بلند پرواز، پرفیکٹ نشانہ: وہ طیارہ جو جنگ کا نقشہ بدل سکتا ہے

J 35 missile

حالیہ پاکستان-انڈیا کشیدگی کے بعد سے پاکستان اپنے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے چین کے جے-35 اسٹیلتھ لڑاکا طیاروں کی خریداری کے معاہدے کو حتمی شکل دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی کے ’ٹی ایف-ایکس کاآن‘ جیٹ میں بھی گہری دلچسپی ظاہر کررہا ہے۔ دوسری جانب انڈیا ‘ایڈوانسڈ میڈیم کومبیٹ ایئرکرافٹ (اے ایم سی اے)’ کے علاوہ ممکنہ طور پر روسی ایس یو-57 اور امریکی ایف-35 جیسے جدید طیاروں کی خریداری کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ حالیہ فضائی ناکامیوں کے پس منظر میں یہ بڑھتی ہوئی اسلحہ کی دوڑ جنوبی ایشیا کے عسکری توازن کو ازسرنو تشکیل دے سکتی ہے۔ جے – 35 اور انڈین رافیل طیاروں کا موازنہ کرتے ہوئے ماہرعالمی امور ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ  جے-35 کی شمولیت پاکستان کے لیے ایک اسٹریٹیجک بریک تھرو ہو سکتی ہے۔ یہ انڈیا کے رافیل اور ایس یو -57کے مقابلے میں اسٹیلتھ، سینسر فیوژن اور نیٹ ورک سینٹرک وار فیئر میں نمایاں برتری رکھتا ہے۔ یہ نہ صرف جے -35  نہ صرف توازن قائم کرے گا بلکہ انڈیا کی فضائی برتری کے دعووں کو چیلنج بھی کرے گا۔ پاکستان نے باضابطہ طور پر چین سے 40 جے 35 اسٹیلٹھ پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کی خریداری کی منظوری دے دی ہے، جن کی ترسیل آئندہ 24 ماہ میں متوقع ہے۔ پاکستانی فضائیہ کے پائلٹس پہلے ہی چین میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر جے-35 طیارے پاکستان کے فضائی بیڑے میں شامل ہو جاتے ہیں تو خطے میں فضائی طاقت کا توازن وقتی طور پر تبدیل ہو سکتا ہے،کم از کم اُس وقت تک جب تک انڈیا اپنی اسٹیلتھ صلاحیت حاصل نہ کر لے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار میاں محمد عرفان نے کہا ہےکہ اسٹیلتھ طیارے روایتی ریڈار اور فضائی دفاعی نظاموں کے لیے سنگین چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ ان کی کم ریڈار سگنیچر اور جدید الیکٹرانک وارفیئر صلاحیتیں دشمن کی ابتدائی دفاعی لائنز کو بے اثر کر سکتی ہیں۔ خطے میں ان کی تعیناتی موجودہ دفاعی توازن کو یکسر بدل سکتی ہے۔ ترکیہ  کے “کاآن پی او” کی پہلی آزمائشی پرواز کے بعد پاکستان ‘ٹی ایف ایک’ پروگرام پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے تاکہ اسے ایک متبادل اسٹیلتھ آپشن کے طور پر استعمال کیا جا سکے،یہ طیارہ دو انجنوں پر مشتمل ہے اور اس کی چُستی ایف-22 سے مشابہت رکھتی ہے۔ انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات کی ممکنہ دلچسپی کے ساتھ پاکستان کی شمولیت ترکی کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط کر سکتی ہے۔ مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی محاصرہ جاری: بھوک سے مزید 326 فلسطینی شہید انڈیا کا ‘اے ایم سی اے’منصوبہ، جس کے لیے 15,000 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے، 2035 تک ایک ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیارے کو فضائیہ میں شامل کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق و ترقی میں پیچیدگیوں کے باعث یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے انڈین فضائیہ کے اعلیٰ حکام مبینہ طور پر ایسے ثابت شدہ پلیٹ فارمز کی ہنگامی بنیادوں پر خریداری پر غور کر رہے ہیں، خاص طور پر اگر پاکستان کے جے-35 طیارے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ جے-35 کئی ففتھ جنریشن فیچرز جیسے لو آوبزرویبلٹی، ایڈوانسڈ ایویونکس اور انٹیگریٹڈ وار فیئر سسٹمز رکھتا ہے، تاہم انجن ٹیکنالوجی اور انڈیجنس ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے کچھ تکنیکی تحفظات موجود ہیں۔ اگرچہ جے-35 مکمل طور پر ایف -35 یا ایف -22 کا ہم پلہ نہیں، لیکن ریجنل تھیٹر میں یہ ایک مؤثر ففتھ جنریشن پلیٹ فارم ضرور ہے۔ اگر انڈیا اے ایم سی اے اور ایس یو 57 جیسے طیارے خرید لیتا  ہے تو پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور اس سے انڈیا کو برتری حاصل ہو جائے گی۔ سینئر تجزیہ کار میاں محمد عرفان نے کہا  ہے کہ جنگ میں جدید آلات بہت معنی رکھتے ہیں مگر برتری کا دارومدار تربیت، انٹیگریشن اور جنگی حکمت عملی پر ہوتا ہے، انڈیا جتنے بھی بڑے جدید آلات لے آئے لیکن پاکستان کی فضائیہ کا مقابلا نہیں کر سکتا، پاکستانی پائلٹ اپنے جذبوں سے طیاروں کو اڑاتے  ہیں جوکہ دشمن کےلیے بھاری ثابت ہوتے ہیں۔ لازمی پڑھیں: خضدار حملہ، 4 بچوں سمیت 6 جاں بحق: ’انڈیا کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا جائے گا‘ فروری 2025 میں امریکہ نے انڈیا کو ایف-35 طیاروں کی فروخت کی باضابطہ پیشکش کی، جو کہ ایک نئے دفاعی فریم ورک کا حصہ ہے۔ اس پیشکش کو اگرچہ لاگت کے باعث تنقید کا سامنا ہے، تاہم یہ روس سے پالیسی کی ممکنہ تبدیلی کا عندیہ بھی ہے، جس سے پاکستانی فضائیہ کو برتری حاصل ہو گی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا ہےکہ اے ایم سی اے پروگرام کی تاخیر انڈیا کے لیے تکنیکی و عملی نقصان ہے، جب کہ  پاکستان کے لیے یہ ایک قیمتی اسٹریٹیجک ونڈو ہے۔ اگر پاکستان جے-35 جیسے ففتھ جنریشن طیارے بروقت شامل کر لیتا ہے تو کم از کم اگلی دہائی تک اسے فضائی برتری میں سبقت حاصل رہ سکتی ہے۔ عالمی خبررساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق روس نے انڈیا کو موجودہ ایس  ایو-30 طیاروں کی مقامی پیداوار کے ساتھ ساتھ ایس یو-57 اسٹیلتھ طیاروں کی تیاری کی پیشکش کی ہے، جس میں مکمل تکنیکی منتقلی شامل ہے۔ اگر انڈیا اور پاکستان اسی طرح  ہتھیاروں کو اکٹھاکرتے رہے تو اس سے نا صرف دونوں ممالک کو نقصان ہو گا بلکہ پورے ایشیا کے لیے خطرناک مور بن جائے گا۔ لازمی پڑھیں: جب تک غزہ کے تمام علاقے مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں نہیں آ جاتے، جنگ جاری رہے گی، نیتن یاہو میاں محمد عرفان کا کہنا ہےکہ انڈیااور پاکستان کی جانب سے جدید ہتھیاروں کی دوڑ جنوبی ایشیا کے لیے ایک خطرناک موڑ کی علامت ہے۔ یہ اسلحہ جمع کرنا اسٹریٹیجک عدم توازن، غلط فہمیوں اور حادثاتی جنگ کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ علاقائی امن و استحکام کے لیے اس رجحان کا بروقت جائزہ اور سفارتی توازن ناگزیر ہو چکا ہے

