وزیراعظم کا بجلی قیمتوں میں کمی کا اعلان، ریلیف پیکج جلد متعارف کرایا جائے گا

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ عوام کو بجلی کے بل میں کمی کا بڑا ریلیف پیکج جلد متعارف کرایا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ یہ پیکج عوام کے لئے بجلی کی قیمتوں میں واضح کمی لانے کا باعث بنے گا اور اس کے لیے بجلی کے شعبے میں جاری اصلاحات کے ثمرات کو عوام تک پہنچایا جائے گا۔ اسلام آباد میں پاور ڈویژن کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کام شروع کر دیا ہے کہ عوام کو بجلی کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں فوری ریلیف ملے۔ ان اصلاحات کی مدد سے حکومت بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے میں کامیاب ہو گی۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی سولرائزیشن پالیسی کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں انہیں دور کرنے کے لئے حقائق پر مبنی معلومات فراہم کی جائیں۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ قابل تجدید توانائی کو فروغ دینا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ففتھ جنریشن وارفیئر ایک چیلنج میں تبدیل ہو چکی ہے: صدر پاکستان اس کے علاوہ وزیراعظم نے پاور ڈویژن، واٹر ریسورسز ڈویژن اور پیٹرولیم ڈویژن کے مابین ہم آہنگی کو بڑھانے کی ہدایت دیتے ہوئے توانائی کے شعبے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کا عمل تیز کیا جائے تاکہ ان کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے اور بجلی کی پیداوار کمپنیوں کی قانونی اور انتظامی رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے 23 مارچ کو بجلی کی قیمتوں میں 8 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کرنے کا عندیہ دیا تھا جس کی منظوری آئی ایم ایف سے مل چکی ہے۔ اس کے علاوہ وزارت خزانہ اور پاور ڈویژن نے اس کمی کو مزید 2 روپے فی یونٹ تک کم کرنے کے اضافی اقدامات پر غور کیا ہے جس کا حتمی فیصلہ جلد متوقع ہے۔ یہ کمی یکم اپریل 2025 سے نافذ ہوگی جس کے اثرات مئی میں صارفین کے بلز میں نظر آئیں گے۔ اس 8 روپے فی یونٹ کمی میں سے 4.73 روپے فی یونٹ کو مستقل ایڈجسٹمنٹ کے طور پر مختص کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ اعلان عوام کے لئے ایک خوشخبری ہے جو کہ طویل عرصے سے مہنگی بجلی کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ اس ریلیف پیکج سے نہ صرف بجلی کے بلز میں کمی آئے گی بلکہ حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا سفر بھی تیز ہوگا جس سے ملک کی معیشت میں استحکام آئے گا۔ مزید پڑھیں: ’باہمی اختلافات بھلا کر ملکی ترقی کے لیے متحد ہونا ہوگا‘ وفاقی وزیرداخلہ

یومِ پاکستان: کیا ہم مملکت کے قیام کا اصل مقصد حاصل کرچکے ہیں؟

پاکستان بھر میں ہر سال  23 مارچ کو یومِ پاکستان منایا جاتا ہے اور اس سال بھی یہ ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد قوم کو قیامِ پاکستان کی یاد دلانا، تحریکِ پاکستان کے مقاصد کو یاد دلانا اور قومی یکجہتی کو فروغ دینا ہے۔ اس دن کی ملک بھر میں خصوصی تقریبات، فوجی پریڈز اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ملک بھر میں قومی پرچم لہرائے جاتے ہیں، جب کہ تعلیمی اداروں میں تقریری مقابلے اور ملی نغموں کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ سیاسی رہنما جلسے جلوسوں میں ملکی سلامتی اور ترقی کے بھاشن دیتے نظر آتے ہیں۔ صدرِ مملکت، وزیرِاعظم اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے قوم کو پیغام دیا جاتا ہے۔ فوجی پریڈز منعقد کی جاتی ہیں، جہاں عسکری حکام سمیت سیاسی رہنما شرکت کرتے ہیں۔ یومِ پاکستان 23 مارچ 1940 کی یاد دلاتا ہے، جب آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں قراردادِ لاہور منظور کی گئی تھی۔ اس قرارداد میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا، جو بعد میں قیامِ پاکستان کی بنیاد بنا۔ اسی دن کو یادگار بنانے کے لیے ہر سال پورے ملک میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس قرارداد کو شیرِ بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کیا تھا، مگر بدقسمتی سے ان کا مشرقی پاکستان آج پاکستان کا حصہ نہیں اور یہ وطنِ عزیز پر ایک ایسی چوٹ ہے جو مٹائے نہیں مٹنی۔ نصیر ترابی نے کہا تھا کہ ‘عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں مگر۔۔۔ بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی۔’ اس وطنِ عزیز کے لیے ہمارے بزرگوں نے لاکھوں قربانیاں دیں، شدھی اور سنگٹھن جیسی تحریکوں کا سامنا کیا، نسلی پرستی کو چھوڑ کر ایک ہوئے اور ایک علیحدہ ملک حاصل کیا۔ اگر پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ دہشتگردی اور نسل کشی عروج پر پہنچ چکی ہے، غریب پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔   تو کیا اسی لیے اس ملک کے قیام کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں؟ کیا آج کا پاکستان واقعی قرار دادِ مقصد کی تکمیل کرچکا ہے؟ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے روزنامہ مشرق کے ایڈیٹر اشرف سہیل نے کہا ہے کہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کو جن عظیم مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا، ہم بحثیت قوم ان سے ابھی تک بہت دور ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل ہندؤں کی تنگ نظری انتہا پر تھی، انگریز مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے، مسلمان کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ سرسید احمد خان نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور کہا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں، یہ اپنی روایات، رسم و رواج اور عقائد میں اس قدر مختلف ہیں کہ صدیوں  اکٹھے رہنے کے باوجود ایک دوسرے میں  گھل مل نہ سکیں۔ علامہ محمد اقبال نے ایک علیحدہ مملکت کا خواب دیکھا، جسے قائدِاعظم محمد علی جناح نے شرمندہ تعبیر کیا۔ 8 مارچ 1944 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے قائدِاعظم نے کہا کہ: پاکستان تو اسی دن وجود میں آگیا تھا، جب ہندوستان کا پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا، مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے، وطن اور نسل نہیں۔ اشرف سہیل نے کہا ہے کہ قیامِ پاکستان دراصل ہندو اکثریت کی تنگ نظری کا ردِعمل تھا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ تنگ نظری مسلمان اکثریت پر مسلط کرنے کی سازش کی گئی جس کے بہت سے نقصانات ہوئے نظریہ پاکستان کے نام پر آج بھی ایسے تصورات کو مسلط کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن کا پاکستان کی تحریک کے حقیقی مقاصد سے کوئی تعلق نہیں۔ نوجوان  نسل اس دن کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ منا رہی ہے، لاہور کی سڑکوں پر لوگوں کے کپڑوں پر قومی جھنڈا لگا ہوا دیکھا جاسکتاہے، مگر کیا یہ کافی ہے؟ کیا اس دن کو منانے کا اصل مقصد یہی ملی نغمے گانہ، تقاریریں کرنا اور کپڑوں پر جھنڈا لگانا ہے؟ وہ قائدِاعظم ملّت کا پاسباں، مدبر، اصول پرست، صاحب بصیرت، اس نے جس پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔ وہ پاکستان کہاں ہے؟ قائد اعظم جس معاشرے کو تحمل برداشت، یگانگت والی سوسائٹی بنانا چاہتے تھے۔ وہ کہاں ہے؟ روزنامہ مشرق کے ایڈیٹر نے کہا ہے کہ آج کی نسل کو اسلام ، پاکستان اور اقابرین پاکستان کی تعلیمات سے متعارف اور ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ تنگ نظری ، شدت پسندی اور تعصب کے ناسور سے جان چھڑائی جا سکے ۔ پاکستان اس وقت بہت سے بنیادی مسائل کا شکار ہے، ملک بھر میں انتشار پروان چڑھ رہا ہے، نوجوان نسل  کو ملک دشمن عناصر اپنا شکار بنا رہے ہیں۔ نسل کشی کے نام پر آئے روز قتل ہورہے ہیں، وہ لوگ جو کبھی ایک قوم تھے مسلم قوم آج سندھی، پنجابی، پٹھان اور بلوچ بن کے رہ گئے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا کہ ‘قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں۔۔۔۔ جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں۔’ اشرف سہیل کے مطابق پاکستان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں  سب سے بڑا چیلنج قانون کی بالادستی ، نظام عدل کا استحکام اور نظام تعلیم کا فرسودہ ہونا ہے ۔ دوسری جانب یومِ پاکستان کے موقع پر ملک بھر میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، حساس مقامات پر اضافی پولیس اور رینجرز تعینات کی گئی ہے۔ بڑے شہروں میں ٹریفک پلان تشکیل دیا گیا ہے۔ گھروں اور دفاتر میں سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں نے  قومی لباس زیب تن کیا ہوا ہے، جب کہ بازاروں اور سڑکوں پر ملی نغمے بجائے جارہے ہیں۔ مختلف مقامات پر آتش بازی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ اشرف سہیل نے کہا ہے کہ ملک میں قوم یکجہتی کو فروغ دینے کے لئے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ،سماجی انصاف ، تعلیمی نظام کی درستگی اور اسلام کے نام پر تعصب کی سوچ کے خاتمہ ضروری ہے ۔ یومِ پاکستان کے موقع پر وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے قوم کو پیغام دیتے ہوئے

