“امریکی اقدام قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے” چین کا امریکہ کے خلاف ڈبلیو ٹی او سے رجوع کرنے کا اعلان

 چین کی وزارتِ تجارت (ایم او سی) نے امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر اضافی 10 فیصد محصولات عائد کرنے کے فیصلے پر شدید عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین امریکہ کے اس اقدام کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ ترجمان چینی وزارت تجارت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کا یہ یکطرفہ اقدام ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ٹیرف کے اس نئے فیصلے سے دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تجارتی تعلقات مزید خراب ہوں گے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ چین امریکہ کے اس غلط اقدام کے خلاف ڈبلیو ٹی او میں شکایت درج کرائے گا اور اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری جوابی اقدامات کرے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ چین امریکی حکومت پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنے فینٹینائل اور دیگر مسائل کو معروضی اور منطقی انداز میں دیکھے اور دوسرے ممالک کو دباؤ میں لانے کے لیے ٹیرف کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بند کرے۔ یاد رہے کہ فینٹینل ایک مہلک مصنوعی افیون اور کوکین کے خواص پر مشتمل جزو ہے، جو ہیروئن سے 50 گنا زیادہ طاقتور ہے، جس کے امریکہ میں استعمال سے کئی افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ چینی وزارتِ تجارت نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو درست کرے اور چین کے ساتھ برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات کرے۔ ترجمان نے کہا کہ اضافی محصولات نہ صرف دو طرفہ تجارتی تعلقات کو نقصان پہنچائیں گے بلکہ عالمی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کریں گے۔ چین نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسداد منشیات کے شعبے میں حاصل ہونے والی مثبت پیش رفت کو برقرار رکھے اور دونوں ممالک کے تعلقات کو مستحکم، متوازن اور پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے تعمیری رویہ اپنائے۔ دوسری جانب واشنگٹن میں چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے امریکی فیصلے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ چین اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا۔ ترجمان چینی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ چین کا مؤقف ہمیشہ سے واضح اور مضبوط رہا ہے، یہ بات واضح رہے کہ تجارتی اور ٹیرف کی جنگوں میں کوئی بھی فاتح نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت چین سے درآمد کی جانے والی تمام اشیا پر 10 فیصد اضافی محصولات عائد کر دیے گئے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ نیا ٹیرف پہلے سے موجود محصولات کے اوپر بھی لاگو ہوگا۔ دوسری جانب ایگزیکٹو آرڈر کے تحت امریکہ نے میکسیکو اور کینیڈا سے درآمد کی جانے والی اشیا پر بھی 25 فیصد محصولات عائد کر دیے ہیں، جب کہ کینیڈا سے توانائی کی مصنوعات پر 10 فیصد اضافی ٹیکس لگایا گیا ہے۔

