بلند پرواز، پرفیکٹ نشانہ: وہ طیارہ جو جنگ کا نقشہ بدل سکتا ہے

J 35 missile

حالیہ پاکستان-انڈیا کشیدگی کے بعد سے پاکستان اپنے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے چین کے جے-35 اسٹیلتھ لڑاکا طیاروں کی خریداری کے معاہدے کو حتمی شکل دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی کے ’ٹی ایف-ایکس کاآن‘ جیٹ میں بھی گہری دلچسپی ظاہر کررہا ہے۔ دوسری جانب انڈیا ‘ایڈوانسڈ میڈیم کومبیٹ ایئرکرافٹ (اے ایم سی اے)’ کے علاوہ ممکنہ طور پر روسی ایس یو-57 اور امریکی ایف-35 جیسے جدید طیاروں کی خریداری کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ حالیہ فضائی ناکامیوں کے پس منظر میں یہ بڑھتی ہوئی اسلحہ کی دوڑ جنوبی ایشیا کے عسکری توازن کو ازسرنو تشکیل دے سکتی ہے۔ جے – 35 اور انڈین رافیل طیاروں کا موازنہ کرتے ہوئے ماہرعالمی امور ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ  جے-35 کی شمولیت پاکستان کے لیے ایک اسٹریٹیجک بریک تھرو ہو سکتی ہے۔ یہ انڈیا کے رافیل اور ایس یو -57کے مقابلے میں اسٹیلتھ، سینسر فیوژن اور نیٹ ورک سینٹرک وار فیئر میں نمایاں برتری رکھتا ہے۔ یہ نہ صرف جے -35  نہ صرف توازن قائم کرے گا بلکہ انڈیا کی فضائی برتری کے دعووں کو چیلنج بھی کرے گا۔ پاکستان نے باضابطہ طور پر چین سے 40 جے 35 اسٹیلٹھ پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کی خریداری کی منظوری دے دی ہے، جن کی ترسیل آئندہ 24 ماہ میں متوقع ہے۔ پاکستانی فضائیہ کے پائلٹس پہلے ہی چین میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر جے-35 طیارے پاکستان کے فضائی بیڑے میں شامل ہو جاتے ہیں تو خطے میں فضائی طاقت کا توازن وقتی طور پر تبدیل ہو سکتا ہے،کم از کم اُس وقت تک جب تک انڈیا اپنی اسٹیلتھ صلاحیت حاصل نہ کر لے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار میاں محمد عرفان نے کہا ہےکہ اسٹیلتھ طیارے روایتی ریڈار اور فضائی دفاعی نظاموں کے لیے سنگین چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ ان کی کم ریڈار سگنیچر اور جدید الیکٹرانک وارفیئر صلاحیتیں دشمن کی ابتدائی دفاعی لائنز کو بے اثر کر سکتی ہیں۔ خطے میں ان کی تعیناتی موجودہ دفاعی توازن کو یکسر بدل سکتی ہے۔ ترکیہ  کے “کاآن پی او” کی پہلی آزمائشی پرواز کے بعد پاکستان ‘ٹی ایف ایک’ پروگرام پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے تاکہ اسے ایک متبادل اسٹیلتھ آپشن کے طور پر استعمال کیا جا سکے،یہ طیارہ دو انجنوں پر مشتمل ہے اور اس کی چُستی ایف-22 سے مشابہت رکھتی ہے۔ انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات کی ممکنہ دلچسپی کے ساتھ پاکستان کی شمولیت ترکی کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط کر سکتی ہے۔ مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی محاصرہ جاری: بھوک سے مزید 326 فلسطینی شہید انڈیا کا ‘اے ایم سی اے’منصوبہ، جس کے لیے 15,000 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے، 2035 تک ایک ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیارے کو فضائیہ میں شامل کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق و ترقی میں پیچیدگیوں کے باعث یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے انڈین فضائیہ کے اعلیٰ حکام مبینہ طور پر ایسے ثابت شدہ پلیٹ فارمز کی ہنگامی بنیادوں پر خریداری پر غور کر رہے ہیں، خاص طور پر اگر پاکستان کے جے-35 طیارے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ جے-35 کئی ففتھ جنریشن فیچرز جیسے لو آوبزرویبلٹی، ایڈوانسڈ ایویونکس اور انٹیگریٹڈ وار فیئر سسٹمز رکھتا ہے، تاہم انجن ٹیکنالوجی اور انڈیجنس ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے کچھ تکنیکی تحفظات موجود ہیں۔ اگرچہ جے-35 مکمل طور پر ایف -35 یا ایف -22 کا ہم پلہ نہیں، لیکن ریجنل تھیٹر میں یہ ایک مؤثر ففتھ جنریشن پلیٹ فارم ضرور ہے۔ اگر انڈیا اے ایم سی اے اور ایس یو 57 جیسے طیارے خرید لیتا  ہے تو پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور اس سے انڈیا کو برتری حاصل ہو جائے گی۔ سینئر تجزیہ کار میاں محمد عرفان نے کہا  ہے کہ جنگ میں جدید آلات بہت معنی رکھتے ہیں مگر برتری کا دارومدار تربیت، انٹیگریشن اور جنگی حکمت عملی پر ہوتا ہے، انڈیا جتنے بھی بڑے جدید آلات لے آئے لیکن پاکستان کی فضائیہ کا مقابلا نہیں کر سکتا، پاکستانی پائلٹ اپنے جذبوں سے طیاروں کو اڑاتے  ہیں جوکہ دشمن کےلیے بھاری ثابت ہوتے ہیں۔ لازمی پڑھیں: خضدار حملہ، 4 بچوں سمیت 6 جاں بحق: ’انڈیا کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا جائے گا‘ فروری 2025 میں امریکہ نے انڈیا کو ایف-35 طیاروں کی فروخت کی باضابطہ پیشکش کی، جو کہ ایک نئے دفاعی فریم ورک کا حصہ ہے۔ اس پیشکش کو اگرچہ لاگت کے باعث تنقید کا سامنا ہے، تاہم یہ روس سے پالیسی کی ممکنہ تبدیلی کا عندیہ بھی ہے، جس سے پاکستانی فضائیہ کو برتری حاصل ہو گی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا ہےکہ اے ایم سی اے پروگرام کی تاخیر انڈیا کے لیے تکنیکی و عملی نقصان ہے، جب کہ  پاکستان کے لیے یہ ایک قیمتی اسٹریٹیجک ونڈو ہے۔ اگر پاکستان جے-35 جیسے ففتھ جنریشن طیارے بروقت شامل کر لیتا ہے تو کم از کم اگلی دہائی تک اسے فضائی برتری میں سبقت حاصل رہ سکتی ہے۔ عالمی خبررساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق روس نے انڈیا کو موجودہ ایس  ایو-30 طیاروں کی مقامی پیداوار کے ساتھ ساتھ ایس یو-57 اسٹیلتھ طیاروں کی تیاری کی پیشکش کی ہے، جس میں مکمل تکنیکی منتقلی شامل ہے۔ اگر انڈیا اور پاکستان اسی طرح  ہتھیاروں کو اکٹھاکرتے رہے تو اس سے نا صرف دونوں ممالک کو نقصان ہو گا بلکہ پورے ایشیا کے لیے خطرناک مور بن جائے گا۔ لازمی پڑھیں: جب تک غزہ کے تمام علاقے مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں نہیں آ جاتے، جنگ جاری رہے گی، نیتن یاہو میاں محمد عرفان کا کہنا ہےکہ انڈیااور پاکستان کی جانب سے جدید ہتھیاروں کی دوڑ جنوبی ایشیا کے لیے ایک خطرناک موڑ کی علامت ہے۔ یہ اسلحہ جمع کرنا اسٹریٹیجک عدم توازن، غلط فہمیوں اور حادثاتی جنگ کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ علاقائی امن و استحکام کے لیے اس رجحان کا بروقت جائزہ اور سفارتی توازن ناگزیر ہو چکا ہے

