گوگل سرچ مارکیٹ پر قبضے کے لیے AI کا استعمال کر سکتا ہے، امریکی محکمہ انصاف

دنیا کی سب سے بڑی ٹیک کمپنی گوگل کے خلاف امریکی محکمہ انصاف کا تاریخی اینٹی ٹرسٹ مقدمہ شروع ہو چکا ہے، جس میں کمپنی پر الزام ہے کہ وہ اپنی مصنوعی ذہانت (اے آئی) مصنوعات کے ذریعے سرچ انجن مارکیٹ پر اپنی اجارہ داری قائم رکھے ہوئے ہے۔ عالمی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق محکمہ انصاف اور ریاستی اٹارنی جنرلز کا کہنا ہے کہ گوگل کو اپنے براؤزر “کروم” کو فروخت کرنے، ایپل اور دیگر ڈیوائس ساز کمپنیوں کو دی جانے والی اربوں ڈالر کی ادائیگیاں بند کرنے اور اگر ضرورت پڑے تو اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کو بھی بیچنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ عدالت میں محکمہ انصاف کے وکیل ڈیوڈ ڈاہلکوسٹ نے کہا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ گوگل اور دیگر اجارہ داروں کو یہ پیغام دیا جائے کہ قانون توڑنے کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ مزید پڑھیں: آئی ٹی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ، مارچ 2025 میں 34 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں محکمہ انصاف کی جانب سے یہ مؤقف اپنایا گیا ہے کہ گوگل کی پالیسیز نئی اور چھوٹی کمپنیوں کے لیے سرچ مارکیٹ میں جگہ بنانا مشکل بنا رہی ہیں، خاص طور پر اب جب کہ سرچ اور AI تیزی سے آپس میں ضم ہو رہے ہیں۔ OpenAI اور Perplexity AI جیسے اداروں کے گواہ عدالت میں گوگل کی اجارہ داری سے اپنے کاروبار پر پڑنے والے اثرات پر روشنی ڈالیں گے۔ دوسری جانب گوگل نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ صرف سرچ انجنز سے متعلق ہے، اور اس کی AI مصنوعات اس کے دائرہ کار میں نہیں آتیں۔ گوگل کی ایگزیکٹو لی-این مولہولینڈ نے ایک بلاگ پوسٹ میں کہا کہ ان اقدامات سے “امریکی اختراع کو ایک نازک مرحلے پر نقصان پہنچے گا۔” گوگل کا مزید کہنا ہے کہ اگر وہ موزیلا جیسے براؤزرز کو دی جانے والی مالی امداد بند کر دے، تو یہ کمپنیاں زندہ نہیں رہ پائیں گی اور اسمارٹ فونز کی قیمتیں بھی بڑھ سکتی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: کپاس کی درآمدات میں اضافہ، انڈیا امریکی کپاس کا بڑا خریدار بن گیا واضح رہے کہ یہ مقدمہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب گوگل کے خلاف ورجینیا کی عدالت میں ایک اور اینٹی ٹرسٹ کیس میں فیصلہ آیا ہے، جس میں گوگل کو اشتہاری ٹیکنالوجی میں غیر قانونی اجارہ داری قائم کرنے کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا گوگل انٹرنیٹ کی دنیا کا بادشاہ بنا رہے گا، یا پھر امریکی حکومت کی قانونی یلغار اس کا اقتدار چھین لے گی۔
مسلسل چوتھی مرتبہ دنیا کی بہترین کار کا اعزاز، ایسا کیا ہے؟