زمین کی بڑھتی پیاس: کیا ہم خشک سالی کو دعوت دے رہے ہیں؟

دنیا بھر میں ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد میٹھے پانی کے بحران اور اس کے حل کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں گلیشیئرز کی اب تک کی سب سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1975 سے اب تک گلیشیئرز سے 9,000 گیگاٹن برف کا نقصان ہو چکا ہے، جو جرمنی کے سائز کے برفانی بلاک کے برابر ہے اور اس کی موٹائی 25 میٹر ہے۔ عالمی گلیشیئر مانیٹرنگ سروس کے ڈائریکٹر مائیکل زیپ نے جنیوا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ “یہ منظرنامہ انسانیت کے لیے ایک اہم اشارہ ہے۔” گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کے باعث دنیا کے مختلف خطوں، جیسے قطب شمالی، الپس، جنوبی امریکا اور تبت کی سطح مرتفع میں سیلابوں کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ عمل موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدت اختیار کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں زراعت اور توانائی کے شعبے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مائیکل زیپ کے مطابق پچھلے چھ برسوں میں سے پانچ میں سب سے زیادہ برف کا نقصان ریکارڈ کیا گیا ہے، جب کہ 2024 میں اب تک 450 گیگاٹن برف پگھل چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کی رپورٹ کے مطابق دو ارب سے زائد افراد صاف پانی کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں اور ہر دو منٹ میں ایک پانچ سال سے کم عمر کا بچہ آلودہ پانی اور ناقص صفائی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔” اس کے علاوہ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ “دنیا کے تین میں سے ایک اسکول میں پانی کی بنیادی سہولت نہیں ہے جو کہ اس مسئلے کی اہمیت کو مزید واضح کرتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی کمی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق پروونشنل ہیڈ واٹر ایڈ یوکے، فراقت علی نے کہا کہ پاکستان میں بارشیں تو ہوتی ہیں، مگر ہم اسے محفوظ نہیں کرتے، جس کی وجہ سے وہ رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہیں۔ پانی اور موسم کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے اور گلیشیئرز اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جب کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے ان دریاؤں کا موسمی بہاؤ متاثر ہو رہا ہے، جو لاکھوں افراد کی زراعت، پینے کے پانی کی فراہمی اور ہائیڈرو پاور کے لیے بہت ضروری ہیں۔ فراقت علی نے کہا ہے کہ ہماری ناقص منصوبہ بندی اور پانی کے غیر مؤثر استعمال نے ہمیں اس نہج پر پہنچایا ہے۔ جنوبی افریقہ کے بعد دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں پانی کا بحران شدت اختیار کرنے والا ہے۔ عالمی اکانونمک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “گلیشیئرز کی پگھلنے کے عمل کو روکنا یا اس سے بچنا ممکن نہیں ہے مگر ہم ان کے پگھلنے کے اثرات کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ ہمیں گلیشیئرز کے پانی کو زیادہ مستحکم اور پائیدار طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لاکھوں افراد کو محفوظ پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے۔” پاکستان میں پانی کے غیر ضروری استعمال پر بات کرتے ہوئے فراقت علی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر شخص پانی کا ضیاع کرتا ہے، چولستان میں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں، لیکن لاہور کی ہر گلی میں گاڑیاں دھوتے لوگ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم نے پانی کی قدر نہ کی تو ساؤتھ افریقہ کے بعد پاکستان کا نمبر ہوگا۔ آج کے دور میں عالمی اکانومک فورم کا ‘اپ لنک پلیٹ فارم’ ایسے انٹرپرینیورز کی حمایت کرتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی انحطاط اور غربت جیسے عالمی چیلنجز کے حل کے لیے کام کر رہے ہیں۔ فراقت علی کے مطابق پاکستان میں صرف 16 فیصد پانی پینے کے قابل ہے، جب کہ 84 فیصد آلودہ پانی استعمال ہو رہا ہے، جو صحت عامہ کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے سندھ میں پانی کی قلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں جانور اور انسان ایک ہی تالاب سے پانی پینے پر مجبور ہیں، جب کہ پنجاب کے بہاولپور، خانیوال اور جھنگ کے کچھ علاقوں میں بھی پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پانی کے ضیاع کی وجہ سے خشک سالی کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔ فراقت علی نے کہا ہے کہ مستقبل میں جنگیں پانی کے لیے ہوں گی، یہ صرف پاکستان یا ایشیا کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی پانی کے معاملے پر تنازع شدت اختیار کر سکتا ہے، کیونکہ بھارت پانی کے ذرائع پر کنٹرول کر رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں ایک طرف سندھ سے نکالی جانے والی نہروں کا مسئلہ تنازعے کا شکار ہے، وہیں دوسری جانب ڈیمز میں پانی کی خطرناک حد تک ہوتی کمی نے تشویش پیدا کردی ہے۔ فراقت علی کے مطابق پاکستان میں بارشوں کی کمی کے باعث ڈیموں میں پانی کا لیول خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے اور جب بھی کوئی نیا ڈیم بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو سیاسی انتشار شروع ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے  کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے واٹر اینڈ جوڈیشل کمیشن قائم کیا ہے تاکہ پانی کے تحفظ کے لیے مؤثر حکمت عملی ترتیب دی جا سکے، لیکن عملی اقدامات اب بھی ناکافی ہیں۔ عالمی سطح پر چند ایسے اقدامات کا ہونا نہایت ضروری ہے جن سے ان پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کو بچایا جاسکے اور پانی کے وسائل کو محفوظ کیا جا سکے۔ ان گلیشیئرز کے پگھلنے کے عمل سے پانی کے وسائل غیر متوقع اور غیر یقینی ہوتے جارہے ہیں، جس کے نتیجے میں طویل خشک سالی، مٹی کی نمی میں کمی اور پانی کے ذخیروں کی سطح میں کمی جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ فراقت علی نے کہا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ بڑے پیمانے پر پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات کرے، عوامی سطح پر