مہنگائی نے چینی کی ’مٹھاس‘ کم کردی، قیمت میں مسلسل اضافہ کیوں؟

حکومت کے کام میں تسلسل ہو نہ ہو مگر چینی کی قیمتیں آٹھ ہفتوں سے مسلسل بڑھ رہی ہیں، شہری پریشان ہیں کہ قیمتوں میں اضافے کا یہی حال رہا تو رمضان المبارک میں ہمارا کیا ’حال‘ ہوگا، جبکہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ’چینی کی قیمت میں اضافے کی خبریں غلط ہیں‘۔ کیا ایسا ہی ہے؟ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق نومبر 2024 سے جنوری 2025 تک پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، 7 نومبر 2024 کو چینی کی فی کلو قیمت 5 روپے بڑھ کر 119 روپے تک پہنچ گئی۔  10 دسمبر 2024 کوایکس مل قیمت 115 روپے سے بڑھ کر 125 روپے فی کلو ہو گئی۔ جس سے بڑے دکاندار چینی 130 سے 135 روپے فی کلو میں بیچنے لگے۔ جنوری 2025 میں چینی کی قیمت میں مزید اضافہ ہوا جس سے اوسط قیمت 145 روپے 50 پیسے فی کلو تک پہنچ گئی،لاہور میں ہفتہ کے روز قیمت پانچ روپے اضافہ ہوا۔ اس طرح پرچون بازار میں چینی 155 روپے کلو فروخت ہورہی ہے۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے کہاکہ رمضان میں چینی کی قیمتیں بڑھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے چینی کی قیمتوں کو قابو کرنے کے لیے اجلاس کیا۔ رانا تنویر نے کہا کہ ’چینی کی قیمتوں کو رمضان میں بڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، رمضان کے دوران صارفین کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے‘۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ چینی کی قیمتوں پر مشاورت کے لیے شوگر ملرز کو ایک ہفتے کا وقت دیا گیا، چینی کی قیمتوں کا حتمی اعلان جمعرات 6فروری کو کیا جائے گا۔ 6 فروری کو وہ اب کیا اعلان کرتے ہیں اس کا تو کچھ نہیں کہا جاسکتا مگرشہری کافی پریشان دکھائی دیے۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے لاہور کے ایک شہری ریاض احمد نے کہا کہ ’پہلے سبزی اور گوشت مہنگا ہوا، پھر آٹا، اب چینی بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر جا رہی ہے۔ آخر ہم جائیں تو کہاں جائیں؟‘ دکاندار اظہر کا کہنا ہے کہ ’صرف چند ہفتوں میں 18 روپے فی کلو کا اضافہ ہو چکا ہے، اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رمضان میں یہ قیمت 170 روپے فی کلو تک پہنچ سکتی ہے‘۔ لیکن یہ اضافہ ہو کیوں رہا ہے؟ کیا واقعی چینی کی قلت ہے، یا یہ ایک مصنوعی بحران ہے جو ہر سال کی طرح عوام پر مسلط کیا جا رہا ہے؟ چینی کی بڑھتی قیمت: اصل کہانی کیا ہے؟ پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کوئی نئی بات نہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بار یہ اضافہ اس وقت ہو رہا ہے جب ملک میں گنے کا کرشنگ سیزن جاری ہے، یعنی چینی کی پیداوار ہو رہی ہے۔ دسمبر میں چینی کا ایکس مل ریٹ 125 روپے فی کلو تھا، جو اب بڑھ کر 140 سے 143 روپے فی کلو تک پہنچ چکا ہے۔ ہول سیل مارکیٹ کے ایک ڈیلرنے بتایا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ فروری کے لیے فیوچر ٹریڈ میں چینی 145 روپے فی کلو پر بک رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آنے والے دنوں میں چینی مزید مہنگی ہوگی‘۔ پاکستان میں چینی کے بحران پر ماضی میں تحقیقات، اسکینڈلز اور رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں۔ 2020 میں شوگر کمیشن کی رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ شوگر مافیا کی ذخیرہ اندوزی اور حکومت کی ناقص پالیسی تھی۔ اقتصادیات کے پروفیسر اشفاق اللہ کا کہنا ہے کہ ’چینی کی برآمد کی اجازت اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں حکومتی نااہلی اس بحران کا سبب بن رہی ہے‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر سال گنے کی کرشنگ کے دوران قیمت کم ہوتی ہے، لیکن اگر قیمت بڑھ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یا تو حکومت چینی ایکسپورٹ کر رہی ہے یا پھر کچھ لوگ اسے ذخیرہ کر رہے ہیں لیکن حقیقت کیا ہے اللہ بہتر جانتا ہے۔ جب اس کے بارے شوگر ملز ایسوسی ایشن سے پوچھا گیا تو ان کے ترجمان وحید چوہدری نے کہا کہ’ قیمتوں میں اضافے کی وجہ گنے کی بڑھتی ہوئی لاگت ہے گنے کی قیمت میں اضافہ ہو گا تو چینی کی قیمت بھی بڑھے گی‘۔ ان کے مطابق سنٹرل پنجاب کی تمام ملز اس وقت خسارے میں ہیں جبکہ جنوبی پنجاب کی کچھ ملز منافع میں چل رہی ہیں، کسان مہنگا گنا بیچ رہے ہیں، اور بجلی و دیگر اخراجات بھی زیادہ ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے چینی کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے۔ چینی کی قیمت بڑھنے سے اس کی کھپت میں بھی کمی آگئی ہے،لاہور کی ایک نجی مارکیٹ میں موجود ایک دکاندار نے کہ ’پہلے 5 کلو چینی لینے والے لوگ اب 2 کلو میں گزارا کر رہے ہیں، کیونکہ قیمت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر حکومت نے کچھ نہ کیا تو رمضان میں صورتحال مزید خراب ہوگی اور غریب آدمی کہاں جائے گا۔ مارکیٹ میں موجود خریداروں کا کہنا ہے کہ چینی کی قیمت میں اضافہ دیگر اشیائے خورونوش پر بھی اثر ڈالے گا ہم تو پہلے ہی مر رہے ہیں مزید کیا کریں۔ حکومت ہمارے ساتھ ظلم بند کرے۔ بازار میں آئی ایک خاتون نے کہا کہ’ چینی صرف چائے میں نہیں، میٹھے کھانوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو رمضان میں چینی خریدنا مشکل ہو جائے گا اور کچھ نہیں تو رمضان کا ہی حیا کر لیں اور عوام کو ریلیف دیں‘۔ اقتصادیات کے پروفیسر اشفاق اللہ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو رمضان میں چینی 170 روپے فی کلو تک پہنچ سکتی ۔ اشفاق اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حکومت چینی کے ذخائر کو مانیٹر کرے اور برآمد پر کنٹرول کرے، تو قیمت کم ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر حکومت خاموش رہی تو رمضان میں بحران سنگین ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں چینی کا بحران پیدا ہو رہا ہے۔ ہر سال تقریباً یہی کہانی دہرائی جاتی ہے، لیکن عوام کے لیے کوئی مستقل حل نظر نہیں آتا۔ کیا چینی

“پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات پھر شروع ہوں گے” فواد چوہدری کی پیش گوئی

سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ابھی حکومت اور پاکستان تحریکِ انصاف کے درمیان مذاکرات کا پراسس ختم نہیں ہوا، مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔ نجی خبررساں ادارے ایکسپریس کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے موجودہ سیاسی صورتِ حال پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت ایک آل پارٹیز کانفرنس کی ضرورت ہے اور اگر عمران خان اس میں شرکت نہیں کرتے، تو پھر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور یہ بھی بے معنی ہو گی۔ سابق وفاقی وزیر نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ابھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچا، مذاکرات بہت جلد دوبارہ شروع ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب مذاکراتی کمیٹی کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں ہے تو وہ حکومت سے کیا مذاکرات کرے؟ یہ بات واضح رہے کہ فیصلے تو بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ہی کرنے ہیں، تو حکومت کو چاہیے کہ وہ مذاکراتی کمیٹی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کروائے، مگر ایسا تو کیا نہیں جا رہا۔ سابق وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ ایک ایسے غیر سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، جس میں سب شامل ہوں۔ مذاکرات میں اصل اسٹیک ہولڈرز ہی شامل نہیں ہے، دوسری طرف کوئی بھی جماعت اتنی طاقتور نہیں کہ دوسری جماعت کوایک حد سے زیادہ نیچا دکھا سکے۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے ان کی ملاقاتیں ماضی میں ہوئیں تھیں، ان کو دیکھ کر یہی کہوں گا کہ بانی پی ٹی آئی نے ڈیل نہیں کرنی۔ انھوں نے پختہ عزم کو ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے بانی پی ٹی آئی اپنی پوزیشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، وہ بالکل خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ اپنے بیان میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت سے بانی پی ٹی آئی مینج نہیں ہو رہے، کیسز بے شک چلتے رہیں لیکن انصاف کیا جائے۔ ٹاک شو میں ان کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ تو 2016 میں مسلم لیگ ن لے کر آئی تھی، جب کہ پی ٹی آئی تو پی ایم ڈی اے لے کر آئی تھی اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ اپنی مرضی سے کسی کو بھی اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا جائے، ان کو سمجھ ہی نہیں کہ میڈیا کیسے چلایا جا تا ہے۔ دوسری طرف اگر پی ٹی آئی گرینڈ اپوزیشن الائنس بنا لیتی ہے، تو حکومت کو خطرات ہیں، اس کی وجہ یہ ہے حکومت بہت  کمزور ہے اور ایک درمیانہ احتجاج حکومت کو غیر مستحکم کر دے گا۔ انھوں نے کہا کہ مذاکرات میں شاہ محمود قریشی جیسے لوگ مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں، مگر مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ شاہ محمود قریشی کس بنیاد پر جیل میں ہیں؟ مزید یہ کہ عدم سیاسی استحکام سے پاکستان کا نقصان ہوتا ہے اور پچھلے ایک عرصے سے ملک میں مستقل عدم استحکام ہے۔ معاشی استحکام کے لیے طویل مدتی پالیسی کی ضرورت ہے اور راتوں رات پاکستان کی معیشت نہیں سنبھلنے والی۔ یاد رہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان 28 جنوری کو مذاکراتی میٹنگ ہونی تھی، مگر پی ٹی آئی مذاکرات کرنے سے بھاگ گئی، جس کے بعد وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا تھا کہ ہم مذاکرات کرنا چاہتے ہیں مگر پی ٹی آئی بھاگ رہی ہے۔

حکومت بجلی سستی کرنے میں ناکام: کیا حکمران ’اعلان بغاوت‘ کے منتظر ہیں؟

حکومت پاکستان کے باربار اعلانات اور وعدوں کے مطابق ملک میں بجلی سستی نہیں ہورہی جبکہ دیہی علاقوں میں 18،18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔سیاسی جماعتیں وقتاً فوقتاً احتجاج کرتی نظرآتی ہیں، جمعہ کے روز جماعت اسلامی نے ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاج کیا۔ سردیوں کے موسم میں بجلی کا استعمال کم ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بجلی کا ماہانہ بل قدرے کم رہتا اور بلند آہنگ احتجاج کی وجہ نہیں بنتا۔ البتہ پاکستان کے بالائی علاقوں کے مکینوں کو شکوہ ہے کہ انہیں روزانہ 20 بیس گھنٹے بجلی میسر نہیں رہتی۔ وزارت توانائی کے ڈیٹا کے مطابق جنوری 2025 میں بجلی کی متوقع فی یونٹ قیمت 32 سے 64 روپے ہے۔ سب سے کم 32 روپے صفر سے 100 یونٹ اور زیادہ 64.06 روپے 700 سے زائد یونٹ خرچ کرنے والوں کے لیے ہے۔ سرکاری ڈیٹا کے مطابق بجلی کی فی یونٹ قیمت 50.17 روپے جب کہ ہر یونٹ پر تقریبا 14 روپے کا ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ بجلی کے بلوں پر نو مختلف اقسام کے ٹیکس اور چارجز عائد کیے جاتے ہیں۔ مہنگی بجلی پر ملک بھر میں احتجاج، غم وغصہ کے اظہار کا سلسلہ خودکشیوں اور قتل جیسے افسوسناک واقعات تک جا پہنچا تھا۔ اسی دوران جماعت اسلامی نے معاملے پر احتجاج کیا جس کا دائرہ بڑھا تو اسلام آباد، راولپنڈی میں 14 روزہ دھرنا دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو کی جانے والی کیپیسیٹی پیمنٹس پاکستانیوں کو سستی بجلی ملنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ جو بجلی بن ہی نہیں رہی اس کے لیے بھی اربوں روپے چند اداروں کو ادا کیے جا رہے ہیں۔ اس معاملے کو اب کئی ماہ گزر چکے ہیں۔ حکومت نے بیچ میں چند آئی پی پیز سے معاہدے ختم کرنے کا اعلان کیا تو بتایا کہ اس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کی بڑی بچت ہو گی۔ ان اقدامات کے باوجود مہنگی بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہیں آ سکی ہے۔ وفاقی وزیربرائے توانائی اویس خان لغاری بھی وقتاً فوقتاً پریس کانفرنسزمیں ’خؤاہش‘ ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کرتے پائے گئے ہیں کہ چند ہفتوں میں ‘خطے کی سستی ترین بجلی’ مہیا کریں گے۔ پاکستان میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بڑھتی قیمتیں عام صارف کو متاثر ہی نہیں کر رہیں بلکہ ملکی ترقی کا پہیہ بھی روکے ہوئے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ آٹھ برس میں بجلی کی قیمت میں 116 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صرف جولائی 2023 سے اگست 2024 کے درمیان بجلی کی قیمتوں میں 14 مرتبہ اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان میں بجلی کا سستا نہ ہونا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس میں مختلف عوامل کارفرما ہیں۔ پاکستان میں کل 45 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے  جبکہ  ہماری ضرورت صرف 30 ہزار میگاواٹ ہے ۔ حیرت انگیز طور پہ پاکستان صرف 22 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کر سکتا ہے  کیوں کہ اس سے زیادہ ہمارا ٹرانسمیشن نظام بجلی ترسیل نہیں کرتا۔ 1984میں پیدا ہونے والی کل بجلی کا 22.8فیصد مختلف وجوہات کی بنا پر ضائع ہو جاتا تھا۔ حیران کن طورپر پہ 40 سال بعد بھی ہمارا بجلی کا نظام درست نہ ہو سکا اور آج بھی 16فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔ اس کی وجوہات میں  سب سے پہلے حکومتوں کی ناکام پالیسیاں ہیں۔ 1994 میں پہلی مرتبہ حکومت کی جانب سے نجی شعبے کو بجلی بنانے اور حکومت کو فروحت کرنے کے لیے آمادہ کیا گیا جسے انڈیپنڈنٹ  پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کا نام دیا گیا۔ مزید پڑھیں: بجلی سستی کرنے کے حکومتی دعوے مگر پاکستانیوں کے بجلی کے بل کم کیوں نہیں ہو رہے؟ آئی پی پیز اور حکومت کے مابین معاہدے میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ چاہے آئی پی پیز کی بنائی ہوئی  بجلی استعمال ہو یا نہ ہو، حکومت مکمل قیمت ادا کرے گی۔ اس وقت ملک میں 90 نجی بجلی گھر کام کر رہے ہیں جو 24،958 میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں،جبکہ ”11 سے 14ہزار ”میگاواٹ بجلی آبی ذرائع سے بنتی ہے۔ تین ہزار میگاواٹ بجلی ایٹمی بجلی گھروں اور اتنی ہی شمسی توانائی کے بجلی گھروں میں بنتی ہے۔ ان میں سے تو کچھ ایسے آئی پی پیز بھی ہیں جن کو’مفت‘ میں منافع ادا کیا گیا، کچھ آئی پی پیز تو ایسے بھی ہیں جن کے مالک حکمران پارٹی کے سیاستدان بھی ہیں۔ پاکستانی یہ بجلی استعمال نہیں کرتے مگر وہ کیپسٹی رقوم کے ذریعے اس بجلی کی ادائیگی ضرور کرتے ہیں۔ فی کلو واٹ گھنٹہ بجلی کی قیمت 48 روپے میں سے 24 روپے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں آئی پی پیز کو جاتی ہے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگومیں سابق نگران مشیرِ خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا تھاکہ پاکستان میں بجلی کے سستا ہونے کےدور دور تک آثار نہیں۔ جس کی وجہ بجلی کا مہنگے داموں بننا ہے۔ ’حکومت کی طرف سے بجلی کے بلوں میں ابھی تک عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیاگیا۔آئی پی پیز سےمہنگے داموں پر بجلی بنانے کے معاہدے کیے گئے ہیں اور بےجا لگائے گئے ٹیکسز کی وجہ سے بجلی بلوں میں ریلیف نہیں دیا جاسکتا‘۔ بجلی کے معاملہ پر ہونے والے احتجاج کے بعد جب حکومت نے بجلی سستی کرنے پر اتفاق کیا تو فریقین کے درمیان باقاعدہ معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدہ کو طے کرنے والے افراد میں ایک جماعت اسلامی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری سید فراست علی شاہ بھی تھے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک عرصے سے ملکی حالات خراب ہیں جس کی وجہ حکومتی اداروں کا ’ڈنگ ٹپاؤ‘ پالیسی اپنانا ہے۔ مختصر مدتی پالیسی کو اپنانے سے مسائل کا مستقل حل نہیں نکلتا اور پھر کسی میں دو روپے کم کردیے تو کسی میں تین روپے بڑھا دیے جیسے ریلیف دیے جاتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کےگزشتہ اسلام آباد دھرنے میں حکومت نے مذاکرات کرکے کہ معاہدہ طے کیا تھا کہ آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کو ختم کرکے عوام کو ریلیف دیاجائے گا۔ اس بات کو تقریباً چھ ماہ گزرچکے ہیں مگر ابھی تک بجلی سستی نہیں ہوئی۔ اسی معاہدہ کے تحت

