April 19, 2025 10:20 pm

English / Urdu

پاکستان میں دوہرا نظام تعلیم، ہائر ایجوکیشن ہر ایک کے لیے کیوں نہیں؟

پاکستان میں ایک نصاب، ایک نظام نہ ہونے سے طبقاتی تفریق پیدا کررہا ہے یہ نظام امیر و غریب، شیعہ و سنی، دیوبندی اور اہلحدیث جیسی دینی تفریق، جدید اور قدیم، لسانی فرق کو بھی واضح کرتا ہے۔ پسماندہ علاقوں میں تعلیمی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے شرحِ خواندگی 49 فیصد ہے اور وہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کر لینا بھی ایک بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں یونیورسٹی کی تعلیم کا تناسب تین سے چار فیصد پایا جاتا ہے۔ محمد شعیب نامی نوجوان ایک دیہی علاقے میں رہتا ہے، جہاں بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو جامعات کی تعلیم دلانے کے بجائے ہنر سکھانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ محمد شعیب نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “ہمارے علاقے میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں پرائمری تعلیم کے لیے بچوں کو دور دراز علاقوں میں جانا پڑتا ہے جبکہ ہائی سکول اور کالج کی تعلیم کے لیے شہر جانا لازمی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے بچے کالج تک بھی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور جامعات کی تعلیم دور کی بات ہے۔” پسماندہ علاقوں میں والدین زیادہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو ہنر سکھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں یہ سوچ پروان چڑھ چکی ہے کہ میٹرک کے بعد نوجوان کو روزگار کی طرف آ جانا چاہیے۔ اکثر والدین اپنے بچوں کو اس لیے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم دلواتے ہیں کیونکہ ان کی قومی شناختی کارڈ کے لیے عمر پوری نہیں ہوتی۔ مزید برآں، نوکریوں کی کمی کی وجہ سے والدین سمجھتے ہیں کہ ہنر سکھانا زیادہ بہتر فیصلہ ہے۔ پاکستان کے کچھ علاقوں میں خواتین کی تعلیم کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں زیادہ سے زیادہ پرائمری تک تعلیم دلوانا مناسب سمجھا جاتا ہے۔ محمد شعیب کے مطابق لڑکیوں کی شرح خواندگی 15 سے 20 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی سہولیات کا فقدان اور والدین کی جانب سے بیٹیوں کو دور بھیجنے سے گریز ہے۔ اگر قریبی علاقوں میں معیاری تعلیمی ادارے ہوں تو شاید والدین اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے بارے میں سوچیں۔ اس کے علاوہ کم عمری کی شادی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی بجائے گھر کے کاموں میں الجھا کر رکھا جاتا ہے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ‘کو’ ایجوکیشن بھی بعض علاقوں میں تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اگر ان علاقوں میں مناسب تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں تو شرحِ خواندگی میں اضافے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں اور لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی توجہ دی جا سکتی ہے۔   ملک میں دوہرا نظامِ تعلیم امیر اور غریب کے درمیان فرق کو مزید بڑھا رہا ہے۔ امیر طبقے کے لیے الگ نصاب اور غریب طبقے کے لیے الگ نصاب ترتیب دیا گیا ہے جس وجہ سے نچلے طبقے میں احساسِ کمتری کو مزید بڑھاوا ملا ہے۔ ماہر تعلیم ڈاکٹر محمد حمزہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان میں دوہرا نظامِ تعلیم امیر اور غریب کے درمیان واضح تفریق پیدا کر رہا ہے۔ سرکاری اداروں کے طلبہ جدید وسائل اور معیاری نصاب سے محروم رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خود کو کم تر محسوس کرتے ہیں اور جلد از جلد روزگار کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔” پاکستان کے بعض علاقوں میں قریبی سکول اور کالجز نہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگ تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ بیشتر دیہاتوں میں پرائمری سکول تو موجود ہیں لیکن ہائی سکول 20، 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے والدین بچوں کو مزید تعلیم دلوانے سے قاصر ہوتے ہیں، اسی وجہ سے یونیورسٹی کا تعلیمی تناسب کم ہے۔ ماہر تعلیم ڈاکٹر محمد حمزہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ہائی سکول نہ ہونے کی وجہ سے والدین بچوں کو مزید تعلیم نہیں دلا سکتے۔ طویل فاصلے اور مالی وسائل کی کمی کے باعث اکثر طلبہ، خاص طور پر لڑکیاں، تعلیم ادھوری چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ صورتحال اعلیٰ تعلیم تک رسائی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔” اگر دیکھا جائے تو چند علاقوں میں سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہونے کے باوجود ان کا انفراسٹرکچر نوجوانوں کی ذہنی نشوونما اور نوکری حاصل کرنے کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر نوجوان مزید پڑھینے کی نسبت میٹرک کے بعد نوکری کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ وہ یونیورسٹی کی فیس اور دیگر اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت مالی مدد فراہم کرے تو یہ طلبہ بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی نظام اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسیوں نے نوجوانوں میں بہت مایوسی پیدا کر دی ہے۔ ڈاکٹر محمد حمزہ کے مطابق، ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسیاں عام طلبہ کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہو رہیں۔ اسکالرشپس اور مالی معاونت محدود تعداد میں دی جاتی ہے جو ہر مستحق طالب علم تک نہیں پہنچتی۔ فیسوں میں اضافے اور مہنگے تعلیمی نظام کے باعث بہت سے باصلاحیت طلبہ یونیورسٹی تک نہیں پہنچ پاتے۔ نجی تعلیمی اداروں نے پاکستانی تعلیمی نظام میں مزید تفریق پیدا کر دی ہے۔ اس دوہرے نظام نے عام آدمی کو تعلیم سے مزید دور کر دیا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمزہ نے نجی یونیورسٹیوں کے حوالے سے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نجی یونیورسٹیاں تعلیم کو کاروبار بنا چکی ہیں۔ بھاری فیسیں عام طالب علم کے لیے رکاوٹ بن جاتی ہیں جس کی وجہ سے اعلیٰ معیار کی تعلیم صرف امیر طبقے تک محدود ہو گئی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو تعلیمی عدم مساوات مزید بڑھ جائے گی۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم ہر کسی کے لیے قابلِ رسائی نہیں ہے، جس کی بڑی وجوہات میں تعلیمی سہولیات کا فقدان، دوہرا نظامِ تعلیم، مالی وسائل کی کمی، اور تعلیمی پالیسیوں میں کمزوریاں شامل ہیں۔ پسماندہ علاقوں میں تعلیمی نظام کو بہتر بنا کر اور مالی مدد فراہم کر کے اعلیٰ تعلیم کے مواقع سب کے لیے یکساں بنائے جا سکتے ہیں۔ اگر حکومت سنجیدگی سے تعلیمی اصلاحات کرے تو امیر اور غریب کے