جب تک غزہ کے تمام علاقے مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں نہیں آ جاتے، جنگ جاری رہے گی، نیتن یاہو

Netynyahu

اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی مکمل طور پر اسرائیلی سکیورٹی کنٹرول میں ہوگی اور حماس کو شکست دی جائے گی، جب تک غزہ کے تمام علاقے مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں نہیں آ جاتے، جنگ جاری رہے گی۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق یروشلم میں خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف کارروائیوں کے دوران اب تک درجنوں عسکریت پسندوں اور ان کے ’ڈھانچوں‘ کو تباہ کر دیا ہے۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ اسرائیلی افواج نے حماس کے اعلیٰ کمانڈر، محمد سنوار کو ’ممکنہ طور پر‘ ہلاک کر دیا ہے، تاہم اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق تاحال نہیں ہو سکی۔ نیتن یاہو نے 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کے دوران اغوا کیے گئے تقریباً 20 یرغمالی اب بھی زندہ ہونے کا امکان ہے، جب کہ تقریباً 30 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد واضح اور جائز ہے، ہم حماس کو مکمل طور پر شکست دینے کے لیے پرعزم ہیں اور یہ مشن ابھی مکمل نہیں ہوا۔ اسرائیلی وزیرِاعظم نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ایک منظم اور جامع منصوبہ ہے اور ہم ان مقاصد کے حصول تک اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ نیتن یاہو کے اس بیان کو بعض مبصرین اسرائیلی داخلی دباؤ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، جہاں عوامی سطح پر یرغمالیوں کی بازیابی اور جنگ بندی کے مطالبات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی جنگ بندی اور انسانی بنیادوں پر فریقین کے درمیان معاہدے کی کوششیں جاری ہیں، تاہم تاحال کوئی باضابطہ پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔ مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی محاصرہ جاری: بھوک سے مزید 326 فلسطینی شہید نیتن یاہو نے غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے لیے تین نکاتی منصوبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کے تحت غزہ کو بنیادی امدادی اشیا فراہم کی جائیں گی، امریکی کمپنیوں کے ذریعے خوراک کی تقسیم کے مراکز قائم کیے جائیں گے، جنہیں اسرائیلی فوج کی سکیورٹی حاصل ہو گی اور غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد شہریوں کے تحفظ کے لیے ایک مخصوص زون قائم کیا جائے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسرائیل نے ایران کے فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنایا ہے لیکن اس کے باوجود ایران اسرائیل کے لیے ’اب بھی ایک بڑا خطرہ‘ ہے۔ اسرائیل امریکہ کے ساتھ مل کر ایک ایسے معاہدے کی کوشش کر رہا ہے، جو ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روک سکے۔ بنیامین نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ وہ جنگ اُس صورت میں ختم کرنے کے لیے تیار ہیں، جب کچھ ’واضح شرائط‘ پوری ہوں، جو اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ان شرائط میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، حماس کا ہتھیار ڈالنا، اس کی قیادت کا غزہ سے جلاوطن ہونا اور علاقے کا مکمل طور پر غیر مسلح کیا جانا شامل ہے۔ اسرائیلی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ جو غزہ چھوڑنا چاہتے ہیں، انہیں جانے کی اجازت دی جائے گی، جو لوگ اسرائیل سے جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ دراصل یہ چاہتے ہیں کہ ’غزہ پر حماس کی حکمرانی برقرار رہے۔‘ یہ بھی پڑھیں: خضدار حملہ، 4 بچوں سمیت 6 جاں بحق: ’انڈیا کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا جائے گا‘ واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائیوں کے باعث اب تک ہزاروں فلسطینی شہری جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ اقوامِ متحدہ سمیت متعدد عالمی ادارے انسانی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔

جنرل سید عاصم منیرکی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی، یہ انفرادی نہیں پوری قوم کے لیے اعزاز ہے، آرمی چیف 

بلوچ قوم کے نام پر دہشتگردی پھیلانے والے عناصر بلوچ قوم پر دھبہ ہیں، آرمی چیف( فائل فوٹو)