پیٹرول اور ڈیزل مزید مہنگا، حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر دیا

وزارتِ خزانہ کے جاری کردہ نوٹیفیکشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں ایک روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 257 روپے 13 پیسے فی لیٹر مقررہوگئی ہے۔ دوسری جانب ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 7 روپے فی لیٹر کا بڑا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد ڈیزل کی نئی قیمت  267 روپے 95 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ خیال رہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق یکم فروری کو رات 12 بجے سے ہوگا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل حکومت نے مسلسل دوسری بار 15 دسمبر کو پیٹرول 3 روپے 47 پیسے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 2 روپے 63 پیسے مہنگا کر دیا تھا، جس کی بعد پیٹرول کی نئی قیمت 256 روپے 13 پیسے فی لیٹر، جب کہ ڈیزل کی قیمت 260 روپے فی پیسے ہوگئی تھی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے یکم جنوری کو ایک بار پھر پیٹرول 56 پیسے فی لیٹر، جب کہ ڈیزل 2 روپے 96 پیسے  مہنگا کردیا گیا، جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 256 روپے 66 پیسے فی لیٹر اور ڈیزل کی نئی قیمت 258 روپے 34 پیسے ہوگئی۔ نجی خبر رساں ادارے ڈان کی 30 جنوری کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے سبب ہائی اسپیڈ ڈیزل، پیٹرول اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں 6 روپے فی لیٹر تک اضافے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ عالمی منڈی میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی اوسط قیمت میں 2.50 پیسے کا اضافہ ہوا، جب کہ پیٹرول کی قیمت میں تقریباً 50 سینٹ فی بیرل سے زائد تک کا اضافہ ہوا ہے۔  سرکاری دستاویزات کے مطابق اس وقت حکومت کی جانب سے پیٹرول اور ایچ ایس ڈی پر تقریباً 76 روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جارہاہے۔ حکومت پیٹرول اور ایچ ایس ڈی پر تقریباً 16 روپے فی لیٹر کسٹم ڈیوٹی بھی  وصول کرتی ہے۔ اس کے علاوہ آئل کمپنیوں اور ان کے ڈیلرز کی جانب سے دونوں مصنوعات پر تقریباً 17 روپے فی لیٹر ڈسٹری بیوشن اینڈ سیل مارجن وصول کیا جاتا ہے۔ اس کےساتھ لائٹ ڈیزل اور ہائی آکٹین بلینڈنگ اجزا پر 50 روپے فی لیٹر چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔

تجربہ کار کھلاڑیوں کی واپسی، پاکستان نے سہ فریقی سیریز اور چیمپیئنز ٹرافی کے لیے حتمی اسکواڈ کا اعلان کر دیا

سہ فریقی سیریز اور چیمپیئنز ٹرافی 2025  کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے حتمی اسکواڈ کا اعلان کر دیا ہے۔ پی سی بی کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق محمد رضوان چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت کریں گے جبکہ سلمان علی آغا نائب کپتان ہوں گے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے  چیمپئنز ٹرافی 2025 کے 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کر دیا ہے، اسکواڈ میں کئی بڑے تجربہ کار کھلاڑیوں کی واپسی ہوئی ہے، جن میں فخرزمان، فہیم اشرف، خوشدل شاہ اور سعود شکیل شامل ہیں۔ واضح رہے کہ جارح مزاج اوپنر بلے باز فخر زمان ورلڈ کپ 2023 کے بعد قومی ٹیم میں دوبارہ شامل ہوئے ہیں، ان کے علاوہ بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور کامران غلام سکواڈ کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ محمد حسنین، طیب طاہر، عثمان خان، حارث راؤف  اور ابرار احمد ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ دوسری جانب اوپننگ بلے باز صائم ایوب انجری کی وجہ سے جاری کردہ اسکواڈ کا حصہ نہیں ہیں اور وہ چیمپئنز ٹرافی میں شمولیت نہیں کر سکیں گے۔ ٹیم کے اسکواڈ کا اعلان کرتے ہوئےسلیکٹرز نے کہا ہے کہ فخر زمان کے اوپننگ پارٹنر سعود شکیل یا بابر اعظم ہوسکتے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا، جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ابھی اوپننگ پارٹنر کے حوالے سے تبادلہ خیال کرنا باقی ہے۔ سلیکٹر اسد شفیق نے صائم ایوب سے اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ  اندازہ ہے کہ صائم ایوب کے لیے چیمپئنز ٹرافی نہ کھیلنا کتنا تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پی سی بی کی جانب سے چند روز قبل آئی سی سی کو ابتدائی اسکواڈ کے نام بھیجے تھے، پی سی بی کی جانب سے جمع کروائے گئے ابتدائی اسکواڈ میں کپتان محمد رضوان، بابر اعظم، طیب طاہر، عرفان خان نیازی، سفیان مقیم، محمد حسنین، عبداللہ شفیق، نسیم شاہ، عثمان خان، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، ابرار احمد، کامران غلام سمیت سلمان علی آغا، امام الحق، فخر زمان، حسیب اللہ اور عباس آفریدی کا نام شامل تھے۔ خیال رہے کہ  چیمپیئنز ٹرافی 2025 کی مہمان نوازی پاکستان کو سونپی گئی ہے، جس کے لیے مقررہ اسٹیڈیمز کو عالمی معیار کے مطابق بنایا گیا ہے۔ چیمپیئنز ٹرافی 19 فروری سے 9 مارچ تک پاکستان میں کھیلی جائے گی، تاہم اس کے چند میچز دبئی میں کھیلے جائیں گے، کیونکہ انڈیا نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان میں میچز کھیلنے سے انکار کردیا تھا۔ انڈیا کے انکار کے بعد یہ طے پایا ہے کہ انڈیا کے تمام میچز نیوٹرل وینیو میں کھیلے جائیں گے، جس کے لیے دبئی کا انتخاب کیا گیا ہے، جب کہ دوسری تمام ٹیمیں پاکستان میں میچز کھیلیں گے۔ یاد رہے کہ یہ میچز نیشنل اسٹیڈیم کراچی، قذافی اسٹیڈیم لاہور اور راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے جائیں گے۔ قومی ٹیم 19 فروری کو نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں نیوزی لینڈ کے خلاف کھیل کر ایونٹ کا آغاز کرے گی۔