سستا، کارآمد اور کثیرالمقاصد: جے ایف-17 تھنڈر عالمی منڈی میں اپنی جگہ کیسے بنا رہا ہے؟

Jf 17 thunder

یورپی اور امریکی اسلحہ ساز اداروں کے مقابلے میں پاکستان کا تیار کردہ جے ایف-17 تھنڈر لڑاکا طیارہ، پاکستان-انڈیا کشیدگی کے بعد سے ہی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ کیا آئندہ افریقہ، ایشیا یا قفقاز میں کوئی جنگ پاکستان کے بنائے گئے طیارے کے ساتھ لڑی جائے گی؟ یہ سوال اب محض قیاس آرائی نہیں رہا بلکہ ایک سنجیدہ تزویراتی امکان بن چکا ہے۔ نائجیریا، میانمار اور آذربائیجان جیسے ممالک پہلے ہی جے ایف-17 کو اپنے بیڑے میں شامل کر چکے ہیں، جب کہ بنگلہ دیش، مصر، ارجنٹائن اور بولیویا جیسے ممالک اس کی خریداری کے امکانات کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ 2016 میں نائجیریا نے تین جے ایف-17 طیاروں کا آرڈر دیا، جو مارچ 2021 میں 184.3 ملین ڈالر کے معاہدے کے تحت فراہم کیے گئے۔ ان طیاروں کو انسداد دہشت گردی کارروائیوں میں مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر ان کی کارکردگی توقعات پر پوری اتری تو نائجیریا مزید 40 طیاروں کا آرڈر بھی دے سکتا ہے۔ نجی آئی ٹی کمپنی ‘کوڈنگ فرسٹ’ کے سی ای او محمد سکندر حیات ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہےکہ جے ایف-17 کی عالمی مانگ پاکستان کے لیے دفاعی سفارت کاری کو مضبوط کرنے کا سنہری موقع ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خطے میں انڈیا یا دیگر حریف ممالک کے خدشات کو بڑھا کر کشیدگی میں اضافہ بھی کر سکتا ہے، اس لیے توازن اور احتیاط ضروری ہے۔ پاکستانی فضائیہ کے انسٹرکٹرز کے ساتھ نائجیریا کے پائلٹ اور ٹیکنیشنز کی مشترکہ تربیت اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ جے ایف-17 ایک کم لاگت، آسانی سے قابلِ استعمال اور مؤثر جنگی پلیٹ فارم ہے۔ میانمار نے جولائی 2015 میں 560 ملین ڈالر میں 16 جے ایف-17 بلاک-2 طیاروں کا آرڈر دیا۔ پہلا بیچ 2018 کے آخر میں میانمار پہنچا۔ اگرچہ حالیہ رپورٹس میں تکنیکی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے، تاہم میانمار اب بھی اس طیارے کی کم لاگت اور کثیر المقاصد صلاحیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ستمبر 2024 میں آذربائیجان نے 1.6 ارب ڈالر کے معاہدے کے تحت 14 جے ایف-17 بلاک-3 طیارے، تربیت اور سپورٹ سسٹمز کے ساتھ حاصل کیے۔ قفقاز کے اس متنازعہ خطے میں یہ معاہدہ جے ایف-17 کی تزویراتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: پاکستان یا پھر انڈیا، ففتھ جنریشن طیارہ پہلے کون لائے گا؟ جنوری 2025 میں بنگلہ دیش کا ایک اعلیٰ سطحی عسکری وفد اسلام آباد پہنچا۔ اطلاعات ہیں کہ بنگلہ دیش 32 جے ایف-17 طیارے خریدنے پر غور کر رہا ہے تاکہ اپنی فضائیہ کو جدید بنایا جا سکے۔ اس پیش رفت نے دہلی کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ بنگلہ دیش کا چین اور پاکستان کی طرف اسٹریٹیجک جھکاؤ ظاہر ہوتا ہے۔ سکندر حیات کا کہنا ہے کہ جے ایف-17 کی کامیابی بنیادی طور پر اس کی کم قیمت، آسان دیکھ بھال اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی پیشکش پر مبنی ہے، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے پرکشش ہے۔ تاہم، F-16، رافال اور گرِپن جیسے مغربی طیارے اب بھی ٹیکنالوجی، رینج اور سینسرز کے لحاظ سے برتری رکھتے ہیں۔ جے ایف-17 ایک متبادل ضرور ہے، مگر ابھی اسے مکمل طور پر مغربی طیاروں کا ہم پلہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس معاہدے میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور لوکل اسمبلنگ کی شقیں بھی شامل ہو سکتی ہیں، جو بنگلہ دیش کی دفاعی صنعت کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں گی۔ ارجنٹائن ایک عرصے سے اپنے پرانے میرَاج طیاروں کی جگہ نئے لڑاکا طیاروں کی تلاش میں ہے۔ جے ایف-17 بلاک-3، انڈین تیجس Mk-2 اور استعمال شدہ F-16s اس کی فہرست میں شامل تھے۔ بالآخر ارجنٹائن نے ڈنمارک سے F-16s حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، مگر جے ایف-17 اب بھی مستقبل کے اپ گریڈ پلانز میں ایک اہم امیدوار ہے۔ 2015 میں مصر کے عسکری وفود نے پاکستان کی جے ایف-17 پیداواری لائنوں کا دورہ کیا۔ قیمت کے اعتبار سے یہ طیارہ مصر کے لیے موزوں تھا، مگر بجٹ اور جیوپالیٹیکل وجوہات کی وجہ سے معاہدہ التواء کا شکار رہا۔ بولیویا بھی بلاک-3 طیاروں میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ اپنے پہاڑی اور جنگلاتی علاقوں کی فضائی نگرانی مؤثر انداز میں کر سکے۔ تاہم ابھی تک مذاکرات ابتدائی مراحل میں ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی درخواست پر بلاول بھٹو کا عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا اعلان عوامی حلقوں میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا بنگلہ دیش، ارجنٹائن یا بولیویا جیسے ممالک کے ساتھ جے ایف-17 کے معاہدے پاکستان کی دفاعی برآمدات میں پائیدار اضافہ لا سکتے ہیں؟ اس حوالے سے ایڈوکیٹ تقویم چانڈیو نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جی ہاں! اگر یہ معاہدے حتمی شکل اختیار کرتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے دفاعی برآمدات میں پائیدار اضافے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر بنگلہ دیش جیسے قریبی اور اہم ملک کے ساتھ معاہدہ نہ صرف مالی فوائد دے گا بلکہ پاکستان کی دفاعی صنعت کے لیے اعتماد کا اظہار بھی ہوگا۔ طویل مدتی پائیداری کا انحصار معیار، بعد از فروخت سروس اور جیوپولیٹیکل حالات پر ہوگا۔ پیرو نے بھی خطے میں سویڈن کے گرِپن طیاروں کی فروخت کے بعد جے ایف-17 کو ایک متبادل کے طور پر زیر غور لایا۔ عراق اور میکسیکو جیسے ممالک بھی غیر رسمی طور پر جے ایف-17 میں دلچسپی رکھتے ہیں، مگر امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے مسابقتی پیشکشیں صورتحال کو پیچیدہ بناتی ہیں۔ جہاں مغربی 4.5 جنریشن طیارے 80 سے 100 ملین ڈالر فی یونٹ کی لاگت رکھتے ہیں، وہیں جے ایف-17 کی قیمت 25 سے 30 ملین ڈالر کے درمیان ہے۔ اس کے کم ایندھن خرچ، سادہ الیکٹرانکس اور مقامی مرمت کے قابل ڈیزائن کی وجہ سے اس کے آپریشنل اخراجات 30 سے 40 فیصد کم ہیں۔ یہ طیارہ فضائی لڑائی، زمینی حملے، اینٹی شپ مشن، ریکانیسنس اور دیگر کئی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ بہت سے ممالک اسے ایک “jack-of-all-trades” پلیٹ فارم سمجھتے ہیں جو ان کی دفاعی ضروریات کو بآسانی پورا کر سکتا ہے۔ ضرور پڑھیں: انڈین ٹریول وی لاگر جیوتی ملہوترا پاکستان کے

