خطرات میں گھری جنگلی حیات: ہماری ذمہ داری کیا ہے؟

جنگلی حیات کرۂ ارض کے فطری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، مگر ماحولیاتی تبدیلیوں، جنگلات کی تیزی سے کٹائی، غیر قانونی شکار اور بڑھتی انسانی سرگرمیوں کے باعث یہ شدید خطرات سے دوچار ہے۔ عالمی یومِ حیاتِ وحش کے موقع پر یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ہم بطور انسان اپنی ذمہ داریاں کیسے نبھائیں اور اس قدرتی ورثے کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟ دنیا بھر میں جنگلی حیات کا فطری ماحول کے توازن میں بنیادی کردار ہے۔ حیاتیاتی تنوع (بائیو ڈائیورسٹی) کسی بھی خطے کے ماحولیاتی استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان میں جنگلی حیات کی متعدد اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں برفانی چیتے، مارخور، انڈس ڈولفن، ہوبارا بسٹرڈ، اور دیگر نایاب جانور شامل ہیں۔ تاہم، ان کی بقا مختلف خطرات سے مشروط ہو چکی ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے مطابق ملک میں متعدد اقسام کے جانور اور پرندے معدومی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ غیر قانونی شکار، اسمگلنگ، اور قدرتی مساکن کی تباہی اس بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر جہانزیب نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ “پاکستان میں جنگلی حیات کو سب سے بڑا خطرہ رہائش گاہوں کی تباہی اور غیر قانونی شکار ہے۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی جنگلی حیات کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اگر ان مسائل پر فوری توجہ نہ دی گئی تو کئی نایاب جانور معدوم ہو سکتے ہیں۔” پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور بے ہنگم ترقی کے نتیجے میں جنگلات سکڑتے جا رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقوں میں غیر قانونی کٹائی کے باعث نایاب جنگلی جانوروں کی رہائش گاہیں ختم ہو رہی ہیں۔ ایسے حالات کی وجہ سے یہ جانور اپنی رہائش گاہیں چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ہجرت کرتے ہیں اور بعض اوقات بدقسمتی سے وہ شہروں یا ایسے علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں محض چند منٹوں میں ان کا شکار کر لیا جاتا ہے۔ دوسری جانب اگر خوش قسمتی سے کوئی بچ جاتا ہے تو رہی سہی کسر وائلڈ لائف انھیں اپنی تحویل میں لے کر پوری کر دیتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں بھی جنگلی حیات پر شدید اثر ڈال رہی ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے اور بارشوں کے غیر متوقع پیٹرن کے باعث کئی اقسام کی افزائشِ نسل متاثر ہو رہی ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں پائے جانے والے برفانی چیتے کے مسکن تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، جس سے اس کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جنگلی حیات کو خطرہ ہے کہ نہیں پر ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کی جنگلی حیات پر گہرا اثر ڈال رہی ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے اور غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے کئی جانوروں اور پرندوں کی افزائش اور ہجرت کے طریقے متاثر ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر برفانی تیندوا اور دریائی حیات خطرے میں ہیں۔ پاکستان میں ہوبارا بسٹرڈ، مارخور اور دیگر جنگلی جانوروں کا غیر قانونی شکار اب بھی جاری ہے۔ اگرچہ حکومت نے ہوبارا بسٹرڈ کے شکار پر پابندی عائد کر رکھی ہے، لیکن غیر قانونی شکار اور عرب شکاریوں کی دلچسپی کے باعث یہ پرندہ شدید خطرے میں ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’  کو ریسرچر جنگلی حیات ڈاکٹر کامران مرزا نے بتایا ہے کہ برفانی تیندوا، ہمالیائی بھورا ریچھ، انڈس ڈولفن اور سائبیرین کرین جیسے جانور شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ ان کی رہائش گاہوں میں کمی اور غیر قانونی شکار ان کے وجود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ دریاؤں اور سمندروں میں بڑھتی ہوئی آلودگی بھی جنگلی حیات کے لیے مہلک ثابت ہو رہی ہے۔ دریائے سندھ میں آلودگی کے باعث انڈس ڈولفن کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو چکی ہے، جبکہ سمندری حیات بھی پلاسٹک اور کیمیکل ویسٹ کے سبب متاثر ہو رہی ہے۔ محکمہ جنگلات کے مطابق بنیادی طور پر نیشنل پارکس کو جو خطرات لاحق ہیں، ان میں سب سے بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ انسانی آبادی بڑھنے سے جانوروں کے لیے جگہ کم ہوتی جا رہی ہے اور ان کی خوراک کا مسئلہ بھی پیدا ہو رہا ہے۔ پاکستان نے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے متعدد بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جن میں کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ ان انڈینجرڈ اسپیشیز اور بون کنونشن شامل ہیں۔ ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا ہے کہ حکومت نے جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار کو روکنے کے لیے سخت قوانین بنائے ہیں۔ مختلف علاقوں میں اہلکار اور وائلڈ لائف افسران تعینات کیے ہیں۔ تاہم عمل درآمد کا فقدان اور کرپشن کی وجہ سے یہ اقدامات مکمل طور پر مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔ حکومتِ پاکستان نے مارخور اور برفانی چیتے جیسے نایاب جانوروں کے تحفظ کے لیے متعدد نیشنل پارکس اور وائلڈ لائف سینکچوریز قائم کیے ہیں۔ تاہم، ان اقدامات پر مؤثر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ، انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر اور دیگر تنظیمیں پاکستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ مقامی کمیونٹیز کو بھی اس حوالے سے شامل کیا جا رہا ہے، تاکہ وہ اپنے علاقوں میں نایاب جانوروں کے شکار کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں۔ ماہرِ ماحولیات کے مطابق موجودہ قوانین کسی حد تک جنگلی حیات کے تحفظ میں مددگار تو ہیں مگر ان پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا۔ غیر قانونی شکار اور اسمگلنگ کے مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں۔ اس کے ساتھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ میں مزید ترامیم کی جائیں۔ دوسری جانب ریسرچر جنگلی حیات نے کہا ہے کہ میڈیا اور تعلیمی ادارے عوام کو جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں آگاہ کر سکتے ہیں۔ ٹی وی، سوشل میڈیا، اور ڈاکیومنٹری فلموں کے ذریعے شعور بیدار کیا جا سکتا ہے، جبکہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں ماحولیات اور حیاتیاتی تنوع پر مضامین شامل کیے جانے چاہییں۔ سب سے اہم پہلو عوام میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جنگلی حیات کے تحفظ پر سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ نوجوان نسل اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھ سکے۔ ریسرچر جنگلی حیات کا پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے

رمضان کا چاند نظر آگیا، پاکستان میں سحر و افطار کے اوقات کیا ہوں گے؟

پاکستان میں رمضان کا چاند نظر آ گیا ہے، ملک بھر میں پہلا روزہ کل ہو گا۔ پاکستان میں رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا ہے، عشاء کی نماز کے بعد نمازِ تراویح کے اجتماعات آج سے ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ کہ بنگلہ دیش، ملائشیا اور بھارت میں بھی کل پہلا روزہ ہو گا۔ اسلام آباد، کوئٹہ اور لاہور میں رمضان کا چاند دیکھا گیا ہے۔ رمضان المبارک کی سحر و افطار کے اوقات یہ ہیں: واضح رہے کہ گزشتہ روز ملک بھر میں کہیں بھی رمضان کا چاند نظر نہیں آیا تھا، جس کے بعد مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے اعلان کیا تھا کہ ملک بھر میں پہلا روزہ اتوار کو ہو گا۔ سعودی عرب، دبئی، ابوظبی اور قطر سمیت خلیجی ممالک میں آج پہلا روزہ ہے۔ دوسری جانب صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے رمضان کا چاند نظر آنے پر قوم کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ پوری پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے آغاز پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ رمضان المبارک رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا مہینہ ہے۔ آصف زرداری کا کہنا ہے کہ  رمضان میں غرباء و مساکین کی حاجت روائی کریں، معاشرے میں ایثار و قربانی کے جذبے کو فروغ دیں۔رمضان مسلمانوں کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اصلاح کا ماحول  پیدا کر کے اپنی زندگیوں کو از سر نو شروع کرنے کا بہترین موقع  فراہم کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: پاکستانی شہریوں کے لیے رمضان پیکج کا اعلان، فی خاندان کتنی رقم ملے گی؟ صدر مملکت آصف علی زرداری نے کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک ہمیں ضرورت مندوں اور محروم طبقات کی تکلیف کا احساس بھی دلاتا ہے۔رمضان المبارک کا پیغام یہی ہے کہ ہم اپنی ذات سے بلند ہو کر دوسروں کی مدد کریں۔

