افغانستان: پاکستان اور ایران کے متصادم مفادات یا مشترکہ چیلنج؟

افغانستان کی سرزمین، جو تاریخ کی پیچیده اور متنازعہ سرحدوں کی گواہ ہے، یہ دھرتی ایک مرتبہ پھر عالمی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات کی کشمکش کا مرکز بن چکی ہے۔ اس سرزمین پر اثر و رسوخ قائم کرنے کی دوڑ میں جہاں عالمی طاقتیں مداخلت کر رہی ہیں، وہیں پاکستان اور ایران جیسے برادر اسلامی ممالک بھی اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ دونوں ممالک کی افغانستان کے حوالے سے پوزیشن مختلف ہونے کے باوجود ان کے مفادات کا انحصار ایک دوسرے پر بھی ہے۔ پاکستان اور ایران دونوں کی افغانستان کے حوالے سے اپنی الگ الگ ترجیحات اور مفادات ہیں۔ پاکستان کے لیے افغانستان کا استحکام نہ صرف اس کی قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے بلکہ اس کے لیے افغانستان میں ایک ایسی حکومت کا قیام بھی ضروری ہے جس میں تمام لسانی، سیاسی اور اقلیتی گروہوں کی نمائندگی ہو تاکہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ منہاج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشن کے پروفیسر ڈاکٹر حسن فاروق مشوانی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے جغرافیہ کو دیکھا جائے تو یہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے بیچ میں واقع ہے، جو عالمی طاقتوں کے مفادات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ ملک روس، چین، ایران اور پاکستان کے درمیان ایک اہم اسٹریٹجک علاقے کے طور پر موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی جغرافیائی اہمیت نے اسے عالمی طاقتوں کے لیے ایک چیلنج اور موقع بنا دیا ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ دہائیوں سے جنگ کی نظر ہے۔ پاکستان کی سرحد (ڈیورنڈ لائن) افغانستان کے ساتھ 2600 کلومیٹر سے زائد طویل ہے اور اس کا افغانستان میں مضبوط کردار پاکستان کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب ایران بھی افغانستان میں خاص طور پر طالبان حکومت کے قیام کے بعد اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ایران نے افغانستان میں بیرونی مداخلت کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اس خطے میں بیرونی مداخلت کے نتائج ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلتے ہیں۔ اس سب کا اشارہ بالواسطہ طور پر پاکستان کی جانب تھا، جو کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ روابط رکھتا ہے۔ ایران نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مل کر پاکستان کے ذریعے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن فاروق نے مزید کہا کہ افغانستان کے سیاسی عدم استحکام نے پاکستان اور ایران پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کے مطابق افغانستان میں عدم استحکام نے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا ہے، جب کہ ایران نے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کی ہے جیسے کہ وہاں کی سیاسی جماعتوں کو مدد فراہم کی، تجارتی تعلقات بڑھایا اور مختلف عسکری گروپوں کو سپورٹ بھی کیا، جب کہ دونوں ممالک نے اپنی داخلی سیاست میں افغانستان کی صورتحال کو اہمیت دی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی خارجہ پالیسی میں افغانستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ 1979 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران افغانستان کے ساتھ تعلقات میں تلخی آئی اور پاکستان نے افغان مجاہدین کی بھرپور حمایت کی۔ اس کے نتیجے میں سوویت یونین کی پسپائی ہوئی اور طالبان کی حکومت قائم ہوئی لیکن طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد بھی پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے کئی چیلنجز کا سامنا رہا۔ اسی دوران افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے پاکستان میں سماجی، معاشی اور سیکیورٹی مسائل بھی پیدا کیے، جو آج بھی حل طلب ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں پیچیدگیاں وقتاً فوقتاً بڑھتی رہی ہیں، خاص طور پر جب انڈیا نے افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ بڑھایا۔ انڈیا نے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا اور مختلف دہشت گرد گروپوں کو سپورٹ بھی کیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کو داخلی اور خارجی سطح پر شدید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ان تمام تر حالات میں ایران کا کردار اور اس کی پوزیشن پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ایران بھی افغانستان کے حوالے سے اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔ ایران اور پاکستان کے تعلقات میں تاریخی بنیادیں بھی بہت مضبوط ہیں، دونوں ممالک کے درمیان 805 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے اور دونوں کے تعلقات ثقافتی، مذہبی اور تجارتی سطح پر گہرے ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہم سمجھتا ہے۔ تاہم، ایران اور پاکستان کے درمیان کئی مسائل ایسے بھی ہیں، جو ان کے تعلقات میں مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بلوچ قومیت کے مسائل اور ایران کے ساتھ انڈیا کے اکانومک اور ثقافتی تعلقات کبھی کبھار ایران اور پاکستان کے درمیان دوریاں پیدا کرتے ہیں۔ ایران نے اپنے اقتصادی مفادات کے لیے انڈیا کے ساتھ تعلقات استوار کیے، لیکن پاکستان کی ناپسندیدہ پالیسیوں کے سبب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی رہی۔ اگرچہ ایران اور پاکستان دونوں افغانستان میں امن اور استحکام کے خواہاں ہیں لیکن ان کے مفادات کبھی کبھار ایک دوسرے سے متصادم نظر آتے ہیں۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت اس کے مفادات کے لیے ضروری ہے، جب کہ ایران افغانستان میں اپنی جغرافیائی اور سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح ایران نے پاکستان کو یاد دلایا ہے کہ افغانستان میں کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت کے نتائج ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ اس سب کے چلتے افغانستان کا مستقبل واضح نہیں ہے کیونکہ طالبان کے زیر اثر افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے افغان عوام، عالمی طاقتوں اور علاقائی ممالک کو مل کر کوششیں کرنی ہوں گیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اور ایران کے تعلقات کی نوعیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ دونوں ممالک کس طرح اپنے مفادات کو افغانستان میں ایک دوسرے کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں۔ پاکستان اور ایران دونوں کے لیے افغانستان میں قیام امن ایک چیلنج تو ہے، لیکن اگر دونوں ممالک اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر افغانستان میں استحکام کی کوشش کریں تو نہ صرف ان کے تعلقات میں بہتری آ سکتی
پاکستان اور امریکا کا کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ پر اتفاق

امریکا کی قائم مقام سفیر نٹالی بیکر نے وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات کے دوران پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کی اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ کے انعقاد پر اتفاق کیا، ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے پر بات چیت کی گئی۔ وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق اس ملاقات میں دونوں نے رواں سال جون میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈائیلاگ کے انعقاد پر اتفاق کیا۔ نٹالی بیکر نے جعفر ایکسپریس اور دیگر دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کو امریکا کا سٹریٹجک پارٹنر قرار دیا۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس موقع پر کہا کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کا یکجا ہونا ضروری ہے۔ مزید پڑھیں: ’بلوچ مظاہرین پرامن نہیں‘ پاکستان نے اقوام متحدہ کے بلوچستان سے متعلق بیان کو ‘افسوس ناک’ قرار دے دیا انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہا ہے اور اس کے لیے ہمہ جہتی پالیسی تیار کی جا رہی ہے۔ وزیر داخلہ نے امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کی ملک واپسی میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اور دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، خصوصاً بلوچستان میں جہاں جنگجوؤں نے کئی حملے کیے ہیں جن میں درجنوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
