’دہشت گردی کو دوبارہ سر اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے‘ صدر زرداری کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب

صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری سکیورٹی فورسز نے اپنی جانوں کی قربان دی ہیں، ہم دہشت گردی کو دوبارہ سر اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ آج پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں منعقد ہوا، جس کا باقاعدہ آغاز قومی ترانے کے بعد تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول ﷺ پیش کی گئی۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کے نئے سال کے آغاز پر سب اراکین کو خوش آمدید کہوں گا۔ 8ویں بار پارلیمان سے خطاب کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں۔ صدر آصف علی زرداری کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا ہمیں پاکستان کے بہترمستقبل کے لیے عزم کے ساتھ کام کرنا ہے، ہمیں ملک میں گڈ گورننس اورسیاسی استحکام کوفروغ دینا ہے اور اپنے جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیےمل کر کام کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک میں سیاسی استحکام کو فروغ دینا ہے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہیں، جب کہ قانون کی حکمران کو یقینی بنانا ہے۔ ملک کی معیشت مستحکم ہوئی ہے اور مثبت راستے پر چلنے کے لیے حکومتی اقداما ت قابل تحسین ہیں۔ صدرِ مملکت نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں کمی، زرِ مبادلہ میں ریکارڈ اضافہ خوش آئند ہے۔ ہمیں عوامی خدمت کے شعبے پر بھرپور توجہ دینی ہوگی۔ عوامی کی بہبود کے منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ آصف زرداری کا کہنا ہے کہ ملک کو یکجہتی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ ملک میں سماجی انصاف کا فروغ ضروری ہے۔ یکساں ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پسماندہ علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دینی ہے، انفراسٹرکچر تعلیم اور صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ ٹیکس نظام میں اصلاحات وقت کا تقاضا ہے، ٹیکس کا منصفانہ نظام لاگو ہونا چاہیے۔ صدرِ مملکت کا کہنا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے آئی ٹی پارکس کا قیام ضروری ہے، کاروبار کے لیے قرض کی آسان رسائی ممکن بنانا ہے، نوجوانوں کو فنی تعلیم سے لیس کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے، جب کہ ہمیں قرضوں تک رسائی، طریقہ کار اور بیوروکریٹک رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔ ایسی پالیسیاں بنانا ہوں گی جو نوجوانوں کے شروع کردہ کاروبار کو فروغ دیں اور ہمیں نوجوانوں کو سپورٹ کرتے ہوئے کاروبار کی طرف مبذول کرنا ہے۔ ایوان کاروبار میں آسانی بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری سکیورٹی فورسز نے اپنی جانوں کی قربان دی ہیں، ہم دہشت گردی کو دوبارہ سر اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ صدر پاکستان کا کہنا تھا اپنی قوم اور بہادر مسلح افواج کے تعاون سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں، انٹیلی جنس پر مبنی کامیاب کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کیا گیا، پوری قوم کو اپنی سیکورٹی فورسز پر فخر ہے۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ پاکستان کو اندورنی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش مقام بنانا چاہیے۔ آج عام آدمی، مزدور اور تنخواہ دار طبقے کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے، شہری مہنگائی، اشیائے ضروریہ کی بلند قیمتوں سے پریشان ہیں۔ عوام توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ آصف علی زرداری کا کہنا تھا ایوان کی توجہ اس فیڈریشن کے لیے ایک تشویشناک معاملے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، میری ذاتی ذمہ داری ہے کہ ایوان اور حکومت کو خبردار کروں آپ کی کچھ یکطرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی اکائیوں کی شدید مخالفت کے باوجود حکومت کا دریائے سندھ کےنظام سے مزید نہریں نکالنے کا یکطرفہ فیصلہ ہے، اس تجویز کی بطور صدر میں حمایت نہیں کر سکتا، میں اس حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس موجودہ تجویز کو ترک کرے، حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے، وفاق کی اکائیوں کے درمیان متفقہ، اتفاق رائے کی بنیاد پر قابل عمل، پائیدار حل نکالا جا سکے۔ واضح رہے کہ یہ خطاب ایسے وقت میں ہوا ہے، جب حکمران مسلم لیگ (ن) اور آصف علی زرداری کی جماعت پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات نمایاں ہو رہے ہیں۔ دونوں جماعتیں مرکز میں حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں، اگرچہ پیپلز پارٹی کے کوئی وزیر وفاقی کابینہ میں شامل نہیں لیکن اس کے ووٹ حکومتی اتحاد کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ دوسری جانب حال ہی میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں نے مسلم لیگ (ن) کے رویے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے، جسے انہوں نے اپنی اتحادی جماعت کے ساتھ ’لاتعلقی پر مبنی رویہ‘ قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے یہ شکایت بھی کی ہے کہ انہیں پنجاب میں نظرانداز کیا جا رہا ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ حال ہی میں پیپلزپارٹی کی زیر قیادت سندھ حکومت نے وفاق کی جانب سے دریائے سندھ سے نئی نہریں نکال کر پنجاب کے صحرائے چولستان کو سیراب کرنے کے منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ سندھ حکومت کا مؤقف ہے کہ ان نئی نہروں کی تعمیر سے ملک کے سب سے بڑے دریا میں صوبے کے حصے کا پانی کم ہو جائے گا۔

