پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی

ایک حیران کن میڈیکل بریک تھرو کے طور پر امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے ایک نئی غیر اوپیئڈ درد کش دوا سوزیٹریجین کی منظوری دے دی ہے، جو درد کے علاج میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ منظوری اس شاندار سائنسی دریافت کا نتیجہ ہے جس میں ایک پاکستانی خاندان کی منفرد جینیاتی خصوصیات کو مدنظر رکھا گیا، جن کے افراد جلتی ہوئی آگ پر بے درد چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس خاندان کے افراد کے جسم میں ایک ایسا جین موجود نہیں تھا جو درد کے سگنلز کو فعال کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ شدید گرمی اور جلنے کے احساس سے بچ جاتے تھے۔ سوزیٹریجین پچھلے بیس سالوں میں درد کی پہلی نئی قسم کی دوا ہے۔ ایف ڈی اے کی جانب سے جمعرات کو اس دوا کی منظوری ایک تاریخی سنگ میل ہے، جو اوپیئڈز کے متبادل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اوپیئڈز عام طور پر درد کو کم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ان میں نشے کی لت اور انحصار کا خطرہ ہوتا ہے۔ سوزیٹریجین کا طریقہ کار مختلف ہے، یہ دوا درد کے سگنل دینے والی اعصابی رگوں کو فعال ہونے سے روکتی ہے جس سے دماغ تک درد کا پیغام ہی نہیں پہنچتا۔ یہ بھی پڑھیں: چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی اس دوا کی دریافت کا آغاز ایک شاندار جینیاتی مشاہدے سے ہوا۔ پاکستانی خاندان کے افراد کو دیکھ کر محققین نے پایا کہ یہ لوگ آتش چمچوں اور گرم کوئلوں پر چلنے میں کامیاب ہیں، جبکہ ان میں معمولی ترین درد کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ان افراد کے جسم میں وہ جین نہیں ہے جو درد کے سگنل کو فعال کرتا ہے۔ یہی جینیاتی خصوصیت اس دوا کی بنیاد بنی، جس نے اس مخصوص سوڈیم چینل کو ہدف بنایا جو درد کی ترسیل میں ملوث ہوتا ہے۔ سوزیٹریجین کی تشکیل کے بعد اس کے کلینیکل ٹرائلز 600 سے زائد مریضوں پر کیے گئے، جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ دوا سرجری کے بعد درد کو مؤثر طریقے سے کم کرتی ہے۔ اگرچہ یہ معجزاتی علاج نہیں ہے تاہم اس نے درد کی شدت کو 0-10 کے پیمانے پر تقریباً 3.5 پوائنٹس تک کم کر دیا، جو ویکوڈن جیسے عام اوپیئڈ درد کش دوا کے اثرات کے مساوی تھا۔ تاہم، یہ دوا دائمی درد جیسے سیاٹیکا کے لیے اتنی موثر ثابت نہیں ہوئی۔ سوزیٹریجین کی ترقی ایک امید کی کرن بن کر سامنے آئی ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکا اوپیئڈ بحران سے دوچار ہے۔ تقریباً 80 ملین امریکی ہر سال درد کش ادویات استعمال کرتے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ اوپیئڈز ہیں، جو اکثر نشے کا سبب بنتے ہیں۔ سوزیٹریجین کی منظوری ایک قدم آگے کی جانب ہے کیونکہ یہ اوپیئڈز کا ایک محفوظ متبادل پیش کرتی ہے۔ اس دوا کی قیمت 15.50 ڈالر فی گولی رکھی گئی ہے جو کہ مریضوں کے لیے ایک چیلنج ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس کی افورڈبیلٹی اور انشورنس کوریج اس کے استعمال میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ضرور پڑھیں: دس سال کے بعد ٹیکنالوجی دنیا کو کون سا نیا روپ دے گی؟ خوش قسمتی سے مریضوں کے لیے معاونت کے پروگرامز بھی موجود ہیں جو دوا کی قیمتوں میں کمی فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سوزیٹریجین کی منظوری نے درد کے علاج کے ماہرین کو امید کی ایک نئی کرن دکھائی ہے کیونکہ یہ ایک اور آپشن فراہم کرتی ہے جو اوپیئڈز کے خطرات سے بچا سکتی ہے۔ اس کی کامیابی نہ صرف درد کش ادویات کی دنیا میں ایک نئی تبدیلی لائے گی بلکہ ممکنہ طور پر اوپیئڈ بحران کے خاتمے کی جانب بھی ایک اہم قدم ہو سکتی ہے۔ اس دوا کی جینیاتی بنیاد پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیتوں سے جڑی ہوئی ہے اور اس نے عالمی سطح پر درد کش ادویات کے لیے ایک نئی راہ ہموار کی ہے۔ آنے والے سالوں میں، سوزیٹریجین مزید تحقیق کے ذریعے دوسرے درد کے مسائل جیسے ذیابیطس کی نیوروپیتھی کے لیے بھی ایک موثر علاج بن سکتی ہے۔ ایک نئی اور محفوظ درد کش دوا کے طور پر سوزیٹریجین کی آمد کا مطلب ہے کہ درد کے علاج کے لیے مریضوں کے پاس اب ایک بہتر، غیر اوپیئڈ آپشن ہوگا، جو نہ صرف درد کو کم کرے گا بلکہ انحصار اور نشے کے خطرات سے بھی محفوظ رکھے گا۔ مزید پڑھیں: آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟
چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی

دنیا بھر میں چوہوں کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف شہری انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ صحت کے لیے بھی خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔ حالیہ تحقیق نے یہ واضح کیا ہے کہ چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا تعلق صرف زیادہ آبادی یا کھانے کی کمی سے نہیں بلکہ ایک اور سنگین عنصر آب و ہوا کی تبدیلی سے ہے۔ یونیورسٹی آف رچمنڈ کے پروفیسر جوناتھن رچرڈسن نے دنیا میں چوہوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر تحقیق شروع کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے امریکا کے 200 بڑے شہروں سے چوہوں کے اعداد و شمار جمع کیے لیکن صرف 13 شہروں میں طویل المدت ڈیٹا دستیاب تھا جو ان کی تحقیق کے لیے ضروری تھا۔ اس کے بعد تحقیق میں بین الاقوامی شہروں ٹورنٹو، ٹوکیو اور ایمسٹرڈیم کو بھی شامل کیا گیا تاکہ جغرافیائی تنوع حاصل کیا جا سکے۔ مزید پڑھیں:مصر میں 5 ہزار سال بعد اسپوٹڈ ہائینا کی واپسی، ماہرین کو حیرت میں مبتلا کردیا اس تحقیق کے نتائج شائع ہونے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کے 16 میں سے 11 شہروں میں چوہوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جن میں واشنگٹن ڈی سی، سان فرانسسکو، نیو یارک، ٹورنٹو اور ایمسٹرڈیم جیسے شہر میں شامل ہیں۔ رپورٹس کتے مطابق ان شہروں چوہوں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جبکہ صرف تین شہروں میں کمی دیکھنے کو ملی جن نیو اورلینز، لوئس ویل اور ٹوکیو شامل ہیں۔ رچرڈسن نے کہا کہ یہ چوہے چھوٹے ممالیہ جانور ہیں جو سردیوں میں پناہ لینے کے لئے محدود ہوتے ہیں لیکن گرم درجہ حرارت، خاص طور پر موسم سرما میں، ان کی افزائش کو بڑھا دیتا ہے۔ رچرڈسن کے بقول، گرم موسم چوہوں کو سال بھر افزائش نسل کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس کے علاوہ یہ موسم انہیں شکار سے محفوظ رکھنے کے لیے زیادہ وقت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ماہر ماحولیات اور جنگلی چوہوں کے ماہر ‘مائیکل پارسنز’ نے کہا کہ گرم موسم چوہوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا سبب بن سکتا ہے۔ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو چوہے کھانے کے ذرائع اور پناہ گاہوں کے لیے مزید مواقع حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ موسم کی گرمی سے کھانے اور کچرے کی بو دور تک پھیلتی ہے جس سے چوہے آسانی سے شہروں میں پھیل جاتے ہیں۔ شہری چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد شہر کے لیے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ چوہے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے ہیں، کھانے کو آلودہ کرتے ہیں اور تاروں کو کاٹ کر آگ بھی لگا سکتے ہیں، اس سے امریکا میں ہر سال 27 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چوہے مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بھی بنتے ہیں۔ کارنیل یونیورسٹی کے ماہر انسیکٹس ‘میٹ فرائی’ کے مطابق چوہے 50 سے زائد جراثیموں کو منتقل کرتے ہیں جن میں لیپٹوسپائروسس جیسے سنگین امراض شامل ہیں جو انسانوں میں گردے اور جگر کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور علاج کے بغیر موت کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ، ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بھی بڑھ گئے واشنگٹن ڈی سی میں چوہوں پر قابو پانے کی مہم کے ذمہ دار ‘جیرارڈ براؤن’ کہتے ہیں کہ کوڑے دان میں کھانا نہ ڈالنے سے چوہوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سردی کے موسم میں چوہوں کی تعداد میں کمی آتی ہے اور یہی وہ وقت ہے جب چوہوں کی آبادی پر قابو پانے کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ رچرڈسن اور ان کی ٹیم نے تحقیق کے دوران یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شہروں کو چوہوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکام کو مشورہ دیا کہ وہ مہلک کنٹرول کے بجائے چوہوں کی افزائش کو روکنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کریں، جیسے کھانے کے فضلے اور کچرے تک رسائی کو کم کرنا۔ اگر شہروں نے چوہوں کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو نہ پایا تو یہ بات صاف ظاہر ہے کہ صورتحال بدتر ہو جائے گی۔
دس سال کے بعد ٹیکنالوجی دنیا کو کون سا نیا روپ دے گی؟