نوشکی میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ، تین اہلکار، دوعام شہری جاں بحق

بلوچستان کے ضلع نوشکی میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے کے قریب مبینہ خودکش دھماکے کے نتیجے میں تین اہلکار اور دوشہری جاں بحق ہوگئے ہیں جبکہ 12 سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے، جس کے باعث اموات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پولیس کے مطابق، دھماکہ پاک ایران شاہراہ این-40 پر ہوا، جس کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ دھماکے کے بعد سول ہسپتال نوشکی میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا۔ شواہد کے مطابق، حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی سیکیورٹی فورسز کے قافلے سے ٹکرا دی، جس کے نتیجے میں یہ ہولناک دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے بعد سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری نے علاقے کا گھیراؤ کر لیا اور زخمیوں کو فوری طور پر ٹیچنگ اسپتال نوشکی منتقل کیا جا رہا ہے۔ تاحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے تاکہ ممکنہ مزید خطرات کا تدارک کیا جا سکے۔ بلوچستان میں حالیہ برسوں میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد علاقے میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے اور عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مشتبہ سرگرمیوں کی اطلاع فوری طور پر متعلقہ حکام کو دیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔ بلوچستان حکومت نے واقعے کی شدید مذمت کی۔ ترجمان بلوشستان حکومت شاہد رند کا کہنا تھا کہ “بے گناہ افراد کو نشانہ بنانا انتہائی سفاکانہ عمل ہے”۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے نوشکی دالبندین شاہراہ پر بس کے قریب ہونے والے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بزدلانہ حملے عوام اور حکومت کے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے لیے کوئی جگہ نہیں اور ہر قیمت پر امن قائم کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے کے نتیجے میں پانچ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کے علاوہ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس سے قبل بھی یہ تنظیم مختلف حملوں میں ملوث رہی ہے۔ 11 مارچ 2025 کو بھی بی ایل اے نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر بولان پاس کے علاقے ڈھاڈر میں حملہ کر کے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ تاہم، سکیورٹی فورسز نے کامیاب کارروائی کرتے ہوئے تمام مسافروں کو بازیاب کروا لیا تھا اور حملہ آوروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

صارفین کے حقوق: قانون کی کتابوں میں قید انصاف

لاہور کی ایک معروف مارکیٹ میں احمد علی ایک نئے برانڈ کا موبائل فون خرید کر خوشی خوشی گھر پہنچے، مگر چند دن بعد ہی فون میں خرابیاں آنا شروع ہوگئیں۔ جب وہ کمپنی کے شکایتی مرکز گئے تو انہیں تسلی بخش جواب نہ ملا۔ کئی چکر لگانے کے باوجود انہیں نہ تو نیا فون ملا اور نہ ہی خرابی دور کی گئی۔ یہ واقعہ صرف احمد علی تک محدود نہیں، بلکہ دنیا بھر میں صارفین کے ساتھ ہونے والے استحصال کی ایک جھلک ہے۔ ہر سال 15 مارچ کو منایا جانے والا عالمی یومِ صارف ایسے ہی معاملات کو اجاگر کرنے کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔ 1962 میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے پہلی بار صارفین کے حقوق کو سرکاری طور پر تسلیم کیا اور ایک ایسا تصور پیش کیا جس نے آگے چل کر عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کی۔ 1985 میں اقوام متحدہ نے صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے رہنما اصول وضع کیے، مگر ان قوانین کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں صارفین کے ساتھ دھوکہ دہی کے بے شمار واقعات سامنے آتے ہیں۔ سنہ 2013 میں انڈیا میں ایک مشہور میک اپ برانڈ پر صارفین کو جعلی پروڈکٹس بیچنے کا الزام لگا، جس کے بعد عدالت نے برانڈ پر لاکھوں روپے جرمانہ عائد کیا۔ اسی طرح 2018 میں چین میں ایک مشہور فوڈ چین کو غیر معیاری خوراک فراہم کرنے کے الزام میں بند کر دیا گیا تھا۔ ایسے ہی ایک معاملے میں برطانیہ میں ایک مشہور برانڈ کی چاکلیٹس میں غیر معیاری اجزاء پائے گئے، جس کے بعد کمپنی کو کروڑوں پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔ پاکستان میں بھی صارفین کے حقوق کے حوالے سے کئی قابل ذکر واقعات سامنے آئے ہیں۔ 2019 میں لاہور میں ایک معروف کپڑے کی برانڈ پر زائد قیمتیں وصول کرنے کا الزام لگا، جس پر کنزیومر کورٹ نے کارروائی کی اور جرمانہ عائد کیا۔ 2021 میں ایک مشہور ڈیلیوری سروس کے خلاف صارفین نے شکایت کی کہ انہیں آرڈر کردہ کھانے کے بجائے غیر معیاری اور خراب کھانے فراہم کیے گئے۔ ان واقعات کے باوجود، زیادہ تر صارفین اپنی حق تلفی کے خلاف آواز بلند کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ پاکستان میں صارفین کے تحفظ کے لیے کچھ قوانین موجود ہیں، جیسے کہ “کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ،” لیکن ان کے نفاذ کی کمی کے باعث بہت سے صارفین اپنے حقوق سے ناواقف رہتے ہیں۔ کراچی میں ایک مشہور آن لائن اسٹور کے خلاف کئی شکایات درج ہوئیں کہ انہوں نے آرڈرز تو لیے مگر صارفین کو پروڈکٹس ڈیلیور نہیں کیں۔ تحقیقات کے بعد کمپنی پر پابندی لگا دی گئی، مگر لاکھوں صارفین کا پیسہ ضائع ہو چکا تھا۔ اسی طرح اسلام آباد میں ایک نجی ہاؤسنگ اسکیم نے لوگوں کو بہترین سہولیات کی فراہمی کا وعدہ کیا مگر کئی سال گزرنے کے باوجود صارفین کو نہ تو پلاٹس ملے اور نہ ہی ان کی رقوم واپس کی گئیں۔ پاکستان میٹرز سے ہائی کورٹ کے وکیل رانا عمران لیاقت نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان میں صارفین کے حقوق قانونی طور پر موجود ہیں لیکن لوگ قانونی عمل میں پھنسنا نہیں چاہتے۔ کیوں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ مسلسل کورٹ کچہری کے چکر لگائیں گے اور سالوں انتظار کریں گے۔ اس کے بعد بھی کمپنیاں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے کیس جیت جائیں گی اور آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا”۔ عالمی یومِ صارف محض ایک دن نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جس کا مقصد صارفین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا اور حکومتوں و کاروباری اداروں کو ان حقوق کے تحفظ پر مجبور کرنا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں صارفین کے پاس ایک طاقتور ہتھیار سوشل میڈیا ہے، جہاں وہ اپنی شکایات کو دنیا بھر میں پھیلا سکتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ صارفین کی جانب سے چلائی جانے والی سوشل میڈیا مہمات نے بڑی کمپنیوں کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ 2022 میں ایک عالمی فاسٹ فوڈ چین کو صارفین کی شکایات کے بعد اپنی قیمتیں کم کرنی پڑیں۔ رانا عمران لیاقت کا مزید کہنا تھا کہ “عوام کو سوشل میڈیا کی طاقت استعمال کرنی چاہیے۔ آج کل کے دور میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا یہی سب سے مؤثر ترین طریقہ ہے”۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے شعبہِ سوشیالوجی سے وابستہ پروفیسر اکرام اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صارفین کو ان کے حقوق دلانے کے لیے قانونی عمل درآمد، حکومتی نگرانی، اور عوامی آگاہی ضروری ہے۔ مضبوط قوانین بنا کر ان پر سختی سے عمل کیا جائے تاکہ ناقص مصنوعات اور دھوکہ دہی کا سدباب ہو۔ شکایات کے ازالے کے لیے فوری اور شفاف نظام قائم کیا جائے۔ میڈیا اور تعلیمی ادارے صارفین کے حقوق پر آگاہی مہم چلائیں تاکہ لوگ اپنے حقوق سے باخبر ہوں۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر صارفین کو ریویو اور شکایات کا موقع دیا جائے۔ اگر عوام، حکومت، اور نجی شعبہ مل کر کام کریں تو صارفین کو ان کے حقوق دلانا ممکن ہو سکتا ہے۔ بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ حکومت صارفین کے حقوق کے قوانین کو مزید سخت کرے، ان کے نفاذ کو یقینی بنائے، اور عوام میں شعور اجاگر کرے۔ صارفین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کی آگاہی حاصل کریں اور کسی بھی غیر معیاری یا دھوکہ دہی پر مبنی سروس کے خلاف شکایت درج کرائیں۔ پروفیسر اکرام اللہ نے مزید کہا کہ “صارفین کو دھوکہ دہی سے بچانے کے لیے شفاف قوانین کا نفاذ، سخت جرمانے، اور عوامی شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔ آن لائن اور آف لائن کاروباروں کی نگرانی بڑھائی جائے اور شکایات کے فوری ازالے کے لیے ہیلپ لائنز بنائی جائیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر دھوکہ دہی کے طریقوں سے آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ لوگ خود محتاط رہیں”۔ ماہرین کے مطابق، صارفین کے حقوق کے مکمل نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے، کمپنیوں پر کڑی نگرانی رکھی جائے اور عوام کو اس بارے میں زیادہ سے زیادہ تعلیم دی جائے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں کنزیومر کورٹس نہایت فعال ہیں اور صارفین کی شکایات پر فوری