Kia کی نئی الیکٹرک گاڑی EV3 کو سال 2025 کی ورلڈ کار آف دی ایئر کا ایوارڈ ملا ہے۔ یہ اعلان 16 اپریل کو کیا گیا۔ یہ مسلسل چوتھا سال ہے کہ Hyundai Motor Group کی کسی گاڑی نے یہ مشہور اعزاز حاصل کیا ہے۔ اس سے پہلے 2022 میں Ioniq 5، 2023 میں Ioniq 6 اور 2024 میں EV9 کو یہ ایوارڈ ملا تھا۔ یہ ایوارڈ دنیا کے تین سب سے اہم گاڑیوں کے انعامات میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اس موقع پر Hyundai کی ایک اور چھوٹی الیکٹرک گاڑی، Casper Electric کو “سال کی بہترین الیکٹرک کار” کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ یہ تقریب نیویارک انٹرنیشنل آٹو شو میں ہوئی۔ کمپنی کے ایک نمائندے نے کہا، “یہ ایوارڈز ہماری الیکٹرک گاڑیوں کے اعلیٰ معیار کا ثبوت ہیں۔” EV3 اور Casper Electric دونوں چھوٹی SUV گاڑیاں ہیں جو 2024 کے دوسرے حصے میں جنوبی کوریا میں لانچ کی گئیں۔ یہ گاڑیاں اپنی کشادہ اندرونی جگہ اور جدید فیچرز کی وجہ سے کافی پسند کی جا رہی ہیں۔ گاڑیوں کے تجزیہ کار ادارے Carisyou Data Institute کے مطابق، 2025 کی پہلی سہ ماہی میں یہ دونوں ماڈل جنوبی کوریا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی الیکٹرک گاڑیاں رہیں۔ Kia کے CEO سونگ ہو-سنگ نے کہا، “یہ ایوارڈ ہمارے اس عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم جدید ٹیکنالوجی اور خوبصورت ڈیزائن کے ساتھ دنیا کو پائیدار نقل و حرکت کے حل دے رہے ہیں۔” ورلڈ کار ایوارڈز کے لیے صرف وہی گاڑیاں اہل ہوتی ہیں جو کم از کم دو براعظموں میں ہر سال 10 ہزار سے زیادہ فروخت ہوں۔ اس سال 30 ممالک سے 96 ماہر صحافیوں نے انعامات کے لیے گاڑیوں کا انتخاب کیا۔
آئی ٹی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ، مارچ 2025 میں 34 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں

پاکستان نےمارچ 2025 میں اپنی اب تک کی سب سے زیادہ ماہانہ آئی ٹی برآمدات ریکارڈ کیں ہیں، جو کہ 34 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں۔ یہ 12فیصد سال بہ سال اور ماہ بہ ماہ اضافہ کی عکاسی کرتا ہے، جو بڑھتی ہوئی عالمی طلب اور معاون گھریلو پالیسی اقدامات دونوں کو واضح کرتا ہے،مارچ کی یہ کارکردگی گزشتہ 12 ماہ کی اوسط یعنی 31 کروڑ 10 لاکھ سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ مالی سال 2025 کے پہلے نو مہینوں میں کل آٹی برآمدات دو ارب 80 لاکھ ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، جو کہ سال بہ سال 24 فیصد زیادہ ہے، اس کارکردگی نے پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کو سال کے اختتام سے قبل ہی گزشتہ مالی سال کی برآمدات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان نے مسلسل 18 مہینوں سے آئی ٹی برآمدات میں سال بہ سال اضافہ ریکارڈ کیا ہے، جس کا آغاز اکتوبر 2023 سے ہوا تھا۔ تجزیہ کار اس مستقل نمو کو مختلف اسٹریٹجک عوامل کے ساتھ جوڑتے ہیں، جن میں ریگولیٹری اصلاحات، روپے کا استحکام اور پاکستانی کمپنیوں کی بین الاقوامی سطح پر پھیلتی ہوئی موجودگی شامل ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پالیسیوں نے اس ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر وہ قدم جس کے تحت آئی ٹی برآمد کنندگان کو اپنی برآمدی آمدنی کا 50 فیصد تک مخصوص فارن کرنسی اکاؤنٹس میں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے، جو اس سے قبل 35 فیصد تک محدود تھی۔ اس فیصلے سے نہ صرف منافع کو مؤثر طریقے سے دوبارہ سرمایہ کاری کے قابل بنایا گیا ہے بلکہ کمپنیوں کو بیرون ملک اپنے آپریشنز کو بہتر طریقے سے سنبھالنے میں بھی مدد ملی ہے۔ پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، تقریباً 62 فیصد مقامی آئی ٹی کمپنیاں ان خصوصی غیر ملکی اکاؤنٹس کو برقرار رکھتی ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح سیکٹر نے عالمی توسیع کے لیے نئے مالیاتی آلات کو اپنایا ہے۔ حکومت کے ‘اوران پاکستان’ اقتصادی منصوبے کا مقصد مالی سال 2029 تک سالانہ آئی ٹی برآمدات کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانا ہے، جس کے لیے اگلے چار سالوں میں تقریباً 28 فیصد کی کمپاؤنڈ سالانہ ترقی کی شرح کی ضرورت ہوگی۔
انڈیا کے جوہری قانون میں ترمیم: امریکا کو سرمایہ کاری کی دعوت

ایک ایسی پیش رفت جو انڈیا کی توانائی کے مستقبل کو نئی سمت دے سکتی ہے، مودی حکومت نے جوہری توانائی کے متنازعہ قوانین میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق حکومت ایک ایسا مسودۂ قانون تیار کر چکی ہے جس کا مقصد غیر ملکی خاص طور پر امریکی، کمپنیوں کو انڈیا کے جوہری توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنا ہے۔ یہ تبدیلیاں صرف قانونی اصلاحات ہی نہیں بلکہ انڈیا کے اس وسیع منصوبے کا حصہ ہیں جس کے تحت 2047 تک جوہری توانائی کی پیداواری صلاحیت کو 12 گنا بڑھا کر 100 گیگاواٹ تک لے جایا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسودہ قانون میں ایک اہم شق کو ختم کیا جا رہا ہے جو 2010 کے جوہری ذمہ داری قانون میں شامل تھیں جس کے تحت کسی بھی حادثے کی صورت میں سپلائر کو لامحدود مالی ذمہ داری کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ یہی قانون ایک عرصے سے امریکی کمپنیوں جیسے جنرل الیکٹرک اور ویسٹنگ ہاؤس کو انڈیا کی جوہری مارکیٹ سے دور رکھے ہوئے تھا۔ یہ بھی پڑھیں: روس کا یوکرین پر میزائل حملہ، ایک شہری جاں بحق، درجنوں زخمی ایک اعلیٰ سرکاری ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ “اب وقت آ گیا ہے کہ انڈیا دنیا کو دکھائے کہ وہ صاف توانائی کے میدان میں سنجیدہ ہے اور عالمی سرمایہ کاری کے لیے ایک محفوظ اور پرکشش ماحول فراہم کرنا جانتا ہے۔“ تجویز کردہ ترمیم کے مطابق اگر کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو جوہری پلانٹ کا آپریٹر سپلائر سے معاوضہ صرف اس حد تک ہی طلب کر سکے گا جتنا کہ معاہدے میں طے شدہ رقم ہو گی اور وہ بھی ایک خاص مدت کے اندر۔ فی الحال قانون میں نہ تو معاوضے کی کوئی حد متعین ہے اور نہ ہی ذمہ داری کی مدت کی کوئی وضاحت۔ یہ ترمیمات بین الاقوامی معیار کے مطابق ہیں جہاں حادثات کی بنیادی ذمہ داری پلانٹ کے آپریٹر پر عائد ہوتی ہے نہ کہ سپلائر پر۔ یہی وجہ ہے کہ روسی اور فرانسیسی کمپنیاں جن کی حکومتیں انشورنس اور ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتی ہیں، یہ کمپنیاں انڈیا میں پہلے سے سرگرم عمل ہیں۔ یہ قانونی ترامیم نہ صرف توانائی کے میدان میں انقلاب لا سکتی ہیں بلکہ انڈیا اور امریکا کے درمیان ایک اہم تجارتی معاہدے کے لیے بھی راہ ہموار کریں گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو اس سال متوقع انڈیا-یو ایس ٹریڈ ڈیل کی راہ کھل سکتی ہے جس کا ہدف 2030 تک دو طرفہ تجارت کو 500 ارب ڈالر تک پہنچانا ہے، جو 2024 میں محض 191 ارب ڈالر تھی۔ یہ قانون دراصل 1984 کے بھوپال گیس سانحے کے پس منظر میں بنایا گیا تھا جب یونین کاربائیڈ کی فیکٹری میں ہونے والے حادثے میں پانچ ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی پس منظر میں انڈیا نے ایک سخت قانون متعارف کرایا تاکہ آئندہ کسی بھی صنعتی یا جوہری حادثے میں متاثرین کو انصاف مل سکے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون نے انڈیا کی جوہری ترقی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر دی۔ مزید پڑھیں: امریکا یوکرین معاہدہ: دونوں ممالک میں قیمتی معدنیات پر مفاہمت طے پا گئی
نئی تحقیق کی روشنی میں زمین کے علاوہ کس سیارے پر جاندار بستے ہیں؟

جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کے ذریعے سائنس دانوں نے ایک اجنبی سیارے K2-18 b کے ماحول میں ایسی گیسوں کی موجودگی دریافت کی ہے جو زمین پر صرف جانداروں کی موجودگی سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ دریافت ایک ممکنہ تاریخی سنگ میل سمجھی جا رہی ہے، کیونکہ یہ ہماری زمین کے باہر زندگی کے مضبوط ترین اشاروں میں سے ایک ہے۔ مذکورہ گیسوں میں ڈائمتھائل سلفائیڈ اور ڈائمتھائل ڈسلفائیڈ شامل ہیں، جو زمین پر زیادہ تر مائکروبیل زندگی، خصوصاً سمندری طحالب یا فائٹوپلانکٹن سے پیدا ہوتی ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ براہِ راست زندگی کی موجودگی کا اعلان نہیں کر رہے، لیکن یہ گیسیں حیاتیاتی عمل کا اشارہ ضرور دیتی ہیں، جسے “بایوسگنیچر” کہا جاتا ہے۔ تحقیق کی قیادت کرنے والے ماہر فلکیاتی طبیعیات دان نکو مدھوسودھن کے مطابق، یہ دریافت نظام شمسی سے باہر زندگی کی تلاش میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب ہم نے ممکنہ طور پر قابل رہائش سیارے میں حیاتیاتی نشانات کا پتہ لگایا ہے، اور یہ مشاہداتی فلکیات کی دنیا میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ K2-18 b سیارہ زمین سے 8.6 گنا زیادہ وزنی اور 2.6 گنا زیادہ چوڑا ہے، اور یہ اپنے ستارے کے “رہنے کے قابل زون” میں گردش کرتا ہے، جہاں مائع پانی موجود ہو سکتا ہے۔ اس کا میزبان ستارہ ایک سرخ بونا ہے جو زمین سے 124 نوری سال کے فاصلے پر لیو برج میں واقع ہے۔ ویب ٹیلی سکوپ کے ابتدائی مشاہدات نے پہلے ہی اس سیارے کے ماحول میں میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی کی تصدیق کی تھی، اور اب نئی گیسوں کی دریافت اس مفروضے کو مزید تقویت دیتی ہے کہ یہ ایک ایسی دنیا ہو سکتی ہے جہاں مائکروبیل زندگی موجود ہو۔ سائنس دانوں نے محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے اور زور دیا ہے کہ مزید مشاہدات ضروری ہیں تاکہ اس دریافت کی تصدیق ہو سکے۔ تاہم، یہ تحقیق اس بات کا واضح اشارہ ضرور دیتی ہے کہ ہم اپنے نظام شمسی سے باہر زندگی کے امکانات کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اور ممکنہ طور پر کائنات میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔
سوشل میڈیا پر نیا رجحان: اے آئی کے ذریعے ’منی می‘ گڑیا اور ایکشن فگرز بنانے کا بڑھتا ہوا شوق

سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں میں ایک نیا اور دلچسپ رجحان دیکھنے کو ملا ہے، جہاں لوگ خود کو اے آئی سے بنی منی می جیب میں سما جانے والے کھلونوں، گڑیاؤں اور ایکشن فگرز کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ اس تخلیقی رجحان کے پیچھے جنریٹو مصنوعی ذہانت کے ٹولز، جیسے کہ چیٹ جی پی ٹی کارفرما ہیں جو صارفین کو یہ سہولت دیتے ہیں کہ وہ اپنی تصاویر اور تحریری ہدایات فراہم کر کے اپنی ایک منی ورژن تصویر حاصل کر سکیں۔ یہ عمل بظاہر نہایت سادہ ہے، صارف اپنی ایک تصویر اپلوڈ کرتا ہے اور اس کے ساتھ ایک پرامپٹ شامل کرتا ہے جس میں وضاحت کی جاتی ہے کہ تصویر میں اسے کس حالت میں دکھایا جائے مثلاً کن کپڑوں میں، کن اشیاء کے ساتھ، کس قسم کی پیکجنگ میں اور یہاں تک کہ گڑیا یا کھلونے کے باکس کا رنگ اور فونٹ کیسا ہو۔ کئی لوگ اس تصویر کو مزید ذاتی بنانے کے لیے اس میں اپنا نام، پیشہ اور دیگر تفصیلات بھی شامل کرتے ہیں۔ یہ رجحان اتنی تیزی سے وائرل ہوا ہے کہ اب عام افراد کے ساتھ ساتھ مختلف برانڈز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ بیوٹی برانڈ ماریو بیڈیسکو جیسی معروف کمپنیاں بھی اس کا حصہ بنی ہیں۔ تاہم، ہر بار نتائج درست نہیں نکلتے۔ بعض صارفین نے ایسی تصاویر شیئر کی ہیں جن میں ان کی اے آئی گڑیا ان سے بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ آنکھوں کا رنگ، عمر، یا چہرے کے خدوخال اکثر غیر حقیقی بن جاتے ہیں، جو اے آئی کی محدود تفہیم اور تخلیقی انداز کی عکاسی کرتے ہیں۔
پابندی یا تحفظ؟ کم عمر صارفین انسٹاگرام پر والدین کی اجازت سے لائیو جاسکیں گے

میٹا نے انسٹاگرام پر کم عمر صارفین کے تحفظ کے لیے بڑا قدم اٹھا لیا، اب 16 سال سے کم عمر نوجوان لائیو براڈکاسٹ صرف والدین کی اجازت سے ہی کر سکیں گے۔ میٹا کی جانب سے اس فیصلے کا مقصد آن لائن دنیا میں کم عمر صارفین کو درپیش خطرات سے بچانا اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ پابندی انسٹاگرام کے اُن سیفٹی فیچرز کا حصہ ہے، جن کا اعلان گزشتہ سال کیا گیا تھا، جنہیں “ٹین اکاؤنٹس” کے نام سے متعارف کرایا گیا تھا۔ یہ پابندیاں صرف انسٹاگرام تک محدود نہیں، بلکہ فیس بک اور میسنجر پر بھی کم عمر صارفین کے لیے یہی اصول لاگو کیے جا رہے ہیں۔ میٹا کے فیملی سینٹر کے تحت والدین 16 سال سے کم عمر نوجوانوں کے انسٹاگرام اکاؤنٹس کو کنٹرول کر سکیں گے۔ انسٹاگرام کی پبلک پالیسی کی گلوبل ڈائریکٹر تارا ہوپکنز کے مطابق یہ اقدامات نوجوانوں کی آن لائن زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ “ٹین اکاؤنٹس” فیچر متعارف ہونے کے بعد سے اب تک ساڑھے 5 کروڑ نوجوان اس پروگرام کا حصہ بن چکے ہیں، جن میں سے 97 فیصد کی عمریں 16 سال سے کم ہیں۔ 13 سے 15 سال کے صارفین پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جن کے تحت وہ اپنی انسٹاگرام سیٹنگز میں والدین کی اجازت کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے، جب کہ 16 سال یا اس سے زائد عمر کے نوجوانوں کے لیے تھوڑی نرمی رکھی گئی ہے۔ یاد رہے کہ میٹا نے ستمبر 2024 میں تین سیفٹی سیٹنگز متعارف کرائی تھیں، جن کے تحت کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس خودکار طور پر پرائیویٹ کر دیے گئے تھے۔ یہ اقدامات ایک ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں، جب میٹا کو مختلف ممالک کی جانب سے کم عمر صارفین کے تحفظ میں ناکامی پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ 2021 میں میٹا نے 19 سال سے زائد عمر کے افراد کو ان نوجوانوں کو میسج بھیجنے سے روک دیا تھا جو انہیں فالو نہ کرتے ہوں۔ 