حکومت پاکستان نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دے دی ہے۔ وقافی کابینہ کے اجلاس میں مختلف فیصلوں کی منظوری دی گئی ۔ اعلامیہ کے مطابق انڈیا کے خلاف بھرپور جوابی کارروائی پر آرمی چیف کو ترقی دی گئی ۔ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حکومت پاکستان کی جانب سے معرکہ حق، آپریشن بنیان مرصوص کی اعلیٰ حکمتِ عملی اور دلیرانہ قیادت کی بنیاد پر ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے اور دشمن کو شِکست فاش دینے پر جنرل سید عاصم منیر (نشان امتیاز ملٹری) کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دیدی ۔وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلے کئے اجلاس میں وزیراعظم نے پوری پاکستانی قوم کو معرکہ حق کے دوران آپریشن بنیان مرصوص کی شاندار کامیابی اور دشمن کے عزائم خاک میں ملانے پر مبارکباددی ۔ مزید پڑھیں: سکھوں کے مقدس مقامات کے محافظ، گولڈن ٹیمپل پر حملے کا انڈین الزام مسترد کرتے ہیں، پاکستان  اجلاس میں حکومت پاکستان کی جانب سے معرکہ حق، آپریشن بنیان مرصوص کی اعلیٰ حکمتِ عملی اور دلیرانہ قیادت کی بنیاد پر ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے اور دشمن کو شِکست فاش دینے پر جنرل سید عاصم منیر (نشان امتیاز ملٹری) کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دی۔کابینہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ حال ہی میں پاکستان تاریخ کے کٹھن مرحلے سے گزرا۔ 6 اور 7 مئی 2025 کی رات بھارت نے پاکستان پر بلا اشتعال اور بلا جواز جنگ مسلط کی۔ پاکستان کی سول آبادی میں معصوم شہریوں بشمول خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ وفاقی کابینہ نے کہاکہ دشمن کی جانب سے پاکستان کی خود مختاری اور سرحدی سالمیت کو پامال کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے مثالی جرآت اور عزم کے ساتھ پاک فوج کی قیادت کی اور مسلح افواج کی جنگی حکمتِ عملی اور کاوشوں کو بھرپور طریقے سے ہم آہنگ کیا۔ وفاقی کابینہ نے کہا کہ آرمی چیف کی بے مثال قیادت کی بدولت پاکستان کو معرکہ حق میں تاریخی کامیابی حاصل ہوئی۔ان کی شاندار عسکری قیادت، جرآت، اور بہادری، پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو یقینی بنانے اور دشمن کے مقابلے میں دلیررانہ دفاع کے اعتراف میں، جنرل سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کابینہ نے منظور کر لی۔ وزیرِ اعظم نے صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کرکے انہیں اس فیصلے کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔حکومت نےائیر چیف مارشل ظہر احمد بابر سدھو کی مدت ملازمت پوری ہونے پر انکی خدمات کو جاری رکھنے کا بھی متفقہ فیصلہ کیاہے ۔ وفاقی کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ افواج پاکستان کے افسران و جوان، غازیان، شہداء اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کو آپریشن بنیان مرصوص کے دوران انکی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں اعلی سرکاری ایورڈز سے نوازا جائے گا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق آرمی چیف نے ترقی ملنے پر اللہ کا شکر ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ انفرادی نہیں پوری قوم کے لیے اعزاز ہے۔  فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا ہے کہ اعزاز ملنے پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں، یہ اعزاز پوری قوم، افواجِ پاکستان، خاص کر سول اور ملٹری شہداء اور غازیوں کے نام وقف کرتا ہوں – ان کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان، وزیرِ اعظم اور کابینہ کے اعتماد کا شکر گزار ہوں۔ یہ اعزاز قوم کی امانت ہے جس کو نبھانے کے لیے لاکھوں عاصم بھی قربان۔ یہ انفرادی نہیں بلکہ افواجِ پاکستان اور پوری قوم کے لئے اعزاز ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے قوم کا شکریہ بھی ادا کیا۔ جنرل عاصم منیر کون ہیں؟ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر ڈی جی آئی ایس آئی ، کور کمانڈر گوجرانوالہ اور ڈی جی ایم آئی سمیت کئی اہم عہدوں پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں ۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر پاکستان ملٹری اکیڈمی سے فارغ التحصیل نہیں ہیں، انہوں نے آفیسرز ٹریننگ اسکول منگلا سے تربیت مکمل کرکے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو دوران تربیت بہترین کارکردگی پر اعزازی شمشیر سے بھی نوازا گیا، تربیت مکمل کرنے کے بعد انہوں نے فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر حافظ قرآن بھی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے بطور لیفٹننٹ کرنل مدینہ منورہ میں تعیناتی کے دوران قرآن پاک حفظ کیا۔ عاصم منیر کا پروفائل انتہائی مضبوط ہے۔ انہوں نے کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں عاصم منیر 2014ء میں کمانڈر فورس کمانڈ ناردرن ایریا تعینات ہوئے، وہ 2017ء میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس کے عہدے پر فائز ہوئے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کواکتوبر 2018ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی ملی پھر انہیں ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا گیا، جہاں کچھ عرصہ خدمات کی انجام دہی کے بعد انہیں جون 2019ء میں کور کمانڈر گوجرانوالہ بنادیا گیا۔ عاصم منیر وہ پہلے چیف آف آرمی اسٹاف ہیں جو ایم آئی اور آئی ایس آئی دونوں خفیہ اداروں کی سربراہی کر چکے ہیں۔ عاصم منیر اکتوبر 2021ء سے جنرل ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو )میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے فرائض بھی سرانجام دے رہے تھے۔

سکھوں کے مقدس مقامات کے محافظ، گولڈن ٹیمپل پر حملے کا انڈین الزام مسترد کرتے ہیں، پاکستان 

Daftar kharja

پاکستان نے انڈین فوج کی طرف سے گولڈن ٹیمپل پر حملے کے الزام کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان گولڈن ٹیمپل جیسے مقدس مقام کو نشانہ بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، یہ الزام جھوٹا، بے بنیاد اور ناقابل قبول ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ انڈیا نے خود 6 اور 7 مئی کی درمیانی رات پاکستان میں عبادت گاہوں پر حملے کیے اور اب ان الزامات کے ذریعے اپنے ان قابل مذمت اقدامات سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سکھ مذہب کے مقدس مقامات کا محافظ ہے اور یہاں ہر سال ہزاروں سکھ یاتری آتے ہیں۔ کرتارپور راہداری کے ذریعے پاکستان سکھ زائرین کو بغیر ویزا کے آنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس لیے انڈیا کا الزام نہ صرف جھوٹا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان امن کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔ مزید پڑھیں: کینیڈا، برطانیہ اور فرانس کی اسرائیل کو وارننگ: ’غزہ پر حملے ‘نہ رکے تو عملی اقدامات کریں گے