نئی نہریں، پرانا تنازع: گرین پاکستان انیشیٹو کی حقیقت کیا ہے؟

‘گرین پاکستان انیشیٹو’ جس کا مقصد ملک میں جدید زرعی فارمنگ کو فروغ دینا اور بنجر زمینوں کو قابلِ کاشت بنانا ہے، آج ایک بڑے تنازعے کا شکار ہو چکا ہے۔ حالیہ کچھ مہینوں سے گرین پاکستان انیشیٹو اور سندھ سے نکالی جانے والی متنازعہ نہروں کا مسئلہ شدت اختیار کرچکا ہے، سندھی عوام اور حکومت کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے دریائے سندھ سے نکالی جا نے والی نہروں پر شدید مخالفت کی جارہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ وہ پیپلز پارٹی جو کبھی اس منصوبے کے حق میں تھی اب مخالف کیوں؟ آخر یہ گرین پاکستان منصوبہ ہے کیا؟ یہ بات ہے جون 2023 کی جب حکومتِ پاکستان نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (SIFC) قائم کی۔ جس میں متعلقہ حکومتی اداروں کے علاوہ فوج کے سربراہان کو بھی شامل کیا گیا۔ اس کے تحت ‘گرین پاکستان انیشیٹو’ کا آغاز کیا گیا، جس کا مقصد جدید زراعت کو فروغ دینا اور ملکی زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا تھا۔ گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت چولستان، تھل اور دیگر بنجر علاقوں کو قابلِ کاشت بنانے کے لیے دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ بنایا گیا ، جن میں 211 ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی چولستان کنال بھی شامل ہے۔ یہ 176 کلومیٹر طویل نہر سلیمانکی ہیڈورکس سے فورٹ عباس تک تعمیر کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ دریائے ستلج سے پانی لے گی، نہ کہ دریائے سندھ سے، اس لیے سندھ کے پانی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مگر دریائے ستلج تو خود پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے ، کیسے ممکن ہے کہ وہ چولستان کی صحرائی زمین کے لیے پانی مہیا کرے؟ سندھی عوام کی جانب سے اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بنجر زمین کو آباد کرنے کے اس منصوبے سے ہماری سرسبز زمینیں بنجر ہو جائیں گی، یہ کون سی عقل مندی ہے۔ پہلے ہی پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث اہم فصلوں کی پیداوار میں غیر معمولی کمی ہو رہی ہے۔” یہ کہنا ہے ایوانِ زراعت سندھ کے جنرل سیکریٹری زاہد بھرگڑی کا جن کی فصل کا دارومدار نہری پانی پر ہے جو اُن کے بقول ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہو رہا ہے۔ گرین پاکستان انیشٹو تو زراعت کو جدید اور کم خرچے میں زیادہ پیداوار کا منصوبہ ہے، پھر جنرل سیکرٹری ایوانِ زراعت سندھ نے ایسا کیوں کہا کہ اس منصوبے سے زمینیں بنجر ہو جائیں گی؟ پاکستان پیپلز پارٹی، جو کبھی اس منصوبے کی حامی تھی، اب اس کی سخت مخالف بن چکی ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے دسمبر 2024 میں دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے حکومتی فیصلے کو یکطرفہ اور متنازع قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے کہ وہ ایسے فیصلے کریں جو متنازع ہوں۔ انہوں نے زور دیا کہ کالا باغ ڈیم کی طرح یہ فیصلہ بھی یکطرفہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات شازیہ مری نے بھی دریائے سندھ سے 6 نئی نہریں نکالنے کے فیصلے کو ارسا ایکٹ اور 1991ء کے پانی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ایسے فیصلوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور وفاقی حکومت کی جانب سے سی سی آئی کا اجلاس طلب نہ کرنا آئینی خلاف ورزی ہے۔ مگر صدر آصف علی زرداری کی جانب سے اس پر واضح طور پر کوئی بیان نہیں دیا گیا، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی کچھ یک طرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں، خاص طور پردریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے کی یکطرفہ تجویز کی بطور صدر میں حمایت نہیں کر سکتا۔ حکومت اس موجودہ تجویز کو ترک کرے، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ متفقہ اتفاق رائے کی بنیاد پر قابل عمل اور پائیدار حل نکالا جاسکے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 1950 کی دہائی میں 5000 کیوبک میٹر تھی، جو 2018 تک 1000 کیوبک میٹر سے بھی کم ہو چکی ہے۔ ایسے میں اگر مزید پانی چولستان کی طرف موڑا گیا، تو سندھ کی زراعت شدید متاثر ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب حکومتِ پنجاب کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد جدید کارپوریٹ فارمنگ کے ساتھ ساتھ چھوٹے کسانوں کی مدد کرنا ہے، جو پاکستان کے زرعی شعبے کا 95 فیصد ہیں۔ اب تک 0.9 ملین ایکڑ اراضی الاٹ کی جا چکی ہے، جس میں پنجاب میں 811,619 ایکڑ، سندھ میں 52,713 ایکڑ، بلوچستان میں 47,606 اور خیبرپختونخوا میں 74,140 ایکڑ اراضی شامل ہے۔ چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ شروع ہو چکی ہے اور اب تک دو لاکھ ایکڑ اراضی کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ منصوبہ چھوٹے کاشتکاروں کے مفاد کے لیے بنایا گیا ہے؟ پیپلز پارٹی کے اس منصوبے کی مخالفت کی وجہ عوامی فکر ہے یا پھر کوئی سیاسی چال اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