اسلاموفوبیا: نظریاتی جنگ یا خوف کی سیاست؟

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مارچ 2022  میں اسلامی تعاون تنظیم کی ایما پر 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کی پاکستان کی پیش کردہ قرارداد منظور کی تھی۔ پاکستان کی سینیٹ اور قومی اسمبلی نے بھی اکتوبر 2020 میں فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی عوامی تشہیر اور اسلاموفوبیا کی مذمت کرتے ہوئے ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔ جون 2021 میں کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں پاکستانی نژاد مسلم فیملی اس وقت ٹرک حادثے کا شکار ہوئی جب وہ اپنے گھر کے پاس چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں۔ حاثے کے نتیجے میں تین خواتین سمیت چار لوگ موقع پر ہی جں بحق جبکہ ایک نو سالہ بچہ شدید زخمی ہوا۔ اونٹاریو پولیس کی جانب سے تفتیش کے بعد یہ انکشاف سامنے کہ یہ واقعہ نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کے نتیجہ تھا، لیکن یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں تھا، مغربی دنیا میں نائن الیون کے بعد مسلمانوں پر ایسے حملوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے  ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ جمال جعفر خان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں اسلاموفیوبیا بڑھ رہا ہے یا کم ہورہا ہے، اس پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں، جہاں تک اسلامو فوبیا کا تعلق ہے، یہ کچھ علاقوں میں خاص طور پر فرقہ واریت اور قوم پرستی کی وجہ سے بڑھ رہا ہے ،  مگر تعلیم اور شعور میں اضافہ ہونے سے یہ مسائل کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے مشرقی علاقوں میں یہ کم نظر آتا ہے، جب کہ مغربی علاقوں میں خاص طور پر کراچی کی طرف یہ ابھی تک چل رہا ہے۔ متعدد سروے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں مسلمانوں کے حوالے سے منفی رپورٹنگ اس کی بڑی وجہ ہے۔ اخبارات اور ٹی وی پر اسلام اور مسلمان مخالف رپورٹنگ عام طور پر 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد شروع ہوئی، جب مغربی معاشرے نے اسلام کو سیاسی سطح پر ایک خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کیا، بعض تحقیقات کے مطابق 1973  کی عرب اسرائیل جنگ میڈیا میں مسلمان مخالف رپورٹنگ کا نقطہ آغاز تھی۔ پچھلی صدی کی آخری دہائی میں کیمونزم کی شکست کے بعد اسلامی نظریات خاص طور پر ’سیاسی اسلام‘ براہ راست امریکی میڈیا کے نشانے پر آ گیا۔ بعض تجزیہ کار 1996 میں سامنے آنے والی ’سیموئل ہنگٹن‘ کی کتاب ’Clash of Civilization‘ میں پیش کیے گئے تہذیبی ٹکراؤ کے تصور کو میڈیا میں اسلام مخالف رپورٹنگ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جمال جعفر خان نے بتایا کہ مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں عام ہیں، کیونکہ لوگ اسلام کو گہرائی سے نہیں پڑھتے، بس مولویوں کی باتوں پر چل پڑتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فرقہ واریت، نسل پرستی اور ثقافتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لوگ اسلام کی اصل حقیقت کو نہیں سمجھ پاتے اور مختلف فرقے اپنے حساب سے اسلام کو پیش کرتے ہیں، جس سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد عالمی میڈیا پر مسلمانوں کو مغربی تہذیب کے لیے خطرے کے طور پر پیش کرنے کے سلسلے میں شدت آ گئی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ صحافت کے طالب علم سراج حمید نے  ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ اسلام اور مغرب کے درمیان صدیوں پر محیط سیاسی اور عسکری کشمکش جیسے صلیبی جنگیں، عثمانی فتوحات اور نوآبادیاتی دور نے بعض مغربی معاشروں میں مسلمانوں کے بارے میں ایک مخصوص منفی تصور پیدا کیا، جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور یہی اسلاموفوبیا کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ 2016 میں کی گئی ایک تحقیق میں ’جس میں 2000 سے 2015 تک کے میڈیا آرٹیکلز کا جائزہ لیا گیا‘ یہ سامنے آیا کہ میڈیا میں مسلمانوں کو منفی انداز میں پیش کیا گیا اور اسلام کو اکثر ایک پرتشدد مذہب کے طور پر پیش کیا گیا۔ میڈیا اور کیمونیکیشن کی پروفیسر ’الزبتھ پول‘ کے مطابق میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کو مغربی اقدار اور سیکیورٹی کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا۔ ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ نے اپنی ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ  ہمارے علاقے میں محفل میلاد یا شادیوں پر مولوی صاحب نے کہا کہ پیسے پھینکنا غلط ہے اور یہ گناہ ہے۔ لیکن جب وہ خود محفل میں شریک ہوئے تو لوگوں نے ان پر پیسے پھینکنے شروع کر دیے۔ جب انہوں  نے سوال کیا تو مولوی صاحب  نے کہا کہ اس سے پیسے میں برکت آتی ہے۔ پھر اسے ‘وہابی’ اور  ‘شیعہ’  جیسے الزامات سننے کو ملے۔ یہ فرقہ واریت اور غلط فہمیاں ہی اسلام میں مسائل پیدا کرتی ہیں۔ 2007 میں پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے امریکہ میں کروائے گئے سروے میں یہ سامنے آیا کہ مسلمانوں کے بارے میں لوگوں کی منفی رائے زیادہ تر ان باتوں کے زیر اثر تھی جو انہوں نے ذرائع ابلاغ سے سنیں اور پڑھیں، تحقیق کے مطابق مسلمانوں کے خلاف منفی رپورٹنگ کی شرح امریکہ میں 80 فیصد، برطانیہ اور کینیڈا میں 79 فیصد اور آسٹریلیا میں 77 فیصد تھی۔ متعدد تحقیقات  اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ منفی رپورٹنگ عالمی سطح پر مسلمانوں کے لیے غیر سازگار ماحول پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم کے مطابق مغربی میڈیا میں اکثر اسلام اور مسلمانوں کی تصویر کشی یک طرفہ اور منفی انداز میں کی جاتی ہے۔ دہشت گردی یا انتہا پسندی کی کارروائیوں کو اکثر مذہب اسلام سے جوڑا جاتا ہے، جب کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے جرائم کو ان کے مذاہب سے منسوب نہیں کیا جاتا۔ یہ رجحان عام عوام میں اسلام کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے۔ میڈیا میں مسلسل مسلمانوں کو نیگیٹو پورٹریٹ کرنے کے عمل‘ کو عوام اور حکومتی اداروں میں، مسلمان مخالف پالیسیوں کی حمایت میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، مغربی معاشرے کا اپنے مسلمان شہریوں پراعتبار کمزور ہوا اور ان کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی طاقتوں کی مسلمان ممالک میں مداخلت کے لیے رائے

’انڈیا بلوچستان میں دہشت گردی کا اسپانسر ہے‘ ڈی جی آئی ایس پی آر

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے جعفر ایکسپریس پر حالیہ حملے کے بعد بھارت پر بلوچستان میں دہشت گردی کا مرکزی سرپرست ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کا اصل اسپانسر ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ہمرا ہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حملہ اس وقت شروع ہوا جب ٹرین کو دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) کے ذریعے تقریباً ایک بجے پہاڑی علاقے میں روکا گیا۔ اس سے پہلے عسکریت پسندوں نے فرنٹیئر کور (ایف سی) کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا جس میں تین فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جعفر ایکسپریس واقعہ ہندوستان کی جاری دہشت گردانہ ذہنیت کا حصہ ہے،بلوچستان اور ماضی کے واقعات میں دہشت گردی کا اصل اسپانسر ہمارا مشرقی پڑوسی ہے۔ جعفر ایکسپریس حملہ ہندوستان کی دہشت گردانہ ذہنیت کا تسلسل ہے۔ احمد شریف نے حملے کے بارے میں وسیع تر بیانیے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بھارتی میڈیا پر الزام لگایا کہ وہ بی ایل اے کی حمایت میں ایک مربوط معلوماتی جنگی مہم کی قیادت کر رہا ہے۔ جیسے ہی دہشت گردوں نے ٹرین پر حملہ کیا، ہندوستانی میڈیا نے حملہ آوروں کی حمایت میں رپورٹنگ شروع کردی، انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستانی آؤٹ لیٹس نے اے آئی سے تیار کردہ فوٹیج کا استعمال کرتے ہوئے حملے کی تعریف کی۔ ڈائریکٹر جنرل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، “ہندوستانی میڈیا نے اس تقریب کو خوش کرنے کے لیے اے آئی فوٹیج کا استعمال کیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا سے پرانی ویڈیوز اٹھائیں اور دہشت گرد گروپ کی طرف سے تیار کردہ فوٹیج کو نشر کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ بی ایل اے کے عسکریت پسند متعدد گروپوں میں موجود تھے، بشمول آس پاس کی پہاڑیوں پر، انہوں نے مسافروں کو یرغمال بنایا، خواتین اور بچوں کو ٹرین کے اندر الگ کر دیا جبکہ باقی یرغمالیوں کو باہر مختلف مقامات پر لے گئے۔ جنرل احمد شریف  نے یہ بھی انکشاف کیا کہ 11 مارچ کی شام کو یرغمالیوں کے ایک گروپ کو نسلی بنیادوں پر رہا کیا گیا، جس سے کشیدگی اور تقسیم کو مزید ہوا دی گئی۔ انہوں نے اس کے نتیجے میں شروع ہونے والے بچاؤ آپریشن کی وضاحت کی، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح سیکورٹی فورسز نے 12 مارچ کو علاقے کو گھیرے میں لے کر عسکریت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کیا۔ تبادلے کے دوران کچھ یرغمالی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ فوجی اہلکار نے اس بات پر زور دیا کہ، قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپریشن کے دوران ایک بھی یرغمالی ہلاک نہیں ہوا، جسے انہوں نے حالیہ برسوں میں انسداد دہشت گردی کی سب سے کامیاب کارروائیوں میں سے ایک قرار دیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ریمارکس دیے کہ یہ عالمی تاریخ میں یرغمالیوں کو بچانے کا سب سے کامیاب آپریشن تھا، چیلنجوں کے باوجود، ہماری افواج نے مشن کو درستگی اور کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ انجام دیا۔ انہوں نے اس حملے کو جاری علاقائی عدم استحکام سے بھی جوڑا، خاص طور پر افغانستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی حمایت کا ذریعہ ہے کیونکہ اس نے نوٹ کیا کہ بہت سے حملہ آوروں کا تعلق افغان تربیت یافتہ عسکریت پسندوں سے تھا، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ پاکستان کی شمالی سرحد کے قریب واقع تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید دعویٰ کیا کہ خطے میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو افغانستان کی پشت پناہی حاصل تھی، خاص طور پر غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد، جس نے رات کو دیکھنے والے آلات جیسے آلات چھوڑے جو اب عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں ہیں۔