2023 میں ایک نیا ٹول متعارف کرایا گیا تھا جو 18 سال سے کم عمر صارفین کو رات گئے ایپ کے استعمال سے روکتا ہے۔ اس کے علاوہ خودکشی، خود کو نقصان پہنچانے اور ایٹنگ ڈس آرڈرز جیسے مواد تک کم عمر صارفین کی رسائی بھی محدود کر دی گئی ہے۔ جنوری 2024 میں نئی میسجنگ پابندیوں کا اطلاق کیا گیا جس کے تحت اجنبی افراد کم عمر صارفین کو میسج نہیں بھیج سکیں گے اور نہ ہی کسی گروپ چیٹ میں شامل کر سکیں گے۔
سٹار لنک کی سروسز نومبر یا دسمبر تک پاکستان میں شروع ہو جائیں گی، وزیر آئی ٹی کا دعویٰ

وزیرمملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کمیونیکیشن شازہ فاطمہ خواجہ کا کہنا ہے کہ سٹار لنک، سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس نومبر یا دسمبر تک پاکستان میں شروع ہونے والی ہے۔ شازہ فاطمہ نے یہ اپ ڈیٹ امین الحق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اور ٹیلی کام کے اجلاس کے دوران شیئر کی۔ گزشتہ ماہ، شازہ نے تصدیق کی تھی کہ سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ فراہم کرنے والے کو وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر پاکستان میں عارضی رجسٹریشن دی گئی تھی۔ انہوں نے 21 مارچ کو ایک بیان میں کہاتھا کہ تمام سیکورٹی اور ریگولیٹری اداروں کے اتفاق رائے سے، سٹارلنک کو عارضی عدم اعتراض کا سرٹیفکیٹ این او سی جاری کر دیا گیا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چیئرمین نے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان اسپیس ایکٹیویٹی ریگولیٹری بورڈ نے سٹارلنک کو عارضی لائسنس دیا ہے۔ پی ٹی اے کے چیئرمین نے واضح کیا کہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے ریگولیٹری فریم ورک کو حتمی شکل دینے کے بعد کمپنی کو مکمل لائسنس مل جائے گا۔ کمیٹی کے سوالات کے جواب میں وزیر آئی ٹی نے یقین دلایا کہ لائسنس جاری کرنے میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ ایک نئی ٹیکنالوجی ہے، جس میں مختلف زاویوں سے محتاط غور و فکر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس میں مدد کرنے کے لیے، حکومت نے قواعد و ضوابط کو ختم کرنے میں مدد کے لیے کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کی تھیں، ضابطے مکمل ہونے کے بعد سٹارلنک کو اپنے مکمل لائسنس کے لیے دوبارہ درخواست دینے کی ضرورت ہوگی۔
‘انسان اور اے آئی میں فرق کرنا مشکل’ نئی تحقیق کیا بتا رہی ہے؟

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان ڈیاگو کی ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ جدید اے آئی ماڈل جیسے جی پی ٹی 4۔5 اب اتنے موثر انداز میں بات چیت کرتے ہیں کہ وہ 73 فیصد انسانوں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ اس مطالعے میں محققین نے تین فریقی ٹیورنگ ٹیسٹ استعمال کیا، جس میں ایک انسان، ایک اے آئی، اور ایک پوچھ گچھ کرنے والا شامل تھا۔ اس ٹیسٹ کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ پوچھنے والا کس حد تک اے آئی کو انسان سمجھتا ہے۔ نتائج کے مطابق، جی پی ٹی 4۔5 جب ایک خاص “پرسونا” پرامپٹ استعمال کرتا ہے، تو وہ 73 فیصد چیٹ سیشنز میں انسان کے طور پر پہچانا گیا۔ اسی طرح، میٹا کا نیا لیاما تھری ماڈل بھی 56 فیصد کی کامیابی کے ساتھ اس حد کو عبور کرتا ہے۔ دوسری جانب، جی پی ٹی 4۔0، جو موجودہ عام استعمال میں آنے والے چیٹ بوٹس کی نمائندگی کرتا ہے، کم از کم ہدایات کے تحت صرف 21 فیصد مواقع پر انسان کے طور پر پہچانا گیا۔ تحقیق کے سربراہ کیمرون جونز کا کہنا ہے کہ ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدید اے آئی ماڈلز مخصوص حکمت عملیوں کے تحت نہ صرف انسانی طرزِ گفتگو کی مؤثر نقل کر سکتے ہیں بلکہ وہ اصل انسان سے زیادہ قائل بھی لگ سکتے ہیں، خاص طور پر جب ایک خاص شخصیت اپنانے کی ہدایت دی جائے۔ یہ نتائج اس پرانے سوال کو بھی تازہ کرتے ہیں کہ کیا ٹیورنگ ٹیسٹ اب بھی “انسان جیسی ذہانت” کو جانچنے کا ایک مؤثر پیمانہ ہے، یا یہ صرف اے آئی کی نقل کرنے کی اعلیٰ صلاحیت کا عکاس بن چکا ہے؟ تحقیق نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ہم انسان، ایک فصیح، روانی سے بولنے والے چیٹ بوٹ سے کتنی آسانی سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ ماڈل واقعی کمپیوٹیشنل ذہانت کی ایک نئی دہلیز کو چھو رہے ہیں، یا ہم صرف ان کی باتوں کی چالاکی سے فریب کھا رہے ہیں؟ ماہرین کا خیال ہے کہ اس تیزی سے ترقی کرتے ہوئے منظرنامے میں AI ماڈلز جلد ہی کسٹمر سروس، ڈیجیٹل صحبت، اور دیگر کئی شعبوں میں انسانوں کی جگہ لے سکتے ہیں، اور اس بات پر غور کرنا ضروری ہو گا کہ ہم ان “انسان نما” مشینوں کے ساتھ کس طرح تعلق استوار کرتے ہیں۔
‘آسمان سے گِرا کھجور میں اٹکا’ زمین کے بعد اب سیارچہ چاند سے ٹکرا سکتا ہے

ناسا کے سائنسدانوں کے تازہ ترین مشاہدات کے مطابق، ایک سیارچہ جو کبھی زمین سے ٹکرا سکتا تھا، اب اس کے بجائے چاند سے ٹکرانے کے امکانات ہیں۔ اس سیارچے وائی آر کو گزشتہ سال دریافت کیا گیا تھا اور ابتدائی طور پر اس کے بارے میں خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ یہ 2032 میں زمین سے ٹکرا سکتا ہے۔ اس تصادم سے 80 کلومیٹر تک کے علاقے کی تباہی کا خدشہ تھا۔ تاہم مزید تجزیہ اور ٹریکنگ کے بعد یہ امکان ختم ہوگیا ہے اور اب زمین پر اس کا اثر تقریباً صفر ہو چکا ہے۔ ناسا کے جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ سے حاصل ہونے والے نئے اعداد و شمار کے مطابق، اب سیارچے کے چاند سے ٹکرانے کے امکانات 4 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اینڈی ریوکن نے اپنی تحقیق میں لکھا کہ 2032 میں چاند سے ٹکرانے کے اثرات کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ چاند سے ٹکرانے کا امکان کم ہے، لیکن یہ منظر ابھی بھی زیر مشاہدہ ہے، اور 2026 میں اس کی مزید ٹریکنگ کی جائے گی۔ سیارچے کا سائز 53 سے 67 میٹر کے درمیان ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جو ایک 15 منزلہ عمارت کے برابر ہے، اور اس کے چاند سے ٹکرانے کے ممکنہ اثرات کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اثرات سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے مستقبل میں سیارچوں کے خطرات سے نمٹنے کی تیاری بہتر ہو سکتی ہے۔ ناسا نے کہا کہ آنے والے سالوں میں جدید سیارچے سے باخبر رہنے کے نظام کی وجہ سے مزید ممکنہ اثرات کی نشاندہی کی جائے گی۔