واٹس ایپ پر اسٹیٹس شیئرنگ کا فیچر، کیا صارفین کی پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے؟

Watsap feature

میٹا کی ملکیت مقبول ترین میسجنگ ایپلی کیشن واٹس ایپ ایک اور اپڈیٹ کے ساتھ میدان میں آ گئی ہے جس کا مقصد صارفین کو اسٹیٹس پوسٹس پر مزید رازداری اور کنٹرول دینا ہے۔ ٹیکنالوجی ذرائع کے مطابق واٹس ایپ نے “اسٹیٹس فارورڈنگ” کے نام سے ایک نیا فیچر متعارف کرانے کی تیاری کر لی ہے جو سب سے پہلے اینڈرائیڈ بیٹا ورژن 2.25.16.16 میں دیکھا گیا۔ یہ فیچر آئندہ چند ہفتوں میں عالمی سطح پر عام صارفین کے لیے بھی دستیاب ہونے کا امکان ہے۔ نئے فیچر کے تحت صارفین کو اسٹیٹس پرائیویسی سیٹنگز میں ایک نیا “Allow Reshare” ٹوگل بٹن فراہم کیا جائے گا جو یہ طے کرے گا کہ آیا آپ کے کانٹیکٹس آپ کا اسٹیٹس آگے شیئر کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اگر یہ سوئچ آف کر دیا جائے تو ناظرین کی اسکرین پر اسٹیٹس کے نیچے سے فارورڈ آئیکن مکمل طور پر غائب ہو جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر اس فیچر کو آن رکھا جائے تو آپ کے اسٹیٹس کو آپ کے کانٹیکٹس نہ صرف اپنی چیٹس میں شیئر کر سکیں گے بلکہ اسے اپنی اسٹیٹس فیڈ میں بھی شامل کر سکیں گے۔ تاہم، صارفین کی پرائیویسی کا خاص خیال رکھتے ہوئے شیئر کی جانے والی اسٹیٹس کاپی میں بھیجنے والے کا فون نمبر اور پروفائل کی تفصیلات پوشیدہ رہیں گی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل صارفین صرف یہی طے کر سکتے تھے کہ ان کا اسٹیٹس کون دیکھ سکتا ہے مگر اب واٹس ایپ نے اسٹیٹس کی ری شیئرنگ پر بھی کنٹرول فراہم کر کے صارفین کو ایک نیا تحفظ دیا ہے۔ مزید پڑھیں: پاکستان، انڈیا کشیدگی: ’اے آئی ہتھیاروں کے بڑھتے استعمال سے جنگ کی نوعیت بدل رہی ہے‘

پاکستان، انڈیا کشیدگی: ’اے آئی ہتھیاروں کے بڑھتے استعمال سے جنگ کی نوعیت بدل رہی ہے‘