کیا روزہ داروں کا خرچ پاکستانی معیشت کو سہارا دیتا ہے؟

پاکستانی معیشت میں استحکام ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، کبھی ڈالر نے اس کو رسوا کیا تو کبھی مہنگائی اور قرضوں کے بوجھ نے اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، حکومت معیشت کو سہارا دینے اور ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے کبھی آئی ایم ایف کے در پر تو کبھی در بدر اور یہ تماشا آج تک جاری ہے۔ پاکستان میں کوئی مذہبی تہوار ہو یا پھر ثقافتی، لوگ اس سے خوب محظوظ ہوتے ہیں، ایسا ہی کچھ رمضان المبارک میں بھی ہوتا ہے، جہاں عوام ماہ مقدس کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کے لیے روزوں کا اہتمام کرتی ہے اور سحری و افطاری پر خصوصی انتظام کیا جاتا ہے جس کے لیے گراسری سٹورز پر خریداری ریکارڈ ہوتی ہے، اس کے بعد عید کی آمد پر نئے کپڑوں، جوتوں کی خریداری بھی عروج پر رہتی ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ رمضان المبارک میں معاشی سرگرمی تو بھرپور رہتی ہے۔ ریڑھی بان سے مزدور، بس ڈرائیور سے رکشہ ڈرائیور، دیہاڑی دار سے بھٹہ مزدور اور ملازمت پیشہ افراد گھروں کے بجٹ کو بڑھاتے ہوئے فیملی کو خریداری کا بھرپور موقع فراہم کرتے ہیں، ایک سے دو ماہ کی یہ خریداری، یا رقم خرچ بہت نچلی سطح پر معاشی سرگرمی کا سبب بنتا ہے، اس سے حکومتی سطح پر معیشت کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ رمضان المبارک اور پھر عید کی خوشیاں صرف لوئر مڈل کلاس طبقہ تک محدود ہوتی ہیں، یا پھر بڑی چھلانک لگے تو مڈل کلاس تک اس سے اوپر کی کلاس کے لیے پورا سال ایک جیسا ہی ہوتا ہے، کیونکہ جو طبقہ ملکی سطح پر معاشی سرگرمی کا سبب بنتا ہے اس کے لیے رمضان یا عید معمول کا مہینہ ہی ہوتا ہے، اس لیے رمضان کے دوران معاشی سرگرمی نچلے طبقے تک محدود ہوتی ہے۔ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ اختتام پذیر ہے، دُنیا بھر کے بہت سے ممالک میں اُن کے خصوصی دنوں اور تہواروں کے مواقعے پر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کے برعکس وطن عزیز میں ہر شے کے دام بڑھ جاتے ہیں۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حسن رضا نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کے دوران قیمتوں میں اضافے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ رمضان میں قیمتوں میں اضافہ بنیادی طور پر دو عوامل کا نتیجہ ہوتا ہے، ایک، طلب میں اضافہ اور دوسرا، مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لیے ذخیرہ اندوزی۔ اگرچہ طلب و رسد کی منطق کچھ حد تک لاگو ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں مہنگائی کا بڑا سبب منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی ہے، جس پر حکومتی کنٹرول ضروری ہے۔ حکومت کی جانب سے رمضان بازار لگائے تو جاتے ہیں لیکن اس سے عام آدمی کی ضروریات پوری نہیں ہوتی اس حوالے سے ڈاکٹر حسن رضا کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے رمضان بازار اور سبسڈی پروگرامز متعارف کرائے جاتے ہیں، لیکن عملی طور پر ان کے فوائد عوام تک کم ہی پہنچتے ہیں۔ اگر پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال ہوں، ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے، اور ڈیجیٹل مانیٹرنگ کے ذریعے قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ اگر حکومتی اداروں کے علاوہ تاجر حضرات عوام کے لیے خدمات سرانجام دیں تو قیمتیں اعتدال میں رہ سکتی ہیں، ڈاکٹر حسن رضا نے کہا کہ کاروباری طبقہ اگر نیک نیتی سے قیمتوں کو اعتدال پر رکھے، منافع کی شرح کم کرے، اور مستحق افراد کے لیے رعایتی نرخ متعارف کرائے تو رمضان میں عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے۔ کئی تاجر تنظیمیں سستا بازار قائم کرتی ہیں، لیکن اگر یہ عمل پورے ملک میں منظم ہو تو مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر تاجر حضرات رمضان کے مہینے میں عوام کا احساس کرتے ہوئے کم قیمتوں میں اشیا فروخت کریں تو پھر بھی عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اس حوالے سے ڈاکٹر حسن رضا کا کہنا تھا کہ کم منافع پر اشیاء فروخت کرنا ممکن ہے، لیکن اس کے لیے حکومت کو بھی ریلیف فراہم کرنا ہوگا، جیسے ٹیکس میں نرمی یا لاجسٹک اخراجات میں کمی۔ اگر کاروباری حضرات رمضان کو محض منافع کا ذریعہ بنانے کے بجائے خدمت کا موقع سمجھیں، تو عوام کو سستی اشیاء فراہم کی جا سکتی ہیں۔ ملک بھر میں چھوٹے بڑے تاجران آمد رمضان المبارک سے دو تین ماہ قبل ہی ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں جس سے مارکیٹوں اور بازاروں سے کھانے پینے اور روزمرہ کی اجناس کی قیمتوں میں گراں قدر اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے، جس کے آفٹر شاکس عیدالفطر کے کئی ہفتے بعد تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ علامہ راجہ احتشام علی چشتی نے ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے پاکستان میٹرز سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ اشیاء ضروریہ کی سیل روک لینا ذخیرہ کرنا اسلام اور قران پاک کی روح کے منافی ہے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کے دور   میں ایک صحابی نے گندم کا ذخیرہ کیا اپ کو علم ہوا تو آپ نے انہیں بلایا انہوں نے کہا کہ یہ آپ نے ذخیرہ کر کے مہنگا بیچنے کے لیے روک لیا ہے اور اس کے بعد اب مہنگے دام بیچیں گے اس نے کہا کہ یہ میرے پیسے ہم اپنی مرضی سے فروخت کر سکتے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سنایا کہ جو ذخیرہ کرتے ہیں اس نظریے سے سوچ سے کہ اس کو  مہنگا جب ہو جائے گا بیچیں گے تو ان کو قران پاک کی روح سے مفلسی اور جذام کی بیماری کے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اللہ کریم ہمیں مخلوق خدا کی خدمت کی توفیق دے رمضان کی بات کریں تو زکوٰۃ کا ذکر لازمی ہے، موجودہ بدترین معاشی حالات میں رمضان کے سماجی پہلو کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس مہینے میں غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کو تلاش کر کے ان کی کفالت کا انتظام کریں، اس سلسلے میں اس رمضان میں خصوصی طور پر اپنے پاس پڑوس، رشتے داروں اور دوست احباب کی خبر لیں۔ اُن میں جو مستحق ہو، اسے باعزت طریقے سے زکوٰۃ دیں۔ علامہ راجہ احتشام

