جنوبی پنجاب کی تعمیر نو: محرومی سے خوشحالی تک کا سفر

جنوبی پنجاب جو کبھی سیاسی عدم دلچسپیوں کی وجہ سے محرومیوں اور پسماندگی کا شکار تھا، اب ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں حکومت نے اس علاقے کے تعلیمی، صحت، توانائی، سڑکوں، زراعت، اور دیگر اہم شعبوں میں مختلف ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہیں، جو نہ صرف مقامی معیشت کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں، بلکہ لوگوں کی زندگیوں میں بھی نمایاں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں تعلیم کے شعبے میں ایک انقلاب برپا ہو رہا ہے۔ رحیم یار خان میں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی توسیع کا منصوبہ ایک اہم سنگ میل ہے۔ 37 کروڑ روپے کی لاگت سے اس منصوبے کا مقصد مزید طلبا کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ عالمی سطح پر مقابلہ کر سکیں۔ ایڈووکیٹ محمد تقویم چانڈیو، جو کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں کام کرتے ہیں، نے اس حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا، “یہ منصوبہ نہ صرف ہمارے علاقے کے نوجوانوں کے لیے بہترین تعلیمی مواقع فراہم کرے گا، بلکہ یہ جنوبی پنجاب کے تعلیمی معیار میں بھی بہتری کا باعث بنے گا۔” ڈیرہ غازی خان میں غازی یونیورسٹی کی عمارت کی تعمیر اور میر چاکر خان رند یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کا قیام بھی اس علاقے کے تعلیمی منظر کو بدلنے کے لیے اہم اقدامات ہیں۔ ان منصوبوں کے ذریعے تکنیکی تعلیم کو فروغ ملے گا، جس سے مقامی طلبا کو جدید صنعتوں میں کام کرنے کے مواقع حاصل ہوں گے۔ بہاولپور میں صادق ویمن یونیورسٹی کی عمارت کی تعمیر بھی خواتین کی تعلیم کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ محمد سکندر حیات، جو “کوڈنگ فرسٹ” کے سی ای او ہیں، نے اس بارے میں کہا، “یہ منصوبہ خواتین کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرے گا اور ان کی معاشی خودمختاری کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔” جنوبی پنجاب میں صحت کے شعبے میں بھی اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ملتان میں نشتر-II ہسپتال کی تعمیر 250 کروڑ روپے کی لاگت سے کی جا رہی ہے، جو علاقے میں جدید طبی سہولتیں فراہم کرے گا۔ اس ہسپتال کا قیام نہ صرف مریضوں کے لیے بہتر علاج کی سہولت فراہم کرے گا، بلکہ علاقے کے عوام کے لیے ایک امید کی کرن ثابت ہوگا۔ ڈیرہ غازی خان میں ایمرجنسی اور او پی ڈی بلاک کی تعمیر، اور لیہ و راجن پور میں مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال کا قیام بھی اہم منصوبے ہیں جن کا مقصد زچہ و بچہ کی صحت کے لیے بہترین سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ محمد سکندر حیات نے اس حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا، “یہ منصوبے جنوبی پنجاب کے عوام کے لیے صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کر رہے ہیں، جو کہ اس علاقے میں طویل عرصے سے ایک ضرورت تھی۔” توانائی کے شعبے میں بھی جنوبی پنجاب میں ترقی کی نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ اجالا پروگرام پنجاب کے تحت 60.9 کروڑ روپے کی لاگت سے قابل تجدید توانائی کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ یہ منصوبے علاقے کے دیہی علاقوں میں سولر انرجی کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں، تاکہ بجلی کے بحران کو کم کیا جا سکے۔ زراعت کے شعبے میں بھی متعدد منصوبے جاری ہیں۔ جنوبی پنجاب میں زمین کی افقی ترقی کے لیے 80 کروڑ روپے کی لاگت سے منصوبے چلائے جا رہے ہیں، جس کا مقصد کاشتکاری کے لیے زمین کی تیاری اور بہتری ہے۔ ایڈووکیٹ محمد تقویم چانڈیو نے کہا، “یہ منصوبے کسانوں کے لیے اہم ثابت ہوں گے، کیونکہ ان کے ذریعے پیداوار میں اضافہ اور بہتر زراعتی طریقوں کی ترویج ہو گی۔” جنوبی پنجاب میں سڑکوں اور انفراسٹرکچر کی ترقی پر بھی خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ رورل ایکسیسبلیٹی پروگرام کے تحت دیہی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت کی جا رہی ہے، جس کے لیے 497 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس سے دیہاتوں کے درمیان آمد و رفت میں آسانی ہوگی اور عوامی سہولت میں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح، زین سے بھرتی تک میٹلڈ روڈ کی بحالی، لیہ سے چوک اعظم تک سڑک کی دو رویہ تعمیر اور ملتان سے وہاڑی تک دو رویہ سڑک کی تعمیر جیسے منصوبے بھی سڑکوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے شروع کیے گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں پانی کی فراہمی اور صفائی کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔ تونسہ شریف میں اسٹریٹ لائٹس، ٹف ٹائلز، سیوریج اور پانی کی فراہمی کے منصوبے کی تکمیل سے شہر کی خوبصورتی اور عوامی سہولت میں اضافہ ہوگا۔ ایڈووکیٹ محمد تقویم چانڈیو نے کہا، “یہ منصوبہ عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔” بہاولپور میں یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کا قیام 65.8 کروڑ روپے کی لاگت سے کیا جا رہا ہے، جو مویشیوں کے حوالے سے تعلیم و تحقیق کو فروغ دے گا۔ اس کے علاوہ، راجن پور میں ویٹرنری سروسز کی بہتری کے منصوبے سے مقامی کسانوں اور مویشی پال حضرات کو فائدہ ہوگا۔ محمد سکندر حیات نے اس تمام ترقیاتی عمل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “جنوبی پنجاب میں جاری ترقیاتی منصوبے نہ صرف انفراسٹرکچر میں بہتری لا رہے ہیں، بلکہ لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی بھی لا رہے ہیں۔ اگر یہی رفتار برقرار رہی، تو یہ خطہ پاکستان کے دیگر حصوں کے لیے ایک ماڈل بن سکتا ہے۔” ایڈووکیٹ محمد تقویم چانڈیو نے بھی اس بات کی تصدیق کی اور کہا، “ان منصوبوں کا فائدہ صرف ہماری موجودہ نسل کو نہیں پہنچے گا، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ سرمایہ ہوگا۔ جنوبی پنجاب میں ترقی کا یہ عمل ایک نئے دور کا آغاز ہے، جس کا اثر پورے ملک پر پڑے گا۔” جنوبی پنجاب میں جاری یہ منصوبے نہ صرف ایک مضبوط اقتصادی اور سماجی ڈھانچے کی تشکیل میں مدد فراہم کر رہے ہیں، بلکہ یہ علاقے کی تاریخی محرومیوں کو کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ اگر یہی ترقیاتی عمل اسی رفتار سے جاری رہا، تو جنوبی پنجاب یقیناً ترقی کے ایک نئے دور میں قدم رکھے گا۔
فیکٹری سے فری لانسنگ تک، سستی بجلی سے کتنا فائدہ ہوگا؟

