آپ کی تصویر کون کون دیکھے گا؟ واٹس ایپ نے نیا فیچر متعارف کروا دیا

واٹس ایپ نے صارفین کے لیے نئی پالیسی متعارف کروا دی۔ پالیسی کے مطابق صارفین کی پروفائل فوٹو سب کو نظر آئے گی جب تک صارفین خود اپنے اکاونٹ کی سیٹنگز نہیں کریں گے۔ نئی پالیسی کے مطابق جب بھی کوئی نیا یوزر واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کرے گا تو پہلے سے طے شدہ قوانین کے مطابق اس کی پروفائل تصویر سب لوگوں کو نظر آئے گی۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کی تصویر کسی کو نظر نہ آئے تو وہ واٹس ایپ کی سیٹنگز میں جا کر تبدیلی کر سکتا ہے۔ اگر صارف چاہتا ہے کہ اس کی تصویر تمام لوگ دیکھیں تو وہ سیٹنگز میں موجود آپشن “ایوری ون” پہ کلک کر سکتا ہے۔ جب کہ  اگر وہ صرف ان لوگوں کو تصویر دکھانا چاہتا ہے جو اس کی کانٹیکٹ لسٹ میں ہوں تو اسے “کانٹیکٹس” کے آپشن پر کلک کرنا پڑے گا۔ اسی طرح اگر وہ کسی کو بھی پروفائل فوٹو نہیں دکھانا چاہتا ہے تو “نو باڈی” پہ کلک کرے گا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ واٹس ایپ پیغام رسانی اور لوگوں سے رابطے میں رہنے کے لیے سب سے زیادہ مشہور ہے۔ آسانی اور یوزر فرینڈلی انٹرفیس کی وجہ سے پوری دنیا میں لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ بیک لنکو کی  رپورٹ کے مطابق 2024 میں واٹس ایپ 113 ملین  ڈاؤن لوڈز کے  ساتھ دنیا کی چوتھی سب سے زیادہ چلنے والی ایپ ہے۔ واٹس ایپ پر صارفین میسج، آڈیو کال اور ویڈیو کال بھی آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سٹیٹس ، واٹس ایپ گروپس اور واٹس ایپ کمیونٹی جیسے فیچرز اس کے استعمال کرنے والوں کے لیے دلچسبی کا باعث ہیں۔ واٹس ایپ نے تمام صارفین کو ایک میسج ،جس میں ایک ویڈیو بھی شامل تھی، بھیجا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ” آپ یہ کنٹرول کر سکتے ہیں کہ کون آپ کی پروفائل فوٹو دیکھ رہا ہے”  