“بلوچستان کی ترقی کے بغیر ملکی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا” وزیر اعظم کا اے پی سی بلانے کا اعلان

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت بلوچستان میں امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں سانحہ جعفر ایکسپریس سمیت سیکیورٹی چیلنجز پر تفصیلی غور کیا گیا۔وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی کے بغیر ملکی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ دہشت گردوں نے رمضان کے تقدس کا بھی خیال نہیں رکھا اور 400 سے زائد نہتے شہریوں کو یرغمال بنایا، تاہم سیکیورٹی فورسز نے کامیاب حکمت عملی اپناتے ہوئے 339 جانوں کو بچایا اور 33 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔ انہوں نے ضرار کمپنی کے جوانوں کی بہادری کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کا بلند حوصلہ اور عزم قابلِ تحسین ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا کہ بلوچستان کی ترقی کے بغیر ملکی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا،جب تک خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوگا، تب تک ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 2018 میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو چکا تھا، مگر افسوس کہ یہ ناسور دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والے عناصر کی وجہ سے آج ملک کو یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ جیلوں میں قید ہزاروں دہشت گردوں کو رہا کیا گیا، جس کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ بدقسمتی سے بعض حلقوں کی جانب سے ایسے واقعات پر غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی گئی، جسے زبان پر لانا بھی مشکل ہے۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے پاکستان مخالف بیانیے کو فروغ دینے کی مذمت کی اور کہا کہ اپنی ہی فوج کو نشانہ بنانے والے عناصر دراصل ملک دشمنوں کے ایجنڈے کو تقویت دے رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم نے 80 ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ملک کو 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا، مگر افواجِ پاکستان کی لازوال قربانیوں کی بدولت امن قائم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خیبرپختونخوا کو 600 ارب روپے دیے گئے، مگر دیکھنا ہوگا کہ یہ خطیر رقم کہاں خرچ ہوئی۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں انسداد دہشت گردی کے لیے ایک بھی خصوصی محکمہ قائم نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم نے بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے بھی اہم اعلانات کیے، جن میں زرعی تربیت کے لیے 300 طلبہ کو چین بھیجنے اور بلوچستان کے طلبہ کے لیے لیپ ٹاپ اسکیم کے جلد آغاز کا اعلان شامل تھا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے طلبہ کے لیے 10 فیصد اضافی کوٹہ بھی مختص کیا گیا ہے تاکہ وہ مزید تعلیمی مواقع سے مستفید ہو سکیں۔ اجلاس میں اعلیٰ حکومتی و عسکری حکام نے شرکت کی اور سیکیورٹی کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا۔ وزیراعظم نے تمام اداروں کو ہدایت کی کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مربوط اقدامات کیے جائیں اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے، اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم نے بلوچستان کے مسئلے پر اے پی سی بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

’شدت پسندوں کے افغانستان میں ٹیلی فون کالز کرنے کے ثبوت ملے ہیں‘ جعفرایکسپریس پر حملے کا ماسٹر مائنڈ بے نقاب

دفتر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا ہے اور جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے میں بھی دہشت گرد اپنے سرغنوں اور ہینڈلرز سے افغانستان میں رابطے میں تھے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جعفر ایکسپریس حملے کا ریسکیو آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے اور انٹیلی جنس اطلاعات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ حملہ آور افغانستان میں اپنے ساتھیوں سے مسلسل رابطے میں تھے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب سیکیورٹی فورسز نے ان تمام 33 بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا، جنہوں نے جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنایا تھا۔ یہ ٹرین 400 سے زائد مسافروں کو لے کر جا رہی تھی، جنہیں دہشت گردوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔ فوج کے مطابق تمام یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے، تاہم کلیئرنس آپریشن شروع ہونے سے قبل 21 مسافروں کو دہشت گردوں نے شہید کر دیا تھا، جبکہ اس حملے میں چار ایف سی اہلکار بھی شہید ہوئے۔ شفقت علی خان نے کہا کہ افغانستان پر ہماری بنیادی ترجیح دوستانہ و قریبی تعلقات کا فروغ ہے، اس سمت میں تعلقات کا تسلسل اہم ہے، انہوں نے کہا کہ بھارت، پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا ہے، ہماری پالیسی میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم طورخم سرحد کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں، یہ پروپیگنڈا ہے کہ پاکستان طورخم سرحد کو کھلنے نہیں دے رہا، افغانستان کی جانب سے پاکستانی سرحد کے اندر چوکی بنانے کی کوشیش کی جا رہی تھی شفقت علی خان نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان سفارتی روابط کو عوامی سطح پر زیربحث نہیں لاتا، لیکن ایسے واقعات کی تفصیلی معلومات مسلسل افغانستان کے ساتھ شیئر کرتا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی اولین ترجیح افغانستان کے ساتھ دوستانہ اور قریبی تعلقات کو فروغ دینا ہے، جبکہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کا ایک اہم پہلو ہے۔ آپریشن کے بعد، ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ جعفر ایکسپریس واقعہ نے کھیل کے اصول تبدیل کر دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی اس حملے میں ملوث ہے، اسے ڈھونڈ نکالا جائے گا اور انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا اسلام، پاکستان یا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ انٹیلی جنس رپورٹس سے واضح طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ یہ حملہ افغانستان میں موجود دہشت گرد سرغنوں نے منصوبہ بندی کے تحت کیا، اور وہ پورے واقعے کے دوران حملہ آوروں سے براہ راست رابطے میں رہے۔