دس سال کے بعد ٹیکنالوجی دنیا کو کون سا نیا روپ دے گی؟

ہمیشہ سے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں پہ بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ پرنٹر سے کاغذ چھاپنے سے لے کر جدید ترین مصنوئی ذہانت سے اپنے پیچیدہ ترین سوالات کے جوابات حاصل کرنے تک، ٹیکنالوجی نے ہماری ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آنے والے 10 سالوں میں دنیا کی ٹیکنالوجی کیسی ہوگی؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے پہلے ہمیں اپنے ماضی کے 10 سالوں کو دیکھنا چاہیے۔ 2015 میں ہمارے پاس بہت کچھ ایسا نہیں تھا جو اس وقت ہماری بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ اسی طرح اگلے 10 سال کے بعد بھی ہماری زندگیاں نہایت تیزی سے بدل سکتی ہیں۔ کچھ برس پہلے مصنوئی ذہانت کے آنے سے ہماری زندگیوں میں صحیح معنوں میں انقلاب برپا ہو چکا ہے اور اگلے آنے والے وقت میں یہ مزید ہماری زندگیوں کا حصہ بنتا جائے گا۔ مصنوئی ذہانت سے بننے والی مشینیں جیسا کہ گاڑیاں، روبوٹس اورچھوٹے گیجٹس ہماری زندگیوں کا نہایت ضروری حصہ بن جائیں گی۔ ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی اورمصنوعی ذہانت کی ہمارے ساتھ جڑت مزید سے مزید ترہوتی جائے گی۔ یہ بات ممکن ہے کہ ہماری زندگی کے تقریباً تمام کام  ٹیکنالوجی اور مصنوئی ذہانت سے جڑ جائیں گے۔ ہم اپنی آواز استعمال کر کے اپنے تمام کام کروا سکیں گے۔ اس بات کی جھلک ہم اپنے موبائل فونز میں ، الیکسا اور سیری جیسے آپشنز کو استعمال کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے گھروں میں سمارٹ ڈیوائسز کی مدد سے گھر کے کام بھی کرواتے ہیں۔یوں یہ بات ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ 2035 تک ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی کا کردار اس حد تک بڑھ جائے گا کہ ہمیں آن لائن اور آف لائن کاموں میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اگر ہم صحت کے شعبے کی بات کریں تو پچھلے 10 سے 20 سالوں میں انسانوں کی اوسط عمر میں واضح فرق آیا ہے۔ جہاں پہلے انسانوں کی عمریں 40 یا 50 سال تک ہوا کرتی تھیں، وہیں اب 50 سے 60 سال تک پہنچ چکی ہیں۔ مزیدبراں پیدا ہونے کے بعد پہلے بچوں کی اموات معمول کی بات تھی، وہیں اب یہ بات کم ہی سننے کوملتی ہیں۔ موجودہ دور میں جنیٹک انجینئرنگ ، پرسنالایزڈ ادویات ، اور سٹیم سیلز  جیسے شعبوں میں تیزی ہمیں بتاتی ہیں کہ آنےوالے سالوں میں ایسی کئی بیماریاں ہوں گی جو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گی۔ کچھ ایسی بیماریاں جو موروثی طور پہ پائی جاتی ہیں،وہ بھی بچے کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کی جا سکیں گی۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ انسان کے بہت سے اندرونی و بیرونی اعضاءباآسانی تبدیل کیے جا سکیں گے۔ مصنوعی ذہانت کے انجنیئر، ڈین آلیسٹ کے مطابق 2035 تک جن مسائل سے ہم دو چار ہوں گے ان میں سب سے پہلے موسمیاتی تبدیلی ہوگی۔جس کی سب سے بڑی وجہ ہماری موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ نپٹ سکنے کی اہلیت ہے۔ یہ بات ممکن ہے کہ اگلے 10 سالوں میں بڑے پیمانے پہ ہجرت ہونا شروع ہوجائے۔ کیونکہ جو ممالک موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ اثر انداز ہوئے ہیں، وہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کریں گے۔ جس کی وجہ سے سے ترقی یافتہ ممالک میں وسائل تیزی سے کمی کی طرف جا سکتے ہیں۔ اگلے 10 برس بعد موسمیاتی تبدیلی ہماری زندگیوں پر نہایت خطرناک اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ تاہم اصل صورتِ حال 2035 کے آنے سے ہی واضح ہو گی لیکن ان تمام باتوں کے وقوع پذیر ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پروفیسر کامران علی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال سے بعض روایتی ملازمتیں ختم ہو سکتی ہیں خاص طور پر وہ جو معمول کے کاموں پر مبنی ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ڈیٹا سائنس، اے آئی ماڈلنگ اور ٹیکنالوجی مینجمنٹ جیسے شعبوں میں نئی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔” دوسری جانب اس حوالے سے آئی ٹی سپیشلسٹ سارہ ملک نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “اے آئی کی ترقی سے انسانی ملازمتوں پر اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم اس تبدیلی کو مثبت انداز میں لیں۔ ملازمین کو نئی مہارتیں سیکھنے اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ مستقبل کی ملازمتوں کے لیے تیار رہ سکیں۔” پروفیسر کامران علی نے اگلے 10 سالوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “2035 تک ٹیکنالوجی اور انسان کے تعلقات میں مزید گہرائی متوقع ہے۔ ہم ذہین ذاتی معاونین، صحت کی نگرانی کے لیے پہننے والے آلات اور ذہنی کنٹرول والے پروستھیٹکس جیسے انقلابی اقدامات دیکھ سکتے ہیں جو انسانی زندگی کو بہتر بنائیں گی۔” دوسری جانب سارہ ملک کا خیال ہے کہ “مستقبل میں انسان اور ٹیکنالوجی کا انضمام مزید مضبوط ہوگا۔ مصنوعی ذہانت اور بائیوٹیکنالوجی کے امتزاج سے ہم انسانی صلاحیتوں میں اضافہ اور زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بہتری کی توقع کر سکتے ہیں۔” پروفیسر کامران علی نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “مصنوعی ذہانت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنانے، کاربن کے اخراج کی نگرانی، اور موسمیاتی پیش گوئیوں میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ ماحولیاتی پالیسیوں کی تشکیل میں بھی معاون ہے۔” اس حوالے سے سارہ ملک کا ماننا ہے کہ “اے آئی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا تجزیہ اور ان کے حل تلاش کر سکتے ہیں۔ تاہم ان ٹیکنالوجیز کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے تاکہ ان کے منفی ماحولیاتی اثرات کو کم کیا جا سکے۔” صحت کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کے فروغ پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر کامران نے کہا کہ “صحت کے شعبے میں اے آئی کی ترقی سے بیماریوں کی تشخیص اور علاج میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ جینیاتی تجزیہ اور ذاتی نوعیت کے علاج کے ذریعے ہم مستقبل میں کئی بیماریوں کے مؤثر علاج اور ممکنہ طور پر ان کے خاتمے

