مسئلہ حل،انٹرنیٹ میں سست روی ختم،پی ٹی سی ایل نے دعویٰ کردیا

حکومتی اداروں کی طرف سے دعویٰ سامنے آیا ہے کہ انٹرنیٹ کی سپیڈ بہتر ہوگئی ہے،خرابی کو ٹھیک کرکے سست روی کو ختم کردیا گیا،کیا سب اچھا ہے؟ پی ٹی سی ایل(پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن) کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اے اے ای-1 سب میرین کیبل کی خرابی سے پیدا ہونے والی انٹرنیٹ سست رفتاری کو حل کردیا گیا ہے۔ ترجمان پی ٹی سی ایل کا کہنا تھا کہ اور براؤزنگ ہموار ہے، پی ٹی سی ایل نے اضافی بینڈوڈتھ شامل کی تاکہ مسئلے کے دوران خلل کم سے کم ہو۔ پی ٹی سی ایل کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ میٹا سروسز(واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام) مکمل طور پر فعال ہیں اور ان کی سروسز بھی مکمل طور پر بحال ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور پی ٹی سی ایل کی ٹیموں نے مکمل کنیکٹیویٹی کی بحالی کے لیے انتھک محنت کی ہے، پی ٹی سی ایل اپنے صارفین کے صبر اور تعاون کے لیے شکریہ ادا کرتا ہے۔ View this post on Instagram A post shared by PTCL Official (@ptclofficial) واضح رہے کہ گزشتہ سال 2024 میں فروری میں عام انتخابات سے قبل ہی ملک بھر میں انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے سسٹ انٹرنیٹ کی شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں۔ 3 جنوری کو پی ٹی سی ایل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو جوڑنے والی اے اے ای ون انٹرنیٹ کیبل میں خرابی کی وجہ سے ملک میں نیٹ ورک کی رفتار سست ہونے کے بعد صارفین کو درپیش مسائل کو دور کرنے کے لیے ٹیمیں کام کررہی ہیں۔ اس کے ایک روز بعد، اس کے ایک روز بعد وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ خواجہ نے کہا تھا کہ بینڈوتھ کی کمی کا تقریبا 80 فیصد کام پورا کرلیا گیا کیوں کہ کیونکہ ٹریفک کو دو دیگر کیبلز پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ 9 پی ٹی سی ایل کے ترجمان عامر پاشا کا کہنا تھا کہ سست روی سے نمٹنے کے لیے پی ٹی سی ایل نے اضافی بینڈوتھ کا انتظام کیا ہے جس سے کسی حد تک انٹرنیٹ کی سست روی کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار عالمی سطح پر بدترین ہے۔ شہری علاقوں میں بھی انٹرنیٹ کی سپیڈ اکثر صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ پاکستان انٹرنیٹ کی سست رفتار کے حوالے سے دنیا کے 153ویں نمبر پر ہےجو نہ صرف کاروبار اور تعلیم کو متاثر کرتا ہےبلکہ قومی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ حکومت سٹارلنک کے ذریعے انٹر نیٹ کو منسلک کرنا چاہ رہی ہے اوراس حوالے سے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں،مگر پاکستان میں متعارف ہونے کے لیے کئی عملی چیلنجز ہیں سب سے پہلے اس کے لئے پاکستان میں انٹرنیٹ کے روایتی انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ سیٹلائٹ کے نیٹ ورک کو سپورٹ کیا جا سکے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کے بحران کے حل کے لئے سٹارلنک ایک نیا امکان ضرور بن سکتا ہےلیکن اس کا حقیقت بننا اور اس کا پاکستانی عوام پر اثر اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت اور سٹارلنک کے درمیان کیا معاہدہ طے پاتا ہے۔
ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سنٹرز: اب آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانےکی ضرورت نہیں!