پنجاب میں سکیورٹی ہائی الرٹ، سرچ آپریشنز جاری، مگر کیوں؟

پنجاب پولیس نے ملک میں حالیہ سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر صوبے بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دیا، پنجاب کے مختلف اضلاع میں کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے سرچ اینڈ سویپ آپریشنز اور موک ایکسرسائزز جاری ہیں۔ پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق رمضان المبارک کے دوران امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے صوبے بھر میں ہائی الرٹ کیا گیا ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل طور پر مستعد ہیں اور کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ ڈی جی خان میں پنجاب پولیس نے دہشت گردوں کا بڑا حملہ ناکام بنا دیا ہے، پولیس کے مطابق 20 سے 25 دہشت گرد راکٹ لانچرز اور جدید اسلحے سے لیس ہو کر سرحدی چوکی لکھانی پر حملہ آور ہوئے، تاہم سیکیورٹی اہلکاروں نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے حملہ پسپا کر دیا۔ پولیس حکام کے مطابق یہ حملہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں دوسرا، جب کہ رواں ہفتے میں تیسرا بڑا حملہ تھا۔ دہشت گردوں کے خلاف سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ پولیس کے جوان سینہ تان کر دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور دشمن کو ان کے عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ واضح رہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد پنجاب میں ہائی الرٹ کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں شدت پسندوں نے سیکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا، جس میں چار اہلکار شہید اور تین زخمی ہو گئے۔ پنجاب پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبے میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کرنے کی ایک بڑی وجہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وارداتیں ہیں۔ پنجاب بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 436 سرچ اینڈ سویپ آپریشنز کیے گئے، جن میں 38 اشتہاری مجرم اور 123 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے مطابق آپریشنز کے دوران 2 کلاشنکوف، 12 بندوقیں، 20 ہینڈ گنز اور سینکڑوں کی تعداد میں گولیاں برآمد کی گئیں، جنہیں ممکنہ طور پر تخریبی کارروائیوں میں استعمال کیا جانا تھا۔ علاوہ ازیں 43 کلوگرام چرس، 2 کلو ہیروئن اور 560 گرام آئس بھی پکڑی گئی ہے۔ رمضان المبارک کے دوران سیکیورٹی کے پیش نظر صوبے بھر میں مسیحی عبادت گاہوں کی سیکیورٹی بھی سخت کر دی گئی ہے۔ پنجاب پولیس کے افسران خود فیلڈ میں جا کر سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لے رہے ہیں، تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔ مزید پڑھیں: ضلع ٹانک میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، تین دہشت گرد ہلاک پنجاب پولیس، کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD)، اسپیشل برانچ، ایلیٹ فورس اور ریسکیو 1122 کی ٹیموں نے مشترکہ موک ایکسرسائزز کیں، جن کا مقصد حساس مقامات کی سیکیورٹی مزید بہتر بنانا ہے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہا ہے کہ پنجاب پولیس ملک و قوم کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات جاری رکھے گی۔ سرچ اینڈ سویپ آپریشنز، موک ایکسرسائزز اور دیگر انسدادی کارروائیاں مستقبل میں بھی جاری رہیں گی تاکہ صوبے میں امن و امان قائم رہے۔

’امریکی بدمعاش‘ کے دباؤ میں مذاکرات نہیں کریں گے، ایران کا اعلان

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ تہران “بدمعاش ملک” کے دباؤ میں بات چیت نہیں کرے گا، جو کہ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس نے ملک کے اعلیٰ حکام کو جوہری معاہدے پر بات چیت کے لیے ایک خط بھیجا ہے۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق سینئر ایرانی حکام کے ساتھ ملاقات میں خامنہ ای نے کہا کہ مذاکرات کے لیے واشنگٹن کی پیشکش کا مقصد ‘اپنی اپنی توقعات کو مسلط کرنا’ ہے۔ “بعض غنڈہ حکومتوں کا مذاکرات پر اصرار مسائل کو حل کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اپنی توقعات پر غلبہ اور مسلط کرنا ہے۔” ایرنی سپریم لیڈر کا کہنا ہے کہ ان کے لیے بات چیت نئی توقعات رکھنے کا راستہ ہے، یہ صرف ایران کے جوہری معاملے سے متعلق نہیں ہے، ایران یقیناً ان کی توقعات کو قبول نہیں کرے گا۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق ٹرمپ نے جمعہ کو نشر ہونے والے فاکس بزنس نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران کو خط بھیجا ہے اور امید ہے کہ مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے کیونکہ یہ ایران کے لیے بہت بہتر ہو گا۔ ٹرمپ نے کہا کہ ایران سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں، تہران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے فوجی طور پر، یا آپ کوئی معاہدہ کریں۔ اپنی پہلی 2017-2021 کی میعاد کے دوران، ٹرمپ نے امریکہ کو ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان ایک تاریخی معاہدے سے الگ کر دیا جس میں پابندیوں میں ریلیف کے بدلے تہران کی جوہری سرگرمیوں پر سخت پابندیاں لگائی گئیں۔ ٹرمپ کے 2018 میں دستبرداری کے بعد اور دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے بعد، ایران نے ان حدود کی خلاف ورزی کی اور بہت آگے نکل گیا۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا ہے کہ ایران کی سرگرمیوں پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے لیے سفارت کاری کا وقت ختم ہو رہا ہے، کیونکہ تہران اپنی یورینیم کی افزودگی کو قریب قریب ہتھیاروں کے درجے تک لے جا رہا ہے۔ تہران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری کام صرف اور صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