کیا ملکی قوانین واقعی سب شہریوں کے لیے یکساں ہیں؟

قوانین ریاست کے اقتدارِ اعلیٰ کا مظہر ہوتے ہیں، جن کی بنیاد پر افراد کے حقوق، ریاستی اداروں کے اختیارات اور معاشرتی نظم و ضبط کا تعین کیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو منظم کرنے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں اور ان کے مؤثر نفاذ کے لیے ریاستی طاقت کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ پاکستان کا آئین ایک تحریری دستاویز ہے جو قانونی مساوات کی ضمانت دیتا ہے، پارلیمانی جمہوریت کی بالادستی طے کرتا ہے اور شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہے، جن میں حقِ زندگی، مساوی اور منصفانہ قانونی حقوق، آزادی رائے، تعصب اور امتیازی سلوک سے آزادی اور تنظیم سازی جیسے حقوق شامل ہیں۔ پاکستان میں آئینی اور قانونی ڈھانچہ ہونے کے باوجود، ان قوانین پر مؤثر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود ہونے کے باوجود، طاقتور طبقات اور غیرریاستی عناصر کا اثر و رسوخ انصاف کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ رول آف لاء انڈیکس کے مطابق پاکستان 140 ممالک میں سے 125ویں نمبر پر ہے، جو عدالتی اور قانونی نظام کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم ڈاکٹر فہد ملک کا کہنا تھا کہ نظریاتی طور پر آئین پاکستان ہر شہری کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے لیکن عملی طور پر اشرافیہ اور عام شہری کے لیے قوانین کے نفاذ میں واضح فرق ہے۔ اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اکثر قانونی سقم کا فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ عام آدمی کو انصاف کے حصول کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں آئین تمام شہریوں کو برابری کا حق دیتا ہے اور کسی بھی فرد کو رنگ، نسل، زبان، علاقائیت یا ذات پات کی بنیاد پر فوقیت حاصل نہیں، لیکن عملی طور پر دولت اور طبقاتی فرق کی وجہ سے انصاف کا معیار مختلف ہے۔ اگر امیر شخص کوئی جرم کرے، تو اسے طاقتور وکلاء، عدالتی رعایتوں اور سیاسی تعلقات کا فائدہ ملتا ہے، جب کہ غریب کو قانونی نظام کی پیچیدگیوں اور مہنگے عدالتی عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر فہد ملک کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ کیسز کی بھرمار اور ججز کی کمی ہے۔ ایک کیس کا فیصلہ ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کو ہوتا ہے۔ اس تاخیر کی وجہ سے انصاف کا حصول مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہو جاتا ہے۔ اگر کسی امیر شخص کی بیٹی کسی کو گاڑی تلے روند کر مار دے، تو اس کا ذہنی توازن کمزور قرار دے کر اسے بچا لیا جاتا ہے، جب کہ غریب شخص کو معمولی جرم میں بھی عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ اس دوہرے نظام کی وجہ سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد کمزور ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں 56 ہزار سے زائد مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ ڈاکٹر فہد ملک نے کہا ہے کہ عدالتی نظام میں ہر شہری کو مساوی مواقع ملنے چاہئیں لیکن وکیلوں کی فیس، مقدمات میں تاخیر اور عدالتی پیچیدگیاں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول مشکل بنا دیتی ہیں۔ امیر طبقہ مہنگے وکیلوں اور قانونی چالاکیوں سے فائدہ اٹھا لیتا ہے جبکہ غریب کو برسوں تک فیصلے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کا بنیادی کام عوام کے جان و مال کی حفاظت اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانا ہے، لیکن کئی مسائل اس نظام کی کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں۔ بدعنوانی اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے اکثر پولیس طاقتور طبقے کے حق میں فیصلے کرتی ہے، جس سے انصاف کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے، ماورائے عدالت قتل، پولیس حراست میں تشدداور جھوٹے مقدمات جیسے مسائل عام ہیں، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ماہرِ تعلیم نے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ پولیس کا نظام طاقتور افراد کے حق میں جھکاؤ رکھتا ہے۔ غریب آدمی کے ساتھ بدسلوکی اور سختی عام بات ہے جبکہ بااثر افراد کو وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ جب تک پولیس نظام میں اصلاحات اور احتساب نہیں ہوگا یہ تفریق ختم نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں خواتین، اقلیتوں اور معذور افراد کے لیے قوانین تو موجود ہیں، لیکن ان پر مؤثر عمل درآمد کے لیے ادارہ جاتی بہتری، عوامی آگاہی اور سماجی رویوں میں مثبت تبدیلی ناگزیر ہے، خواتین کے حقوق کو محفوظ بنانے کے لیے تحفظ خواتین ایکٹ 2006 اور انسدادِ ہراسانی ایکٹ 2010 نافذ کیے گئے ہیں، جبکہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 اور 36 میں کیا گیا ہے، لیکن ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے معاشرے میں موجود تعصب اور امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرِ انسانی حقوق ڈاکٹر شہزاد فرید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ پاکستان میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد بہت کمزور ہے۔ غیرت کے نام پر قتل، جبری تبدیلیِ مذہب اور گھریلو تشدد جیسے مسائل میں اب بھی متاثرہ فریق کو مکمل انصاف نہیں ملتا۔ پاکستان کے قانونی نظام میں بہتری کے لیے اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں، عدالتی نظام میں تیزی لانے کے لیے جدید کیس مینجمنٹ سسٹم متعارف کرایا جانا چاہیے، تاکہ مقدمات کے فیصلے جلد ہو سکیں، پولیس کو سیاست سے آزاد کر کے، بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں اور جدید تربیت دی جائے، تاکہ وہ غیرجانبدارانہ طور پر انصاف فراہم کر سکے۔ ڈاکٹر شہزاد فریدکے مطابق سب سے زیادہ اصلاحات عدالتی اور پولیس نظام میں درکار ہیں۔ فوری انصاف، کرپشن کا خاتمہ اور پولیس کی آزادی کو یقینی بنائے بغیر قانون کی حکمرانی قائم نہیں کی جا سکتی۔ غریب اور کمزور طبقات کو مفت قانونی مدد فراہم کی جائے، تاکہ وہ عدالتی کارروائی کے اخراجات کے بوجھ سے بچ سکیں۔ انسانی حقوق کمیشن کو مزید مضبوط بنا کر، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنایا جائے۔ جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر بات چیت کرتے ہوئے  ماہرِ انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ غریب قیدیوں کو بدترین حالات میں

پاکستان اور ازبکستان کا چار سالوں میں دوطرفہ تجارت چار ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق، سرمایہ کاری کو فروغ دیں گے، شہبازشریف

وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف دو روزہ دورے پر ازبکستان کے صدر شوکت مرزا یوف سے ملاقات کے لیے تاشقند پہنچے، جہاں انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ اس اجلاس میں دونوں ممالک کی تاجر برادری کے مؤثر کردار پر زور دیتے ہوئے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کا عندیہ دیا گیا. ازبکستان میں پاک۔ازبک بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے کہا کہ معاشی ترقی سے شہروں میں خوشحالی آتی ہے، دو عظیم ممالک کے تاجر اور سرمایہ کاروں کے عزم کا عکاسی ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان، ازبکستان میں سرمایہ کاری کریں بلکہ باہمی مفادات کے لیے اپنے نظریات کا تبادلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ازبکستان کے تاجر اور سرمایہ کار تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دیں گے، شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ازبک صدر نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ پاکستان اور ازبکستان کی بزنس کمیونٹی کی ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت نہیں ہے بلکہ باہمی مفادات کے شعہ جات میں ایک دوسرے کی سپورٹ کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بزنس کمیونٹی ازبکستان آئے اور ٹیکسٹائل وینچرز کی مینجمنٹ کرے، یہ بہترین موقع ہے اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے، یہ دونوں ممالک کے بہتر ہوگا، اسی طرح لیدر، فارماسیوٹیکل انڈسٹری اور آلات جراحی کے شعبوں میں پاکستان کی کارکردگی شاندار ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ آج ہم نے ویزہ پالیسی میں نرمی کے حوالے سے بھی بات کی، ازبکستان نے اسحٰق ڈار کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی کے لیے ویزے دستیاب ہوں گے، یہ تجارتی فروغ کے لیے بہترین سپورٹ ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ٹرانز افغان ریلوے پروجیکٹ پر بھی بات چیت ہوئی ہے، یہ 7 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے، جو خطے کی ترقی کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ قبل ازیں، ازبکستان کے صدر شوکت مرزا یوف نے کہا کہ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تجارتی روابط بڑھانے کے بے پناہ مواقع ہیں۔ ازبک صدر کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کی شراکت داری ہونے جا رہی ہے، یہ ایک تاریخی دورہ ہے، باہمی تعاون بڑھانے پر بات چیت ہوئی، باہمی شراکت داری کے حوالے سے مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ازبک صدر شوکت مرزا یوف نے کہا کہ شراکت داری کے حوالے سے وسیع مواقع ہیں، اور مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ آپ جوائنٹ وینچرز اور ازبک کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان میں نمایاں کارکردگی کا مشاہدہ کیا گیا ہے، وہ مہنگائی کی شرح کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اسی طرح شرح سود میں کمی بھی اچھی کامیابی ہے، اور پاکستان کے عوام ان تبدیلیوں پر خوش ہیں، اس حوالے سے میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔ واضح رہے کہ اجلاس میں خطاب کرنے سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے پریس کانفرس کی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ” پاکستان اور ازبکستان کے تعلقات کی تاریخ طویل ہے۔ بہترین میزبانی پر شکرگزار ہوں”۔ ان کا کہنا تھا کہ” دونوں ممالک کے تعلقات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں”۔ ازبک صدر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ” خوش حال مستقبل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔  ہمیں درپیش مسائل سے نبٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اپنانا ہوگا”۔ دونوں رہنماؤں کے مابین دوطرفہ ملاقات اور وفود کی سطح پر ملاقاتیں ہوں گی۔ بعد ازاں، وزیرِ اعظم اور ازبک صدر پاکستان اور ازبکستان مشترکہ بزنس فورم میں شرکت کریں گے اور گفتگو بھی کریں گے۔ وزیرِ اعظم تاشقند میں قائم ٹیکنو پارک کا دورہ بھی کریں گے جہاں وزیرِ اعظم کو ازبکستان کی مقامی طور پر تیار کردہ مصنوعات کے صنعتی یونٹس کا دورہ کروایا جائے گا۔ واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ازبکستان کے 2 روزہ دورے پر ہیں، اس سے قبل انہوں نے آذربائیجان کا دو روزہ دورہ کیا تھا، جہاں دونوں ملکوں کے مابین تجارت، دفاع، تعلیم، موسمیات کے حوالے سے متعدد معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں  پر دستخط کیے گئے تھے، دونوں ملکوں نے دو طرفہ تجارتی حجم 2 ارب ڈالر تک پہنچانے پر بھی اتفاق کیا تھا۔ْ

پاکستان اور بنگلہ دیش میں 54 سال بعد سرکاری سطح پر براہ راست تجارت کا آغاز، 50 ہزار ٹن پاکستانی چاول درآمد

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کئی دہائیوں بعد براہ راست حکومت سے حکومت تک تجارتی تعلقات کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کا پہلا قدم بنگلہ دیش میں 50,000 ٹن چاول کی درآمد سے ہوا ہے۔ یہ اہم پیش رفت 2024 کے آخر میں ان دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ ماضی میں دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی رہی ہے مگر 2024 کے اگست میں بنگلہ دیش کی طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں ایک نیا موڑ آیا۔ شیخ حسینہ کے انڈیا کے ساتھ مضبوط روابط اور ان کی حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش نے تعلقات میں بہتری کی راہیں تلاش کیں۔ حسینہ کے انڈیا فرار ہونے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک واضح سرد مہری کا آغاز ہوا جس سے پاکستان کو بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کا موقع ملا۔ نومبر 2024 میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان براہ راست نجی تجارت کا آغاز ہوا جب کراچی سے ایک مال بردار جہاز براہ راست چٹاگانگ روانہ ہوا۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں بعد پہلا براہ راست تجارتی جہاز تھا، جس نے نیا تاریخ رقم کیا۔ اس کے بعد، حکومتوں کے درمیان چاول کی درآمد کے لیے ایک معاہدہ بھی طے پایا، جس کے تحت 50,000 ٹن چاول بنگلہ دیش کی جانب سے پاکستان سے خریدا گیا۔ زیاالدین احمد بنگلہ دیش کے وزارت خوراک کے ایک سینئر افسر نے اس معاہدے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ “یہ پاکستان سے چاول کی درآمد کا پہلا حکومت سے حکومت تک کا معاہدہ ہے اور یہ ہمارے لیے ایک نیا راستہ فراہم کرتا ہے جو ہمیں نہ صرف سپلائی کے ذرائع کی متنوعیت فراہم کرتا ہے بلکہ قیمتوں کے حوالے سے بھی ایک مسابقتی فائدہ فراہم کرتا ہے۔” یہ بھی پڑھیں: ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کے لیے امریکا کی دھمکی، عالمی تیل کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا یہ معاہدہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ بنگلہ دیش ایک نچلے علاقے پر واقع ہے جو عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ بنگلہ دیش جو کہ دنیا کے سب سے زیادہ سیلابی اور طوفانی علاقوں میں سے ایک ہے، یہ ملک اپنی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے عالمی سطح پر مختلف ممالک سے چاول کی درآمد پر انحصار کرتا ہے۔ پاکستانی چاول کی درآمد کا یہ عمل بنگلہ دیش کے لیے نیا نہیں ہے کیونکہ نجی شعبہ پہلے ہی کئی سالوں سے پاکستان سے چاول خرید رہا تھا، مگر اس تجارت کو پہلے دیگر ممالک جیسے سری لنکا، سنگاپور اور ملائیشیا میں منتقل کرنا پڑتا تھا۔ اب دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں بہتری آ چکی ہے، اور یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے ایک نیا اور مستحکم تجارتی راہ فراہم کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات مستحکم ہوں گے بلکہ یہ اس بات کا غماز بھی ہے کہ عالمی سطح پر تجارتی تعلقات میں تبدیلیاں اور نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اس اہم پیش رفت کا آغاز ایک نئے تجارتی دور کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے، جو دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا۔ مزید پڑھیں: شہباز شریف آذربائیجان کے بعد ازبکستان کے دورے پر، مقاصد کیا ہیں؟

