“ہماری رشوت ستانی سے جان چھڑائیں نہیں تو ہم لاہور شفٹ ہو جاتے ہیں” چینی باشندے سندھ ہائیکورٹ پہنچ گئے

پولیس کی جانب سے ہراسمنٹ پر چینی باشندوں نے سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کردی چینی باشندوں کے وکیل پیر محمد ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ کراچی اور سندھ میں چینی باشندوں نے بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، ان کے یہاں کاروبار موجود ہیں کراچی ایئرپورٹ پر انہیں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور حکام سیکورٹی وسائل نہ ہونا اس کی وجہ بتاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ شہر میں ان کی آمد و رفت بھی آسانی سے نہیں ہوتی سیکورٹی خدشات کو وجہ بنا کر اس میں تاخیر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی کاروباری سرگرمیاں شدید متاثر ہورہی ہیں۔ پولیس چینی باشندوں کی رہائش گاہ اور کمروں میں آزادانہ داخل ہو جاتی ہے جس سے ان کے نجی معاملات متاثر ہورہے ہیں۔ ایڈوکیٹ پیر محمد نے مزید بتایا کہ چینی باشندوں کے ساتھ انتظامیہ کا ناروا سلوک بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کے سبب ملک کا تاثر بھی خراب ہوا ہے، عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کرکے ان سے جواب طلب کرلیا ہے۔ چینی باشندوں کی سندھ ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ سندھ پولیس ان کے ساتھ غیر قانونی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، درخواستوں گزاروں نے مؤقف اپنایا کہ ہم قانون کی پاسداری کرنے والے چینی شہری ہیں اور ہم اپنے درج شدہ پتوں پر ہی مقیم ہیں۔ پاکستان اور چین کے تاریخی و مضبوط دوطرفہ تعلقات اور معاملے کی حساسیت کے پیش نظر ہماری گذارش ہے کہ اس درخواست پر سماعت ان کیمرا کی جائے۔ درخواست گزاروں کا مزید کہنا ہے کہ ہم پاکستانی حکومت کی دعوت اور یقین دہانی پر ہی یہاں آئے ہیں، چیف آف آرمی سٹاف اور سابق وزیراعظم نے مکمل تحفظ اور معاون ماحول مہیا کرنے کے وعدے بھی کیے تھے، وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ دورے کے دوران بھی ان تمام چیزوں کا ذکر کیا تھا۔ ہم نے اور ہزاروں دیگر چینی باشندے ان یقین دہانیوں پر ہی پاکستان آئے اور تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے مختلف منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی۔ درخواست کا مؤقف ہے کہ عالمی اصولوں اور حکومت پاکستان کے وعدوں کے مطابق اب ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان میں مقیم تمام غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرے، پاکستانی معیشت میں اہم حصہ ڈالنے والے چینی باشندوں کو تحفظ فراہم کیا جائے تا کہ وہ آزادانہ رہ سکیں اور کام کر سکیں۔ گزشتہ 6 سے 7 ماہ کے دوران سندھ پولیس نے مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے، سندھ اور خاص کر کراچی میں نقل و حمل کو بلاجواز روکا جا رہا ہے، سیکیورٹی مسائل کا بحانہ بنا کر گھروں میں غیر ضروری قید کر رکھا ہے اور رشوت کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف ہمیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے بلکہ اس سے ہماری کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ درخواست گزاروں نے استدعا کی کہ ہراسگی، غیر قانونی حراست، نقل و حمل پر پابندیاں عالمی تسلیم شدہ حقوق کی خلاف ورزی ہے، آئین پاکستان بھی ہمیں عزت نفس، آزادانہ نقل و حمل اور کاروباری سرگرمیاں انجام دینے کا حق دیتا ہے، درخواست گزاروں سمیت دیگر چینی باشندے تحفظ اور منصفانہ سلوک کے حقدار ہیں۔ اگر غیرملکی باشندوں کے لیے کسی قسم کا سیکیورٹی خدشہ ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مناسب اقدامات کرے، چینی باشندوں کی نقل و حرکت اور گھروں تک محدود رکھنے کی بجائے ضروری سیکیورٹی فراہم کی جائے تا کہ وہ آزادانہ نقل و حمل جاری رکھتے ہوئے کاروباری سرگرمیاں سر انجام دے سکیں۔ درخواست گزاروں کا مزید کہنا ہے کہ سندھ پولیس نے ان کو نقل و حمل کی آزادی سے محروم کردیا ہے، اب وہ نہ سفر کر سکتے ہیں، نہ عوامی مقامات پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ان پابندیوں نے ان کے کاروبار، سرمایہ کاری اور معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے، اس سے پاکستان میں ان کی سرمایہ کاری کا مقصد ختم ہو کر ایک ایسا ماحول بن چکا ہے جو حکومتی وعدوں کے برعکس ہے۔ ہم کرائے کے گھروں میں مقیم ہیں، گاڑیوں کے کرائے، ملازمین کی تنخواہیں، یوٹیلیٹی بلز سمیت روزمرہ زندگی کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔ اوپر سے گزشتہ ایک ماہ سے سندھ پولیس غیر قانونی طور پر انہیں نظر بند کیے ہوئے ہے۔ اگر پولیس کو 30 سے 50 ہزار روپے رشوت دے دی جائے تو وہ ہمیں نقل و حمل کی اجازت دیتی ہے۔ حال ہی میں پولیس نے سیکیورٹی مسائل کی آڑ میں 7 چینی صنعتی یونٹس کو بغیر کسی پیشگی نوٹس کے سیل کیا ہے۔ اب چینی شہری لاہور میں سرمایہ کاری یا پھر ملک چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ غیر قانونی اقدامات کو فوری طور پر روکا جائے، ملوث افسران کے خلاف کارروائی کی جائے، اور چینی شہریوں کو محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔ واضح رہے کہ ایسے اقدامات پاکستان کی عالمی ساکھ اور غیر ملکی سرمایہ کاری پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ ان سے پاک-چین دوطرفہ تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
