ڈبہ اسکیم : ایک فون کال اور سب کچھ ختم

ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی دنیا میں کئی ایسی فلمیں اور سیریز تیار کی گئی ہیں، جن میں آن لائن فراڈ اور کال سینٹر کے ذریعے سے لوگوں کے بینک اکاؤنٹ اور دیگر معلومات اسپوف کالز کے ذریعے حاصل کر کے ان کے اکاؤنٹ خالی کیے جاتے ہیں، کمال بات یہ ہے کہ وہاں یہ سب فلمایا جاتا تھا، جب کہ کراچی میں یہ کام حقیقت میں کیا جارہا ہے۔ کراچی میں منظم طور پر غیر قانونی کال سینٹرز کا پورا نیٹ ورک موجود ہے، شہر میں کئی رہائشی اور کمرشل عمارتوں میں کال سینٹرز کے نام پر جعل ساز کسی فلیٹ کو کرائے پر لے کر وہاں اس کام کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ فراڈ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کیا جاتا ہے، جب کہ کراچی میں زیادہ تر یہ فراڈ بین الاقوامی صارفین کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ کال سینٹر چلانے والے افراد اپنے آپ کو کسی بھی انٹرنیشنل بینک یا انشورنس کمپنی کا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں اور اس طرح صارفین سے ان کی بینک اکاؤنٹ اور دیگر معلومات کا حصول ممکن بناتے ہیں، اس فراڈ کو ڈبہ اسکیم کہا جاتا ہے۔ پولیس کی جانب سے ابتدائی معلومات کے مطابق ہائی پروفائل مصطفیٰ قتل کیس میں گرفتار مبینہ ملزم ارمغان بھی اسی ڈبہ اسکیم میں ملوث پایا گیا ہے، جہاں سافٹ ویئر ہاؤس اور کال سینٹر کے نام پر غیر ملکی صارفین کے اکاؤنٹ خالی کیے جاتے تھے۔ بنیادی طور پر ڈبہ اسکیم چلانے والوں کا یہ نیٹ ورک عموماً منظم گروہوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو مختلف سطحوں پر کام کرتے ہیں۔ اس میں شامل افراد میں کال سینٹر ایجنٹس، جو لوگوں کو دھوکہ دینے کا کام کرتے ہیں۔ ٹیکنیکل ماہرین جو جعلی ویب سائٹس اور سافٹ ویئر تیار کرتے ہیں، منی لانڈرنگ نیٹ ورکس جو چوری شدہ رقم کو مختلف اکاؤنٹس میں تقسیم کر کے نکالتے ہیں۔ اکثر یہ نیٹ ورکس بین الاقوامی سطح پر کام کرتے ہیں اور کئی مواقع پر ایسے گروہوں کے بھارت، چین، نائیجیریا، ملائیشیا اور دیگر ممالک سے تعلقات سامنے آ چکے ہیں، کچھ دھوکہ دہی کی وارداتوں میں مقامی سہولت کاروں کا بھی کردار ہوتا ہے، جو بیرونی گروہوں کو مقامی بینک اکاؤنٹس، سم کارڈز اور شناختی دستاویزات فراہم کرتے ہیں۔ اب تک کراچی میں چلنے والے ان کال سینٹرز کی مکمل تعداد کسی کے پاس موجود نہیں ہے، کیونکہ اکثر یہ کام ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے رہائشی فلیٹس میں بھی کیا جارہا ہے۔ دوران تعلیم اکثر نوجوان پڑھائی کے اخراجات کو اٹھانے کے لیے ان کال سینٹر میں پارٹ ٹائم ملازمت اختیار کرتے ہیں، جن کو سروس دینے کے لیے بطور سیلیز مین ہائر کیا جاتا ہے، قانونی کال سینٹرز، جو واقعی اپنا کام ایمانداری سے کر رہے ہیں، وہ ملک میں ترسیلات ذر کا بڑا ذریعہ ہیں۔ گذشتہ دنوں کراچی میں ایک نجی بینک کی صارف کے ساتھ کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جنہیں ایک نامعلوم نمبر سے کال کی گئی اور ان کو کہا گیا کہ یہ کال آپ کو بینک سے موصول ہوئی ہے اور اکاؤنٹ میں کچھ تکنیکی تبدیلی کے باعث آپ سے معلومات درکار ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو ایک صارف نے بتایا ہے کہ انہیں بینک اکاؤنٹ نمبر اور بینک برانچ تک بالکل ٹھیک بتائی گئی تھیں، جس کے بعد موبائل پر موصول ہونے والا کوڈ مانگا گیا، جیسے ہی انہوں نے وہ کوڈ نمبر اس فراڈ کرنے والے شخص کو بتایا اگلے ہی لمحے تقریباً ساڑھے چار لاکھ روپے کی رقم ان کے اکاؤنٹ سے کسی دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کا میسج موصول ہوا اور رقم جس اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی گئی، وہ اکاؤنٹ نمبر بھی نامکمل تھا، تاکہ فراڈ کرنے والوں کا پتہ نہ لگایا جاسکے۔ واقعے کے فوری بعد صارف نے متعلقہ بینک سے رابطہ کیا، جس کے جواب میں بینک انتظامیہ نے اس واقعے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا۔ صارف نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے بات وہ کافی حد تک سہم گئی ہیں اور اب وہ آن لائن بیکنگ اور کسی بھی کیش والٹ کا استعمال نہیں کر رہی، جس کی بنیادی وجہ ڈیٹا کا غیر محفوظ ہونا ہے۔ ڈبہ اسکیم کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو پاتی؟ عبید شاہ ایک صحافی ہیں جو کہ گذشتہ کئی برس سے کرائم رپورٹنگ کر رہے ہیں، انہوں نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ یہ جعلساز زیادہ تر بین الاقوامی نیٹ ورکس سے جڑے ہوتے ہیں، جنہیں ٹریس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم، مقامی سطح پر بھی کئی وجوہات کی بنا پر کارروائی میں تاخیر ہوتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اکثر وہ جدید ٹولز اور مہارتیں نہیں ہوتیں، جو ایسے سائبر کرائمز کو روکنے کے لیے ضروری ہیں۔ اگر جعلساز کسی دوسرے ملک میں بیٹھے ہیں، تو ان کے خلاف کارروائی کے لیے بین الاقوامی تعاون درکار ہوتا ہے، جو ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ بعض صورتوں میں مقامی بینک ملازمین، ٹیلی کام ورکرز یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد خود ان گروہوں سے ملی بھگت رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے کارروائی میں رکاوٹ آتی ہے۔ عبید شاہ نے مزید بتایا ہے کہ ڈبہ اسکیم کا شکار ہونے والے بعض افراد کی رقم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کے نتیجے میں بازیاب بھی ہوئی، مگر یہ ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ اگر کسی متاثرہ شخص کی شکایت فوراً درج ہو، بینک اور حکام فوری کارروائی کریں، تو ٹرانزیکشن کو ریورس کیا جا سکتا ہے یا جعلسازوں کے اکاؤنٹس کو منجمد کر کے رقم واپس حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاہم، زیادہ تر کیسز میں جعلساز فوری طور پر رقم دوسرے اکاؤنٹس میں منتقل کر دیتے ہیں، جس سے بازیابی مشکل ہو جاتی ہے۔ ڈبہ اسکیم، جعلسازوں سے بچاؤ کس طرح ممکن ہے؟ سائبر سکیورٹی میں 20 سال کا تجربہ رکھنے والے سید فراز جاوید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات ہیک ہونے کے امکانات اکثر مختلف ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کرنے سے بڑھ جاتے ہیں، عام طور پر لوگ آن لائن شاپنگ کے لیے اپنے ڈیبٹ کارڈ کو ویب سائٹ پر اپلوڈ کردیتے ییں، جس کے نیتجے میں اس ویب سائٹ اور سوشل میڈیا
پاکستان میں کرپٹو انقلاب، وفاقی حکومت نے ’پاکستان کرپٹو کونسل‘ قائم کر دی

پاکستان میں کرپٹو کرنسی اور بلاک چین ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے بڑا فیصلہ کر لیا گیا، وفاقی حکومت نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں ’پاکستان کرپٹو کونسل‘ قائم کر دی، جو مؤثر پالیسی سازی، جدیدیت کے فروغ اور محفوظ مالیاتی نظام کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ نجی نشریاتی ادارے ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگزیب پاکستان کرپٹو کونسل کے سربراہ ہوں گے، جب کہ بلال بن ثاقب کو کونسل کا چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO) مقرر کیا گیا ہے۔ بلال بن ثاقب بلاک چین ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری حکمت عملی اور ڈیجیٹل جدت میں اپنی مہارت کے ذریعے اس اقدام کی قیادت کریں گے۔ پاکستان کرپٹو کونسل کے بورڈ ممبران میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر، چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن، وفاقی سیکریٹری قانون اور وفاقی سیکریٹری خزانہ شامل ہوں گے۔ کونسل کا مقصد کرپٹو کرنسی کو ریگولیٹ کرنے کے لیے واضح پالیسی سازی اور ضابطہ جاتی ہدایات مرتب کرنا ہے، مزید یہ کہ عالمی کرپٹو اور بلاک چین تنظیموں سے روابط قائم کر کے بین الاقوامی معیار کے مطابق ضوابط تشکیل دینا بھی کونسل کی ترجیحات میں شامل ہوگا۔ وزارت خزانہ کے مطابق کونسل مالیاتی ٹیکنالوجی، اسٹارٹ اپس، سرمایہ کاروں اور بلاک چین ڈویلپرز کے ساتھ مل کر جدت کو فروغ دے گی اور صارفین کے تحفظ کے لیے مضبوط قانونی فریم ورک تیار کرے گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کرپٹو کونسل کا قیام ملک میں بلاک چین ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل اثاثوں کے فروغ کے لیے ایک نمایاں پیش رفت ہے۔ اس اقدام سے پاکستان میں جدید مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی جائے گی، جو مستقبل میں معیشت کو ڈیجیٹل دور سے ہم آہنگ کرنے میں مدد دے گا۔
ٹیسلا کی قدر میں 45 فیصد کمی، ایلون مسک کی کمپنی بحران کا شکار کیوں؟

ٹیسلا کے اسٹاک کی قیمت تین ماہ میں تقریباً نصف رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود، سرمایہ کار اب بھی اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا ایلون مسک کی الیکٹرک وہیکل کمپنی اب بھی زیادہ قیمت پر چل رہی ہے۔ کمپنی کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن 17 دسمبر کو اپنی بلند ترین سطح 15کھرب ڈالر تک پہنچنے کے بعد 45 فیصد گر چکی ہے، جس سے وہ زیادہ تر منافع مٹ چکا ہے جو اس وقت حاصل ہوا تھا جب سی ای او مسک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی فتح کے لیے مالی تعاون فراہم کیا تھا۔ اس کے باوجود، ٹیسلا کی قدر اب بھی دنیا کی سب سے بڑی آٹوموٹیو اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، اگر روایتی مالیاتی پیمانوں کو دیکھا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر سرمایہ کار اور تجزیہ کار مسک کے اس مؤقف کو خرید چکے ہیں کہ دنیا کی سب سے قیمتی آٹومیکر دراصل ایک مصنوعی ذہانت کی جدت کار ہے جو جلد ہی روبوٹیکسی اور ہیومینائیڈ روبوٹس کی انقلابی دنیا متعارف کرائے گی۔ ٹیسلا کی الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت اس کی کل آمدنی کا تقریباً تمام حصہ بناتی ہے لیکن اس کے اسٹاک مارکیٹ ویلیو کا ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ اس کی اصل مالیت کا زیادہ تر انحصار خود مختار گاڑیوں کی امیدوں پر ہے، جنہیں ابھی تک فراہم نہیں کیا گیا، حالانکہ مسک 2016 سے ہر سال یہ وعدہ کر رہے ہیں کہ ڈرائیور لیس ٹیسلا اگلے سال تک آ جائے گی۔ دسمبر کے بعد سے اسٹاک میں کمی کی بنیادی وجوہات میں گاڑیوں کی فروخت اور منافع میں کمی، مسک کی سیاسی سرگرمیوں پر ہونے والے مظاہرے بشمول امریکی حکومت کے ملازمین کی بڑے پیمانے پر برطرفیاں، جنہیں وہ ایک سینئر ٹرمپ مشیر کے طور پر انجام دے رہے ہیں ۔ سرمایہ کاروں کی یہ تشویش شامل ہیں کہ سیاست میں مسک کی مصروفیت ان کی اصل کاروباری توجہ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس کے باوجود، الیکشن کے بعد سے ٹیسلا کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں اب بھی تقریباً 65 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جو کہ جنرل موٹرز کی مکمل مالیت سے بھی زیادہ ہے۔ ٹیسلا کی کل مارکیٹ ویلیو 8 کھرب 45 ارب ڈالر ہے، جو کہ اگلے نو سب سے زیادہ قیمتی آٹومیکرز کی مجموعی قدر سے بھی زیادہ ہے، حالانکہ ان کمپنیوں نے پچھلے سال تقریباً 4 کروڑ سے زائد گاڑیاں فروخت کی تھیں، جبکہ ٹیسلا نے صرف 18 لاکھ گاڑیاں بیچی تھیں۔ سرمایہ کاروں نے ہمیشہ ٹیسلا کے حالیہ منافع کے بجائے اس کے مستقبل کے وژن پر شرط لگائی ہے۔ تاہم، اس کی حقیقی کارکردگی اور تجزیہ کاروں کی ان امیدوں کے درمیان بڑھتا ہوا فرق جو ابھی تک حقیقت نہیں بنی ،کچھ ماہرین کو غیر منطقی جوش و خروش کے بارے میں خبردار کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