ٹرمپ فارمولا مسترد، اوآئی سی نے غزہ بحالی کا پانچ سالہ منصوبہ منظور کرلیا

او آئی سی نے ٹرمپ منصوبے کے خلاف تجاویز کو منظور کرتے ہوئے غزہ کی بحالی کے لیے پانچ سالہ منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ غزہ کی صورت حال پر بحث کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس جدہ میں ہوا، جس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کی۔ مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے ہنگامی وزارتی اجلاس میں مصری منصوبے کو منظور کر لیا گیا، جو اب ایک عرب-اسلامی منصوبہ بن چکا ہے۔ ان کے اس بیان کی سوڈانی وزیر خارجہ نے بھی توثیق کی ہے۔ اجلاس میں پاکستانی وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم بند کرے، اور اس سخت وقت میں پاکستان فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں کہا تھا کہ غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو جنگ زدہ علاقے سے باہر مستقل طور پر آباد کیا جائے جبکہ امریکہ اس علاقے کی تعمیر نو کے لیے ’ملکیت‘ لے۔ ٹرمپ کی اس تجویز کو عالمی برادری خاص طور پر عرب ممالک کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ دوسری جانب اجلاس کے حوالے سے او آئی سی کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا گیا کہ اجلاس میں مجوزہ نقل مکانی، الحاق، جارحیت اور تباہی کی پالیسیوں کو سختی سے مسترد کرنے کے علاوہ اور اس بات کا اعادہ کیا جائے گا کہ فلسطین کاز اب بھی اسلامی اُمت کا مرکزی مسئلہ ہے۔ عرب ممالک کی جوابی تجاویز تین مراحل پر مشتمل ہیں جنہیں پانچ سال میں عملی شکل دی جائے گی تاکہ غزہ کی مکمل بحالی ممکن ہو سکے۔   پہلا مرحلہ، جسے مکمل ہونے میں دو سال لگیں گے، 20 ارب ڈالر کی لاگت سے مکمل کیا جائے گا۔ اس مرحلے میں غزہ میں دو لاکھ مکانات کی تعمیر شامل ہوگی۔ منصوبے کے مطابق ابتدائی بحالی چھ ماہ میں مکمل کی جائے گی جس میں ملبہ ہٹانے اور عارضی رہائش کی سہولت فراہم کرنے کے اقدامات شامل ہوں گے۔ دوسرا مرحلہ جو تقریباً ڈھائی سال میں مکمل ہوگا، غزہ میں مزید دو لاکھ رہائشی یونٹس اور ایک ہوائی اڈے کی تعمیر پر مشتمل ہوگا۔ مجموعی تعمیراتی عمل پانچ سال میں مکمل کیا جائے گا اور تخمینے کے مطابق غزہ کی تعمیر نو پر مجموعی لاگت 53 ارب ڈالر آئے گی۔ گزشتہ لگ بھگ ڈیڑھ سال کے دوران دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے لگ بھگ 50 ہزار فلسطینیوں کی جان لی، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہزاروں فلسطینی جو لاپتہ ہیں، ان کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ رواں ہفتے ہی عرب سربراہ اجلاس میں غزہ کے مستقبل کے لیے مصر کا منصوبہ منظور کیا گیا۔ مسودے میں عالمی برادری اور مالیاتی اداروں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس منصوبے کے لیے فوری امداد فراہم کریں۔ مصر کے زیر اہتمام یہ سربراہی اجلاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے اور فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنے کی تجاویز کے ساتھ اسرائیلی وزیراعظم کے فائر بندی کے خاتمے اور غزہ میں دوبارہ حملے شروع کرنے کے مؤقف کا جواب دینے کے لیے منعقد ہوا تھا۔

“روسی صدر امن چاہتا ہے” ٹرمپ کو پیوٹن پر اتنا یقین کیوں ہے؟

امریکی صدرنے دعویٰ کیا ہے کہ ماسکو کے خلاف پابندیوں کی دھمکی سے ، روسی صدر پوٹن چاہتے ہیں کہ یوکرین کے ساتھ جنگ ختم کی جائے اور امن قائم کیا ہو سکے۔ جبکہ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس پر وسیع پیمانے پر بینکاری اور محصولات (ٹیرف) کی پابندیاں لگائی تھی، جب تک یوکرین کے ساتھ جنگ بندی اور حتمی امن معاہدہ طے نہیں پا جاتا۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق ٹرمپ نے کہا کہ جب تک جنگ بندی اور حتمی امن معاہدہ طے نہیں پا جاتا روس پر میں بڑے پیمانے پر بینکاری ، دیگر اقتصادی پابندیاں اور محصولات (ٹیرف) عائد کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہوں، ، انہوں نے مزید کہا روس اور یوکرین، فوراً مذاکرات کی میز پر آ جاؤ، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ ٹرمپ کو یوکرین پر دباؤ ڈالنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے، خاص طور پر ان کے اس بیان کے بعد جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار کیو ہے، نہ کہ ماسکو۔ واضح رہے کہ روس پر پابندیاں اور محصولات عائد کرنے کی ٹرمپ کی دھمکی اس رپورٹ کے چند روز بعد سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ وائٹ ہاؤس جنگ کے خاتمے اور ماسکو کے ساتھ سفارتی و اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کے تحت، روس پر عائد پابندیوں میں نرمی کے منصوبے پر غور کر رہا ہے۔ روس، جو دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے، یوکرین پر فروری 2022 میں حملے کے بعد سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ہزاروں پابندیوں کی زد میں ہے۔ امریکی پابندیوں میں روس کی تیل اور گیس کی آمدنی کو محدود کرنے کے لیے اقدامات شامل ہیں، جن میں روسی تیل کی برآمدات پر 60 ڈالر فی بیرل کی حد مقرر کرنا بھی شامل ہے۔ عالمی خبر ارساں ادارہ رائٹرز کے مطابق امریکہ کے سخت ترین اقدامات میں، سابق صدر جو بائیڈن نے 10 جنوری کو روسی توانائی کمپنیوں اور ان جہازوں پر پابندیاں عائد کی تھیں جو روسی تیل کی ترسیل میں شامل تھے۔ اس کے بعد، امریکہ نے 250 نئے اہداف پر پابندیاں لگائیں، جن میں کچھ چین میں قائم ادارے بھی شامل تھے، تاکہ روس کی امریکی پابندیوں سے بچنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ ان اقدامات میں تقریباً 100 اہم روسی اداروں پر نئی پابندیاں شامل تھیں، جن میں بینک اور توانائی کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیاں شامل تھیں، جو پہلے ہی امریکی پابندیوں کا سامنا کر رہی تھیں۔