‘پاکستان میں میڈیا اسٹوڈیو چیزیں مانگ کر بنائے جاتے ہیں’

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب وفاقی حکومت قومی اسمبلی میں ’پیکا ایکٹ‘ میں ترامیم کا بل پیش کرچکی ہے، خواجہ محمد آصف کہا کہنا ہے کہ پاکستان میں میڈیا اسٹودیوز آگے پیچھے سے چیزیں مانگ کر بنائے جاتے ہیں۔ یاد رہے یہ بیان تب دیا گیا جب ایک طرف پاکستان میں پیکا ایکٹ میں ترمیم ہوئی ہے اور ماہرین سمیت سوشل میڈیا صارفین بھی اس ایکٹ پر سوالات اٹھارہے ہیں۔ دوسری جانب سابق وزیر اعظم عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ پاکستان میں شعبہِ صحافت پہلے ہی لاتعداد پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ مگر شاید حکومت اس شعبے کو سانسیں لیتا دیکھنا نہیں چاہتی۔ ہیومن رائیٹس کمیشن نے 2022 سے 2024 تک آزادیِ اظہارِ رائے کی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ان سالوں میں پاکستان میں صحافت پر بہت سی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ہیومن رائیٹس کمیشن کے مطابق گزشتہ سال ایک صحافی کا قتل ہوا جب کہ متعدد صحافی لا پتہ ہوئے جن میں سے کچھ ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ ریاست نے مین اسٹریم میڈیا پر پابندیاں لگا کر تقریباً خاموش کروا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام اور میڈیا مالکان تیزی سے ڈیجیٹل میڈیا کی جانب آرہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اظہار رائے کی آزادی کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ حکومتی اراکین اسمبلیوں میں کالے قانون بنا رہے ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کہا ہے کہ “میڈیا مالکان کو آزادی صحافت کا خیال رکھنا چاہیئے، سیاستدان تو میڈیا کا آسان ہدف ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا “صحافت کی آزادی بہت ضروری ہے، ہم سب کے لیے ایمانداری بہت ضروری ہے، صحافتی آزادی کی جنگ میں آپ کے ساتھ ہوں”۔ وزیردفاع نے مزید کہا کہ “سیاست کے ساتھ صحافت میں دوغلا پن چلتا رہا تو یہ سب نہیں چلے گا، صحافتی اداروں کے مالکان کو دوہرا معیار ختم کرنا ہوگا۔ میں ان سب سے کہوں گا کہ اپنے گریبان مین بھی جھانکیں ۔ اداروں میں دوغلا پن کسی صورت نہیں ہونا چاہیئے”۔ نیوزکانفرنس کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ” آزادی صحافت کا مطلب ایک ستون کو مضبوط کرنا ہے، پی ٹی آئی دور میں ہم سب جیل میں تھے۔ پی ٹی آئی دورمیں لوگ ٹی وی پر بیٹھ کرجھوٹے الزامات لگاتے تھے”۔ رہنما ن لیگ کا مزید کہنا تھا کہ “القادریونیورسٹی، یونیورسٹی نہیں، القادرٹرسٹ کے نام 438 ایکڑ زمین ہے، القادر ٹرسٹ پربھی مکمل تحقیقات درکار ہیں، میڈیا کو کہہ رہا ہوں کہ دوہرا معیارختم کرے”۔
ٹرمپ کو سعودی عرب سے ‘ڈو مور’ کی امید، سرمایہ کاری پیکج ایک ٹریلین ڈالر کرنے کا مطالبہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری پیکج بڑھا کر 600 ارب ڈالر کرنے کی خبر سامنے آنے کے ایک روز بعد ہی اسے مزید بڑھا کر ایک ٹریلین ڈالر کرنے کے مطالبہ نما توقع کا اظہار کیا ہے۔ ڈیووس میں جاری عالمی اقتصادی فورم سے ویڈیو لنک کے ذریعے کیے گئے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے کہوں گا کہ وہ امریکا میں سرمایہ کاری پیکج کو ایک ٹریلین تک بڑھائیں۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے تعلقات ایسے رہے ہیں کہ وہ اس مطالبے کو ضرور مانیں گے۔ خبر رساں ادارے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک سے توقع کرتے ہیں کہ وہ تیل کی قیمتیں کم کریں گے۔ یاد رہے کہ ایک روز قبل رپورٹ سامنے آئی تھی کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے صدر منتخب ہونے کے بعد مبارکباد کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطہ کیا جس میں امریکا میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کو بڑھا کر 600 ارب ڈالر کرنے کا کہا تھا۔ یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی حلف کے پہلے روز جاری کردہ اپنے ایگزیکٹو آرڈرز کی وجہ سے مشکل میں ہیں۔ جمعرات کو ایک امریکی عدالت نے ان کے اس حکم نامے کو معطل کر دیا ہے جس میں نئے صدر نے امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کی شہریت کا سلسلہ منقطع کرنے کی ہدایت کی تھی۔ خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی اور بھارتی سفارتکار فروری میں انڈین وزیراعظم نریندرا مودی اور ٹرمپ کی ملاقات کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ نیو جرسی میں انڈین خواتین بچوں کی قبل از وقت ولادت کے لیے طبی مراکز میں خود کو رجسٹرڈ کروا رہی ہیں تاکہ بچوں کی شہریت منسوخی کے اطلاق سے قبل ولادت کے عمل سے گزر سکیں۔ امریکا کی امیگریشن سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے یہ تبدیلی غیرقانونی طور پر امریکا میں مقیم انڈینز کو بھی متاثر کریے گی۔
جھوٹ پھیلانے پر 3 برس قید 20 لاکھ جرمانہ، پاکستان کے الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں نئی ترامیم کیا؟