Ai wapons

ریٹائرڈ ایئر ایئر کموڈور زاہد الحسن کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت( اے آئی )پر مبنی مہلک خودمختار ہتھیاروں کے نظام دنیا بھر میں جنگ کی نوعیت کو تیزی سے تبدیل کر رہے ہیں، جس سے نہ صرف فیصلہ سازی میں مشینوں کا کردار بڑھ رہا ہے بلکہ انسانی جانوں کو لاحق خطرات میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ زائد الحسن کا کہنا ہے کہ اگرچہ جنگ کی بنیادی نوعیت جو تشدد، موقع اور عقلیت پر مبنی ہے  صدیوں سے تبدیل نہیں ہوئی، تاہم جنگ کا کردار وقت، ٹیکنالوجی، جیو پولیٹکس اور سماجی اصولوں کے اثرات سے مسلسل تبدیل ہو رہا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اے آئی پر مبنی ہتھیار اب میدان جنگ میں خودمختار طور پر اہداف کی شناخت، لاک اور تباہی کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو کہ روایتی انسانی کنٹرول کو کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ان خودمختار نظاموں کی بے قابو ترقی نہ صرف اخلاقی سوالات کو جنم دے رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر بےقابو جنگوں کے خدشات کو بھی بڑھا رہی ہے۔ زاہد الحسن نے اقوام متحدہ اور عالمی تحقیقی اداروں کے حوالوں سے کہا کہ کئی ممالک اور ان کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے اے آئی پر مبنی ہتھیاری نظاموں میں سبقت حاصل کرنے کی دوڑ میں شریک ہیں۔ ان کے مطابق 2017 میں اقوام متحدہ نے ایسی ہی پیشرفت کی نشاندہی کی تھی، جو بالآخر بےقابو جنگ کے حقیقی خطرے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ انہوں نے غزہ کی حالیہ جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی دفاعی افواج (اے ڈی ایف)نے اے آئی پر مبنی ٹارگٹنگ سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے دسمبر 2023 میں ایک ہی دن میں 100 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے نتیجے میں 360,000 عمارتیں تباہ ہوئیں اور 50ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ یہ اقدام بین الاقوامی قوانین، خاص طور پر 1949 کے جنیوا کنونشن، کی کھلی خلاف ورزی تصور کیا جا رہا ہے۔ ریٹائرڈ ایئر ایئر کموڈورزاہد الحسن نے کہاکہ امریکہ، چین، اور دیگر ٹیکنالوجی سے مالامال اقوام اے آئی کو ایک اسٹریٹجک ٹیکنالوجی قرار دے کر عسکری برتری کے لیے بھرپور سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ چین نے 2030 تک اے آئی میں عالمی رہنما بننے کا ہدف مقرر کیا ہے، جب کہ امریکہ نے تیسری آفسیٹ حکمت عملیکے تحت خودمختار ہتھیاروں اور ڈرون سوارمز کی تیاری کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ زاہد الحسن کے مطابق یہ پیشرفت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ جنگ کے میدان میں انسانی کردار محدود ہوتا جا رہا ہے اور مشینی خودمختاری کی بنیاد پر جنگی فیصلے کیے جا رہے ہیں، جو عالمی امن و استحکام کے لیے انتہائی خطرناک رجحان ہے۔

