رات کو جنک فوڈ کی شدید خواہش: ایک دلچسپ سائنسی حقیقت جو آپ کو حیران کر دے گی!

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ دن کے ابتدائی حصے میں آپ جنک فوڈ کی طرف اتنی توجہ کیوں نہیں دیتے؟ اور رات کو اچانک ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کچھ کھانے کا دل کر رہا ہو خاص طور پر وہ کھانے جو چکنائی اور مٹھاس سے بھرپور ہوں؟ یہ معمول کی سی بات ہے لیکن اس کے پیچھے پیچیدہ سائنسی راز چھپے ہیں جو ہماری جسمانی اور ذہنی حالتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ سوال اس وقت ذہن میں آتا ہے جب ہم اپنی رات کی خواہشات کو روک نہیں پاتے اور جنک فوڈ کی طرف بے قابو ہو جاتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ رات کو ہمیں جنک فوڈ کی شدید خواہش ہوتی ہے؟ آئیے اس راز کو کھولتے ہیں۔ صبح کے وقت جنک فوڈ کی خواہش کیوں نہیں ہوتی؟ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صبح کے وقت ہمارا جسم نیند سے بیدار ہونے کے بعد خود کو بحال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب ہم سو کر اٹھتے ہیں تو ہمارے خون میں شکر کی سطح کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں جسم ایسی غذا کا خواہش کرتا ہے جو پروٹین، فائبر اور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہو تاکہ توانائی بحال کی جا سکے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہارمونی نظام میں بھی توازن آتا ہے اور لیپٹین (جو بھوک کو کم کرتا ہے) کی سطح زیادہ ہوتی ہے جبکہ گھریلن (جو بھوک بڑھاتا ہے) کی سطح کم ہوتی ہے جس کے باعث ہم صبح کے وقت زیادہ صحت مند غذاؤں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ لیکن جب رات آتی ہے تو صورتحال بدل جاتی ہے۔ دن بھر کی مصروفیات کے بعد ہمارے جسم کی توانائی کی سطح کم ہو جاتی ہے اور بلڈ شوگر لیول گرنے لگتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارا جسم فوراً توانائی کے لیے جنک فوڈ کی طرف مائل ہو جاتا ہے جو چینی اور چکنائی سے بھرپور ہوتا ہے۔ اگر نیند کی کمی ہو تو یہ ایک اور عنصر بن جاتی ہے جو جنک فوڈ کی خواہش کو بڑھا دیتی ہے۔ جب ہم پوری نیند نہیں لیتے تو گھریلن (جو بھوک بڑھاتا ہے) کی سطح بڑھ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی کورٹیسول (اسٹریس ہارمون) بھی زیادہ مقدار میں خارج ہوتا ہے۔ یہ دونوں عوامل مل کر جنک فوڈ کے لیے ہمارا رجحان بڑھا دیتے ہیں۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اگر آپ کی خوراک میں میگنیشیم، پروٹین یا فائبر کی کمی ہو، تو جسم ان اجزاء کی کمی کو پورا کرنے کے لیے غیر صحت بخش کھانوں کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر رات کے کھانے میں اگر پروٹین، فائبر اور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس کا توازن نہ ہو، تو خون میں گلوکوز کی سطح میں اچانک اضافہ اور پھر کمی آتی ہے، جس کے نتیجے میں جنک فوڈ کی شدید خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ صرف جسمانی عوامل ہی نہیں بلکہ ہمارے جذباتی عوامل بھی اس خواہش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کئی افراد جنک فوڈ کو ایک طرح کا انعام سمجھ کر کھاتے ہیں جو دماغ میں خوشی کے ہارمون، یعنی ڈوپامائن کو خارج کرتا ہے۔ دن بھر کی تھکن اور دباؤ کے بعد ہم اپنی ذہنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے جنک فوڈ کا سہارا لیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ رات کو جنک فوڈ کی خواہش کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اس کے لیے چند سادہ مگر مؤثر تجاویز پر عمل کیا جا سکتا ہے: متوازن رات کا کھانا: رات کے کھانے میں پروٹین، فائبر اور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس کو شامل کریں تاکہ بلڈ شوگر لیول مستحکم رہے اور جنک فوڈ کی خواہش کم ہو۔ نیند کا خیال رکھیں: کم از کم 7 سے 8 گھنٹے کی نیند لیں تاکہ آپ کا ہارمونی نظام متوازن رہے اور آپ کا جسم زیادہ توانائی کے لیے جنک فوڈ کی طرف نہ جائے۔ ورزش کی عادت ڈالیں: دن بھر کی تھکن کو دور کرنے کے لیے جسمانی سرگرمیاں ضروری ہیں، کیونکہ یہ نہ صرف شوگر لیول کو مستحکم رکھتی ہیں بلکہ ذہنی دباؤ کو بھی کم کرتی ہیں۔ پانی کی مقدار بڑھائیں: پانی پینے کی عادت ڈالیں کیونکہ کبھی کبھی پانی کی کمی کو ہم بھوک سمجھ بیٹھتے ہیں، جس سے غیر صحت بخش کھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ ذہنی دباؤ سے بچیں: ذہنی دباؤ اور اسٹریس کو کم کرنے کے لیے چہل قدمی یا میڈیٹیشن جیسے طریقے اپنائیں تاکہ آپ غیر ضروری کھانے سے بچ سکیں۔ رات کے وقت جنک فوڈ کی خواہش صرف ایک عادت نہیں ہے بلکہ یہ جسمانی اور ذہنی عوامل کی پیچیدہ آمیزش کا نتیجہ ہے۔ اس خواہش کو روکنے کے لیے ہمیں اپنے خوراک کے انتخاب، نیند کی مقدار، اور روزمرہ کی روٹین پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان عوامل پر قابو پا کر ہم جنک فوڈ کی خواہش کو کم کر سکتے ہیں اور ایک صحت مند طرز زندگی کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ رات کو جنک فوڈ سے بچنا چاہتے ہیں تو ان سادہ مگر مؤثر تجاویز کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنائیں اور اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ یہ بھی پڑھیں:انسانی آنکھ کی حیرت انگیز ریزولوشن: کیا ہماری نظر جدید کیمروں سے زیادہ طاقتور ہے؟