“حالیہ دہشتگردی کے واقعات کی جڑیں افغان سرزمین سےجڑی ہوئی ہیں”وزیر دفاع

خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ مستحکم تعلقات چاہتا ہے، تاہم خیبر پختونخوا میں ہونے والے حالیہ دہشتگردی کے واقعات کی جڑیں افغان سرزمین میں موجود عناصر سے جڑی ہیں۔ نجی نشریاتی ادارے کے پروگرام میں خواجہ آصف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ تقریباً پونے دو سال قبل کابل گئے تھے، جہاں مثبت ماحول میں بات چیت ہوئی تھی، لیکن اس کے بعد سے حالات میں تنزلی آئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مختلف کارروائیوں میں متعدد دہشتگرد مارے گئے ہیں، جن میں زیادہ تعداد افغان شہریوں کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو حالات بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھانے ہوں گے، کیونکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بڑی تعداد افغانستان میں موجود ہے۔ خواجہ آصف نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی فیصلے سے قبل صوبے کی روایتی قیادت کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ ان کے مطابق، دنیا میں مسائل مذاکرات کے ذریعے حل ہوتے ہیں، اور یہی راستہ بلوچستان میں بھی اپنانا ہوگا۔ انہوں نے کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو دہشتگرد تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ گرفتاریاں قانون کے مطابق ہونی چاہئیں اور معاملات کو گفت و شنید کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ بلوچستان کے مسائل کئی دہائیوں پرانے ہیں اور انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ سرفراز بگٹی کو مذاکراتی عمل کی قیادت کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے رائے دی کہ نواز شریف کو بھی بلوچستان کے معاملے پر متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔ تاہم، ڈاکٹروں نے انہیں آرام کا مشورہ دیا ہے، اور وہ عید کے بعد اس معاملے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ فلسطین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ان کی فلسطین سے وابستگی 1967 سے ہے۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کی فلسطین کے لیے کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہر فورم پر فلسطینی عوام کے حقوق کی آواز بلند کی ہے۔ خواجہ آصف نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ملک کی سالمیت سے متعلق اہم معاملات پر گفتگو کی گئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں کے طرزِ عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ بانی کے بغیر کسی بھی چیز کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے مطابق، یہ ایک غیر جمہوری سوچ ہے، اور سیاست کو شخصیات سے نکال کر نظریات کی بنیاد پر استوار کرنا ضروری ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کامیاب، 2 ارب ڈالر قرض کا اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 2 ارب ڈالر کے قرض کے لیے اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے جس سے ملک کی معیشت کو استحکام میں مدد ملے گی۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو 37 ماہ میں مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔ اس معاہدے کے تحت آئی ایم ایف پاکستان کو مختلف نوعیت کی مالی معاونت فراہم کرے گا۔ آئی ایم ایف کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ کی ٹیم کی قیادت ‘نیتھن پورٹر’ نے کی۔ معاہدے کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کے بورڈ سے ملے گی جس کے بعد پاکستان کو توسیعی فنڈ فیسیلیٹی (EFF) کے تحت 1 ارب ڈالر کی رقم فراہم کی جائے گی۔ مزید برآں، موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے 28 ماہ کی ارینجمنٹ کے تحت پاکستان کو 1.3 ارب ڈالر ملیں گے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو کل 2 ارب ڈالر کی مالی معاونت حاصل ہوگی جو 37 ماہ کی مدت میں فراہم کی جائے گی۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی اقتصادی صورتحال میں بہتری کا اعتراف کیا ہے جبکہ عالمی ادارے کے مطابق پاکستان میں افراط زر 2015 کے بعد کم ترین سطح پر آچکا ہے اور 18 ماہ کے دوران ملک نے چیلنجز کے باوجود میکرو اقتصادی استحکام کی بحالی میں اہم پیشرفت کی ہے۔ آئی ایم ایف نے مزید کہا ہے کہ اقتصادی سرگرمیاں بتدریج بڑھنے کا امکان ہے تاہم پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے خطرات کا سامنا باقی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی مدد کا عہد کرتے ہوئے کہا کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور قدرتی آفات کے خلاف اقدامات کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ اس کے علاوہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے لیے پاکستان کی کوششوں کی بھی حمایت کی جائے گی۔ وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے اس کامیاب معاہدے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیداواری اور برآمدی ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے سے ملکی معیشت مزید مستحکم ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ٹیکس، توانائی، اور سرکاری اداروں سے متعلق اصلاحات پر عمل درآمد کے لیے پُرعزم ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے کو پاکستان کے اقتصادی استحکام کے لیے سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے جس سے نہ صرف ملکی معیشت کی بحالی کی راہیں ہموار ہوں گی بلکہ پاکستان عالمی سطح پر بھی اپنی مالی ساکھ کو مستحکم کرے گا۔ مزید پڑھیں: سندھ میں گیس وتیل کی نئی دریافت، کب کیا ہوا؟
‘بیٹیوں کی گرفتاری اور ہماری ماؤں بہنوں کی بے حرمتی’ اختر مینگل کا بلوچستان میں لانگ مارچ کا اعلان

سابق وزیراعلی بلوچستان سردار اختر مینگل نے ‘بیٹیوں کی گرفتاری اور ماؤں بہنوں کی بےحرمتی’ کے خلاف بلوچستان میں وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ پیر اور منگل کی درمیانی شب مائکروبلاگنگ پلیٹ فارم ایکس پر جاری پیغام میں اختر مینگل کا کہنا ہے کہ ‘وڈھ سے کوئٹہ تک ہمارا مارچ صرف قدموں کا نہیں، ضمیر کا سفر ہے۔’ گزشتہ برس ستمبر میں اپنی قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے والے اخترمینگل کا کہنا ہے کہ ‘میں اس مارچ کی قیادت خود کروں گا، اور تمام بلوچ بھائیوں اور بہنوں، نوجوانوں اور بزرگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ اس مارچ میں ہمارے ساتھ شامل ہوں۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ‘جو خاموش ہے، وہ بھی قصوروار ہے۔’ مزید تفصیل جلد شیئر کرنے کا کہتے ہوئے انہوں نے دعوی کیا کہ ‘ہماری یہ تحریک پر امن ہے۔’ اختر مینگل کے پیغام میں کہا گیا ہے کہ ‘یہ صرف ہماری بیٹیوں کی گرفتاری کا معاملہ نہیں، یہ ہمارے قومی وقار، ہماری غیرت، اور ہمارے وجود کا سوال ہے۔ جب تک ہماری ماہیں، بہنیں اور بیٹیاں محفوظ نہیں، ہم بھی خاموش نہیں رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ظلم، جبر، اور ناانصافی کے خلاف نکلے ہیں، اور جب تک انصاف نہیں ملتا، ہم رکیں گے نہیں۔ اختر مینگل کی جانب سے یہ اعلان حالیہ گرفتاریوں کے بعد کیا گیا ہے۔ دوسری جانب نوبل انعام یافتہ سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی نے بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ‘میں ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری پر پریشان اور فکرمند ہوں۔’ ماہ رنگ بلوچ کو ‘لاکھوں بے آوازوں کی نمائندہ’ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ‘بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا کر’ رہے ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انہوں نے گرفتار خاتون رہنما کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ قبل ازیں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ ماہ رنگ بلوچ کی ‘غیرقانونی گرفتاری کو 38 گھنٹے سے زائد گزر چکے ہیں، ابھی تک ان کے وکلا اور اہل خانہ کو ان تک رسائی نہیں دی گئی۔’ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دعوی کیا کہ کہ ‘بلوچستان صوبہ سے غیرقانونی گرفتاریوں اور حراست کی رپورٹس سامنے آ رہی ہیں۔’ انسانی حقوق سے متعلق ادارے نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ ماہ رنگ سمیت دیگر پرامن احتجاج کا حق استعمال کرنے والوں کو رہا کیا جائے۔
فیکٹ چیک: نیٹ میٹرنگ پالیسی سے متعلق شہباز شریف کا دعویٰ درست ہے یا غلط؟