صدر مملکت کا یوم پاکستان اور عید الفطر پر قیدیوں کے لیے معافی کا اعلان

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے پاکستان ڈے اور عید الفطر کے موقع پر قیدیوں کی سزا میں 180 دن کی خصوصی کمی کا اعلان کیا ہے۔ پورے ملک میں عید کی آمد کے حوالے سے خوشیاں منائی جا رہی ہیں اور پاکستان ڈے کی اہمیت کا چرچا ہے۔ صدر زرداری نے یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت کیا، جس کے تحت قیدیوں کو کچھ رعایت دی جا سکتی ہے۔ تاہم، یہ کمی ان افراد کے لیے نہیں ہوگی جو سنگین جرائم میں ملوث ہیں جیسے کہ قتل، جاسوسی، ریاستی خلاف سرگرمیاں، زیادتی، چوری، ڈکیتی، اغوا، دہشت گردی، مالی جرائم، قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے جرائم یا غیر ملکیوں کے خلاف 1946 کے غیر ملکی ایکٹ اور 2022 کے کنٹرول آف نارکوٹک سبسٹنسز ایکٹ کے تحت مجرم ہیں۔ اس خصوصی کمی کا فائدہ زیادہ تر ان قیدیوں کو ہوگا جو 65 سال یا اس سے زائد عمر کے مرد قیدی ہیں اور جنہوں نے اپنی سزا کا کم از کم ایک تہائی حصہ مکمل کیا ہے۔ خواتین قیدیوں کے لیے یہ عمر 60 سال یا اس سے زیادہ ہوگی۔ علاوہ ازیں، وہ خواتین قیدی جو اپنے بچوں کے ساتھ قید ہیں اور وہ بھی ایک تہائی سزا مکمل کر چکی ہیں ان کو بھی یہ رعایت ملے گی۔ یہ بھی پڑھیں: ڈیرہ اسماعیل خان میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن: 10 دہشت گرد ہلاک، کیپٹن شہید اسی طرح نابالغ یعنی 18 سال سے کم عمر کے وہ قیدی جو ایک تہائی سزا مکمل کر چکے ہیں ان کی سزا بھی کم کی جائے گی۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پاکستان میں عیدالفطر کی تعطیلات کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے بدھ 31 مارچ سے 2 اپریل تک عیدالفطر کے حوالے سے تعطیلات کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ تعطیلات عید کی خوشیوں کو بھرپور انداز میں منانے کے لیے دی گئی ہیں اور عوام کو عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کا بھرپور موقع فراہم کیا جائے گا۔ عید الفطر کی تاریخ کے حوالے سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ 30 مارچ 2025 کو چاند دیکھنے کے لیے اجلاس ہو گا۔ وزارت مذہبی امور میں ہونے والا یہ اجلاس ملک بھر سے چاند دیکھنے کی رپورٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے عید الفطر کی صحیح تاریخ کا تعین کرے گا۔ یہ تمام اقدامات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت اپنے شہریوں کی خوشیوں کا بھرپور خیال رکھ رہی ہے اور ہر موقع پر ان کے لیے راحت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ مزید پڑھیں: لواحقین نے جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی لاشیں چھین لیں