پاکستان انڈیا کشیدگی: دونوں ممالک کی معیشیت پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

Pak vs india

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کی تاریخ جتنی پرانی ہے، اس کے اثرات اتنے ہی گہرے اور وسیع ہیں۔ ان دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگی ماحول یا فوجی جھڑپیں نہ صرف سیاسی تناؤ کو ہوا دیتی ہیں بلکہ اس کا شدید اثر دونوں ممالک کی معیشت، تجارت اور کاروباری حلقوں پر بھی پڑتا ہے۔ سرحد پار تناؤ کا ہر واقعہ اسٹاک مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیتا ہے، درآمد و برآمد کا عمل سست ہو جاتا ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور سب سے زیادہ نقصان وہ طبقہ اٹھاتا ہے، جو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار سے وابستہ ہوتا ہے۔ 2023 میں جب لائن آف کنٹرول پر گولہ باری میں اضافہ ہوا اور سفارتی بیانات مزید تلخ ہو گئے تو اس کے بعد دونوں ملکوں کی معیشتوں نے دباؤ محسوس کیا۔ انڈیا میں روپیہ کمزور ہوا، جب کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت ایک بار پھر بڑھنے لگی۔ حالیہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی اور حملوں نے بھی دونوں ممالک کو اسی طرح متاثر کیا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان رسمی تجارت 2019 سے بند ہے، تاہم غیر رسمی تجارت اب بھی مختلف راستوں سے جاری ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں ابوزر شاد نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاک انڈیا رسمی تجارت اگست 2019 سے بند ہے۔ کچھ ادویات کا خام مال انسانی بنیادوں پر پاکستان درآمد کیا جاتا ہے، جن کی مالیت انتہائی کم ہے، لیکن غیر رسمی تجارت کا حجم تقریباً دو ارب ڈالرز سے زیادہ ہے، جو رسمی تجارت کی نسبت تقریباً پانچ گنا زیادہ ہے۔ یہ تجارت متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کے ذریعے ہوتی ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا پاکستان کو تقریباً پونے دو ارب ڈالرز کی غیر رسمی برآمدات کرتا ہے، جن میں بڑا حصہ ادویات کا ہے، جب کہ پاکستان سے انڈیا کھجوریں اور نمک وغیرہ جاتا ہے، جن کی مالیت محدود ہے۔ میاں ابوزر شاد کے مطابق اگر غیر رسمی تجارت بند ہو جائے تو انڈیا کو زیادہ نقصان ہو گا، کیونکہ پاکستان ادویات کے متبادل ذرائع بآسانی تلاش کر سکتا ہے۔ لازمی پڑھیں: انڈین کرکٹ بورڈ کی ایشیا کپ سے دستبرداری سے متعلق خبروں کی تردید اس کے علاوہ فضائی حدود کی اہمیت بھی دونوں ملکوں کے معاشی تعلقات میں غیر معمولی ہے۔ ایئر لائن اکنامکس کے پروفیسر اور سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایئر ٹرانسپورٹ محمد اسفر ملک  کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق سوائے جنگی حالات کے کسی ملک کے لیے ایئر اسپیس بند کرنا جرم ہے۔ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد پاکستان نے متعدد بار فضائی حدود بند کی ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 2019 میں پاکستان نے انڈیا کے لیے پانچ ماہ تک فضائی حدود بند رکھی تھیں، جس سے انڈیا کو تقریباً آٹھ کروڑ ڈالرز اور پاکستان کو دس کروڑ ڈالرز کا نقصان ہوا تھا، کیونکہ پاکستان نے تمام بین الاقوامی ایئر لائنز پر بھی انڈیا کے لیے پابندی عائد کی تھی۔ اس مرتبہ صرف انڈین ایئر لائنز پر پابندی لگائی گئی ہے، جس سے پاکستان کو کم نقصان کا اندیشہ ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے لاہور میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ راحیل محمود بتاتے ہیں کہ 2019 کے بعد سے جب بھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے، ان کے یورپی کلائنٹس پریشان ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’جب بارڈر پر فائرنگ یا جنگ کی خبریں آتی ہیں، تو غیر ملکی خریدار آرڈر روک دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اس خطے میں عدم استحکام ہے اور وہ متبادل سپلائرز کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔‘‘ راحیل محمود کا کہنا ہے کہ 2023 کی کشیدہ صورتحال کے بعد ان کے دو بڑے آرڈرز کینسل ہو چکے ہیں کیونکہ خریداروں کو خدشہ تھا کہ شپنگ میں تاخیر ہو سکتی ہے یا حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی کاروباری خاتون عائشہ صدیقہ، جو کہ مصالحہ جات اور خشک میوہ جات کی ایکسپورٹ کرتی ہیں نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ 2019 میں جب دونوں ممالک کے درمیان تجارت بند ہوئی تھی تو ان کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ ’’ہم انڈیا سے کچھ خام مال خریدا کرتے تھے جو اب افغانستان یا دیگر مہنگے ذرائع سے منگوانا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہماری مصنوعات کا بھی انڈیا میں ایک خاص مارکیٹ تھی، جو بند ہو گئی۔ سیاستدان تو بیانات دے کر آگے نکل جاتے ہیں، نقصان ہم تاجروں کا ہوتا ہے۔” مزید پڑھیں: آپریشن بنیان مرصوص میں شاہین میزائل داغنے کی خبریں بےبنیاد اور من گھڑت ہیں، دفترِ خارجہ اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جنگی ماحول یا کشیدگی براہ راست کاروبار پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان 2022 میں باہمی تجارت صرف 300 ملین ڈالر تک محدود رہی، جو کہ ماضی کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک کی مارکیٹس ایک دوسرے کے لیے بہترین مواقع رکھتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر سیاسی حالات سازگار ہوں تو دوطرفہ تجارت 5 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھ سکتی ہے۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل کاروبار بھی اس کشیدگی سے محفوظ نہیں۔ لاہور میں فری لانسنگ اور ای کامرس سے وابستہ نوجوان حمزہ جاوید کا کہنا ہے کہ جب بھی جنگ یا کشیدگی کی بات ہوتی ہے تو ان کے آن لائن سٹور پر انڈین صارفین کا رسپانس کم ہو جاتا ہے۔ ’’پچھلے سال جب ایل او سی پر کشیدگی بڑھی تو مجھے اپنی انڈیا میں چل رہی ایڈز مہم بند کرنا پڑی، کیونکہ وہاں سے نیگیٹو فیڈبیک آنے لگا۔ سیاست کے جھگڑے کاروبار کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔‘‘ حمزہ سمجھتے ہیں کہ اگر نوجوانوں کو باہمی ڈیجیٹل تعاون کے مواقع ملیں تو یہ دشمنی آہستہ آہستہ کم ہو سکتی ہے۔ دونوں ملکوں کے عوامی اور کاروباری حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ کشیدگی کسی کے لیے فائدہ مند نہیں۔ جنگ صرف گولہ بارود کی تباہی نہیں لاتی بلکہ روزگار، ترقی اور خطے کے استحکام کو بھی داؤ پر لگا دیتی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی موجودہ شرح اور کرنسی کی