ڈاکٹر یا ہسپتال جانے کا جھنجھٹ ختم ،ایک کال پر ڈاکٹر خود آپ کے پاس حاضر ہوگا،کیا ایسا ممکن ہے؟جی ہاں ،سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایسا انقلاب برپا کیا ہے کہ اب اس کے بغیر رہنا ناممکن ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں عالمی سطح پر صحت کی فراہمی اور دیکھ بھال کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ دنیا کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان نے قابلِ قدر کوشش کی ہے کہ صحت کے مراکز میں بہتری لائی جائے۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والی جگہوں کوہیلتھ کئیر سنٹرز کہا جاتا ہے جبکہ انٹرنیٹ کی مدد سے صحتِ عامہ کی خدمات کو مؤثر بنانا ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سسٹم کہلاتا ہے۔ ڈیجیٹل ہیلتھ کئیرسسٹم صحت عامہ کے مسائل پر بروقت مدد فراہم کرتا ہے۔ ڈیجیٹل سائٹ ہیلتھ وائرکےاعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 2022 سے 2023 تک آن لائن ریکارڈ مریضوں کی تعداد میں 40 سے 55 لاکھ تک کا اضافہ ہوا ہے۔ 195 ممالک کی فہرست میں صحت کے اعتبار سے پاکستان کا122واں نمبر ہے ۔کورونا کے بعد حکومتِ پاکستان کی جانب سے صحت کو لے کر بہت سے اقدامات کیےگئے۔صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے ٹیلی میڈیسن جیسی ڈیجیٹل سہولتیں متعارف کرائی گئیں، ٹیلی میڈیسن گھر بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے علاج کا نام ہے۔ فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی میں ٹیلی میڈیسن مرکز قائم ہے جو ویڈیو کال کے ذریعے مفید مشورے دیتا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے ٹیلی میڈیسن پلیٹ فارمز اور الیکٹرانک ہیلتھ ریکارڈ سسٹمز جیسے ڈیجیٹل سلوشنز تیار کرنےپرکام کیا جارہا ہے۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی آیشن (پیما) کی ہیلتھ لائن پروجیکٹ کی سربراہ ڈاکٹر حوریہ نے مئی 2020 میں نجی چینل ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ پیما ٹیلی کلینک سروس کا اجراء اس لیے کیا گیا ہےکہ لوگ کورونا کے دوران گھروں سے کم سے کم نکلیں اور اگر انھیں صحت کا کوئی مسئلہ درپیش ہو یا فوری طبی مدد چاہئے ہو تو وہ آسانی سے کال کر کے مشورہ لے سکیں۔ ہیلتھ لائن کی سروس ملک بھر میں بالکل مفت ہے اورصبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ امن ٹیلی ہیلتھ سروس کے انچارج شیخ نادر نےڈان نیوز کو بتایا کہ یہ سروس گزشتہ 10 سال سے فعال ہے اور ہیلپ لائن نمبر 9123 ہے۔ 2020 میں نفسیاتی پریشانیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے امن ٹیلی اور پاکستان برائے ایکسیلینس ان سائیکالوجی کی جانب سے مل کر ایک فون کال سروس کا آغاز کیا گیا جس کے اوقات کار دوپہر 2 سے شام 4 بجے تک مختص کیے گئے۔ ڈان نیوز کے مطابق خواتین مریضوں کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سارہ سعید اور ڈاکٹر عفت ظفر کی جانب سے 2019 میں صحت کہانی ٹیلی میڈیسن ایپ سروس کا آغاز کیا گیا ۔ ایپ کا مقصد تھا کہ خواتین بنا کسی جھنجھٹ اور پریشانی کے خواتین ڈاکٹروں کو اپنے مسائل بتاسکیں۔ منصورہ ہسپتال لاہور سے ڈاکٹر عمیراحمد صدیقی نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “جو بھی سسٹم شروع کیا جاتا ہے اس کی فائدے و نقصان ہوتے ہیں۔ جب تک مریض آپ کے سامنے نہیں ہے آپ مکمل طور پر اس کا معائنہ نہیں کرسکتے۔ ہمارے دوستوں میں بھی جب کوئی بیمار ہوتا ہےتو ایک حد تک ہم ان کو موبائل پہ ٹریٹ کرتےہیں لیکن اس کے بعد ہم اس کو ہمارے پاس آنے کا کہتے ہیں تا کہ بہتر طریقے سے معائنہ کیا جائے۔ جب مریض آپ کے پاس ہوگا تو آپ اس کی حرکات و سکنات کو دیکھتے ہوئے بہتر معائنہ کر سکتے ہیں”۔ پاکستان کا 195 مین سے 122ویں نمبر پہ ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ “پاکستان میں آگاہی کی بہت کمی ہے۔ لوگوں کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں لوگوں کو بیماریوں کی علامات کے بارے میں مکمل علم ہوتا ہے جب کہ پاکستان میں ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ہماری گھریلو تربیت میں شامل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمارے اسپتالوں میں بھی بہتری کی بہت گنجائش باقی ہے”۔
سائبر سیکیورٹی:کیا آپ کی نجی زندگی محفوظ ہے؟

اپ اگر واٹس ایپ ، فیس بک اور انسٹاگرام جیسی ایپس استعمال کرتے ہیں تو آپ ڈیجیٹل دور میں رہ رہے ہیں ۔ موجودہ دور ڈیجیٹل دورہے۔ جب آپ کی ہر چیزدوسرے انسان کی دسترس میں ہو تو ایسے میں رازداری (پرائیویسی) یقیناً خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔ حال ہی شوبز شخصیات سے لے کر بڑے بڑے سیاستدانوں اور عام افراد تک کی نجی ویڈیوز لیک ہوئی ہیں، کیا یہ محض اتفاق تھا یا پھر کوئی سیکیورٹی مسئلہ تھا؟ آج کے جدید دور میں زندگی کے ہر پہلو کا تعلق کسی نا کسی طرح آپ کے موبائل فون سے ہوتا ہے۔ جیسے سمارٹ ہوم ڈیوائسز، صحت کے مانیٹرز اور آن لائن بینکنگ وغیرہ،ان جدید ٹولز نے انسانی زندگیوں کو آسان اور بہتر بنایا ہے مگر ان کے ساتھ ہرفرد کےبارے میں معلومات کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ جہاں ایک عام فرد روزانہ مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے جڑا ہے وہیں پرمعلومات کے چوری ہونے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ اسی لیےسیکیورٹی کے جدید طریقوں کو اپنانا ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے جس میں مضبوط پاس ورڈز، اینٹی وائرس سافٹ ویئراور آن لائن احتیاط ضروری ہے۔ اس کے ذریعے ہم اپنی ڈیجیٹل زندگی کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں افراد کا انٹرنیٹ پر موجودگی کو محفوظ بنانا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے کیونکہ سائبر حملوں میں دن با دن اضافہ ہو رہا ہے۔ جب آپ ڈیجیٹل اپڈیٹس کے ساتھ دن کا آغاز کرتے ہیں اور اسٹریمنگ سروسز کے ذریعے جب تفریح کرتے ہیں تو آپ کی آن لائن سرگرمیاں آپ کو کچھ خطرات میں ڈال سکتی ہیں کیونکہ آپ کا شیئر کردہ ڈیٹا وسیع نیٹ ورکس سے گزرتا ہے۔ سائبر سیکیورٹی ایک ایسا میدان ہے جو ڈیجیٹل سسٹمز، نیٹ ورک اور ڈیٹا کو غیر متعلقہ سسٹمز کی رسائی یا نقصان سے بچانے کے لئے کام کرتا ہے ۔ یہ صرف ورچوئل رکاوٹیں قائم کرنے والا ایک پیچیدہ نظام ہے جس میں تشخیصی ،دفاعی اور جوابی اقدامات شامل ہیں۔ سائبر سیکیورٹی کا بنیادی مقصد ڈیٹا کی رازداری اور سالمیت کو محفوظ رکھنا ہے۔ اس ڈیجیٹل دنیا کے فائدوں کے ساتھ ساتھ اس میں ہیکرز، مالویئر اور فشنگ حملے وغیرہ جیسے کئی خطرات بھی موجود ہیں۔ سائبر سیکیورٹی مختلف ٹیکنالوجیز اور طریقوں کا استعمال کرتی ہے تاکہ ان خطرات سے بچا جا سکے اور ممکنہ کمزوریوں کو دور کیا جا سکے تاکہ اس میدان میں ہمیشہ سائبر مجرموں سے ایک قدم آگے رہاجائے۔ سائبر سیکیورٹی کے خطرات مسلسل ترقی بڑھتے جا رہے ہیں جن میں خاص طور پر فشنگ، میلویئر، رینسم ویئر، اور مین ان دی مڈل حملے بڑھ رہے ہیں۔ دیگر خطرات میں SQL انجیکشن، DNS ٹنلنگ، زیرو ڈے ایکسپلائٹس، کرپٹوجیکنگ، اندرونی خطرات اور پاس ورڈ کی خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کی حفاظت کے لئے جو اہم اقدامات کیے جا سکتے ہیں ان میں سب سے ضروری بات سائبر سیکیورٹی کے اصولوں پر عمل کرنا ہے ۔ خاص طور پر مضبوط پاس ورڈز کا استعمال کرنا ہے یہ سوشل میڈیا صارفین کے آن لائن معلومات کو محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوہری تصدیق (Two-step verification) کا عمل بھی صارفین کے اکاؤنٹس کو مزید محفوظ بناتا ہے یعنی جب فرد لاگ ان کرتے ہیں تو ایک اضافی چیک ہوتا ہے جس سے اس کے اکاؤنٹ کی سیکیورٹی بہتر ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں، اینٹی وائرس سافٹ ویئر کمپیوٹر اور موبائل کو وائرس اور نقصان سے بچاتا ہے، سوشل میڈیا صارفین اپنی ذاتی معلومات کو غیر مجاز افراد سے محفوظ رکھنے اور ڈیٹا انکرپشن کے ذریعے سیکیورٹی کو بڑھانا بھی ضروری ہے۔ سوشل میڈیا پر پرائیویسی سیٹنگز مضبوط کریں تاکہ ذاتی معلومات غیر ارادی طور پر شیئر نہ ہوں ان اصولوں پر عمل کر کے صارفین انٹرنیٹ پرمحفوظ رہ سکتے ہیں۔ حکومت کا کردار دوسری جانب ہماری حکومت اور اداروں کی بھی سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے اہم ذمہ داریاں ہیں جن میں سب سے پہلی ذمہ داری سائبر سیکیورٹی کے قوانین اور پالیسیوں کا مؤثر نفاذ ہے تاکہ ملک بھر میں سائبر حملوں اور دیگر سائبر جرائم سے بچا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی اداروں میں سائبر سیکیورٹی کیلئے مکمل تربیت کا انتظام بھی ضروری ہے تاکہ ملازمین جدید خطرات سے آگاہ ہو سکیں اور ان سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل کر سکیں اور قومی سطح پر سائبر سیکیورٹی کی ایک جامع حکمت عملی وضع کی جائے۔ مزید برآں، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس حکمت عملی کے تحت مختلف شعبوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینا، معلومات کا تبادلہ کرنا اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے سائبر سیکیورٹی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا شامل ہے یہ تمام اقدامات ملک کی ڈیجیٹل معیشت اور شہریوں کی حفاظت کے لئے ناگزیر ہیں۔ سائبر سیکیورٹی سوشل میڈیا صارفین کے ڈیجیٹل دنیا کا ایک نہایت اہم حصہ ہے جو ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ یہ آپ کی آن لائن حفاظت اور اعتماد کو یقینی بناتی ہے۔ سادہ عادات جیسے مضبوط پاس ورڈ کا استعمال اور آن لائن احتیاط برتنا ہر فرد لیے بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذاتی ڈیٹا محفوظ رکھنا سوشل میڈیا صارفین کی مشترکہ ذمہ داری ہے اس میں چاہے آپ ویب براؤز کر رہے ہوں، خریداری کر رہے ہوں یا کوئی حساس کام کر رہے ہوں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سائبر سیکیورٹی صارفین کی ڈیجیٹل زندگی کے ہر پہلو میں اہمیت رکھتی ہے اور اس کا خیال رکھنا ان سب کی ذمہ داری ہے۔ سائبر سیکیورٹی کے ماہر سعود افضل نے پاکستان میٹرز سےخصوصی گفتگو میں کہا کہ” صارفین کو اپنی آن لائن حفاظت یقینی بنانی چاہیے۔ اس کے لیے انہیں سب سے پہلے اپنے اکاونٹس کے پاسورڈز مضبوط بنانےچاہیے۔ ہمیشہ دو مرحلہ تصدیق فعال کریں تاکہ حفاظتی پرت فراہم کی جا سکے۔ مشکوک لنکس سے اجتناب اور وی پی این کا استعمال بھی انہیں محفوظ رہنے میں مدد دیتا ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “حکومت کو سائبر سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے جامع پالیسیز بنانی چاہیے۔ عوام کے لیے آگاہی پروگرامز تشکیل دیے جائیں۔تعلیمی مہمات، کمیونٹی پروگرامز اور شراکت داری سے لوگوںمیںسائبر سیکیورٹی کے بارے میں شعور لایا جا سکتا