نئی نسل اور شاعری: روایت سے بغاوت یا جدت کی تلاش؟

شاعری ایک ایسا فن ہے جو انسانی جذبات، خیالات اور احساسات کو نہایت خوبصورتی سے الفاظ میں پروتا ہے۔ شاعری کے ذریعے نہ صرف محبت، دکھ، خوشی اور امید کا اظہار کیا جاتا ہے بلکہ یہ ایک طاقتور ذریعہ بھی ہے سماجی مسائل پر روشنی ڈالنے کا۔ ہر سال 21 مارچ کو عالمی یومِ شاعری منایا جاتا ہے، جس کا مقصد شاعری کے فن کو خراجِ تحسین پیش کرنا اور نئے شاعروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ یہ دن 1999 میں یونیسکو کی جانب سے منظور کیا گیا تاکہ شاعری کو ایک ثقافتی اظہار کے طور پر تسلیم کیا جا سکے اور زبان و ادب کے فروغ میں اس کے کردار کو اجاگر کیا جا سکے۔ شاعری صدیوں سے دنیا بھر میں مختلف ثقافتوں اور زبانوں میں ایک اہم مقام رکھتی ہے، لیکن جب بات اردو شاعری کی ہو تو اس کی جڑیں انتہائی گہری اور اس کی تاثیر وسیع ہے۔ اردو شاعری کی بنیاد فارسی اور عربی ادب سے متاثر ہو کر رکھی گئی۔ امیر خسرو کو اردو کا اولین شاعر کہا جاتا ہے، جنہوں نے دہلی کی گلیوں میں پروان چڑھتی ہوئی اس زبان کو اپنے اشعار میں جگہ دی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں میر تقی میر، مرزا غالب، سودا اور ذوق جیسے عظیم شعراء نے اردو غزل اور نظم کو نیا آہنگ بخشا۔ ان کی شاعری میں محبت، فلسفہ، درد اور سماجی حقیقتیں نمایاں نظر آتی ہیں۔ مرزا غالب کے بعد علامہ اقبال کی شاعری نے اردو ادب کو ایک نئی روح عطا کی۔ اقبال نے اپنی شاعری میں خودی، آزادی، روحانی بیداری اور اسلامی فلسفے کو اجاگر کیا۔ ان کے بعد فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی اور پروین شاکر جیسے شعراء نے اردو شاعری میں نئے موضوعات کو متعارف کرایا۔ اردو شاعری آج بھی زندہ ہے، مگر اس کا دائرہ کار بدل چکا ہے۔ پہلے شاعری محافل، مشاعروں، دیوانوں اور کتابوں تک محدود تھی، مگر آج سوشل میڈیا نے شاعری کو نئی جہت دی ہے۔ انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب پر “انسٹا پوئٹری” کا رجحان بڑھ رہا ہے، جہاں نوجوان شعراء مختصر اشعار اور نثری شاعری کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ معروف شاعر خرم آفاق اس حوالے سے کہتے ہیں کہ آج کی شاعری میں روایت سے جڑت کم ہوتی جا رہی ہے۔ جدید شاعر جذبات کو بیان تو کر رہے ہیں، مگر ان کے ہاں وہ فنی پختگی اور فکری گہرائی کم نظر آتی ہے جو میر، غالب، اقبال اور فیض کی شاعری میں تھی۔ دوسری جانب نوجوان شاعر امین چوہدری کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے شاعری کو عام کیا ہے، اب شعر کہنے کے لیے کسی دیوان کی ضرورت نہیں، بس ایک پوسٹ یا ٹویٹ کافی ہے۔ لیکن اس آسانی کے باعث معیار بھی گرتا جا رہا ہے، کیونکہ ہر شخص شاعر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں شاعری کو آج بھی ایک اہم ادبی صنف سمجھا جاتا ہے۔ انگریزی شاعری میں ولیم ورڈز ورتھ، شیلے، کیٹس اور ٹی ایس ایلیٹ جیسے شعرا نے ادب کو نئی راہیں دکھائیں۔ عربی شاعری میں نزار قبانی، فارسی میں حافظ اور رومی کی شاعری آج بھی مقبول ہے۔ لیکن ڈیجیٹل دور میں، شاعری کے قارئین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ شعری مجموعے کم چھپ رہے ہیں، مشاعروں میں پہلے جیسی رونق نہیں، اور لوگ نثری ادب کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا شاعری کا مستقبل روشن ہے؟ کچھ نقادوں کا کہنا ہے کہ شاعری کا معیار زوال پذیر ہے، مگر دوسرے کہتے ہیں کہ یہ صرف ایک ارتقائی مرحلہ ہے۔ آج کے نوجوانوں کے پاس اظہار کے بےشمار طریقے ہیں، اور وہ روایتی شاعری سے زیادہ آزاد شاعری کو پسند کرتے ہیں۔ اردو کے معروف شاعر عقیل عباس کا کہنا ہے کہ شاعری کبھی ختم نہیں ہو سکتی، کیونکہ انسانی جذبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ بس وقت کے ساتھ اس کا انداز اور ذریعہ بدل رہا ہے۔ شاعرہ عروج زہرا کہتی ہیں کہ یہ سچ ہے کہ روایتی شاعری کے قارئین کم ہو رہے ہیں، مگر شاعری آج بھی ہر دور کی طرح ایک طاقتور ذریعہ اظہار ہے۔ اگر ہم اس کے معیار کو برقرار رکھیں تو یہ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ عالمی یومِ شاعری ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ ہم اس عظیم ادبی ورثے کی حفاظت کریں، نئے شاعروں کی حوصلہ افزائی کریں، اور شاعری کو نئے زمانے کے مطابق ڈھالیں۔ اگر ہم شاعری کی اصل روح کو برقرار رکھیں اور اس میں موجود فکری گہرائی کو نظرانداز نہ کریں، تو شاعری کا مستقبل یقیناً روشن ہے۔ شاعری کبھی نہیں مرتی، بس اسے سننے والے بدل جاتے ہیں۔  