وزیر اعظم نے عید کے موقع پر قوم کو بڑی خوشخبری دیتے ہوئے بجلی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا ہے۔ جس میں گھریلو صارفین کے لئے بجلی کی قیمت میں 7 روپے 41 پیسے جبکہ صنعتی صارفین کے لئے 7 روپے 69 پیسے کمی کی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے قوم کو یقین دلایا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں مزید کمی بھی کی جائے گی اور آئندہ سالوں میں ملک گردشی قرضوں کی لپیٹ سے بھی باہر آجائے گا۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی سے معاشی سرگرمیوں کو مزید فروغ مل سکے گا۔ مگر یہاں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا صنعتوں کے لیے یہ واقعی اتنا بڑا ریلیف ہے؟ جس کے نتیجے میں بڑی اور چھوٹی صنعتوں میں سرگرمیاں بڑھ جائیں گی؟یا بجلی کی قیمتوں میں مزید کمی کی ضرورت ہے؟ ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح اس وقت گذشتہ 60 سال کی نسبت کم ترین سطح پر ہے۔مارچ میں مہنگائی کی شرح 0.69 فیصد، جولائی تا مارچ 5.25 فیصد رہی ہے۔ اس موقع پر حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان چھوٹی صنعتوں کے لیے کتنا مؤثر ہے۔؟ اس حوالے سے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بزنس فورم کراچی کے صدر سہیل عزیز نےکہا کہ وزیر اعظم کا بجلی کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ احسن اقدام ہے اور یہ سب بزنس کمیونٹی کی محنت اور سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں ممکن ہوسکا ہے۔ ہماری صنعت کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بہت سے مسائل کا سامنا تھا کیونکہ ہماری یوٹیلٹی کی قیمت ہمسائے ممالک کے مقابےمیں زیادہ ہے ہم ابھی بھی 14 سینٹس پر بجلی خرید رہے ہیں جبکہ بھارت،بنگلہ دیش اور سری لنکا میں یہ قیمت 9 روپے ہے مگر اب بزنس کمیونٹی کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی پروڈکشن میں اضافہ کریں دوبارہ بہتر حکمت عملی کے ساتھ نئے آئڈیاز پر کام کریں تاکہ کاروباری سرگرمیوں کو مزید فروغ مل سکے۔ سیہل عزیز سمجھتے ہیں کہ ماضی میں جو سرمایہ کار ہمسائے ممالک کا رخ کرتے تھے اب صنعتکاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوبارہ سے ملک میں سرمایہ کاروں کو دعوت دیں کیونکہ بجلی کی قیمتوں میں کمی سے سرمایہ کاروں کی توجہ زیادہ بڑھ جاتی ہےاس کے نتیجےمیں روزگار اور سرمایہ کاری کو بھی ملک میں فروغ ملے گا۔ مگر ایک اہم ضرورت ہے کہ جہاں حکومت نے مختلف آئی پی پیز سے معاہدے ختم کرتے ہوئے قومی خزانے کو بڑے نقصان سے بچایا ہے وہیں اب بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف بھی مؤثر اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔بہت سے جگہوں پر لوگ کنڈے لگا کر بجلی کا استعمال کر رہےہیں اس پورے عمل کی روک تھام نہایت ضروری ہے بجلی قیمتوں میں کمی کے ساتھ اس کی تقسیم کے نظام کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر جنید نقی نےوزیر اعظم کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں کمی کو بڑا ریلیف قرار دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوگااور کاروباری لاگت میں نمایاں کمی آئے گی کمرشل صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں 7.59 روپے فی یونٹ کمی کر کے 40.60 روپے مقرر کرنا ایک مثبت پیش رفت ہے، جو جون 2024 میں 58.50 روپے فی یونٹ تھی۔مسابقتی توانائی نرخوں کے بغیر پاکستان کی انڈسٹری خطے کے دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی، لیکن وزیر اعظم کے اس فیصلے سے عالمی مارکیٹ میں ایک بار پھر اپنا مقام مضبوط کر سکتے ہیں۔ کاروباری برادری سے تعلق رکھنے والے عامر رفیع کے مطابق بڑی صنعتوں کو تو حکومت کی جانب سے ریلیف دیا گیا ہےمگر چھوٹے کاروباری یا نئے اسٹاٹپ کرنے والے افراد کے لیے بھی بجلی کی قیمتوں کو مزید کم کرنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر جب کوئی نوجوان تعلیم سے فراغت کے بعد کاروبار کا آغاز کرتا ہےتو اس کا سرمایہ کم ہوتا ہےاور وسائل محدود، ایسی صورتحال میں اسے اگر سستی بجلی فراہم کی جائے تو آن لائن انڈسٹری کو بھی فروغ مل سکے گا۔ اس وقت آن لائن کاروبار میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ معاشی سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ایسی صورتحال میں انہیں اور بالخصوص معذور افراد جو کسی بھی طرح کے کاروبار سے وابستہ ہیں انہیں بھی مزید سستی بجلی حکومت کی جانب سے فراہم ہونا نہایت ضروری ہے۔ چھوٹے کاروبار ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں اگر انہیں بھی ریلیف فراہم کیا جائے تو ملک کی معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے میں یہ لوگ مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ احمد آئی ٹی انڈسٹری سے تعلق رکھنے والےایک نوجوان ہیں۔یہ گذشتہ پانچ سال سے فری لانسگ اور ای کامرس کر رہے ہیں ابتداء میں انہوں نے یہ کام خود شروع کیا اور پھر 10 افراد کواپنی ٹیم میں شامل کیا۔ مگر بجلی کے بھاری بلز کی وجہ سے ان کےکاروبار پر اثر پڑا۔ ابتداء میں انہوں نے اپنی ٹیم کو آؤٹ سورس کردیا تاکہ آفس کے اخراجات کم ہوسکیں گے۔ احمد کے مطابق انہوں نے محدود وسائل سے کاروبار کا آغاز کیا مگر منافع آنے کے بعد بجلی کے بلز کی وجہ سے ان کا بجٹ شدید متاثر ہوا ہے۔اگر بجلی کی قیمتوں میں کمی پاکستان میں آن لائن کاروبار کرنے والے افراد کو بھی دی جائے تو آئی ٹی ایکسپورٹ جو کہ گذستہ سال تین بلین ڈالر سے زیادہ تھی اس میں بڑا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے حکومت کو باقاعدہ فریم ورک بناتے ہوئے فری لانسر کی رجسٹریشن کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو بھی ریلیف دیا جاسکے۔ پاکستان میں فری لانسنگ اور ای کامرس کا بہت وسیع اسکوپ موجود ہے حکومت اگر اس شعبے پر بھی دھیان دے تو یقنی طور پر ہم بھی ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یوں تو ملکی معشیت میں بجلی کے نرخ میں کمی صنعت کے لئے بھی فائدے مند ہیں مگر اس کے حوالے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف پہلے بتا چکے ہیں کہ ملک میں سالانہ 600 ارب کی بجلی چوری ہوتی
ونسٹن چرچل: لکھاری اور عظیم رہنما یا ضدی اور ناکام شخص؟

دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برطانوی وزیراعظم ‘ونسٹن چرچل’ کی شخصیت کا جادو آج بھی بہت سے لوگوں پر طاری ہے۔ اس کی باتیں، اس کے فیصلے اور رہنمائی آج بھی تاریخی حوالوں میں زندہ ہیں۔ لیکن ایک سوال جو اب تک زندہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ونسٹن چرچل واقعی ایک عظیم ہیرو تھا یا پھر وہ ایک جنگی مجرم تھا جس نے اپنی قوم کے مفاد کے لیے لاکھوں انسانوں کی جانوں کو نظرانداز کیا؟ اس سوال کا جواب کئی زاویوں سے دیا جا سکتا ہے لیکن جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ چرچل کی میراث اتنی سادہ نہیں جتنی دکھائی دیتی ہے۔ چرچل کو بچپن میں ہمیشہ ایک ہیرو کی طرح پیش کیا گیا تھا، اس کی قیادت اور عظمت کی کہانیاں پڑھ کر انسان کا دل جوش و جذبے سے بھر جاتا تھا۔ اینڈ بلائیٹن جیسے مصنفین نے ان کی زندگی کو ایک سنہری مثال کے طور پر پیش کیا ہے انکا کہنا تھا کہ “جیسے جیسے میں بڑی ہوئی اور ہندوستان کی نوآبادیاتی تاریخ سے آگاہ ہوئی تو مجھے اس ’ہیرو‘ کی حقیقت کا پتا چلا۔ چرچل کی شخصیت کو صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کئی سوالات کا سامنا ہے۔” انہوں نے لکھا کہ “ہندوستان میں چرچل کے بارے میں رائے بہت مختلف ہے۔ جب میں نے انڈیا کی آزادی کے جنگی منظرنامے پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ برطانوی استعمار کے دوران کئی لوگوں کی زندگیوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا گیا اور وہ شاید چرچل کے ’ہیرو‘ ہونے کے دعووں کو مشکوک بناتا ہے۔ بنگال کا قحط 1943ء جس میں تقریباً تیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس پر برطانوی وزیراعظم چرچل کا کردار تاریخ میں ہمیشہ کے لیے سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ چرچل نے اس قحط کو ایک ’طبیعی حادثہ‘ قرار دیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قحط کے پیچھے برطانوی حکومت کی غلط حکمت عملی اور امداد کی کمی تھی۔ اس کے علاوہ جنگی حکمت عملی کے تحت فصلوں اور کشتیوں کو تباہ کر دینے والے چرچل کے فیصلے نے پورے بنگال میں قحط کی صورتحال کو بدترین بنا دیا۔ چرچل کا یہ ماننا تھا کہ جاپانیوں کے حملے کی صورت میں بنگال میں غذا کی فراہمی روکنی ہوگی تاکہ جنگی وسائل پر کوئی اثر نہ پڑے۔ لیکن لاکھوں بے گناہ انسانوں کی جانوں کی قیمت پر اس حکمت عملی کا کیا جواز تھا؟ مزید برآں، چرچل نے انڈیا کے عوام کے بارے میں انتہائی متعصبانہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ونسٹن چرچل ہندوستانیوں کو ’جنگلی‘ اور ’غلیظ‘ سمجھتے تھے اور ان کی نظر میں ہندوستان کی آزادی کے قابل نہیں تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’ہندوستانیوں کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، اگر انہیں آزاد کر دیا گیا تو ملک کا بٹوارہ اور انتشار ہوگا۔‘‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک وزیراعظم کے منہ سے نکلے تھے اور جو اپنے ہی ملک کے باشندوں کو غلام بنانے کا حق سمجھتا تھا۔ اس سب کے باوجود چرچل کی زندگی میں ایک پیچیدہ حقیقت چھپی ہوئی ہے جبکہ دوسری جنگ عظیم میں اس کی قائدانہ صلاحیتوں کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ اس کی قیادت میں برطانوی فوج نے جرمنی کو شکست دی اور اس نے دنیا کو ایک نیا رخ دیا تھا۔ اس کی جنگی حکمت عملی اور فیصلہ کن فیصلوں نے برطانیہ کو تاریخ کے اس مشکل ترین وقت میں بچا لیا تھا۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ چرچل کی ہر بات کو محض ہیرو کی نظروں سے دیکھا جائے؟ جہاں ایک طرف اس کی قائدانہ صلاحیتیں غیر معمولی تھیں وہیں دوسری طرف اس کا رویہ اور متعصب سوچ بہت سے لوگوں کے لیے ایک المیہ بھی بنی۔ انڈین اور افریقی اقوام کے بارے میں ونسٹن چرچل کے بیانات اور پالیسیوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا تھا۔ اگر ہم چرچل کو ایک جنگی ہیرو کے طور پر دیکھیں تو اس کے سیاسی اقدامات کی حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے برطانوی سلطنت کی عزت کو بچانے کے لیے جرات مندانہ فیصلے کیے تھے لیکن ان فیصلوں نے لاکھوں انسانوں کی جانیں بھی لیں۔ کیا یہ کسی ’ہیرو‘ کا کام ہے؟ یا پھر یہ ایک جنگی مجرم کے اقدامات ہیں؟ چرچل کی شخصیت کو محض ایک زاویے سے دیکھنا کافی نہیں بلکہ اس کی زندگی میں کئی ایسی داستانیں چھپی ہوئی ہیں جو ہمیں اس کی حقیقی تصویر دکھاتی ہیں۔ آج جب ہم چرچل کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اس کی یادوں کے ساتھ ساتھ اس کی پالیسیوں کے اثرات کو بھی یاد رکھنا ہوگا۔ اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کے ‘لکھاری اور عظیم رہنما یا ضدی اور ناکام شخص’ ہونے کے سوال کا جواب دیتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی برسی: ایک رہنما کی قربانی یا سیاسی انتقام؟

آج 4 اپریل 2025 کو پاکستان کے سیاسی منظرنامے کا ایک اہم اور متنازعہ کردار ذوالفقار علی بھٹو کی 45ویں برسی ہے۔ ان کی زندگی، ان کے فیصلے اور بالآخر ان کی پھانسی نے پاکستانی سیاست کو ایک نیا رخ دیا۔ یہ 4 اپریل کا دن نہ صرف پاکستان کے عوام کے لیے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک اہم یادگار بن چکا ہے، جہاں سیاسی، عدلیہ اور عوامی حقوق کے سوالات ہمیشہ کے لیے قائم ہو گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی سفر ایک ایسے وقت میں شروع ہوا، جب پاکستان کا معاشی اور سیاسی منظرنامہ بحران کی زد میں تھا۔ 1950 کی دہائی کے آخر میں ایوب خان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو ان کے مشیر کے طور پر حکومت میں شامل ہوئے۔ تاہم، بھٹو کی ذاتی سیاست اور نظریات ایوب خان کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھے اور یہی کشیدگی بعد میں ایک بڑے سیاسی تصادم کی صورت میں سامنے آئی۔ 1967 میں بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، جو نہ صرف ایک سیاسی جماعت تھی بلکہ ایک نئے سیاسی بیانیے کی نمائندگی کرتی تھی۔ پی پی پی کے قیام کا مقصد عوامی حقوق اور انصاف کا حصول تھا۔ ان کا نعرہ ‘روٹی، کپڑا اور مکان’ آج بھی عوام کے ذہنوں میں زندہ ہے، جو ایک سادہ مگر طاقتور پیغام تھا۔ بھٹو کی جماعت نے جلد ہی عوامی حمایت حاصل کی اور 1970 کے انتخابات میں پی پی پی ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان کا جوہری پروگرام تھا، جس کی بنیاد انہوں نے رکھی۔ 1974 میں ایٹمی پروگرام کا آغاز کرنے کے بعد پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں ایک نیا موڑ آیا۔ بھٹو نے پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنانے کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کی، ساتھ ہی انہوں نے 1973 میں پاکستان کا آئین منظور کرایا، جو ملک میں جمہوریت اور وفاقی ڈھانچے کی بنیاد تھا۔ بھٹو نے غریب عوام کے حق میں مختلف اصلاحات بھی کیں، جن میں زرعی اصلاحات، صنعتوں کی نیشنلائزیشن اور تعلیم میں سرمایہ کاری شامل تھی۔ ان کی حکومت نے 1972 میں انڈیا کے ساتھ شملہ معاہدہ کیا، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنا تھا۔ لیکن بھٹو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ان کی پالیسیوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی کو جنم دیا۔ ان کے لیے یہ بہت مشکل تھا کہ وہ فوجی قیادت اور سول حکومت کے درمیان توازن قائم رکھیں۔ 