پاکستان میں انٹرنیٹ سے متعلق قوانین میں تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت نے الیکٹرانک کرائم سے متعلق پیکا ایکٹ میں مزید ترامیم کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق پیکا (دی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ) میں ترامیم کر کے ‘ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی’ قائم کی جائے گی جو سوشل میڈیا کے مواد کو ’ریگولیٹ‘ کرنے کا اختیار رکھتی اور شکایات پر کسی بھی قسم کے مواد کو حذف یا بلاک کر سکے گی۔ مسودہ کی کاپی اور حکومتی ذرائع سے سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق ‘جعلی خبروں اور سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی پر مبنی نکات کو جلد منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔’ مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈرپا) نامی اتھارٹی قائم کر کے اسے ممنوعہ مواد شیئر کرنے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار دینا تجویز کیا گیا ہے۔ اتھارٹی وفاقی اور صوبائی حکومت کو ’ڈیجیٹل اخلاقیات سمیت متعلقہ شعبوں’ میں تجاویز دے گی۔ تعلیم وتحقیق سے متعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرے گی، صارفین کے آن لائن تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ نئے قانون کے تحت پاکستان نے ایک مرتبہ پھر عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ملک میں موجودگی یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔ مسودہ کے مطابق نئی اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے ٹائم فریم دے گی اور انہیں پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔ مسودے کے مطابق سوشل میڈیا کی تعریف تبدیل کی جائے گی۔ نئی تعریف کے مطابق سوشل پلیٹ فارمز تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز، ان سے متعلق سروسز فراہم کرنے والے افراد اور ایپس بھی ‘سوشل میڈیا’ کہلائیں گی۔ سوشل میڈیا کی نئی تعریف کے مطابق ’ویب سائٹ‘، ’ایپلی کیشن‘ یا ’مواصلاتی چینل‘ بھی اسی ڈومین میں تصور کیے جائیں گے۔ ڈرپا کیسے کام کرے گی؟ سوشل میڈیا ریگولیٹر کے طور پر بنائی جانے والی مجوزہ اتھارٹی ایک چیئرپرسن سمیت دیگر چھ ارکان پر مشتمل ہوگی۔ وفاقی حکومت چیئرپرسن اور تین ارکان کو تین برس کے لیے مقرر کرے گی جب کہ سیکرٹری اطلاعات، سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی آئی بربنائے عہدہ اتھارٹی کے ارکان ہوں گے۔ اتھارٹی کے فیصلے اکثریتی ارکان کی رضامندی سے ہوں گے۔ سربراہ کو اختیار ہو گا کہ وہ کسی بھی غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک کرنے کی ہدایت دے سکے، ایسے احکامات کی اتھارٹی کو 48 گھنٹوں میں ’توثیق‘ کرنا ہوگی۔ نئی اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ’رجسٹرڈ‘ اور ان کے لیے شرائط وضع کرسکے گی۔ اسے اختیار ہوگا کہ حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک کرنے یا ہٹانے کا حکم دے سکے۔ نئے قوانین میں خاص کیا؟ موجودہ قوانین کے تحت صرف وہ کنٹینٹ ‘غیر قانونی مواد’ کہلاتا ہے جو ‘اسلام مخالف، پاکستان کی سلامتی یا دفاع کے خلاف’ ہو۔ پیکا ایکٹ کے سیکشن 37 میں ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کے تحت 16 مختلف اقسام کے مواد کو اسی ضمن میں شمار کیا جائے گا۔ ‘امن عامہ سے متعلق، غیرشائستگی، غیراخلاقی، توہین عدالت یا کسی جرم کے لیے اکسانے والا، فحش، گستاخانہ، تشدد، فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا’ بھی ‘غیرقانونی مواد’ کہلائے گا۔ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی، جعلی یا جھوٹی رپورٹس، آئینی اداروں اور ان کے افسران بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ اور ہتک عزت کو بھی ‘غیرقانونی مواد’ شمار کیا جائے گا۔ انٹرنیٹ سے متعلق اعدادوشمار کے پلیٹ فارم اسٹیٹسٹا کے مطابق جنوری 2025 تک پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 11 کروڑ 10 لاکھ ہے۔ یہ تعداد ملکی آبادی کا تقریبا نصف بنتی ہے۔ گزشتہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 4 کروڑ ہے۔
بلڈی سنڈے: جب روسی انقلاب کی ایک چنگاری نے شاہی اقتدارکا خاتمہ کیا

1905میں مزدوروں نےروسی بادشاہ سے ‘سینٹ پیٹرز برگ’ شہر میں انصاف اور تحفظ کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں سیاسی سرگرمیوں کی شروعات ہوئی، 22 جنوری 1905 کے روز پُرامن مظاہرہ کرنے والے مزدوروں پر شاہی گارڈز نے فائرنگ کی جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور یوں اس دن کو ‘بلڈی سنڈے’ قرار دیا گیا۔ جب روس جنگوں اور داخلی انتشار کے باعث زوال کا شکار تھا، ملک میں افسر شاہی کا غلبہ تھا جو زراعت، تجارت سمیت دیگروسائل پرغالب تھی، 1900 میں روس میں صنعتی ورکرز کی کمی تھی اور بیشتر آبادی زراعت سے وابستہ تھی، حالانکہ تب تک روس میں فیکٹریاں قائم ہو چکی تھیں لیکن صنعتی مزدوروں کا استحصال بھی کسانوں کی طرح ہی تھا۔روس میں زرعی بیگاڑ یا ‘سرفڈم’ کے ذریعے قانونی تحفظ کے باوجود بھی کسان کی حالت زار تھی۔ انسوی صدی کے نصف میں وسطی ایشیا کی کپاس نے ماسکو کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کا مزکز تو بنا دیا لیکن روسی بادشاہ کے خلاف عوامی نفرت کو جنم بھی دیا، بعد ازاں عالمی جنگ نے روسی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا جس سے شدید معاشی بحران نے سر اٹھایا، جنگی اخراجات بھی عوامی فلاحی منصوبوں میں کمی اور فوجی زوال کا سبب بنے۔ 1917 کے آغاز سے ہی مزدوروں نے ہڑتالیں شروع کیں جو جلد ہی سیاسی مظاہروں میں تبدیل ہو گئیں، ڈیڑھ لاکھ مزدورں کی جانب سے خونی سالگرہ پر ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور حکومت کی جانب سے ‘روٹی کارڈ’ متعارف کرایا گیا جس نے عوام بھڑک اٹھے، خواتین بھی روٹی کارڈ کے لئے باہر نکل آئیں جس نے انقلاب کی چنگاری کو ہوا دی۔ فروری 1917 میں خواتین کے عالمی دن پر ‘سینٹ پیٹرز برگ’ میں خوراک کی قلت پرخواتین نے تاریخی ہڑتال کی جسے ‘فروری انقلاب’ کہا جاتا ہے، اس ہڑتال میں تقریباً 50 ہزار مزدور شامل تھے اور صرف 2 دن میں تمام صنعتی مراکز بند ہو گئے، مزدوروں کے ساتھ طلبہ، سفید پوش کارکن اوراساتذہ بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے، 27 فروری تک دارالحکومت کا بیشتر حصہ محنت کشوں اور سپاہیوں کے قبضے میں تھا، مارچ تک روسی شہنشاہ ‘زار نکولس دوم’ تخت چھوڑ چکے تھے اور شاہی خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا، اس انقلاب کی سربراہی پرنس جورجی لفوف نے کی جو عبوری حکومت کی باگ دوڑ سنبھال رہا تھا۔ روسی انقلاب کے نتیجے میں سوویت یونین (USSR) کا قیام ہوا جس نے مختصر عرصے میں شاندار ترقی کی، 1922 میں اس وفاقی ریاست کا قیام ہوا جس کا مختلف ممالک اور قومی ریاستیں (سوویت جمہوریتیں) حصہ تھیں، ان ممالک میں روس، یوکرین، بیلاروس، قازقستان، آرمینیا، آذربائیجان، جارجیا، تاجکستان، ازبکستان، کِرغزستان، ترکمانستان، مولدوا، لٹویا، لیتھوانیا، استونیا، قزاقستان اور گورکی شامل تھے۔ 1945 تک سوویت یونین نے اپنی معیشت کو بحال کیا اور دنیا کی دوسری عظیم طاقت بن گئی، 1917 میں ایک پسماندہ ملک ہونے کے باوجود سوویت یونین نے سائنس، صحت اور تعلیم میں عظیم کامیابیاں حاصل کیں یہاں تک کہ پہلا خلائی سیارہ بھی تیار کیا۔ 1924 میں اسٹالن اقتدار میں آئے اور اپنی آہنی حکمت عملی سے پارٹی کو مضبوط کیا لیکن ان کو بہت سی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، اسٹالن نے دوسری جنگِ عظیم میں ہٹلر کو شکست دی اور روس میں صنعتی انقلاب برپا کیا، بعد ازاں 1991 میں سوویت یونین کا بھی خاتمہ ہو گیا۔
فلسطینی مزاحمت کے مقابلے میں ناکامی، اسرائیلی فوج کا سربراہ اور اہم افسر مستعفی

اسرائیلی فوج کے سربراہ اور جنوبی کمان کے اعلٰی افسر نے سات اکتوبر کو فلسطینی مزاحمت کے مقابلے میں ناکامی اور اس کے بعد کی صورتحال میں اپنی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے فوج سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ آج اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ دونوں افسران نے اپنی فوجی سروسز سے استعفی دے دیا ہے۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے مطابق ‘چیف آف دی جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ہیلیوی نے خط کے ذریعے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔’ لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ییلیوی نے خط میں لکھا کہ ‘آج (منگل) میں نے وزیر دفاع کو آگاہ کیا کہ سات اکتوبر کو اسرائیلی فوج کی ناکامی کی ذمہ داری کا اعتراف کرتے ہوئے اور اس وقت جب اسرائیلی فوج ہمارے یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو نافذ کرنے کے عمل میں ہے، میں نے 6 مارچ 2025 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کی درخواست کی ہے۔’ اسرائیلی فوجی سربراہ کے مطابق ‘اس وقت تک میں سات اکتوبر کے واقعات کی تحقیقات مکمل کرواؤں گا اور سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اسرائیلی فوج کی تیاری کو مضبوط کروں گا۔’ خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ‘میں اسرائیلی فوج کی کمانڈ اپنے جانشین کو مکمل طریقے سے منتقل کروں گا۔ میں نے اس معاملے پر وزیر دفاع اور وزیر اعظم کو ایک خط بھی بھیجا ہے۔’ دوسری جانب اسرائیلی فوج کی جنوبی کمان کے کمانڈنگ آفیسر ایم جی یارون فنکل مین نے بھی فوج سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ آج اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ‘چیف آف جنرل اسٹاف کو اپنی خدمات ختم کرنے کے فیصلے سے آگاہ کیا۔’ خیال رہے کہ قطر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدہ طے پا گیا، اسرائیل کا ایک طویل عرصے تک یہ کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک کسی بھی جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ اتفاق نہیں کرے گا جب تک کہ اس کی فوجی کارروائیاں مکمل نہ ہو جائیں جو اس نے اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے نتیجے میں شروع کی تھیں۔ اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ غزہ کو وسیع تباہی کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں ایک سنگین انسانی بحران نے جنم لیا ہے۔ حماس کے زیرِ انتظام صحت کے وزرات کے مطابق اسرائیلی حملوں کی وجہ سے 46 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ غزہ کا بیشتر بنیادی ڈھانچہ اسرئیل کے فضائی حملوں سے تباہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر برائے ہم آہنگی کے اندازے کے مطابق 1.9 ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں جو غزہ کی آبادی کا تقریباً 90 فیصد بنتا ہے۔ کچھ افراد ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں کئی بار منتقل ہو چکے ہیں۔ تنازعے کے آغاز سے غزہ میں انخلاء کے احکامات کی نگرانی کرنے والے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق غزہ کی تقریباً 2.3 ملین آبادی کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا ہے کیونکہ اسرائیل نے پورے علاقے میں مسلسل فضائی حملے کیے اور بڑے رہائشی علاقوں کے لیے بڑے پیمانے پر انخلاء کے احکامات جاری کیے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی فوج 470 دنوں سے غزہ میں نسل کشی کر رہی ہے۔ قابض فوج نے 10 ہزار سے زائد افراد کا قتل عام کیا، شہدا اور لاپتہ افراد کی تعداد 61 ہزار سے زائد ہے۔ 18 جنوری 2025 تک 14 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں جو اسپتال تک نہیں پہنچ سکے۔ غزاہ کی وزارت صحت کے مطابق تقریباً 47 ہزار کے قریب شہداء اسپتالوں کو موصول ہوئے، 9 ہزار سے زائد خاندانوں کے خلاف قتل عام ہوا۔ 2 ہزار سے زائد خاندانوں کو قابض صیہونی فوج نے مکمل طور پر تباہ کر دیا جن کے تقریباً 6 ہزار افراد کو شہید کیا گیا۔