فورڈ نے الیکٹرک گاڑیوں کے مالکان کو بیٹری چارج نہ کرنے کی ہدایت کر دی

فورڈ نے اپنی مقبول کُوگا پلگ اِن ہائبرڈ فیملی کار کے لیے حفاظتی ری کال جاری کی ہے، کیونکہ بیٹری کے شارٹ سرکٹ ہونے کا خدشہ پایا گیا ہے۔ تاہم، کمپنی کا کہنا ہے کہ اس ممکنہ مسئلے کے حل کے لیے فی الحال کوئی درستگی دستیاب نہیں ہے۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی آٹو جائنٹ نے مالکان کو متنبہ کیا ہے کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوجاتا، وہ اپنی گاڑیوں کو چارج نہ کریں، اس کا مطلب ہے کہ ڈرائیورز پلگ اِن ہائبرڈ وہیکل رکھنے کے بڑے مالی فوائد اور اخراجات میں کمی کے امکانات سے محروم رہیں گے۔ کُوگا پلگ ان ہائبرڈ الیکٹرک گاڑی (پی ایچ وی ای)کے 26 ہزارسے زائد متاثرہ مالکان کو بھیجے گئے خطوط میں کمپنی نے کہا کہ فورڈ انجینئرز اس ممکنہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے نیا سافٹ ویئر تیار کر رہے ہیں جو کہ بیٹری کے تھرمل وینٹنگ کو متحرک کرسکتا ہے، جس سے گاڑی میں آگ لگنے کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے، اور چوٹ کے خطرے میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ کمپنی نے ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ براہ کرم اپنی گاڑی کو ہائی وولٹیج بیٹری چارج کرنے کے لیے مت لگائیں اور صرف آٹو ای وی موڈ کا استعمال کریں۔ یہ چارجنگ یا ڈرائیونگ کے دوران اس ممکنہ مسئلے کے واقع ہونے کو روکے گا۔ مالکان کو مطلع کیا گیا ہے کہ جب اس کا حل تیار ہوجائے گا، تو انہیں ایک اور خط موصول ہوگا۔ تاہم، رپورٹس کے مطابق، اس میں چند ماہ لگ سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ موجودہ نسل کی تمام کُوگا پی ایچ وی ای گاڑیوں کو متاثر کرتا ہے، جن میں 2.5 لیٹر پیٹرول انجن موجود ہے۔ اس وقت سڑکوں پر ایسی 26,328 گاڑیاں موجود ہیں۔ فورڈ کے ترجمان نے رائٹرز کو بتایا کہ اس کا حل دوسرا سہ ماہی مکمل ہونے سے پہلے دستیاب نہیں ہوگا، جس کا مطلب ہے کہ ڈرائیور جون تک اپنی پی ایچ وی ای کو چارج نہیں کر سکیں گے۔ کمپنی نے حفاظتی ری کال نوٹسز میں کہا کہ فورڈ مسلسل پیداوار کے عمل اور سروس میں موجود گاڑیوں کی نگرانی کرتا ہے۔ خط میں درج ہے کہ گاڑیوں کی کارکردگی کی نگرانی کے دوران، ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ کچھ کُوگا پی ایچ وی ای گاڑیوں میں ہائی وولٹیج بیٹری کے کچھ سیلز ممکنہ طور پر اندرونی شارٹ سرکٹ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اگر ہائی وولٹیج بیٹری سیل میں اندرونی شارٹ سرکٹ ہو جائے، تو آپ کو انسٹرومنٹ کلسٹر میں اسٹاپ سیفلی ناؤ پیغام اور وارننگ آئیکن نظر آئے گا۔ آپ کو گاڑی کی قوتِ حرکت ختم ہونے کا تجربہ بھی ہوسکتا ہے، جس سے حادثے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ تاہم، آپ کے پاس اب بھی 12 وولٹ کی لوازماتی سہولتیں، اسٹیئرنگ، اور بریک کنٹرول موجود ہوں گے۔ اس کے علاوہ، آپ کو بیٹری تھرمل وینٹنگ کا سامنا بھی ہوسکتا ہے، جس سے گاڑی میں آگ لگنے اور چوٹ لگنے کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ تھرمل وینٹنگ بیٹری پیک میں ایک حفاظتی فیچر ہوتا ہے جو کہ بیٹری سیلز کے اندر پیدا ہونے والی گیسوں کو مؤثر طریقے سے خارج کرتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب غیر معمولی حالات جیسے کہ اوور چارجنگ، زیادہ درجہ حرارت، یا شارٹ سرکٹ پیدا ہوجائے۔
ٹرمپ کی جانب سے انسانی جان بچانے کی تحقیق روکنے کے خلاف سائنسدان سڑکوں پر