اگر مگر کاکھیل ختم، چیمپئنز ٹرافی کے پہلے ہی مرحلے میں پاکستان کا کام تمام

29 سال بعد کسی عالمی ایونٹ کی میزبانی کرنے والا ملک پاکستان چیمپئنز ٹرافی سے باہر ہوگیا، آئی سی سی کے ایک روزہ کرکٹ مقابلے چیمپئنز ٹرافی کے گروپ اے میں نیوزی لینڈ نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے۔ نیوزی لینڈ سے ہارنے کے بعد بنگلہ دیش بھی ایونٹ سے باہر ہوگیا ہے، انڈیا اس سے قبل پہلے ہی سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر چکا ہے۔ نیوزی لینڈ نے پیرکے روزراولپنڈی میں کھیلے جانے والے میچ میں بنگلہ دیش کا 236 رنز کا ہدف 46.1 اووروں میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر پورا کیا۔ ضرورپڑھیں: نیوزی لینڈ نے بنگلہ دیش کو 5 وکٹوں سے شکست دے دی اس سے قبل ایک انتہائی معمولی امکان تھا کہ اگر بنگلہ دیش انڈیا اور نیوزی لینڈ دونوں کو ہرا دے تو پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ سکتا ہے۔ اس سے قبل پاکستان اپنے گروپ کا پہلا میچ نیوزی لینڈ سے بھاری مارجن سے ہار گیا تھا۔ دفاعی چیمپئن  نے نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے دفاع کا بہت مایوس کن آغاز کیا، چیمپئنز ٹرافی سے پہلے ہی پاکستان نے سہ ملکی ون ڈے سیریز میں نیوزی لینڈ سے دو بار شکست کھائی۔ پاکستان اپنی ناقص کارکردگی کی بدولت افتتاحی میچ نیوزی لینڈ کے خلاف ہارا( فائل فوٹو) اس کے بعدپاکستان کا مقابلہ اتوار کو دبئی میں روایتی حریف بھارت سے ہوا، جس کا مقصد ٹورنامنٹ میں زندہ رہنا تھا۔ لیکن، ان کی بیٹنگ یونٹ لازمی طور پر جیتنے والے ہائی اسٹیک مقابلے میں پیش کرنے میں ناکام رہی اور آخری اوور میں بولڈ ہونے سے پہلے ہی 241 رنز بنائے۔ مڈل آرڈر بلے باز سعود شکیل 76 گیندوں پر 5 چوکوں کی مدد سے محتاط 62 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر رہے۔   بائیں ہاتھ کے اسپنر کلدیپ یادیو ہندوستان کے لیے بہترین گیند باز تھے، انھوں نے اپنے نو اوورز میں صرف 40 رنز دے کر تین وکٹ لیں جواب میں بھارت نے ویرات کوہلی کی شاندار سنچری کی بدولت 242 رنز کا ہدف چار وکٹوں اور 45 گیندوں باقی رہ کر آرام سے حاصل کر لیا۔ اتنے ہی میچوں میں دو شکستوں کے ساتھ، پاکستان کے چیمپئنز ٹرافی 2025 کے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے کے امکانات تاریک ہو گئے تھے اور اس کا انحصار گروپ اے کے بقیہ میچوں کے نتائج پر تھا۔ لیکن بنگلہ دیش کے خلاف نیوزی لینڈ کی فتح نے آٹھ ٹیموں کے ٹورنامنٹ میں مزید ترقی کرنے کے کسی بھی موقع سے انکار کر دیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ چیمپئنز ٹرافی 2025 کے سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہونے کے باوجود، پاکستان کا مقابلہ بنگلہ دیش سے اپنے آخری گروپ مرحلے کے میچ میں 27 فروری کو راولپنڈی میں ہوگا۔

“یورپ کو امریکا سے حقیقی آزادی دلانے میں مدد کریں گے” جرمن چانسلرشپ کے امیدوار کا عزم

مخالف قدامت پسندوں کے قومی انتخابات میں کامیابی کے بعد جرمنی کے اگلے چانسلر بننے کے لیے تیار فریڈرک مرز نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ یورپ کو امریکا سے “حقیقی آزادی” دلانے میں مدد کریں گے کیونکہ وہ ایک ساتھ مل کر حکومت بنانے کے لیے تیار ہیں۔ عالمی خبر ارساں ادارہ رائٹرز کے مطابق جرمنی میں انتخابات میں کریسچن ڈیموکریٹک یونین( سی ڈی یو) نے 28.6 فیصد اور آلٹرنیٹیو  فار جرمنی ( اے ایف ڈی)نے 20.8 ووٹ حاصل کیے اور اب اے ایف  ڈی، سی ڈی یو کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے۔ مرکزی دھارے کی جماعتیں اے ایف ڈی کے ساتھ کام کرنے سے انکار کرتی ہیں جس کو امریکا کی ممتاز شخصیات بشمول ایلون مسک، ٹیک ارب پتی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اتحادی کی توثیق حاصل تھی۔ میرز جن کے پاس عہدہ سنبھالنے کا کوئی سابقہ ​​تجربہ نہیں ہے، یورپ کی سب سے بڑی معیشت کی سلامتی کو تصادم کرنے والے امریکا اور ایک جارحانہ روس اور چین کے درمیان پھنس جانے کے ساتھ چانسلر بننے کے لیے تیار ہے۔ میرز نے اپنی فتح کے بعد دو ٹوک ریمارکس میں امریکہ کو نشانہ بنایا، انتخابی مہم کے دوران واشنگٹن سے آنے والے “بالآخر اشتعال انگیز” تبصروں پر تنقید کرتے ہوئے، ان کا موازنہ روس کی مخالفانہ مداخلتوں سے کیا۔ میرز نے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ایک گول میز کو بتایا کہ ہم دونوں طرف سے اتنے بڑے دباؤ میں ہیں کہ اب میری اولین ترجیح یورپ میں اتحاد حاصل کرنا ہے۔ یورپ میں اتحاد پیدا کرنا ممکن ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی نتائج کا خیرمقدم کرنے کے باوجود مرز کا امریکہ کے خلاف براڈ سائیڈ سامنے آیا۔ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر لکھا، ’’امریکہ کی طرح، جرمنی کے لوگ عقل سے کام نہ لینے والے ایجنڈے سے تھک چکے ہیں، خاص طور پر توانائی اور امیگریشن پر، جو کہ اتنے سالوں سے غالب ہے۔‘‘ اب تک بحر اوقیانوس کے ماہر کے طور پر دیکھے جانے والے مرز نے کہا کہ ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کو یورپ کی تقدیر سے بڑی حد تک لاتعلق ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرز کی “ہماری مکمل  ترجیح یورپ کو جلد از جلد مضبوط کرنا ہو گی تاکہ ہم قدم بہ قدم امریکہ سے حقیقی آزادی حاصل کر سکیں”۔ یہاں تک کہ انہوں نے یہ پوچھنے کا حوصلہ بھی کیا کہ کیا شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم کی اگلی سربراہی کانفرنس، جس نے کئی دہائیوں سے یورپ کی سلامتی کو فروغ دیا ہے، اب بھی نیٹو کو اپنی موجودہ شکل میں نظر آئے گا۔