نئی CSIRO ٹیکنالوجی نے خلا میں 20 سے زائد پراسرار سگنلز کی دریافت کر لیئے

آسٹریلوی محققین نے ایک نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے خلا میں 20 سے زائد پراسرار سگنلز دریافت کیے ہیں، جو سائنس کی دنیا میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی CSIRO (آسٹریلین سائنسی اور صنعتی تحقیقی تنظیم) نے تیار کی ہے اور اس کا نام CRACO رکھا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے اس بات کا کھوج لگایا گیا کہ خلا میں کئی غیر معمولی اور پراسرار سگنلز کی موجودگی ہے، جنہیں سمجھنا ابھی تک انسان کے لئے ایک معمہ بنا ہوا تھا۔ آسٹریلیشین نیشنل سائنس ایجنسی CSIRO کے ماہرین اور انجینئرز کی مدد سے یہ نئی ٹیکنالوجی تیار کی گئی ہے جس کی کامیاب آزمائش نے ماہرین کو خلا میں موجود پراسرار سگنلز کو سمجھنے میں اہم کامیابی دلائی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے تحقیقاتی ٹیم نے انتہائی کم وقت میں 20 سے زائد فاسٹ ریڈیو برٹس (Fast Radio Bursts) اور نیوٹرون اسٹارز جیسے اجسام دریافت کیے ہیں، جو اس تحقیق میں ایک بڑی کامیابی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ CRACO ایک جدید سسٹم ہے جسے CSIRO کے ASKAP ریڈیو ٹیلی اسکوپ سے جوڑا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے محققین خلا میں موجود مختلف اجسام کے سگنلز کو اس قدر سرعت سے ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں کہ پہلے کبھی یہ ممکن نہیں تھا۔ اس ٹیکنالوجی نے تحقیق کے عمل کو بے حد تیز کر دیا ہے اور ریسرچرز اب ہر سیکنڈ میں 100 بار تک سگنلز کا معائنہ کر سکتے ہیں، جبکہ مستقبل میں یہ تعداد 1,000 تک بڑھنے کی توقع ہے۔ اس سسٹم کا کام انتہائی پیچیدہ ہے کیونکہ یہ ہر سیکنڈ میں 100 ارب پکسلز کو اسکین کرتا ہے تاکہ کسی بھی نوعیت کے فاسٹ ریڈیو برٹس کو شناخت کیا جا سکے۔ اس تحقیق کا ایک نکتہ نظر یہ تھا کہ ریڈیو سگنلز کا تجزیہ کیا جائے جو خلا میں مختلف فاصلے اور سمتوں سے آ رہے تھے، اور CRACO نے یہ عمل اس قدر درست اور تیز طریقے سے مکمل کیا ہے کہ اس کی مثال دی جا رہی ہے جیسے ریت کے بے شمار دانوں میں سے ایک بانچ روپے کا سکہ تلاش کرنا۔ فاسٹ ریڈیو برٹس ایک ایسا راز ہیں جن کی حقیقت ابھی تک واضح نہیں ہو سکی۔ یہ انتہائی روشن اور مختصر مدت تک روشن ہونے والے ریڈیو سگنلز ہیں جو زیادہ تر ہماری کہکشاں سے باہر کے خلا سے آتے ہیں۔ ان کی اصلی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی، مگر ان کی موجودگی نے خلا کی تحقیق کے میدان میں ایک نیا باب کھولا ہے۔ ڈاکٹر اینڈی وانگ، جو اس تحقیق کی قیادت کر رہے ہیں، نہوں نے کہا کہ ان کی ٹیم نے فاسٹ ریڈیو برٹس کی تلاش میں اس سے زیادہ اجسام دریافت کیے ہیں جو انہوں نے توقع کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم فاسٹ ریڈیو برٹس کو ڈھونڈنے پر مرکوز تھے مگر ہم نے ان سے زیادہ چیزیں دریافت کیں، جن میں نیوٹرون اسٹارز اور پولسارز شامل ہیں۔” پہلے فاسٹ ریڈیو برٹس کی تلاش میں متعدد اضافی اقدامات درکار ہوتے تھے، لیکن CRACO کے ذریعے اس عمل کو زیادہ سادہ اور تیز بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر لورا ڈریسن، جو یونیورسٹی آف سڈنی میں ریڈیو ایسٹرونومر ہیں، انھوں  نے اس نئی ٹیکنالوجی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ CRACO نے اس عمل کو بہت زیادہ موثر بنا دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے فلکیات دانوں کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ خلا میں پھیلے ان سگنلز کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوں جو پہلے صرف عمومی سمت تک محدود تھے۔ CRACO کے ذریعے فاسٹ ریڈیو برٹس کی جگہ کا تعین کرنا ممکن ہو سکا ہے، جو کہ ان کی نوعیت اور ان کے ماخذ کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اگر ہم ان سگنلز کے ماخذ کی صحیح جگہ معلوم کر سکیں تو ہم ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں، جیسے کہ ان کی صحیح فاصلے اور ان کے پیچھے موجود قدرتی عمل کی تفصیلات۔ ڈاکٹر ڈریسن نے اس بات پر زور دیا کہ یہ تحقیق خلا کے پراسرار اجسام کو سمجھنے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ اگر ہم فاسٹ ریڈیو برٹس کے ہر ایک سگنل کو اس کے متعلقہ کہکشاں سے جوڑ سکیں تو ہم ان کی حقیقت کو سمجھنے میں مزید کامیاب ہو سکتے ہیں۔ CRACO کے ذریعے آسٹریلوی سائنسدانوں نے خلا میں موجود ایک اور معمہ حل کرنے کی طرف ایک قدم اور بڑھایا ہے۔ اس کی کامیاب آزمائش کے بعد ماہرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کی مدد سے خلا کے بارے میں نئے راز کھلیں گے۔ اس تحقیق میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں اور یہ فیلڈ خلا کی دریافت کے حوالے سے ایک نئی سمت اختیار کرے گا۔