ٹرمپ حکومت کی جانب سے انسانی جان بچانے کی تحقیق روکنے اور تحقیقاتی فنڈز میں کٹوتیوں کے خلاف سائنسدانوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر آگئی۔ اس کے علاوہ انتظامیہ عالمی ادارۂ صحت اور پیرس موسمیاتی معاہدے سے دستبردار ہوئی جبکہ صحت اور موسمیاتی تحقیق پر کام کرنے والے سینکڑوں وفاقی کارکنوں کو برطرف کرنے کی کوشش کی۔ محققین، ڈاکٹروں، انجینئرز، طلباء اور منتخب عہدیداروں نے نیویارک، واشنگٹن، بوسٹن، شکاگو، وسکونسن کی سڑکوں پر ریلیاں نکالیں اور حکومتی اقدامات کو ’سائنس پر حملہ‘ قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔ بوسٹن کے میساچوسٹس جنرل ہسپتال کے ایک محقق جیسی ہیٹنر نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ مجھے اتنا غصہ کبھی نہیں آیا، وہ ہر چیز کو آگ لگا رہے ہیں۔ انہوں نے صحت اور انسانی خدمات کے محکمے کے سربراہ کے طور پر مشہور ویکسین شکی رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کی تقرری پر ناگواری کا اظہار کیا اگر آپ کسی کو ناسا کا انچارج لگاتے ہیں جو اس تھیوری پر یقین کرتا ہے کہ زمین چپٹی ہے تو یہ ٹھیک نہیں۔ واشنگٹن میں مظاہروں کے دوران کچھ ایسے پلے کارڈز پڑھنے کا ملے جن پر لکھا تھا کہ سٹینڈ اپ فار سائنس۔ سائنس پر فنڈز لگائیں، ارپ پتیوں پر نہیں، یونیورسٹی کے محقق گروور جو عمر کے 50ویں حصے میں ہیں، نے کہا کہ اب جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ میں 30 برسوں سے تحقیق کر رہا ہوں اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ کبھی نہیں ہوا، وفاقی حکومت کے ناقابل معافی اقدامات کے طویل مدتی اثرات ہوں گے۔ بہت سے محققین نے اے ایف پی کو اپنی گرانٹس اور دیگر فنڈنگ کے مستقبل کے حوالے سے اپنے خدشات بتائے۔ نیورو سائنس میں ڈاکٹریٹ کی 28 سالہ طالبہ ربیکا گلیسن نے بتایا کہ مجھے گھر پر تعلیم حاصل کرنی چاہئے، بجائے اس کے کہ میں یہاں نوکری حاصل کرنے کے اپنے حق کا دفاع کروں۔ شارک کے تحفظ پر کام کرنے والی 34 سالہ ماحولیاتی سائنس دان چیلسی گرے نے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن سے منسلک ہونے کا خواب دیکھا تھا تاہم انہوں نے آئرش پاسپورٹ کی حصولی کا عمل شروع کر دیا ہے۔
واٹس ایپ میں نیا اے آئی فیچر متعارف، کیا فوائد حاصل ہوں گے؟

واٹس ایپ میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی ایک نیا دلچسپ فیچر متعارف کرا دیا گیا، جو گروپ چیٹس کے لیے پروفائل فوٹوز تیار کرنے میں مدد دے گا۔ وٹسپ بیٹا انفو کی رپورٹ کے مطابق اے آئی پر مبنی نیا فیچر متعارف کرایا گیا ہے، جو کہ واٹس ایپ کے بیٹا ورژن میں دستیاب ہے۔ اس فیچر کی بدولت صارفین کو میٹا اے آئی کے ذریعے اپنی مرضی کی منفرد گروپ پروفائل تصاویر بنانے میں آسانی ہوگی۔ واضح رہے کہ خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ فیچر صرف پرسنل پروفائل پکچرز کے لیے ہوگا، مگر اب واضح ہوا ہے کہ اسے گروپ چیٹس کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ ان صارفین کے لیے خاص طور پر مفید ثابت ہوگا جو اپنے گروپ کے لیے موزوں تصویر تلاش کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ مزید پڑھیں: “چین کا ٹیکنالوجی میں خودکفالت کی جانب اہم قدم، ملک بھر میں RISC-V چپس کے فروغ کی پالیسی متعارف کرانے کا فیصلہ” یاد رہے کہ اب صارفین اے آئی ٹیکنالوجی کی مدد سے گروپ کے تھیم کے مطابق منفرد اور دلچسپ پروفائل فوٹوز بنا سکیں گے۔ اس فیچر کو فی الحال محدود صارفین کے لیے جاری کیا گیا ہے، مگر رپورٹ کے مطابق جلد ہی اسے تمام صارفین کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ واٹس ایپ میٹا اے آئی انٹرفیس کو بھی مزید یوزر فرینڈلی بنا رہا ہے، تاکہ مختلف ٹولز تک تیز اور آسان رسائی ممکن ہو سکے۔ یہ اپڈیٹ میسجنگ پلیٹ فارم کے صارفین کے لیے ایک نیا اور تخلیقی تجربہ فراہم کرے گی۔