انسانی آنکھ کی حیرت انگیز ریزولوشن: کیا ہماری نظر جدید کیمروں سے زیادہ طاقتور ہے؟

ہم سب روزمرہ کی زندگی میں کیمروں کا استعمال کرتے ہیں چاہے وہ اسمارٹ فون کا کیمرہ ہو یا پروفیشنل کیمرا، ہمیشہ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں بہترین کوالٹی کی تصاویر ملیں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ قدرت نے انسانوں میں جو ’کیمرہ‘ فٹ کیا ہے، اس کی ریزولوشن کتنی ہوگی؟ یقیناً، اس سوال کا جواب جان کر آپ حیران رہ جائیں گے! جدید سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی آنکھ کی ریزولوشن تقریباً 576 میگا پکسلز ہے۔ جی ہاں، آپ نے بالکل درست پڑھا! یہ وہ ریزولوشن ہے جو آج کے جدید ترین اسمارٹ فون کیمروں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ تاہم، اس حیرت انگیز حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ انسانی آنکھ اور ڈیجیٹل کیمرے میں بنیادی فرق کیا ہے۔ ڈیجیٹل کیمروں کی ریزولوشن ہر پکسل کی ایک فکسڈ سائز ہوتی ہے، جبکہ انسانی آنکھ کا نظام اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور قدرتی ہے۔ انسانی آنکھ میں موجود فوٹوریسپٹرز کی تعداد اس حد تک زیادہ ہوتی ہے کہ یہ دنیا کو انتہائی تفصیل سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ ہم کس جگہ اور کس زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ انسانی آنکھ کا سب سے زیادہ تفصیلی حصہ ’فویا‘ (Fovea) کہلاتا ہے۔ فویا ایک مخصوص حصہ ہوتا ہے جو ہماری آنکھ کے مرکزی نقطے پر واقع ہوتا ہے اور یہاں پر فوٹو ریسیپٹرز کی تعداد انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ فویا میں تقریباً 1 لاکھ 50 ہزار فوٹو ریسیپٹرز فی مربع ملی میٹر موجود ہوتے ہیں، جو اس نقطے کو انتہائی واضح اور تفصیلی طور پر دیکھنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔ اگر ہم کسی چیز کو براہ راست فوکس کرتے ہیں تو فویا کی ریزولوشن اس حد تک زیادہ ہوتی ہے کہ وہ تصویر کی کیفیت کو انتہائی بڑھا دیتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس، جب ہم اپنی نظر کو کسی اور طرف موڑتے ہیں تو ہمارے آس پاس کی تصاویر کی ریزولوشن کم ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی آنکھ مسلسل حرکت میں رہتی ہے اور دماغ تمام بصری معلومات کو جوڑ کر ایک مکمل اور واضح تصویر بناتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی یہ کسی بھی ڈیجیٹل کیمرے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ انسانی آنکھ اتنی حیرت انگیز صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ روشنی اور اندھیرے کے فرق کو بہت بہتر طور پر سمجھ سکتی ہے، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم قدرتی ماحول کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ انسانی آنکھ تقریباً 10 ملین مختلف رنگوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو کسی بھی جدید کیمرے سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کو رنگوں کی ایک وسیع تر اور متنوع رینج میں دیکھ سکتے ہیں، جو ایک کیمرے کے لیے ممکن نہیں۔ اگرچہ ٹیکنالوجی نے بے شمار طاقتور کیمرے تیار کر لیے ہیں لیکن یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ انسانی آنکھ کا نظام اب بھی ایک ناقابلِ یقین تخلیق ہے۔ مزید پڑھیں: آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟ یہ نہ صرف دنیا کو ایک وسیع زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ روشنی، رنگ، حرکت، اور گہرائی کو بھی انتہائی تفصیل سے محسوس کرتی ہے۔ انسانی آنکھ کا یہ پیچیدہ اور حیرت انگیز نظام اس بات کا ثبوت ہے کہ قدرت نے اس میں ایک ایسی طاقت رکھی ہے جو کسی بھی مصنوعی نظام سے کہیں زیادہ موثر اور حیران کن ہے۔ اس کی گہرائی اور پیچیدگی ابھی تک سائنسدانوں کے لیے ایک معمہ بنی ہوئی ہے اور وہ اس کی مکمل تفصیلات کو سمجھنے کے لیے تحقیق کر رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انسانی آنکھ قدرت کا ایک شاہکار ہے، جو ہر لمحہ دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کی ریزولوشن اور صلاحیتیں آج کے ڈیجیٹل کیمروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں، اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ کبھی بھی مکمل طور پر بدل نہیں سکتی۔ اگرچہ ٹیکنالوجی نے ہمیں شاندار کیمروں سے لیس کیا ہے لیکن انسانی آنکھ کا نظام ہمیشہ ہی سب سے بہترین اور حیرت انگیز رہے گا۔ ضرور پڑھیں: چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی
سمندر کی گہرائی میں انسانیت کا نیا سفر: سائنسدانوں نے منصوبہ تیار کر لیا

انسان نے زمین پر اپنے گھر بنانے کے بعد اب سمندر کی گہرائی میں بھی اپنی زندگی کا آغاز کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ ایک برطانوی کمپنی ‘ڈیپ’ نے ایک انقلابی منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت انسان سمندر کے اندر ایک بیس میں رہ سکیں گے اور طویل عرصے تک پانی کی گہرائی میں زندگی گزار سکیں گے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے بعد انسان کی زیر سمندر زندگی کا نیا باب شروع ہو گا، جو نہ صرف سائنس کے لیے ایک نیا سنگ میل ثابت ہو گا بلکہ انسانیت کی تاریخ میں بھی ایک اہم مقام حاصل کرے گا۔ ڈیپ کمپنی نے اپنے منصوبے کی تفصیلات میں بتایا ہے کہ یہ زیر سمندر بیس سطح سمندر سے 200 میٹر نیچے واقع ہو گی، جہاں چھ یا اس سے زائد افراد بآسانی رہ سکیں گے۔ یہ بیس انسانوں کو سمندر کی گہرائی میں رہنے کی ایک نئی دنیا فراہم کرے گا، اور اس کے ذریعے ہم سمندر کے غیر دریافت شدہ حصوں تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔ اس منصوبے کا موازنہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے کیا جا رہا ہے، جو خلا میں انسانوں کی طویل مدت تک موجودگی کی پہلی مثال ہے۔ ڈیپ کمپنی کا کہنا ہے کہ سمندر زمین کا دو تہائی حصہ ہے اور وہ آکسیجن فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں لیکن ابھی تک ہم نے سمندر کے اندر کی دنیا کے بارے میں بہت کم جانا ہے۔ یہ بیس سمندر کی گہرائیوں میں انسانی زندگی کے امکانات کو دریافت کرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کرے گی۔ اس کے ذریعے ہم نہ صرف سمندر کے راز کھول سکیں گے بلکہ بحری جہازوں کے ملبے کا جائزہ لے کر ہنگامی امدادی آپریشنز کے لیے نئے طریقے بھی دریافت کر سکیں گے۔ کمپنی کے مطابق ان کی کوشش ہے کہ 2027 تک یہ بیس سمندر کے اندر مکمل ہو جائے گی۔ اس منصوبے کی کامیابی کے بعد انسان پہلی بار سمندر کی گہرائی میں طویل عرصے تک رہنے کے قابل ہو گا۔ ضرور پڑھیں: آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پانی کے اندر انسان کا رہنا ممکن ہو گا کیونکہ خلا میں بھی انسان برسوں تک بغیر ہوا کے رہنے کے قابل ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سمندر میں زندگی گزارنا بھی ممکن ہے بشرطیکہ ضروری حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں۔ تاہم، اس کا ایک بڑا چیلنج پانی کا دباؤ ہے جو سمندر کی گہرائی میں بڑھ جاتا ہے اور کسی انسان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس دباؤ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور حفاظتی تدابیر موجود ہیں، جو اس نئے تجربے کو ممکن بنائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ، جیسے خلا میں انسان کا جسم بغیر ہوا کے زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتا ہے، ویسے ہی سمندر کی گہرائی میں بھی جسم پانی کے دباؤ کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔ سائنس کے ڈائریکٹر ‘ڈان کیرناگس’ نے اس حوالے سے تفصیل سے بات کی اور بتایا کہ جب کوئی غوطہ خور ایک خاص گہرائی میں رہتا ہے تو اس کا جسم پانی میں حل شدہ گیسوں کو جذب کر لیتا ہے جس سے اس کی جسمانی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ دباؤ کو بہتر طریقے سے برداشت کر سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی تحقیق سمندر کے بارے میں ہمارے علم میں مزید اضافہ کرے گی اور ہمیں سمندری حیات کے بارے میں نئی معلومات حاصل ہوں گی۔ یہ منصوبہ نہ صرف انسانیت کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا بلکہ سائنسدانوں کے لیے بھی ایک انقلابی کامیابی ہو گی۔ اس کے ذریعے ہمیں سمندر کی گہرائیوں میں رہنے کے بارے میں نئی بصیرت ملے گی اور ایک نیا دور شروع ہو گا جہاں انسان اور سمندر کا تعلق ایک نئے انداز میں قائم ہو گا۔ ڈیپ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی کے بعد سمندر میں رہنا ایک روز معمول بن جائے گا، اور یہ ایک نیا چیلنج بھی ہو گا۔ جو لوگ اس تجربے کا حصہ بنیں گے وہ نہ صرف نئی دنیا کا حصہ ہوں گے بلکہ انسانیت کی تاریخ کے ایک انقلابی لمحے کے گواہ بھی بنیں گے۔ مستقبل قریب میں سمندر کی گہرائی میں انسانی زندگی ممکن بننا ایک خواب کی طرح لگتا ہے لیکن سائنس کی تیز رفتار ترقی اور نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے یہ خواب حقیقت میں بدل سکتا ہے۔ جیسے جیسے یہ منصوبہ آگے بڑھے گا دنیا بھر کے لوگ اس کا مشاہدہ کریں گے اور ممکن ہے کہ مستقبل میں سمندر کی گہرائی میں زندگی گزارنا انسانیت کے لیے ایک عام بات بن جائے۔ مزید پڑھیں: پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی
پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی

ایک حیران کن میڈیکل بریک تھرو کے طور پر امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے ایک نئی غیر اوپیئڈ درد کش دوا سوزیٹریجین کی منظوری دے دی ہے، جو درد کے علاج میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ منظوری اس شاندار سائنسی دریافت کا نتیجہ ہے جس میں ایک پاکستانی خاندان کی منفرد جینیاتی خصوصیات کو مدنظر رکھا گیا، جن کے افراد جلتی ہوئی آگ پر بے درد چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس خاندان کے افراد کے جسم میں ایک ایسا جین موجود نہیں تھا جو درد کے سگنلز کو فعال کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ شدید گرمی اور جلنے کے احساس سے بچ جاتے تھے۔ سوزیٹریجین پچھلے بیس سالوں میں درد کی پہلی نئی قسم کی دوا ہے۔ ایف ڈی اے کی جانب سے جمعرات کو اس دوا کی منظوری ایک تاریخی سنگ میل ہے، جو اوپیئڈز کے متبادل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اوپیئڈز عام طور پر درد کو کم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ان میں نشے کی لت اور انحصار کا خطرہ ہوتا ہے۔ سوزیٹریجین کا طریقہ کار مختلف ہے، یہ دوا درد کے سگنل دینے والی اعصابی رگوں کو فعال ہونے سے روکتی ہے جس سے دماغ تک درد کا پیغام ہی نہیں پہنچتا۔ یہ بھی پڑھیں: چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی اس دوا کی دریافت کا آغاز ایک شاندار جینیاتی مشاہدے سے ہوا۔ پاکستانی خاندان کے افراد کو دیکھ کر محققین نے پایا کہ یہ لوگ آتش چمچوں اور گرم کوئلوں پر چلنے میں کامیاب ہیں، جبکہ ان میں معمولی ترین درد کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ان افراد کے جسم میں وہ جین نہیں ہے جو درد کے سگنل کو فعال کرتا ہے۔ یہی جینیاتی خصوصیت اس دوا کی بنیاد بنی، جس نے اس مخصوص سوڈیم چینل کو ہدف بنایا جو درد کی ترسیل میں ملوث ہوتا ہے۔ سوزیٹریجین کی تشکیل کے بعد اس کے کلینیکل ٹرائلز 600 سے زائد مریضوں پر کیے گئے، جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ دوا سرجری کے بعد درد کو مؤثر طریقے سے کم کرتی ہے۔ اگرچہ یہ معجزاتی علاج نہیں ہے تاہم اس نے درد کی شدت کو 0-10 کے پیمانے پر تقریباً 3.5 پوائنٹس تک کم کر دیا، جو ویکوڈن جیسے عام اوپیئڈ درد کش دوا کے اثرات کے مساوی تھا۔ تاہم، یہ دوا دائمی درد جیسے سیاٹیکا کے لیے اتنی موثر ثابت نہیں ہوئی۔ سوزیٹریجین کی ترقی ایک امید کی کرن بن کر سامنے آئی ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکا اوپیئڈ بحران سے دوچار ہے۔ تقریباً 80 ملین امریکی ہر سال درد کش ادویات استعمال کرتے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ اوپیئڈز ہیں، جو اکثر نشے کا سبب بنتے ہیں۔ سوزیٹریجین کی منظوری ایک قدم آگے کی جانب ہے کیونکہ یہ اوپیئڈز کا ایک محفوظ متبادل پیش کرتی ہے۔ اس دوا کی قیمت 15.50 ڈالر فی گولی رکھی گئی ہے جو کہ مریضوں کے لیے ایک چیلنج ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس کی افورڈبیلٹی اور انشورنس کوریج اس کے استعمال میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ضرور پڑھیں: دس سال کے بعد ٹیکنالوجی دنیا کو کون سا نیا روپ دے گی؟ خوش قسمتی سے مریضوں کے لیے معاونت کے پروگرامز بھی موجود ہیں جو دوا کی قیمتوں میں کمی فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سوزیٹریجین کی منظوری نے درد کے علاج کے ماہرین کو امید کی ایک نئی کرن دکھائی ہے کیونکہ یہ ایک اور آپشن فراہم کرتی ہے جو اوپیئڈز کے خطرات سے بچا سکتی ہے۔ اس کی کامیابی نہ صرف درد کش ادویات کی دنیا میں ایک نئی تبدیلی لائے گی بلکہ ممکنہ طور پر اوپیئڈ بحران کے خاتمے کی جانب بھی ایک اہم قدم ہو سکتی ہے۔ اس دوا کی جینیاتی بنیاد پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیتوں سے جڑی ہوئی ہے اور اس نے عالمی سطح پر درد کش ادویات کے لیے ایک نئی راہ ہموار کی ہے۔ آنے والے سالوں میں، سوزیٹریجین مزید تحقیق کے ذریعے دوسرے درد کے مسائل جیسے ذیابیطس کی نیوروپیتھی کے لیے بھی ایک موثر علاج بن سکتی ہے۔ ایک نئی اور محفوظ درد کش دوا کے طور پر سوزیٹریجین کی آمد کا مطلب ہے کہ درد کے علاج کے لیے مریضوں کے پاس اب ایک بہتر، غیر اوپیئڈ آپشن ہوگا، جو نہ صرف درد کو کم کرے گا بلکہ انحصار اور نشے کے خطرات سے بھی محفوظ رکھے گا۔ مزید پڑھیں: آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟
چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی انسانوں کے لیے وبال جان بن گئی