1977 میں ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات نے ملک میں ایک سیاسی بحران پیدا کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اس کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج شروع ہو گیا۔ اس بحران کے دوران جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو مارشل لاء نافذ کیا اور بھٹو کو گرفتار کر لیا۔ بھٹو پر الزام تھا کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما نواب محمد احمد خان کی ہلاکت کے لیے سازش کی تھی۔ ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور انہیں 1979 میں سزائے موت سنا دی گئی۔ یہ وہ لمحہ تھا، جب پاکستان کی سیاست میں ایک نیا موڑ آیا اور یہ سوال اٹھا کہ آیا ان کے خلاف عدالت نے انصاف کیا تھا یا انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا؟ بھٹو کی پھانسی کے فیصلے پر دنیا بھر میں تنازعہ ہوا۔ ان کی موت کے بعد عالمی سطح پر مختلف رہنماؤں نے ان کی پھانسی کو “عدالتی قتل” قرار دیا۔ ان کے مقدمے کی قانونی پیچیدگیوں اور ان کے ساتھ ہونے والی غیر منصفانہ کارروائیوں پر سوالات اٹھائے گئے۔ بھٹو کے حامیوں کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ ایک سیاسی سازش کی گئی تھی اور ان کے قتل کے پیچھے صرف ذاتی اور سیاسی وجوہات تھیں۔ سپریم کورٹ نے چھ فروری 1979 کو چار اور تین کے تناسب سے منقسم فیصلے میں ہائیکورٹ کی سزا کو بحال رکھا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے ان کے سیاسی ورثے کو آگے بڑھایا۔ بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی پارٹی کی قیادت سنبھالی اور پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ایک نیا اثر ڈالا۔ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پی پی پی نے پاکستان کی سیاست میں اہم تبدیلیاں کیں اور وہ بھی ملک کی وزیر اعظم بنیں۔ آج بھی پاکستان پیپلز پارٹی اپنے سیاسی بیانیے میں بھٹو کے نام اور ان کی سیاسی حکمت عملی کو اہمیت دیتی ہے۔ ان کے حامیوں کا ماننا ہے کہ بھٹو ایک حقیقی رہنما تھے، جو عوام کے حقوق کے لیے لڑتے تھے، جب کہ مخالفین انہیں ایک طاقت کے خواہش مند حکمران کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بھٹو کا سیاسی ورثہ آج بھی پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں اثر انداز ہو رہا ہے۔ ان کی پھانسی کے باوجود ان کا نام پاکستان کے عوامی شعور میں زندہ ہے۔ آج بھی مختلف مواقع پر ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور ان کی قربانی پر سوالات اٹھتے ہیں۔ 45 سال بعد بھی یہ سوالات ہیں کہ کیا بھٹو کی پھانسی صرف ایک سیاسی انتقام تھا؟ کیا ان کے ساتھ انصاف ہوا تھا؟ اور کیا پاکستان میں اس وقت کے عدلیہ نے ان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا؟ ان سوالات کا جواب شاید ہم کبھی نہ پائیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھٹو کا سیاسی ورثہ پاکستان کی سیاست میں ایک گہرا اثر چھوڑ چکا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی اور ان کی پھانسی ایک متنازعہ اور پیچیدہ باب ہے، جو آج بھی پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ 4 اپریل کو ان کی برسی کے موقع پر ان کے حامی انہیں ایک شہید کے طور پر یاد کرتے ہیں، جب کہ مخالفین ان کی حکمرانی کو بدعنوانی اور طاقت کے لالچ میں مبتلا دیکھتے ہیں۔ ان کا ورثہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب شاید وقت کے ساتھ بھی مکمل نہیں مل سکے گا، لیکن ان کا سیاسی اثر ہمیشہ پاکستان کے عوامی اور سیاسی ذہنوں میں زندہ رہے گا۔
کیا جدید ٹیکنالوجی کی قیمت ملازمین کی نوکریاں ہیں؟

جب آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) کی بات ہوتی ہے تو اکثر ذہن میں ایک خوفناک منظرنامہ آتا ہے جہاں مشینیں انسانوں کی جگہ لے رہی ہیں اور بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے؟ یا پھر حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور متوازن ہے؟ یہ سوال آج کل ہر اس شخص کے ذہن میں ہے جو ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھ رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کوئی نیا رجحان نہیں۔ صنعتی انقلاب کے دوران بھی مشینوں نے ہاتھوں سے کی جانے والی کئی ملازمتوں کو ختم کر دیا تھا، لیکن ساتھ ہی نئے مواقع بھی پیدا ہوئے تھے۔ آج آرٹیفیشل انٹیلیجنس اسی طرز پر آگے بڑھ رہی ہے۔ مختلف صنعتی اور سروس سیکٹرز میں خودکار نظاموں کے متعارف ہونے سے بے شمار کام جو پہلے انسانوں کے ذریعے کیے جاتے تھے، اب مشینوں کے سپرد ہو رہے ہیں۔ کئی تحقیقی رپورٹس کے مطابق، اے آئی کی ترقی سے کچھ ملازمتیں ختم ہوں گی، لیکن اس کے ساتھ ہی نئی نوکریوں کے دروازے بھی کھلیں گے۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے ماہر معاشیات ڈاکٹر ساجد حسین کہتے ہیں، ”یہ درست ہے کہ اے آئی کچھ روایتی نوکریوں کو ختم کر سکتی ہے، خاص طور پر وہ کام جو دہرائے جانے والے اور مخصوص اصولوں کے تحت کیے جاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ نئی صنعتوں کو بھی جنم دے گی، جن میں زیادہ تخلیقی اور تجزیاتی مہارتوں کی ضرورت ہو گی۔” سب سے زیادہ خطرہ ان شعبوں کو ہے جہاں دفتری کام زیادہ ہے، جیسے ڈیٹا انٹری، اکاؤنٹنگ، کسٹمر سروس، اور مینوفیکچرنگ۔ کئی بڑی کمپنیاں اب خودکار چیٹ بوٹس کا استعمال کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے کسٹمر سپورٹ کے روایتی نمائندوں کی ضرورت کم ہو رہی ہے۔ لندن میں قائم ایک تحقیقاتی ادارے کے مطابق، آئندہ 10 سالوں میں اے آئی کے باعث تقریباً 30 فیصد ملازمتیں ختم ہونے کا امکان ہے۔ لیکن ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے اے آئی کے ماہر، فہد قریشی، جو ایک عالمی ٹیکنالوجی فرم سے وابستہ ہیں، اس پر ایک مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”یہ کہنا غلط ہوگا کہ اے آئی صرف نوکریاں ختم کر رہی ہے۔ اصل میں یہ ملازمتوں کی نوعیت کو تبدیل کر رہی ہے۔ نئی ٹیکنالوجیز کے ماہرین، ڈیٹا سائنسدانوں، مشین لرننگ انجینئرز، اور اے آئی ایثکس کے ماہرین کی طلب میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔” جہاں ایک طرف اے آئی مزدور طبقے کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے، وہیں دوسری طرف اس نے مختلف فیلڈز میں نئی راہیں بھی کھولی ہیں۔ صحت کے شعبے میں، اے آئی پر مبنی تشخیصی نظام ڈاکٹروں کی مدد کر رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے اے آئی کے ذریعے ذاتی نوعیت کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں بھی، اے آئی سے چلنے والے الگورتھمز خبروں کی ترسیل اور تجزیہ کو بہتر بنا رہے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے صحافی سارہ نذیر، جو ٹیکنالوجی اور معاشرتی اثرات پر تحقیق کر رہی ہیں، کہتی ہیں، ”اے آئی نے میڈیا انڈسٹری میں ہلچل مچا دی ہے۔ آج کئی نیوز ایجنسیز اے آئی کی مدد سے رپورٹس تیار کر رہی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحافیوں کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آیا صحافی خود کو نئی ٹیکنالوجی کے مطابق ڈھال سکیں گے یا نہیں۔” نوجوانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ خود کو بدلتی ہوئی دنیا کے مطابق تیار کریں۔ تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ جن طلبہ کے پاس تخلیقی صلاحیتیں، جذباتی ذہانت، اور تکنیکی مہارتیں ہوں گی، وہ اے آئی کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باوجود ملازمتیں حاصل کر سکیں گے۔ اس کے برعکس، جو افراد پرانے انداز میں ہی نوکریوں کو تلاش کریں گے، انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کچھ ممالک میں حکومتیں پہلے ہی اس تبدیلی کے لیے تیاری کر رہی ہیں۔ جرمنی، جاپان، اور امریکہ میں نئے تعلیمی پروگرام متعارف کروائے جا رہے ہیں جو طلبہ کو ڈیجیٹل مہارتیں سکھانے پر مرکوز ہیں۔ پاکستان اور بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لائیں تاکہ نئی نسل اس بدلتی دنیا میں اپنی جگہ بنا سکے۔ کیا اے آئی واقعی نوکریاں ختم کر دے گی؟ شاید یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ آنے والے سالوں میں ملازمتوں کی نوعیت ضرور تبدیل ہو گی۔ انسانوں کو ان تبدیلیوں سے گھبرانے کے بجائے خود کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ جو زمانے کے ساتھ نہیں بدلتا، وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔
کیریئر کی پہلی سیڑھی، انٹرنشپ اب چند کلکس کی دوری پر

پاکستان میں بے روزگاری کی شرح گزشتہ دس سالوں کی نسبت ڈیڑھ فیصد سے بڑھ کر سات فیصد پر پہنچ گئی ہے جو بھارت اور بنگلہ دیشن سے بھی زیادہ ہے ۔بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے سالانہ 15 لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت ہے لیکن ملک کی آبادی میں سالانہ 50 لاکھ افراد کا اضافہ اس میں رکاوٹ ہے جس پر قابو پائے بغیر تعلیم،روزگار اور صحت کی بہتر سہولیات فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو رواں سال پلانگ کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ میں شامل ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ اب روزگار کے حوالے سے بہتر مواقع فراہم کرنا جو کہ حکومت کی اولین ذمے داریوں میں شامل ہے کیا وہ اس میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے؟ اس بات کا جواب کسی سے بھی مخفی نہیں ہے۔ایسی صورتحال میں دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ ترقی پاتی ہوئی صنعت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ہے جس کا حال اور مستقبل دونوں ہی تابناک ہے۔ پاکستان میں بھی آئی ٹی سیکٹر میں ہنر مند افراد کےلیے روزگار کے بہت سے مواقع موجود ہیں کیونکہ گذشتہ سال آئی ٹی سیکٹر میں پاکستان نےتین ارب ڈالرسے زائد کی ایکسپورٹ کی تھی جو کہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ آئی ٹی سیکٹر میں وسیع کاروبار کے فروغ اور ہنرمند نوجوانو کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے کراچی کے دو گریجویٹ نوجوان ریان اور حمادنہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں چند سال قبل ہی ایک نجی جامعہ سے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن مکمل کرنے کےبعد ان دونوں نے انٹرنی ڈاٹ پی کےکی بنیاد رکھی۔ یہ انٹرنشپ حاصل کرنے کے لیے تیار کیاگیا ایک آن لائن پورٹل ہے جس میں آئی ٹی سیکٹر کی تعلیم حاصل کر نے والا کوئی بھی فرد اپنے تعلیمی سفر کے دوران باآسانی کسی بھی کمپنی میں تجربہ حاصل کرنے کے لیے انٹرنشپ حاصل کرسکتا ہے اور اس ضمن میں مکمل طور پر یہ پورٹل ان کی معانت کرتا ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئےفاؤنڈر انٹرنی ڈاٹ پی کے حماد شیخ کا کہنا تھا مارکیٹ میں بہترین انداز کے ساتھ سوفٹ ویئر ڈیلوپمنٹ ،کوڈنگ اور سوفٹ ویئر کے مسائل کو تکنیکی طور پر بہتر جاننے والے افراد کی کمی ہے جبکہ کہ ہر سال تقریباً 25 ہزار آئی ٹی گریجوٹس نوکریوں کا خواب سجائے مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں مگر نوکری حاصل نہیں کرپاتے یہی اس کی بنیادی وجہ ہے ۔ ہمیں بھی یونیورسٹی میں دوران تعلیم اس بات کا خوف تھا کہ کیا ہمیں نوکری مل پائے گی؟ اور کیا ہم انڈسٹری کے جدید تقاضوں کے مطابق کام کر پائیں گے؟ یہی وہ سوالات تھے جو بعد میں انٹرنی ڈاٹ پی کو بنانے کی وجہ بنے ۔ پاکستان میں آئی ٹی سیکٹر میں نوکریاں تو موجود ہیں مگرکسی بھی پوزیشن پر ہائر ہونے والے افراد کمپنی کی توقعات پر پورا نہیں اتر پاتےمثلاً عام طور پرایک ڈیولپر کو 40 ہزارکی تنخواہ میں نوکری پر رکھا جاتا ہے اور ادارے کی توقعات یہ ہوتی ہیں کہ وہ انہیں کم از کم دولاکھ روپے کما کر دے مگر اکثر ایسا نہیں ہوپاتا۔ اس کی بنیادی وجہ معیاری اسکلز کا نا ہونا ہے۔ ہم نے اسی لیے انڈسٹری اور یونیورسٹی کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس پروجیکٹ میں شریک ریان کا کہنا ہے کہ اس پورٹل کو ہم نےصرف انٹرنشپ تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ اس کو ہم لرنگ مینجمنٹ سسٹم کے طور پر بھی چلارہے ہیں ۔ ہم نے مصنوعی ذہانت آے آئی کے کئی ٹولز کواس میں شامل کیا ہے جن کی مدد سے انٹرنشپ کے لیے انٹرویو کی تیاری بھی کی جاسکتی ہے۔ ہم نے ویب ڈولپمنٹ اور سوفٹ ویئر مینجمنٹ کے کئی کورسز کو بھی اس کاحصہ بنایا ہے کہ سیکھنے اور تجربے کے بعد کسی کو اچھی نوکری مل سکے اور اس کی اسکلز میں بھی اضافہ ہو۔ فی الحال تو یہ پورٹل صرف پاکستان تک محدور ہے مگر مستقبل میں ہم اسے بین الاقوامی سطح پر بھی وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں آئی ٹی سیکٹر کی کئی کمپنیز سے ہمارا رابطہ موجود ہے۔پاکستان میں نوکری حاصل کرنے کے کئی پلیٹ فارمز موجود ہیں جو بہتر کام بھی کر رہے ہیں مگر ہمارا کام اور انداز سب سے مختلف ہے ہم اس کو ایک مکمل کرئیر پلٹ فارم کہتے ہیں جس میں سیکھنے کے بعد انٹرنشپ اور پھر جاب کا مرحلہ طے کیا جاتا ہے۔ ہم خود سب سے پہلے کسی بھی جاب آفر کے لیے جاری ہونے والے اشتہار اور کمپنی کے معیار کا جائزہ لیتے ہیں پھراسے اپنے پورٹل پر اپلوڈ کرتے ہیں ،ہمارے پاس اس وقت لنکڈن پر صرف50 ہزار سے زائد فالورز موجود ہیں۔ ہم فری لانسنگ کو بھی اپنے مختلف سوشل پلیٹ فارمز سے فروغ دیتے ہیں کیونکہ کہ لوگ اب نوکری کے علاوہ فری لانسنگ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جوکہ خوش آئند پیش رفت ہے ۔ حماد شیخ نے اس اقدام کے بارے میں مزید بتایا کہ کام شروع کرنے سے پہلے یہی خدشات ہوتے ہیں کہ یہ کامیاب ہوگا یا نہیں ؟ کام کے دوران اکثر مورال ڈاؤن بھی ہوجاتا ہے مگر جب ہمیں نوجوان اپنی کالز اور میسجز کے ذریعے بتاتے ہیں کہ آپ کی وجہ سے ہم کسی کمپنی میں انٹرنشپ کر رہے ہیں اور اس کے بعد ہمیں ملازمت کی آفر ہے تو یہ سب سن کر ہمارا دل مزیدچاہتا ہے کہ ہم بہتر انداز میں کام کریں۔ ہمارے پاس کامیابی انٹرنشپ پروگرام کی کئی داستانیں ہیں سسٹمز جیسی بڑی آئی کمپنی میں بھی ہمارے توسط سے لوگوں نے انٹرنشپ مکمل کی اور اب وہ باقاعدہ وہاں مختلف پوزیشن پر ملازمت کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں حکومت کی کوئی خاطر خواہ سرپرستی تو حاصل نہیں ہے مگر ہم پھر بھی ہم قومی سطح پر ہونے والے بہت سے مقابلوں میں تین بار نیشنل چیمپئن رہے ہیں۔ جہاں تک سوال ہے کہ یہ بزنس ماڈل کام کس طرح کرتا ہے؟ تو ہم نے اس پورٹل کی سبسکرپشن فیس رکھی ہے جبکہ پورٹل پر آن لائن ٹیچر بھی موجود ہیں اس کے ذریعے سے
مہنگائی کے کاغذی اعدادوشمار اور زمینی حقیقت میں تضاد کیوں؟

پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں حالیہ کمی کے سرکاری دعوے خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں، مگر عام شہریوں کو اب بھی بنیادی ضروریات کی خریداری میں مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت کے مطابق معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور مہنگائی میں نمایاں کمی آئی ہے، لیکن عوامی سطح پر اس کا اثر کم ہی محسوس کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق جنوری 2025 میں صارفین کی قیمتوں کا اشاریہ (CPI) 2.41 فیصد ریکارڈ کیا گیا، جو 2024 میں 24 فیصد تھا۔ فروری 2025 میں یہ شرح مزید کم ہوکر 1.5 فیصد تک آ گئی، جو گزشتہ کئی سالوں کی کم ترین سطح ہے۔ مہنگائی کی کمی کے بنیادی عوامل میں عالمی منڈی میں پیٹرول اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں کمی، اسٹیٹ بینک کی سخت مالیاتی پالیسی، جس نے افراط زر کو کم کرنے میں مدد دی، حکومت کے کفایت شعاری کے اقدامات اور اخراجات میں کمی اور درآمدی اشیاء پر پابندیوں کے باعث روپے کی قدر میں استحکام ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پالیسی ریٹ 12 فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے تاکہ مہنگائی کو مزید قابو میں رکھا جا سکے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ معیشت درست سمت میں گامزن ہے اور آنے والے مہینوں میں مزید بہتری کی امید ہے۔ اگرچہ سرکاری اعدادوشمار مہنگائی میں کمی ظاہر کر رہے ہیں، لیکن بازاروں میں صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں کیے گئے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ عوام کو روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں کوئی خاص کمی محسوس نہیں ہو رہی۔ لاہور کی ایک گھریلو خاتون نے شکایت کی ہے کہ اگر مہنگائی کم ہوگئی ہے تو چینی، آٹا اور دالیں کیوں مہنگی مل رہی ہیں؟ گزشتہ سال جو 150 روپے کا تھا، وہ اب 250 روپے میں مل رہا ہے۔ کراچی کے ایک دکاندار نے کہا کہ حکومت کہتی ہے مہنگائی کم ہو گئی، مگر لوگ پہلے کی طرح خریداری نہیں کر رہے۔ عام آدمی کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں، جس سے کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں ایک سرکاری ملازم نے کہا ہے کہ تنخواہ تو وہی ہے، مگر بجلی، گیس، بچوں کی اسکول فیس اور دیگر اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ جب آمدنی نہیں بڑھے گی تو عام آدمی کیسے محسوس کرے گا کہ مہنگائی کم ہو گئی ہے؟” بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں کم کیوں نہیں ہو رہیں؟ گزشتہ چھ ماہ میں بجلی کے نرخوں میں کئی مرتبہ اضافہ کیا گیا، جس سے عام گھریلو صارفین کے ماہانہ بل بڑھ گئے ہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت کیا گیا، مگر عوام کے لیے یہ ایک بڑا بوجھ بن چکا ہے۔ جنوری 2025 میں گھریلو صارفین کے لیے گیس کے نرخوں میں 35 فیصد اضافہ کیا گیا۔ تجارتی اور صنعتی صارفین کو بھی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا ہے، جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمت کم ہونے کے باوجود مقامی سطح پر اس کا فائدہ عام شہریوں تک نہیں پہنچا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر میں کمی کے باوجود، ٹیکسز اور دیگر عوامل کی وجہ سے قیمتوں میں نمایاں کمی ممکن نہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی شرح میں کمی کا مطلب یہ نہیں کہ ہر چیز سستی ہو گئی ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ قیمتوں میں اضافے کی رفتار کم ہوئی ہے۔ نجی اور سرکاری شعبے میں تنخواہیں کئی سالوں سے تقریباً جمود کا شکار ہیں۔ کاروباری طبقہ بھی معاشی سست روی کی وجہ سے زیادہ ملازمتیں پیدا نہیں کر رہا۔ افراط زر میں کمی اور مہنگائی میں کمی الگ چیزیں ہیں۔ حکومت جو مہنگائی میں کمی کی بات کر رہی ہے، وہ افراط زر (Inflation Rate) کی شرح میں کمی ہے، جب کہ عوام جو مہنگائی محسوس کرتے ہیں، وہ روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عوام کو حقیقی ریلیف تب مل سکتا ہے، جب حکومت اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر سخت کنٹرول، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری روکنے کے لیے سخت اقدامات کرے۔ تنخواہوں اور آمدنی میں اضافہ مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے تنخواہوں میں مناسب اضافہ کرے، بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخ کم کر کے عوام کو ریلیف دے۔ حکومت مہنگائی میں کمی کے دعوے کر رہی ہے، لیکن عوام کو ریلیف محسوس نہیں ہو رہا۔ عالیہ حمزہ نے کہا ہے کہ حکومت جو مہنگائی میں کمی کے دعوے کر رہی ہے، وہ صرف کاغذی اور سرکاری رپورٹس تک محدود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام آج بھی آٹے، چینی، گھی اور دیگر روزمرہ اشیاء کے لیے پریشان ہیں۔ جب عام آدمی کی قوتِ خرید ختم ہو چکی ہو، بجلی اور گیس کے بل آسمان کو چھو رہے ہوں اور تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہ ہو تو ایسی ‘مہنگائی میں کمی’ کا کیا فائدہ؟ حکومت چاہے جتنے بھی دعوے کرے، زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں۔ پی ٹی آئی نے اپنی حکومت کے دوران بھی مہنگائی کو ایک بڑا چیلنج قرار دیا تھا۔ ایثار رانا نے کہا ہے کہ حکومت کاغذی دعوے کر رہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کم نہیں ہوئی بلکہ عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ افراطِ زر میں کمی صرف اعدادوشمار کا کھیل ہے، جب کہ بازار میں اشیائے خورونوش، بجلی، گیس اور پیٹرول بدستور مہنگے ہیں۔ ایثار رانا کا کہنا ہے کہ ہمارا میڈیا بھی دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ کچھ ادارے حکومتی بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، جب کہ کچھ صحافی عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مہنگائی پر میڈیا کا دباؤ وہ نہیں جو ہونا چاہیے تھا۔ ایثار رانا نے تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو سب سے پہلے بنیادی اشیاء کی قیمتوں پر سخت کنٹرول کرنا ہوگا، بجلی اور گیس کے بلوں میں کمی لانی ہوگی اور روپے کی قدر مستحکم کرنی