پہلے دن ہی جوبائیڈن کے 78حکم نامے منسوخ: ٹرمپ نے ریکارڈ قائم کردیا

نو منتحب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت سنبھالتے ہی ایک یا دو نہیں بلکہ 78 ایگزیکٹو آرڈرز پہ دستخط کر دیے ہیں۔ سوموار کے روز حلف اٹھانے والے صدر نے جانے والے ہم منصب جو بائیڈن کےبہت سے فیصلے منسوخ کیے ہیں۔ ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کے فیصلوں کی منسوخی کے ساتھ کچھ نئے آرڈرز بھی جاری کیے ہیں، جن میں 6 جنوری 2021 سے متعلق جرائم، کیپیٹل ہل پر حملے، ٹک ٹاک پر پابندی میں تاخیر اور امریکی امیگریشن سسٹم کو بہتر بنانا شامل ہیں۔ اس اقدام کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پہلے امریکی صدر بن گئے ہیں جنہوں نے اپنی مدت صدارت کے اولین روز اتنے زیادہ ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے ہیں۔ ٹرمپ نے سب سے پہلے 6 جنوری 2021 کو ہونے والے کیپیٹل حملے میں ملوث تقریباً 1500 افراد کو معافی دینے کا اعلان کیا۔ اس حملے میں ٹرمپ کے حامیوں نے واشنگٹن میں موجود کیپیٹل ہل کی اس عمارت پر اس وقت دھاوا بولا تھا جب یہاں 2020 میں ہونے والے الیکشن کے نتائج ترتیب دیے جا رہے تھے۔ اس الیکشن میں ٹرمپ کے بجائے جو بائیڈن جیتے تھے اس لیے ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل کی عمارت پر حملہ کیا۔ بائیڈن انتظامیہ نے حملے میں ملوث تقریباً 1500 افراد کو سزائیں سنائیں۔ ڈونلد ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی ان کی سزائیں معاف کر دیں جس سےیہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ اپنے حامیوں کو لے کر کتنے سنجیدہ ہیں۔ ٹرمپ نے ٹک ٹاک پر لگنے والی پابندی میں ’تاخیر کا آرڈر‘ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹک ٹک نے امریکا میں چلنا ہے تو اسے اپنی پالیساں تبدیل کرنی ہوں گی۔ اس کے لیے ٹک ٹاک کے 50 فیصد شئیرز امریکہ کے ہونے چاہیں۔ یہ فیصلہ بھی پچھلے سال اپریل میں ہوا جب سابق صدر جو بائیڈن نے 19 جنوری 2025 سے ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پابندی میں تاخیر کرنے کے آرڈر پر دستخط کیے اور کہا کہ چین کی بنائی گئی اس ایپلیکیشن کو امریکہ میں چلنے کے لیے کسی امریکی کو شیئرز بیچنے ہوں گے۔ امریکہ میں ٹک ٹاک کے 170 ملین صارفین ہیں۔ حکومت میں آنے کے پہلے روز ہی صدر ٹرمپ نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ یکطرفہ معاہدہ ہے۔ ٹرمپ نے 2030 تک الیکٹرک کاروں کی فروخت کو 50 فیصد تک لانے کے فیصلے کو بھی منسوخ کر دیا۔ ٹرمپ نے مصنوعی ذہانت پالیسی سےمتعلق بھی بائیڈن کا ایگزیکٹو آرڈر منسوخ کردیا۔ نئے صدر نے بارڈر سے متعلق نئی پالیسی واضح کرنے والے اس ایگزیکٹو آرڈر پر بھی دستخط کیے ہیں جو تارکین وطن کےداخلے سے متعلق ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کارٹلز کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ امریکی صدر نے جنوبی سرحد پر نیشنل ایمرجنسی نافذ کرنے کے آرڈر پر بھی دستخط کیے۔ سوموار کو امریکی صدر نے اپنی کابینہ اور نائب کابینہ کا بھی اعلان کیا۔ نائب کابینہ ، کابینہ کی باضابطہ عہدوں پر تقرری تک کام کریں گے۔ یاد رہے کہ پیر کو نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری ہوئی جس کے بعد وہ امریکا کے 47 ویں صدر بن گئے۔ امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے صدر ٹرمپ سے عہدے کا حلف لیا۔
ٹرمپ کادوسرا دور حکومت:کیا امریکا پاکستان میں دلچسپی نہیں لےگا؟

تنازعات میں گھرے ڈونلڈ ٹرمپ ایسے وقت میں دوسری بار امریکا کے صدرکا حلف اٹھا رہے ہیں جب لاس اینجلس جل رہا ہے،مشرق وسطیٰ میں جنگ کا ماحول ہے،ڈونلڈ ٹرمپ صدرتوامریکا کےبنے ہیں مگر خوشیاں پاکستان میں زیادہ منائی جارہی ہیں،ٹرمپ کی جیت کو’عمران خان‘کی جیت قراردیا جارہا ہے،جب عمران خان کوعدالت سے’کرپٹ پریکٹسز’پر14 سال قید کی سزا سنائی جاچکی ہے،ایسے میں ٹرمپ حکومت پاکستان پر کیسے اثرانداز ہوسکتے ہیں؟ اب سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا کسی ایک ملک کی حکومت تبدیل ہونے سے دوسرے ممالک کے مستقبل کے بارےمیں پیشن گوئی کی جا سکتی ہے؟ پاکستان اورامریکا کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک دونوں ممالک کے درمیان مختلف نوعیت کے تعلقات رہے ہیں۔ امریکا میں کسی بھی رہنما کا منتحب ہونا، پاکستان کے امریکا سے تعلقات پراثرانداز ہوتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے غیر روایتی انداز کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ اپنے پہلے دورِ حکومت میں ٹرمپ نےپاکستان کے حوالے سےملے جلے تاثرات کا اظہار کیا۔ جنوری 2018 میں ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں پاکستان پہ دہشت گردی کی حمایت کرنے کے سنگین الزامات لگائے۔ انہوں نے لکھا کہ “امریکا نے پچھلے 15 سالوں میں پاکستان کو 33 بلین ڈالر امداد دی ہے اور بدلے میں ہمیں پاکستان کی طرف سے دھوکا دہی ملی ہے۔ پاکستان دہشتگردوں کے لیے محفوظ جنت بن چکا ہے۔‘‘ اگلے ہی برس پاکستانی وزیراعظم عمران خاان نے امریکا کا دورہ کیا جہاں ان کی ملاقات ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ہوئی۔ ،ساتھ ہی امریکا اور پاکستان کے درمیان تعاون کو مزید مستحکم کرنے کا پیغام دیا۔ اس کے علاوہ کشمیر، افغانستان، اور دیگر شعبوں میں ٹرمپ نے پاکستان سے تعاون کرنے کا کہا۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ” وہ جنگوں کو ختم کرنے آئے ہیں”، اس تناظر میں اگر پاکستان امریکا کی مدد کر سکے تو ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان میں دلچسبی بڑھ سکتی ہے۔ ماہر معاشیات اور سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم نے ’انڈیپنڈنٹ اردو‘ کو بتایاکہ’ پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امریکا کو ہماری ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں امریکا کی ضرورت ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ بارود کی جنگ کے خلاف ہیں لیکن ٹریڈ وار کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسی میں چین اور ایران کو مالی نقصان پہنچانا سرفہرست ہے۔اگر پاکستان اس حوالے سے کچھ مدد کر سکا تو امریکی سپورٹ پاکستان کو مل سکتی ہے، بصورت دیگر ٹرمپ پاکستان میں دلچسپی نہیں لیں گے۔ ماضی میں دو مرتبہ امریکا میں پاکستانی سفیر رہنے والی ملیحہ لودھی نے بی بی سی اردو کوبتایا کہ پاکستان ابھی امریکا کے ریڈار پر نہیں ہے۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کے لیے پاکستان زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ پاکستان اسی صورت امریکا کی سپورٹ حاصل کر سکتا ہے جب وہ امریکہ کے مفادات حاصل کرنے میں امریکہ کی مدد کر سکے۔ یاد رہے کہ امریکا کا شمار پاکستان کی سب سے زیادہ امداد کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ امریکا اور روس کی سرد جنگ سے لے کر موجودہ دہشت گردی کے خاتمے تک ، امریکا نے اربوں ڈالر پاکستان کو دیے ہیں۔ جن کو پاکستانی حکومت نے مختلف اقدامات کے لیے استعمال کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض کا بوجھ اور موجودہ معاشی صورتحال کودیکھتے ہوئے ، پاکستان کو امریکہ کے تعاون اور امداد کی سخت ضرورت ہے۔ حالیہ دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی رچرڈ گرینل کے عمران خان کے متعلق کافی بیانات سامنے آرہے ہیں ۔25 دسمبر 2024 کو انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ عمران خان کو رہا کیا جائے ان پر ویسے ہی الزامات ہیں جیسے ڈونلڈ ٹرمپ پر تھے۔ ایسے بیانات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کی رہائی کے لیے امریکہ سے پاکستا ن پہ دباؤ ڈالا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کوعمران خان کی رہائی کرنا پڑے گی۔ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب لاہور کے شعبہ عالمی تعلقات اور سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر عرفان علی فانی کا’پاکستان میٹر‘ سے گفتگومیں کہنا تھاکہ ڈونلڈ ٹرمپ بالکل بھی ایک روایتی سیاست دان نہیں ہے،وہ پوری دنیا میں جہاں بھی طاقت ہوگی اسی کے ساتھ کھڑا نظر آئے گا۔ اس وقت یوکرین اور روس کی جنگ ہو رہی ہے،ٹرمپ اگرکوئی قدم اٹھائے گا تو وہ پیوٹن کے حق میں ہوگا۔ اسی طرح اگر فلسطین میں کچھ ہوگا تو وہ اسرائیل کے حق میں ہوگا۔ ٹرمپ کی نظر میں پاکستان کی اہمیت کیا ہوگی؟پروفیسر عرفان علی فانی کہتے ہیں کہ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو پاکستان میں جس شخص کو ٹرمپ جانتا ہے یا جس کی اہمیت ہے وہ شخص عمران خان ہے اس کی وجہ عمران خان کا دورہِ امریکا تھا جہاں ٹرمپ نے نہایت گرم جوشی سے استقبال کیا۔ ٹرمپ ریاستی اداروں کو لے کر چلنے والا بندہ نہیں وہ ہمیشہ شخصیات کے ساتھ رہنے والا بندہ ہے اس کی جھلک ہم کینیڈا،میکسیکو، گرین لینڈ اور پاناما کینال کے معاملات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ٹرمپ کی بنائی گئی پالیسیوں کے حوالے سے اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا کہ ٹرمپ پالیسی ہمیشہ شخصیت کے گرد گھومتی ہے اور کاروباری منافع کے لئے ہوتی ہے۔ پاکستان کی امریکا کے حوالے سے اہمیت کو لے کر پروفیسر عرفان فانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ جیوپالیٹیکل اہمیت کچھ خاص نہیں ہے۔پاکستان کی اہمیت اجاگر ہونے کی ایک ہی صورت ہےاور وہ یہ ہے کہ اگر ایران میں اسرائیل اور امریکہ مل کر حملہ کرتے ہیں تو تب پاکستان کو ترجیح دی جائے گی۔ جس طرح پاکستان نے افغانستان جنگ میں امریکا کی ضرورتوں کو پورا کیا اسی طرح ادھر بھی کرنے کے لئے پاکستان کو اہمیت ملےگی۔ افغانستان میں امریکا کی مدد سے امریکا کے ساتھ تعلقات تو بہتر ہوگئے مگر دہشت گردی کی صورت میں اس کا خمیازہ آج تک پاکستان بھگت رہا ہے۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کی مشکلات کولےکراسسٹنٹ پروفیسر نے کہاکہ اس وقت جتنے بھی لوگ ٹرمپ کیبینٹ میں آئےہیں وہ ماضی میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر آفیشلی عمران خان کے حق میں
انٹرنیٹ پرپابندی؟کیا پاکستان یونہی کچھوے کی چال چلتا رہے گا؟