تباہی کے بعد خاموشی: کیا سیلاب متاثرین کو بھلا دیا گیا؟

ترقی پذیر ممالک میں قدرتی آفات کے اثرات چند دنوں یا مہینوں تک محدود نہیں رہتے بلکہ ان کے اثرات سالوں تک اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے، جہاں سیلاب کی تباہ کاریوں نے کئی دفعہ انسانی زندگی کو متاثر کیا ہے جہاں سیلاب جیسی تباہ کاریاں انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ تاریخ میں ایسے المناک واقعات کو سیاہ باب کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔ تباہ کن سیلاب کے بعد جیسے ہی پانی اترتا ہے، حکومتی اقدامات بھی ان لہروں کے ساتھ بہہ جاتے ہیں۔ ابتدائی امداد کے بعد متاثرین کو فراموش کر دیا جاتا ہے اور وہ بے بسی کی آگ میں جھونک دیے جاتے ہیں۔ بنیادی سہولیات، رہائش اور بحالی کے وعدے اکثر ادھورے رہ جاتے ہیں، جبکہ متاثرہ خاندان برسوں تک مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ پاکستان میں پہلی دفعہ سیلاب 1956 میں آیا پھر 1976،1986 اور 1992 میں آئے، مگر ان سیلاب کے پانی کا اخراج نو لاکھ کیوسک سے زیادہ نہیں بڑھا تھا۔ اس کے بعد 2010 میں سیلاب آیا جسے سب سے زیادہ تباہ کن قرار دیا گیا کیونکہ اس سیلاب میں 10 ہزارکیوسک پانی کا اخراج ریکارڈ کیا گیا تھا ، وزارتِ خزانہ کی ویب سائٹ کے مطابق 2010 کا سیلاب 17 سو جانیں لے گیا تھا۔ ملک کے کل رقبے کا 20 فیصد اور دو کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ 11 لاکھ گھر مکمل تباہ ہو گئے۔ 50 لاکھ سے زائد جانور ہلاک ہوئے تھے۔ 2010 کے سیلاب سے پاکستان کو 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا،جبکہ  2022 کا سیلاب 2010 کی نسبت زیادہ تباکن ثابت ہوا کیوں کہ اس سیلاب میں رقبہ زیادہ متاثر ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2022 کے سیلاب نے پورے ملک کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا تھا جس میں 1739 افراد ہلاک ہوئے اور اس سے پاکستانی معیشت کو مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا،جبکہ سات لاکھ گھر تباہ ہو ئے، سات لاکھ 94 ہزار جانور سیلاب میں بہہ گئے اور 20 لاکھ ہیکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہو ئی۔ 2024 میں بھی پاکستان کے کچھ علاقوں، خاص طور پر دریائے سندھ کے نواحی علاقوں میں زیادہ بارشیں آنے کی وجہ سے سیلاب آنے سے 156 افراد جاں بحق ہوئے۔ 2024 میں اقوام متحدہ نے رپورٹ پبلش کی کہ پاکستان میں سال 2022 میں آنے والے سیلاب کے بعد اب تک کیے گئے امدادی اقدامات سے متاثرین کی بڑی تعداد نے استفادہ کیا ہے۔ تاہم 16 لاکھ افراد کو اب بھی مدد درکار ہے اور 13 لاکھ لوگ تاحال بے گھر ہیں۔ صحافی عمران مہر جو اس وقت سندس فاؤنڈیشن میں بطور مینیجر مارکیٹنگ، پی آر اینڈ میڈیا کام کر رہے ہیں انہوں نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے جیسے ادارے توموجود ہیں لیکن یہ ادارے متحرک انداز میں کام نہیں کرتے اور ان کے فیصلے اکثر تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں اور اسی ناکامی کی وجہ سے ابھی تک متاثرین بے گھر اور بنیادی ضروریات سے بے لوث بیٹھے ہیں پاکستان میں این جی او اور دیگر ادارے امداد کرنے کے لیے سر گرم تو ہوتے ہیں لیکن یہ ادررے مستقل کام نہیں کرتے ، اس حوالے سے عمران مہر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکومتی ادروں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ادارے اور این جی اوز ہمیشہ قدرتی آفات کے دوران متحرک رہی ہیں۔ خاص طور پر 2010 اور 2022 کے سیلابوں میں این جی اوز نے بھرپور کردار ادا کیا اور حکومت کے مقابلے میں زیادہ مؤثر انداز میں امدادی کام انجام دیے، مگر یہ ادرارے مستقل کام نہیں کرتے، امدادی سرگرمیوں کو مربوط اور دیرپا بنانے کی کوئی منظم پالیسی موجود نہیں ہے۔ قدرتی آفات کے ابتدائی دنوں میں عوام نے دل کھول کر عطیات دیتی ہے، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، ان کی توجہ بھی دیگر مسائل کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ بے حسی نہیں بلکہ نظام کی خرابی ہے، کیونکہ زیادہ تر عطیات کا درست استعمال یقینی نہیں بنایا جاتا۔ اس حوالے سے عمران مہر نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں، قدرتی آفات کے دوران عوامی عطیات ہمیشہ ایک اہم ذریعہ رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی سیلاب کے دوران عوام نے دل کھول کر امداد دی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان امداد سے وقتی طور پر زخموں پر مرہم تو لگائی جا سکتی ہے لیکن مستقل طور پر یہ ناکافی ہوتے ہیں اور جن اداروں کو عطیات جمع کرائے جاتے ہیں بعض اوقات وہ ان کا استعمال صحیح طرح نہیں کرتے۔ سیلاب آنے کے بعد پانی تو بہہ جاتا ہے لیکن یہ آفت کئی طرح کی بیماریاں چھوڑ جاتا ہے جو کہ نہ صرف بچوں کے لیے بلکہ عورتوں کے لیے بھی نقصان کاباعث بنتی ہیں ، اس حوالے سے ماہر ماحولیات ڈاکٹر سعد حسین نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کے بعد پینے کے صاف پانی کی کمی، جلدکی بیماری اور وبائی امراض عام ہو جاتی ہیں۔ حکومت کی طرف سے وقتی کیمپ لگائے جاتے ہیں، مگر طویل المدتی طبی سہولیات اور ویکسینیشن کے مؤثر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ سیلاب بچوں اور عورتوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی برے اثرات مرتب ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں ، ڈاکٹر سعد حسین کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات سے متاثرہ بچے اور خواتین شدید ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور صدمے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جسمانی صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بحالی کے لیے بھی کوئی خاص حکمت عملی موجود نہیں، جس سے ان کا طرزِ زندگی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ماہر ماحولیات نے سیلاب کی وجوعات بتاتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، درختوں کی کٹائی، اور ناقص نکاسی آب کے نظام کی وجہ سے سیلاب زیادہ شدید ہو گئے ہیں۔ ہمیں نہ صرف آلودگی کو کم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایسی حکمت عملی بھی اپنانا ہوگی جو قدرتی آفات کے اثرات کو کم کر سکے۔  