ہمیشہ سے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں پہ بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ پرنٹر سے کاغذ چھاپنے سے لے کر جدید ترین مصنوئی ذہانت سے اپنے پیچیدہ ترین سوالات کے جوابات حاصل کرنے تک، ٹیکنالوجی نے ہماری ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آنے والے 10 سالوں میں دنیا کی ٹیکنالوجی کیسی ہوگی؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے پہلے ہمیں اپنے ماضی کے 10 سالوں کو دیکھنا چاہیے۔ 2015 میں ہمارے پاس بہت کچھ ایسا نہیں تھا جو اس وقت ہماری بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ اسی طرح اگلے 10 سال کے بعد بھی ہماری زندگیاں نہایت تیزی سے بدل سکتی ہیں۔ کچھ برس پہلے مصنوئی ذہانت کے آنے سے ہماری زندگیوں میں صحیح معنوں میں انقلاب برپا ہو چکا ہے اور اگلے آنے والے وقت میں یہ مزید ہماری زندگیوں کا حصہ بنتا جائے گا۔ مصنوئی ذہانت سے بننے والی مشینیں جیسا کہ گاڑیاں، روبوٹس اورچھوٹے گیجٹس ہماری زندگیوں کا نہایت ضروری حصہ بن جائیں گی۔ ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی اورمصنوعی ذہانت کی ہمارے ساتھ جڑت مزید سے مزید ترہوتی جائے گی۔ یہ بات ممکن ہے کہ ہماری زندگی کے تقریباً تمام کام ٹیکنالوجی اور مصنوئی ذہانت سے جڑ جائیں گے۔ ہم اپنی آواز استعمال کر کے اپنے تمام کام کروا سکیں گے۔ اس بات کی جھلک ہم اپنے موبائل فونز میں ، الیکسا اور سیری جیسے آپشنز کو استعمال کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے گھروں میں سمارٹ ڈیوائسز کی مدد سے گھر کے کام بھی کرواتے ہیں۔یوں یہ بات ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ 2035 تک ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی کا کردار اس حد تک بڑھ جائے گا کہ ہمیں آن لائن اور آف لائن کاموں میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اگر ہم صحت کے شعبے کی بات کریں تو پچھلے 10 سے 20 سالوں میں انسانوں کی اوسط عمر میں واضح فرق آیا ہے۔ جہاں پہلے انسانوں کی عمریں 40 یا 50 سال تک ہوا کرتی تھیں، وہیں اب 50 سے 60 سال تک پہنچ چکی ہیں۔ مزیدبراں پیدا ہونے کے بعد پہلے بچوں کی اموات معمول کی بات تھی، وہیں اب یہ بات کم ہی سننے کوملتی ہیں۔ موجودہ دور میں جنیٹک انجینئرنگ ، پرسنالایزڈ ادویات ، اور سٹیم سیلز جیسے شعبوں میں تیزی ہمیں بتاتی ہیں کہ آنےوالے سالوں میں ایسی کئی بیماریاں ہوں گی جو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گی۔ کچھ ایسی بیماریاں جو موروثی طور پہ پائی جاتی ہیں،وہ بھی بچے کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کی جا سکیں گی۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ انسان کے بہت سے اندرونی و بیرونی اعضاءباآسانی تبدیل کیے جا سکیں گے۔ مصنوعی ذہانت کے انجنیئر، ڈین آلیسٹ کے مطابق 2035 تک جن مسائل سے ہم دو چار ہوں گے ان میں سب سے پہلے موسمیاتی تبدیلی ہوگی۔جس کی سب سے بڑی وجہ ہماری موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ نپٹ سکنے کی اہلیت ہے۔ یہ بات ممکن ہے کہ اگلے 10 سالوں میں بڑے پیمانے پہ ہجرت ہونا شروع ہوجائے۔ کیونکہ جو ممالک موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ اثر انداز ہوئے ہیں، وہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کریں گے۔ جس کی وجہ سے سے ترقی یافتہ ممالک میں وسائل تیزی سے کمی کی طرف جا سکتے ہیں۔ اگلے 10 برس بعد موسمیاتی تبدیلی ہماری زندگیوں پر نہایت خطرناک اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ تاہم اصل صورتِ حال 2035 کے آنے سے ہی واضح ہو گی لیکن ان تمام باتوں کے وقوع پذیر ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پروفیسر کامران علی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال سے بعض روایتی ملازمتیں ختم ہو سکتی ہیں خاص طور پر وہ جو معمول کے کاموں پر مبنی ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ڈیٹا سائنس، اے آئی ماڈلنگ اور ٹیکنالوجی مینجمنٹ جیسے شعبوں میں نئی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔” دوسری جانب اس حوالے سے آئی ٹی سپیشلسٹ سارہ ملک نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “اے آئی کی ترقی سے انسانی ملازمتوں پر اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم اس تبدیلی کو مثبت انداز میں لیں۔ ملازمین کو نئی مہارتیں سیکھنے اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ مستقبل کی ملازمتوں کے لیے تیار رہ سکیں۔” پروفیسر کامران علی نے اگلے 10 سالوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “2035 تک ٹیکنالوجی اور انسان کے تعلقات میں مزید گہرائی متوقع ہے۔ ہم ذہین ذاتی معاونین، صحت کی نگرانی کے لیے پہننے والے آلات اور ذہنی کنٹرول والے پروستھیٹکس جیسے انقلابی اقدامات دیکھ سکتے ہیں جو انسانی زندگی کو بہتر بنائیں گی۔” دوسری جانب سارہ ملک کا خیال ہے کہ “مستقبل میں انسان اور ٹیکنالوجی کا انضمام مزید مضبوط ہوگا۔ مصنوعی ذہانت اور بائیوٹیکنالوجی کے امتزاج سے ہم انسانی صلاحیتوں میں اضافہ اور زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بہتری کی توقع کر سکتے ہیں۔” پروفیسر کامران علی نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “مصنوعی ذہانت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنانے، کاربن کے اخراج کی نگرانی، اور موسمیاتی پیش گوئیوں میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ ماحولیاتی پالیسیوں کی تشکیل میں بھی معاون ہے۔” اس حوالے سے سارہ ملک کا ماننا ہے کہ “اے آئی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا تجزیہ اور ان کے حل تلاش کر سکتے ہیں۔ تاہم ان ٹیکنالوجیز کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے تاکہ ان کے منفی ماحولیاتی اثرات کو کم کیا جا سکے۔” صحت کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کے فروغ پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر کامران نے کہا کہ “صحت کے شعبے میں اے آئی کی ترقی سے بیماریوں کی تشخیص اور علاج میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ جینیاتی تجزیہ اور ذاتی نوعیت کے علاج کے ذریعے ہم مستقبل میں کئی بیماریوں کے مؤثر علاج اور ممکنہ طور پر ان کے خاتمے
پاکستانی نوجوان نے کارخانوں، فصلوں کی نگرانی کے لیے اے آئی کیمرے متعارف کرا دیے

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں آئی ٹی ایکسپو کا دلچسپ اور معلوماتی میلا سجایا گیا۔ شرکا کے سامنے پیش کیے گئے اے آئی کیمروں نے خوب توجہ سمیٹی۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ سی سی ٹی وی اور ڈرون کیمرے مانیٹرنگ اور نگرانی کے میدان میں منفرد پیشکش قرار دیے گئے ہیں۔ منتظمین کے مطابق آپ ان کیمروں کو اپنی مرضی کی کمانڈز دے کر کہیں سے بھی مانیٹر کر سکتے ہیں۔ اگر یہ کیمرے کسی کارخانے میں نصب ہوں، تو آپ کیمروں ہدایات دے سکتے ہیں کہ جتنے ڈبے بن رہے ہیں، ان میں سے اگر کوئی ڈبہ خراب ہو تو یہ فوری طور پر اس کی نشاندہی کرکے پروڈکشن چین کو اطلاع دیں گے۔ ایک کسان نے ڈرون کیمرے میں ایسی کمانڈ شامل کروائی ہے جس سے ڈرون اس کی فصلوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ اگر کسی جگہ فصل کمزور ہو رہی ہو، تو یہ ڈرون فوراً اطلاع دے کر کسان کو مسئلے کا حل نکالنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ جدید کیمرے نہ صرف سکیورٹی اور مانیٹرنگ کے لیے بہترین ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں استعمال کے لیے کارآمد ہیں۔
ڈیپ سیک کو آتے ہی سبکی کا سامنا، حساس ڈیٹا لیک ہوگیا

نیویارک کی معروف سائبر سیکیورٹی فرم ویز نے ایک انتہائی سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ چینی مصنوعی ذہانت کا اسٹارٹ اپ “ڈیپ سیک” کا حساس ڈیٹا بغیر کسی حفاظتی تدابیر کے انٹرنیٹ پر آ گیا ہے۔ ویز کے مطابق، یہ ڈیٹا اس وقت غیر محفوظ طریقے سے منظرِ عام پر آیا جب کمپنی نے اپنے انفراسٹرکچر کی اسکیننگ کی۔ یہ انکشاف بدھ کے روز ویز کے بلاگ پر شائع کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈیپ سیک نے حادثاتی طور پر 10 لاکھ سے زائد حساس معلومات کو انٹرنیٹ پر کھلا چھوڑ دیا تھا۔ یہ ڈیٹا نہ صرف سافٹ ویئر کی لائسنس کی کلیدوں پر مشتمل تھا بلکہ چیٹ لاگ بھی شامل تھے، جو صارفین کی جانب سے ڈیپ سیک کے مفت مصنوعی ذہانت کے اسسٹنٹ کو بھیجے گئے اشاروں (prompts) کی تفصیلات ظاہر کرتے ہیں۔ یہ معلومات حساس نوعیت کی تھیں اور اس سے کمپنی کے صارفین کی پرائیویسی پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔ ویز کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر، امی لوٹواک، نے اس بارے میں مزید تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ ڈیپ سیک نے فوری طور پر اس مسئلے کی اطلاع دی اور ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ڈیٹا کو ہٹا دیا۔ ویز کی تحقیق سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ڈیپ سیک نے اگرچہ فوراً کارروائی کی، لیکن اس نوعیت کی غلطیوں کے سامنے آنے سے مستقبل میں دیگر سیکیورٹی خطرات کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ڈیپ سیک کی کمپنی نے اپنی مصنوعی ذہانت کی خدمات کا کامیاب آغاز کیا،ڈیپ سیک کی کامیابی نے اس بات پر سوالات اٹھا دیے ہیں کہ آیا اوپن اے آئی اور دیگرامریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنے منافع کے مارجن کو برقرار رکھ پائیں گی، کیونکہ ڈیپ سیک نے انتہائی کم قیمت پر اوپن اے آئی کی خدمات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت دکھائی ہے۔ پیر تک، ڈیپ سیک کے ایپ نے ایپل کے ایپ اسٹور پر امریکی حریف چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا، جس سے ٹیک کمپنیوں کے شیئرز کی عالمی سطح پر فروخت میں تیزی آ گئی تھی۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، سائبر سیکیورٹی کی غفلت کسی بھی کمپنی کے لئے سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہے اور ڈیجیٹل دنیا میں حفاظت کے اقدامات کو نظرانداز کرنا انتہائی مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔
چینی کمپنی کا کراچی سے پشاور تک 3 ہزار چارجنگ اسٹیشن لگانے کا اعلان

چائنہ نےپاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے کراچی سے پشاور تک چارجنگ اسٹیشن نصب کرنے کےلیے منصوبے کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد سبز توانائی کو اپنانا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ چین کے اے ڈی ایم گروپ کے ایک وفد نے سندھ کے وزیر توانائی ناصر حسین شاہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے ملک میں ای وی انفراسٹرکچر کی توسیع پر بات چیت کی ہے ، یہ گروپ پاکستان میں 3 ہزار ای وی چارجنگ اسٹیشن کراچی سے پشاورتک نصب کرے گا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر توانائی ناصر حسین شاہ نے تصدیق کی کہ شہری علاقوں اور شاہراہوں کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کے مکمل تعاون سے چارجنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں گے،ہر چارجنگ اسٹیشن پر لگ بھگ 80 لاکھ روپے لاگت آنے کی توقع ہے، جس کی تنصیب کے لیے 10 لاکھ روپے کی ابتدائی رقم درکار ہے۔ نجی چینل ایکسپریس کے مطابق ای وی چارجنگ کے اسٹیشن لگانے سے تقریباً 10 لاکھ ملازمتیں پیدا ہونے کی توقع ہے، جس سے پاکستان کے روزگار کے شعبے کو بڑا فروغ ملے گا،اے ڈی ایم گروپ پاکستان میں ای وی مینوفیکچرنگ پلانٹس لگانے کا بھی ارادہ رکھتا ہے اور اس نے پہلے ہی چارجنگ انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اگر کمپنی سندھ میں پیداواری سہولیات قائم کرتی ہے تو صوبائی حکومت مقامی طور پر تیار کی جانے والی کم از کم 20 فیصد الیکٹرک گاڑیاں خریدنے پر غور کرے گی۔ چائنیز اے ڈی ایم گروپ کے سی ای او یاسر بھمبانی نے کہا کہ حکومت اجازت دے تو اس سال پاکستان میں گاڑی بنانے کو تیار ہیں، میڈ ان پاکستان ای وی گاڑیوں کو مستقبل میں ایکسپورٹ بھی کیا جائے گا۔ سی ای اونے مزید کہا کہ میڈ ان پاکستان ای وی گاڑیوں کو بھارت سمیت سات ممالک میں ایکسپورٹ کرنے کا پلان ہے، پاکستان میں کراچی پنجاب اور بلوچستان میں 3مینوفیچرنگ پلانٹس لگائے جائیں گے، کمپنی کے پاس پاکستان میں سالانہ 72ہزار یونٹس کی پیداواری استعداد ہے۔ توقع ہے کہ اس سرمایہ کاری سے پاکستان کی ای وی انڈسٹری کو فروغ ملے گا، فوسل فیول پر انحصار کم ہوگا، اور ماحولیاتی استحکام میں مدد ملے گی
چیٹ جی پی ٹی نہ ڈیپ سیک، علی بابا نے مصنوعی ذہانت کا اپنا ماڈل پیش کردیا

چینی ٹیکنالوجی کمپنی علی بابا نے بدھ کے روزاپنی مصنوعی ذہانت کا نیا ماڈل “کیوین 2.5” متعارف کرایا ہے، جس نے عالمی سطح پر اپنی موجودگی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ایک غیر متوقع کامیابی حاصل کی ہے۔ علی بابا کا دعویٰ ہے کہ اس کا نیا ماڈل “کیوین 2.5 میکس” نے ڈیپ سیک-وی 3 کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جو ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ کیوین 2.5 کا آعازچین کے نئے قمری سال کے پہلے دن ہوگا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علی بابا نے چینی مصنوعی ذہانت کی صنعت میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے بھرپور حکمت عملی اپنائی ہے۔ کیوین 2.5 میکس کی یہ کامیابی اس بات کا اشارہ ہے کہ چینی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے عالمی سطح پر اے آئی کے میدان میں تیزی سے ترقی کی ہے، خاص طور پر ان کے نئے ماڈلز، جیسے کہ “ڈیپ سیک-آر 1″، نے سلیکون ویلی کی مشہور کمپنیوں کو چیلنج کیا ہے۔ 