زیرو مائلج گاڑیوں کی فروخت پر کمپنی مالکان کی طلبی: کیا چین اپنی’آٹو پالیسی‘ بدل رہا ہے؟

چین کی وزارتِ کامرس نے ملک کی مشہور گاڑی ساز کمپنیوں جیسے بی وائی ڈی اور ڈونگ فینگ موٹر کو ایک خاص اجلاس کے لیے منگل کی دوپہر کو بلایا ہے۔ اس اجلاس میں ان گاڑیوں پر بات ہوئی جو کبھی استعمال نہیں ہوئیں، لیکن پھر بھی پرانی گاڑیوں (یوزڈ کارز) کے طور پر بیچی جا رہی ہیں۔ یہ قدم اُس وقت اُٹھایا گیا ہے جب گریٹ وال موٹرز کے چیئرمین وی جیانجن نے پچھلے ہفتے ایک انٹرویو میں کہا کہ چین میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے جسے انہوں نے “زیرو مائلیج سیکنڈ ہینڈ کارز” کہا۔ ان کے مطابق، ایسی گاڑیاں جو رجسٹر ہو چکی ہیں اور جن پر نمبر پلیٹ لگ چکی ہے، یعنی کاغذوں میں وہ “فروخت شدہ” مانی جاتی ہیں، لیکن حقیقت میں وہ کبھی سڑک پر نہیں چلی ہوتیں۔ وی جیانجن نے بتایا کہ ایسی گاڑیاں بڑی تعداد میں آن لائن پرانی گاڑیوں کی مارکیٹ میں بیچی جا رہی ہیں، اور اندازہ ہے کہ کم از کم 3,000 سے 4,000 دکاندار اس طرح کی گاڑیاں بیچ رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ کمپنیاں اور گاڑیوں کے ڈیلر یہ طریقہ اس لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی نئی گاڑیوں کی فروخت کا ہدف پورا کر سکیں اور یہ ظاہر ہو کہ گاڑیاں بک رہی ہیں، حالانکہ وہ اصل میں اسٹاک میں رہتی ہیں۔ اس اجلاس میں جن دوسرے اداروں کو بلایا گیا ہے اُن میں چائنا ایسوسی ایشن آف آٹوموبائل مینوفیکچررز، چائنا آٹوموبائل ڈیلرز ایسوسی ایشن، اور کچھ بڑی آن لائن کار خرید و فروخت کی ویب سائٹس شامل ہیں۔ ابھی تک وزارتِ کامرس، بی وائی ڈی، ڈونگ فینگ موٹر اور (سی اے ڈی اے) نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا، جبکہ گریٹ وال اور (سی اے اے ایم) نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔جیسے ہی یہ خبر آئی، چینی گاڑیوں کی کمپنیوں کے شیئرز نیچے گرنے لگے۔ بی وائی ڈی اور لیپ موٹر کے شیئرز میں تقریباً 3.1 فیصد کمی ہوئی، جبکہ ہانگ کانگ کے گاڑیوں کے شیئرز کا انڈیکس بھی 2 فیصد سے زیادہ نیچے چلا گیا۔ یہ اجلاس اس وقت ہوا جب چینی کار انڈسٹری پہلے ہی سخت مسابقتی قیمتوں اور زائد اسٹاک کے دباؤ کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر “زیرو مائلیج” سیکنڈ ہینڈ کارز کے رجحان کو روکا نہ گیا تو اس سے مارکیٹ کی شفافیت، صارفین کا اعتماد اور مجموعی آٹو سیکٹر متاثر ہو سکتا ہے۔
کیا ڈیپ فیک اور جعلی ویڈیوز جنگی محاذ پر خطرناک ہتھیار بن چکی ہیں؟

ذرا تصور کریں کہ کسی جنگ کے دوران ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو جائے، جس میں ایک نامور جرنیل جنگ بندی کا اعلان کر دے۔ لیکن چند گھنٹوں بعد پتہ چلے کہ وہ ویڈیو ہی جعلی تھی۔ نہ ایسی کوئی تقریر ہوئی اور نہ ہی کوئی جنگ بندی ۔ بالکل ایسی ہی صورتِ حال آج دنیا بھر میں کئی محاذوں پر سامنے آ رہی ہے، جہاں ڈیپ فیک اور جعلی ویڈیوز ایک نئے قسم کے ‘ڈیجیٹل ہتھیار’ کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سوشل میڈیا ایکسپرٹ سید اسد نعیم نے کہا کہ “ڈیپ فیک ٹیکنالوجی نے جنگی حکمتِ عملی کو بدل دیا ہے۔ اب نفسیاتی جنگ اور غلط معلومات کا استعمال زیادہ کارگر ثابت ہورہا ہے، جس کے باعث یہ روایتی ہتھیاروں کی جگہ لے رہا ہے۔” ڈیپ فیک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے کسی بھی شخص کی شکل، آواز اور حرکات کی نقالی کر کے ایک مصنوعی مگر حقیقت سے قریب ویڈیو یا آڈیو تیار کی جا سکتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اب اتنی ترقی کر چکی ہے کہ عام آنکھ سے اصل اور نقلی میں فرق کرنا ممکن نہیں رہا۔ مزید پڑھیں: پاکستان کا ایران سے تجارت بڑھانے کا اعلان، کتنا ہدف مقرر کیا گیا ہے؟ پاکستان۔