آپریشن بنیان مرصوص میں شاہین میزائل داغنے کی خبریں بےبنیاد اور من گھڑت ہیں، دفترِ خارجہ

Ghorri missile

دفترِخارجہ نے انڈین ذرائع ابلاغ میں ”آپریشن بنیان مرصوص“ کے دوران پاکستان کی جانب سے شاہین میزائل داغنے سے متعلق خبروں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد، من گھڑت اور گمراہ کن قرار دیا۔ نجی خبررساں ادارے ‘انڈیپنڈنٹ اردو’ کے مطابق پیر کو جاری ایک بیان میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ انڈین میڈیا کے بعض حلقے دانستہ طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مذکورہ آپریشن میں پاکستان نے شاہین میزائل کا استعمال کیا، حالانکہ اس الزام کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق یہ افواہیں اس وقت منظرعام پر آئیں، جب انڈین فوج کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو جاری کی گئی، جس میں مبینہ طور پر پاکستان کے شاہین میزائل کو دکھایا گیا تھا، مگر بعد میں انڈین فوج نے بغیر کوئی وضاحت دیے وہ ویڈیو خاموشی سے ہٹا دی۔ ترجمان کے مطابق افسوسناک امر یہ ہے کہ متعدد انڈین میڈیا ادارے بغیر تصدیق کیے اس جھوٹے دعوے کو پھیلانے میں مصروف رہے اور بعض اب بھی اسے دہرا رہے ہیں۔ دفتر خارجہ نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ انڈین فوج کی جانب سے اس غلط دعوے کی نہ تو تردید کی گئی اور نہ ہی کوئی سرکاری وضاحت پیش کی گئی، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سب ایک منظم مہم کا حصہ تھا۔ ترجمان نے واضح کیا کہ 12 مئی 2025 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ تفصیلی اعلامیے میں ان تمام ہتھیاروں کی وضاحت فراہم کی جا چکی ہے، جو آپریشن بنیان مرصوص کے دوران استعمال کیے گئے تھے۔ ان میں ”فتح سیریز“ کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے جدید میزائل ایف ون اور ایف ٹو، درست نشانے کے لیے جدید امیونیشنز، خودکار ڈرونز اور طویل فاصلے تک مار کرنے والی توپیں شامل تھیں۔ مزید پڑھیں: پرفارمنس میں ہمارا مقابلہ کسی سابقہ حکومت سے نہیں بلکہ خود سے ہے، مریم نواز ترجمان نے مزید بتایا کہ آپریشن کے دوران نشانہ بنائے گئے انڈین علاقوں اور مقبوضہ کشمیر کے مخصوص مقامات کی تفصیلات بھی مذکورہ اعلامیے کا حصہ تھیں۔ دفتر خارجہ نے زور دیا کہ غیر مصدقہ، اشتعال انگیز اور بے بنیاد معلومات کی اشاعت نہ صرف خطے کے امن اور استحکام کے لیے خطرناک ہے بلکہ اس سے خود انڈین اداروں کی پیشہ ورانہ ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے۔