’امن سے کھیلنے والوں کو نہیں بخشا جائے گا‘ آرمی چیف کا جوانوں سے خطاب

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان آرمی ریاست کی سلامتی کے لیے ہر چیلنج کا مقابلہ کرے گی اور دہشتگردی کے خلاف ڈھال بنی رہے گی، پاکستان کے امن سے کھیلنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔  آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بنوں کا دورہ کیا جہاں انہیں حالیہ دہشتگرد حملے اور علاقے کی سیکیورٹی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے 4 مارچ کو بنوں کینٹ پر ہونے والے ناکام دہشتگرد حملے کے تناظر میں دورہ کیا۔ ان کی آمد پر کور کمانڈر پشاور نے استقبال کیا۔ آرمی چیف نے سی ایم ایچ بنوں میں زخمی جوانوں کی عیادت کی اور ان کی بہادری اور عزم کو سراہا۔ انہوں نے حملے میں شہید ہونے والے معصوم شہریوں کے اہلخانہ سے بھی دلی تعزیت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر جنرل سید عاصم منیر نے پاک فوج کے غیر متزلزل عزم کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آرمی ریاست کی سلامتی کے لیے ہر چیلنج کا مقابلہ کرے گی اور دہشتگردی کے خلاف ڈھال بنی رہے گی۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ حملے کے مرتکب دہشتگردوں کو بہادر جوانوں نے فوری انجام تک پہنچا دیا جبکہ اس حملے کے منصوبہ سازوں اور سہولتکاروں کو بھی جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔ مزید پڑھیں: ’ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے‘ رمضان ٹرانسمیشن رحمت یا زحمت؟ آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ معصوم شہریوں، خواتین، بچوں اور بزرگوں کو نشانہ بنانا خوارج کے گھناؤنے عزائم کو بے نقاب کرتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مقامی کمیونٹی کا کردار انتہائی اہم ہے اور قومی یکجہتی وقت کی ضرورت ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، آرمی چیف نے فوجی جوانوں سے بھی خطاب کیا اور ان کی بہادری کو سراہتے ہوئے کہا کہ خوارج اور ان کے سہولتکاروں کے خلاف جنگ اپنے منطقی انجام تک جاری رہے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ دہشتگرد گروہ بشمول فتنہ الخوارج، دشمن کے اشارے پر کام کر رہے ہیں اور افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ آرمی چیف نے انکشاف کیا کہ حالیہ دہشتگرد حملوں میں غیرملکی ہتھیاروں اور سازوسامان کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا امن و استحکام خراب کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ یاد رہے کہ 4 مارچ کو دہشتگردوں نے بنوں کنٹونمنٹ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم سیکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ان کے مذموم عزائم ناکام بنا دیے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، سیکیورٹی فورسز نے حملہ کرنے والے تمام 16 دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا، جن میں 4 خودکش حملہ آور بھی شامل تھے۔ اس شدید جھڑپ میں 5 بہادر جوان شہید ہوئے جبکہ دہشتگردوں کے خودکش دھماکوں سے کنٹونمنٹ کی دیوار کا ایک حصہ گر گیا، جس کے نتیجے میں 13 معصوم شہری شہید اور 32 زخمی ہو گئے۔ آرمی چیف نے واضح کیا کہ دہشتگردوں اور ان کے سہولتکاروں کے خلاف جنگ منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیا جائے گا اور پاکستان کا امن کسی بھی صورت میں خراب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

کابل حملے کا ماسٹر مائنڈ گرفتار: “ہم امریکا کے ساتھ اپنے تعاون کو مزید مستحکم کرنے کا عزم رکھتے ہیں”شہباز شریف

