پرائیویسی کے لیے خطرہ بننے پر برطانیہ میں ٹک ٹاک کے خلاف تحقیقات شروع

برطانیہ نے صارفین اور بچوں کی نجی معلومات تک رسائی کے انکشافات کے بعد معروف چینی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ برطانیہ کے پرائیویسی واچ ڈاگ “دی انفارمیشن کمشنر آفس ” نے پیر کے روز ٹک ٹاک کے حوالے سے تحقیقات شروع کی ہیں کہ کیسے وہ بچوں کی پرائیویسی کے خطرات کو جنم دے رہی ہے۔ ٹک ٹاپ پر صارفین کو ایپ کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے ترجیحی کانٹیٹ کو ویڈیوز کا حصہ بنایا جاتا ہے اور پھر وہی کانٹینٹ بچوں کے پلیٹ فارم پر شیئر کیا جاتا ہے جس سے ان کے لیے سیکیورٹی رسک بڑھ جاتے ہیں۔ برطانوی واچ ڈاگ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ہم تحقیقات کر رہے ہیں کہ کیسے چینی کمپنی بائیٹ ڈانس کی شارٹ ویڈیوز سے 13 سے 17 سال کے بچوں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہے۔ معروف سوشل پلیٹ فارم “ریڈ اٹ” پر بھی ٹک ٹاک کی جانب سے بچوں کی پرائیویسی کے حوالے سے خطرات کو زیر بحث لایا گیا تھا جس کے بعد واچ ڈاگ نے تحقیقات کا آغاز کیا۔ واضح رہے کہ امریکہ میں بھی ٹک ٹاک کے حوالے سے خدشات سامنے آنے کے بعد حکومت کی جانب سے متعدد مرتبہ اس ایپ پر پابندی عائد کی گئی ہے، ٹک ٹاک کے حوالے سے عام طور پر تین خدشات نمایاں رہے ہیں جن میں سب سے پہلا صارفین کا ڈیٹا جمع کرنا ہے۔ ٹِک ٹاک کے ناقدین کا کہنا ہے کہ کمپنی بڑے پیمانے پر صارفین کا ڈیٹا جمع کر رہی ہے۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے اکثر جولائی 2022 میں آسٹریلیا کی سائبر کمپنی ’انٹرنیٹ 0۔2‘ کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔ ٹِک ٹاک کے سورس کوڈ پر تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ایپ ’بڑے پیمانے پر ڈیٹا جمع‘ کرتی ہے۔ سائبر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹِک ٹاک صارفین کی لوکیشن، ڈیوائس کی قسم اور اس ڈیوائس میں مزید کون سی ایپس موجود ہیں اس حوالے سے بھی معلومات جمع کرتا ہے۔ لیکن ’سٹیزن لیب‘ کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق ٹِک ٹاک ’دیگر مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرز پر ہی اُسی قسم کا ڈیٹا جمع کرتی ہے جس سے صارفین کے موڈ کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکے۔ ناقدین کو ٹِک ٹاک سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ بیجنگ میں واقع کمپنی ’بائٹ ڈانس‘ کی ملکیت ہے اور واحد سوشل میڈیا سٹریمنگ ایپ ہے جس کا تعلق امریکہ سے نہیں۔ اس کے علاوہ مثال کے طور پر فیس بُک، انسٹاگرام، سنیپ چیٹ اور یوٹیوب بھی ٹِک ٹاک کی طرح ہی صارفین کا ڈیٹا حاصل کرتی ہیں لیکن یہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز امریکی کمپنیوں کی ملکیت ہیں۔ ٹِک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے لاگو کیے گئے قوانین ’ایسی کسی بھی غلط معلومات پر پابندی عائد کرتے ہیں جن سے کسی بھی کمینوٹی یا لوگوں کو نقصان پہنچے۔ نومبر 2022 میں فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے امریکی اراکینِ کانگریس کو بتایا تھا کہ چینی حکومت (ٹِک ٹاک کے) الگوریتھم کو کنٹرول کرسکتی ہے جس کا استعمال ذہن سازی کے آپریشنز میں کیا جا سکتا ہے، اس کے بعد سے اس دعوے کو بار بار دُہرایا جاتا رہا ہے۔