دنیا تیزترین انٹر نیٹ کی جانب بڑھ رہی ہے، تھری جی اور فورجی کا زمانہ پرانا ہوا ہے تو فائیو جی کا دور آرہا ہے مگرپاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے، جو انٹرنیٹ میسر ہے وہ بہت سست ہے۔ انٹرنیٹ کی سست روی پر حکومت تنقید کی زد میں ہے،سوشل میڈیا سے ایوانوں تک آواز اٹھائی جارہی ہے، کبھی فائر وال تو کبھی وی پی این کا بہانہ بنایا جاتا ہے، اب حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ انٹرنیٹ کی اسپیڈ کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کررہی ہے۔ حکومت نے انٹرنیٹ کی تیز ترین فراہمی والی کمپنی اسٹارلنک کو بھی رجسٹرڈ کرلیا ہے۔ جس کے بعد یہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ انٹرنیٹ کی سست روی اورسوشل میڈیا ایپس میں خلل دور ہوجائے گا، فی الحال انٹرنیٹ کی بندش سے صارفین اور فری لانسرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی سست روی کی ایک وجہ زیر سمندر سب میرین کیبل ایشیا افریقہ یورپ ون کی خرابی بتائی جارہی ہے اور اِسکی مرمت پر پی ٹی سی ایل ہاتھ کھڑے کرتا نظر آرہا ہے۔ پی ٹی سی ایل کا کہنا ہے کہ میرین کیبل کی مرمت کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا ہے۔یعنی انٹرنیٹ کتنی دیر تک سلو رہتا ہے اِس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔اب حکومت کی جانب سے وقفے وقفے سے انٹرنیٹ کی بندش پر صفائیاں دی جارہی ہیں ۔جیسا کہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ ہر ملک کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی سائبر سیکیورٹی پر توجہ دے ،کچھ مسائل کا سامنا ہے جو دو تین چار مہینے کے اندر حل ہو جائیں گے ایسا نہیں ہے کہ پانچ سال اسی طرح ہی چلتا رہے گا۔ اب ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن انٹرنیٹ کی رفتار بہتر نہیں ہوسکی ایسے میں صارفین یہ سوال تو اُٹھائیں گے کہ انٹرنیٹ کا مسئلہ موجودہ حکومت کے دور میں ٹھیک بھی ہوسکے گا یا نہیں۔ بہرحال سوال تو انٹرنیٹ وائی فائی پر بھی اُٹھ رہا ہےاور یہ سوال خود حکومت اُٹھا رہی ہے۔خبر کے مطابق حکومت نے وائی فائی نیٹ ورکس کو غیر محفوظ قراردیدیا۔ اس حوالے سے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے تمام اداروں کو وائرلیس نیٹ ورکس کے بارے میں سیکیورٹی تھریٹ سے متعلق ایڈوائزری جاری کردی۔ انٹرنیٹ سپیڈ پرکھنے والی عالمی تنظیم ‘اوکلا سپیڈ ٹیسٹ گلوبل انڈیکس’ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق حالیہ پابندیوں کے باعث پاکستان انٹرنیٹ کی رفتار کے لحاظ سے دنیا کے سست ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے، اس فہرست میں پاکستان موبائل انٹرنیٹ سپیڈ کے اعتبار سے 111 ممالک میں سے 100ویں نمبر پر ہے جبکہ براڈبینڈ سپیڈ کے لحاظ سے 158 ممالک میں سے 141ویں نمبر پر آگیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ سپیڈ کم ہونے کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے فائروال کی تنصیب ہے، فائروال ایک ایسا نیٹ ورک سکیورٹی سسٹم ہے جو نیٹ ورک پر آنے اور جانے والی ٹریفک کو قوانین کے مطابق بلاک کرتا ہے یا اجازت دیتا ہے۔ اس سسٹم کی تنصیب سے حکومت شہریوں کی نگرانی کر سکتی ہے۔ آئی ٹی کے ماہر عمار جعفری نے پاکستان میٹرز سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ “انٹرنیٹ بہتے ہوئے پانی کی طرح ہے اور اگر آپ اس کے آگے جالی لگادیں گے تو وہ آہستہ ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ جالی کتنی پتلی یا موٹی ہے۔ اگر جالی میں سوراخ بڑے ہوں گے تو اس میں سے تیزی سے پانی جائے گااور اگر سوراخ چھوٹے ہوں گے تو پانی آہستہ ہوجائے گا۔ اسی طرح ہمارے انٹرنیٹ میں بھی اب ایسی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جا رہی ہے جس سے زیادہ معلومات ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ آہستہ کام کرتا ہے۔ کیوں کہ یہ ٹیکنالوجی ہماری اپنی نہیں ہے بلکہ بیرون ملک سے لی گئی ہے اس لیے ہمارے یہاں آہستہ ہے۔” انٹرنیٹ کی بندش اور سست رفتاری سے آن لائن کاروبار کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کے سدِباب کے لئے صارفین نے ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک (وی پی این) کا استعمال شروع کیا، لیکن حکومت کی جانب سے وی پی این کی بندش بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ موجودہ دورمیں انٹرنیٹ اورمصنوعی ذہانت (اے آئی) دنیا میں انقلاب برپا کر رہے ہیں، اس کے برعکس پاکستان میں صارفین کی انٹرنیٹ تک رسائی محدود ہوتی جارہی ہے، صارفین کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہےکہ میسجنگ ایپ ‘واٹس ایپ’ کے ذریعے بھی عزیز و اقارب سے رابطے میں مشکلات درپیش ہیں۔ انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے. پاکستان سوفٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سجاد سید کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش کے باعث پاکستان کو یومیہ ایک ارب 30 کروڑ روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ ایک گھنٹہ انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے 9 لاکھ 10 ہزار ڈالر کا نقصان ہو رہاہے۔ جبکہ یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سے عالمی کمپنیوں نے مختلف آپریشنز باہر منتقل کرنا شروع کردیے ہیں۔ جبکہ حکومت پر انٹرنیٹ کی ناقص اسپیڈ کی وجہ سے تنقید بھی ہورہی ہے ۔پی ٹی آئی کے رہنما شعیب شاہین کا میڈیا سے گفتگومیں کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سلو کرنے سے ہماری یوتھ اور ہمارے کاروبار کا نقصان ہوا۔اِس کا جواب کون دے گا۔ انٹرنیٹ کی بندش اور سست رفتار نے تیزی سے ترقی کرتی فری لانسنگ انڈسٹری کو بھی مشکلات میں دھکیل دیا ہے،ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 5 سے 6 لاکھ فری لانسرز اور تقریباً 25 ہزار کمپنیاں اسی وجہ سے نقصان اٹھا رہی ہیں۔،آئی ٹی سیکٹر کے فروغ اوراس کی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے حکومتی دعووں کے باوجود یہ انڈسٹری صرف 2.7 بلین ڈالر تک ہی پہنچ پائی ہے، دوسری جانب ہمسایہ ملک بھارت آئی ٹی ایکسپورٹ سے سالانہ 300 بلین ڈالرز سے زائد کی آمدنی حاصل کر رہا ہے۔ عمارجعفری کا کہنا تھا کہ “یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں اس طرح کی ٹیکنالوجیز آتی ہیں جس سے انٹرنیٹ پہ شائع ہونے