ڈیپ سیک: چیٹ جی پی ٹی کو مات دینے والا چینی اے آئی ماڈل

چین کی تیار کردہ ایک نئی مصنوعی ذہانت کی ایپ “ڈیپ سیک” نے گزشتہ چند ہفتوں میں ایک نیا انقلاب برپا کر دیا ہے اور اس کی مقبولیت آسمان کو چھو رہی ہے۔ اس ایپ نے نہ صرف چیٹ جی پی ٹی جیسے مشہور حریفوں کو پیچھے چھوڑا ہے بلکہ امریکا، برطانیہ اور چین کے ایپل ایپ سٹور پر بھی ٹاپ ریٹیڈ مفت ایپلی کیشن کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ رواں برس جنوری میں اپنے لانچ کے بعد سے اس ایپ کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ڈیپ سیک کی کامیابی نے مصنوعی ذہانت کی صنعت میں ایک نیا تنقیدی سوال اٹھا دیا ہے جیسا کہ ‘کیا امریکا اب بھی اے آئی کا لیڈر ہے؟ کیا چین نے اپنے طور پر اس صنعت میں امریکی برتری کو چیلنج کر دیا ہے؟ یہ چینی ایپ اوپن سورس ‘ڈیپ سیک وی تھری’ ماڈل پر ڈیزائن کی گئی ہے جسے محققین کے مطابق چھ ملین ڈالر کی لاگت میں تیار کیا گیا ہے۔ یہ تخمینے اس بات کا واضح اشارہ دیتے ہیں کہ چین میں ای آئی کے ماڈلز تیار کرنے کی قیمت وہ نہیں رہی جو پہلے سمجھا جاتا تھا۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر ایپلی کیشنز پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے مگر ڈیپ سیک کم لاگت اور اعلیٰ معیار کی بدولت اس میدان میں سبقت لے گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیپ سیک کے کامیاب لانچ نے ای آئی کی صنعت میں ایک نیا ابھار پیدا کر دیا ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کا ماڈل چیٹ جی پی ٹی جیسے جدید ترین ماڈلز کے برابر ہے۔ ڈیپ سیک ‘آر ون’ جو کہ کمپنی کا تازہ ترین ماڈل ہے یہ ریاضی، کوڈنگ اور عمومی زبان کے استدلال جیسے پیچیدہ کاموں میں مہارت رکھتا ہے۔ اس ماڈل کی کامیابی کا موازنہ 1957 میں سوویت یونین کے پہلے مصنوعی زمینی سیٹلائٹ ‘سپوٹنک’ سے کیا جا رہا ہے جس نے اس وقت دنیا کو چونکا دیا تھا۔ دنیا کی مشہور ٹیکنالوجی کمپنیوں اینویڈیا، مائیکروسوفٹ اور میٹا کے شئیرز میں شدید گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔ اسی طرح یورپی کمپنیوں کے شئیرز کی قیمتیں بھی گر گئی ہیں۔ ایک ڈچ چپ کمپنی اے ایس ایم ایل کے شئیرز میں 10 فیصد سے زیادہ کمی آئی اور سیمنز انرجی جو کہ ای آئی ہارڈ ویئر بناتی ہے اس کمپنی کے شئیرز کی قیمت میں 21 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ دوسری جانب سٹی انڈیکس کی سینئر مارکیٹ تجزیہ کار فیونا سنکوٹا کا کہنا ہے کہ “کم قیمت والے چینی ورژن کو پہلے اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی تھی مگر اس کی لانچ کے بعد مارکیٹ میں ایک نئی پریشانی دیکھنے کو ملی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ کو اچانک یہ کم لاگت والا ماڈل مل جائے تو اس سے حریفوں کے منافع پر اثر پڑے گا خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ وہ پہلے ہی زیادہ مہنگے ماڈلز اور انفراسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ چینی اے آئی ماڈلز کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ وہ ترقی ہے جس کا سامنا امریکی کمپنیوں کو ایک دن ضرور کرنا پڑے گا۔ سنگاپور میں مقیم ٹیکنالوجی ایکویٹی ایڈوائزر وے سرن لنگ نے خبردار کیا ہے کہ “یہ تبدیلی پوری ای آئی سپلائی چین میں سرمایہ کاری کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔” وہ کہتے ہیں کہ اس نئے کم لاگت چینی ماڈل نے امریکا کی بڑی اے آئی کمپنیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ تاہم سٹی بینک کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کے پاس اب بھی جدید ترین چپس تک رسائی ہے اور یہ بات چینی کمپنیوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ امریکا نے 2021 میں چین پر جدید چپس کی فروخت پر پابندیاں عائد کی تھیں اور اس کے بعد چینی کمپنیوں کو نئے طریقوں پر تجربات کرنے پڑے ہیں۔ یہ چینی کمپنیوں کا ذہانت سے کام لینے کا نتیجہ ہے کہ وہ کم کمپیوٹنگ پاور والے ماڈلز تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جو نہ صرف سستے ہیں بلکہ ان کی کارکردگی بھی اعلیٰ ہے۔ ڈیپ سیک کی بنیاد 2023 میں چین کے شہر ہانگزو میں لیانگ وینفینگ نے رکھی تھی۔ 40 سالہ لیانگ ایک تجربہ کار انجینئر ہیں جنہوں نے چین میں ایک اسٹور قائم کر رکھا تھا جہاں ایونیڈیا اے 100 چپس بیچی جاتی تھیں۔ جب چین پر یہ چپس درآمد کرنے کی پابندی عائد کی گئی تو انہوں نے سستی چپس کے ساتھ اپنے اے آئی ماڈلز کی تیاری کا عمل شروع کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس وقت 50 ہزار جدید چپس موجود تھیں جنہیں انہوں نے کم لاگت والی سستی چپس کے ساتھ جوڑ کر ڈیپ سیک کو کامیابی کے ساتھ لانچ کیا۔ ڈیپ سیک کی کامیابی نے صرف چین میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی مصنوعی ذہانت کے میدان میں نئے سوالات اور چیلنجز کو جنم دیا ہے،جو نہ صرف بڑی امریکی ٹیک کمپنیوں کے لیے ایک چیلنج ہے بلکہ عالمی ای آئی مارکیٹ کے لیے بھی ایک سنگین موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین اس میدان میں امریکا کی برتری کو چیلنج کر سکے گا؟

ایل پی جی سلنڈر کو خیرباد، کراچی کے نوجوان نے الیکٹرک رکشہ متعارف کرا دیا

سائنس ایکسپو کراچی میں یو آئی ٹی یونیورسٹی کراچی کے ایک طالب علم  محمد تیمور نےٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم کام کر دیا۔ انہوں نے ایک ایسا رکشہ تیار کیا ہے جس میں ایل بی جی سلنڈر لگانے کی ضرورت نہیں رہی۔ ڈھائی لاکھ روپے میں ایل پی جی سے چلنے والا رکشہ الیکٹرک رکشے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ محمد تیمور کا کہنا تھا کہ” گورنمنٹ  آف پاکستان  کے ساتھ مل کر ہم نے ایل پی جی سے چلنے والا رکشے کو  الیکٹرک  رکشہ کے اندر تبدیل  کر دیا ہے۔ٹو اسٹروک رکشہ جسے آلودگی کی وجہ سے گورنمنٹ کی جانب سے 2012 میں بند کر دیا گیا تھا۔الیکٹرک رکشہ میں تبدیل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس پر لگی پابندی ہٹ سکے۔یہ بہت زیادہ آلودگی پیدا کر رہا تھا اس عنصر کو ہم نے ختم کیا ہے۔ اس کا انجن ہم نے ختم کر دیا ہے۔ فیول پرائس کم کرنے کے لیے  ایل پی جی یا سی این جی کٹ استعمال کی جاتی تھی جو محفوظ نہیں تھی۔ مسافروں اور اسکول کے بچوں کیلئے محفوظ نہیں تھا۔ ہم نے سی این جی اور ایل پی جی ہٹا کر بیٹری اور موٹر لگا دی  جو کہ مؤثر بھی ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ” نارمل رکشہ میں 12 روپے فی کلومیٹر دینے پڑتے ہیں۔ الیکٹرک رکشہ میں یہ قیمت 3 روپے فی کلومیٹر ہےاس کے اندر لگی بیٹری سے یہ ایک چارج میں 50کلومیٹر چلتا ہے۔یہ گھر کی ساکٹ سے بھی چارج ہو سکتا ہے۔ اس کے اندر پورٹیبل چارجر موجود ہے اسے آپ اپنے ساتھ لے جا بھی سکتے ہیں۔ ڈرائیور سمیت 4 بندے اس میں بٹھا کر چلا کر ٹیسٹ کر چکے ہیں۔