ہیٹ ویو: کب تک رہے گی یہ قیامت خیز گرمی؟

Heat wave

پاکستان اس وقت شدید ہیٹ ویو کی لپیٹ میں ہے اور ملک کے کئی علاقے معمول سے کہیں زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کر رہے ہیں۔ سڑکیں سنسان، چھاؤں قیمتی اور پانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ مئی کے مہینے میں گرمی کی شدت نے گزشتہ کئی سالوں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور لوگوں کی زندگیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ شہری علاقوں میں تیز دھوپ، خشک ہوائیں اور مسلسل بڑھتا ہوا درجہ حرارت لوگوں کو ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ہیٹ ویو کب ختم ہوگی اور عوام کو اس جان لیوا گرمی سے کب نجات ملے گی؟ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈی جی عرفان علی کاٹھیا نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع بہاولپور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں ہیٹ ویو کی لہر شدید ہو سکتی ہے، حال ہی میں بہاولنگر میں 44 ڈگری سینٹی گریڈ، رحیم یار خان 45، بھکر 44، جب کہ کوٹ ادو میں 44 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ لاہور سمیت میدانی علاقوں میں تقریباً 42 ڈگری تک درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ، سرگودھا، ساہیوال، اوکاڑہ، ملتان، منڈی بہاوالدین، خانیوال، قصور، لیہ، جھنگ، حافظ آباد اور فیصل آباد میں 40 سے 42 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا۔ ڈاکٹر آمنہ لطیف، جو نشتر اسپتال کی ایمرجنسی میں خدمات انجام دے رہی ہیں، نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ لوگ شدید جسمانی کمزوری، لو لگنے اور ڈی ہائیڈریشن کے باعث اسپتال آ رہے ہیں۔ اگر بروقت طبی امداد نہ ملے تو معاملہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر آمنہ لطیف کا کہنا کہ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ دن کے اوقات خاص طور پر صبح 11 بجے سے سہ پہر 4 بجے تک، غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کیا جائے۔ ہلکے رنگوں اور ڈھیلے کپڑوں کا استعمال کیا جائے تاکہ جسم میں گرمی کا دباؤ کم رہے۔ ان کے مطابق پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے، چاہے پیاس نہ بھی لگے۔ لیموں پانی، نمکول اور ORS جیسے محلول جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی کو پورا کرتے ہیں اور لو لگنے سے بچاتے ہیں۔ باہر نکلتے وقت سر کو گیلا کپڑا یا ٹوپی سے ڈھانپیں اور سایہ دار راستوں کو ترجیح دیں۔ اگر دھوپ میں جانا مجبوری ہو تو بار بار پانی پینا اور وقفے لینا نہ بھولیں، ہیٹ ویو سے سب سے زیادہ متاثر وہ افراد ہوتے ہیں، جو دھوپ میں کام کرتے ہیں جیسے تعمیراتی مزدور، ٹریفک پولیس اہلکار، رکشہ یا ریڑھی چلانے والے اور کھلے آسمان تلے روزی کمانے والے عام، لوگ ان کے پاس نہ تو سایہ ہوتا ہے نہ پانی کی سہولت اور نہ ہی مناسب طبی سہولیات۔ اس کے علاوہ بچے، بزرگ شہری، حاملہ خواتین اور وہ افراد جو شوگر یا بلڈ پریشر جیسے دائمی امراض میں مبتلا ہیں، بھی ہیٹ ویو سے جلد متاثر ہوتے ہیں۔ اسپتالوں کی ایمرجنسیز میں گرمی سے متاثرہ افراد کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہیٹ ویو سے نمٹنے میں حکومت اور اداروں کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ اگرچہ عوام کو انفرادی طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں، لیکن ریاستی سطح پر مؤثر اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ بڑے شہروں میں ہنگامی کولنگ پوائنٹس قائم کیے جائیں، جہاں عوام کو پینے کا پانی، فرسٹ ایڈ اور سایہ میسر ہو۔ مزدور طبقے کے لیے دن کے اوقاتِ کار میں نرمی کی جائے تاکہ وہ دن کی تپتی دھوپ میں کام کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ اسپتالوں میں خصوصی ہیٹ اسٹروک یونٹس قائم کیے جائیں اور طبی عملے کو ہنگامی صورت حال کے لیے تیار رکھا جائے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ آگاہی مہمات کے ذریعے عوام کو بروقت، درست اور مفید معلومات فراہم کرے تاکہ لوگوں میں ہیٹ ویو سے بچاؤ کا شعور پیدا ہو۔ ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر کامران مغل نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیٹ ویوز اور گلوبل وارمنگ کی شدت کم کرنے کے لیے ہمیں فوری طور پر شہری جنگلات (Urban Forests) کے قیام، شجرکاری اور سرسبز جگہوں میں اضافے پر کام کرنا ہوگا۔ درخت نہ صرف زمین کا درجہ حرارت کم کرتے ہیں بلکہ آکسیجن فراہم کرتے ہیں، زہریلی گیسوں کو جذب کرتے ہیں اور بارشوں کے امکانات بھی بڑھاتے ہیں۔ ہر شہر، ہر گلی اور ہر گھر میں درخت لگانا اب کوئی آپشن نہیں بلکہ ایک مجبوری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ گرین بیلٹس پر عمارتیں بنانے کے بجائے وہاں شجرکاری کو فروغ دے۔ اگر ہم نے اب بھی درختوں کو اہمیت نہ دی تو آنے والے سالوں میں گرمی اور موسمی آفات ہماری برداشت سے باہر ہو جائیں گی۔ موجودہ حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اب صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک انسانی بحران بن چکا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں پہلے ہی صحت کی سہولیات محدود اور وسائل ناکافی ہیں، وہاں ہیٹ ویو جیسے حالات مزید مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ ماہرینِ ماحولیات خبردار کر چکے ہیں کہ اگر حکومت نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو نہ پایا، شہروں میں سبزے کو فروغ نہ دیا اور ماحولیاتی پالیسیوں کو مؤثر نہ بنایا تو آنے والے سالوں میں گرمی کی یہ لہریں مزید خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہیں۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہیٹ ویو محض ایک عارضی موسمی رجحان نہیں بلکہ ہماری زندگیوں، صحت اور مستقبل کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف خود احتیاط کریں بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں، خصوصاً بچوں، بزرگوں اور کمزور طبقات کی مدد بھی کریں کیونکہ صرف شعور، احتیاط اور باہمی تعاون ہی ہمیں اس قدرتی آزمائش سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے ’سرخ لکیر‘ ہے، وزیراعظم شہباز شریف