“28 جنوری کو میٹنگ ہوئی مگر پی ٹی آئی مذاکرات سے بھاگ گئی” شہباز شریف

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے تحریک انصاف کو ایک بار پھر مذاکرات  کی دعوت دیتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے بجائے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش کردی۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو مذاکرات کے لیے ساز گار ماحول فراہم کیا گیا ہے، لیکن پی ٹی آئی مذاکرات سے بھاگ رہی ہے۔ نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی آفر کو شفاف انداز سے قبول کیا ہے۔ پی ٹی آئی کی ڈیمانڈ ہے کہ انھیں لکھ کردیا جائے، ہم نے ان کی یہ ڈیمانڈ قبول کر لی ہے اور انھیں کہا کہ لکھ کر دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے ہم نے ایک کمیٹی بنائی، اسپیکر کے توسط سے یہ مذاکرات شروع بھی ہوئے۔ رواں ماہ کی 28 تاریخ کو میٹنگ ہونی تھی اور اب پی ٹی آئی مذاکرات سے بھاگ گئی ہے۔ پی ٹی آئی کمیٹی نے ڈیمانڈ کی کہ انہیں لکھ کر دیا جائے، ہماری کمیٹی نے کہا ہم آپ کو لکھ کر جواب دیں گے۔ ہم نے پی ٹی آئی کو مذاکرات کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا، یہ اپنے گریبان میں بھی جھانکیں، انہوں نے 2018 میں ہاؤس کمیٹی بنائی تھی، کمیشن نہیں بنایا تھا۔ شہباز شریف نے پی ٹی آئی کو کمیشن کی بجائے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئیں بیٹھیں، ہم ہاؤس کمیٹی بنانے کو تیار ہیں، ہم مذاکرات کے لیے صدق دل سے تیار ہیں۔ ہم نے بہت نیک نیتی سے پی ٹی آئی سے مذاکرات کیےہیں، ہماری کمیٹی نے کہا کہ اپنے تحریری مطالبات دیں۔ وزیراعظم پاکستان نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آپ پوری طرح حقائق کو سامنے لائیں۔ 2018 میں ہم نے ہاؤس کمیٹی قبول کی آپ بھی آئیں قبول کریں۔  2018 اور 2024 کے انتخابات پر کمیٹی بنے گی، 26 نومبر کے دھرنے کی بات کی جائے گی، اس کے ساتھ 2014 کے دھرنے کی بھی ہاؤس کمیٹی احاطہ کرے گی۔ وزیرِاعظم پاکستان نے کہا کہ نیک نیتی کے ساتھ ڈائیلاگ آگے بڑھانے کے لیےتیار ہوں، انتشار کے ہاتھوں ملک کا پہلے بھی بہت نقصا ن ہوچکا ہے، یہ ملک مزید نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وزیرِاعظمِ پاکستان نے کہا کہ افواج پاکستان کے جوانوں نے خوارج کا مقابلہ کیا، پاک فوج کے جوانوں نے خارجی دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا اور جام شہادت نوش کیا۔  افواجِ پاکستان،رینجرز ،پولیس اور سکیورٹی اداروں کی ملک کیلئے لازوال قربانیوں کی ایک داستان ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر روز خوارج ،دہشتگردوں کا مقابلہ کیا جارہا ہے۔ میں ایک شہید کے والد کو خود ملا، ان کے حوصلے بہت بلند تھے۔ اس کے ساتھ ہمیں ہر روز بہادری اور دلیری کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں ایک فیصد کمی کا اعلان کیاہے، میرے حساب سے پالیسی ریٹ میں کم از کم 2فیصد کمی ہونی چاہیے تھی، پالیسی ریٹ میں کمی سے صنعت اور کاروبار کو فائدہ ہوگا، ہم دن رات کاوشیں کررہے ہیں، ترقی و خوشحالی کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔ شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کے دھندے میں سیکڑوں پاکستانیوں کی جانیں گئیں، کالے دھندے کے نتیجے میں پاکستان کے چہرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ ہم نے کل انسانی سمگلنگ کے معاملے پر ایک اور میٹنگ کی تھی۔ انسان اسمگلرز نے پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جب تک مکمل تحقیقات نہیں ہوتیں چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ واضح رہےکہ پی ٹی آئی نے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے کمیشن بنانے کا مطالبہ کررکھا ہے جس کے باعث پی ٹی آئی نے مذاکراتی کمیٹی کےا جلاس میں بھی شرکت نہیں کی۔

حماس نے اسرائیلی اربیل یہود،گڑی موسس اور برگر کے بدلے 110 قیدی چھڑالیے

فلسطینی عسکری گروہوں  نے جمعرات کے روز 110فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں 3 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا۔ ایک اسرائیلی اہلکار، اگام برگر جس نے زیتون کے جیسا سبز رنگ والا یونیفارم پہنا ہوا تھا اسے شمالی غزہ جابالیہ  میں ریڈ کراس کے حوالے کرنے سے پہلے تباہ شدہ علاقے میں سے گزارا گیا۔ گڑی موسیس اور اربل یاہود جو بالترتیب 80 اور 29 سال کے ہیں دونوں کبوتر نیراوزکے مقام پر حماس کی جانب سے کیے گئے حملے میں 7 اکتوبر 2023 کو اغوا ہوئے۔ انہوں نے رہا ہونے کے بعدمصلح گروہوں کی موجودگی میں ایک دوسرے کو گلےسے لگایا، جس کی ویڈیو حماس دوست اسلامک جہاد نے جاری کی۔ فلسطینی قیدی جن میں 30 چھوٹے اور فلسطینی گروہوں کے کچھ ممبرز شامل ہیں اسرائیل میں بمباری کے حملوں میں ملوث پائے گئے تھے، دن کے اختتام میں مغربی کنارے یا غزہ سے حاصل کر لیے جائیں گے ۔ 5 تھائی لینڈ کے شہری بھی ان اغوا ہونے والے لوگوں میں شامل ہیں جو غزہ میں عسکری گروہوں نےایک اور معاہدے میں آزاد کیے ہیں۔ باغیوں کو اسرائیل میں تین مختلف مقامات پر لایا جانا تھا گوکہ ڈاکٹرز کی وجہ سے ان کی جگہ تبدیل بھی ہو سکتی تھی۔ تل ابیب کا مرکزی چوک جو اب یرغما لیوں کے چوک کے نام سے جانا جاتا ہے، میں اسرائیلی جمع ہوئے۔ یہ جگہ اب یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے  استعمال کی جاتی ہے۔ یہاں لوگ جمع ہوتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور خوشی کے آنسو بہاتے ہیں۔ حماس کے اسرائیل حملے میں تقریباً 12 سو لوگ مارے گئے اور 250 لوگ اغوا کر لیے گئے۔یہ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں پر سب سے شدید حملہ تھا۔ اسرائیلی عسکری جواب میں 47 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے اور 2.2ملین لوگ بے گھر ہوئے۔ جب کہ ان میں سے آدھے غزہ میں اسرائیلی حملوں میں زندہ یا مردہ پائے گئے۔ غزہ کے سینکڑوں اور ہزاروں لوگ جو اس تنازع میں اغوا ہوئے تھے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ جب اپنے گھروں کو دیکھتے ہیں تو وہ رہنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق ابھی بھی 89 لوگ غزہ میں ہیں جن میں 30 کی موت ہو چکی ہے۔