“چین کا ٹیکنالوجی میں خودکفالت کی جانب اہم قدم، ملک بھر میں RISC-V چپس کے فروغ کی پالیسی متعارف کرانے کا فیصلہ”

چین نے مغربی ملکوں کی ٹیکنالوجی پر انحصار کم کرنے اور مقامی سطح پر ڈیجیٹل خودکفالت کو فروغ دینے کے لیے ایک نئی پالیسی متعارف کرانے کی تیاری مکمل کر لی ہے، جس کے تحت ملک بھر میں اوپن سورس RISC-V چپس کے استعمال کو تیزی سے فروغ دیا جائے گا۔ اس حوالے سے تیار کی گئی پالیسی گائیڈ لائنز کو رواں ماہ کے آخر تک باضابطہ طور پر جاری کیے جانے کا امکان ہے، تاہم حتمی تاریخ میں ردوبدل ہو سکتا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق، یہ پالیسی چین کی آٹھ بڑی سرکاری تنظیموں کے اشتراک سے مرتب کی جا رہی ہے، جن میں سائبر اسپیس ایڈمنسٹریشن آف چائنا، چینی وزارت صنعت و انفارمیشن ٹیکنالوجی، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، اور چائنا نیشنل انٹیلیکچوئل پراپرٹی ایڈمنسٹریشن جیسے اہم ادارے شامل ہیں۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد چین کو چِپ ٹیکنالوجی میں مغربی کمپنیوں کے اثر و رسوخ سے آزاد کرنا اور مقامی سطح پر خودکفیل بنانا ہے۔ ماہرین کے مطابق، RISC-V چپس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اوپن سورس ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ کسی بھی مغربی کمپنی کی ملکیت نہیں، اور ان کے استعمال پر کسی قسم کی پابندی یا رائلٹی لاگو نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ چین، جو امریکی اور یورپی کمپنیوں کے تیار کردہ پروسیسرز پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے، اس ٹیکنالوجی کو تیزی سے اپنانے کی حکمت عملی تیار کر رہا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چین اور امریکہ کے درمیان سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی اور چپ مینوفیکچرنگ کے حوالے سے کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکہ نے حالیہ برسوں میں چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں، بالخصوص ہواوے اور دیگر سیمی کنڈکٹر فرمز پر پابندیاں عائد کی ہیں، تاکہ بیجنگ کی چِپ انڈسٹری کو محدود کیا جا سکے۔ اس کے جواب میں چین نے اپنی ٹیکنالوجی کو مزید خودمختار بنانے کی حکمت عملی پر عمل درآمد تیز کر دیا ہے۔ چینی حکومت کا ماننا ہے کہ RISC-V چپس کا زیادہ سے زیادہ استعمال مقامی کمپنیوں کو مغربی ٹیکنالوجی سے آزاد کرے گا اور قومی سیکیورٹی کے حوالے سے بھی یہ ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، اس پالیسی کے تحت چین کی لوکل ٹیک انڈسٹری کو عالمی سطح پر مزید مسابقتی بنانے کی کوشش کی جائے گی، تاکہ مستقبل میں ملک کی معیشت ڈیجیٹل سطح پر خودکفیل ہو سکے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس پالیسی کے نفاذ کے بعد چینی کمپنیاں، تعلیمی ادارے اور ریسرچ سینٹرز RISC-V چپس کے استعمال کو ترجیح دیں گے، جس سے نہ صرف چِپ مینوفیکچرنگ کی لاگت کم ہو گی بلکہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے نئی اختراعات اور ایجادات کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔ یہ اقدام چین کی طویل المدتی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد ملک کو سیمی کنڈکٹرز کے میدان میں عالمی طاقت کے طور پر ابھارنا ہے۔
سیف سٹی کا اقدام: شہری اپنی شکایات کی پیش رفت باآسانی ٹریک کریں، مگر کیسے؟