دنیا کی تیزی سے بدلتی صورتحال: کیا طاقت کا توازن بدل چکا؟

سال بدل گیا مگر دنیا کے حالات جوں کے توں ہیں، طاقت کے حصول کے لیے بارود کی بو میں سانس لینا دشوار ہے، عالمی طاقتوں کی کھینچا تانی میں پستے غریب عوام دربدر ہیں، کوئی یورپ میں پناہ لینے کے لیے بھٹک رہا ہے تو کوئی قریبی ممالک میں پناہ لے رہا ہے۔ مشرق سے مغرب تک طاقت کا توازن بگڑ چکا ہے، کیا حالات نیا جنم لے رہے ہیں؟ کیا طاقت کا توازن بدل چکا ہے؟ عالمی طاقتوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو 20ویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں نوآبادیاتی یعنی سامراجی نظام تھا اور بڑی طاقتوں نے مختلف خطوں پر بادشاہت کے ذریعے قبضہ جما رکھا تھا۔ مگر 1919 میں پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں طاقت کے توازن میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جب عالمی طاقتوں کے درمیان زور آزمائی کا سلسلہ شروع ہوا اور الائنس کا نظام متعارف ہوا۔ نظریاتی، جغرافیائی، ثقافتی اور سماجی لحاظ سے قریب سمجھے جانے والے ممالک نے آپس میں اتحاد کرلیا، جس کے نتیجے میں طاقت کا توازن بگڑ گیا۔ اتحادی ممالک میں یہ اصول طے پایا کہ اگر کسی ملک پر حملہ ہوگا تو اس کے اتحادی اس کا جواب دیں گے، مگر جیسے ہی طاقت کا توازن بگڑا تو خطے میں نئی جنگ چھڑ گئی۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ابوالحسن نے کہا کہ “امریکا اب بھی دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت ہے، لیکن اس کی برتری چیلنج ہو رہی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “چین اور روس جیسے ممالک عالمی سطح پر زیادہ اثر و رسوخ حاصل کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ایک نئے ملٹی پولر ورلڈ آرڈر کے آثار نظر آ رہے ہیں۔” اس کے علاوہ طاقتوں کے فروغ میں مادیت پرستی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ہر ریاست نے اپنی عسکری قوت پر خاص توجہ دی اور اپنی افواج کو درکار تمام سہولیات سے لیس کرنے میں کامیابی سمجھی۔ ان عوامل کے علاوہ بادشاہت اور قوم پرستی نے بھی جنگی جنون اور ورلڈ آرڈر میں اہم تبدیلی کے لیے کام کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان علی فانی نے کہا کہ “روس اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون مغرب کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ توانائی، معیشت اور فوجی تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں، لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ دونوں ممالک مل کر مغرب کا متبادل طاقت کا محور بن سکتے ہیں۔” پہلی جنگ عظیم کے بعد ‘ملٹی پولر ورلڈ آرڈر’ وجود میں آیا، جس کے بعد لیبر انسٹی ٹیوشنز اور گلوبل گورننگ باڈیز کے قیام نے عالمی طاقت کے ڈھانچے کو تبدیل کیا۔ تاہم، 1939 میں ایک اور بڑی جنگ، یعنی دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی، جو 1945 میں ختم ہوئی۔ اس کے بعد طاقت کی ساخت مکمل طور پر تبدیل ہوئی اور ‘ملٹی پولر’ سے ‘بائی پولر ورلڈ آرڈر’ وجود میں آیا جس کے نتیجے میں سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ جنگ 1991 میں افغانستان میں ختم ہوئی، جس کے بعد ‘بائی پولر’ سے ‘یونی پولر ورلڈ آرڈر’ قائم ہوا، جو تاحال برقرار ہے، مگر اس پر اب مختلف آرا موجود ہیں کہ پاور ڈائنامکس ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو رہی ہے۔ عالمی امور کے ماہرڈاکٹرابوالحسن کا کہنا تھا کہ “چین اپنی اقتصادی ترقی، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی سطح پر اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ اگر چین اسی رفتار سے ترقی کرتا رہا تو مستقبل میں عالمی طاقت کا توازن مشرق کی طرف جھک سکتا ہے۔” دورٍحاضر میں دنیا کی تیزی سے بدلتی صورتحال، چین اور روس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ طاقت کی ساخت میں تبدیلی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ‘برکس’ کی شکل میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کا سوشیو اکنامک الائنس بھی اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ موجودہ عالمی نظام زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان، سعودی عرب اور دیگر ممالک بھی اس اتحاد کا حصہ بننے کی کوشش میں ہیں جن میں امریکا کے اسٹریٹیجک پارٹنرز بھی شامل ہیں۔ پروفیسر عرفان علی کا کہنا ہے کہ “بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو بہت بڑا منصوبہ ہے، جو عالمی معیشت پر چین کے اثر و رسوخ کو بڑھا رہا ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے جاری رہا تو ایشیا عالمی طاقت کے نئے مرکز کے طور پر ابھر سکتا ہے۔” انہوں نے یہ بھی کہا کہ “اگر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک برکس میں شامل ہو جاتے ہیں تو یہ امریکا کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ مشرق وسطیٰ کا جھکاؤ چین اور روس کی طرف ہو سکتا ہے، جس سے خطے کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔” دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو دنیا میں یونی پولر ورلڈ آرڈر ہی برقرار ہے، لیکن رجحان میں بڑی تبدیلی آ چکی ہے اور مستقبل قریب میں عالمی منظرنامہ مکمل طور پر تبدیل ہونے کا امکان ہے۔ پروفیسر ابوالحسن نے اس پر کہا کہ “عالمی ادارے ابھی تک مغربی ممالک کے زیر اثر ہیں، لیکن بدلتی ہوئی صورتحال کے باعث انہیں اپنی پالیسیوں میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ چین سمیت دیگر ابھرتی ہوئی طاقتیں اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف میں زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔”