کیا پیسوں سے خوشیاں خریدی جاسکتی ہیں؟

نامور شاعر کامل شطاری نے کہا تھا کہ ‘کیا پوچھتے ہو مجھ سے میرے دل کی آرزو۔۔ اب میری ہر خوشی ہے تمھاری خوشی کے ساتھ’۔ خوشی انسانی زندگی کا ایک بنیادی جذباتی پہلو ہے، جو ہر فرد کے تجربات اور حالات کے مطابق مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج عالمی خوشی کا دن منایا جارہا ہے، جس کا مقصد لوگوں میں خوشی کے جذبات کو فروغ دینا اور انہیں یہ احساس دلانا ہے کہ خوشی صرف ایک ذاتی تجربہ نہیں، بلکہ یہ ایک سماجی رویہ بھی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 12 جولائی 2012 کو 20 مارچ کو خوشی کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا اور 2013 میں پہلی بار اس دن کو باضابطہ طور پر منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں خوشی کی اہمیت کو اجاگر کرنا، افراد کی خواہشات کو تسلیم کرنا، وقتی رنجشوں کو بھلانا، اور ذہنی سکون کو فروغ دینا ہے۔ یہ سال ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دیرپا خوشی ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنے، جڑے رہنے اور کسی بڑی چیز کا حصہ بننے سے حاصل ہوتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ خوشی درحقیقت ہے کیا؟ کیا اس کا حصول ممکن ہے؟ اور کیا محض ایک دن منانے سے خوشی حاصل کی جا سکتی ہے؟ ماہرینِ نفسیات کے مطابق خوشی ایک پیچیدہ اور ذاتی تجربہ ہے، جو ہر فرد کے لیے مختلف ہو سکتا ہے۔ کچھ افراد کے لیے خوشی کا مطلب ذہنی سکون ہے، جب کہ کچھ کے لیے یہ دولت، کامیابی، یا پسندیدہ افراد کے ساتھ وقت گزارنے سے جڑی ہوتی ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فار ویمن کی کلینیکل سائیکالوجسٹ اور پروفیسر شمائلہ مہناز نے ‘پاکستان میٹرز’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خوشی کا براہِ راست تعلق دماغ سے ہے۔ جب کوئی خوش ہوتا ہے، تو اس کے دماغ کو سکون اور جسم کو راحت ملتی ہے۔ خوشی نہ صرف ذہنی صحت کو بہتر بناتی ہے، بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی نکھارتی ہے۔ اگر انسان مثبت سوچ رکھے اور ان کاموں میں خود کو مصروف رکھے جو اسے خوشی دیتے ہیں، تو وہ زیادہ پُرسکون اور صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔ مگر اس سے سوال نے جنم لیا ہے کیا خوشی کا مطلب صرف ذہنی سکون ہے؟ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ نفسیات کی طالبہ زینب اقبال کے مطابق خوشی کا اصل مطلب ذہنی سکون ہے اور یہ ہر فرد کے لیے مختلف ہو سکتی ہے۔ بعض لوگوں کے لیے خوشی ان کے پیاروں سے جڑے رہنے میں ہے، جبکہ بعض کے لیے خوشی کا دارومدار دولت اور مادی سہولیات پر ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہ کہ ٹیکنالوجی اور جدید طرزِ زندگی نے جہاں سہولیات فراہم کی ہیں، وہیں اس نے انسان کو ایک مشین بھی بنا دیا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت۔۔۔ احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات انسان نے خود کو ایسی ذہنی الجھنوں اور اداسی میں مبتلا کر لیا ہے جس کی بظاہر کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی۔ ڈیجیٹل ترقی نے ہمارے سوشل نیٹ ورکس کو وسیع کر دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ذہنی دباؤ اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات نے خوشی کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے۔ یہ بحث طویل عرصے سے جاری ہے کہ آیا دولت خوشی لا سکتی ہے یا نہیں۔ ماہرین کی رائے اس بارے میں تقسیم ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ بنیادی ضروریات اور مالی استحکام خوشی کے لیے ناگزیر ہیں، جبکہ دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ حقیقی خوشی معاشرتی تعلقات، ذہنی سکون اور اندرونی اطمینان میں ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ کے مطابق پیسہ خود خوشی نہیں لا سکتا، مگر یہ زندگی میں آسانیاں پیدا کر سکتا ہے۔ جب زندگی میں آسانی ہو، تو ذہنی سکون حاصل کرنا ممکن ہوتا ہےاور ذہنی سکون ہی اصل خوشی ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں زیادہ خوشحال ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کی بہتر تعلیمی سہولیات، معیاری طرزِ زندگی، اور آخرت کی فکر سے آزاد رویہ بتایا جاتا ہے۔ پروفیسر شمائلہ مہناز کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ زیادہ خوش رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور دوسروں کے معاملات میں بے جا مداخلت نہیں کرتے۔ اس کے برعکس، ترقی پذیر ممالک میں خوشی زیادہ تر خاندانی اور سماجی روابط پر منحصر ہوتی ہے۔” ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ کے مطابق، وہ ممالک جہاں سماجی انصاف، صحت کی سہولیات اور معاشی استحکام موجود ہیں، وہاں خوشی کی سطح بلند ہوتی ہے۔ تاہم، ترقی پذیر ممالک میں خاندانی اور سماجی تعلقات کی مضبوطی کی وجہ سے لوگ زیادہ مطمئن محسوس کرتے ہیں۔ زینب اقبال کے مطابق ہم نے سوشل میڈیا پر دوست بنا لیے ہیں، مگر اپنے حقیقی رشتوں سے دور ہو گئے ہیں۔ ہمارا قیمتی وقت، جو ہمارے خاندان کا حق ہے، ہم سوشل میڈیا کو دے رہے ہیں۔ آج ہماری خوشی ایک میسج یا ایک ریپلائی پر منحصر ہو گئی ہے۔ ہم جتنا سوشل میڈیا پر وقت گزارتے ہیں، اتنا ہی ذہنی سکون کھوتے جا رہے ہیں۔” ماہرین کا کہنا ہے کہ خوشی کوئی مستقل چیز نہیں، بلکہ ایک مسلسل عمل ہے۔ خوشی کو بڑھانے کے لیے مثبت سوچ اپناناچھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سراہناشکرگزاری کی عادت اپناناعبادات میں وقت گزارنا اور اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا ضروری ہے۔ پروفیسر شمائلہ مہناز کے مطابق انسان تب تک خوش نہیں رہ سکتا، جب تک وہ یہ تہیہ نہ کر لے کہ اس نے خوش رہنا ہے۔ خوشی کا راز دوسروں کی خوشی میں خوشی محسوس کرنا اور مثبت طرزِ فکر اپنانا ہے۔ عالمی یومِ خوشی ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ اصل خوشی دولت یا مادی سہولیات میں نہیں، بلکہ ذہنی سکون اور اچھے تعلقات میں ہے۔ ہمیں اپنی خوشیوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹنا چاہیے، کیونکہ ‘شیئرنگ از کیئرنگ’ یعنی خوشی بانٹنے سے بڑھتی ہے۔ مزید یہ کہ دوسروں کے کام آنا ہے۔

پارلیمانی کمیٹی اجلاس: سیاسی و فوجی قیادت کا خوارج اور دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنےکا فیصلہ

 پاکستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے قومی قیادت کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیا،اجلاس میں سیاسی و فوجی قیادت کا خوارج اور دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنےکا فیصلہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اہم اجلاس بلوچستان کے ضلع بولان میں جعفر ایکسپریس، نوشکی میں سکیورٹی فورسز کے قافلے اور خیبرپختونخوا کے ضلع ٹانک میں جنڈولہ کے مقام پر ایف سی چیک پوسٹ پر عسکریت پسندوں کے حملوں جیسے واقعات کے تناظر  میں منعقد کیا گیا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان حالیہ دنوں میں شدت پسندی کا سب سے زیادہ نشانہ بنے ہیں۔ گلوبل ٹیررزم انڈیکس 2025 کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں پاکستان میں ہونے والے 96 فیصد سے زائد شدت پسند حملے اور اموات انہی دو صوبوں میں ہوئی ہیں۔ اجلاس میں علامیہ جاری کیا گیا جس میں  کہا گیاکہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ ممکن بنانے کے لیے مربوط اور منظم حکمت عملی اپنانا ہوگی، دہشت گردی کی حمایت کرنے والےکسی بھی گروہ کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائےگی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا، اعلامیےکے مطابق کمیٹی نےکہا کہ پاکستانی اداروں کو قانون نافذ کرنے اور قومی سلامتی کے معاملات میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔کمیٹی نے اس بات پرزور دیا کہ دہشت گردی کے خاتمےکے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی مزید بہتربنانے کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔ اعلامیے کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کا کہنا ہےکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی ادارے، فرد یا گروہ کو کمزوری نہیں دکھانی چاہیے، ایک مضبوط اور مربوط حکمت عملی کے تحت قومی سلامتی کو یقینی بنایا جانا چاہیے،کمیٹی نے حزب اختلاف کے بعض ارکان کی عدم شرکت پر افسوس کااظہار کیا اور کہا کہ مشاورت کا عمل جاری رہےگا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی ملک کے لیے ناسور بن گئی ہے، ہم یہاں دہشت گردی کے مسئلے کا حل نکالیں گے، ہم آخری دہشت گرد کی موجودگی تک ان کا پیچھا کرکے قلع قمع کریں گے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا  کہ ہم ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کریں گے، شہدا کی قربانیوں کو فراموش نہیں کر سکتے، انہوں نے ملک کے لیے جانیں قربان کرنے والے سیکیورٹی اہلکاروں کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ شہباز شریف نے قومی نوعیت کے اہم اجلاس میں حزب اختلاف کی عدم شرکت کو افسوسناک اور غیر سنجیدہ طرز عمل قرار دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ حزب اختلاف کی اجلاس میں عدم شرکت قومی ذمہ داریوں سے منہ موڑنے کے مترادف ہے جو قوم کی مقدس امانت ہیں، دہشت گردی کے خلاف سب کو متحدہ ہو کر آگے بڑھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دسمبر 2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد میرے قائد میاں محمد نواز شریف نے پوری قوم کو متحد کیا اور پوری قوم نے مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ  افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے ادارے، سیکیورٹی ایجنسیز، سیاستدان، پاکستانی شہریوں نے لازوال قربانیوں کی داستان رقم کی ،جبکہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، قربانیوں کی بدولت پاکستان کا امن بحال ہوا، معیشت سنھبلی اور ملک کی رونقیں بحال ہوئیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے قومی سلامتی کمیٹی کو ملکی صورتحال پر 50 منٹ تک تفصیلی بریفنگ دی، آرمی چیف نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی کی صورتحال سے آگاہ کیا، آرمی چیف کی بریفنگ کے بعد 15 منٹ کے لیے نماز کا وقفہ کیا گیا۔ اجلاس سے خطاب میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ہمارے صوبے میں سکیورٹی مسائل موجود ہیں، پولیس فورس اور دیگر سکیورٹی فورسز کا مورال بڑھا رہے ہیں، پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا جارہا ہے۔ علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کو مکمل وسائل فراہم نہیں کیےگئے، ہم بارہا وفاق سے یہ معاملہ اٹھا رہے ہیں، افواج پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، فوج نے خیبرپختونخوا میں امن کے لیے بہت کام کیا ہے، ہمیں آپس کی بداعتمادی کو ختم کرنا ہوگا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ پیپلزپارٹی پاکستان سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہرطرح کی مدد کو تیار ہے، یہ اہم قومی مسئلہ ہے جس میں اگر مگر کی گنجائش نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نےکہا کہ افغانستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، جو آگ پاکستان میں لگی ہے اردگرد رہنے والے یہ مت سمجھیں کہ ان تک نہیں پہنچےگی، دہشت گردوں کی مالی مدد کرنے والوں کا بھی پتا لگانا ہوگا، افغانستان میں دہشت گردوں کا معاملہ بھرپورانداز میں سفارتی سطح پر اٹھانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ  دنیا کو بھی افغان حکومت کے کردار سے آگاہ کرنا ہوگا،اپنی خارجہ پالیسی کو مزید مؤثر بنانا ہوگا، بیرونی دنیا بھی یہ سب معاملات دیکھے، دنیا خود کو اس خطے سے الگ تھلگ نہیں رکھ سکتی۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے اپنے خطاب میں قومی سلامتی اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر پی ٹی آئی پر کڑی تنقیدکی،خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آج کے دن بھی اپوزیشن نے ریاست کے بجائے ایک شخص کو ترجیح دی، عوام کو ان کا اصل چہرہ دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے سابق دور حکومت میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا، پی ٹی آئی کے دور میں پھر افغانستان سے دہشت گردوں کو لاکر یہاں بسایا گیا، ان دہشت گردوں کے سبب آج ایک بار پھر پورے ملک میں بے چینی کی کیفیت ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کو یہاں نہ دیکھ کر مایوسی ہوئی، مجھ سے مشورہ کرتے تو ان کو اجلاس میں آنےکا ضرور کہتا،1988سے اس ایوان کا حصہ رہا ہوں، آئین سے وفاداری کا حلف اٹھاتا رہا ہوں۔ مولانا فضل الرحمان نےکہا کہ میں استاد کو شہیدکہوں گا لیکن مارنے والےکو مجاہد نہیں کہہ