10 جنوری کو ڈیپ سیک کے اے آئی اسسٹنٹ کی ریلیز کے ساتھ، اس نے گوگل، اوپن اے آئی اور میٹا جیسے عالمی برانڈز کے ماڈلز کو پیچھے چھوڑنے کے دعوے کیے، اور پھر 20 جنوری کو اس کے “آر 1 ماڈل” کی ریلیز نے مزید ہلچل مچادی۔ علی بابا نے اپنے “کیوین 2.5 میکس” کو اوپن اے آئی کے جی پی ٹی-4 اور ڈیپ سیک-وی 3 اور لاما-3.1-405 بی جیسے جدید ترین ماڈلز کے مقابلے میں بہترین کارکردگی کا حامل قرار دیا ہے۔ علی بابا کے کلاؤڈ یونٹ نے اپنے آفیشل وی چیٹ اکاؤنٹ پر اس کا تفصیل سے اعلان کیا اور کہا کہ اس کا ماڈل تقریباً تمام بینچ مارکس میں ان ماڈلز سے بہتر رہا ہے۔ یہ ساری صورتحال چینی مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک نیا موڑ لے آئی ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں میں ڈیپ سیک نے نہ صرف اپنے غیر ملکی حریفوں کو چیلنج کیا، بلکہ اپنے کے حریفوں کو بھی اپ گریڈ ہونے پر مجبور کیا۔ بائٹ ڈانس، جو کہ ٹک ٹاک کا مالک ہے، اس نے بھی اپنے اے آئی ماڈل کی تازہ ترین اپ ڈیٹ جاری کی، جس کا دعویٰ تھا کہ اس نے مائیکروسافٹ کے حمایت یافتہ اوپن اے آئی کے ماڈل او-1 کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ مقابلہ چینی ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک نیا دور شروع کر رہا ہے جہاں عالمی کمپنیاں ایک دوسرے کو ٹیکنالوجی کی تیز تر ترقی کے حوالے سے دلچسپ مقابلے میں دیکھ رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی کمپنی اپنے اگلے اے آئی ماڈلز کے ذریعے اس میدان میں سبقت حاصل کرے گی؟ وقت ہی بتائے گا۔
آپ کی تصویر کون کون دیکھے گا؟ واٹس ایپ نے نیا فیچر متعارف کروا دیا

واٹس ایپ نے صارفین کے لیے نئی پالیسی متعارف کروا دی۔ پالیسی کے مطابق صارفین کی پروفائل فوٹو سب کو نظر آئے گی جب تک صارفین خود اپنے اکاونٹ کی سیٹنگز نہیں کریں گے۔ نئی پالیسی کے مطابق جب بھی کوئی نیا یوزر واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کرے گا تو پہلے سے طے شدہ قوانین کے مطابق اس کی پروفائل تصویر سب لوگوں کو نظر آئے گی۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کی تصویر کسی کو نظر نہ آئے تو وہ واٹس ایپ کی سیٹنگز میں جا کر تبدیلی کر سکتا ہے۔ اگر صارف چاہتا ہے کہ اس کی تصویر تمام لوگ دیکھیں تو وہ سیٹنگز میں موجود آپشن “ایوری ون” پہ کلک کر سکتا ہے۔ جب کہ اگر وہ صرف ان لوگوں کو تصویر دکھانا چاہتا ہے جو اس کی کانٹیکٹ لسٹ میں ہوں تو اسے “کانٹیکٹس” کے آپشن پر کلک کرنا پڑے گا۔ اسی طرح اگر وہ کسی کو بھی پروفائل فوٹو نہیں دکھانا چاہتا ہے تو “نو باڈی” پہ کلک کرے گا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ واٹس ایپ پیغام رسانی اور لوگوں سے رابطے میں رہنے کے لیے سب سے زیادہ مشہور ہے۔ آسانی اور یوزر فرینڈلی انٹرفیس کی وجہ سے پوری دنیا میں لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ بیک لنکو کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں واٹس ایپ 113 ملین ڈاؤن لوڈز کے ساتھ دنیا کی چوتھی سب سے زیادہ چلنے والی ایپ ہے۔ واٹس ایپ پر صارفین میسج، آڈیو کال اور ویڈیو کال بھی آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سٹیٹس ، واٹس ایپ گروپس اور واٹس ایپ کمیونٹی جیسے فیچرز اس کے استعمال کرنے والوں کے لیے دلچسبی کا باعث ہیں۔ واٹس ایپ نے تمام صارفین کو ایک میسج ،جس میں ایک ویڈیو بھی شامل تھی، بھیجا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ” آپ یہ کنٹرول کر سکتے ہیں کہ کون آپ کی پروفائل فوٹو دیکھ رہا ہے”
نئی CSIRO ٹیکنالوجی نے خلا میں 20 سے زائد پراسرار سگنلز کی دریافت کر لیئے

آسٹریلوی محققین نے ایک نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے خلا میں 20 سے زائد پراسرار سگنلز دریافت کیے ہیں، جو سائنس کی دنیا میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی CSIRO (آسٹریلین سائنسی اور صنعتی تحقیقی تنظیم) نے تیار کی ہے اور اس کا نام CRACO رکھا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے اس بات کا کھوج لگایا گیا کہ خلا میں کئی غیر معمولی اور پراسرار سگنلز کی موجودگی ہے، جنہیں سمجھنا ابھی تک انسان کے لئے ایک معمہ بنا ہوا تھا۔ آسٹریلیشین نیشنل سائنس ایجنسی CSIRO کے ماہرین اور انجینئرز کی مدد سے یہ نئی ٹیکنالوجی تیار کی گئی ہے جس کی کامیاب آزمائش نے ماہرین کو خلا میں موجود پراسرار سگنلز کو سمجھنے میں اہم کامیابی دلائی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے تحقیقاتی ٹیم نے انتہائی کم وقت میں 20 سے زائد فاسٹ ریڈیو برٹس (Fast Radio Bursts) اور نیوٹرون اسٹارز جیسے اجسام دریافت کیے ہیں، جو اس تحقیق میں ایک بڑی کامیابی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ CRACO ایک جدید سسٹم ہے جسے CSIRO کے ASKAP ریڈیو ٹیلی اسکوپ سے جوڑا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے محققین خلا میں موجود مختلف اجسام کے سگنلز کو اس قدر سرعت سے ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں کہ پہلے کبھی یہ ممکن نہیں تھا۔ اس ٹیکنالوجی نے تحقیق کے عمل کو بے حد تیز کر دیا ہے اور ریسرچرز اب ہر سیکنڈ میں 100 بار تک سگنلز کا معائنہ کر سکتے ہیں، جبکہ مستقبل میں یہ تعداد 1,000 تک بڑھنے کی توقع ہے۔ اس سسٹم کا کام انتہائی پیچیدہ ہے کیونکہ یہ ہر سیکنڈ میں 100 ارب پکسلز کو اسکین کرتا ہے تاکہ کسی بھی نوعیت کے فاسٹ ریڈیو برٹس کو شناخت کیا جا سکے۔ اس تحقیق کا ایک نکتہ نظر یہ تھا کہ ریڈیو سگنلز کا تجزیہ کیا جائے جو خلا میں مختلف فاصلے اور سمتوں سے آ رہے تھے، اور CRACO نے یہ عمل اس قدر درست اور تیز طریقے سے مکمل کیا ہے کہ اس کی مثال دی جا رہی ہے جیسے ریت کے بے شمار دانوں میں سے ایک بانچ روپے کا سکہ تلاش کرنا۔ فاسٹ ریڈیو برٹس ایک ایسا راز ہیں جن کی حقیقت ابھی تک واضح نہیں ہو سکی۔ یہ انتہائی روشن اور مختصر مدت تک روشن ہونے والے ریڈیو سگنلز ہیں جو زیادہ تر ہماری کہکشاں سے باہر کے خلا سے آتے ہیں۔ ان کی اصلی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی، مگر ان کی موجودگی نے خلا کی تحقیق کے میدان میں ایک نیا باب کھولا ہے۔ ڈاکٹر اینڈی وانگ، جو اس تحقیق کی قیادت کر رہے ہیں، نہوں نے کہا کہ ان کی ٹیم نے فاسٹ ریڈیو برٹس کی تلاش میں اس سے زیادہ اجسام دریافت کیے ہیں جو انہوں نے توقع کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم فاسٹ ریڈیو برٹس کو ڈھونڈنے پر مرکوز تھے مگر ہم نے ان سے زیادہ چیزیں دریافت کیں، جن میں نیوٹرون اسٹارز اور پولسارز شامل ہیں۔” پہلے فاسٹ ریڈیو برٹس کی تلاش میں متعدد اضافی اقدامات درکار ہوتے تھے، لیکن CRACO کے ذریعے اس عمل کو زیادہ سادہ اور تیز بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر لورا ڈریسن، جو یونیورسٹی آف سڈنی میں ریڈیو ایسٹرونومر ہیں، انھوں نے اس نئی ٹیکنالوجی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ CRACO نے اس عمل کو بہت زیادہ موثر بنا دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے فلکیات دانوں کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ خلا میں پھیلے ان سگنلز کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوں جو پہلے صرف عمومی سمت تک محدود تھے۔ CRACO کے ذریعے فاسٹ ریڈیو برٹس کی جگہ کا تعین کرنا ممکن ہو سکا ہے، جو کہ ان کی نوعیت اور ان کے ماخذ کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اگر ہم ان سگنلز کے ماخذ کی صحیح جگہ معلوم کر سکیں تو ہم ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں، جیسے کہ ان کی صحیح فاصلے اور ان کے پیچھے موجود قدرتی عمل کی تفصیلات۔ ڈاکٹر ڈریسن نے اس بات پر زور دیا کہ یہ تحقیق خلا کے پراسرار اجسام کو سمجھنے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ اگر ہم فاسٹ ریڈیو برٹس کے ہر ایک سگنل کو اس کے متعلقہ کہکشاں سے جوڑ سکیں تو ہم ان کی حقیقت کو سمجھنے میں مزید کامیاب ہو سکتے ہیں۔ CRACO کے ذریعے آسٹریلوی سائنسدانوں نے خلا میں موجود ایک اور معمہ حل کرنے کی طرف ایک قدم اور بڑھایا ہے۔ اس کی کامیاب آزمائش کے بعد ماہرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کی مدد سے خلا کے بارے میں نئے راز کھلیں گے۔ اس تحقیق میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں اور یہ فیلڈ خلا کی دریافت کے حوالے سے ایک نئی سمت اختیار کرے گا۔
ڈیپ سیک: چیٹ جی پی ٹی کو مات دینے والا چینی اے آئی ماڈل