کرپٹ پریکٹسز،اختیارات کاناجائزاستعمال:عمران خان کو 14، اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 برس قیدوجرمانہ کی سزا

190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کیس میں عمران خان کو 14 برس اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو سات برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔جمعہ کو راولپنڈی کی اڈیالا جیل میں احتساب عدالت کے سنائے گئے فیصلے میں عمران خان کو 10 اور بشری بی بی کو پانچ لاکھ جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں دونوں کو باالترتیب چھ اور تین ماہ کی مزید سزا بھگتنا ہو گی۔ احغٹساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا کے سنائے گئے فیصلہ کے مطابق وفاقی حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لے لے۔ ایک برس تک جاری رہنے والے ٹرائل کے بعد عدالت نے دسمبر کے مہینے میں فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ آج سے قبل فیصلہ سنانے کے لیے تین تاریخوں کا اعلان کیا گیا تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ جمعہ کو جس وقت فیصلہ سنایا گیا اس وقت عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ فیصلہ کا اعلان ہونے کے بعد عدالتی عملہ نے بشری بی بی کو تحویل میں لے لیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کو کرپٹ پریکٹسز اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر سزا سنائی گئی ہے۔ فیصلہ سناتے وقت پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر، عمران خان کی بہنیں، ان کی قانونی ٹیم سمیت متعدد افراد عدالت میں موجود تھے۔ ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس کیا ہے؟ القادر ٹرسٹ کیس پاکستان کے سب سے سنسنی خیز اسکینڈلز میں سے ایک بن کر سامنے آیا ہے۔ الزام ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کے کچھ قریبی ساتھیوں نے 2019 میں برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) سے پاکستانی حکومت کو منتقل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈ (تقریباً 50 ارب روپے) کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے غلط طریقے سے ایڈجسٹ کیا۔ یہ رقم ایک طاقتور پراپرٹی ٹائیکون سے ضبط کی گئی تھی اس کے علاوہ برطانوی حکام کا کہنا تھا کہ یہ رقم پاکستان کو واپس کی جانی چاہیے تھی کیونکہ معاملہ ‘سول نوعیت کا تھا’ اور کسی مجرمانہ کارروائی کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔ القادر ٹرسٹ کے قیام کے بعد یہ الزامات سامنے آئے کہ اس ٹرسٹ کو دراصل ایک پردے کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ این سی اے سے حاصل کی گئی غیر قانونی رقم کو قانونی طور پر چھپایا جا سکے۔ دسمبر 2023 میں نیشنل اکاؤنٹبلٹی بیورو (نیب) نے اس کیس کا ریفرنس دائر کیا اور عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف الزامات عائد کیے، ان پر الزام تھا کہ 3 دسمبر 2019 کو برطانوی ایجنسی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات کو چھپایا گیا اور رقم کو ریاستی خزانے میں منتقل کرنے کے بجائے ٹرسٹ میں ڈال دیا گیا۔ اس کیس میں پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں جیسے ذلفی بخاری، بابراعوان، بشریٰ بی بی اور ان کی قریبی دوست فرحت گوگی کے نام بھی سامنے آئے۔ ذلفی بخاری کے بارے میں یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے کابینہ کے معاہدے کے کچھ ہی ماہ بعد 458 کنال اراضی حاصل کی ہے جسے بعد میں ٹرسٹ کے نام منتقل کر دیا گیا جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔ اس اسکینڈل کے منظرنامے نے اس وقت ایک نیا موڑ لیا جب 9 مئی 2023 کو عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے گرفتار کر لیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں نے ملک بھر میں شدید احتجاج کیا جس کے نتیجے میں فوجی اور دیگر ریاستی عمارتوں کو آگ لگا دی گئی۔ تاہم عمران خان کو چند دنوں بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ضمانت مل گئی اور سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ یہ کیس سیاسی کشمکش میں مزید شدت اختیار کرتا گیا جب متعدد اہم گواہوں نے بیان دیا۔ ان گواہوں میں سابق وزراء پرویز خٹک، زبیدہ جلال، سابق پرنسپل سیکریٹری اعزام خان اور القادر یونیورسٹی کے چیف فنانشل آفیسر شامل تھےجنہوں نے اس اسکینڈل کی گہرائیوں سے پردہ اٹھایا۔ چند مہینوں میں یہ کیس اور پیچیدہ ہوگیا جب نیب نے چھ ملزمان کو مفرور قرار دے دیا جن میں ذلفی بخاری، فرحت گوگی، مرزا شہزاد اکبر اور زیااللہ مصطفیٰ نسیم شامل ہیں۔ ان کے اثاثے اور بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں جس کے بعد ان کی گرفتاری کے لیے تلاش شروع ہو گئی۔ مقدمے کی سماعت کے دوران متعدد ججوں کی تبدیلی ہوئی تھی جن میں جج محمد بشیر، جج ناصر جاوید رانا، جج محمد علی وڑائچ اور پھر جج رانا شامل تھے اور ہر جج نے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ عمران خان نے 16 گواہوں کی فہرست پیش کی تھی لیکن ان کی گواہی کو طلب کرنے کی درخواست مسترد کر دی گئی جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