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سولر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، پاور ڈویژن اعداد و شمار کے ساتھ حقائق بتائے، لیکن حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ حکومت نے نیٹ میٹرنگ کے بجائے نیٹ بلنگ متعارف کرا دی ہے، جس سے سولر صارفین کو بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ شمسی توانائی کے ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے نہ صرف عام صارفین بلکہ شمسی توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے چیئرمین وقاص ایچ موسیٰ کا کہنا ہے کہ ” حکومت کوئی بھی پالیسی بنانے سے قبل اس شعبے سے وابستہ افراد کو اعتماد میں لے۔ اس شعبے میں بھاری سرمایہ کاری ہو چکی ہے اور ہم حکومت کے اس اقدام کو چیلنج کریں گے۔” نیٹ میٹرنگ میں سولر صارفین کو ان کی اضافی بجلی کے بدلے اتنی ہی قیمت دی جاتی تھی، جتنی عام صارفین سے وصول کی جاتی تھی، یہ نظام صارفین کے لیے فائدہ مند تھا اور لوگوں کو سولر انرجی کی طرف مائل کرتا تھا۔ اب نیٹ بلنگ میں صارفین سے ان کی اضافی بجلی کم قیمت پر خریدی جاتی ہے، جب کہ اگر انہیں بجلی واپس خریدنی ہو تو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، یہ نظام نیٹ بلنگ بجلی کمپنیوں کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن صارفین کے لیے نقصان دہ ہے۔ پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث لاکھوں صارفین نے سولر انرجی پر سرمایہ کاری کی، تاکہ اپنے بجلی کے بل کم کر سکیں۔ لیکن جیسے ہی نیٹ میٹرنگ سے بجلی کمپنیاں مالی نقصان میں جانے لگیں، حکومت نے نیٹ بلنگ متعارف کرا دی، جس میں بجلی کمپنیاں سستی بجلی خرید کر مہنگی بیچتی ہیں۔ توانائی کے ماہر عبید اللہ خان کا کہنا ہے کہ” پاکستان کے پاور سیکٹر نے قابل تجدید توانائی کو اپنانے میں ڈرامائی تبدیلی دیکھائی۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ملک بھر میں شمسی تنصیبات صرف 740 میگاواٹ تک پہنچی ہیں۔” یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں اب بھی سولر انرجی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، لیکن نیٹ بلنگ جیسے اقدامات سے اس کی ترقی رک سکتی ہے۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث لاکھوں صارفین نے سولر پینلز پر سرمایہ کاری کی تھی، لیکن نیٹ بلنگ نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ لاہور کے رہائشی محمد علی کا کہنا ہے کہ ہم نے 8 لاکھ روپے لگا کر سولر پینلز لگائے، تاکہ بجلی کا بل کم ہو اور اضافی بجلی بیچ کر فائدہ ہو، لیکن اب جب نیٹ بلنگ آ گئی ہے، تو ہمیں کم قیمت پر بجلی بیچنی پڑ رہی ہے، جب کہ خریدنی مہنگی پڑتی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: سولر صارفین گرڈ بجلی استعمال کرنے والوں پر اضافی 159 ارب کا بوجھ بن گئے وزیراعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ سولر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیٹ بلنگ متعارف کرا دی گئی ہے، نیٹ میٹرنگ کے ریٹس کم کر دیے گئے ہیں، صارفین کو کم قیمت پر بجلی بیچنی پڑ رہی ہے اور مہنگی خریدنی پڑ رہی ہے۔ حقیقت میں سولر صارفین کے ساتھ نا انصافی کی جا رہی ہے اور اس پالیسی کا اصل فائدہ بجلی کمپنیوں کو ہو رہا ہے، جو سستی بجلی خرید کر مہنگی بیچ رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے فائدہ صرف بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو ہوگا، جو سستی بجلی خرید کر مہنگی بیچیں گی۔ سولر صارفین کو جو امید تھی کہ وہ سستی اور ماحول دوست توانائی سے فائدہ اٹھائیں گے، وہ دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ حکومت کی نئی پالیسی سولر صارفین کے حق میں نہیں ہے۔ نیٹ میٹرنگ کے تحت جو لوگ سرمایہ کاری کر چکے تھے، وہ اب نیٹ بلنگ کے باعث نقصان میں جا رہے ہیں، اگر حکومت واقعی گرین انرجی کو فروغ دینا چاہتی ہے، تو پھر ایسی پالیسیاں کیوں بنا رہی ہے جو سولر صارفین کی حوصلہ شکنی کریں۔
‘بجلی کے ٹیرف میں کمی کے لیے نیا پیکیج جلد عوام کے سامنے ہوگا’ وزیراعظم کا اعلان