چینی اے آئی کمپنی ڈیپ سیک دنیا بھرمیں مقبول:کیا یہ امریکی ٹیک اسٹاک کے لیے خطرہ ہے؟

ایک چینی مصنوعی ذہانت کی کمپنی ڈیپ سیک کی طرف سے حیرت انگیز پیشرفت کے بعد پیر کی صبح امریکی اسٹاک میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ، جس نے امریکہ کی ٹیکنالوجی کی صنعت کے آس پاس ناقابل تسخیر ہونے کی چمک کو خطرے میں ڈال دیا۔ عالمی خبر ارساں ادارہ سی این این کے مطابق چینی کمپنی ڈیپ سیک نے گزشتہ سال کے شروع میں ایک شاندار صلاحیت کا انکشاف کیا،اس نے آر ون چیٹ جی پی ٹی نما اے آئی ماڈل پیش کیا، جس میں تمام مانوس صلاحیتیں ہیں، جو میٹاکے مقبول اے آئی ماڈلز کی قیمت کے ایک حصے پر کام کرتی ہے ۔ چینی مصنوعی ذہانت کی کمپنی نے کہا کہ اس نے اپنے جدید ترین اے آئی ماڈل کی تربیت پر صرف 5.6 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں، اس کے مقابلے میں امریکی کمپنیاں اپنی اے آئی ٹیکنالوجیز پر کروڑوں یا اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ وال سٹریٹ جنرل نے سب سے پہلے ٹیکنالوجی کی انتہائی کم قیمت کی اطلاع دی۔ امریکن کمپنی ایس اینڈ پی میں 500 انڈیکس یعنی 1.4% کی کمی واقع ہوئی اور ٹیک ہیوی میں 2.3% کی کمی ہوئی۔ ڈاؤ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ سیشن کے شروع میں مارکیٹیں کافی حد تک کم تھیں، لیکن سرمایہ کاروں نے ہو سکتا ہے کہ کسی حد تک سیل آف کا اندازہ لگایا ہو۔ واضح رہے کہ میٹا نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ وہ اس سال اے آئی کی ترقی پر 65 بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کرے گا۔ اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹ مین نے پچھلے سال کہا تھا کہ اے آئی انڈسٹری کو کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی تاکہ اس شعبے کے پیچیدہ ماڈلز کو چلانے والے بجلی کے بھوکے ڈیٹا سینٹرز کو طاقت دینے کے لیے درکار ان ڈیمانڈ چپس کی ترقی میں مدد ملے۔ سی این این کے مطابق مارک اینڈریسن، صدر ڈاؤنلڈ ٹرمپ کے حامی اور دنیا کے معروف ٹیک سرمایہ کاروں میں سے ایک نے ایکس پر ایک پوسٹ میں  لکھا کہ ڈیپ سیک کو میں نے اب تک کی سب سے حیرت انگیز اور متاثر کن پیش رفتوں میں سے دیکھا ہے ۔ نسبتاً نامعلوم اے آئی سٹارٹ اپ کی شاندار کامیابی اس وقت اور بھی چونکا دینے والی ہو جاتی ہے جب اس بات پر غور کیا جائے کہ امریکہ نے قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے چین کو آئی پاور اے آئی چپس کی فراہمی کو محدود کرنے کے لیے برسوں سے کام کیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈیپ سیک اپنے کم لاگت والے ماڈل کو کم طاقت والے اے آئی چپس پر حاصل کرنے کے قابل تھا۔ عالمی خبر ارساں ادارہ سی این این کے مطابق پیر کی صبح امریکی ٹیک اسٹاکس کو نقصان پہنچا،نویڈا اے آئی چپس کا سب سے بڑا سپلائرہے، جس کا اسٹاک پچھلے دو سالوں میں ہر ایک میں دوگنا سے زیادہ  ہونے کے باوجود  12فیصدگر گیا۔ گوگل کی پیرنٹ کمپنی میٹا اور الفابیٹ میں بھی تیزی سے کمی ہوئی۔ ڈیپ سیک نے وسیع تر اسٹاک مارکیٹ کو نیچے گھسیٹا، کیونکہ ٹیک اسٹاک مارکیٹ کا ایک اہم حصہ ہے۔ امریکی سکالر دانیل لرنر کا کہنا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی بہتر کارکردگی ٹیکنالوجی اور برتری کے ذریعے چلائی گئی ہے جو امریکی کمپنیوں کو اے آئی میں حاصل ہے۔دیپ سیک ماڈل رول آؤٹ سرمایہ کاروں کو امریکی کمپنیوں کے لیڈ پر سوال کرنے کی طرف لے جا رہا ہے اور کتنا خرچ کیا جا رہا ہے اور آیا یہ خرچ منافع (یا زیادہ خرچ) کا باعث بنے گا۔ اس ہفتے کمائی کی اطلاع دینے والی ٹیک کمپنیوں کی ایک سیریز کا آغاز ہورہا ہے، اس سریز سےڈیپ سیک کے حیران کن ردعمل سے آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مارکیٹ کی ہنگامہ خیز حرکت ہو سکتی ہے۔ اس دوران، سرمایہ کار چینی  اے آئی کمپنیوں کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ سیکسو کے چیف انویسٹمنٹ سٹریٹیجسٹ چارو چنانا  کا کہنا ہے کہ چینی ٹیک کمپنیاں بشمول ڈیپ سیک جیسے نئے آنے والے جغرافیائی سیاسی خدشات اور کمزور عالمی مانگ کی وجہ سے نمایاں رعایت پر تجارت کر رہی ہے،دیپ سیک کا عروج کم قیمت والی چینیاے آئی کمپنیوں میں سرمایہ کاروں کی نئی دلچسپی کو جنم دے سکتا ہے، جو ایک متبادل ترقی کی کہانی فراہم کرتا ہے