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کی جانب سے 15 ہیلپ لائن پر موصول ہونے والی کالز کے مؤثر اور بروقت ازالے کے لیے ایک جدید ٹریکنگ پورٹل متعارف کروایا دیا گیا، جس سے شہری اپنی شکایات کی پیش رفت با آسانی ٹریک کر سکیں گے۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز کی خصوصی ہدایت پر سیف سٹیز اتھارٹی نے جدید ٹریکنگ پورٹل متعارف کیا ہے، جس کا بنیادی مقصد عوامی فلاح کے لیے قائم کردہ مراکز کے نظام میں شفافیت کو یقینی بنانا اور شہریوں کو ان کی درخواستوں اور شکایات کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ رکھنا ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ جدید پورٹل ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن، ورچوئل سنٹر فار چائلڈ سیفٹی اور ورچوئل سنٹر فار مائناریٹیز کے تحت درج کی گئی شکایات کی تازہ ترین معلومات فراہم کرے گا۔ شہری اب اپنی شکایات اور درخواستوں کی پیش رفت کو مؤثر اور آسان انداز میں ٹریک کر سکیں گے۔ پورٹل کے استعمال کے لیے ہر درخواست گزار کو ایک یوزر نیم اور پاسورڈ فراہم کیا جائے گا، جس کے ذریعے وہ کسی بھی وقت اپنی شکایت کی موجودہ صورتحال چیک کر سکتے ہیں اور اگر شہری اپنی درخواست یا سروس کے حوالے سے مطمئن نہ ہوں تو وہ فیڈ بیک دے کر مزید شکایات درج کروا سکتے ہیں۔ مزید پڑھیں: لاہور میں سرخ کے بعد بسوں کا ’سبزانقلاب‘ پنجاب حکومت چاہتی کیا ہے؟ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کا یہ اقدام شہریوں کو بروقت مدد فراہم کرنے اور عوامی فلاح کے لیے قائم کردہ مراکز کے نظام میں شفافیت کو فروغ دینے کے عزم کا عکاس ہے۔ شہریوں سے درخواست ہے کہ وہ فوری مدد اور شکایات کے حل کے لیے ٹریکنگ پورٹل کا استعمال کریں۔ ٹریکنگ پورٹل: یہاں پر کلک کریں
امریکی نجی خلائی جہاز “بلیو گھوسٹ مشن” کی چاند پر کامیاب لینڈنگ

امریکہ کے نجی خلائی جہاز “فائر فلائی ایرو اسپیس” کے بلیو گھوسٹ مشن نے طویل خلائی سفر کے بعد چاند پر اترنے میں پہلی کامیابی حاصل کر لی ہے، جہاز نے اتوار کے روز بغیر عملے کے چاند پر پہلی بار اترنے میں کامیابی حاصل کی، جو چاند پر اس طرح کی دوسری کمرشیل لینڈنگ ہے۔ فائر فلائی ایرو اسپیس کے چاند پر اترنے والے خلائی جہاز ‘بلیو گھوسٹ’ نے چاند کی زمین کی طرف شمال مشرقی کونے میں ایک بڑے طاس، میری کریزیئم، پر ایک قدیم آتش فشاں کے علاقے کے قریب حصے کو چھوا۔ مشن کنٹرول نے اس لمحے کے بعد اعلان کیا، “ہم چاند پر ہیں”۔ اس نے مزید کہا خلائی جہاز “مستحکم” ہے۔یہ مشن اخراجات کو کم کرنے اور آرٹیمیس پروگرام کی حمایت کے لیے صنعت کے ساتھ امریکی خلائی تحقیقی ایجنسی ناسا کی شراکت کا حصہ ہے، جو خلا بازوں کو چاند پر واپس بھیجنے کی کوشش کرتا ہے۔ ناسا کی قائم مقام ڈائریکٹر جینیٹ پیٹرو نے کہا کہ “ہم امریکہ کو سب سے آگے رکھنے جا رہے ہیں، ہم امریکہ کو فخر کا موقع فراہم کریں گے، ہم یہ امریکی شہریوں کے لیے کر رہے ہیں۔” بلیو گھوسٹ کو جنوری کے وسط میں فلوریڈا سے لانچ کیا گیا تھا، جس میں ناسا سے چاند کی سطح پر 10 تجربات کیے جائیں گے، خلائی ایجنسی نے اسے چاند پر بھیجنے کے لیے 101 ملین ڈالر اور سائنسی تحقیقات کے لیے مزید 44 ملین ڈالر ادا کیے، چار ٹانگوں والا بلیو گھوسٹ تقریباً ایک کمپیکٹ کار کے سائز کا ہے۔ یہ خلائی جہاز ایک ویکوم کو بھی خلا میں لے کر گیا ہے جو تجزیے کے لیے چاند کی مٹی کو اپنے اندر کھینچ لے گا۔ اس پر ایک ڈرل بھی ہے جو سطح کے نیچے 10 فٹ (3 میٹر) تک کی گہرائی میں درجہ حرارت کی پیمائش کر سکتی ہے۔ یہ تحقیقات تقریباﹰ دو ہفتے تک چلنے کی امید ہے۔ اس خلائی جہاز نے اپنے سفر کے دوران زمین اور چاند کی شاندار تصاویر حاصل کیں۔ ایسا مکمل گرہن کی ہائی ڈیفینیشن امیجری کیپچر کرنے کی وجہ سے ہوا، جب زمین نے سورج کی روشنی کو چاند پر پڑنے سے روکا۔ یہ 16 مارچ کو قمری غروب آفتاب کو ریکارڈ کرے گا، جس سے یہ پتہ لگانے میں مدد ملے گی کہ سورج کے زیر اثر سطح پر دھول کیسے اٹھتی ہے۔ گزشتہ سال انٹیوٹیو مشینز اوڈیسیئس لینڈر کی کامیابی کے بعد، یہ دوسری پرائیویٹ کمپنی ہے جس نے چاند پر آسان لینڈنگ کی۔گزشتہ لینڈنگ میں کچھ پریشانیاں بھی پیش آئی تھیں۔ ہیوسٹن میں قائم فرم اس سال ایک اور خلائی جہاز چاند پر بھیج رہی ہے، جس کی لینڈنگ جمعرات کو متوقع ہے، حکومتی سطح پر پانچ ممالک اب تک چاند پر خلائی جہازوں کی کامیاب لینڈنگ کر چکے ہیں۔ ان میں سابقہ سوویت یونین، امریکہ، چین، بھارت اور جاپان شامل ہیں۔