سوشل میڈیا ایپس بچوں کے لیے کتنی محفوظ: برطانیہ نے تحقیقات جاری کر دیں

برطانیہ کے پرائیویسی کے نگران ادارے، انفارمیشن کمشنر آفس نے تحقیقات شروع کی ہیں کہ ٹک ٹاک، ریڈٹ اور امیگر بچوں کی پرائیویسی کی حفاظت کیسے کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کمپنیاں ایسے خاص طریقے استعمال کرتی ہیں جو صارفین کو زیادہ دیر تک مصروف رکھتے ہیں اور ان کی دلچسپی کے مطابق مواد دکھاتے ہیں۔ لیکن یہ عمل بچوں کے لیے نقصان دہ مواد کو بڑھا سکتا ہے، جس سے وہ منفی اثرات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ واچ ڈاگ اس بات کی جانچ کر رہا ہے کہ چینی کمپنی بائٹ ڈانس کا ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک، 13 سے 17 سال کے بچوں کی ذاتی معلومات کا استعمال کیسے کرتا ہے تاکہ انہیں مخصوص مواد دکھایا جا سکے۔ اسی طرح، ریڈٹ اور امیگر کے بارے میں بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ یہ پلیٹ فارمز بچوں کی عمر کا اندازہ کیسے لگاتے ہیں۔ انفارمیشن کمشنر آفس نے کہا کہ اگر یہ کمپنیاں قانون کی خلاف ورزی کرتی پائی گئیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ گزشتہ سال برطانوی حکام نے ٹک ٹاک پر 12.7 ملین پاؤنڈ کا جرمانہ عائد کیا تھا کیونکہ اس نے والدین کی اجازت کے بغیر 13 سال سے کم عمر بچوں کا ڈیٹا استعمال کیا تھا۔ ریڈٹ کے ترجمان نے کہا کہ وہ برطانوی قوانین کے مطابق کام کرنے کے لیے تبدیلیاں لا رہے ہیں، لیکن بائٹ ڈانس، ٹک ٹاک اور امیگر نے اس معاملے پر کوئی جواب نہیں دیا۔ برطانیہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے سخت قوانین بنائے ہیں تاکہ وہ بچوں کو نامناسب اور نقصان دہ مواد سے محفوظ رکھ سکیں۔ ان قوانین کے تحت فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کو اپنے نظام میں ایسے اقدامات شامل کرنے ہوں گے جو نقصان دہ مواد کو کم یا فلٹر کر سکیں تاکہ بچوں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔
“دماغ کا خفیہ راز بے نقاب! سائنسدانوں نے ٹیلی پیتھی کی اصل حقیقت دریافت کرلی”

سائنسدانوں نے ایک حیرت انگیز دریافت کی ہے، جس کے مطابق ہر انسان میں ذہنی طور پر خیالات پڑھنے (ٹیلی پیتھی)، مستقبل کی جھلک دیکھنے (کلیئرووینس)، اور چیزوں کو ذہن سے حرکت دینے (سائیکوکائنیسس) جیسی صلاحیتیں موجود ہیں، لیکن دماغ میں ایک “پی ایس آئی انہیبیٹر” (Psi Inhibitor) یا رکاوٹ ان طاقتوں کو دبائے رکھتی ہے۔ کینیڈا میں بےکریسٹ ہیلتھ سائنسز کے محققین نے دریافت کیا کہ دماغ کے فرنٹل لوب (پیشانی کے حصے) میں ایک قدرتی فلٹر موجود ہے، جو انسانی دماغ کی نفسیاتی (psi) اور مافوق الفطرت صلاحیتوں کو دبائے رکھتا ہے۔ جب سائنسدانوں نے “ریپیٹیٹو ٹرانس کرینیئل میگنیٹک سٹیمولیشن” (rTMS) نامی ٹیکنالوجی استعمال کرکے دماغی فلٹر کو عارضی طور پر بند کیا، تو افراد میں ٹیلی پیتھی اور دیگر مافوق الفطرت صلاحیتیں نمایاں طور پر بیدار ہو گئیں! دماغی فلٹر کو کیسے بند کیا گیا؟ تحقیق میں 108 صحت مند افراد کو شامل کیا گیا، جنہیں تین مختلف گروپوں میں تقسیم کیا گیا: ایک گروپ پر rTMS کا استعمال دماغ کے دائیں حصے پر کیا گیا۔ دوسرے گروپ کو پلیسبو (جعلی) علاج دیا گیا۔ تیسرے گروپ میں بائیں درمیانی فرنٹل لوب پر rTMS کا استعمال کیا گیا۔ نتائج حیران کن تھے! پہلے دو گروپوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی، لیکن تیسرے گروپ میں افراد نے غیرمعمولی نفسیاتی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ان افراد نے رینڈم ایونٹ جنریٹر (REG) پر اثر ڈالا اور محض دماغی توجہ سے کمپیوٹر اسکرین پر نمبرز کی سمت بدل دی! تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر مورس فریڈمین نے کہا کہ: “یہ دریافت دماغ اور بظاہر بے ترتیب واقعات کے درمیان تعلق کو سمجھنے میں انقلابی پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔” کیا ہر انسان میں ٹیلی پیتھی کی صلاحیت موجود ہے؟ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اگر یہ صلاحیتیں واقعی موجود ہیں، تو ارتقائی عمل کے دوران انہیں مزید بہتر ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا دماغ خود ہی ان صلاحیتوں کو روکتا ہے۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ کو کسی کے فون کرنے کا پہلے سے ہی اندازہ ہو جائے؟ کیا آپ نے کبھی ایسا خواب دیکھا جو بعد میں سچ ثابت ہوا؟ سائنسدانوں کے مطابق یہ “پی ایس آئی فلٹر” جزوی طور پر ہر انسان میں کبھی کبھار ٹیلی پیتھی اور نفسیاتی تجربات کو ظاہر ہونے دیتا ہے، لیکن مکمل طور پر نہیں! اس تحقیق کے بعد یہ سمجھا جا رہا ہے کہ انسان مستقبل میں اپنی نفسیاتی طاقتوں کو کھول سکتا ہے۔ ڈاکٹر فریڈمین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق نفسیاتی صلاحیتوں کو سائنسی تحقیق کے دائرے میں شامل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ آج کے جدید دور میں لوگ اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو دریافت کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔
ڈومزڈے مچھلی: کیا اوآرفش کی سطح پر آنا قدرتی آفات کی پیش گوئی ہے؟

حال ہی میں دنیا بھر میں “ڈومزڈے مچھلی” کے بارے میں بحث چھڑ گئی ہے، جسے عام طور پر “اوآرفش” (Oarfish) کہا جاتا ہے۔ یہ گہرے پانی کی سمندری مچھلی جو لمبی، ربن نما جسم اور چمکدار چاندی جیسے پیمانے رکھتی ہے، حالیہ دنوں میں بحر الکاہل کے کنارے کے قریب دکھائی دی ہے۔ یہ مچھلی خاص طور پر میکسیکو کے ”باجا کیلیفورنیا’ کے ساحلی علاقوں میں اس کا نظر آنا ایک سنسنی بن گیا ہے، اور سوشل میڈیا پر اس بارے میں کئی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ اوآرفش کو جاپانی روایات میں “ریوگو نو تسوکی” (Ryugu no tsukai) یعنی “سمندر کے خدا کا پیغمبر” کہا جاتا ہے۔ یہ کہانی 17ویں صدی سے جاپانی ثقافت کا حصہ ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ جب یہ مچھلی سطح پر آتی ہے تو یہ قدرتی آفات کا اشارہ ہوتی ہے خاص طور پر زلزلے اور سونامی میں۔ جاپانیوں کے لئے یہ سمندر کی گہرائیوں سے آئی ایک تنبیہہ ہے، جو قدرت کے غضب کی پیش گوئی کرتی ہے۔ 2011 میں جب جاپان کے ساحلی علاقوں پر اوآرفش کی کئی لاشیں نظر آئیں اور اس کے صرف چند مہینوں بعد ہی تباہ کن توہوکو زلزلہ اور سونامی آیا جس نے وسیع پیمانے پر تباہی مچائی۔ یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا میکسیکو، کینیڈا اور چین پر نئے ٹاررفز کا اعلان: فینٹینائل کے حوالے سے سخت اقدامات اس واقعہ نے اس روایتی عقیدے کو مزید تقویت دی، اور لوگوں کا یقین بڑھ گیا کہ “ڈومزڈے مچھلی” دراصل قدرتی آفات کی پیش گوئی کرتی ہے۔ سائنسدانوں کی نظر میں اس عقیدے میں کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ اوآرفش کی سطح پر آنے کی کوئی ثابت شدہ وجہ نہیں۔ تاہم کچھ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ چونکہ اوآرفش گہرے سمندروں میں رہتی ہے، جو اکثر تزویراتی fault lines کے قریب ہوتے ہیں، وہ زلزلوں یا سمندری سرکنے کی حساسیت رکھتے ہیں۔ یہ حساسیت انہیں سطح تک لے آ سکتی ہے لیکن زیادہ تر سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ اوآرفش کا سطح پر آنا قدرتی آفات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ 2019 میں “بولیٹن آف دی سیزمو لوژیکل سوسائٹی آف امریکا” کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جاپان میں اوآرفش کی سطح پر آنے کا زلزلوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ لازمی پڑھیں: اسرائیل کا امریکا پر دباؤ: شام میں ترکی کے اثرات کم کرنے کے لیے روس کی فوجی موجودگی کی حمایت اس تحقیق کے نتائج نے اس افسانے کو مزید کمزور کیا، جس میں اوآرفش کے ظہور کو قدرتی آفات سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ یہ نظریہ صرف جاپان تک محدود نہیں، بلکہ دوسرے ممالک میں بھی اوآرفش کے نظر آنے کو قدرتی آفات سے جوڑا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگست 2017 میں فلپائن کے ساحل پر دو اوآرفش کی لاشیں ملیں اور اس کے اگلے ہی دن ایک 6.6 شدت کا زلزلہ آیا۔ اس کے علاوہ 2013 میں کیلیفورنیا کے ساحل پر بھی اوآرفش کی لاشیں پائی گئیں، لیکن اس کے بعد کوئی بڑا قدرتی حادثہ نہیں آیا۔ اگرچہ سائنس نے اس عقیدے کو رد کیا ہے، مگر پھر بھی اوآرفش کی سطح پر آنے کی پراسراریت نے لوگوں کو چونکا دیا ہے۔ کیا یہ ایک محض اتفاق ہے یا سمندر کے گہرے راز ہیں جو ابھی تک انسانوں سے پوشیدہ ہیں؟ یہ سوال ابھی تک لاجواب ہے، اور قدرتی آفات کے سلسلے میں اس “ڈومزڈے مچھلی” کا رازی پیغام شاید کبھی نہ کھلے۔ اگرچہ سائنسی تحقیق نے اس افسانے کو مسترد کر دیا ہے، لیکن لوگ اب بھی اس مچھلی کو ایک اجنبی اور پراسرار قدرتی اشارت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ کیا یہ صرف ایک اتفاق ہے یا سمندر کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے راز ابھی تک بے نقاب نہیں ہوئے؟ یہ سوال شاید ہمیشہ ذہنوں میں موجود رہے گا۔ مزید پڑھیں: بی بی سی نے غزہ ڈاکیومنٹری پر معذرت کرلی، فلسطینی بچے کے والد کے تعلقات پر تنازعہ
واٹس ایپ کی سروس عالمی سطح پر متاثر، صارفین کو پیغامات بھیجنے میں مشکلات

دنیا بھر میں مقبول میسجنگ ایپلی کیشن واٹس ایپ کی سروس اچانک متاثر ہو گئی، جس کے باعث لاکھوں صارفین کو پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ صارفین نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شکایات درج کروائیں، جس میں بتایا گیا کہ ایپ میں میسجز ڈلیور نہیں ہو رہے اور کچھ صارفین کو کنکشن کے مسائل کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی ویب سائٹس کے مطابق ڈاؤن ڈیٹیکٹر پر ہزاروں صارفین نے واٹس ایپ کی سروس متاثر ہونے کی اطلاع دی ہے۔ تاہم، ابھی تک واٹس ایپ یا اس کی پیرنٹ کمپنی میٹا کی جانب سے اس حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ مزید پڑھیں: “سٹارلنک” کی پاکستان میں سروسز تاخیر کا شکار کیوں؟ ٹیکنالوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ سرورز کی خرابی یا کسی تکنیکی اپڈیٹ کی وجہ سے ہو سکتا ہے، تاہم سروس کی مکمل بحالی میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ صارفین کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ سروس کی بحالی تک صبر کریں اور متبادل ایپس جیسے ٹیلیگرام یا سگنل استعمال کریں۔