ماں یا باپ: کس سے ملتی ہے بچے کی ذہانت؟ جدید سائنس کا دلچسپ انکشاف

دماغی صلاحیتوں اور ذہانت کے بارے میں یہ سوال ہمیشہ سے موجود رہا ہے کہ آیا بچے کی ذہانت ماں سے ملتی ہے یا باپ سے۔ جدید تحقیق نے اس سوال کا جواب ایک نیا رخ دیا ہے اور یہ ثابت کی ہے کہ بچے کی ذہانت کا زیادہ تر انحصار ماں کے جینز پر ہوتا ہے۔ حالیہ جینیاتی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچہ اپنی ماں سے دو ایکس کروموزومز اور باپ سے ایک کروموزوم وراثت میں پاتا ہے۔ یہ ایکس کروموزومز میں وہ جینز ہوتے ہیں جو دماغی صلاحیتوں کو متاثر کرتے ہیں، چونکہ ماں کے پاس دو ایکس کروموزومز ہوتے ہیں، اس لیے اس کے جینیاتی اثرات بچے پر زیادہ غالب آتے ہیں۔ اس تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ ماں کی ذہانت کا اثر بچے کی ذہانت پر زیادہ ہوتا ہے، جبکہ باپ کا کردار زیادہ تر جسمانی خصوصیات اور دیگر جینیاتی عوامل میں ہوتا ہے۔ ماہرین نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ ذہانت میں جینیاتی اثرات کے ساتھ ساتھ ماحول، تعلیم اور پرورش بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ تحقیق اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ذہانت ایک پیچیدہ اور متعدد عوامل پر مبنی عمل ہے، جس میں جینیات، ماحول اور تعلیم کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ماں کی جینیاتی وراثت کا اثر بچے کی دماغی صلاحیتوں پر زیادہ ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک مثبت ماحول اور تعلیم بھی بچے کی ذہانت کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی ذہنی ترقی پر بھرپور توجہ دیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر طور پر دریافت کر سکیں۔

کراچی کے نوجوان کی جدید ایجاد! اب اے آئی ویڈیوز کی حقیقت معلوم ہو سکے گی، مگر کیسے؟

آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ اب اے آئی کی مدد سے تصاویر کے ساتھ ساتھ ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ کراچی کے نوجوان نے ایک ایسا سوفٹ ویئر بنا دیا ہے جس کی مدد سےاے آئی سے بنائی گئی ویڈیوز کی حقیقت معلوم ہوسکے گی۔ میمن انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں مینیجمنٹ سائنس کے طالب علم جہانذیب خان نے یہ کارنامہ کراچی میں ہونے والے سائنس ایکسپو میں انجام دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ” ہم نے ایف آئی اے کا پروجیکٹ بنایا ہے جو کہ ڈیپ فیک ویڈیو ڈیٹیکٹ کرتا ہے۔ آج کل اے آئی سے بہت سی ڈیپ فیک ویڈیوز بنائی جا رہی ہیں لیکن ان کو ڈیٹیکٹ نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے ایک پروٹوٹائپ بنایا ہے ۔ اس کو کوئی بھی وڈیو دکھائیں گے تو یہ بتائے گا کہ یہ ویڈیو اے آئی سے بنی ہے یا اصلی ویڈیو ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ “ابھی یہ صرف پروٹوٹائپ ہے لیکن ہم جلد ہی اسے ویب سائٹ اور ایپلیکیشن کے طرف لا رہے ہیں”۔

