اسٹار لنک کو این او سی جاری، کمپنی پاکستان میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرے گی

ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک کو این او سی جاری کیے جانے کے بعد پاکستان سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی دنیا میں قدم رکھنے کو تیار ہے۔ اسٹار لنک کے پاکستان میں آپریشنز کے حوالے سے بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے مطابق پاکستان اسپیس ایکٹیوٹیز ریگولیٹری بورڈ نے اسٹار لنک کو این او سی جاری کردیا ہے۔ نجی نشریاتی ادارہ جیو نیوز کے مطابق اسٹار لنک نے اسپیس ریگولیٹری بورڈ کے تمام تقاضے پورے کرلیے ہیں، جس کے بعد وزارت داخلہ کی کلیئرنس کے بعد اسپیس ریگولیٹری بورڈ نے این او سی جاری کیا ہے اور اب پی ٹی اے آئندہ 4 ہفتوں میں اسٹار لنک کو لائسنس جاری کردے گا۔ واضح رہے کہ اسٹار لنک پہلے ہی پی ٹی اے میں لائسنس کے لیے درخواست دینے کے علاوہ پی ٹی اے میں ٹیکنیکل اور بزنس پلان بھی جمع کروا چکا ہے ۔ اسٹار لنک نے پاکستان میں رجسٹریشن کے حوالے سے 3 مراحل مکمل کرلیے ہیں۔ ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک نے ایس ای سی پی اور پاکستان سافٹوئیر ایکسپورٹ بورڈ سے رجسٹریشن حاصل کی ہے۔ علاوہ ازیں کمپنی نے پاکستان اسپیس ایکٹیوٹیز ریگولیٹری بورڈ سے بھی رجسٹریشن حاصل کرلی اور اب آخری مرحلہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی سے رجسٹریشن حاصل کرنا ہے۔ پی ٹی اے کی جانب سے لائسنس کے اجرا کے بعد کمپنی اپنی سروسز کا آغاز کرسکے گی ۔ پی ٹی اے اسٹار لنک کی جمع کروائی گئی دستاویزات کا جائزہ لے رہا ہے۔ اسٹار لنک کی سروسز موجودہ نیٹ ورک میں کسی قسم کا خلل پیدا نہیں کریں گی۔ یاد رہے کہ پاکستان نے 2023ء میں نیشنل سیٹلائٹ پالیسی متعارف کروائی تھی اور 2024ء میں پاکستان اسپیس کمیونی کیشن کو مضبوط بنانے کے لیے اسپیس ایکٹیویٹیز رولز متعارف کرائے گئے تھے
پنجاب حکومت نے مفت وائی فائی سروس کو جدید ٹیکنالوجی سے اپ گریڈ کردیا

پنجاب حکومت نے اپنی مفت وائی فائی سروس کو مزید جدید اور تیز تر بنانے کے لیے ایک اقدم اٹھایا ہے۔ اس سروس میں اب جدید ترین Wi-Fi 6 ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا جو صارفین کو پہلے سے زیادہ تیز اور مستحکم انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرے گی۔ یہ تبدیلی نہ صرف لاہور بلکہ صوبے کے دیگر شہروں تک بھی پہنچ چکی ہے جس سے لاکھوں افراد کو فائدہ ہو گا۔ لاہور میں جہاں پہلے 200 مفت وائی فائی ہاٹ اسپاٹس موجود تھے اب ان کی تعداد 230 تک بڑھا دی گئی ہے۔ اس سے لاہور کے شہریوں کو بہتر انٹرنیٹ کی سہولت ملے گی۔ اس نئی ٹیکنالوجی کی بدولت اب انٹرنیٹ کا استعمال زیادہ تیز اور مستحکم ہو گا اور خاص طور پر شہر کے اہم مقامات پر وائی فائی سروس کا معیار مزید بہتر ہوگا۔ پنجاب کی سیف سٹیز اتھارٹی نے اس سروس کو 11 اضلاع تک بڑھا دیا ہے جن میں لاہور، قصور، نانکانہ صاحب، شیخوپورہ، سیالکوٹ، گجرات، جہلم اور اٹک شامل ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: صوبہ سندھ میں خسرہ کی وبا شدت اختیار کر رہی ہے: 17 بچوں کی ہلاکت اس کے علاوہ ساہیوال، اوکاڑہ اور مری جیسے علاقوں میں بھی اہم مقامات پر یہ سروس فراہم کی جا رہی ہے۔ سیف سٹیز اتھارٹی کا کہنا ہے کہ یہ مفت وائی فائی سروس جلد ہی پورے صوبے میں دستیاب ہو گی جس سے مزید افراد فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اب تک اس سروس سے 17.7 ملین سے زائد صارفین نے استفادہ کیا ہے اور مجموعی طور پر 438 ٹیرا بائٹس ڈیٹا استعمال کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی باشندوں نے اس سروس کی تعریف کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ سہولت ان کی روزمرہ کی زندگی کو نہ صرف آسان بلکہ زیادہ مؤثر بھی بنا رہی ہے۔ سیف سٹیز اتھارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مفت وائی فائی سروس صرف ایمرجنسی مقاصد کے لیے دستیاب ہے اور اس کا استعمال ویڈیو اسٹریمنگ یا تفریحی مقاصد کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔ اس سروس کا مقصد شہریوں کو ایسے حالات میں مدد فراہم کرنا ہے جب وہ ایمرجنسی میں ہوں یا ضروری معلومات تک رسائی کی ضرورت ہو۔ لازمی پڑھیں: جدید پاسپورٹ سسٹم: پاکستان جرمنی سے ‘ہائی ٹیک ای-پاسپورٹ’ درآمد کرے گا پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اس منصوبے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام صوبے کو ڈیجیٹل مرکز بنانے کی جانب ایک اور قدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمیں اپنے نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے تیار کرنا ہے تاکہ وہ عالمی منڈی کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو سکیں۔” مریم نواز نے اس بات پر زور دیا کہ صوبے کے تعلیمی اداروں میں اس ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کے لیے حکومت نے منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ اسی مقصد کے لیے حکومت پنجاب نے سرکاری سکولوں میں سمارٹ کلاس رومز اور ڈیجیٹل لیبز بنانے کی منصوبہ بندی کی ہے تاکہ طلباء کو جدید تعلیمی سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ اس کے علاوہ، پنجاب میں بین الاقوامی معیار کے آئی ٹی کورسز جیسے کہ مصنوعی ذہانت (AI)، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ اور فری لانسنگ کی تعلیم بھی فراہم کی جا رہی ہے، تاکہ نوجوان نسل عالمی سطح پر اپنی مہارتوں کا لوہا منوا سکے۔ یہ منصوبہ نہ صرف پنجاب کو ایک ڈیجیٹل مرکز میں تبدیل کرنے کی جانب اہم قدم ہے بلکہ اس سے صوبے کے نوجوانوں کو عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کی تیاری بھی فراہم ہو گی۔ مزید پڑھیں: سابق کمشنر کی بیٹی نے پی آئی اے کی ایئر ہوسٹس پر حملہ کرکے زخمی کر دیا
مفت فائل کنورٹرز ڈیٹا چوری اور وائرس پھیلا سکتے ہیں’ ایف بی آئی’

آج کل، مفت آن لائن فائل کنورٹرز ایک عام سہولت بن چکے ہیں جن کا استعمال لوگ مختلف فائل فارمیٹس جیسے M4A سے MP3 تبدیل کرنے یا .doc کو .pdf میں تبدیل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ تاہم، اب ایف بی آئی نے ان مفید نظر آنے والے ٹولز کے بارے میں ایک اہم انتباہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ کنورٹرز آپ کے کمپیوٹر کو وائرس اور مالویئر سے متاثر کر سکتے ہیں۔ ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق مجرم ان کنورٹرز کا فائدہ اٹھا کر ان کے ذریعے کمپیوٹرز میں میلویئر منتقل کر رہے ہیں۔ ان ٹولز کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صارفین فائل فارمیٹس میں تبدیلی کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مالویئر بھی آپ کے کمپیوٹر میں داخل ہوتا ہے۔ اس مالویئر کا مقصد حساس ذاتی معلومات چرانا ہے جیسے آپ کے نام، سوشل سیکیورٹی نمبر، بینکنگ کی تفصیلات، اور کرپٹو کرنسی کی معلومات شامل ہیں۔ یہ سب کچھ صارف کی اجازت کے بغیر ہوتا ہے جس سے وہ شناختی چوری اور مالی دھوکہ دہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایف بی آئی کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کچھ مفت فائل کنورٹرز آپ کے کمپیوٹر کو رینسم ویئر سے متاثر کر سکتے ہیں۔ رینسم ویئر ایک ایسا مالویئر ہوتا ہے جو آپ کی تمام ذاتی معلومات کو لاک کر دیتا ہے اور ان کی بازیابی کے لیے تاوان طلب کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں صارفین کو نہ صرف اپنی ذاتی معلومات کی حفاظت کا خطرہ ہوتا ہے بلکہ مالی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ اگرچہ ایف بی آئی نے ان مخصوص کنورٹرز کا نام نہیں لیا جو کمپیوٹرز کو متاثر کر رہے ہیں تاہم یہ ضروری ہے کہ صرف معتبر اور قابل اعتماد ذرائع سے ہی فائل کنورٹ کرنے کے ٹولز استعمال کیے جائیں۔ اس کے علاوہ صارفین کو چاہیے کہ وہ مفت اور مشتبہ ٹولز سے گریز کریں اور اگر صارفین فائل کنورٹ کرنے کے عادی ہیں تو کسی تصدیق شدہ اور معروف کنورٹر میں سرمایہ کاری کرنا بہتر ہوگا۔ ایف بی آئی ڈینور کے اسپیشل ایجنٹ مارک مچالیک نے کہا کہ “ان مجرموں کو شکست دینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو آگاہ کیا جائے تاکہ وہ ان کے جال میں نہ پھنسیں۔ اگر آپ یا آپ کے جاننے والے اس اسکیم کا شکار ہو چکے ہیں تو ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ رپورٹ درج کرائیں اور اپنے اثاثوں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات اٹھائیں۔” یہ خبر نہ صرف ایک انتباہ ہے بلکہ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر ہونے والے فراڈ سے بچنے کے لیے ہم سب کو محتاط رہنا ضروری ہے۔ مزید پڑھیں: ڈیجیٹل کیش: انڈیا کی ڈیجیٹل ترقی کے ساتھ بڑھتا سائبر فراڈ، معیشت کو کتنا بڑا خطرہ؟
پاکستان میں ای کامرس اور فری لانسنگ کا بڑھتا رجحان کیا تبدیلی لائے گا؟

پاکستان میں ای کامرس اور فری لانسنگ کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں ڈیجیٹل مارکیٹ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اور لاکھوں پاکستانی نوجوان اس شعبے سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے استعمال نے کاروبار کے روایتی طریقوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ آن لائن خرید و فروخت اب صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں بلکہ چھوٹے قصبوں اور دیہات میں بھی مقبول ہو چکی ہے۔ فری لانسنگ کے میدان میں پاکستان دنیا کے چند بڑے ممالک میں شامل ہو چکا ہے، جہاں نوجوان مختلف مہارتوں کے ذریعے زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ ای کامرس کی ترقی کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز کی دستیابی ہے۔ آن لائن مارکیٹ پلیسز جیسے دراز، علی بابا، اور ایمیزون نے پاکستانی صارفین کو عالمی مارکیٹ سے جوڑ دیا ہے۔ چھوٹے کاروباری افراد اور گھریلو سطح پر کام کرنے والے افراد کے لیے بھی آن لائن اسٹورز ایک نعمت ثابت ہو رہے ہیں۔ کئی خواتین اور طلبہ گھر بیٹھے اپنے کاروبار چلا رہے ہیں اور اس سے معقول آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، فری لانسنگ کے شعبے میں بھی بے پناہ ترقی دیکھی جا رہی ہے۔ پاکستانی نوجوان مختلف پلیٹ فارمز جیسے فائیور، اپ ورک، اور پیپل پر آور کے ذریعے دنیا بھر کے کلائنٹس کو اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً 30 لاکھ سے زائد فری لانسرز کام کر رہے ہیں، جو سالانہ کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ ملک میں لا رہے ہیں۔ معروف فری لانسرز میں حشام سرور، عزیر علی، اور ضیا الرحمن جیسے نام شامل ہیں، جو نہ صرف خود کامیاب ہوئے بلکہ دیگر نوجوانوں کو بھی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ کئی نوجوان یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے فری لانسنگ کی تربیت حاصل کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے مزید لوگ اس شعبے کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ تاہم، جہاں اس شعبے میں ترقی ہو رہی ہے، وہیں کئی مشکلات بھی درپیش ہیں۔ انٹرنیٹ کی سست رفتاری ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے کئی فری لانسرز کو بروقت کام مکمل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں کئی بار انٹرنیٹ سروسز میں رکاوٹیں دیکھی گئیں، جس کی وجہ سے کئی فری لانسرز کے پروجیکٹس متاثر ہوئے اور ان کی آمدنی میں کمی آئی۔ ایک اور بڑا مسئلہ بینکنگ سسٹم اور حکومتی پالیسیز ہیں۔ پاکستان میں فری لانسرز کو بینک اکاؤنٹ کھلوانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور کئی بار بیرون ملک سے آنے والی ادائیگیوں پر غیر ضروری ٹیکس عائد کر دیا جاتا ہے۔ ایف بی آر کی پیچیدہ پالیسیوں کی وجہ سے کئی فری لانسرز ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں کام کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ابوزر رفیق، جو فری لانسنگ اور ایک کامرس میں تقریباً 7 سال کا تجربہ رکھتے ہیں، نے کہا کہ “فری لانسنگ اور ای کامرس پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ فری لانسرز ہر سال کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ ملک میں لا رہے ہیں، جو ملکی معیشت کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔ اسی طرح، ای کامرس نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو فروغ دیا ہے، جس سے روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور کاروباری افراد کو عالمی مارکیٹ تک رسائی حاصل ہو رہی ہے۔ اگر حکومت ان شعبوں کو مزید سہولتیں فراہم کرے، جیسے بہتر انٹرنیٹ، بینکنگ سسٹم کی بہتری اور پے منٹ گیٹ ویز، تو ان شعبوں کا معیشت پر مزید مثبت اثر پڑ سکتا ہے”۔ ای کامرس کے میدان میں بھی کئی چیلنجز ہیں۔ آن لائن کاروبار کرنے والوں کو آئے دن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کے مسائل، سائبر کرائم، اور غیر منظم قوانین شامل ہیں۔ کئی آن لائن اسٹورز کو غیر ضروری پالیسیوں کی وجہ سے بند کر دیا جاتا ہے، جس سے کاروباری افراد کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جدید طریقہِ روزگار کے آنے کے بعد روایتی تعلیم کی اہمیت کم یا ختم ہوگئی ہے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں شعبہِ کمپوٹر سائنس سے وابستہ پروفیسر جمیل چوہدری کا کہنا تھا کہ “روایتی تعلیم کی اہمیت اب بھی برقرار ہے، لیکن اس کا کردار بدل رہا ہے۔ اب تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں، بلکہ عملی مہارتیں سیکھنا بھی بن چکا ہے۔ فری لانسنگ اور ای کامرس کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے روایتی تعلیمی اداروں کو بھی جدید ڈیجیٹل مہارتوں کو نصاب میں شامل کرنا ہوگا۔ اگرچہ فری لانسنگ اور ای کامرس نے نوجوانوں کو بغیر ڈگری کے بھی کمانے کے مواقع فراہم کیے ہیں، لیکن طویل مدتی کامیابی کے لیے تعلیم اب بھی ضروری ہے۔ جدید دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو روایتی تعلیم اور ڈیجیٹل مہارتوں کو یکجا کر کے کام کریں گے”۔ بہت سے چیلنجز کے باوجود، پاکستان میں ای کامرس اور فری لانسنگ کا مستقبل روشن ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے اس شعبے کو سہولت فراہم کریں، انٹرنیٹ کی بہتری، آسان بینکنگ سسٹم، اور فری لانسرز کے لیے معاونت جیسے اقدامات کریں، تو یہ شعبہ ملک کی معیشت میں ایک مضبوط ستون بن سکتا ہے۔ لاکھوں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں، اور پاکستان کو ڈیجیٹل معیشت میں عالمی سطح پر نمایاں مقام دلایا جا سکتا ہے۔
رات کی تاریکی میں اچانک روشنی پھیل گئی، ویڈیو میں لمحہ قید