کوہلی کی شاندار سنچری، انڈیا نے پاکستان کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی

چیمپئنز ٹرافی کے ہائی وولٹیج میچ میں ویرات کوہلی کی شاندار سنچری کی بدولت انڈیا نے پاکستان کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی۔ 242 رنز کا ہدف انڈیا نے 43 اوور میں 4 وکٹ کے نقصان پر پورا کرلیا۔ دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں قومی ٹیم کے کپتان محمد رضوان نے انڈیا کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کی پوری ٹیم 4 اوورز میں 241 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ پاکستان کو پہلا نقصان 41 رنز پر بابر اعظم کی صورت میں اٹھانا پڑا جو 23 رنز بناکر ہاردک پانڈیا کی گیند کا شکار بنے اس کے بعد امام الحق 10 رنز بناکر رن آؤٹ ہوگئے۔ محمد رضوان 46 رنز بناکر آؤٹ ہوئے جبکہ سعود شکیل 62 رنز بناکر پویلین لوٹے، طیب طاہر 4 اور سلمان آغا 19 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ ان کے بعد آنے والے شاہین آفریدی بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے، نسیم شاہ نے 14 رنز کی اننگز کھیلی، خوشدل شاہ نے 38 اور حارث رؤف نے 8 رنز بنائے۔ انڈیا کی جانب سے کلدیپ یادیو نے 3، ہاردک پانڈیا نے 2، ہرشیت رانا، اکثر پٹیل اور جدیجا نے ایک ایک وکٹ لی۔ دوسری جانب انڈیا کے پہلے آؤٹ ہونے والے کھلاڑی کپتان روہت شرما تھے جنہیں شاہین آفریدی نے بولڈ کیا، روہت شرما 20 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ ان کے بعد شبمن گل 46 رنز بنا کر ابرار کے ہاتھوں بولڈ ہوگئے۔ شریاس ایئر 56 رنز بناکر کیچ آؤٹ ہوئے، انہیں خوشدل شاہ نے آؤٹ کیا۔ ہاردک پانڈیا 8 رنز بناکر شاہین شاہ آفریدی کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوئے۔ اس موقع پر ویرات کوہلی وکٹ پر جمے رہے اور ون ڈے کریئر کی 51 ویں سنچری اسکور کی، انہوں نے 111 گیندوں پر 7 چوکوں کی مدد سے 100 رنز بنائے۔ شاندار بلے بازی پر انہیں مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا۔ انڈیا نے 242 رنز کا ہدف 43 اوور میں 4 وکٹ کے نقصان پر پورا کرلیا۔ پاکستان کی جانب سے شاہین آفریدی نے 2، ابرار اور خوشدل شاہ نے ایک ایک وکٹ لی۔ ٹاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے قومی ٹیم کے کپتان محمد رضوان کا کہنا تھا کہ ہماری ٹیم آج کے میچ میں اچھی کارکردگی دکھائے گی، ٹیم میں ایک تبدیلی ہے، فخرزمان کی جگہ امام الحق کو شامل کیا گیا ہے، محمد رضوان نے کہا کہ اسکور بورڈ پر اچھا ٹوٹل سجائیں گے۔ پاکستان کی پلیئنگ الیون میں بابراعظم، امام الحق، سعود شکیل، محمد رضوان، سلمان آغا، طیب طاہر، خوشدل شاہ، ابرار احمد، نسیم شاہ، شاہین آفریدی اور حارث رؤف شامل تھے۔

پاکستان اور انڈیا کا میچ ہی دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ کیوں ہے؟

پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ میچ کا دنیا بھر کے شائقین کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ہر کوئی جو کرکٹ کھیلنا، دیکھنا اور اس پر بات کرنا پسند کرتا ہے وہ اس بڑے مقابلے کا شدت سے انتظار کرتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آخر کیوں شائقین پاکستان اور انڈیا کے میچ کا اس طرح انتظار کرتے ہیں؟ جب جب پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیمیں آمنے سامنے ہوتی ہیں تو وہ صرف کھیل نہیں رہتا بلکہ جذبات کی جنگ، تاریخی مقابلہ اور کروڑوں شائقین کی دیوانگی کی وجہ بن جاتا ہے۔ ان کے میچ کو ‘دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ’ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ صرف میدان میں ہونے والی کرکٹ نہیں بلکہ اس کے پیچھے چھپے تاریخی، سیاسی اور جذباتی عوامل ہیں۔ نجی ٹی وی چینل کے سپورٹس رپورٹر عمران لطیف نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاک-بھارت کرکٹ میچ محض ایک کھیل نہیں بلکہ جذبات، تاریخ اور قومی وقار کا معاملہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر کے شائقین اسے عالمی کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں غیرمعمولی سنسنی، جوش و جذبہ اور بے پناہ دباؤ ہوتا ہے۔” پاکستان اور انڈیا کے درمیان پہلا کرکٹ میچ 1952ء میں کھیلا گیا تھا۔ تب سے لے کر آج تک یہ مقابلہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا آئینہ دار رہا ہے۔ ماضی میں ہونے والے کئی میچوں نے نہ صرف کرکٹ کی تاریخ میں اپنا نام درج کیا بلکہ دونوں ممالک کے عوام کے دلوں میں ایک خاص جگہ بنا لی۔ ان مقابلوں میں 1986 کا ایشیا کپ فائنل ہو، 2003 کے ورلڈ کپ کا میچ ہو یا پھر 2017 کے چیمپئنز ٹرافی فائنل سبھی ایک سے بڑھ کر ایک مقابلے ہیں۔ کرکٹ تجزیہ کار محمد عثمان نے پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاک-بھارت میچ میں کھلاڑیوں پر ناقابلِ تصور دباؤ ہوتا ہے۔ یہ دباؤ بعض اوقات کارکردگی کو نکھارتا ہے اور کبھی کھلاڑیوں کو شدید ذہنی تناؤ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جو کھلاڑی اس پریشر کو قابو میں رکھ پاتے ہیں وہی ہیرو بنتے ہیں۔” پاکستان اور انڈیا کے میچ صرف کھیل نہیں ہوتے بلکہ ہار جیت کی کہانیوں سے دونوں قوموں کے جذبات جنون کی حد تک متاثر ہوتے ہیں۔ جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ ہوتا ہے تو اسٹیڈیم میں موجود کوئی شخص اپنے جذبات کو چھپا نہیں پاتا۔ میڈیا کی کوریج، سوشل میڈیا پر ہونے والے بحث و مباحثے اور شائقین کی دیوانگی ان مقابلوں کو ایک منفرد بنا دیتی ہے۔ بات صرف یہاں تک نہیں رکتی سیاست بھی اس میچ سے متاثر ہوتی ہے۔ کئی بار یہ دیکھا گیا ہے کہ کرکٹ میچز نے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات پر بھی اثر ڈالا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ شائقین کی دیوانگی کا کوئی ثانی نہیں۔ ٹی وی ریٹنگز آسمان کو چھوتی ہیں اور اشتہارات کی آمدنی کا تو کوئی حساب ہی نہیں رہتا۔ عمران لطیف کے مطابق “سوشل میڈیا پاک-بھارت میچز کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔ میمز، طنزیہ تبصرے اور بحث و مباحثہ مداحوں کے جوش کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ تاہم بعض اوقات یہ غیرضروری تلخی اور نفرت کو بھی جنم دیتا ہے جو کھیل کی روح کے خلاف ہے۔” پاکستان اور انڈیا کے کھلاڑیوں پر عوامی توقعات کا بوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ہر کھلاڑی جانتا ہے کہ اس میچ میں ان کی کارکردگی کا فیصلہ نہ صرف میچ کے نتائج پر اثر انداز ہوگا بلکہ انہیں زندگی بھر کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ ماضی میں کئی کھلاڑیوں نے اس دباؤ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ کچھ کو تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا ہے۔ نفسیاتی دباؤ میں کھیلنا کسی بڑے امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ محمد عثمان کا کہنا ہے کہ ” شعیب اختر بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ بعض اوقات جذبات ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں اور کھیل سے زیادہ دشمنی کا رنگ نظر آتا ہے۔ شائقین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کرکٹ صرف ایک کھیل ہے اور اس کا لطف لینا چاہیے نہ کہ نفرت کو فروغ دینا چاہیے۔” دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات کے اتار چڑھاؤ نے کرکٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔ کئی بار کرکٹ سیریز منسوخ ہوئی ہیں اور کئی بار سیاسی حالات کی وجہ سے میچز پر سایہ منڈلاتا رہا ہے۔ عمران لطیف کا ماننا ہے کہ “دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی بنیادی رکاوٹ ہے۔ اگر سفارتی تعلقات بہتر ہوں تو کرکٹ سیریز بھی بحال ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے کرکٹ بورڈز اور حکومتوں کو ایک دوستانہ رویہ اپنانا ہوگا۔” پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچز کی مالیاتی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آئی سی سی اور براڈکاسٹرز کے لیے یہ میچز بے پناہ آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ معیشت پر اس میچ کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک میچ کے دوران اشتہارات اور اسپانسرشپ سے اربوں روپے کمائے جاتے ہیں۔ عمران لطیف کا کہنا ہے کہ “یہ حقیقت ہے کہ آئی سی سی اور براڈکاسٹرز کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہوتا ہے کیونکہ پاک-بھارت میچ کی ریٹنگ سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ میچ کرکٹ کی اصل روح، جوش اور جذبے کو بھی نمایاں کرتا ہے۔” اس میچ سے پہلے اور بعد میں سوشل میڈیا پر شائقین کا ردعمل بھی ایک جنگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ میمز کی جنگ، کمنٹس کی بارش اور کھلاڑیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مداحوں کا دباؤ اس میچ کو اور بھی دلچسپ بنا دیتا ہے۔ مستقبل میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ تعلقات بہتر ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات میں بہتری آتی ہے تو کرکٹ کو ایک بار پھر دونوں قوموں کے درمیان دوستی کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ محمد عثمان کا ماننا ہے کہ “بدقسمتی سے پاک-بھارت کرکٹ پر ہمیشہ سے سیاست کا اثر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کی وجہ سے باہمی سیریز ممکن نہیں ہو پاتی جس کا نقصان شائقین اور کھیل دونوں کو ہوا ہے۔” پاکستان اور