دنیا بھر میں چوہوں کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف شہری انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ صحت کے لیے بھی خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔ حالیہ تحقیق نے یہ واضح کیا ہے کہ چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا تعلق صرف زیادہ آبادی یا کھانے کی کمی سے نہیں بلکہ ایک اور سنگین عنصر آب و ہوا کی تبدیلی سے ہے۔ یونیورسٹی آف رچمنڈ کے پروفیسر جوناتھن رچرڈسن نے دنیا میں چوہوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر تحقیق شروع کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے امریکا کے 200 بڑے شہروں سے چوہوں کے اعداد و شمار جمع کیے لیکن صرف 13 شہروں میں طویل المدت ڈیٹا دستیاب تھا جو ان کی تحقیق کے لیے ضروری تھا۔ اس کے بعد تحقیق میں بین الاقوامی شہروں ٹورنٹو، ٹوکیو اور ایمسٹرڈیم کو بھی شامل کیا گیا تاکہ جغرافیائی تنوع حاصل کیا جا سکے۔ مزید پڑھیں:مصر میں 5 ہزار سال بعد اسپوٹڈ ہائینا کی واپسی، ماہرین کو حیرت میں مبتلا کردیا اس تحقیق کے نتائج شائع ہونے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کے 16 میں سے 11 شہروں میں چوہوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جن میں واشنگٹن ڈی سی، سان فرانسسکو، نیو یارک، ٹورنٹو اور ایمسٹرڈیم جیسے شہر میں شامل ہیں۔ رپورٹس کتے مطابق ان شہروں چوہوں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جبکہ صرف تین شہروں میں کمی دیکھنے کو ملی جن نیو اورلینز، لوئس ویل اور ٹوکیو شامل ہیں۔ رچرڈسن نے کہا کہ یہ چوہے چھوٹے ممالیہ جانور ہیں جو سردیوں میں پناہ لینے کے لئے محدود ہوتے ہیں لیکن گرم درجہ حرارت، خاص طور پر موسم سرما میں، ان کی افزائش کو بڑھا دیتا ہے۔ رچرڈسن کے بقول، گرم موسم چوہوں کو سال بھر افزائش نسل کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس کے علاوہ یہ موسم انہیں شکار سے محفوظ رکھنے کے لیے زیادہ وقت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ماہر ماحولیات اور جنگلی چوہوں کے ماہر ‘مائیکل پارسنز’ نے کہا کہ گرم موسم چوہوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا سبب بن سکتا ہے۔ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو چوہے کھانے کے ذرائع اور پناہ گاہوں کے لیے مزید مواقع حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ موسم کی گرمی سے کھانے اور کچرے کی بو دور تک پھیلتی ہے جس سے چوہے آسانی سے شہروں میں پھیل جاتے ہیں۔ شہری چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد شہر کے لیے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ چوہے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتے ہیں، کھانے کو آلودہ کرتے ہیں اور تاروں کو کاٹ کر آگ بھی لگا سکتے ہیں، اس سے امریکا میں ہر سال 27 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چوہے مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بھی بنتے ہیں۔ کارنیل یونیورسٹی کے ماہر انسیکٹس ‘میٹ فرائی’ کے مطابق چوہے 50 سے زائد جراثیموں کو منتقل کرتے ہیں جن میں لیپٹوسپائروسس جیسے سنگین امراض شامل ہیں جو انسانوں میں گردے اور جگر کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور علاج کے بغیر موت کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافہ، ویکسی نیشن ٹیموں پر حملے بھی بڑھ گئے واشنگٹن ڈی سی میں چوہوں پر قابو پانے کی مہم کے ذمہ دار ‘جیرارڈ براؤن’ کہتے ہیں کہ کوڑے دان میں کھانا نہ ڈالنے سے چوہوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سردی کے موسم میں چوہوں کی تعداد میں کمی آتی ہے اور یہی وہ وقت ہے جب چوہوں کی آبادی پر قابو پانے کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ رچرڈسن اور ان کی ٹیم نے تحقیق کے دوران یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شہروں کو چوہوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکام کو مشورہ دیا کہ وہ مہلک کنٹرول کے بجائے چوہوں کی افزائش کو روکنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کریں، جیسے کھانے کے فضلے اور کچرے تک رسائی کو کم کرنا۔ اگر شہروں نے چوہوں کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو نہ پایا تو یہ بات صاف ظاہر ہے کہ صورتحال بدتر ہو جائے گی۔
دس سال کے بعد ٹیکنالوجی دنیا کو کون سا نیا روپ دے گی؟