چین کی تیار کردہ ایک نئی مصنوعی ذہانت کی ایپ “ڈیپ سیک” نے گزشتہ چند ہفتوں میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا ہے اور اس کی مقبولیت آسمان کو چھو رہی ہے۔ اس ایپ نے نہ صرف چیٹ جی پی ٹی جیسے مشہور حریفوں کو پیچھے چھوڑا ہے بلکہ امریکا، برطانیہ اور چین کے ایپل ایپ سٹور پر بھی ٹاپ ریٹیڈ مفت ایپلی کیشن کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ رواں برس جنوری میں اپنے لانچ کے بعد سے اس ایپ کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ڈیپ سیک کی کامیابی نے مصنوعی ذہانت کی صنعت میں ایک نیا تنقیدی سوال اٹھا دیا ہے جیسا کہ ‘کیا امریکا اب بھی اے آئی کا لیڈر ہے؟ کیا چین نے اپنے طور پر اس صنعت میں امریکی برتری کو چیلنج کر دیا ہے؟ یہ چینی ایپ اوپن سورس ‘ڈیپ سیک وی تھری’ ماڈل پر ڈیزائن کی گئی ہے جسے محققین کے مطابق چھ ملین ڈالر کی لاگت میں تیار کیا گیا ہے۔ یہ تخمینے اس بات کا واضح اشارہ دیتے ہیں کہ چین میں ای آئی کے ماڈلز تیار کرنے کی قیمت وہ نہیں رہی جو پہلے سمجھا جاتا تھا۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر ایپلی کیشنز پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے مگر ڈیپ سیک کم لاگت اور اعلیٰ معیار کی بدولت اس میدان میں سبقت لے گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیپ سیک کے کامیاب لانچ نے ای آئی کی صنعت میں ایک نیا ابھار پیدا کر دیا ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کا ماڈل چیٹ جی پی ٹی جیسے جدید ترین ماڈلز کے برابر ہے۔ ڈیپ سیک ‘آر ون’ جو کہ کمپنی کا تازہ ترین ماڈل ہے یہ ریاضی، کوڈنگ اور عمومی زبان کے استدلال جیسے پیچیدہ کاموں میں مہارت رکھتا ہے۔ اس ماڈل کی کامیابی کا موازنہ 1957 میں سوویت یونین کے پہلے مصنوعی زمینی سیٹلائٹ ‘سپوٹنک’ سے کیا جا رہا ہے جس نے اس وقت دنیا کو چونکا دیا تھا۔ دنیا کی مشہور ٹیکنالوجی کمپنیوں اینویڈیا، مائیکروسوفٹ اور میٹا کے شئیرز میں شدید گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔ اسی طرح یورپی کمپنیوں کے شئیرز کی قیمتیں بھی گر گئی ہیں۔ ایک ڈچ چپ کمپنی اے ایس ایم ایل کے شئیرز میں 10 فیصد سے زیادہ کمی آئی اور سیمنز انرجی جو کہ ای آئی ہارڈ ویئر بناتی ہے اس کمپنی کے شئیرز کی قیمت میں 21 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ دوسری جانب سٹی انڈیکس کی سینئر مارکیٹ تجزیہ کار فیونا سنکوٹا کا کہنا ہے کہ “کم قیمت والے چینی ورژن کو پہلے اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی تھی مگر اس کی لانچ کے بعد مارکیٹ میں ایک نئی پریشانی دیکھنے کو ملی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ کو اچانک یہ کم لاگت والا ماڈل مل جائے تو اس سے حریفوں کے منافع پر اثر پڑے گا خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ وہ پہلے ہی زیادہ مہنگے ماڈلز اور انفراسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ چینی اے آئی ماڈلز کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ وہ ترقی ہے جس کا سامنا امریکی کمپنیوں کو ایک دن ضرور کرنا پڑے گا۔ سنگاپور میں مقیم ٹیکنالوجی ایکویٹی ایڈوائزر وے سرن لنگ نے خبردار کیا ہے کہ “یہ تبدیلی پوری ای آئی سپلائی چین میں سرمایہ کاری کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔” وہ کہتے ہیں کہ اس نئے کم لاگت چینی ماڈل نے امریکا کی بڑی اے آئی کمپنیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ تاہم سٹی بینک کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کے پاس اب بھی جدید ترین چپس تک رسائی ہے اور یہ بات چینی کمپنیوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ امریکا نے 2021 میں چین پر جدید چپس کی فروخت پر پابندیاں عائد کی تھیں اور اس کے بعد چینی کمپنیوں کو نئے طریقوں پر تجربات کرنے پڑے ہیں۔ یہ چینی کمپنیوں کا ذہانت سے کام لینے کا نتیجہ ہے کہ وہ کم کمپیوٹنگ پاور والے ماڈلز تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جو نہ صرف سستے ہیں بلکہ ان کی کارکردگی بھی اعلیٰ ہے۔ ڈیپ سیک کی بنیاد 2023 میں چین کے شہر ہانگزو میں لیانگ وینفینگ نے رکھی تھی۔ 40 سالہ لیانگ ایک تجربہ کار انجینئر ہیں جنہوں نے چین میں ایک اسٹور قائم کر رکھا تھا جہاں ایونیڈیا اے 100 چپس بیچی جاتی تھیں۔ جب چین پر یہ چپس درآمد کرنے کی پابندی عائد کی گئی تو انہوں نے سستی چپس کے ساتھ اپنے اے آئی ماڈلز کی تیاری کا عمل شروع کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس وقت 50 ہزار جدید چپس موجود تھیں جنہیں انہوں نے کم لاگت والی سستی چپس کے ساتھ جوڑ کر ڈیپ سیک کو کامیابی کے ساتھ لانچ کیا۔ ڈیپ سیک کی کامیابی نے صرف چین میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی مصنوعی ذہانت کے میدان میں نئے سوالات اور چیلنجز کو جنم دیا ہے،جو نہ صرف بڑی امریکی ٹیک کمپنیوں کے لیے ایک چیلنج ہے بلکہ عالمی ای آئی مارکیٹ کے لیے بھی ایک سنگین موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین اس میدان میں امریکا کی برتری کو چیلنج کر سکے گا؟