انڈیا کشیدگی، روس-یوکرین جنگ، غزہ-اسرائیل تنازع اور ایران-امریکہ کشیدگی جیسے عالمی تنازعات میں ڈیپ فیک مواد بطور ایک اہم نفسیاتی ہتھیار سامنے آیا ہے۔ سید اسد نعیم کے مطابق “ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے پھیلائی گئی غلط معلومات عوامی رائے کو متاثر کر سکتی ہیں، جس سے سیاسی عدم استحکام اور عوامی اعتماد میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ نفسیاتی جنگ کا ایک مؤثر ہتھیار بن چکی ہے۔ اس بات کا اقرار ‘کینیڈین سیکیورٹی انٹیلیجنس سروس’ کی رپورٹ میں بھی ہو چکا ہے۔” روسی صدر پیوٹن یا یوکرینی صدر زیلنسکی کے جعلی پیغامات، یا اسرائیلی حملے کے مناظر کو مسخ کر کے دکھانے والی ویڈیوز سوشل میڈیا پر باآسانی وائرل ہو جاتی ہیں۔ مقصد صرف دشمن کے مورال کو کمزور کر کے عوام میں خوف پیدا کرنا اور عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سماجی محقق ثاقب علی نے کہا کہ “2022 میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی ایک ڈیپ فیک ویڈیو جاری کی گئی جس میں وہ فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیتے نظر آتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ اس واقعے نے ظاہر کیا کہ کس طرح ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے دشمن کی حوصلہ شکنی اور غلط معلومات پھیلائی جا سکتی ہیں۔” پاکستان اور انڈیا کے درمیان رواں ماہ لائن آف کنٹرول کے قریب ایک فضائی جھڑپ ہوئی جس میں بھارتی رافیل طیارے اور پاکستانی J-10C جہازوں کے مابین مقابلہ ہوا۔ اس واقعے کے بعد بھارتی سوشل میڈیا پر متعدد جعلی ویڈیوز گردش کرتی رہیں جن میں پاکستانی طیاروں کی تباہی یا پاکستانی پائلٹ کی گرفتاری کے مناظر دکھائے گئے، بعد ازاں اس تمام پروپیگنڈے کا پول کھل گیا اور تمام ویڈیو ڈیپ فیک یا پھر پرانی نکلیں۔ ثاقب علی کے نزدیک ” چونکہ جعلی ویڈیوز اور آڈیوز کی تصدیق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس لیے میڈیا کو چاہیے کہ وہ ڈیپ فیک کی شناخت کے لیے جدید ٹولز استعمال کریں اور صحافیوں کو اس حوالے سے تربیت فراہم کریں تاکہ وہ جعلی مواد کا شکار نہ ہوں۔” دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان۔انڈیا کشیدگی کے دوران پاکستانی سوشل میڈیا صارفین، اوپن سورس محققین اور یوٹیوب و لاجیکل بلاگرز نے فوری طور پر ان ویڈیوز کا تجزیہ کیا، ویڈیو کے میٹا ڈیٹا سے پتہ چلا کہ ویڈیو کلپس پرانی تھیں، کچھ ویڈیوز میں پس منظر کا موسم موجودہ موسم سے مختلف تھا، تو بعض آوازیں الگ ایپس سے نکالی گئی تھیں۔ اس بے نقاب کاری کے بعد بھارت کو عالمی میڈیا میں بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ سائبر سیکیورٹی ماہرین کے مطابق ڈیپ فیک ایسا ‘سائبر بم’ ہے جو دشمن کے اندر سے حملہ کرتا ہے۔ کسی فوجی لیڈر کی جعلی تقریر، یا کسی ملک کے ہتھیار چھوڑنے کی جعلی خبر پورے محاذ کو الٹ سکتی ہے۔ سید اسد نعیم کا ماننا ہے کہ “ڈیپ فیک کا استعمال اگر دشمن کو دھوکہ دینے یا عوامی اعتماد کو مجروح کرنے کے لیے کیا جائے تو یہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔” ڈیجیٹل میڈیا ریگولیٹرز کے مطابق پاکستان میں ابھی تک ڈیپ فیک کے خلاف کوئی جامع قانون موجود نہیں ہے۔ ثاقب علی کا کہنا ہے کہ “پاکستان میں ڈیپ فیک کے خلاف مؤثر قانونی فریم ورک کی کمی ہے جس سے اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ ‘پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 موجود ہے لیکن اس میں ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا واضح ذکر نہیں ہے۔” ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ عوام ہر وائرل ویڈیو پر فوری یقین نہ کریں۔ اس بارے اسکولوں، جامعات اور صحافی اداروں میں ٹریننگ دی جانی چاہیے۔ سید اسد نعیم کا کہنا ہے کہ “ڈیجیٹل لٹریسی کے کورسز عوام کو یہ سکھانے کے لیے ضروری ہیں کہ وہ جعلی معلومات کی شناخت کیسے کریں اور اس سے کیسے بچیں۔ یہ موجودہ دور میں نہایت ضروری ہے۔” یورپی یونین، امریکہ، اور اقوامِ متحدہ اب AI اور ڈیپ فیک مواد کے خلاف ضابطہ اخلاق پر غور کر رہے ہیں تاکہ اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال روکا جا سکے۔ ثاقب علی کا کہنا ہے کہ “ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ، حقیقت اور فریب کے درمیان فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ میڈیا اور عوامی اعتماد کے لیے خطرہ ہے۔ اس لیے اس بارے ضابطہ اخلاق طے کرنا ناگزیر ہے۔” جہاں ڈیپ فیک فلم سازی، تعلیم اور تفریح میں نئی راہیں کھول رہا ہے، وہیں اس کا استعمال جھوٹ، جنگ اور فریب کے لیے ایک خطرناک ہتھیار بھی بن سکتا ہے۔ ڈیپ فیک اور جعلی ویڈیوز صرف ایک سافٹ ویئر کی کرامات نہیں رہیں، یہ اب جنگی حکمتِ عملی کا حصہ بن چکی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اس کا قانونی و تکنیکی حل تلاش کریں بلکہ عوام کو باخبر بنائیں تاکہ دشمن کے
نیشنل سائبر ایمرجنسی ریسپانس ٹیم کی ایڈوائزری جاری: ’سوشل میڈیا صارفین فوری طور پر پاس ورڈز بدل لیں‘

نیشنل سائبر ایمرجنسی ریسپانس ٹیم نے تمام افراد کو فوری طور پر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے پاس ورڈ تبدیل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ایڈوائزری میں خبردار کیا گیا ہے کہ ملک میں سائبر سیکیورٹی کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے، اور غیر محفوظ اکاؤنٹس ہیکرز کے نشانے پر ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اینٹی وائرس اور دیگر سیکیورٹی سافٹ ویئرز کو باقاعدگی سے اپ ڈیٹ رکھیں تاکہ کسی بھی ممکنہ سائبر حملے سے بچا جا سکے۔ نیشنل سائبر ٹیم کے مطابق، صارفین کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر غیر معمولی لاگ ان سرگرمیوں پر خصوصی نظر رکھنی چاہیے، کیونکہ یہ ممکنہ ہیکنگ یا سیکیورٹی بریک کی علامت ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: امریکا ٹی شرٹس نہیں بلکہ ٹینکس بنائے گا، ڈونلڈ ٹرمپ نے پیوٹن کو’پاگل‘ قرار دے دیا ایڈوائزری میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو حکومتی اور حساس اداروں کے نظام بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں، جو ملکی سیکیورٹی کے لیے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ سائبر سیکیورٹی ماہرین نے بھی ایڈوائزری میں عوام کو تاکید کی ہے کہ وہ دو مرحلہ جاتی تصدیق جیسے حفاظتی اقدامات کو فعال کریں تاکہ ذاتی معلومات اور اکاؤنٹس محفوظ رہ سکیں۔ حکام کے مطابق یہ ایڈوائزری عوامی آگاہی کے لیے جاری کی گئی ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ بڑے سائبر حملے سے پہلے ہی حفاظتی اقدامات کیے جا سکیں۔
تائیوان میں منفرد کار کی نمائش: یہ ’کیلے کا چھلکا‘ ہے کیا؟

دنیا بھر میں منفرد گاڑیوں کے شوقین افراد کے لیے ایک حیران کن منظر تائیوان میں سامنے آیا ہے، جہاں ایک ہونڈا سوک کو اس قدر کم اونچائی پر تبدیل کر دیا گیا ہے کہ وہ سڑک پر یوں محسوس ہوتی ہے جیسے زمین میں دھنس کر چل رہی ہو۔ سوشل میڈیا پر اس گاڑی کو “Banana Peel” یعنی “کیلے کا چھلکا” کہا جا رہا ہے۔ صارفین اسے نہ صرف انجینیئرنگ کا شاہکار قرار دے ر ہےہیں بلکہ ایک ‘چلتی ہوئی فن پارہ’ بھی کہا گیا ہے۔ اس کی اونچائی اس قدر کم ہے کہ بظاہر دیکھنے پر یوں لگتا ہے جیسے یہ سڑک پر رگڑتی ہوئی چل رہی ہو۔ 🔴 تائیوان کی سب سے لوٗ پروفائل گاڑی، جسے بنانا پیل "کیلے کا چھلکا" ہونڈا سوک کہا جاتا ہے۔ pic.twitter.com/bWvcc8glfQ — RTEUrdu (@RTEUrdu) May 24, 2025 گاڑی مکمل طور پر اپنی اصل حالت سے مختلف دکھائی دیتی ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے خاص طور پر کسٹمائز کیا گیا ہے تاکہ وہ زمین کے انتہائی قریب ہو — یہاں تک کہ اس کا انجن، ویل بیس، اور ٹائرز بھی خاص ترتیب سے دوبارہ ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ مزید پڑھیں:’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان میں گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے دلچسپ بات یہ ہے کہ باوجود اس غیر معمولی کم اونچائی کے، یہ گاڑی مکمل طور پر قابلِ استعمال ہے اور عام ٹریفک میں رواں دواں دیکھی جا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین اور گاڑیوں کے شوقین افراد اسے “کار موڈیفیکیشن” کی انتہا قرار دے رہے ہیں۔ یہ منفرد کار نہ صرف تائیوان بلکہ دنیا بھر میں کار ڈیزائن کے شوقین افراد کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے اور اس کی تصاویر اور ویڈیوز کو لاکھوں افراد دیکھ اور شیئر کر چکے ہیں۔
پاکستان میں کاروباری ترقی کے لیے ’ڈیجیٹل پیمنٹس‘ انتہائی ضروری کیوں ہیں؟

پاکستان میں کاروباری ترقی کے لیے ڈیجیٹل پیمنٹس کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور حالیہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹے کاروباروں کے لیے یہ تبدیلی نہ صرف آسانی لائی ہے بلکہ اس نے منافع میں بھی اضافہ کیا ہے۔ ویزا کارڈ کے بتائے گئے ڈیٹا کے مطابق ملک میں 87 فیصد کاروبار ایسے ہیں جنہوں نے ڈیجیٹل پیمنٹس کو اپنا کر اپنی فروخت اور گاہکوں کی تعداد میں واضح اضافہ دیکھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 70 فیصد سے زائد مرچنٹس اس تبدیلی سے نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ بہت خوش بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام نے ان کے کاروبار کو ایک نئی سمت دی ہے، جہاں تیزی، آسانی اور بھروسے کے عناصر نمایاں ہیں۔ تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 78 فیصد کاروباری افراد اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی بھی بزنس کو آگے لے جانا ہے تو ڈیجیٹل پیمنٹس ہی مستقبل کا راستہ ہے۔ یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت کے بڑھتے اثرات: کیا صحافت اور نوکریاں خطرے میں ہیں؟ کارڈ کے ذریعے ادائیگی کو سب سے محفوظ سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ صرف 20 فیصد مرچنٹس کو اس میں فراڈ کا خطرہ محسوس ہوتا ہے، جب کہ کیش پر انحصار کرنے والے 46 فیصد کاروباری افراد اس حوالے سے پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔ ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام میں شمولیت اب پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو چکی ہے۔ سستا، محفوظ، اور تیزی سے مکمل ہونے والا یہ نظام کاروباری افراد کے لیے ایک قابل اعتماد انتخاب بنتا جا رہا ہے۔ ایسے میں سوال صرف ایک ہے، جب ڈیجیٹل پیمنٹس سے کاروبار بڑھ رہا ہے، اعتماد مل رہا ہے، اور خطرات کم ہو رہے ہیں، تو پھر اپنے کاروبار کو ڈیجیٹل بنانے میں تاخیر کیوں؟
مصنوعی ذہانت کے بڑھتے اثرات: کیا صحافت اور نوکریاں خطرے میں ہیں؟

مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ترقی کی رفتار اس قدر تیز ہو چکی ہے کہ اب روزمرہ کی زندگی کا کوئی بھی پہلو اس سے محفوظ نہیں رہا۔ تعلیم، طب، صنعت، عدلیہ، سیکیورٹی اور خاص طور پر صحافت جیسے شعبے تیزی سے بدلتے ہوئے اس ٹیکنالوجی کے زیر اثر آ رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں مصنوعی ذہانت نے انسانی زندگی کو آسان بنایا ہے، وہیں دوسری جانب یہ سوال بھی جنم لے رہا ہے کہ کیا یہ ترقی انسانی محنت کی جگہ لے کر نوکریوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے؟ خاص طور پر صحافت جیسے حساس اور تحقیقی شعبے میں جہاں سچائی، تنقید اور انسانی تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے، کیا ایک مشین یا پروگرام اس خلا کو پُر کر سکتا ہے? اسلام آباد کے ایک میڈیا انسٹیٹیوٹ میں زیر تعلیم صحافت کے طالبعلم علی اکبر اس معاملے پر خاصی فکر کا اظہار کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہم روز سنتے ہیں AI نیوز آرٹیکلز لکھ سکتی ہے، تصویریں بنا سکتی ہے، یہاں تک کہ ویڈیوز میں رپورٹرز کی جگہ ورچوئل اینکرز استعمال ہو رہے ہیں۔ ایسے میں تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارا مستقبل مشینوں کے رحم و کرم پر ہے۔ علی کی بات صرف ایک طالبعلم کا خدشہ نہیں بلکہ اس وقت دنیا بھر میں صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کے درمیان بحث کا ایک مرکزی نقطہ بھی ہے۔ گزشتہ سال معروف عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز نے ایک تجرباتی اقدام کے تحت کچھ خبروں کی رپورٹنگ مکمل طور پر AI کے ذریعے کی۔ رپورٹس کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ خبریں رفتار کے لحاظ سے تو بہت تیز تھیں مگر ان میں انسانی احساس، نکتہ نظر اور تنقیدی زاویہ ناپید تھا۔ اس تجربے سے ایک اہم سوال نے جنم لیا کہ کیا صرف معلومات کی ترسیل کافی ہے یا سچائی، سیاق و سباق اور انسانی فہم بھی اتنے ہی ضروری ہیں؟ لاہور میں مقیم ایک تجربہ کار صحافی انعم شاہین، جو کہ ایک قومی روزنامے میں بطور فیچر رائٹر کام کرتی ہیں، نے ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے خود کئی دفعہ اے آئی ٹولز استعمال کیے ہیں، جیسے کہ ChatGPT یا Grammarly، لیکن ان سے صرف مدد لی جا سکتی ہے، مکمل تحریر یا رپورٹنگ ان کے حوالے نہیں کی جا سکتی۔ خبر کی تحقیق، متاثرہ فریق سے گفتگو، سوالات کی ترتیب اور مخصوص لہجے کی ادائیگی یہ سب ابھی بھی انسان ہی بہتر کر سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: ’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان میں گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کو دشمن سمجھنے کے بجائے اسے ایک ہتھیار کے طور پر دیکھنا چاہیے، جو صحافیوں کو زیادہ بہتر اور منظم بنا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ تمام رائے دہندگان اس بات سے متفق نہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ٹیکنالوجی ایکسپرٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کنسلٹنٹ رضوان خان کا کہنا ہے کہ صحافت کا موجودہ ماڈل خود تبدیل ہو رہا ہے اور مصنوعی ذہانت اس تبدیلی کا فطری حصہ ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دیکھیں یوٹیوب، ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر خبریں ویڈیوز کی شکل میں گردش کر رہی ہیں، لوگ بریکنگ نیوز اب موبائل نوٹیفیکیشن سے حاصل کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر AI رپورٹرز فوری اور درست خبریں فراہم کریں تو صارفین کو فرق نہیں پڑتا کہ یہ خبر کس نے لکھی۔ انہیں صرف مواد، رفتار اور درستگی سے غرض ہے۔ خیال رہے کہ یہ مسئلہ صرف صحافت تک محدود نہیں۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر میں لاکھوں نوکریاں آنے والے برسوں میں AI کی وجہ سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں تقریباً 85 ملین نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں، جب کہ تقریباً 97 ملین نئی نوکریاں پیدا ہوں گی، جن کے لیے مختلف مہارتیں درکار ہوں گی۔ یہ بھی پڑھیں: چینی کمپنی بی وائے ڈی نے یورپ میں سستی الیکٹرک گاڑی متعارف کرا دی پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں پہلے ہی بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے، وہاں AI کی آمد ایک نئے بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے، اگر اس کے لیے بروقت منصوبہ بندی نہ کی گئی۔ دوسری جانب پاکستان میں ابھی تک AI کی تعلیم اور مہارت عام نہیں ہے۔ سرکاری سطح پر کوئی جامع پالیسی موجود نہیں، جس کے ذریعے نوجوانوں کو AI ٹولز کے استعمال اور اس سے جڑی مہارتیں سکھائی جائیں۔ حالانکہ کئی نجی ادارے اور اسٹارٹ اپس اپنی سطح پر تربیت فراہم کر رہے ہیں، مگر یہ اقدامات کافی نہیں۔ اس بدلتے منظرنامے میں امید کی کرن یہ ہے کہ انسان میں وہ فطری تخلیقیت، ہمدردی، تنقید اور اخلاقی شعور موجود ہے، جو کسی بھی مشین سے بہتر ہے۔ اے آئی خود تخلیق نہیں کر سکتا، وہ صرف پہلے سے موجود ڈیٹا پر مبنی کام کرتا ہے۔ جب تک صحافت میں سچائی کی جستجو، مظلوم کی آواز بننے کی خواہش اور طاقت کے سامنے سوال اٹھانے کی جرأت باقی ہے، تب تک انسانی صحافت کا وجود بھی باقی رہے گا۔ لازمی پڑھیں: صارفین کا ڈیجیٹل کرنسی پر بڑھتا اعتماد: بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ 5 ہزار ڈالر سے تجاوز کرگئی یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ مصنوعی ذہانت صحافت اور نوکریوں کے لیے خطرہ ضرور بن سکتی ہے، لیکن اگر انسان خود کو بدلتے وقت کے مطابق ڈھالے، نئی مہارتیں سیکھے اور AI کو بطور مددگار استعمال کرے، تو یہ خطرہ ایک نئے موقع میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرتی جائے گی، ویسے ویسے انسان کی تخلیقی اور تجزیاتی صلاحیتوں کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی جائے گی۔
’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان میں گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے

تقریباً چالیس سال پہلے، ہیروکو سوزوکی کے والد نے اپنی خاندانی کمپنی کیووا انڈسٹریل کو عام گاڑیوں کے پرزے بنانے سے ہٹا کر خاص قسم کے پرزے بنانے پر لگا دیا تھا، تاکہ اس وقت امریکا اور جاپان کے درمیان جاری تجارتی جنگ کے اثرات سے بچا جا سکے۔ لیکن اب ٹرمپ حکومت کی طرف سے لگائے گئے بھاری ٹیکس اس کمپنی کے لیے ایک نئے بحران کا سبب بن رہے ہیں۔ ان درآمدی ٹیکسوں نے کمپنی کی میڈیکل آلات میں کام کرنے کی کوشش کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جاپان کے وزیر اعظم شیگیرو ایشیبا نے ان ٹیکسوں، خاص طور پر گاڑیوں پر پچیس فیصد ٹیرف، کو جاپان کے لیے ایک قومی بحران قرار دیا ہے۔ جاپان کے اعلیٰ تجارتی نمائندے ریوسی آکازاوا اس مسئلے پر بات چیت کے لیے واشنگٹن روانہ ہو چکے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: چینی کمپنی بی وائے ڈی نے یورپ میں سستی الیکٹرک گاڑی متعارف کرا دی کیووا انڈسٹری، جو ٹوکیو کے شمال میں واقع تاکاساکی شہر میں ہے، ایسی کمپنیوں میں شامل ہے جو گاڑیوں کے خاص پرزے اور ریسنگ کاروں کے اجزاء بناتی ہے۔ اس میں ایک سو بیس افراد کام کرتے ہیں۔ سوزوکی نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب ٹیرف کا اعلان ہوا تو ان کے ذہن میں یہی سوال آیا کہ وہ دنیا میں اب کیا کریں گے۔ انہیں لگا کہ صورتحال بہت خراب ہونے والی ہے۔ کیووا اور دیگر چھوٹے کارخانے جاپان کے اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو کئی دہائیوں سے گاڑیاں بنانے کے لیے مونوزوکوری یعنی اعلیٰ معیار کی تیاری پر عمل پیرا ہے۔ اس طریقے کو ٹویوٹا نے فروغ دیا تھا جس میں پیداوار میں مستقل بہتری اور درستگی پر زور دیا جاتا ہے۔ یہی طریقہ جاپان کو ایک مضبوط صنعتی ملک بنانے میں مددگار ثابت ہوا۔ لیکن اب گاڑیوں کی دنیا میں تبدیلی آ چکی ہے۔ بیٹری سے چلنے والی سمارٹ گاڑیوں نے سافٹ ویئر کو بہت اہم بنا دیا ہے، اور اب کمپنیاں جیسے ٹیسلا اور چین کی کمپنی بی وائی ڈی مارکیٹ میں نمایاں ہو چکی ہیں۔ سوزوکی نے 2016 میں یہ اندازہ لگایا کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کا بڑھتا ہوا رجحان انجن کے پرزوں کی مانگ کو کم کر دے گا۔ اس لیے انہوں نے نیورو سرجری کے آلات تیار کرنا شروع کیے۔ انہوں نے امریکا میں ان آلات کی فروخت کا آغاز بھی کیا، لیکن انہیں اندازہ ہوا کہ ان پر بھی وہی درآمدی ٹیکس لاگو ہوتے ہیں جو باقی مصنوعات پر ہوتے ہیں۔ کیووا اگرچہ امریکا کو گاڑیوں کے پرزے برآمد نہیں کرتی، لیکن سوزوکی کو خدشہ ہے کہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اپنے سپلائرز پر قیمتیں کم کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہیں تاکہ وہ ان ٹیکسوں کا ازالہ کر سکیں۔ اب تک ان کی کمپنی کو اس دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ایک اور گاڑی بنانے والی کمپنی سبارو نے کہا ہے کہ انہیں اپنے سپلائرز کے لیے امریکا سے باہر دوسرے متبادل دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔ بڑی کار ساز کمپنیاں زیادہ تر اس مسئلے پر خاموش ہیں، لیکن ٹویوٹا، نسان اور فورڈ جیسی کمپنیاں کچھ جاپانی سپلائرز کی امریکی شاخوں کو خطوط لکھ چکی ہیں جن میں تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ان خطوط کی کاپیاں روئٹرز نے دیکھی ہیں، حالانکہ ان کمپنیوں نے اس پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا۔
چینی کمپنی بی وائے ڈی نے یورپ میں سستی الیکٹرک گاڑی متعارف کرا دی

چینی الیکٹرک گاڑی ساز کمپنی بیلڈ یور ڈریمز (بی وائے ڈی) نے برلن میں اپنی دسویں گاڑی ڈولفن سرف کو یورپی منڈی میں پیش کر دیا، جو کہ کم قیمت الیکٹرک گاڑیوں کے زمرے میں شامل ہے۔ اس نئی گاڑی کی آمد سے یورپی کار ساز کمپنیوں پر دباؤ میں اضافہ ہوگا کہ وہ بھی سستی اور معیاری الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرائیں تاکہ مسابقت میں برقرار رہ سکیں۔ ڈولفن سرف تین مختلف قیمتوں میں دستیاب ہوگی، جس کی ابتدائی قیمت 22990 یورو مقرر کی گئی ہے، جو تین سو بائیس کلومیٹر کی حدِ رفتار رکھتی ہے۔ سب سے مہنگا ماڈل 24990 یورو کا ہوگا، جو پانچ سو سات کلومیٹر کی رینج فراہم کرتا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کی عوامی سطح پر اپنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی زیادہ قیمت رہی ہے اور اسی تناظر میں ڈولفن سرف کی یورپی منڈی میں شمولیت مقامی کار ساز اداروں کے لیے بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔ اس وقت صرف چند گاڑیاں، جیسے ڈاچیا اسپرنگ اور لیپ موٹر کی ٹی صفر تین، بیس ہزار یورو سے کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ رواں سال گیارہ نئی گاڑیاں متوقع ہیں، جن کی قیمت 25 ہزار یورو سے کم ہوگی ۔ یہ بھی پڑھیں:امریکی ٹیرف کے باوجود آڈی کی الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت میں 30 فیصد اضافہ یورپ کے کئی ممالک کے لیے بی وائے ڈی کی علاقائی منیجنگ ڈائریکٹر ماریا گرازیا ڈاوینو نے برلن میں کہا کہ چھوٹے سائز کی گاڑیاں یورپ میں الیکٹرک گاڑیوں کی ترقی کا اگلا بڑا مرحلہ ہوں گی، اور اس شعبے میں بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ چین میں ڈولفن سرف کا ہم شکل ماڈل سیگل، اس سال ٹیسلا کی ماڈل وائے کے بعد سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ماڈل ہے، جس کی رجسٹریشن چار لاکھ بیالیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ رواں سال کے دوران اس ماڈل کی عالمی فروخت میں پینتالیس فیصد اضافہ ہوا ہےاور مجموعی فروخت ایک لاکھ ستر ہزار یونٹس تک پہنچ گئی ہے۔
عید الاضحیٰ کب ہوگی؟ سپارکو نے تاریخ سے متعلق پیش گوئی کردی

اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) نے بھی ذی الحج کے چاند کی رویت اور عید الاضحیٰ کی متوقع تاریخ کے حوالے سے پیش گوئی کردی۔ سپارکو کا کہنا ہے کہ فلکیاتی ماڈلز کے مطابق ذوالحجہ کے نئے چاند کی پیدائش 27 مئی 2025 کو پاکستان معیاری وقت کے مطابق 08:02 بجے ہوگی۔ سپارکو نے کہا کہ 27 مئی 2025 (29 ذیقعد) کے لیے پاکستان کے حوالے سے سائنسی تجزیہ کے مطابق غروبِ آفتاب کے وقت چاند کی عمر تقریباً 11 گھنٹے 34 منٹ ہوگی۔ سپارکو نے مزید بتایا کہ سائنسی لحاظ سے بہترین موسمی حالات میں بھی ملک بھر میں چاند کے نظر آنے کے امکانات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں اس تناظر میں یکم ذوالحجہ 29 مئی 2025 کو متوقع ہے جس کے حساب سے ملک بھر میں عیدالاضحٰی 07 جون 2025 کو منائی جائے گی۔ لازمی پڑھیں: مخصوص نشستوں کا کیس: بینچ پر اعتراضات مسترد، لائیو سٹریمنگ کا حکم تاہم، مرکزی رویت ہلال کمیٹی چشم دید گواہیوں اور موسمی حالات کے مطابق چاند کی رویت کا حتمی فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل فلکیاتی مشاہدات کی بنیاد پر ماہرین نے بتایا تھا کہ 28 مئی کو چاند کی عمر 35 گھنٹے سے زائد ہو جائے گی جس سے ذوالحج کا چاند واضح طور پر نظر آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اگر یہ پیشگوئی درست ثابت ہوتی ہے تو پاکستان میں یکم ذوالحج 29 مئی بروز بدھ کو ہو سکتی ہے اور اس حساب سے عیدالاضحیٰ 7 جون بروز ہفتہ کو منائی جائے گی۔ واضح رہے کہ عیدالاضحیٰ کا انحصار قمری کلینڈر اور چاند کی واضح رویت پر ہوتا ہے لہٰذا حتمی فیصلہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے چاند دیکھنے کے بعد کیا جائے گا، تاہم فلکیاتی ماہرین کی رائے عوام کو پیشگی تیاری اور سفری منصوبہ بندی میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔ مزید پڑھیں: عمران خان کا ایک بار پھر پولی گراف اور فارنزک ٹیسٹ کرانے سے انکار
جدید اے آئی گوگل ’فلو‘ متعارف، یہ کیا ہے؟

گوگل نے فلم سازی کی دنیا میں ایک نیا باب رقم کرتے ہوئے “فلو” کے نام سے ایک جدید اے آئی ٹول متعارف کروایا ہے، جو کہانی سنانے کی اگلی نسل کے لیے خاص طور پر تخلیق کاروں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ فلو ان کہانی گو افراد کے لیے بنایا گیا ہے جو بغیر کسی تکنیکی رکاوٹ کے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو ویڈیو کے ذریعے حقیقت میں بدلنا چاہتے ہیں۔ یہ ٹول گوگل کے جدید ترین اے آئی ماڈلز جیسے ویو، ایمیجن اور جیمینائی کے ساتھ مربوط ہے۔ ان ماڈلز کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے فلو صارفین کو سنیماٹک مناظر تخلیق کرنے، کرداروں کو بنانے، اور کہانی کے ہر حصے کو یکساں انداز میں ترتیب دینے کی سہولت دیتا ہے۔ صارفین اپنے الفاظ میں عام زبان کے ذریعے اپنی تخلیقی سوچ کا اظہار کر سکتے ہیں، جسے فلو کی طاقتور اے آئی فوری طور پر سمجھ کر ویڈیو کی شکل دیتی ہے۔ مزید پڑھیں: واٹس ایپ پر اسٹیٹس شیئرنگ کا فیچر، کیا صارفین کی پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے؟ فلو میں کئی ایسی خصوصیات شامل ہیں جو نہ صرف پیشہ ور فلم سازوں کے لیے بلکہ شروعات کرنے والوں کے لیے بھی کارآمد ہیں۔ ان میں کیمرہ کنٹرولز، سین بلڈر، اور رنگوں کا منظم نظام شامل ہے، جو فلم سازی کو زیادہ آسان اور دلکش بناتے ہیں۔ فلو ٹی وی کے ذریعے صارفین دوسرے تخلیق کاروں کے کام دیکھ سکتے ہیں، ان کے طریقے سیکھ سکتے ہیں اور اپنے انداز کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ فلو، گوگل لیبز کے سابق تجربے ویڈیو ایف ایکس کا ارتقاء ہے اور اس وقت امریکا میں گوگل اے آئی پرو اور الٹرا پلان کے سبسکرائبرز کے لیے دستیاب ہے۔ ان منصوبوں کے ذریعے صارفین کو ہر ماہ مخصوص تعداد میں ویڈیو جنریشنز، آڈیو تخلیق، اور ویو 3 تک رسائی حاصل ہوتی ہے، جو فلموں میں ماحولیاتی آواز اور کرداروں کی گفتگو کو براہ راست شامل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گوگل اس منصوبے کو صرف ایک ٹول کے طور پر نہیں بلکہ فلم سازوں کے ساتھ تعاون کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھتا ہے۔ کمپنی نے کئی فلم سازوں کے ساتھ شراکت کی ہے تاکہ وہ ان کے کام سے سیکھ سکے اور فلو کو ان کی ضروریات کے مطابق بہتر بنا سکے۔ یہ شراکت نہ صرف فلو کو ایک زیادہ طاقتور پلیٹ فارم بناتی ہے بلکہ فلم سازی کی نئی راہوں کو بھی کھولتی ہے جہاں تخلیق آسان، تیز تر اور زیادہ بااثر ہو سکتی ہے۔