ہمیشہ سے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں پہ بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ پرنٹر سے کاغذ چھاپنے سے لے کر جدید ترین مصنوئی ذہانت سے اپنے پیچیدہ ترین سوالات کے جوابات حاصل کرنے تک، ٹیکنالوجی نے ہماری ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آنے والے 10 سالوں میں دنیا کی ٹیکنالوجی کیسی ہوگی؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے پہلے ہمیں اپنے ماضی کے 10 سالوں کو دیکھنا چاہیے۔ 2015 میں ہمارے پاس بہت کچھ ایسا نہیں تھا جو اس وقت ہماری بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ اسی طرح اگلے 10 سال کے بعد بھی ہماری زندگیاں نہایت تیزی سے بدل سکتی ہیں۔ کچھ برس پہلے مصنوئی ذہانت کے آنے سے ہماری زندگیوں میں صحیح معنوں میں انقلاب برپا ہو چکا ہے اور اگلے آنے والے وقت میں یہ مزید ہماری زندگیوں کا حصہ بنتا جائے گا۔ مصنوئی ذہانت سے بننے والی مشینیں جیسا کہ گاڑیاں، روبوٹس اورچھوٹے گیجٹس ہماری زندگیوں کا نہایت ضروری حصہ بن جائیں گی۔ ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی اورمصنوعی ذہانت کی ہمارے ساتھ جڑت مزید سے مزید ترہوتی جائے گی۔ یہ بات ممکن ہے کہ ہماری زندگی کے تقریباً تمام کام ٹیکنالوجی اور مصنوئی ذہانت سے جڑ جائیں گے۔ ہم اپنی آواز استعمال کر کے اپنے تمام کام کروا سکیں گے۔ اس بات کی جھلک ہم اپنے موبائل فونز میں ، الیکسا اور سیری جیسے آپشنز کو استعمال کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے گھروں میں سمارٹ ڈیوائسز کی مدد سے گھر کے کام بھی کرواتے ہیں۔یوں یہ بات ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ 2035 تک ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی کا کردار اس حد تک بڑھ جائے گا کہ ہمیں آن لائن اور آف لائن کاموں میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اگر ہم صحت کے شعبے کی بات کریں تو پچھلے 10 سے 20 سالوں میں انسانوں کی اوسط عمر میں واضح فرق آیا ہے۔ جہاں پہلے انسانوں کی عمریں 40 یا 50 سال تک ہوا کرتی تھیں، وہیں اب 50 سے 60 سال تک پہنچ چکی ہیں۔ مزیدبراں پیدا ہونے کے بعد پہلے بچوں کی اموات معمول کی بات تھی، وہیں اب یہ بات کم ہی سننے کوملتی ہیں۔ موجودہ دور میں جنیٹک انجینئرنگ ، پرسنالایزڈ ادویات ، اور سٹیم سیلز جیسے شعبوں میں تیزی ہمیں بتاتی ہیں کہ آنےوالے سالوں میں ایسی کئی بیماریاں ہوں گی جو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گی۔ کچھ ایسی بیماریاں جو موروثی طور پہ پائی جاتی ہیں،وہ بھی بچے کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کی جا سکیں گی۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ انسان کے بہت سے اندرونی و بیرونی اعضاءباآسانی تبدیل کیے جا سکیں گے۔ مصنوعی ذہانت کے انجنیئر، ڈین آلیسٹ کے مطابق 2035 تک جن مسائل سے ہم دو چار ہوں گے ان میں سب سے پہلے موسمیاتی تبدیلی ہوگی۔جس کی سب سے بڑی وجہ ہماری موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ نپٹ سکنے کی اہلیت ہے۔ یہ بات ممکن ہے کہ اگلے 10 سالوں میں بڑے پیمانے پہ ہجرت ہونا شروع ہوجائے۔ کیونکہ جو ممالک موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ اثر انداز ہوئے ہیں، وہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کریں گے۔ جس کی وجہ سے سے ترقی یافتہ ممالک میں وسائل تیزی سے کمی کی طرف جا سکتے ہیں۔ اگلے 10 برس بعد موسمیاتی تبدیلی ہماری زندگیوں پر نہایت خطرناک اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ تاہم اصل صورتِ حال 2035 کے آنے سے ہی واضح ہو گی لیکن ان تمام باتوں کے وقوع پذیر ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پروفیسر کامران علی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال سے بعض روایتی ملازمتیں ختم ہو سکتی ہیں خاص طور پر وہ جو معمول کے کاموں پر مبنی ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ڈیٹا سائنس، اے آئی ماڈلنگ اور ٹیکنالوجی مینجمنٹ جیسے شعبوں میں نئی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔” دوسری جانب اس حوالے سے آئی ٹی سپیشلسٹ سارہ ملک نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “اے آئی کی ترقی سے انسانی ملازمتوں پر اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم اس تبدیلی کو مثبت انداز میں لیں۔ ملازمین کو نئی مہارتیں سیکھنے اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ مستقبل کی ملازمتوں کے لیے تیار رہ سکیں۔” پروفیسر کامران علی نے اگلے 10 سالوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “2035 تک ٹیکنالوجی اور انسان کے تعلقات میں مزید گہرائی متوقع ہے۔ ہم ذہین ذاتی معاونین، صحت کی نگرانی کے لیے پہننے والے آلات اور ذہنی کنٹرول والے پروستھیٹکس جیسے انقلابی اقدامات دیکھ سکتے ہیں جو انسانی زندگی کو بہتر بنائیں گی۔” دوسری جانب سارہ ملک کا خیال ہے کہ “مستقبل میں انسان اور ٹیکنالوجی کا انضمام مزید مضبوط ہوگا۔ مصنوعی ذہانت اور بائیوٹیکنالوجی کے امتزاج سے ہم انسانی صلاحیتوں میں اضافہ اور زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بہتری کی توقع کر سکتے ہیں۔” پروفیسر کامران علی نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “مصنوعی ذہانت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنانے، کاربن کے اخراج کی نگرانی، اور موسمیاتی پیش گوئیوں میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ ماحولیاتی پالیسیوں کی تشکیل میں بھی معاون ہے۔” اس حوالے سے سارہ ملک کا ماننا ہے کہ “اے آئی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا تجزیہ اور ان کے حل تلاش کر سکتے ہیں۔ تاہم ان ٹیکنالوجیز کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے تاکہ ان کے منفی ماحولیاتی اثرات کو کم کیا جا سکے۔” صحت کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کے فروغ پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر کامران نے کہا کہ “صحت کے شعبے میں اے آئی کی ترقی سے بیماریوں کی تشخیص اور علاج میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ جینیاتی تجزیہ اور ذاتی نوعیت کے علاج کے ذریعے ہم مستقبل میں کئی بیماریوں کے مؤثر علاج اور ممکنہ طور پر ان کے خاتمے
پاکستانی نوجوان نے کارخانوں، فصلوں کی نگرانی کے لیے اے آئی کیمرے متعارف کرا دیے

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں آئی ٹی ایکسپو کا دلچسپ اور معلوماتی میلا سجایا گیا۔ شرکا کے سامنے پیش کیے گئے اے آئی کیمروں نے خوب توجہ سمیٹی۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ سی سی ٹی وی اور ڈرون کیمرے مانیٹرنگ اور نگرانی کے میدان میں منفرد پیشکش قرار دیے گئے ہیں۔ منتظمین کے مطابق آپ ان کیمروں کو اپنی مرضی کی کمانڈز دے کر کہیں سے بھی مانیٹر کر سکتے ہیں۔ اگر یہ کیمرے کسی کارخانے میں نصب ہوں، تو آپ کیمروں ہدایات دے سکتے ہیں کہ جتنے ڈبے بن رہے ہیں، ان میں سے اگر کوئی ڈبہ خراب ہو تو یہ فوری طور پر اس کی نشاندہی کرکے پروڈکشن چین کو اطلاع دیں گے۔ ایک کسان نے ڈرون کیمرے میں ایسی کمانڈ شامل کروائی ہے جس سے ڈرون اس کی فصلوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ اگر کسی جگہ فصل کمزور ہو رہی ہو، تو یہ ڈرون فوراً اطلاع دے کر کسان کو مسئلے کا حل نکالنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ جدید کیمرے نہ صرف سکیورٹی اور مانیٹرنگ کے لیے بہترین ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں استعمال کے لیے کارآمد ہیں۔
ڈیپ سیک کو آتے ہی سبکی کا سامنا، حساس ڈیٹا لیک ہوگیا

نیویارک کی معروف سائبر سیکیورٹی فرم ویز نے ایک انتہائی سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ چینی مصنوعی ذہانت کا اسٹارٹ اپ “ڈیپ سیک” کا حساس ڈیٹا بغیر کسی حفاظتی تدابیر کے انٹرنیٹ پر آ گیا ہے۔ ویز کے مطابق، یہ ڈیٹا اس وقت غیر محفوظ طریقے سے منظرِ عام پر آیا جب کمپنی نے اپنے انفراسٹرکچر کی اسکیننگ کی۔ یہ انکشاف بدھ کے روز ویز کے بلاگ پر شائع کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈیپ سیک نے حادثاتی طور پر 10 لاکھ سے زائد حساس معلومات کو انٹرنیٹ پر کھلا چھوڑ دیا تھا۔ یہ ڈیٹا نہ صرف سافٹ ویئر کی لائسنس کی کلیدوں پر مشتمل تھا بلکہ چیٹ لاگ بھی شامل تھے، جو صارفین کی جانب سے ڈیپ سیک کے مفت مصنوعی ذہانت کے اسسٹنٹ کو بھیجے گئے اشاروں (prompts) کی تفصیلات ظاہر کرتے ہیں۔ یہ معلومات حساس نوعیت کی تھیں اور اس سے کمپنی کے صارفین کی پرائیویسی پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔ ویز کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر، امی لوٹواک، نے اس بارے میں مزید تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ ڈیپ سیک نے فوری طور پر اس مسئلے کی اطلاع دی اور ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ڈیٹا کو ہٹا دیا۔ ویز کی تحقیق سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ڈیپ سیک نے اگرچہ فوراً کارروائی کی، لیکن اس نوعیت کی غلطیوں کے سامنے آنے سے مستقبل میں دیگر سیکیورٹی خطرات کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ڈیپ سیک کی کمپنی نے اپنی مصنوعی ذہانت کی خدمات کا کامیاب آغاز کیا،ڈیپ سیک کی کامیابی نے اس بات پر سوالات اٹھا دیے ہیں کہ آیا اوپن اے آئی اور دیگرامریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنے منافع کے مارجن کو برقرار رکھ پائیں گی، کیونکہ ڈیپ سیک نے انتہائی کم قیمت پر اوپن اے آئی کی خدمات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت دکھائی ہے۔ پیر تک، ڈیپ سیک کے ایپ نے ایپل کے ایپ اسٹور پر امریکی حریف چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا، جس سے ٹیک کمپنیوں کے شیئرز کی عالمی سطح پر فروخت میں تیزی آ گئی تھی۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے، سائبر سیکیورٹی کی غفلت کسی بھی کمپنی کے لئے سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہے اور ڈیجیٹل دنیا میں حفاظت کے اقدامات کو نظرانداز کرنا انتہائی مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔
چینی کمپنی کا کراچی سے پشاور تک 3 ہزار چارجنگ اسٹیشن لگانے کا اعلان