پرائیویسی کے لیے خطرہ بننے پر برطانیہ میں ٹک ٹاک کے خلاف تحقیقات شروع

برطانیہ نے صارفین اور بچوں کی نجی معلومات تک رسائی کے انکشافات کے بعد معروف چینی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ برطانیہ کے پرائیویسی واچ ڈاگ “دی انفارمیشن کمشنر آفس ” نے پیر کے روز ٹک ٹاک کے حوالے سے تحقیقات شروع کی ہیں کہ کیسے وہ بچوں کی پرائیویسی کے خطرات کو جنم دے رہی ہے۔ ٹک ٹاپ پر صارفین کو ایپ کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے ترجیحی کانٹیٹ کو ویڈیوز کا حصہ بنایا جاتا ہے اور پھر وہی کانٹینٹ بچوں کے پلیٹ فارم پر شیئر کیا جاتا ہے جس سے ان کے لیے سیکیورٹی رسک بڑھ جاتے ہیں۔ برطانوی واچ ڈاگ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ہم تحقیقات کر رہے ہیں کہ کیسے چینی کمپنی بائیٹ ڈانس کی شارٹ ویڈیوز سے 13 سے 17 سال کے بچوں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہے۔ معروف سوشل پلیٹ فارم “ریڈ اٹ” پر بھی ٹک ٹاک کی جانب سے بچوں کی پرائیویسی کے حوالے سے خطرات کو زیر بحث لایا گیا تھا جس کے بعد واچ ڈاگ نے تحقیقات کا آغاز کیا۔ واضح رہے کہ امریکہ میں بھی ٹک ٹاک کے حوالے سے خدشات سامنے آنے کے بعد حکومت کی جانب سے متعدد مرتبہ اس ایپ پر پابندی عائد کی گئی ہے، ٹک ٹاک کے حوالے سے عام طور پر تین خدشات نمایاں رہے ہیں جن میں سب سے پہلا صارفین کا ڈیٹا جمع کرنا ہے۔ ٹِک ٹاک کے ناقدین کا کہنا ہے کہ کمپنی بڑے پیمانے پر صارفین کا ڈیٹا جمع کر رہی ہے۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے اکثر جولائی 2022 میں آسٹریلیا کی سائبر کمپنی ’انٹرنیٹ 0۔2‘ کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔ ٹِک ٹاک کے سورس کوڈ پر تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ایپ ’بڑے پیمانے پر ڈیٹا جمع‘ کرتی ہے۔ سائبر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹِک ٹاک صارفین کی لوکیشن، ڈیوائس کی قسم اور اس ڈیوائس میں مزید کون سی ایپس موجود ہیں اس حوالے سے بھی معلومات جمع کرتا ہے۔ لیکن ’سٹیزن لیب‘ کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق ٹِک ٹاک ’دیگر مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرز پر ہی اُسی قسم کا ڈیٹا جمع کرتی ہے جس سے صارفین کے موڈ کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکے۔ ناقدین کو ٹِک ٹاک سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ بیجنگ میں واقع کمپنی ’بائٹ ڈانس‘ کی ملکیت ہے اور واحد سوشل میڈیا سٹریمنگ ایپ ہے جس کا تعلق امریکہ سے نہیں۔ اس کے علاوہ مثال کے طور پر فیس بُک، انسٹاگرام، سنیپ چیٹ اور یوٹیوب بھی ٹِک ٹاک کی طرح ہی صارفین کا ڈیٹا حاصل کرتی ہیں لیکن یہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز امریکی کمپنیوں کی ملکیت ہیں۔ ٹِک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے لاگو کیے گئے قوانین ’ایسی کسی بھی غلط معلومات پر پابندی عائد کرتے ہیں جن سے کسی بھی کمینوٹی یا لوگوں کو نقصان پہنچے۔ نومبر 2022 میں فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے امریکی اراکینِ کانگریس کو بتایا تھا کہ چینی حکومت (ٹِک ٹاک کے) الگوریتھم کو کنٹرول کرسکتی ہے جس کا استعمال ذہن سازی کے آپریشنز میں کیا جا سکتا ہے، اس کے بعد سے اس دعوے کو بار بار دُہرایا جاتا رہا ہے۔