی سے زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔ 2022 میں آنے والے سیلاب اسی بات کا ثبوت ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اس سیلاب سے پاکستان میں 33 ملین لوگ متاثر ہوئے۔ موسمیاتی تبدیلی پوری دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہے جس میں تمام ممالک مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہر سال کانفرنس آف پارٹیز کے نام سے ایک میٹنگ ہوتی ہے جس میں تمام ممالک کے سربراہان شرکت کرتے ہیں اور دنیا کو موسمیاتی تبدیلی سے درپیش مسائل کو حل کرتے ہیں۔

پاکستان ساختہ پہلا سیٹلائٹ مدار میں داخل ،زراعت میں معاون ہوگا

Satelite

پاکستان کےقومی خلائی ادارے اسپارکو کی جانب سے تیارہ کردہ پہلا الیکٹرو آپٹیکل سیٹلائٹ مدار میں داخل ہوگیا،سیٹلائٹ ای اوون کو چین کے جی چھوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے خلا میں بھیجا گیا ۔ پاکستان کا یہ ای اوون سیٹلائٹ لانگ ٹرم مقاصد کے لیے تیار کیا گیا ہے اور اسے پوری طرح سے پاکستانی انجینئرز نے ڈیزائن اور تیار کیا ہے۔ یہ سیٹلائٹ ہائی ریزولوشن کیمراسے منسلک ہے جو زمین کے ہر حصے کی واضع  تصاویر لے سکے گا۔ سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کے لیے چین مدد کررہا ہے۔ تاہم  اس کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے سپارکو کا انحصار خود پر ہےاور اس طرح پاکستان نے خلا کی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے۔ یہ سیٹلائٹ مختلف شعبوں میں انقلابی ثابت ہوگا۔ سب سے پہلے تو یہ زراعت کے شعبے کے لیے مدد گار ہوگا۔سیٹیلائٹ کی مدد سے کسانوں کو فصلوں کی موزونیت، پانی کی ضروریات، اور وسائل کے استعمال کے بارے میں تفصیلی ڈیٹا فراہم کیا جائے گا۔ اس سے نہ صرف فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ وسائل کا ضیاع بھی کم ہوگا۔ اس کے علاوہ  ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بھی یہ سیٹلائٹ ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کے ذریعے گلیشیئرز کے پگھلنے، جنگلات کی کٹائی، اور دیگر ماحولیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھی جا سکے گی۔ سیٹلائٹ کی مدد سے قدرتی آفات کی پیش گوئی اور ان سے نمٹنے کے لیے بھی اہم اقدامات کیے جا سکیں گے۔ زلزلے، سیلاب یا لینڈ سلائیڈنگ جیسے قدرتی آفات کے دوران نقصان کا فوری اندازہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن سیٹیلائٹ کی مدد سے امدادی کارروائیاں جلد اور مؤثر طریقے سے کی جا سکیں گی۔ اس کا ہائی ریزولوشن کیمرا زمین کی سطح پر ہونے والی ہر تبدیلی کو فوری طور پر معلوم کرنے میں مدد دے گا۔ ان معلومات کی بنیاد پر پاکستان اپنی ترقیاتی حکمت عملیوں کو بہتر بنا سکے گا اور عالمی سطح پر اپنی ماحولیاتی پالیسیوں کو مزید موثر بنا سکے گا۔ ایک اور اہم شعبہ جس میں ای او ون سیٹلائٹ اہم کردار ادا کرے گا وہ ہے شہری ترقی۔  اس سیٹلائٹ کی مدد سے پاکستان کے شہروں کی ترقی، زیر تعمیر انفراسٹرکچر اور شہری پھیلاؤ کی نگرانی کی جا سکے گی۔ اس سے شہری منصوبہ بندی میں مدد ملے گی اور پاکستان کی ترقی کے راہ ہموار ہوگی۔ اس کے علاوہ سیٹیلائٹ کے ذریعے قدرتی وسائل کی نگرانی میں بھی بہتری آئے گی۔معدنیات، تیل و گیس کے ذخائر، پانی کی کمی، اور دیگر قدرتی وسائل کی بہتر نگرانی پاکستان کو ان کے استحصال میں مزید مدد دے گی۔ سیٹلائٹ کا مکمل طور پر مقامی طور پر ڈیزائن اور تیار کیا جانا پاکستان کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک بڑا سنگ میل ہے۔ پاکستان کی خلا تحقیق کے میدان میں یہ ایک  تاریخی کامیابی ہے۔ سپارکو کے ماہرین جن میں زین بخاری اور عائشہ رابیہ شامل ہیں ، انہوں  نے اس پروجیکٹ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ” یہ سیٹلائٹ پاکستان کے لیے صرف ایک سنگ میل نہیں بلکہ عالمی سطح پر ایک طاقتور پیغام بھی ہے کہ پاکستان خلائی ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہو چکا ہے”۔ سپارکو کے جنرل مینیجر زین بخاری کے مطابق ” ای او ون سیٹیلائٹ کا کامیاب لانچ پاکستان کی خلا کے میدان میں مزید پیشرفت کی ضمانت ہے”۔ ان کا کہنا ہے کہ “اس سیٹلائٹ کے لانچ کے بعد پاکستان خلائی مشنوں اور سائنسی تحقیق میں مزید قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ یہ کامیابی نہ صرف پاکستان کے خلا کی ٹیکنالوجی میں انحصار کو ظاہر کرتی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی سائنسی اور ٹیکنالوجی کی حیثیت کو مزید مستحکم کرتی ہے”۔ یقینی طور پر ای او ون کی کامیاب لانچ پاکستان کے خلائی سفر میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہوگی۔ اس کے ذریعے نہ صرف پاکستان کی تکنیکی مہارت کا لوہا مانا جائے گا بلکہ اس سے نوجوانوں کے لیے بھی نئی راہیں کھلیں گی اور اس شعبے میں مزید سرمایہ کاری کی توقع ہے۔ آج کا دن پاکستان کے لیے ایک تاریخی دن ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