موبائل فون کا لیب سے جیب تک کا سفر

 دنیا میں ٹیکنالوجی کے تیز رفتار سفر کا رخ مریخ، مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کی جانب ہے اور کئی ترقی یافتہ ممالک اس حوالے سے بڑی چھلانگیں لگا رہے ہیں۔  اسمارٹ فون کی ایجاد بھی ان ہی حیرت نگیز ایجادات میں سے ایک ہے جو کہ  دور حاضر میں ایک محو حیرت ٹیکنالوجی ہے۔ اب لوگ جس طرع اسمارٹ فون کو جیبوں میں ڈال کر اس کا استعمال کر رہے ہیں اس کی کہانی بہت مختلف ہے۔ اسمارٹ فون کی کہانی اس وقت شروع ہوئی جب گراہم بیل نے تاروں کے ذریعے اپنی آواز کو دوسری جانب پہنچایا ۔ موبائل کی اصطلاح 1876ء میں شروع  ہوئی اور اسی سال 10 مارچ کو پہلی کال کی گئی ۔ جس کے الفاظ تھے ’مسٹر واٹسن، میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں، یہاں آ جائیں۔‘ تاہم گراہم بیل کو اپنی آواز کے اسی طرح دوسری طرف پہنچ جانے کا زیادہ یقین نہیں تھا، مگر جب ان کے اسسٹنٹ تھامس واٹسن، جس تک آواز پہنچائی گئی  تھی ، آ کر وہی الفاظ دوہرائے تو گراہم بیل کے لیے بھی یہ بہت حیرت انگیز تھی، جس نے بعد میں اسمارٹ فون کی شکل اختیار کی۔ 1954ء میں امریکی انجینئر مارٹن کوپر نے مارٹرولا کمپنی کی شراکت سے بغیر تار سے موبائل فون بنانے کے لیے کام شروع کیا اور 1973ء میں  مارٹن کوپر نے پہلی دفعہ اپنی حریف کمپنی بیل کے ایک انجینئر کو کال کی اور کہا کہ میں مارٹن بول رہا ہوں اور ایک ایسے فون سے کال کر رہا ہوں جسے میں نے ہاتھ میں اٹھایا ہوا ہے اور دوسری جانب اس حیرت انگیز ایجاد کی وجہ سے خاموشی چھائی رہی۔  اپریل 1973 میں کُوپر اور ان کے ساتھیوں نے نیویارک کے ہِلٹن ہوٹل میں جس آلے کی نقاب کشائی کی تھی وہ شکل میں اس باریک سی ڈیوائس سے بہت مختلف تھا جو سٹار ٹریک کے کردار استعمال کرتے تھے اور نہ ہی یہ آلہ ڈِک ٹریسی کی گھڑی جیسا تھا اور نہ ہی اس موبائل جیسا تھا جس کی سکرین پر آپ اس وقت یہ مضمون پڑھ رہے ہیں۔ یہ ڈیوائس تقریباّ دو انچ چوڑی اور 4 انچ لمبی تھی اور اس کا وزن 500 گرام (آدھا کلو) کے قریب تھا، اور اس پر صرف 20 منٹ بات کر سکتے تھے جس کے بعد اس کی بیٹری ختم ہو جاتی تھی۔ لوگ اس آلے کو دیکھ کر ہنس رہے تھے، لیکن یہ اس وقت کے لیے بہترین ڈیوائس تھی۔ شروع میں اس فون کی قیمت 4 ہزار ڈالر تھی جو کہ عام آدمی کی پہنچ سے دور تھا اور اسے رہئسوں کی ملکیت سمجھا جاتا تھا آہستہ آہستہ موبائل فون بنانے والی کمپنیاں بنتی گئی اور ان کی قیمتوں میں کمی آتی گئی اور اب  ہر ایک کے ہاتھ میں سمارٹ فون نظر آئے گا ۔  1992ء سے پہلے بہت سی کمپنیوں نے موبائل فون متعارف کرا دیے تھے لیکن ان میں کال اور میسجز کے علاوہ کوئی فیچر نہیں تھا 1992ء میں  سائمن  پرسنل کمیونکیٹر  متعارف کرایا گیا جسے دنیا کا پہلا سمارٹ فون سمجھا جاتا ہے جس میں کال اور میسجز کے علاوہ فیکس، ای میل، کیلنڈر اور ایڈرس جیسی خصوصیات بھی تھی۔  اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایک چھوٹی  سی ٹچ سکرین بھی تھی جو کہ اس وقت کا انقلابی تصور سمجھا گیا۔ 2000ء کے بعد موبائل فون کی ٹیکنالوجی میں کچھ بڑی تبدیلیاں آئی، پالم اور بلیک بیری جیسی کمپنیوں نے موبائل فون متعارف کرائے ، جس میں ای میل، کیلنڈر کے ساتھ دیگر بزنس کے فیچرز بھی شامل تھے۔  2007ء میں آئی فون نے دنیا کا پہلا حقیقی سمارٹ فون متعارف کرایا ، آئی فون نے نہ صرف برؤزنگ ، ای میل، اور ٹچ سکرین کا متعارف کرایا بلکہ اس نے ایپ سٹؤر کا آغاز کیا ، جس کی بدولت ایپلی کیشن کو ڈاؤنلڈ کرنا اور استعمال کرنا ممکن تھا۔آئی فون کا یہ ماڈل فون دنیا میں ایک مکمل انقلاب تھا کیونکہ اس میں ٹچ سکرین استعمال کی جاتی تھی اور کی بورڈ کی بجائے آسانی سے ہارڈوئیر ٹچ سے استعمال کیا جانے لگا۔ آئی فون کے بعد دیگر کمپنیوں نے بھی  سمارٹ فونز کی ترقی کی طرف قدم بڑھائے ۔ سمسنگ ، نوکیا، مائکرو سوفٹ، اور گوگل نے بھی سمارٹ فون کی مارکیٹ میں قدم رکھے ۔ 2008 میں گوگل نے اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم متعارف کرایا جو ایپل کے آئی او ایس کے مقابلے میں ایک مفت اور اوپن آپریٹنگ سسٹم تھا۔  سمارٹ فون کا دور 2000ء کے بعد شروع ہوا ، خاص طور پر 2007ء آئی فون کی آمد کے بعد۔  ان موبائل فون میں بہت سارے جدید فیچرز نے ان ٹیکنالوجی کا لوگوں کو محتاج بنا دیا ہے۔ ان فیچرز کی بنیاد پر آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر اپنے پیاروں کے ساتھ رابطے میں رہ سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ دکھ بانٹ سکتے ہیں ۔