آئی ایم ایف کا پاکستان سے آٹو انڈسٹری پر ٹیرف تحفظ کم کرنے کا مطالبہ

Imf

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ سے قبل آٹو انڈسٹری کو حاصل غیرمعمولی ٹیرف تحفظ میں کمی کرے اور استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد کی اجازت دے۔ خبر ارساں ویب سائیٹ پرافٹ کے مطابق  آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ پاکستان کا آٹو سیکٹر غیر ضروری طور پر تحفظ یافتہ ہے، جہاں مقامی طور پر تیار کی جانے والی گاڑیوں پر کسٹمز ڈیوٹی اور دیگر ٹیرف 40 فیصد سے بھی زائد ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اس بلند حفاظتی دیوار نے اس شعبے کو غیر مسابقتی اور کم مؤثر بنا دیا ہے، جس کا بالآخر نقصان صارفین کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ مقامی آٹو اسمبلرز اور پرزہ جات ساز اداروں نے ان تجاویز پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مکمل تیار شدہ گاڑیوں پر ٹیرف میں نمایاں کمی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل سطح پر درآمد کی اجازت سے مقامی صنعت کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ ان خدشات کا اظہار 6 مئی کو وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے ریونیو ہارون اختر خان کے ساتھ ایک اہم اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں شریک صنعت کے نمائندوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ایسے اقدامات سے مقامی سرمایہ کاری متاثر ہوگی، روزگار کے مواقع کم ہوں گے اور آٹو ویلیو چین کو نقصان پہنچے گا۔ تاہم، معاونِ خصوصی نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت آٹو سیکٹر کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاحات کا متوازن خاکہ تیار کرے گی، تاکہ نہ صرف آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل ہو، بلکہ مقامی صنعت کا بھی تحفظ ممکن بنایا جا سکے۔  حکومت مرحلہ وار اضافی کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی میں 5 سے 10 فیصد تک کمی کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔ جبکہ بڑی انجن والی درآمدی گاڑیوں پر نسبتاً زیادہ ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ یہ اقدامات گاڑیوں کی قیمتوں میں ممکنہ کمی کے ذریعے صارفین کو ریلیف دینے کی غرض سے کیے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی یہ سفارشات پاکستان کے معاشی اصلاحاتی پروگرام کا حصہ ہیں، جس کا مقصد مقامی صنعتوں میں مسابقت بڑھانا، قیمتوں میں کمی لانا، اور صارفین کو بہتر متبادل فراہم کرنا ہے۔ تاہم، مقامی آٹو مینوفیکچررز ان اقدامات کی مزاحمت کر رہے ہیں اور اسے اپنی طویل المدتی بقا کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

صارفین کا ڈیجیٹل کرنسی پر بڑھتا اعتماد: بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ 5 ہزار ڈالر سے تجاوز کرگئی

Bitcoin

بٹ کوائن کی قیمت میں حالیہ اضافے نے سرمایہ کاروں اور ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا ہے، کیونکہ اس نے 1,05,000 امریکی ڈالر کی حد عبور کر لی ہے۔ یہ سطح 31 جنوری کے بعد پہلی بار دیکھی گئی ہے، جبکہ 8 مئی کو بٹ کوائن نے 1,00,000 ڈالر کی حد عبور کی تھی۔ اس تیز رفتار اضافے کی ایک اہم وجہ امریکا اور برطانیہ کے درمیان ہونے والا حالیہ معاشی معاہدہ ہے، جس نے عالمی سطح پر مالیاتی اعتماد کو تقویت دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتی ہوئی قیمت کے پیچھے کئی دوسرے عوامل بھی کارفرما ہیں۔ ایک بڑا عنصر ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے۔ بڑی مالیاتی کمپنیوں اور سرمایہ کاری کے اداروں نے کرپٹو مارکیٹ میں زیادہ سرگرمی دکھانی شروع کر دی ہے، جو بٹ کوائن کی قیمت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیں:،’مسئلہ کشمیر کا مستقل حل‘، پاکستان امریکی صدر کی کوششوں کو خوش آئند قرار دیتا ہے، دفتر خارجہ ساتھ ہی، دنیا بھر میں جغرافیائی کشیدگی میں حالیہ کمی نے سرمایہ کاروں کو زیادہ پُرامن اور محفوظ ماحول فراہم کیا ہے، جس کا فائدہ بٹ کوائن جیسے اثاثوں کو پہنچا ہے۔ ایک اور اہم وجہ چین کی طرف سے اپنی معیشت میں متحرک مالیاتی اقدامات ہیں۔ چین کی پالیسیوں نے عالمی مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا ہے، خاص طور پر ان سرمایہ کاروں کو جو روایتی اثاثوں کے بجائے ڈیجیٹل اثاثوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر بٹ کوائن کو نئی بلند سطح تک لے جانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ اگرچہ بٹ کوائن کی قیمت بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، لیکن ایتھرم جیسی دیگر کرپٹو کرنسیاں ابھی تک پچھلے سال کی بلند سطح سے کافی نیچے ہیں۔ ایتھرم اب بھی اپنی سابقہ قیمت سے تقریباً پچاس فیصد کم ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ سرمایہ کاری کا رجحان فی الحال زیادہ تر بٹ کوائن کی طرف مائل ہے۔ یہ فرق اس بات کا اشارہ ہے کہ سرمایہ کار بٹ کوائن کو محفوظ اور قابلِ اعتبار ڈیجیٹل کرنسی تصور کر رہے ہیں۔

انڈین جارحیت پر پاکستان کا ڈیجیٹل وار، بی جے پی سمیت درجنوں ویب سائٹس ہیک کر دی گئیں