وزیراعظم شہباز شریف نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا کہ بجلی کے ٹیرف میں کمی کے لیے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی تیار کی جارہی ہے جس کا اعلان بہت جلد کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے پاور ڈویژن کے متعلق امور پر جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی پالیسی میں خاص طور پر سولر انرجی کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وزیراعظم نے اجلاس کے دوران کہا کہ “سولر انرجی کی فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے”۔ انہوں نے حکام کو ہدایت دی کہ عوام میں سولرائزیشن پالیسی کے بارے میں پائی جانے والی تمام ابہاموں کو دور کرنے کے لیے مکمل حقائق اور اعداد و شمار پیش کیے جائیں۔ وزیراعظم نے پاور ڈویژن کو حکم دیا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کی نجکاری کے عمل کو تیز کیا جائے اور جنریشن کمپنیوں سے متعلق تمام قانونی اور دیگر مسائل کو فوری طور پر حل کیا جائے۔ شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ پاور سیکٹر میں اصلاحات کے بعد عوام کو مزید ریلیف دیا جائے گا اور بجلی کی قیمتوں میں کمی لائی جائے گی۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ “ایک ایسا پیکیج تیار کیا جا رہا ہے جو بجلی کے ٹیرف کو کم کرے گا اور یہ بہت جلد عوام کے سامنے ہوگا”۔ وزیراعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاور ڈویژن، واٹر ریسورسز ڈویژن اور پیٹرولیم ڈویژن کے درمیان ہم آہنگی کو مزید بہتر بنایا جائے تاکہ توانائی کے شعبے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ اس فیصلے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت عوام کو بجلی کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کی تیار ہے اور عوام کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ مزید پڑھیں: امن و خوشحالی کی دعا، صدر آذربائیجان کا شہباز شریف کو خصوصی خط
کینیڈا میں قبل ازوقت انتخابات کا اعلان، یہ کب ہوں گے؟

جسٹن ٹروڈو کے کے استعفے کے بعد کینیڈا کے نئے وزیراعظم نے ملک میں قبل ازوقت عام انتخابات کا اعلان کیا ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیے جانے کے بعد کینیڈین عوام اب 28 اپریل کو ووٹ ڈالیں یعنی اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی کا کہنا ہے کہ ’ان کی حکومت ’مضبوط مثبت مینڈیٹ‘ چاہتی ہے۔ انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے محصولات اہم خطرہ قرار دیا ہے۔ عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق کارنی کا مزید کہنا تھا کہ ’انھیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سخت اقدامات سے نمٹنے اور ایک ایسی معیشت بنانے کے لیے ایک واضح اور مثبت مینڈیٹ کی ضرورت ہے جس سے سب کو فائدہ ہو۔‘ مزید پڑھیں: کینیڈا کا وزیر اعظم تبدیل: مارک کارنی جلد عہدہ سنبھالیں گے وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی نسل خوش قسمت ہے، جبکہ آج نوجوانوں کو اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے کرایہ اور بچت کے اخراجات برداشت کرنے کے لئے سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی کے مُلک میں قبل از وقت انتخابات کے اس اعلان سے مُلک ایک انتخابی مہم کا آغاز ہوا ہے جس میں کارنی کو ان کے اہم حریف کنزرویٹو پارٹی کے پیئر پولییور کے خلاف کھڑا کیا گیا ہے۔ کینیڈین وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پولییور کا نقطہ نظر ڈونلڈ ٹرمپ کے نقطہ نظر سے ’غیر معمولی طور پر ’مماثلت‘ رکھتا ہے۔ دریں اثنا، کارنی کے اعلان سے پہلے، پولییور نے اپنی مہم کا آغاز کرتے ہوئے ٹیکسوں میں کٹوتی، قدرتی وسائل کو ’استعمال‘ کرنے اور کینیڈا میں ملازمتوں کے مواقعے واپس لانے پر زور دیا ہے۔
وزیراعظم کا بجلی قیمتوں میں کمی کا اعلان، ریلیف پیکج جلد متعارف کرایا جائے گا