جناح انٹارکٹک اسٹیشن: مفادات کے تحفظ کا انوکھا پلیٹ فارم، کیا پاکستان اسے دوبارہ فعال کر پائے گا؟

روزِ اؤل سے انسان قدرت کے کرشموں کو اپنی عقل سے کھوجتا آیا ہے۔ انسان کی سوچنے اور نئے طریقے دریافت کرنے کی صلاحیت اسے اس قابل بناتی ہے کہ وہ زمین و آسمان کی تہوں میں چھپے قدرت کے رازوں کو دریافت کر سکے۔ کائنات کے پوشیدہ پہلوؤں سے روشنائی کا سفر آج بھی جاری ہے جس کی ایک مثال پاکستان کا جناح انٹارکٹک اسٹیشن ہے۔ جناع انٹارکٹک اسٹیشن براعظم انٹارکٹیکا پہ واقع ایک تحقیقی سٹیشن ہے۔ یہ سٹیشن پاکستان کے انٹارکٹیکا پروگرام کے تحت کام کرتا ہے۔ جس کے تحت پاکستان باقی ممالک کی شراکت داری کے ساتھ اس علاقے میں تحقیق کرتا ہے کہ اس علاقے کو ترقی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہ اسٹیشن مشرقی انٹارکٹیکا کے علاقے جنوبی رونڈین کے پہاڑوں کی ملکہ مود لینڈ میں واقع ہے۔ دوسری جنگ عظیم کےبعد براعظم انٹارکٹکا پہ مختلف ممالک نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں عالمی اداروں کی مدد سے 1958 میں سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق قائم کیا گیا۔ یہ اس براعظم میں سائنسی تحقیق سرانجام دے رہا ہے۔ 1959 میں واشنگٹن میں “انٹارکٹک معاہدہ” ہوا جس میں 12 ممالک کےدستخط ہوئے۔ اب تک کُل ممالک کی تعداد 58 ہو چکی ہے۔ سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق کے قائم ہونے کے بعد وہاں مختلف ممالک نے اپنے اپنے سائنسی سٹیشنز قائم کیے۔ مزید براں کمیٹی وہاں موجود باقی ممالک کے سائنسی پروگرامز کے ساتھ شراکت داری بھی کرتی ہے۔ پاکستان نے ‘سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق’ کے ساتھ انٹارکٹیکا میں تحقیق کے لیے 1991 میں ایک معاہدہ کیا جسے پاکستان آرکیٹک پروگرام کہا جاتا ہے۔ یہ پروگرام پاکستان کی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے تعاون سے ‘نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے محیطیات’ نے پاک بحریہ کے زیر انتظام شروع کیا۔ پاکستان نے اس پروگرام کے تحت وہاں جناح انٹارکٹک اسٹیشن قائم کیا۔ 2001 میں اسٹیشن کے ڈیٹا آپریشنل سسٹم کو ‘بدر بی’ سیٹلائٹ کے ساتھ منسلک کیا گیا جس سے کراچی میں واقع این آئی او کے ہیڈکوارٹرز میں اس علاقے کے ڈیجیٹل مناظر کی ٹرانسمیشن شروع ہو گئی۔ 2002 میں سپارکو کے سائنسدانوں نے اسٹیشن کا دورہ کیا اور وہاں جدید ترین سپر کمپیوٹر نصب کیا۔ 2005 میں پاکستان ائیر فورس کے انجینئرز نے وہاں چھوٹی سی فضائی پٹی اور ایک کنٹرول روم قائم کیا۔ جہاں سے اب پاکستان سے آنے جانے والی پروازوں کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن کا مقصد براعظم انٹارکٹیکا کے متعلق مختلف شعبوں میں تحقیق کرنا ہے۔ جس میں ماحولیاتی معائنہ، سمندری حیاتیات اور برف کی ساخت شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی اورموسموں کے پیٹرنز کو سمجھنا شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے براعظم انٹارکٹکا بھی محفوظ نہیں اور برف پگھلنا اور پئنگوئنز کی نقل و حرکت کا تبدیل ہونا جیسے عوامل کا سامنا کر رہا ہے۔ اسٹیشن پر موجود سائنسدان انٹارکٹیکا پہ موسمیاتی تبدیلی سے نبٹنے کے لیے بھی تحقیق کررہے ہیں۔ اس اسٹیشن میں تحقیق کے لیے تجربہ گاہیں، بنیادی سازوسامان اور لیبارٹریز موجود ہیں۔ سائنسدانوں کے رہنے کے لیے کوارٹرز بھی موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا ہوائی اڈا بھی ہے جہاں سے جہازوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن عالمی سطح پہ پاکستانی شراکت داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ایک اہم سہولت ہے جس کے ذریعے ہم ساتویں براعظم سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کل کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے انسان وہاں مستقل رہائش اختیار کرنے کے قابل بھی ہوجائے۔ جامعہ پنجاب کے شعبہ سپیس سائنسس کے پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جناح انٹارکٹک اسٹیشن کا قیام 1991 میں پاکستان کے انٹارکٹک پروگرام کے تحت عمل میں آیا۔ اس کا بنیادی مقصد انٹارکٹیکا کے ماحولیاتی، موسمیاتی اور جغرافیائی پہلوؤں پر تحقیق کرنا ہے۔ یہ پاکستان کو عالمی سائنسی کمیونٹی میں ایک ذمہ دار رکن کے طور پر پیش کرتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی اور زمین کی قدرتی حالت کو سمجھنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر اس کا فائدہ یہ ہے کہ پاکستان بین الاقوامی تحقیقاتی پروجیکٹس میں شامل ہو کر اپنی سائنسی صلاحیت کو بہتر کر سکتا ہے اور ماحولیاتی تحفظ کے شعبے میں اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتا ہے”۔ دوسری جانب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ سپیس سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر زبیر خان کا کہنا ہے کہ “جناح انٹارکٹک اسٹیشن پاکستان کی سائنسی برتری کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ اسٹیشن موسمیاتی تبدیلیوں اور قطبی تحقیق میں عالمی تعاون کو فروغ دے رہا ہے، یہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے”۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن میں جاری تحقیقاتی شعبوں پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے کہا کہ پاکستان انٹارکٹیکا میں مختلف سائنسی شعبوں پر توجہ دے رہا ہے، جن میں موسمیاتی، سمندری حیات، جغرافیائی، ماحولیاتی اور بائیولوجیکل تحقیق شامل ہیں۔ موسمیاتی تحقیق میں گلوبل وارمنگ اور اوزون لیئر کے نقصان کے اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے، سمندری حیات کی تحقیق میں سمندری ایکوسسٹمز اور ان میں رہنے والے جانداروں کا جائزہ لیا جاتا ہے، جغرافیائی علوم میں گلیشیئرز کی حرکت اور زمین کے اندرونی نظام پر تحقیق کی جاتی ہے، بائیولوجیکل تحقیق میں انٹارکٹک خطے میں مائیکرو آرگینزمز اور ان کے ارتقائی عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے، اور ماحولیاتی تحقیق میں برفانی تہوں میں گیسوں کے اثرات اور قدیم ماحولیاتی حالات کا پتہ لگایا جاتا ہے”۔ دوسری جانب ڈاکٹر زبیر خان کا ماننا ہے کہ ” جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے ذریعے پاکستان سمندری حیاتیات، ماحولیاتی تبدیلی، برفانی تشکیل اور موسمی پیٹرنز جیسے سائنس کے اہم شعبوں پر توجہ دے رہا ہے”۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نتائج اور معلومات پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے کہا کہ ” جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کئی اہم نتائج سامنے آئے ہیں، ادھر سے اوزون لیئر کے حوالے سے ڈیٹا حاصل ہوا ہے، جس نے پاکستان اور دیگر ممالک کو اوزون کی کمی کے اثرات کو سمجھنے میں مدد دی ہے، گلیشیئرز کی پگھلنے کی رفتار اور اس کے سمندر کی سطح پر اثرات کا جائزہ بھی