Shahbaz sharif overall

وزیراعظم نے انڈیا کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کی کوشش کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پاکستان کے لیے ایک ’’سرخ لکیر‘‘ ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو حاصل پانی 24 کروڑ عوام کے لیے ایک زندگی کی لائن ہے، اور اس کے خلاف کوئی بھی اقدام ناقابلِ قبول ہوگا۔ یہ گفتگو انہوں نے ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کی۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ انڈیا خطے میں امن کو خراب کر رہا ہے اور اپنی اندرونی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پہلگام واقعے میں ملوث نہیں ہے اور اس حوالے سے انڈیا کی جانب سے پیش کیے گئے دعوے جھوٹ اور فریب پر مبنی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی درخواست پر بلاول بھٹو کا عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا اعلان انڈیا نے 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے ایک دھماکے میں 26 افراد کی ہلاکت کا الزام پاکستان پر عائد کیا، اور اسی الزام کی بنیاد پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے سمیت دیگر یکطرفہ اقدامات کیے۔ اس کے بعد 6 اور 7 مئی کی رات انڈیا نے پاکستانی علاقوں پر میزائل حملے کیے جن میں بنیادی طور پر پاکستانی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان نے ان حملوں کا بھرپور جواب دیا۔ پاک فضائیہ نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے انڈیا کے کم از کم پانچ لڑاکا طیارے، جن میں تین فرانسیسی ساختہ رافال طیارے شامل تھے، مار گرائے۔ اس دوران لائن آف کنٹرول پر شدید گولہ باری اور ڈرون حملے بھی ہوئے۔ ان حملوں کے نتیجے میں دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی اس قدر بڑھ گئی کہ عالمی برادری نے فوری طور پر دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ بالآخر 10 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کے بعد دونوں ممالک جنگ بندی پر راضی ہو گئے۔ ایرانی صدر نے انڈیا کی جانب سے کیے گئے حملوں میں شہری شہادتوں پر افسوس کا اظہار کیا اور پاکستان کی جانب سے کی جانے والی امن کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ایران خطے میں امن و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے زور دیا کہ جموں و کشمیر کا تنازع جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی اصل جڑ ہے اور اس کا حل اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ انہوں نے انڈیا کے بلا اشتعال حملوں کی شدید مذمت کی جن میں خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بہادر مسلح افواج نے ان حملوں کا منہ توڑ اور ذمہ دارانہ جواب دیا، اور ثابت کیا کہ وہ ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا ہر قیمت پر دفاع کریں گی۔ مزید برآں، دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور ایران کے دوطرفہ تعلقات پر بھی گفتگو کی۔ انہوں نے خاص طور پر تجارت، عوامی روابط، سیکیورٹی، اور علاقائی روابط کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ ایرانی صدر نے وزیراعظم شہباز شریف کو سرکاری دورے کی دعوت دی جسے وزیراعظم نے قبول کر لیا۔ اس ساری صورتحال کے تناظر میں وزیراعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ انڈیا کے پھیلائے گئے جھوٹے پروپیگنڈے اور پاکستان مخالف بیانیے کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کے لیے ایک سفارتی وفد مختلف عالمی دارالحکومتوں میں بھیجا جائے گا۔ یہ وفد لندن، واشنگٹن، پیرس اور برسلز کا دورہ کرے گا اور وہاں بین الاقوامی برادری کے سامنے پاکستان کا مؤقف پیش کرے گا۔ اس وفد کی قیادت سابق وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری کریں گے۔ یہ سفارتی مہم انڈیا کی جانب سے کی گئی یکطرفہ کارروائیوں، سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی، اور کشمیر میں جاری مظالم کے خلاف پاکستان کا مؤقف مؤثر انداز میں عالمی سطح پر اجاگر کرے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان امن چاہتا ہے، لیکن اپنی خودمختاری اور عوام کی حفاظت کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔

تازہ حملوں میں 250 سے زائد فلسطینی شہید: ’لوگ بھوک سے مر رہے ہیں‘

Mom crying 2

جمعرات کی صبح سے غزہ پر جاری اسرائیلی فضائی اور توپ خانے کے شدید حملوں میں اب تک 250 سے زائد فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت نے تصدیق کی ہے کہ مارچ میں جنگ بندی کے خاتمے کے بعد یہ سب سے مہلک بمباری ہے۔ خدشہ ہے کہ جلد ہی اسرائیل غزہ میں ایک نئی زمینی کارروائی کا آغاز کرے گا۔ زیادہ تر حملے غزہ کے شمالی علاقوں پر مرکوز رہے، جو پہلے ہی شدید متاثرہ اور گنجان آباد علاقے ہیں۔ ان حملوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی بھی شامل ہے، جن کی ہلاکتوں نے صورتحال کو مزید المناک بنا دیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے عالمی دباؤ اور جنگ بندی کی اپیلوں کے باوجود جاری ہیں۔ علاقے میں خوراک، پانی، اور طبی امداد کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں نے قحط کے خطرے سے خبردار کیا ہے، لیکن اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث امدادی سامان کی ترسیل مسلسل متاثر ہو رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: امن مذاکرات کے چند ہی گھنٹے بعد روس کا یوکرین پر حملہ، ’ایک سنگین جنگی جرم‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے دورے کے اختتام پر غزہ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو بھی مدد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، اور دونوں اطراف کو دیکھنا ہوگا۔ تاہم، جب ان سے اسرائیلی حملوں پر مؤقف پوچھا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر بات ختم کی کہ آئندہ ماہ میں اچھی پیش رفت کی امید ہے۔ جمعہ کی نصف شب سے پہلے اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ انہوں نے غزہ کے اندر کچھ علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے وسیع حملے شروع کر دیے ہیں، اور زمینی فوج کی منتقلی جاری ہے۔ فوج کے مطابق یہ کارروائی “آپریشن گیڈون ویگنز” کا حصہ ہے، جس کا مقصد حماس کی شکست اور یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی بازیابی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے پہلے ہی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ غزہ میں ایک وسیع اور شدید حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جس میں غزہ کی پٹی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور امداد کے تمام راستے اپنے اختیار میں لینے کی کوششیں شامل ہیں۔ اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ ایک اسرائیلی دفاعی اہلکار نے چند روز قبل کہا تھا کہ یہ کارروائی صدر ٹرمپ کے دورے کے مکمل ہونے سے پہلے شروع نہیں کی جائے گی۔ اب جب کہ وہ دورہ مکمل ہو چکا ہے، اسرائیل نے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ غزہ میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ شہری بمباری، بھوک، بیماری اور بے دخلی کا سامنا کر رہے ہیں، اور عالمی برادری کی خاموشی نے فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانیت کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے، اور فوری عالمی مداخلت ناگزیر ہو چکی ہے۔

اسلام آباد میں یوم تشکر کی خصوصی تقریب: ’اگر ہم مستقل امن چاہتے ہیں تو مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا‘