اوپن اے آئی کا جی پی ٹی 4.5: اب تک کا سب سے طاقتور اے آئی ماڈل متعارف

اوپن اے آئی نے اپنا سب سے طاقتور اور جدید ترین آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ماڈل “جی پی ٹی 4.5” کا تعارف کرایا ہے، جو کہ ہر سطح پر کارکردگی اور ذہانت کے لحاظ سے ایک نئی مثال قائم کرتا ہے۔ یہ ماڈل خاص طور پر ایسے کاموں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جن میں انسانوں کی طرح ذہنی قابلیت کی ضرورت ہو، اور اس میں مزید جذباتی اور سماجی ذہانت کی خصوصیات شامل کی گئی ہیں۔ جی پی ٹی 4.5 کو چیٹ جی پی ٹی پر دستیاب کیا گیا ہے، مگر اسے استعمال کرنے کے لیے پرو سبسکرائبر بننا ضروری ہے، یعنی ماہانہ 200 ڈالرز کی فیس ادا کرنا ہوگی۔ ابھی یہ ماڈل ریسرچ پریویو کے طور پر جاری کیا گیا ہے اور کمپنی کی توقع ہے کہ صارفین اس میں موجود خامیوں کو دریافت کرکے اس کی کارکردگی میں مزید بہتری لائیں گے۔ اوپن اے آئی کے مطابق جی پی ٹی 4.5 میں سماجی اشاروں کو سمجھنے کی صلاحیت بہت بہتر کر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں یہ ماڈل زیادہ حساس اور جذباتی طور پر انسانوں کی طرح رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کے ابتدائی صارفین نے اسے اتنا ذہین اور حقیقی محسوس کیا ہے کہ یہ کسی حقیقی فرد سے بات کرنے کا تاثر دیتا ہے۔ اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو سام آلٹمین نے ایکس (ٹوئٹر) پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ “یہ پہلا اے آئی ماڈل ہے جسے استعمال کرتے ہوئے آپ کو لگے گا جیسے آپ کسی پرفکر شخص سے بات کر رہے ہوں۔” حالانکہ کمپنی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ جی پی ٹی 4.5 اب بھی خود سے سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، لیکن یہ سماجی اشاروں کو بہتر طور پر سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ کافی متاثر کن ہے۔ بہت جلد یہ ماڈل چیٹ جی پی ٹی پلس صارفین کے لیے بھی دستیاب ہوگا، جس سے اوپن اے آئی کی ٹیکنالوجی کی حدود مزید وسیع ہوں گی۔ یہ نیا ماڈل حقیقت میں اے آئی کے مستقبل کی سمت کا تعین کرتا نظر آتا ہے، جہاں انسان اور مشین کے درمیان فرق مٹتا جا رہا ہے۔ مزید پڑھیں: “سٹارلنک” کی پاکستان میں سروسز تاخیر کا شکار کیوں؟
“سٹارلنک” کی پاکستان میں سروسز تاخیر کا شکار کیوں؟

پاکستانی شہری ایک طرف سست رفتار انٹرنیٹ کے مسائل سے دوچار ہیں تو دوسری طرف پاکستانی حکومت، امریکی انٹرنیٹ کمپنی “سٹار لنک” کو لائسنس دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ “سٹار لنک” کمپنی دنیا بھر میں فائبر آپٹک کے بغیر برق رفتار انٹرنیٹ فراہم کرنے کے لیے پہچان رکھتی ہے جبکہ اس کے مالک دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک ہیں جوکہ آج کل ٹرمپ حکومت میں کافی متحرک کردار ادا کر رہے ہیں جس سے پاکستانی حکام سیاسی اور ملکی معاملات میں مداخلت کی فکر لاحق ہے۔ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ایلون مسک کو متعدد مرتبہ یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی سروسز کو شروع کریں لیکن ایلون مسک کی ٹیم کا جواب ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی حکومت کے جواب کے منتظر ہیں۔ پاکستانی حکومت نے اس وقت ملک بھر میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” کی سروسز پر پابندی عائد کر رکھی ہے جوکہ ایلون مسک کی ملکیت میں ہے، ایلون مسک نے 2022 میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” کو 44 بلین ڈالر میں خریدا تھا۔ “ایکس” پر پچاس لاکھ کے قریب پاکستانی سروسز سے استفادہ کر رہے ہیں، پاکستان کے ساتھ چین، روس، شمالی کوریا، ایران، میانمار، وینزویلا اور ترکمانستان نے بھی اپنے ممالک میں “ایکس” کی سروسز پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس حوالے سے حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما احمد عتیق انور نے بتایا کہ ہر ملک کو اپنی قومی مفادات کے تحفظ کا حق حاصل ہے، سٹارلنک ایک انٹرنیشنل کمپنی ہے جوکہ ایسے علاقوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی میں زیادہ موثر ہے جہاں زیر زمین فائبر آپٹک کی سہولت موجود نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم ڈیٹا سیکیورٹی کے تحفظات سے باخوبی آگاہ ہیں، جدید ٹیکنالوجی ترقی کیلئے ضروری ہے لیکن ملکی قوانین اور آئین بھی اس حوالے سے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ سٹارلنک کو جون 2021 سے پاکستان میں رجسٹرڈ کیا جا چکا ہے لیکن لائسنس حاصل کرنے اور آپریشنل ہونے میں اس کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ سٹار لنک کو پہلے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے منظوری حاصل کرنا ہوگی جس کے بعد پاکستان سپیس ایکٹویٹیز ریگولیٹری بورڈ سے منظوری لینا ہوگی جس کے بعد آخری مرحلے میں سٹارلنک کی درخواست پی ٹی اے کے حتمی منظوری کے لیے پہنچے گی، سٹار لنک کی درخواست اس وقت سپیس ریگولیٹری بورڈ کے زیر غور ہے۔
فیس بک لائیو میں تہلکہ خیز فیچر متعارف

سوشل میڈیا جائنٹ میٹا نے فیس بک لائیو کے لیے تہلکہ خیز فیچر متعارف کروا دیا ہے جس سے اب لائیو فیس بک ویڈیوز زیادہ سے زیادہ 30 روز کے لیے دستیاب ہوں گی۔ اس کے بعد خودکار طریقے سے ڈیلیٹ ہو جائیں گی، میٹا نے اس اپ ڈیٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر لوگ فیس بک لائیو ویڈیوز پہلے چند ہفتوں میں دیکھتے ہیں۔ اس لیے ہم ان ویڈیوز کے اسٹوریج کے دورانیے کو اپ ڈیٹ کر رہے ہیں۔ ویڈیوز ڈیلیٹ ہونے سے قبل صارفین کو نوٹیفکیشن بھیجا جائے گا اور انہیں 90 دن کی مہلت دی جائے گی تاکہ وہ پرانی لائیو ویڈیوز کو کہیں اور محفوظ کر سکیں۔ صارفین ان ویڈیوز کو اپنی ڈیوائسز میں ڈاؤن لوڈ کر سکیں گے، کلاؤڈ اسٹوریج میں ٹرانسفر کر سکیں گے یا کسی ریل کی شکل میں تبدیل کر سکیں گے۔
ڈیجیٹل دور میں کتابی مطالعے کی عادت کیسے بحال کی جائے؟

حالیہ برسوں میں سائنس کے میدان میں انقلاب آیا ہے، جس نے دنیا کو ایک گلوبل ویلیج بنا کر رکھ دیا ہے۔ نت نئی ایجاد نے ہماری زندگیوں کو یکسر بدل دیا ہے، اسمارٹ فونز، سوشل میڈیا، اور آن لائن تفریحی ذرائع کی بھرمار نے مطالعے کی روایتی عادت کو متاثر کیا ہے۔ ماضی میں کتب انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہوتی تھیں، فارغ اوقات میں مختلف قسم کی کتابیں پڑھنا ہر گھر میں عام تھا، مطالعہ ذہنی نشوونما، تخلیقی سوچ اور علمی وسعت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ مطالعے کی عادت انسان کو زندگی کی مشکلات اور غم و فکر سے دور ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتی ہے۔ آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا، اسمارٹ فونز اور دیگر ڈیجیٹل تفریحات نے ہماری توجہ کو منتشر کر دیا ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق ایک طالب علم دن میں تقریباً 9 گھنٹے اسکرین کے سامنے گزارتا ہے، جس سے مطالعے کے لیے وقت کم رہ جاتا ہے۔ تیز رفتار زندگی اور وقت کی کمی نے لوگوں کو کتابوں سے دور کر دیا ہے، تعلیمی نصاب میں غیر نصابی کتب کے مطالعے پر کم توجہ، لائبریریوں کی کمی اور کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی اس زوال میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل تفریحی ذرائع، تیز رفتار لائف اسٹائل اور مختصر ویڈیوز کے رجحان نے نوجوانوں کی توجہ کا دورانیہ کم کر دیا ہے، جس کے باعث وہ طویل مطالعے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ مزید برآں، تعلیمی نصاب میں تحقیقی اور مطالعاتی عادات کو فروغ نہ دینے کے باعث نوجوانوں میں کتاب بینی کی رغبت گھٹ رہی ہے۔ نوجوانوں میں کتاب بینی کا رجحان کم ہونے کی ایک وجہ ڈیجیٹل تفریحات کی جانب ان کی بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے۔ اگرچہ ای بکس اور آڈیو بکس روایتی کتابوں کا متبادل بن سکتی ہیں، لیکن ان کا استعمال بھی محدود ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم پروفیسر کامران مجاہد کا کہنا تھا کہ کتابی کلچر کی بحالی کے لیے گھر، اسکول اور معاشرتی سطح پر مثبت تبدیلیاں ضروری ہیں۔ والدین کو بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالنے، میڈیا کو کتابوں کو فروغ دینے، اور حکومت کو لائبریریوں کے قیام جیسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کتابوں کو زندگی کا لازمی حصہ بنایا جا سکے۔ یہاں ایک اہم سوال جنم لیتا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو کتابی مطالعے کے فروغ کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ آڈیو بکس اور ای بکس کے ذریعے مطالعے کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔ آن لائن بک ریویوز اور بُک کلبز کے ذریعے قارئین کو کتابوں کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے بتایا ہے کہ ای بکس اور آڈیو بکس سہولت ضرور فراہم کرتی ہیں، لیکن روایتی کتاب کی اہمیت برقرار رہے گی۔ کاغذ پر لکھی تحریر کو پڑھنے سے ذہنی یکسوئی اور بہتر تفہیم حاصل ہوتی ہے، جو ڈیجیٹل فارمیٹ میں مشکل ہو سکتا ہے۔ پروفیسر کامران مجاہد نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ لائبریریاں مطالعے کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، لیکن پاکستان میں ان کی کمی نوجوانوں کو کتابوں سے دور کر رہی ہے۔ پبلک لائبریریوں کے قیام اور اسکول و کالج کی سطح پر لائبریری کے مؤثر استعمال سے اس رحجان کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ مسلسل سوشل میڈیا، ویڈیوز اور مختصر معلوماتی فارمیٹ دیکھنے کی وجہ سے نوجوانوں کا ذہنی ارتکاز کمزور ہو رہا ہے۔ یہ مسئلہ کتابوں کے طویل مطالعے میں مشکلات پیدا کرتا ہے، کیونکہ مستقل توجہ برقرار رکھنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں لائبریریوں کا قیام اور طلبہ کو غیر نصابی کتب کے مطالعے کی ترغیب دینا ضروری ہے۔ عوامی اور نجی سطح پر کتاب میلوں کا انعقاد اور حکومتی پالیسیوں میں کتاب بینی کے فروغ پر زور دینا چاہیے۔ پروفیسر کامران مجاہد نے کہا ہے کہ تعلیمی ادارے نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتابوں کے مطالعے کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ہفتہ وار ریڈنگ سیشنز، کتابوں پر مباحثے، اور اسٹوڈنٹ لائبریری سسٹم کو فعال بنا کر طلبہ میں کتابوں سے محبت پیدا کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق اگرچہ سوشل میڈیا نوجوانوں کی توجہ بھٹکانے کا سبب بھی بن رہا ہے، لیکن اگر اس کا درست استعمال کیا جائے تو یہ کتابوں کی ترویج کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔ کتابوں کے ریویوز، ریڈنگ چیلنجز، اور بُک کلَبز جیسے اقدامات سے نوجوانوں میں مطالعے کا رجحان بڑھایا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کتابوں کی ترویج ممکن ہے۔ مشہور شخصیات اور انفلوئنسرز کتابوں کی تشہیر کر کے مطالعے کی عادت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ پروفیسر کامران مجاہد کے مطابق پاکستان میں کتابوں کی قیمتوں میں اضافہ اور کاغذ کی قلت جیسے مسائل عام آدمی کو کتابوں سے دور کر رہے ہیں۔ اگر حکومت سبسڈی فراہم کرے اور ڈیجیٹل فارمیٹ میں سستی کتابیں دستیاب ہوں تو کتاب بینی کی عادت کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ ڈیجیٹل دور میں کتابی مطالعے کی عادت کو بحال کیا جا سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ فرد، معاشرہ اور حکومت مل کر اس کے لیے کوشش کریں۔ مطالعے کی عادت نہ صرف فرد کی ذہنی نشوونما کے لیے ضروری ہے بلکہ معاشرتی ترقی کے لیے بھی اہم ہے۔
میٹا نے واٹس ایپ میں چیٹ تھیمز اور نئے وال پیپرز متعارف کرا دیے

واٹس اپ کی سروسز کو صارفین کے لیے مزید پر کشش بنانے کے لیے میٹا نے رنگا رنگ چیٹ تھیمز اور نئے وال پیپرز کا اضافہ کیا ہے۔ کمپنی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق آئی او ایس اور اینڈرائیڈ صارفین کے لیے چیٹ تھیمز کا فیچر متعارف کرایا گیا ہے یہ وہ فیچر ہے جو میٹا کی دیگر ایپس انسٹا گرام اور فیس بک میسنجر میں پہلے سے موجود ہے اور اب اسے واٹس ایپ کا حصہ بھی بنا دیا گیا ہے۔ بیان میں بتایا گیا کہ ‘آپ نے اس کا مطالبہ کیا تھا اور اسی لیے ہم چیٹ تھیمز فیچر کو متعارف کرا رہے ہیں، تاکہ آپ کی چیٹس رنگا رنگ چیٹ ببلز اور نئے وال پیپرز سے منفرد ہو جائے’۔ ویسے تو واٹس ایپ میں پہلے سے صارفین چیٹ بیک گراؤنڈ کا انتخاب کرسکتے ہیں جبکہ لائٹ اور کلر موڈز کا آپشن بھی دستیاب ہے مگر ٹیکسٹ ببلز کا رنگ تبدیل نہیں ہوتا تھا۔ مگر اب صارفین اپنے چیٹ ببلز کے رنگ تبدیل کرسکیں گے اور اس کے علاوہ پری سیٹ تھیمز کے ذریعے بیک گراؤنڈ اور ببلز دونوں کو تبدیل کرسکیں گے۔ اسی طرح صارفین کو 30 نئے وال پیپرز دستیاب ہوں گے یا اپنی فوٹو لائبریری سے بیک گراؤنڈ کے لیے تصویر کا انتخاب کرسکیں گے۔ اب واٹس ایپ چیٹس کے لیے ایک ہی تھیم کا انتخاب کرسکیں گے یا ہر چیٹ کے لیے الگ الگ تھیمز کو بھی منتخب کرسکیں گے۔ یہ واضح رہے کہ واٹس ایپ تھیمز صرف آپ کو ہی نظر آئیں گی، دیگر افراد کو علم نہیں ہوگا کہ آپ ان کی چیٹ ونڈو کے لیے کونسی تھیم استعمال کر رہے ہیں۔ اس فیچر کو استعمال کرنے کے لیے واٹس ایپ سیٹنگز میں جاکر چیٹس اور پھر ڈیفالٹ چیٹ تھیم کے آپشن پر کلک کریں۔ کمپنی کے مطابق اس فیچر کو متعارف کرانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور یہ آنے والے ہفتوں میں دنیا بھر میں صارفین کو دستیاب ہوگا۔