مارک زکر برگ کا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو 2025 میں نئی انتہاؤں تک لے جانے کا اعلان

Mark-zukerburg

مارک زکربرگ کا کہنا ہے کہ 2025 میں میٹا آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) منصوبے پر 60 سے 65 ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ یہ سال مصنوعی ذہانت (AI) کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ مجھے توقع ہے کہ 2025 میں میٹا اے آئی میں ایک ایسا نمایاں اسسٹنٹ ہوگا جو ایک ارب سے زائد افراد کو خدمات فراہم کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ Llama 4 دنیا کا سب سے جدید ماڈل بن جائے گا۔ ہم ایک ایسا AI انجینئر تیار کریں گے جو ہمارے تحقیقی اور ترقیاتی کاموں میں تیزی سے زیادہ کوڈ لکھ کر تعاون کرے گا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے میٹا ایک 2 گیگا واٹ سے زیادہ کا ڈیٹا سینٹر بنا رہا ہے جو اتنا بڑا ہے کہ مین ہٹن کے ایک بڑے حصے کو کور کر سکے۔ مارک زکر برگ نے کہا کہ 2025 میں تقریباً 1 گیگا واٹ کمپیوٹ پاور کو فعال کریں گے اور سال کے اختتام تک ہمارے پاس 13 لاکھ سے زائد جی پی یوز ہوں گے۔ ہم اس سال سرمایہ کاری کے طور پر 60-65 بلین ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنے AI ٹیموں میں بھی نمایاں اضافہ کریں گے۔ ہمارے پاس آئندہ سالوں میں بھی سرمایہ کاری جاری رکھنے کے لیے مالی وسائل موجود ہیں۔ مارک زکر برگ نے مزید کہا کہ یہ ایک وسیع منصوبہ ہے۔ آنے والے سالوں میں یہ ہماری بنیادی مصنوعات اور کاروبار کو تقویت دے گا، تاریخی جدتوں کا دروازہ کھولے گا، اور امریکی ٹیکنالوجی کی برتری کو مزید آگے بڑھائے گا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ آئیں! مل کر یہ خواب حقیقت بنائیں۔