چائنہ نےپاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے کراچی سے پشاور تک چارجنگ اسٹیشن نصب کرنے کےلیے منصوبے کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد سبز توانائی کو اپنانا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ چین کے اے ڈی ایم گروپ کے ایک وفد نے سندھ کے وزیر توانائی ناصر حسین شاہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے ملک میں ای وی انفراسٹرکچر کی توسیع پر بات چیت کی ہے ، یہ گروپ پاکستان میں 3 ہزار ای وی چارجنگ اسٹیشن کراچی سے پشاورتک نصب کرے گا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر توانائی ناصر حسین شاہ نے تصدیق کی کہ شہری علاقوں اور شاہراہوں کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کے مکمل تعاون سے چارجنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں گے،ہر چارجنگ اسٹیشن پر لگ بھگ 80 لاکھ روپے لاگت آنے کی توقع ہے، جس کی تنصیب کے لیے 10 لاکھ روپے کی ابتدائی رقم درکار ہے۔ نجی چینل ایکسپریس کے مطابق ای وی چارجنگ کے اسٹیشن لگانے سے تقریباً 10 لاکھ ملازمتیں پیدا ہونے کی توقع ہے، جس سے پاکستان کے روزگار کے شعبے کو بڑا فروغ ملے گا،اے ڈی ایم گروپ پاکستان میں ای وی مینوفیکچرنگ پلانٹس لگانے کا بھی ارادہ رکھتا ہے اور اس نے پہلے ہی چارجنگ انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اگر کمپنی سندھ میں پیداواری سہولیات قائم کرتی ہے تو صوبائی حکومت مقامی طور پر تیار کی جانے والی کم از کم 20 فیصد الیکٹرک گاڑیاں خریدنے پر غور کرے گی۔ چائنیز اے ڈی ایم گروپ کے سی ای او یاسر بھمبانی نے کہا کہ حکومت اجازت دے تو اس سال پاکستان میں گاڑی بنانے کو تیار ہیں، میڈ ان پاکستان ای وی گاڑیوں کو مستقبل میں ایکسپورٹ بھی کیا جائے گا۔ سی ای اونے مزید کہا کہ میڈ ان پاکستان ای وی گاڑیوں کو بھارت سمیت سات ممالک میں ایکسپورٹ کرنے کا پلان ہے، پاکستان میں کراچی پنجاب اور بلوچستان میں 3مینوفیچرنگ پلانٹس لگائے جائیں گے، کمپنی کے پاس پاکستان میں سالانہ 72ہزار یونٹس کی پیداواری استعداد ہے۔ توقع ہے کہ اس سرمایہ کاری سے پاکستان کی ای وی انڈسٹری کو فروغ ملے گا، فوسل فیول پر انحصار کم ہوگا، اور ماحولیاتی استحکام میں مدد ملے گی
چیٹ جی پی ٹی نہ ڈیپ سیک، علی بابا نے مصنوعی ذہانت کا اپنا ماڈل پیش کردیا

چینی ٹیکنالوجی کمپنی علی بابا نے بدھ کے روزاپنی مصنوعی ذہانت کا نیا ماڈل “کیوین 2.5” متعارف کرایا ہے، جس نے عالمی سطح پر اپنی موجودگی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ایک غیر متوقع کامیابی حاصل کی ہے۔ علی بابا کا دعویٰ ہے کہ اس کا نیا ماڈل “کیوین 2.5 میکس” نے ڈیپ سیک-وی 3 کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جو ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ کیوین 2.5 کا آعازچین کے نئے قمری سال کے پہلے دن ہوگا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علی بابا نے چینی مصنوعی ذہانت کی صنعت میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے بھرپور حکمت عملی اپنائی ہے۔ کیوین 2.5 میکس کی یہ کامیابی اس بات کا اشارہ ہے کہ چینی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے عالمی سطح پر اے آئی کے میدان میں تیزی سے ترقی کی ہے، خاص طور پر ان کے نئے ماڈلز، جیسے کہ “ڈیپ سیک-آر 1″، نے سلیکون ویلی کی مشہور کمپنیوں کو چیلنج کیا ہے۔ 10 جنوری کو ڈیپ سیک کے اے آئی اسسٹنٹ کی ریلیز کے ساتھ، اس نے گوگل، اوپن اے آئی اور میٹا جیسے عالمی برانڈز کے ماڈلز کو پیچھے چھوڑنے کے دعوے کیے، اور پھر 20 جنوری کو اس کے “آر 1 ماڈل” کی ریلیز نے مزید ہلچل مچادی۔ علی بابا نے اپنے “کیوین 2.5 میکس” کو اوپن اے آئی کے جی پی ٹی-4 اور ڈیپ سیک-وی 3 اور لاما-3.1-405 بی جیسے جدید ترین ماڈلز کے مقابلے میں بہترین کارکردگی کا حامل قرار دیا ہے۔ علی بابا کے کلاؤڈ یونٹ نے اپنے آفیشل وی چیٹ اکاؤنٹ پر اس کا تفصیل سے اعلان کیا اور کہا کہ اس کا ماڈل تقریباً تمام بینچ مارکس میں ان ماڈلز سے بہتر رہا ہے۔ یہ ساری صورتحال چینی مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک نیا موڑ لے آئی ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں میں ڈیپ سیک نے نہ صرف اپنے غیر ملکی حریفوں کو چیلنج کیا، بلکہ اپنے کے حریفوں کو بھی اپ گریڈ ہونے پر مجبور کیا۔ بائٹ ڈانس، جو کہ ٹک ٹاک کا مالک ہے، اس نے بھی اپنے اے آئی ماڈل کی تازہ ترین اپ ڈیٹ جاری کی، جس کا دعویٰ تھا کہ اس نے مائیکروسافٹ کے حمایت یافتہ اوپن اے آئی کے ماڈل او-1 کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ مقابلہ چینی ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک نیا دور شروع کر رہا ہے جہاں عالمی کمپنیاں ایک دوسرے کو ٹیکنالوجی کی تیز تر ترقی کے حوالے سے دلچسپ مقابلے میں دیکھ رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی کمپنی اپنے اگلے اے آئی ماڈلز کے ذریعے اس میدان میں سبقت حاصل کرے گی؟ وقت ہی بتائے گا۔