Ssss

وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ اس دشمن کے 6 طیارے گرائے جو جنوبی ایشیا میں خود کو تھانے دار سمجھتا تھا، دشمن کے رافیل بھی مارے اور  ان کے ڈرونز بھی گرائے۔ اگر ہم مستقل امن چاہتے ہیں تو مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا۔ آج  اسلام آباد پاکستان مانیومنٹ پر یوم تشکر کی خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی وزیر اعظم شہباز شریف تھے۔ تقریب میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سمیت تینوں سروسز  چیفس بھی شریک ہوئے۔ تقریب میں نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق، وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ سمیت  دیگر وزرا بھی شریک تھے۔ تقریب میں معرکہ حق کے دوران اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرنے والے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ وزیراعظم  شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ وطن عزیز پر جانیں نچھاور کرنے والے شہدا کو سلام پیش کرتے ہیں۔ آج کا دن تشکر کا ہے، یہ دن صدیوں بعد کسی کسی کو ملتا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ دشمن نے ہماری مخلصانہ پیشکش کو حقارت سے ٹھکرایا، ہم نے پیشکش کی تھی کہ پہلگام واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں۔ 9 اور 10مئی کی رات کو افواج پاکستان کے سپہ سالاروں سے ملاقات ہوئی، اس ملاقات میں طے پایا کہ دشمن نے آخری حد بھی پار کرلی۔ شہباز شریف نے کہا کہ دشمن نے ہمارے شہریوں کو حملہ کرکے انہیں۔ شہید کردیا جس میں 6سالہ بچہ بھی شامل تھا، دشمن نے یہ پیغام دیا کہ ہم پاکستان کے اندر جاکر بھی حملہ کرسکتے ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا اس دشمن کے 6 طیارے گرائے جو جنوبی ایشیا میں خود کو تھانے دار سمجھتا تھا، دشمن کے رافیل بھی مارے اور  ان کے ڈرونز بھی گرائے۔ مزید پڑھیں: شہبازشریف کا سی ایم ایچ کا دورہ: ‘عوام، افواج پاکستان جیسی ثابت قدمی کی مثال کہیں نہیں ملتی’ شہباز شریف نے کہا کہ دشمن دھمکیاں دیتا رہا اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ جواب دیں گے، 9 اور 10 مئی کی رات آرمی چیف نے بتایا کہ دشمن نے میزائل داغے ہیں، انہوں  نے کہا مجھے اجازت دیں کہ ہم دشمن کو جواب دیں، دشمن کو ایسا تھپٹر ماریں گے کہ یاد کرے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کے جواب سے دشمن کو پھر سر چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج دنیا بھر میں یہ بات ہورہی ہے کہ پاکستان نے کامیابی کیسے حاصل کی، پاکستان کے 24کروڑ عوام کی دعائیں تھی جو اللہ تعالیٰ نے قبول کیں، آج ہم یوم تشکر اس طرح منارہے ہیں کہ پوری قوم کے سر سجدے میں ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس سفر کا آغاز کریں کہ جس کے لیے پاکستان وجود میں آیا تھا، لاکھوں شہیدوں کی روحیں پکار رہی ہیں کہ آؤ پاکستانیوں قائداعظم کا پاکستان بناؤ۔ وزیر  اعظم شہباز شریف نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج جو وحدت ہے اس کو اپنا سرمایہ بنادیں تو پاکستان اپنا مقام حاصل کرلے گا، اب ہمیں معاشی میدان میں 10 مئی کو معرض وجود میں لانا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کشیدہ صورتحال میں یکجہتی کے اظہار پر دوست ممالک کے شکرگزار ہیں، کشیدگی میں کمی کے لیے صدر ٹرمپ کے اہم کردار کا معترف ہوں، امن کے لیے  امریکی صدر ٹرمپ نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے 3 جنگیں لڑیں جس سے کچھ حاصل نہیں ہوا، ہمیں پرامن ہمسائے کی طرح بیٹھ کر مذاکرات کرنا ہوں گے، اگر ہم مستقل امن چاہتے ہیں تو مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کا بہت بڑا شکار ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 90 ہزار جانیں گنوائی ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں 150ارب ڈالر کانقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان بھر میں یوم تشکر منایا گیا پاکستان بھر میں ‘یوم تشکر’ ملی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے جس کا مقصد انڈین جارحیت کے خلاف آپریشن ‘بنیان مرصوص’ میں تاریخی کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کرنا اور افواجِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 31 جبکہ تمام صوبائی دارالحکومتوں میں 21، 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ یوم تشکر کی مناسبت سے مزار قائد اور مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریبات منعقد ہوئیں اور ملک بھر میں پرچم کشائی کی تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر شہدا کی یادگاروں پر پھول رکھے گئے اور ان کے لیے دعائیہ تقاریب منعقد کی گئیں۔ آپریشن کے دوران پاکستان پر قربان ہونے والے جوانوں کے لواحقین سے خصوصی ملاقاتوں کا اہتمام کیا گیا جبکہ نماز جمعہ میں پاکستان کی سلامتی و خوشحالی کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام بھی کیا گیا۔ یوم تشکر کی مرکزی تقریب پاکستان مونومنٹ اسلام آباد میں جاری ہے، جس کے مہمانِ خصوصی وزیراعظم شہباز شریف ہیں۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور مسلح افواج کے سربراہان بھی تقریب میں شریک ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان نے 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب انڈیا کی فوجی جارحیت کا بھرپور جواب دیتے ہوئے دشمن کے 5 جنگی طیارے مار گرائے۔ لازمی پڑھیں: بنگلہ دیش نے پاکستان کے لیے ویزا قوانین میں نرمی کر دی یوم تشکر کے موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ شہر کے داخلی و خارجی راستوں، اہم شاہراؤں اور کھلے مقامات پر سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کی جانب سے حساس مقامات پر سنائپرز تعینات کرنے، مساجد کے اطراف گشت بڑھانے اور گاڑیوں کی مکمل چیکنگ کی ہدایت جاری کی گئی ہیں۔ نماز جمعہ کے اجتماعات کی سیکیورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا ہے اور ڈولفن اسکواڈ، پی آر یو اور پٹرولنگ یونٹس مسلسل گشت پر مامور ہیں۔ یوم تشکر کے موقع پر گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے مزار اقبال پر حاضری دی، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر مولانا عبدالخبیر آزاد بھی موجود تھے۔ گورنر نے کہا کہ اللہ نے پاکستان