“رچرڈ گرینل کو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے گمراہ کیا گیا” جینٹری بیچ کا عمران خان سے متعلق ٹوئٹس پر مؤقف

پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی سرمایہ کاروں کے وفد کے سربراہ اور ٹرمپ خاندان کے قریبی بزنس پارٹنر جینٹری بیچ نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ سابق امریکی عہدیدار رچرڈ گرینل کو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے گمراہ کیا گیا تھا، جس کے باعث انہوں نے پاکستان سے متعلق جو مؤقف اختیار کیا، وہ ان کی اپنی محدود فہم پر مبنی تھا۔ اب پاکستان کے بارے میں رچرڈ گرینل میں پہلے سے زیادہ بہتر تفہیم پائی جاتی ہے اور وہ ملک کے حقیقی حالات سے آگاہ ہو کر ایک زیادہ متوازن رائے قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق صحافیوں سے گفتگو میں جینٹری بیچ کا کہناتھاکہ پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں، صدر ٹرمپ کی سربراہی میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے، پاکستان اور امریکا کے تعلقات دہائیوں پرمحیط ہیں، پاکستان سے متعلق غلط فہمیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ خاندان کے قریبی بزنس پارٹنر نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ 4 سال میں جو کچھ پاکستان کےساتھ کیا وہ مناسب نہیں تھا، دنیا میں امن اور ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے۔امریکا پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتاہے، امریکی سرمایہ کار مصنوعی ذہانت، ریئل اسٹیٹ اور معدنیات میں سرمایہ کاری کے خواہشمندہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ پاکستان کی موجودہ قیادت نئی امریکی قیادت کے ساتھ ہم آہنگ ہے، امریکی سرمایہ کاروں کا وفد مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کیلئے پاکستان آیا ہے، صدر ٹرمپ اقتصادی سفارت کاری پر یقین رکھتے ہیں۔ رچرڈ گرینل کے حالیہ کیے گئے ٹوئٹس کے متعلق جینٹری بیچ کا کہنا تھاکہ ماضی میں امریکی عوام کوپاکستان کی حقیقی تصویرنہیں دکھائی گئی،  رچرڈ گرینل کوڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے گمراہ کیا گیا اور رچرڈ گرینل نے جو بات کی وہ پاکستان سے متعلق اپنی انڈراسٹینڈنگ کے مطابق کہی۔رچرڈ گرینل کی اب پاکستان کے بارے میں پہلے سے بہتر انڈراسٹینڈنگ ہے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ  رچرڈ گرینل نے انھیں خود بتایا کہ اسے ڈیپ فیک اے آئی والی پرزینٹیشنز دی گئی تھیں۔ مزید یہ کہ وہ یہاں سابق وزیراعظم کے معاملے پر بات کرنے کیلئے نہیں آئےاور ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رچرڈگرینل کوپاکستان کی موجودہ صورتحال کاآج زیادہ بہترادراک ہوگیا ہوگا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانیں دیں، امریکا دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتاہے اور امریکا پاکستان کو ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر رچرڈ گرینل نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور کئی ٹوئٹس کیے تھے۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے انھوں نے کہا  کہ امریکا چاہتا ہے زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کے پاس اپنا گھر ہو۔وہ ایسی تعمیراتی ٹیکنالوجی پاکستان لانا چاہتے ہیں جس سے ایک ماہ میں 30 منزلہ عمارت کا ڈھانچا کھڑا ہوجاتا ہے۔ جینٹری بیچ نے مزید کہا کہ ماضی میں آئل اورگیس سیکٹر میں پاکستان میں کم توجہ دی گئی۔ واضح  رہے کہ امریکا کا اعلیٰ سطحی سرمایہ کاری وفد گزشتہ روز 2 روزہ اہم دورے پر پاکستان پہنچا تھا۔ وفد کی قیادت ٹیکساس ہیج فنڈ کے مینیجر اور ٹرمپ خاندان کے قریبی بزنس پارٹنر جینٹری بیچ کر رہے ہیں۔ وفد کے دورہ پاکستان پر پاکستان اور امریکا کے درمیان سرمایہ کاری کے کئی معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔مزید یہ کہ جینٹری بیچ ٹرمپ خاندان کے انتہائی قریبی ساتھی اور  صدر ٹرمپ کے گزشتہ انتخابی مقابلوں میں پیش پیش رہے ہیں اورنئی امریکی حکومت آنے کے بعد کسی بھی امریکی وفد کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