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر ایک اہم آپریشن کے دوران ‘محمد شریف للہ’ کی گرفتاری کو امریکا کے ساتھ اپنی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شراکت داری کے عزم کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ شریف للہ وہ شخص ہے جسے پاکستان نے 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر امریکی فوجیوں پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اس حملے میں 13 امریکی فوجی اور 170 افغان شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ “ہم امریکا کے ساتھ اپنے تعاون کو مزید مستحکم کرنے کا عزم رکھتے ہیں تاکہ اس خطے میں امن اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔” یہ گرفتاری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب کے بعد سامنے آئی جس میں انہوں نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا اور کہا تھا کہ شریفللہ امریکا لے جایا جا رہا ہے تاکہ اس پر مقدمہ چلایا جا سکے۔ امریکی ایف بی آئی کے ڈائریکٹر ‘کاش پٹیل’ نے ایک تصویر کے ساتھ بتایا کہ شریف للہ امریکی تحویل میں ہے جس میں ایجنٹس ایک طیارے کے سامنے کھڑے نظر آ رہے ہیں جس میں شریف اللہ کو منتقل کیا گیا تھا۔ پاکستانی حکام نے بتایا کہ یہ کارروائی افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقے میں کی گئی جہاں شریف اللہ کو پکڑا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے امریکا کے ساتھ تعاون کے حوالے سے کہا “ہمیں خوشی ہے کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے کردار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری مدد کی تعریف کی ہے۔” یہ بھی پڑھیں: نادار غریبوں سے رقم وصول کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں، مریم نواز دوسری جانب پاکستانی سکیورٹی حکام نے بتایا کہ شریف اللہ کا تعلق دہشت گرد گروہ “داعش خراسان” (ISIS-K) سے تھا اور وہ افغانستان میں سرگرم تھا۔ حکام نے مزید کہا کہ اس گرفتاری میں امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کا تعاون اہم رہا۔ ایک پاکستانی سکیورٹی افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ’رائٹرز‘ بتایا کہ “پاکستان اور امریکا کے درمیان دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کا ایک نیا باب شروع ہو چکا ہے، جو خطے میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔” افغان طالبان حکومت نے اس گرفتاری پر ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات گزشتہ برسوں میں تنازعات کا شکار رہے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان پر افغانستان کے طالبان حکمرانوں کی حمایت کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ شریف اللہ کی گرفتاری نے ایک نیا پیغام دیا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان سکیورٹی تعاون میں مزید بہتری آ رہی ہے۔ دفاعی تجزیہ کار ‘عائشہ صدیقہ’ نے کہا کہ “اس گرفتاری کا مقصد صرف یہ دکھانا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکا کا ایک قابل اعتماد ساتھی ہے۔ اس سے پاکستان کی جانب سے امریکی صدر کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کو ظاہر کیا گیا ہے خاص طور پر جب امریکا کی توجہ پاکستان کی جانب کم ہو رہی ہے۔” یاد رہے کہ 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے دھماکے میں، جو کہ داعش خراسان (ISIS-K) نے کیا تھا اس میں درجنوں افغان اور امریکی شہریوں کی جانیں گئیں۔ شریف اللہ کا اس حملے میں اہم کردار تھا جس کے بعد پاکستان نے اس کی گرفتاری کے لیے ایک بڑی آپریشن شروع کیا۔ شریف اللہ کی گرفتاری ایک اور سنگ میل ہے جس سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں نیا جوش آیا ہے۔ پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنی پوری کوشش کرے گی کہ دہشت گردی کی کوئی بھی کارروائی خطے میں امن و استحکام کو متاثر نہ کرے۔ یہ پیشرفت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان سکیورٹی تعاون میں نئی امیدیں اور امکانات روشن ہو رہے ہیں جو دونوں ممالک کے لیے ایک اہم موقع ہو سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: بنوں کینٹ حملے کا منصوبہ افغانستان میں موجود خوارج کے سرغنہ نےبنایا، آئی ایس پی آر