اسرائیل کے جنگ بندی معاہدہ توڑتے ہوئے غزہ پر حملے، مزید 400 معصوم افراد شہید

اسرائیلی فضائی حملوں نے منگل کے روز غزہ پر گولہ باری کی، جس میں 400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق، جنگ بندی کے بعد سے تقریباً دو ماہ کا نسبتاً سکون ختم ہو گیا۔ اسرائیل نے خبردار کیا کہ یہ حملہ “صرف آغاز” تھا۔ اسرائیل اور حماس نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ جنوری سے جاری جنگ بندی نے غزہ کے 2.3 ملین شہریوں کو کچھ مہلت دی تھی، لیکن اب شہر تباہی کے دہانے پر ہے۔ حماس، جس کے پاس اب بھی 59 سے زیادہ یرغمالی موجود ہیں، نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ ثالثوں کی مدد سے جنگ بندی کے مستقل معاہدے کی کوششوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ تاہم، حماس نے فوری جوابی کارروائی کی کوئی دھمکی نہیں دی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ انہوں نے حملے کا حکم اس لیے دیا کیونکہ حماس نے جنگ بندی میں توسیع کی تجاویز کو مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے غزہ کے شہریوں کو محفوظ علاقوں میں جانے کی ہدایت کرتے ہوئے ہر ہلاکت کا ذمہ دار حماس کو ٹھہرایا۔ نیتن یاہو نے کہا، “اب سے اسرائیل حماس کے خلاف بڑھتی ہوئی طاقت کے ساتھ کارروائی کرے گا۔ مذاکرات صرف آگ میں ہوں گے۔ حماس نے پچھلے 24 گھنٹوں میں ہمارے وار محسوس کیے ہیں، اور میں یقین دلاتا ہوں کہ یہ صرف شروعات ہے۔” حملے شمالی سے جنوبی غزہ تک پھیلے، جس میں گھروں اور خیمہ بستوں کو نشانہ بنایا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، اسرائیلی طیاروں نے غزہ شہر پر میزائل برسائے، جبکہ ٹینکوں نے سرحد پار گولہ باری کی۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد یہ ایک دن میں ہونے والی سب سے بڑی ہلاکتیں ہیں۔ غزہ شہر کی 65 سالہ ربیعہ جمال نے کہا، “یہ جہنم کی رات تھی۔ یہ جنگ کے پہلے دنوں جیسا محسوس ہو رہا تھا۔” شمالی اور جنوبی علاقوں میں کئی خاندان اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے، کچھ پیدل، کچھ گاڑیوں یا رکشوں پر نکلے، جب اسرائیلی فوج نے انہیں “خطرناک جنگی زون” سے نکلنے کا حکم دیا۔ مصر اور قطر، جو امریکہ کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے میں ثالث ہیں، نے اسرائیلی حملے کی مذمت کی، جبکہ یورپی یونین نے جنگ بندی کے خاتمے پر افسوس کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ کے ہنگامی امدادی رابطہ کار ٹام فلیچر نے کہا کہ “جنگ بندی کے دوران حاصل ہونے والے معمولی فوائد کو تباہ کر دیا گیا ہے۔” اسرائیل نے دو ہفتوں سے زائد عرصے سے غزہ میں امداد کی ترسیل روک دی ہے، جس سے انسانی بحران مزید شدید ہو گیا ہے۔ تاہم، اقوام متحدہ میں قائم مقام امریکی سفیر ڈوروتھی شیا نے کہا کہ غزہ میں جنگ دوبارہ شروع ہونے کا الزام “صرف حماس پر ہے” اور اسرائیل کے اگلے اقدامات کی حمایت کی۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان برائن ہیوز نے کہا، “حماس یرغمالیوں کو رہا کر کے جنگ بندی کو بڑھا سکتی تھی، لیکن اس نے انکار اور جنگ کا انتخاب کیا۔”

’انڈیا کا خود کو مظلوم ظاہر کرنا حقیقت کو چھپا نہیں سکتا‘ پاکستان کا مودی کو دوٹوک جواب 

پاکستان نے انڈین وزیر اعظم نریندرا مودی کے لگائے گئے الزامات کی نفی کی ہے جو انہوں نے ایک پوڈکاسٹ کے دوران لگائے تھے۔  انڈین وزیراعظم نے پیر کے روز لیکس فریڈ مین کے ساتھ پوڈکاسٹ میں شرکت کی اور مختلف سوالات کے جواب دیے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے مودی کے الزامات کو گمراہ کن قرار دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بیان گمراہ کن اور یک طرفہ ہے۔ اس میں جموں و کشمیر کے تنازعے کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا گیا جو گذشتہ سات دہائیوں سے حل طلب ہے، باوجود اس کے کہ انڈیا نے اقوام متحدہ، پاکستان اور کشمیری عوام کو اس کے حل کے لیے باضابطہ یقین دہانیاں کرا رکھی ہیں۔‘ ترجمان کا کہنا تھا کہ انڈیا کا خود کو مظلوم ظاہر کرنے کا من گھڑت بیانیہ اس حقیقت کو نہیں چھپا سکتا کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے اور جموں و کشمیر میں ریاستی جبر میں ملوث ہے جس پر اس نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ ’دوسروں پر الزام لگانے کے بجائے انڈیا کو اپنے ریکارڈ پر غور کرنا چاہیے جس میں دوسرے ملکوں میں ٹارگٹ کلنگ، تخریب کاری اور دہشت گردی کرانا شامل ہے‘۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ تعمیری روابط اور نتیجہ خیز مذاکرات کا حامی رہا ہے تاکہ تمام دیرینہ مسائل، خصوصاً جموں و کشمیر کے بنیادی تنازعے کو حل کیا جا سکے۔ تاہم جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام انڈیا کے ضد پر مبنی رویے اور تسلط پسندانہ عزائم کی وجہ سے یرغمال بنا ہوا ہے۔ ’انڈیا کی طرف سے پھیلایا جانے والا پاکستان مخالف بیانیہ دوطرفہ ماحول کو خراب کرتا اور امن اور تعاون کے امکانات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔‘ یاد رہے کہ پوڈ کاسٹ میں نریندر مودی سے سوال کیا گیا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات سرد سطح پر ہیں اور وہ ان کے مستقبل کے طور پر کیا دیکھتے ہیں؟۔ مودی نے اس پر جواب دیا تھا کہ’ تقسیم کے المناک واقعات کے بعد جس نے دونوں طرف خونریزی دیکھی، ’ہم نے ان (پاکستان) سے جینے اور جینے کی توقع کی، لیکن پھر بھی، انہوں نے ہم آہنگی کے ساتھ بقائے باہمی کو فروغ دینے کا انتخاب نہیں کیا۔ انہوں نے بار بار انڈیا کے ساتھ اختلافات کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ہمارے خلاف پراکسی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔‘ انہوں نے مزید الزام لگایا کہ ’دہشت گردی کے عالمی واقعات میں پاکستان کا ملوث ہونا پایا جاتا ہے،دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی ہوتی ہے، راستہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کی طرف جاتا ہے‘۔  آئیے مثال کے طور پر 11 ستمبر کے حملوں کو لے لیں۔ اس کے پیچھے اصل ماسٹر مائنڈ، اسامہ بن لادن، آخر وہ کہاں سے نکلا؟ اس نے پاکستان میں پناہ لی تھی۔‘