‘مسلم حکمرانوں کے پاس ہر چیز ہے مگر غیرت اور ہمت نہیں’ امیر جماعت اسلا می

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے عید الفطر کے پرمسرت موقع پر ادارہ ‘نور حق’ میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے امت مسلمہ اور پاکستانی عوام کو عید کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ دن اللہ کی طرف سے انعام اور رمضان المبارک کے روزوں کا نعم البدل ہے۔ تاہم، خوشیوں کے اس موقع پر فلسطین میں جاری ظلم و ستم ہر مسلمان کو غمزدہ کر رہا ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے اسرائیل کی جانب سے عید کے پہلے اور دوسرے روز فلسطین پر کی گئی وحشیانہ بمباری کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ قابض صیہونی فوج نے کھیلتے ہوئے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جبکہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے فلسطینی عوام ملبے کے ڈھیر پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ ان تمام ممالک پر بھی لعنت بھیجی جو اسرائیلی مظالم کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب اسرائیل پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا اور جو ممالک اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں وہ بھی اس انجام سے نہیں بچ سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کے حکمران بزدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر نے مسلم حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ہر چیز ہے مگر غیرت اور ہمت نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کو بارود فراہم کرنے میں امریکا کا براہ راست ہاتھ ہے مگر افسوس کہ ہماری حکومت اور اپوزیشن دونوں امریکا کے خلاف مذمتی بیانات دینے کے بجائے اس کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کی حامی کمپنیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بڑھتی ہوئی بدامنی پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت یکجہتی پیدا کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔ یہ بھی پڑھیں:عیدالفطر کی پرمسرت گھڑیاں، پاکستان بھر میں جوش و عقیدت کے ساتھ منائی جا رہی ہیں انہوں نے حکومت سے پوچھا کہ اگر کوئی غیر ملکی ایجنسی پاکستان میں متحرک ہے تو ہماری ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں؟ انہوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو اغواہ کیا جا رہا ہے ان پر بمباری کی جا رہی ہے جو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے انکشاف کیا کہ بلوچستان میں بمباری کے ذریعے معصوم چرواہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم کے اس بیان کو جھوٹ قرار دیا کہ دہشت گردوں کو مارا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا کہ اس ظلم کے ذمہ داروں کو قوم کے سامنے لانا ہوگا۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ ملک میں استحکام لانے کے لیے وسیع پیمانے پر مذاکرات ضروری ہیں جن میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔ اور انہوں نے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جماعت اسلامی عید کے بعد ملک بھر میں ایک بڑی تحریک شروع کرے گی جس میں امن و امان کی خراب صورتحال، بجلی کے بلوں میں اضافے، چینی اور آٹے کی قلت جیسے عوامی مسائل کو اجاگر کیا جائے گا اور کہا کہ جماعت اسلامی تمام صوبوں میں احتجاجی ریلیاں نکالے گی تاکہ عوام کے مسائل کو ایوان اقتدار تک پہنچایا جا سکے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے فارم 47 کے ذریعے عوام پر زبردستی حکومتیں مسلط کرنے کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ جب عوام کی مرضی کے بغیر فیصلے کیے جائیں گے تو فوج اور عوام کے درمیان دوریاں ختم نہیں ہوں گی۔ اگر فوج چاہتی ہے کہ عوام اور فوج کے درمیان اعتماد بحال ہو تو تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ پریس کانفرنس کے آخر میں انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرے اور پاکستان کو موجودہ مشکلات سے نکالے۔ مزید پڑھیں:عید الفطر: ‘ہمیں کشمیر اور فلسطین کے مظلوم بھائیوں کو آج کے دن یاد رکھنا ہوگا’ شہباز شریف
افغانستان: پاکستان اور ایران کے متصادم مفادات یا مشترکہ چیلنج؟

افغانستان کی سرزمین، جو تاریخ کی پیچیده اور متنازعہ سرحدوں کی گواہ ہے، یہ دھرتی ایک مرتبہ پھر عالمی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات کی کشمکش کا مرکز بن چکی ہے۔ اس سرزمین پر اثر و رسوخ قائم کرنے کی دوڑ میں جہاں عالمی طاقتیں مداخلت کر رہی ہیں، وہیں پاکستان اور ایران جیسے برادر اسلامی ممالک بھی اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ دونوں ممالک کی افغانستان کے حوالے سے پوزیشن مختلف ہونے کے باوجود ان کے مفادات کا انحصار ایک دوسرے پر بھی ہے۔ پاکستان اور ایران دونوں کی افغانستان کے حوالے سے اپنی الگ الگ ترجیحات اور مفادات ہیں۔ پاکستان کے لیے افغانستان کا استحکام نہ صرف اس کی قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے بلکہ اس کے لیے افغانستان میں ایک ایسی حکومت کا قیام بھی ضروری ہے جس میں تمام لسانی، سیاسی اور اقلیتی گروہوں کی نمائندگی ہو تاکہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ منہاج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشن کے پروفیسر ڈاکٹر حسن فاروق مشوانی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے جغرافیہ کو دیکھا جائے تو یہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے بیچ میں واقع ہے، جو عالمی طاقتوں کے مفادات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ ملک روس، چین، ایران اور پاکستان کے درمیان ایک اہم اسٹریٹجک علاقے کے طور پر موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی جغرافیائی اہمیت نے اسے عالمی طاقتوں کے لیے ایک چیلنج اور موقع بنا دیا ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ دہائیوں سے جنگ کی نظر ہے۔ پاکستان کی سرحد (ڈیورنڈ لائن) افغانستان کے ساتھ 2600 کلومیٹر سے زائد طویل ہے اور اس کا افغانستان میں مضبوط کردار پاکستان کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب ایران بھی افغانستان میں خاص طور پر طالبان حکومت کے قیام کے بعد اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ایران نے افغانستان میں بیرونی مداخلت کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اس خطے میں بیرونی مداخلت کے نتائج ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلتے ہیں۔ اس سب کا اشارہ بالواسطہ طور پر پاکستان کی جانب تھا، جو کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ روابط رکھتا ہے۔ ایران نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مل کر پاکستان کے ذریعے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن فاروق نے مزید کہا کہ افغانستان کے سیاسی عدم استحکام نے پاکستان اور ایران پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کے مطابق افغانستان میں عدم استحکام نے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا ہے، جب کہ ایران نے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کی ہے جیسے کہ وہاں کی سیاسی جماعتوں کو مدد فراہم کی، تجارتی تعلقات بڑھایا اور مختلف عسکری گروپوں کو سپورٹ بھی کیا، جب کہ دونوں ممالک نے اپنی داخلی سیاست میں افغانستان کی صورتحال کو اہمیت دی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی خارجہ پالیسی میں افغانستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ 1979 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران افغانستان کے ساتھ تعلقات میں تلخی آئی اور پاکستان نے افغان مجاہدین کی بھرپور حمایت کی۔ اس کے نتیجے میں سوویت یونین کی پسپائی ہوئی اور طالبان کی حکومت قائم ہوئی لیکن طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد بھی پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے کئی چیلنجز کا سامنا رہا۔ اسی دوران افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے پاکستان میں سماجی، معاشی اور سیکیورٹی مسائل بھی پیدا کیے، جو آج بھی حل طلب ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں پیچیدگیاں وقتاً فوقتاً بڑھتی رہی ہیں، خاص طور پر جب انڈیا نے افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ بڑھایا۔ انڈیا نے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا اور مختلف دہشت گرد گروپوں کو سپورٹ بھی کیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کو داخلی اور خارجی سطح پر شدید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ان تمام تر حالات میں ایران کا کردار اور اس کی پوزیشن پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ایران بھی افغانستان کے حوالے سے اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔ ایران اور پاکستان کے تعلقات میں تاریخی بنیادیں بھی بہت مضبوط ہیں، دونوں ممالک کے درمیان 805 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے اور دونوں کے تعلقات ثقافتی، مذہبی اور تجارتی سطح پر گہرے ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہم سمجھتا ہے۔ تاہم، ایران اور پاکستان کے درمیان کئی مسائل ایسے بھی ہیں، جو ان کے تعلقات میں مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بلوچ قومیت کے مسائل اور ایران کے ساتھ انڈیا کے اکانومک اور ثقافتی تعلقات کبھی کبھار ایران اور پاکستان کے درمیان دوریاں پیدا کرتے ہیں۔ ایران نے اپنے اقتصادی مفادات کے لیے انڈیا کے ساتھ تعلقات استوار کیے، لیکن پاکستان کی ناپسندیدہ پالیسیوں کے سبب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی رہی۔ اگرچہ ایران اور پاکستان دونوں افغانستان میں امن اور استحکام کے خواہاں ہیں لیکن ان کے مفادات کبھی کبھار ایک دوسرے سے متصادم نظر آتے ہیں۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت اس کے مفادات کے لیے ضروری ہے، جب کہ ایران افغانستان میں اپنی جغرافیائی اور سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح ایران نے پاکستان کو یاد دلایا ہے کہ افغانستان میں کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت کے نتائج ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ اس سب کے چلتے افغانستان کا مستقبل واضح نہیں ہے کیونکہ طالبان کے زیر اثر افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے افغان عوام، عالمی طاقتوں اور علاقائی ممالک کو مل کر کوششیں کرنی ہوں گیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اور ایران کے تعلقات کی نوعیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ دونوں ممالک کس طرح اپنے مفادات کو افغانستان میں ایک دوسرے کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں۔ پاکستان اور ایران دونوں کے لیے افغانستان میں قیام امن ایک چیلنج تو ہے، لیکن اگر دونوں ممالک اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر افغانستان میں استحکام کی کوشش کریں تو نہ صرف ان کے تعلقات میں بہتری آ سکتی
پاکستان اور امریکا کا کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ پر اتفاق

امریکا کی قائم مقام سفیر نٹالی بیکر نے وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات کے دوران پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کی اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ کے انعقاد پر اتفاق کیا، ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے پر بات چیت کی گئی۔ وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق اس ملاقات میں دونوں نے رواں سال جون میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ کے انعقاد پر اتفاق کیا۔ نٹالی بیکر نے جعفر ایکسپریس اور دیگر دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کو امریکا کا سٹریٹجک پارٹنر قرار دیا۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس موقع پر کہا کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کا یکجا ہونا ضروری ہے۔ مزید پڑھیں: ’بلوچ مظاہرین پرامن نہیں‘ پاکستان نے اقوام متحدہ کے بلوچستان سے متعلق بیان کو ‘افسوس ناک’ قرار دے دیا انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہا ہے اور اس کے لیے ہمہ جہتی پالیسی تیار کی جا رہی ہے۔ وزیر داخلہ نے امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کی ملک واپسی میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اور دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، خصوصاً بلوچستان میں جہاں جنگجوؤں نے کئی حملے کیے ہیں جن میں درجنوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