ڈیفالٹ سے اڑان منصوبے تک کا سفر، کیا حقیقت میں پاکستان معاشی ترقی کررہا ہے؟

پاکستان میں 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد 4 مارچ کو وجود میں آنے والی اتحادی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پروزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنے ایک سالہ دور حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال میں ملک معاشی استحکام آیا لیکن سفر ابھی طویل اور مشکل ہے، جسے طے کرنا ہے۔ شہباز حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پہلے سال میں معیشت مستحکم ہوئی ہے اور ملک کو ڈیفالٹ سے نکالا گیا۔  اتحادی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر مختلف وزراء نے  اپنی وزارتوں کی کارکردگی رپورٹس پیش کیں۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال اور وزیرِ مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ سمیت دیگر وزراء نے حکومتی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر سیاست ڈاکٹر شفاقت علی کا کہنا تھا کہ “پاکستان کے ڈیفالٹ نہ کرنے میں حکومت کے معاشی اقدامات کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی مالی معاونت اور دوست ممالک کی سپورٹ کا بھی بڑا کردار ہے۔ اگرچہ معیشت میں وقتی استحکام آیا ہے، مگر اس کو پائیدار بنانے کے لیے طویل مدتی اصلاحات درکار ہیں۔ صرف اعداد و شمار کی بنیاد پر معاشی بہتری کا دعویٰ کرنا کافی نہیں ہوگا۔” اس کے علاوہ وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف  نے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  حکومتی اقدامات سے تمام اداروں کا ترقی کا سفر جاری ہے، ہم نے مشکل حالات میں حکومت سنبھالی، پی ٹی آئی نے ملک میں انتشار بھیلایا۔ ہر قسم کی دہشتگردی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ مثبت تنقید کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے اپنی وزارت کی ایک سالہ کارکردگی پر خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2018 میں اگر ترقی کا راستہ نہ روکا جاتا تو پاکستان آج بڑی معیشتوں میں شامل ہوتا۔ اڑان پاکستان منصوبے کے تحت ملکی ترقی کا پروگرام دوبارہ شروع کیا ہے۔ ڈاکٹر شفاقت علی کا کہنا تھا “کہ حکومتی اخراجات میں کمی یقینی طور پر ایک اچھا اقدام ہے۔ مگر بڑے پیمانے پر نوکریوں کا خاتمہ بیروزگاری کو مزید بڑھا سکتا ہے خاص طور پر جب نجی شعبہ اتنی نوکریاں پیدا کرنے سے قاصر ہو۔ اس فیصلے کے باعث عام شہریوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کے لیے متبادل روزگار کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ ” افراطِ زر میں کمی ایک مثبت پیش رفت ضرور ہے لیکن اس کی بڑی وجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں وقتی اضافہ ہے۔ جی ڈی پی گروتھ ابھی بھی خطے کے دیگر ممالک سے کم ہے اور صنعتی و زرعی پیداوار میں مطلوبہ بہتری نہیں دیکھی گئی جو کہ طویل مدتی ترقی کے لیے ضروری ہے۔” دوسری جانب احسن اقبال نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم نے حکومت سنبھالی تو ملک ڈیفالٹ کے قریب تھا۔ 2018 کے بعد سی پیک کے منصوبوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے پر کام کا آغاز اب ہو گیا ہے۔ سی پیک منصوبے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری آئی ہے۔امن، استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ وفاقی وزیر شزا فاطمہ نے کہا ہے آئی ٹی کے شعبے کی بہتری پر توجہ مرکوز ہے۔ گزشتہ ایک سال میں موبائل فون کی مقامی مینو فیکچرنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ دوردراز کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔ شزا فاطمہ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی سپیڈ کے لیے تین سب میرین کیبل بچھائی گئی ہیں۔ آئی ٹی کے شعبے کی برآمدات دو ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ ای گورنمنٹ کے عالمی انڈیکس میں پاکستان کی 14 درجے بہتری ہوئی ہے۔ دوسرے ممالک کے ساتھ آئی ٹی کے شعبے میں مختلف معاہدے کیے گئے، حکومتی اقدامات سے ای گورننس میں بہتری آئی ہے۔ ڈاکٹر شفاقت علی کا کہنا ہے “کہ حکومتی اخراجات میں کمی یقینی طور پر ایک اچھا اقدام ہے۔ مگر بڑے پیمانے پر نوکریوں کا خاتمہ بیروزگاری کو مزید بڑھا سکتا ہے خاص طور پر جب نجی شعبہ اتنی نوکریاں پیدا کرنے سے قاصر ہو۔” انہوں نے مزید کہا کے “اس فیصلے کے باعث عام شہریوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کے لیے متبادل روزگار کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہے۔” حکومت کے معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے کے نت نئے بیانات نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا واقعی ملکی اشاریے بہتری کی سمت میں گامزن ہیں یا پھر یہ محض سیاسی بیانیے ہیں۔ اینکر پرسن اسامہ بن عبید (ماہر سیاست) نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “قانون سازی جمہوری نظام کا لازمی جزو ہے مگر پاکستان میں قوانین پر مؤثر عملدرآمد ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے۔ کئی بلز محض کاغذی کارروائی تک محدود رہتے ہیں جب تک ان کے نفاذ کے لیے ٹھوس عدالتی اور انتظامی اقدامات نہ کیے جائیں۔” انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ “پالیسی اصلاحات کا اصل امتحان ان کا عملی نفاذ اور تسلسل ہے۔ ماضی میں بھی حکومتیں بڑے بڑے دعوے کرتی رہی ہیں۔ لیکن پالیسیوں میں عدم تسلسل ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر معاشی اور ادارہ جاتی اصلاحات جاری نہ رہیں تو یہ تمام بیانات محض سیاسی نعرے ہی ثابت ہوں گے۔” ورلڈ اکنامک فورم کے نیو اکانومی اینڈ سوسائٹیز پلیٹ فارم کے مطابق حکومت نے 11 ماہ میں 120 سے زائد اصلاحات متعارف کرائیں۔ افراطِ زر 38 فیصد سے کم ہو کر 4.1 فیصد پر آ گیا۔زرمبادلہ کے ذخائر 4.4 بلین ڈالر سے بڑھ کر 11.73 بلین ڈالر ہو گئے۔ گزشتہ ایک سال میں جی ڈی پی گروتھ 0.29 فیصد سے بڑھ کر 2.38 فیصد ہو گئی، 2025 میں 3.5 فیصد کا ہدف رکھا گیا ہے۔ تجارتی خسارہ 27.47 بلین ڈالر سے کم ہو کر 17.54 بلین ڈالر ہو ا ہے۔  حکومت نے 150,000 وفاقی ملازمتیں ختم کر کے حکومتی اخراجات میں کمی کی ہے۔ اتحادی حکومت نے ایک سال میں سعودی عرب کے ساتھ 2.8 بلین ڈالر کے 34 معاہدے کیے ہیں۔ چین کے وزیرِاعظم نے پاکستان کا دورہ کیا اورگوادر

بنوں کینٹ میں دھماکہ، چھتیں گرنے سے 15 افراد جاں بحق، دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بنادیا، سیکیورٹی ذرائع

خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں کینٹ کے قریب دھماکوں کی دھماکے سے قریبی مکانات کی چھتیں زمین بوس ہوگئیں،  متعدد افراد چھتوں کے ملبے تلے دب گئے، اسپتال انتظامیہ نے 15 افراد کے مرنے کی تصدیق کردی ہے،  25 زخمی بھی ہوئے ہیں۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دو خود کش بمبار ایک فوجی کمپاؤنڈ میں دو بارودی مواد سے بھری گاڑیاں لے کر گھس گئے، جس کے نتیجے میں زوردار دھماکے ہوئےبنوں پولیس کے مطابق  افطاری کے بعد دو دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، جس کے بعد شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔  بنوں ایم ٹی آئی کے ترجمان محمد نعمان نے بتایا ہے کہ شہر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور ابتدائی طور پر چار زخمی ہسپتال لائے گئے ہیں اور ان چاروں زخمیوں کو دھماکے یا گولیوں کے زخم نہیں ہیں بلکہ خوف سے گرنے اور پتھر لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔ بنوں میں چھاؤنی کے علاقے کے قریب رہائشی صحافی محمد وسیم نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ دھماکہ اس وقت ہوا جب لوگ افظاری کے لیے بیٹھے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وہ خود اپنے گھر میں موجود تھے۔ ان کے مطابق دھماکہ ایسا تھا جیسے اپنے ہی گھر میں ہوا ہو حالانکہ دھماکے کا مقام ان سے کافی دور ہے۔ ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ دھماکہ چھاؤنی میں بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے کیا گیا ہے تاہم ایسی اطلاعات ہیں کہ شدت پسند حملہ آوروں میں کچھ کو چھاؤنی میں داخلے کی کوشش کے دوران سکیورٹی فورسز نے نشانہ بنایا۔سوشل میڈیا اور کچھ صحافیوں کو ایک غیر معروف شدت پسند تنظیم جیش فرسان محمد کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری کی پوسٹ بھیجی گئی ہے۔  سکیورٹی ذرائع کے مطابق آج افطار کے بعد دہشت گردوں نے بنوں کینٹ میں داخل ہونے کی ناکام کوشش کی، دہشت گردوں نے بارود سے لدی 2 گاڑیاں بنوں کینٹ کی دیوار سے ٹکرا دیں، خوارج  نے سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے باعث گاڑیاں گھبراہٹ میں دیوار سے ٹکرائیں۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف انٹری پوائنٹس پر موجود سکیورٹی عملے نے6 خوارج کو جہنم واصل کر دیا، باقی خارجی دہشت گردوں کو محصور کر لیا گیا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق دہشت گردوں کی بارود سے بھری گاڑیوں کے دھماکے سے قریبی  مسجد کو بھی نقصان پہنچا، دھماکے سے قریبی گھروں کی چھت گرنے سے شہریوں کے زخمی ہونے اور شہادتوں کی اطلاعات ہیں۔ ترجمان ڈی ایچ کیو اسپتال ڈاکٹر نعمان کے مطابق دہشت گرد حملے میں 15 شہری شہید جب کہ 25 زخمی ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر نعمان کے مطابق شہید ہونے والے شہریوں میں 4 بچے اور 2 خواتین بھی شامل ہیں۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق خوارج کا رمضان میں شہریوں اور مسجد کو نشانہ بنانا غماز ہے کہ ان کا اسلام سے تعلق نہیں، سکیورٹی فورسز کا تمام خارجیوں کا صفایا کرنے تک کلیئرنس آپریشن جاری رہےگا۔ صدر آصف زرداری نے بنوں میں دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے  دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر سکیورٹی فورسز کی تعریف کی ہے۔ صدر مملکت کا کہنا ہےکہ رمضان میں افطار کے دوران ایسا حملہ گھناؤنا عمل ہے،  پوری قوم ایسی مذموم کارروائیوں کو مسترد کرتی ہے، خوارج کی سرکوبی کے لیےکارروائیاں جاری رکھنےکے لیے پرعزم ہیں۔ یاد رہے کہ بنوں کینٹ میں جولائی 2024 میں بھی ایک خودکش حملہ ہوا تھا، جس میں پولیس کے مطابق آٹھ فوجی اہلکار جان سے گئے تھے اور 10 حملہ آوروں کو مارا گیا تھا۔ مزید پڑھیں: خیبر پختو نخوا، باجوڑ میں پولیو ٹیم پر حملہ ، پولیس اہلکار قتل ہو گیا ان کے علاوہ 2022 میں بنوں کینٹ کے اندر سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں زیر حراست مبینہ شدت پسندوں نے سکیورٹی اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر یرغمال بنا لیا تھا، جس کے بعد ایک سکیورٹی آپریشن کرتے ہوئے کمپاؤنڈ کے اندر 25شدت پسندوں کو مارا گیا تھا۔ خیال رہے کہ بنوں کینٹ بنوں شہر کے اندر واقع ہے جس کے آس پاس رہائشی مکانات بھی موجود ہے، جب کہ پولیس کے مرکزی دفاتر بھی اس کی حدود میں واقع ہیں۔