Website hacked

انڈیا کی حالیہ جارحیت کے بعد پاکستان کا مؤثر جواب نہ صرف میدان میں بلکہ سائبر اسپیس میں بھی جاری ہے۔ ترجمان پاک فضائیہ کے مطابق پاکستانی سائبر ٹیموں نے کئی اہم بھارتی اداروں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سمیت متعدد سرکاری و نجی ویب سائٹس ہیک کر لی گئیں۔ ترجمان کے مطابق، پاکستان نے کرناٹک رینیوایبل انرجی ڈویلپمنٹ لمیٹڈ پر سائبر حملہ کیا، جس سے 235 سولر اور ونڈ پاور گرڈ اسٹیشن مکمل طور پر غیر فعال ہو گئے۔ پاکستانی سائبر حملے میں ہیک کی جانے والی ویب سائٹس میں بی جے پی کی آفیشل سائٹ، کرائم ریسرچ انویسٹی گیشن ایجنسی، ماہا نگر ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ، انڈیا ارتھ موورز لمیٹڈ اور آل انڈیا نیول ٹیکنیکل سپروائزری اسٹاف ایسوسی ایشن شامل ہیں۔ ان ویب سائٹس کا مکمل ڈیٹا حذف کر دیا گیا ہے۔ مزید پڑھیں: انڈین حملوں کے جواب میں پاکستان کی کاری ضرب، ائیر بیسز تباہ کر دیں اس کے علاوہ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ، بارڈر سکیورٹی فورسز اور یونیک آڈنٹیفیکیشن اتھارٹی آف انڈیا کا حساس ڈیٹا بھی لیک کر دیا گیا۔ حکام کے مطابق انڈین ایئر فورس، مہاراشٹر الیکشن کمیشن سمیت متعدد اداروں کی ویب سائٹس ہیک کی گئیں، جبکہ 2500 سے زائد نگرانی کے کیمرے بھی کنٹرول میں لے لیے گئے۔ پاکستانی سائبر ٹیم نے مہاراشٹرا اسٹیٹ الیکٹرسٹی ٹرانسمیشن کمپنی کو بھی نشانہ بنایا، جس سے بجلی کی ترسیل مکمل طور پر معطل ہو گئی اور کمرشل و گھریلو میٹرز کا تمام ریکارڈ مٹا دیا گیا۔ یہ حملے انڈیا کی اشتعال انگیزیوں کے جواب میں پاکستان کی ڈیجیٹل صلاحیتوں کا واضح مظاہرہ ہیں۔

انڈیا کی جانب سے پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال ہونے والا ہاروپ ڈرون کیا ہے؟

Harop drone

(HAROP)ہاروپ ڈرون ایک خودکش حملہ آور ڈرون ہے جسے اسرائیل کی دفاعی کمپنی اسرائیل ایروسپیس انڈسٹریز نے تیار کیا ہے۔ اسے دشمن کے ریڈار، کمانڈ سینٹرز اور دیگر حساس تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ ڈرون خود کو دشمن کے ہدف پر گرا کر تباہ کرتا ہے، جس کے نتیجے میں خود بھی مکمل طور پر تباہ ہو جاتا ہے۔ اس میں دھماکہ خیز مواد نصب ہوتا ہے اور اسے اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ دشمن کی دفاعی صلاحیت کو اچانک اور مؤثر طور پر متاثر کیا جا سکے۔ یہ ڈرون لمبے وقت تک فضا میں رہ کر نگرانی کر سکتا ہے اور کسی بھی وقت ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے زمینی آپریٹر کنٹرول کرتا ہے یا یہ خودکار طور پر بھی ہدف تلاش کر کے اس پر حملہ کر سکتا ہے۔ HAROP تقریباً 1000 کلومیٹر تک پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کئی گھنٹوں تک فضا میں رہ سکتا ہے۔ پاکستانی ذرائع کے مطابق حالیہ کشیدگی میں بھارت نے HAROP ڈرونز کا استعمال کیا، جنہیں مختلف شہروں میں نشانہ بنا کر مار گرایا گیا۔ ان حملوں کے بعد پاکستان میں فضائی نگرانی اور شہری دفاع کے انتظامات مزید سخت کر دیے گئے ہیں۔ HAROP جیسے ڈرون دشمن کو اچانک اور بغیر کسی وارننگ کے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو انہیں جدید جنگوں میں ایک خطرناک ہتھیار بناتا ہے۔