کراچی میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب رات 2 بج کر 43 منٹ پر شہاب ثاقب کو گزرتے دیکھا گیا اور اس نظارے کو شہریوں نے کیمرے کی آنکھ میں قید کر لیا، جس کے بعد ویڈیو سوشل میڈیا پھر وائرل ہو گئی۔ نظام شمسی میں مریخ اور مشتری کے مدار کے درمیان چکر لگانے والے خلائی پتھر جنہیں ’’ سیارچے ‘‘کہا جاتا ہے بعض اوقات زمین کی طرٖف آجاتے ہیں اور زمین کی فضا سے رگڑ کھانے سے ان میں اتنی حرارت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں اور اس کی روشنی ہمیں نظر آتی ہے اس کو ہم تارا ٹوٹنے سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ شہاب ثاقب سیارچوں کے ٹوٹے ہوئے ذرات ہوتے ہیں جو زمین کے ماحول میں آتے ہوئے آکسیجن اور کشش کے باعث جلتے نظر آتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کےگرد مدارمیں کروڑوں کی تعداد میں شہاب ثاقب ہیں، اسے عام زبان میں شوٹنگ اسٹار بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے مطابق شہاب ثاقب کے واقعات سالانہ یا باقاعدگی سے کچھ وقفوں سے ہوتے رہتے ہیں۔ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے مطابق ہر روز زمین پر 100 سے 300 ٹن کے درمیان خلائی مٹی اور پتھروں کی بارش ہوتی ہے مگر ان کا حجم کسی ریت کے ذرے سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا۔
چین نے جگر کے کینسر کی پیش گوئی کرنے والا اے آئی ٹول تیار کرلیا

چینی سائنسدانوں نے جگر کے کینسر کی دوبارہ ظاہری کی پیش گوئی کرنے والا جدید ترین اے آئی ٹول تیار کر لیا ہے جس کی درستگی کا تناسب 82.2 فیصد ہے۔ یہ انکشاف حال ہی میں ‘نیچر’ نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں کیا گیا ہے۔ جگر کا کینسر دنیا بھر میں کینسر سے ہونے والی اموات کا تیسرا بڑا سبب ہے اور اس کی آپریشن کے بعد دوبارہ ظاہری کی شرح 70 فیصد تک پہنچتی ہے جو کہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ چینی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے محققین کی ٹیم نے ‘ٹائمز’ نامی اسکورنگ سسٹم تیار کیا ہے جو ٹیومر مائیکرو اینوائرنمنٹ میں مدافعتی خلیوں کی تقسیم کے نمونوں کو ماپ کر دوبارہ ظاہری کے امکانات کا اندازہ لگاتا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا ایسا ٹول ہے جو مدافعتی خلیوں کی اسپیشل آرگنائزیشن کو مدنظر رکھتا ہے۔ اس جدید طریقہ کار میں اسپیشل ٹرانسکرپٹومکس، پروٹومکس، ملٹی اسپیکٹرل امونہسٹسٹوکیمسٹری اور اے آئی کی مدد سے اسپیشل تجزیہ شامل کیا گیا ہے۔ اس سسٹم کو 61 مریضوں کے جگر کے کینسر کے ٹشو نمونوں پر تربیت دی گئی ہے۔ محققین نے TIMES کا مفت آن لائن ورژن بھی متعارف کرایا ہے جس کے ذریعے دنیا بھر کے مریض اپنے پیتھولوجیکل اسٹریننگ امیجز اپ لوڈ کرکے فوری طور پر دوبارہ ظاہری کا خطرہ معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ انقلابی ٹول ڈاکٹروں کو ذاتی نوعیت کے علاج کی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کرے گا، خصوصاً جن علاقوں میں جہاں وسائل کی کمی ہے۔ مزید پڑھیں: صارفین کے لیے خوشخبری: فیس بک نے پیسے کمانے کا آسان طریقہ بتا دیا
صارفین کے لیے خوشخبری: فیس بک نے پیسے کمانے کا آسان طریقہ بتا دیا

کمپنی کی جانب سے ایک نیا فیچر متعارف کرایا گیا ہے جس کے ذریعے صارفین فیس بک پر پبلک اسٹوریز ویوز سے بھی پیسے کما سکیں گے۔ پیسے کمانے کا یہ نیا آپشن عالمی سطح پر ان کریٹیرز کے لیے متعارف کرایا گیا ہے جو فیس بک کانٹینٹ مونیٹائزیشن پروگرام کا حصہ ہیں۔ اس نئے آپشن سے صارفین اس مواد سے بھی پیسے کما سکیں گے جو وہ پہلے ہی تیار کرچکے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر وہ کسی کھانا پکانے کی ترکیب کی ویڈیو یا ریل تیار کرتے ہیں اور اس کا کچھ حصہ اسٹوری کی شکل میں پوسٹ کرتے ہیں تو اسٹوری ویوز سے بھی پیسے کمانے کا موقع ملے گا۔ اس طرح وہ اپنی روزمرہ کی زندگی سے متعلق مواد کو اسٹوری میں پوسٹ کرکے پیسے کما سکیں گے۔ میٹا کے ایک ترجمان نے بتایا کہ اسٹوریز کے ذریعے کمانے کا موقع صارفین کو مواد کی پرفارمنس کی بنیاد پر ملے گا اور انہیں اس کے لیے ویوز کی کسی مخصوص حد کو حاصل کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ فیس بک کے اس نئے پروگرام کا مقصد صارفین کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے لیے زیادہ مواد کی تیار کریں۔ فیس بک کانٹینٹ مونیٹائزیشن پروگرام میں شامل افراد کو اسٹوریز سے پیسے کمانے کے لیے کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں وہ براہ راست اس کا حصہ بن چکے ہیں۔ خیال رہے کہ فیس بک نے کانٹینٹ مونیٹائزیشن پروگرام کو گزشتہ سال متعارف کرایا تھا اور کروڑوں صارفین کو اس کا حصہ بننے کی دعوت کی دی تھی۔ فیس بک کے مطابق رواں سال کسی وقت مزید افراد کو اس پروگرام میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ابھی جو صارفین اس پروگرام کا حصہ نہیں وہ پروگرام کی ویب سائٹ پر اپنی دلچسپی کا اظہار ایک انوائیٹ کے ذریعے کرسکتے ہیں۔
پھنسے ہوئے خلابازوں کی واپسی کب ممکن؟ ناسا کی جانب سے نئے خلاباز روانہ

ناسا اور اسپیس ایکس نے جمعہ کے روز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے لیے ایک طویل انتظار کے بعد عملے کو روانہ کیا، جس سے امریکی خلاباز بوچ ولمور اور سنی ولیمز کی زمین پر واپسی کا دروازہ کھل گیا۔ ولمور اور ولیمز نو ماہ سے مداری لیب میں موجود تھے اور ان کی واپسی تاخیر کا شکار تھی۔ SpaceX کا Falcon 9 راکٹ فلوریڈا میں ناسا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے شام 7:03 بجے (2303 جی ایم ٹی) روانہ ہوا، جس میں چار خلاباز موجود تھے جو ولمور اور ولیمز کی جگہ لیں گے۔ یہ دونوں خلاباز ناسا کے تجربہ کار رکن اور ریٹائرڈ امریکی بحریہ کے ٹیسٹ پائلٹ ہیں، اور وہ بوئنگ کے نئے Starliner کیپسول کو اڑانے والے پہلے افراد بھی رہے ہیں۔ جون میں ہونے والے اس مشن کے بعد سے وہ عالمی خلائی اسٹیشن پر تعینات تھے۔ جمعہ کو کیا گیا یہ مشن نہ صرف معمول کے عملے کی تبدیلی کا حصہ تھا بلکہ ولمور اور ولیمز کو واپس لانے کے ایک طویل انتظار کے پہلے مرحلے کی تکمیل بھی تھی۔ یہ ناسا کے اس منصوبے کا حصہ ہے جسے حال ہی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مزید تیز کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ناسا کے آئی ایس ایس پروگرام کی ڈپٹی منیجر ڈینا کونٹیلم کے مطابق، کریو-10 کا لانچ اس وقت ہوا جب ولمور اور ولیمز اسٹیشن پر اپنے معمول کے روزانہ شیڈول کے مطابق آرام کر رہے تھے۔ ہفتہ کو صبح 11:30 بجے (ET) کریو-10 کے خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچیں گے، جس کے بعد ولمور اور ولیمز، ناسا کے خلاباز نک ہیگ اور روسی خلا باز الیگزینڈر گوربونوف کے ہمراہ اتوار کی صبح 4 بجے (0800 GMT) زمین کی جانب روانہ ہوں گے۔ ہیگ اور گوربونوف ستمبر میں کریو ڈریگن کرافٹ کے ذریعے آئی ایس ایس پہنچے تھے، اور ان کے خلائی جہاز میں ولمور اور ولیمز کے لیے دو خالی نشستیں موجود تھیں۔ دوسری جانب، کریو-10 کے نئے خلاباز تقریباً چھ ماہ تک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر قیام کریں گے۔ ان میں ناسا کے این میک کلین اور نکول آئرس، جاپانی خلا باز تاکویا اونیشی اور روسی خلا باز کریل پیسکوف شامل ہیں۔
ڈبہ اسکیم : ایک فون کال اور سب کچھ ختم

ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی دنیا میں کئی ایسی فلمیں اور سیریز تیار کی گئی ہیں، جن میں آن لائن فراڈ اور کال سینٹر کے ذریعے سے لوگوں کے بینک اکاؤنٹ اور دیگر معلومات اسپوف کالز کے ذریعے حاصل کر کے ان کے اکاؤنٹ خالی کیے جاتے ہیں، کمال بات یہ ہے کہ وہاں یہ سب فلمایا جاتا تھا، جب کہ کراچی میں یہ کام حقیقت میں کیا جارہا ہے۔ کراچی میں منظم طور پر غیر قانونی کال سینٹرز کا پورا نیٹ ورک موجود ہے، شہر میں کئی رہائشی اور کمرشل عمارتوں میں کال سینٹرز کے نام پر جعل ساز کسی فلیٹ کو کرائے پر لے کر وہاں اس کام کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ فراڈ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کیا جاتا ہے، جب کہ کراچی میں زیادہ تر یہ فراڈ بین الاقوامی صارفین کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ کال سینٹر چلانے والے افراد اپنے آپ کو کسی بھی انٹرنیشنل بینک یا انشورنس کمپنی کا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں اور اس طرح صارفین سے ان کی بینک اکاؤنٹ اور دیگر معلومات کا حصول ممکن بناتے ہیں، اس فراڈ کو ڈبہ اسکیم کہا جاتا ہے۔ پولیس کی جانب سے ابتدائی معلومات کے مطابق ہائی پروفائل مصطفیٰ قتل کیس میں گرفتار مبینہ ملزم ارمغان بھی اسی ڈبہ اسکیم میں ملوث پایا گیا ہے، جہاں سافٹ ویئر ہاؤس اور کال سینٹر کے نام پر غیر ملکی صارفین کے اکاؤنٹ خالی کیے جاتے تھے۔ بنیادی طور پر ڈبہ اسکیم چلانے والوں کا یہ نیٹ ورک عموماً منظم گروہوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو مختلف سطحوں پر کام کرتے ہیں۔ اس میں شامل افراد میں کال سینٹر ایجنٹس، جو لوگوں کو دھوکہ دینے کا کام کرتے ہیں۔ ٹیکنیکل ماہرین جو جعلی ویب سائٹس اور سافٹ ویئر تیار کرتے ہیں، منی لانڈرنگ نیٹ ورکس جو چوری شدہ رقم کو مختلف اکاؤنٹس میں تقسیم کر کے نکالتے ہیں۔ اکثر یہ نیٹ ورکس بین الاقوامی سطح پر کام کرتے ہیں اور کئی مواقع پر ایسے گروہوں کے بھارت، چین، نائیجیریا، ملائیشیا اور دیگر ممالک سے تعلقات سامنے آ چکے ہیں، کچھ دھوکہ دہی کی وارداتوں میں مقامی سہولت کاروں کا بھی کردار ہوتا ہے، جو بیرونی گروہوں کو مقامی بینک اکاؤنٹس، سم کارڈز اور شناختی دستاویزات فراہم کرتے ہیں۔ اب تک کراچی میں چلنے والے ان کال سینٹرز کی مکمل تعداد کسی کے پاس موجود نہیں ہے، کیونکہ اکثر یہ کام ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے رہائشی فلیٹس میں بھی کیا جارہا ہے۔ دوران تعلیم اکثر نوجوان پڑھائی کے اخراجات کو اٹھانے کے لیے ان کال سینٹر میں پارٹ ٹائم ملازمت اختیار کرتے ہیں، جن کو سروس دینے کے لیے بطور سیلیز مین ہائر کیا جاتا ہے، قانونی کال سینٹرز، جو واقعی اپنا کام ایمانداری سے کر رہے ہیں، وہ ملک میں ترسیلات ذر کا بڑا ذریعہ ہیں۔ گذشتہ دنوں کراچی میں ایک نجی بینک کی صارف کے ساتھ کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جنہیں ایک نامعلوم نمبر سے کال کی گئی اور ان کو کہا گیا کہ یہ کال آپ کو بینک سے موصول ہوئی ہے اور اکاؤنٹ میں کچھ تکنیکی تبدیلی کے باعث آپ سے معلومات درکار ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو ایک صارف نے بتایا ہے کہ انہیں بینک اکاؤنٹ نمبر اور بینک برانچ تک بالکل ٹھیک بتائی گئی تھیں، جس کے بعد موبائل پر موصول ہونے والا کوڈ مانگا گیا، جیسے ہی انہوں نے وہ کوڈ نمبر اس فراڈ کرنے والے شخص کو بتایا اگلے ہی لمحے تقریباً ساڑھے چار لاکھ روپے کی رقم ان کے اکاؤنٹ سے کسی دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کا میسج موصول ہوا اور رقم جس اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی گئی، وہ اکاؤنٹ نمبر بھی نامکمل تھا، تاکہ فراڈ کرنے والوں کا پتہ نہ لگایا جاسکے۔ واقعے کے فوری بعد صارف نے متعلقہ بینک سے رابطہ کیا، جس کے جواب میں بینک انتظامیہ نے اس واقعے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا۔ صارف نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے بات وہ کافی حد تک سہم گئی ہیں اور اب وہ آن لائن بیکنگ اور کسی بھی کیش والٹ کا استعمال نہیں کر رہی، جس کی بنیادی وجہ ڈیٹا کا غیر محفوظ ہونا ہے۔ ڈبہ اسکیم کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو پاتی؟ عبید شاہ ایک صحافی ہیں جو کہ گذشتہ کئی برس سے کرائم رپورٹنگ کر رہے ہیں، انہوں نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ یہ جعلساز زیادہ تر بین الاقوامی نیٹ ورکس سے جڑے ہوتے ہیں، جنہیں ٹریس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم، مقامی سطح پر بھی کئی وجوہات کی بنا پر کارروائی میں تاخیر ہوتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اکثر وہ جدید ٹولز اور مہارتیں نہیں ہوتیں، جو ایسے سائبر کرائمز کو روکنے کے لیے ضروری ہیں۔ اگر جعلساز کسی دوسرے ملک میں بیٹھے ہیں، تو ان کے خلاف کارروائی کے لیے بین الاقوامی تعاون درکار ہوتا ہے، جو ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ بعض صورتوں میں مقامی بینک ملازمین، ٹیلی کام ورکرز یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد خود ان گروہوں سے ملی بھگت رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے کارروائی میں رکاوٹ آتی ہے۔ عبید شاہ نے مزید بتایا ہے کہ ڈبہ اسکیم کا شکار ہونے والے بعض افراد کی رقم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کے نتیجے میں بازیاب بھی ہوئی، مگر یہ ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ اگر کسی متاثرہ شخص کی شکایت فوراً درج ہو، بینک اور حکام فوری کارروائی کریں، تو ٹرانزیکشن کو ریورس کیا جا سکتا ہے یا جعلسازوں کے اکاؤنٹس کو منجمد کر کے رقم واپس حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاہم، زیادہ تر کیسز میں جعلساز فوری طور پر رقم دوسرے اکاؤنٹس میں منتقل کر دیتے ہیں، جس سے بازیابی مشکل ہو جاتی ہے۔ ڈبہ اسکیم، جعلسازوں سے بچاؤ کس طرح ممکن ہے؟ سائبر سکیورٹی میں 20 سال کا تجربہ رکھنے والے سید فراز جاوید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات ہیک ہونے کے امکانات اکثر مختلف ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کرنے سے بڑھ جاتے ہیں، عام طور پر لوگ آن لائن شاپنگ کے لیے اپنے ڈیبٹ کارڈ کو ویب سائٹ پر اپلوڈ کردیتے ییں، جس کے نیتجے میں اس ویب سائٹ اور سوشل میڈیا
پاکستان میں کرپٹو انقلاب، وفاقی حکومت نے ’پاکستان کرپٹو کونسل‘ قائم کر دی

پاکستان میں کرپٹو کرنسی اور بلاک چین ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے بڑا فیصلہ کر لیا گیا، وفاقی حکومت نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں ’پاکستان کرپٹو کونسل‘ قائم کر دی، جو مؤثر پالیسی سازی، جدیدیت کے فروغ اور محفوظ مالیاتی نظام کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ نجی نشریاتی ادارے ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگزیب پاکستان کرپٹو کونسل کے سربراہ ہوں گے، جب کہ بلال بن ثاقب کو کونسل کا چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO) مقرر کیا گیا ہے۔ بلال بن ثاقب بلاک چین ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری حکمت عملی اور ڈیجیٹل جدت میں اپنی مہارت کے ذریعے اس اقدام کی قیادت کریں گے۔ پاکستان کرپٹو کونسل کے بورڈ ممبران میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر، چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن، وفاقی سیکریٹری قانون اور وفاقی سیکریٹری خزانہ شامل ہوں گے۔ کونسل کا مقصد کرپٹو کرنسی کو ریگولیٹ کرنے کے لیے واضح پالیسی سازی اور ضابطہ جاتی ہدایات مرتب کرنا ہے، مزید یہ کہ عالمی کرپٹو اور بلاک چین تنظیموں سے روابط قائم کر کے بین الاقوامی معیار کے مطابق ضوابط تشکیل دینا بھی کونسل کی ترجیحات میں شامل ہوگا۔ وزارت خزانہ کے مطابق کونسل مالیاتی ٹیکنالوجی، اسٹارٹ اپس، سرمایہ کاروں اور بلاک چین ڈویلپرز کے ساتھ مل کر جدت کو فروغ دے گی اور صارفین کے تحفظ کے لیے مضبوط قانونی فریم ورک تیار کرے گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کرپٹو کونسل کا قیام ملک میں بلاک چین ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل اثاثوں کے فروغ کے لیے ایک نمایاں پیش رفت ہے۔ اس اقدام سے پاکستان میں جدید مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی جائے گی، جو مستقبل میں معیشت کو ڈیجیٹل دور سے ہم آہنگ کرنے میں مدد دے گا۔