رمضان المبارک کی آمد، کراچی میں بھکاریوں نے ڈیرے جمالیے

عروس البلاد شہر کراچی میں رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر بڑی تعداد میں بھکاریوں نے ڈیرے جما لیے ہیں۔ مرکزی شاہراہوں، مساجد، شاپنگ مالز، فوڈ اسٹریٹ اور دیگر عوامی مقامات پر بھکاریوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر اندرون ملک سے بذریعہ ٹرین اور ٹرانسپورٹ بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھر والوں کے ہمراہ کراچی کا رخ کر رہے ہیں، جن کا واحد مقصد رمضان المبارک کے موقع پر صدقات، زکوٰۃ اور خیرات کا حصول ہے۔ دن اور رات کے اوقات میں شہر کی فٹ پاتھ اور پیڈسٹیرین بریج کو بھکاریوں نے اپنا مسکن بنا لیا ہے اور اکثر کے ہمراہ خواتین اور بچے بھی موجود ہوتے ہیں۔ عام طور پر شہر کے مختلف علاقوں میں یہ لوگ گروہوں میں تقسیم ہو کر بھیک مانگتے ہیں، جب کہ بچوں کو الگ سے سگنلز یا مساجد کے سامنے بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ معصوم بچے اپنے والدین کے کہنے پر دن بھر سڑکوں پر لوگوں سے پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ کی تحقیق کے مطابق مصروف شاہراہوں اور سگنلز پر بھیک مانگنے والے بچے یومیہ 400 سے 500 روپے اکٹھا کر لیتے ہیں۔ یہ زبردستی سگنلز پر رکی ہوئی گاڑیوں کے شیشوں کو صاف کرنے لگتے ہیں، جس کے بعد لوگوں سے پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہر فرد کم سے کم انہیں 20 روپے، جب کہ زیادہ سے زیادہ 100 روپے دیتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ان بچوں کی اوسط تعداد 4 ہے اور یہ اپنے والدین کو روزانہ کی بنیاد پر دن بھر کی جمع پونجی لاکر دیتے ہیں۔ شہر کی مرکزی سڑکوں میں شامل طارق روڈ، بہادر آباد، گلشن چورنگی، جوہر موڑ، کشمیر روڈ، حسن اسکوائر، فائیو اسٹار چورنگی اور دیگر مقامات پر بھکاریوں کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ مزید پڑھیں: رمضان کے پہلے روز قیمتوں کے گراں فروشوں پر کریک ڈاؤن، 1.59 ملین روپے جرمانہ، 14 افراد گرفتار عابد بیلی کراچی کے ایک بزنس مین اور سماجی کاموں کے لیے معروف ہیں۔ گذشتہ برسوں میں انہوں نے بھیک بند کرو مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس مہم کے نتیجے میں انہوں نے شہر بھر میں پروفیشنل بھکاریوں کی مدد بند کرنے اور اس حوالے سے شعور کو اجاگر کرنے کے لئے بینرز اور اسٹیکرز گاڑیوں پر چسپاں کیے تھے، جب کہ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ویڈیوز بھی اپلوڈ کی تھی جو آج تک لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عابد بیلی کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر ہمیں پیسہ خرچ کرنا نہیں آتا نرم دلی اور رحمدلی کے جذبات میں آ کر ہم چند روپے بھکاری کو دے دیتے ہیں۔ ان پیسوں سے مستحق محروم رہ جاتا ہے اور غیرمحسوس انداز میں بھکاری مافیا کو تقویت مل جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پورا ایک نیٹ ورک ہے، ان کے بھیک مانگنے کا طریقہ کار بھی حیران کن ہے، مثلاً ریسٹورینٹ کے باہر کوئی آدمی صرف روٹی ہاتھ میں لے کر آپ سے سالن کا مطالبہ کرے گا، میڈیکل اسٹور کے بعد کوئی خاتون بیمار بچے کو گود میں لیے دوائی کے پیسے مانگے گی یا کسی کپڑے کی دکان کے سامنے پرانے اور پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس بچے آپ سے پیسوں کا مطالبہ کریں گے۔ عابد بیلی کا کہنا ہے کہ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے ارد گرد موجود مستحق اور سفید پوش افراد تلاش کر کے ان کی امداد کریں، تاکہ حقیقی معنوں میں زکوٰۃ اور صدقات حقدار تک پہنچ سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ آگاہی مہم کے دوران سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایک بھکاری یومیہ ہزار روپے سے لے کر آٹھ ہزار روپے تک بھیک اکٹھی کر لیتا ہے، جب کہ بعض بزرگ بھکاری یومیہ 14 ہزار روپے بھی جمع کر لیتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: اس بار رمضان واقعی مختلف ہو! اس ضمن میں اصل ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے، روزگار اور خوارک فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ ملک میں ہزاروں کی تعداد میں این جی اوز موجود ہیں، بڑی تعداد میں فنڈز بھی جمع ہورہے ہیں، مگر پھر بھی ملک سے غربت کا خاتمہ نہیں، بلکہ اضافہ ہورہا ہے۔ عابد بیلی کے مطابق دنیا بھر میں این جی اوز حکومت کے ساتھ مل کر بہترین کام کرتی ہیں اور ان کا ڈیٹا بھی تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے نادارا کے ساتھ مل کر یہ کام کیا جاسکتا ہے تاکہ ریکارڈ پر ہے کہ پیسہ کہاں خرچ ہوا اور اس سے کتنے لوگ مستفید ہوسکے۔ رمضان المبارک میں سماجی تنظیموں کی جانب سے سحر و افطار میں لگائے گئے دستر خوان پر بھی بیرون شہر سے آئے ہوئے افراد کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے، کیونکہ زیادہ وسائل نہ رکھنے والے افراد سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے زیادہ تر محدود وسائل میں گزارہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ البتہ کراچی میں لگائے گئے افطار کے دسترخوان پر عمومی طور پر نچلے طبقے کے ملازمین یا پھر دفتر سے گھر جاتے ہوئے کسی سبب تاخیر کا شکار ہونے والے افراد روزہ کھولتے ہیں۔ کراچی میں بڑھتی ہوئی بھکاریوں کی تعداد کے سبب شہر میں جرائم کی وارداتوں میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔ گذشتہ سال میئر کراچی نے بھی کہا تھا کہ کراچی میں یومیہ 10 سے 15 ہزار تک اندرون ملک سے نئے افراد روزگار کی تلاش میں آتے ہیں۔ انہوں نے بھی اس معاملے کو اہم مسئلہ قرار دیا تھا، مگر تاحال اس حوالے سے کوئی بھی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