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ عوام کو بجلی کے بل میں کمی کا بڑا ریلیف پیکج جلد متعارف کرایا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ یہ پیکج عوام کے لئے بجلی کی قیمتوں میں واضح کمی لانے کا باعث بنے گا اور اس کے لیے بجلی کے شعبے میں جاری اصلاحات کے ثمرات کو عوام تک پہنچایا جائے گا۔ اسلام آباد میں پاور ڈویژن کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کام شروع کر دیا ہے کہ عوام کو بجلی کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں فوری ریلیف ملے۔ ان اصلاحات کی مدد سے حکومت بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے میں کامیاب ہو گی۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی سولرائزیشن پالیسی کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں انہیں دور کرنے کے لئے حقائق پر مبنی معلومات فراہم کی جائیں۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ قابل تجدید توانائی کو فروغ دینا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ففتھ جنریشن وارفیئر ایک چیلنج میں تبدیل ہو چکی ہے: صدر پاکستان اس کے علاوہ وزیراعظم نے پاور ڈویژن، واٹر ریسورسز ڈویژن اور پیٹرولیم ڈویژن کے مابین ہم آہنگی کو بڑھانے کی ہدایت دیتے ہوئے توانائی کے شعبے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کا عمل تیز کیا جائے تاکہ ان کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے اور بجلی کی پیداوار کمپنیوں کی قانونی اور انتظامی رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے 23 مارچ کو بجلی کی قیمتوں میں 8 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کرنے کا عندیہ دیا تھا جس کی منظوری آئی ایم ایف سے مل چکی ہے۔ اس کے علاوہ وزارت خزانہ اور پاور ڈویژن نے اس کمی کو مزید 2 روپے فی یونٹ تک کم کرنے کے اضافی اقدامات پر غور کیا ہے جس کا حتمی فیصلہ جلد متوقع ہے۔ یہ کمی یکم اپریل 2025 سے نافذ ہوگی جس کے اثرات مئی میں صارفین کے بلز میں نظر آئیں گے۔ اس 8 روپے فی یونٹ کمی میں سے 4.73 روپے فی یونٹ کو مستقل ایڈجسٹمنٹ کے طور پر مختص کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ اعلان عوام کے لئے ایک خوشخبری ہے جو کہ طویل عرصے سے مہنگی بجلی کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ اس ریلیف پیکج سے نہ صرف بجلی کے بلز میں کمی آئے گی بلکہ حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا سفر بھی تیز ہوگا جس سے ملک کی معیشت میں استحکام آئے گا۔ مزید پڑھیں: ’باہمی اختلافات بھلا کر ملکی ترقی کے لیے متحد ہونا ہوگا‘ وفاقی وزیرداخلہ
یومِ پاکستان: کیا ہم مملکت کے قیام کا اصل مقصد حاصل کرچکے ہیں؟

پاکستان بھر میں ہر سال 23 مارچ کو یومِ پاکستان منایا جاتا ہے اور اس سال بھی یہ ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد قوم کو قیامِ پاکستان کی یاد دلانا، تحریکِ پاکستان کے مقاصد کو یاد دلانا اور قومی یکجہتی کو فروغ دینا ہے۔ اس دن کی ملک بھر میں خصوصی تقریبات، فوجی پریڈز اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ملک بھر میں قومی پرچم لہرائے جاتے ہیں، جب کہ تعلیمی اداروں میں تقریری مقابلے اور ملی نغموں کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ سیاسی رہنما جلسے جلوسوں میں ملکی سلامتی اور ترقی کے بھاشن دیتے نظر آتے ہیں۔ صدرِ مملکت، وزیرِاعظم اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے قوم کو پیغام دیا جاتا ہے۔ فوجی پریڈز منعقد کی جاتی ہیں، جہاں عسکری حکام سمیت سیاسی رہنما شرکت کرتے ہیں۔ یومِ پاکستان 23 مارچ 1940 کی یاد دلاتا ہے، جب آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں قراردادِ لاہور منظور کی گئی تھی۔ اس قرارداد میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا، جو بعد میں قیامِ پاکستان کی بنیاد بنا۔ اسی دن کو یادگار بنانے کے لیے ہر سال پورے ملک میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس قرارداد کو شیرِ بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کیا تھا، مگر بدقسمتی سے ان کا مشرقی پاکستان آج پاکستان کا حصہ نہیں اور یہ وطنِ عزیز پر ایک ایسی چوٹ ہے جو مٹائے نہیں مٹنی۔ نصیر ترابی نے کہا تھا کہ ‘عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں مگر۔۔۔ بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی۔’ اس وطنِ عزیز کے لیے ہمارے بزرگوں نے لاکھوں قربانیاں دیں، شدھی اور سنگٹھن جیسی تحریکوں کا سامنا کیا، نسلی پرستی کو چھوڑ کر ایک ہوئے اور ایک علیحدہ ملک حاصل کیا۔ اگر پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ دہشتگردی اور نسل کشی عروج پر پہنچ چکی ہے، غریب پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ تو کیا اسی لیے اس ملک کے قیام کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں؟ کیا آج کا پاکستان واقعی قرار دادِ مقصد کی تکمیل کرچکا ہے؟ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے روزنامہ مشرق کے ایڈیٹر اشرف سہیل نے کہا ہے کہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کو جن عظیم مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا، ہم بحثیت قوم ان سے ابھی تک بہت دور ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل ہندؤں کی تنگ نظری انتہا پر تھی، انگریز مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے، مسلمان کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ سرسید احمد خان نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور کہا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں، یہ اپنی روایات، رسم و رواج اور عقائد میں اس قدر مختلف ہیں کہ صدیوں اکٹھے رہنے کے باوجود ایک دوسرے میں گھل مل نہ سکیں۔ علامہ محمد اقبال نے ایک علیحدہ مملکت کا خواب دیکھا، جسے قائدِاعظم محمد علی جناح نے شرمندہ تعبیر کیا۔ 8 مارچ 1944 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے قائدِاعظم نے کہا کہ: پاکستان تو اسی دن وجود میں آگیا تھا، جب ہندوستان کا پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا، مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے، وطن اور نسل نہیں۔ اشرف سہیل نے کہا ہے کہ قیامِ پاکستان دراصل ہندو اکثریت کی تنگ نظری کا ردِعمل تھا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ تنگ نظری مسلمان اکثریت پر مسلط کرنے کی سازش کی گئی جس کے بہت سے نقصانات ہوئے نظریہ پاکستان کے نام پر آج بھی ایسے تصورات کو مسلط کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن کا پاکستان کی تحریک کے حقیقی مقاصد سے کوئی تعلق نہیں۔ نوجوان نسل اس دن کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ منا رہی ہے، لاہور کی سڑکوں پر لوگوں کے کپڑوں پر قومی جھنڈا لگا ہوا دیکھا جاسکتاہے، مگر کیا یہ کافی ہے؟ کیا اس دن کو منانے کا اصل مقصد یہی ملی نغمے گانہ، تقاریریں کرنا اور کپڑوں پر جھنڈا لگانا ہے؟ وہ قائدِاعظم ملّت کا پاسباں، مدبر، اصول پرست، صاحب بصیرت، اس نے جس پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔ وہ پاکستان کہاں ہے؟ قائد اعظم جس معاشرے کو تحمل برداشت، یگانگت والی سوسائٹی بنانا چاہتے تھے۔ وہ کہاں ہے؟ روزنامہ مشرق کے ایڈیٹر نے کہا ہے کہ آج کی نسل کو اسلام ، پاکستان اور اقابرین پاکستان کی تعلیمات سے متعارف اور ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ تنگ نظری ، شدت پسندی اور تعصب کے ناسور سے جان چھڑائی جا سکے ۔ پاکستان اس وقت بہت سے بنیادی مسائل کا شکار ہے، ملک بھر میں انتشار پروان چڑھ رہا ہے، نوجوان نسل کو ملک دشمن عناصر اپنا شکار بنا رہے ہیں۔ نسل کشی کے نام پر آئے روز قتل ہورہے ہیں، وہ لوگ جو کبھی ایک قوم تھے مسلم قوم آج سندھی، پنجابی، پٹھان اور بلوچ بن کے رہ گئے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا کہ ‘قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں۔۔۔۔ جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں۔’ اشرف سہیل کے مطابق پاکستان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سب سے بڑا چیلنج قانون کی بالادستی ، نظام عدل کا استحکام اور نظام تعلیم کا فرسودہ ہونا ہے ۔ دوسری جانب یومِ پاکستان کے موقع پر ملک بھر میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، حساس مقامات پر اضافی پولیس اور رینجرز تعینات کی گئی ہے۔ بڑے شہروں میں ٹریفک پلان تشکیل دیا گیا ہے۔ گھروں اور دفاتر میں سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں نے قومی لباس زیب تن کیا ہوا ہے، جب کہ بازاروں اور سڑکوں پر ملی نغمے بجائے جارہے ہیں۔ مختلف مقامات پر آتش بازی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ اشرف سہیل نے کہا ہے کہ ملک میں قوم یکجہتی کو فروغ دینے کے لئے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ،سماجی انصاف ، تعلیمی نظام کی درستگی اور اسلام کے نام پر تعصب کی سوچ کے خاتمہ ضروری ہے ۔ یومِ پاکستان کے موقع پر وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے قوم کو پیغام دیتے ہوئے