انڈین فضائی حملے کے بعد پاکستان میں ‘ایکس’ سروس بحال کردی گئی

Twiter

پاکستان میں سماجی رابطے کا معروف پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) بالآخر 7 مئی 2025 کو ایک سال سے زائد عرصے بعد دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔ فروری 2024 میں بند کی گئی اس سروس کی بحالی کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔ صارفین اب بغیر کسی وی پی این یا بیک ڈور ذرائع کے ’ایکس‘ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس پلیٹ فارم پر عائد پابندی کا مقصد اس وقت ملک میں پھیلنے والی غلط معلومات، حساس مواد اور سیاسی کشیدگی کے دوران قومی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنا تھا۔ پاکستان میں ایکس پر پابندی کے بعد ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں، طلبہ اور سوشل میڈیا کارکنوں نے اس فیصلے کو آزادی اظہار رائے پر قدغن قرار دیا۔ متعدد پٹیشنز عدالتوں میں دائر کی گئیں تھیں اور اقوام متحدہ سمیت کئی بین الاقوامی اداروں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ انٹرنیٹ کی آزادی کو یقینی بنائے۔ ایکس کی بحالی پر چیئرمین سینٹ آئی ٹی کمیٹی پلوشہ خان نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ “انڈیا کے ساتھ بیانیہ کی جنگ میں ہمیں بھرپور اور مؤثر جواب دینا ہے۔ ایکس کی بحالی اس محاذ پر ایک مضبوط قدم ہے۔” مزید پڑھیں: پاکستان پر حملے کے بعد انڈیا نے کرتارپور راہداری بند کر دی پلوشہ خان نے مزید کہا کہ انڈیا ہمیشہ رات کے اندھیرے میں کارروائیاں کرتا ہے جس میں سویلین آبادی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انڈیا کو ایسا مؤثر جواب دیا جانا چاہیے کہ آئندہ وہ کسی بھی جارحانہ اقدام سے قبل کئی بار سوچنے پر مجبور ہو۔ جب خطے میں کشیدگی عروج پر ہے اور معلومات کا بہاؤ جنگی بیانیے کی صورت اختیار کر چکا ہے تو ضکومت نے ایکس کو بحال کرنے کا فیصلہ لیا۔  سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، خاص طور پر ایکس، عالمی بیانیے کے مقابل ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر سامنے آ رہے ہیں اور پاکستان کے لیے یہ پلیٹ فارم ایک اہم ترجمان کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ بحالی کے بعد ایکس پر سرگرمیاں تیزی سے عمل میں آ رہی ہیں، اور تجزیہ کاروں کے مطابق آنے والے دنوں میں یہ پلیٹ فارم قومی و عالمی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ مزید پڑھیں: انڈین فورسز کے حملے سے 26 شہری شہید، نیلم جہلم منصوبے کو بھی نشانہ بنایا گیا، ترجمان پاک فوج

ہیول H6 فیس لفٹ: جدید ڈیزائن اور ہائبرڈ آپشنز کے ساتھ پاکستان میں لانچ

Havel face lift

پاکستان میں KIA اسپورٹیج اور Hyundai ٹوسان کی حالیہ ہائبرڈ لانچز کے بعد ہیول H6 فیس لفٹ کی آمد نے مقامی مارکیٹ میں مسابقت کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ نئی H6 فیس لفٹ تین ویرینٹس میں دستیاب ہے، جن میں 1.5T، 2.0T اور HEV (ہائبرڈ) شامل ہیں اور تینوں ماڈلز میں بیرونی و اندرونی ڈیزائن کو نئے رنگوں میں ڈھالا گیا ہے۔ گاڑی کے اگلے حصے میں نیا میش اسٹائل گرِل باریک ایل ای ڈی ہیڈلائٹس اور عمودی LED DRLs اسے دلکش بناتی ہیں۔ عقبی جانب اس بار مکمل-چوڑائی روشنیوں کو علیحدہ LED بریک لائٹس سے تبدیل کیا گیا ہے جن کے بیچ میں HEVAL کا نیا لوگو نمایاں ہے۔ 1.5T ویرینٹ میں 19 انچ الائے وہیلز اور 135/90R17 اسپیئر ٹائر دیا گیا ہے، جب کہ 2.0T میں 145/80R18 سائز کا بڑا اسپیئر ٹائر اور انڈکٹیو ٹیل گیٹ جیسا پرمیئم فیچر شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اندرونی حصے میں بھی نمایاں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اب تمام ویرینٹس میں نیا کالم شفٹر، الیکٹرک ہیٹڈ اسٹیئرنگ وہیل، 50 واٹ وائرلیس چارجر اور 14.6 انچ کا بڑا انفوٹینمنٹ اسکرین شامل ہے۔ جدید ڈیش بورڈ ڈیزائن کے ساتھ D-شیپ اسٹیئرنگ وہیل اسے مزید اسپورٹی بناتا ہے۔ 2.0T ویرینٹ میں 9 اسپیکر آڈیو سسٹم، فرنٹ ہیٹڈ سیٹس اور ایٹ چینل ایمپلی فائر شامل ہیں، جب کہ HEV ماڈل میں بھی فرنٹ سیٹ ہیٹر دیا گیا ہے۔ 1.5T میں امبینٹ لائٹنگ ایک نیا اضافہ ہے۔ مزید پڑھیں: میٹا کا فیس بک کی پالیسیوں کو مزید سخت بنانے کا اعلان، ایسا کیا ہونے جارہا ہے؟ واضح رہے کہ فیس لفٹ کے بعد گاڑی کی قیمتوں میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا۔