سعودی عرب میں امریکا اور یوکرین کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے

یوکرین اور امریکی حکام کے درمیان سعودی عرب میں مذاکرات کا آغاز کیا، جس کا مقصد روس کے ساتھ جنگ ​​کے خاتمے کی راہ تلاش کرنا تھا۔ یہ بات چیت کیف کی افواج کی جانب سے ماسکو پر اب تک کے سب سے بڑے ڈرون حملے کے چند گھنٹے بعد شروع ہوئی۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو امید ہے کہ جدہ میں ہونے والی بات چیت کے ذریعے امریکا کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ مستحکم کیا جا سکے گا، خاص طور پر گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک کشیدہ ملاقات کے بعد۔ زیلنسکی نے روس کے ساتھ فضائی اور سمندری جنگ بندی کی تجویز بھی دی ہے، تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ جنگ کے جلد خاتمے کے لیے عملی اقدامات کر رہے ہیں۔ یہ تجویز ٹرمپ کے اس بیان کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں انہوں نے زیلنسکی پر امن قائم کرنے میں سنجیدہ نہ ہونے کا الزام لگایا تھا اور انہیں روس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ امریکا، جو 2022 میں روسی حملے کے بعد سے یوکرین کا سب سے بڑا اتحادی رہا ہے، نے حالیہ مہینوں میں اپنی پالیسی میں تبدیلی کی ہے۔ اس نے فوجی امداد روک دی ہے اور یوکرین کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ محدود کر دی ہے، جس سے کیف پر شدید دباؤ بڑھ گیا ہے۔ زیلنسکی نے مذاکرات سے قبل ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ وہ عملی نتائج کی امید رکھتے ہیں اور یوکرین کا موقف مکمل طور پر تعمیری ہوگا۔ دوسری جانب، روسی حکام کے مطابق، راتوں رات یوکرین نے ماسکو پر 91 ڈرونز کے ذریعے ایک بڑا حملہ کیا، جس میں کم از کم ایک شخص ہلاک ہوا، آگ بھڑک اٹھی، اور متعدد ہوائی اڈے بند کر دیے گئے، جس کے نتیجے میں درجنوں پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔ ماسکو کا دعویٰ ہے کہ اس نے مجموعی طور پر 337 ڈرونز مار گرائے، جبکہ یوکرینی افواج نے یہ حملہ روس کے مسلسل میزائل حملوں کے جواب میں کیا، جن میں ہفتے کے روز کم از کم 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ زیلنسکی اس وقت اپنے یورپی اتحادیوں سے اپنی جنگ بندی کی تجویز پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، اس تجویز سے یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ آیا ماسکو واقعی جنگ ختم کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔ یوکرین نے امریکی تعلقات کی بحالی کے لیے بھی کوششیں تیز کر دی ہیں، خاص طور پر اس وقت جب ٹرمپ نے دوطرفہ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے سے گریز کیا اور کیف کی طرف سے واشنگٹن سے حفاظتی ضمانتوں کے حصول کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔ یہ معاہدہ، جس پر منگل کے روز ہونے والی بات چیت میں غور کیا جانا ہے، 2022 سے یوکرین کے لیے دی جانے والی امریکی فوجی امداد کے تسلسل اور واشنگٹن کی مستقل حمایت کے لیے نہایت اہم ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جدہ جاتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کا بنیادی مقصد یوکرین کے موقف کو سمجھنا اور یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کن شرائط پر رعایت دینے کو تیار ہے۔ ان کے مطابق، جنگ بندی کے لیے دونوں فریقوں کو کچھ نہ کچھ قربانیاں دینا ہوں گی۔ ان مذاکرات میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز بھی شریک ہیں، جبکہ یوکرینی وفد کی قیادت زیلنسکی کے اعلیٰ معاون اینڈری یرماک کر رہے ہیں۔ تاہم، زیلنسکی خود اس میں شریک نہیں ہیں، حالانکہ وہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیے پیر کو سعودی عرب میں موجود تھے۔ یوکرینی وزارت خارجہ نے ٹیلی گرام پر ایک پوسٹ میں کہا کہ “یوکرین اور امریکی وفود کے درمیان ایک میٹنگ جدہ، سعودی عرب میں شروع ہو رہی ہے۔” اس بیان کے ساتھ ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی گئی، جس میں سینئر یوکرینی حکام کو مذاکرات کے لیے ایک میٹنگ روم میں داخل ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل، مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف، جو یوکرینی سفارت کاری کے مسودے پر کام کر رہے ہیں، نے امید ظاہر کی کہ امریکہ اور یوکرین کے درمیان معدنیات کے معاہدے پر جلد دستخط ہو جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق، وٹکوف مستقبل قریب میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو جانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