پاکستان اور انڈیا کا میچ ہی دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ کیوں ہے؟

پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ میچ کا دنیا بھر کے شائقین کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ہر کوئی جو کرکٹ کھیلنا، دیکھنا اور اس پر بات کرنا پسند کرتا ہے وہ اس بڑے مقابلے کا شدت سے انتظار کرتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آخر کیوں شائقین پاکستان اور انڈیا کے میچ کا اس طرح انتظار کرتے ہیں؟ جب جب پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیمیں آمنے سامنے ہوتی ہیں تو وہ صرف کھیل نہیں رہتا بلکہ جذبات کی جنگ، تاریخی مقابلہ اور کروڑوں شائقین کی دیوانگی کی وجہ بن جاتا ہے۔ ان کے میچ کو ‘دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ’ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ صرف میدان میں ہونے والی کرکٹ نہیں بلکہ اس کے پیچھے چھپے تاریخی، سیاسی اور جذباتی عوامل ہیں۔ نجی ٹی وی چینل کے سپورٹس رپورٹر عمران لطیف نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاک-بھارت کرکٹ میچ محض ایک کھیل نہیں بلکہ جذبات، تاریخ اور قومی وقار کا معاملہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر کے شائقین اسے عالمی کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں غیرمعمولی سنسنی، جوش و جذبہ اور بے پناہ دباؤ ہوتا ہے۔” پاکستان اور انڈیا کے درمیان پہلا کرکٹ میچ 1952ء میں کھیلا گیا تھا۔ تب سے لے کر آج تک یہ مقابلہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا آئینہ دار رہا ہے۔ ماضی میں ہونے والے کئی میچوں نے نہ صرف کرکٹ کی تاریخ میں اپنا نام درج کیا بلکہ دونوں ممالک کے عوام کے دلوں میں ایک خاص جگہ بنا لی۔ ان مقابلوں میں 1986 کا ایشیا کپ فائنل ہو، 2003 کے ورلڈ کپ کا میچ ہو یا پھر 2017 کے چیمپئنز ٹرافی فائنل سبھی ایک سے بڑھ کر ایک مقابلے ہیں۔ کرکٹ تجزیہ کار محمد عثمان نے پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاک-بھارت میچ میں کھلاڑیوں پر ناقابلِ تصور دباؤ ہوتا ہے۔ یہ دباؤ بعض اوقات کارکردگی کو نکھارتا ہے اور کبھی کھلاڑیوں کو شدید ذہنی تناؤ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جو کھلاڑی اس پریشر کو قابو میں رکھ پاتے ہیں وہی ہیرو بنتے ہیں۔” پاکستان اور انڈیا کے میچ صرف کھیل نہیں ہوتے بلکہ ہار جیت کی کہانیوں سے دونوں قوموں کے جذبات جنون کی حد تک متاثر ہوتے ہیں۔ جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ ہوتا ہے تو اسٹیڈیم میں موجود کوئی شخص اپنے جذبات کو چھپا نہیں پاتا۔ میڈیا کی کوریج، سوشل میڈیا پر ہونے والے بحث و مباحثے اور شائقین کی دیوانگی ان مقابلوں کو ایک منفرد بنا دیتی ہے۔ بات صرف یہاں تک نہیں رکتی سیاست بھی اس میچ سے متاثر ہوتی ہے۔ کئی بار یہ دیکھا گیا ہے کہ کرکٹ میچز نے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات پر بھی اثر ڈالا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ شائقین کی دیوانگی کا کوئی ثانی نہیں۔ ٹی وی ریٹنگز آسمان کو چھوتی ہیں اور اشتہارات کی آمدنی کا تو کوئی حساب ہی نہیں رہتا۔ عمران لطیف کے مطابق “سوشل میڈیا پاک-بھارت میچز کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔ میمز، طنزیہ تبصرے اور بحث و مباحثہ مداحوں کے جوش کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ تاہم بعض اوقات یہ غیرضروری تلخی اور نفرت کو بھی جنم دیتا ہے جو کھیل کی روح کے خلاف ہے۔” پاکستان اور انڈیا کے کھلاڑیوں پر عوامی توقعات کا بوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ہر کھلاڑی جانتا ہے کہ اس میچ میں ان کی کارکردگی کا فیصلہ نہ صرف میچ کے نتائج پر اثر انداز ہوگا بلکہ انہیں زندگی بھر کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ ماضی میں کئی کھلاڑیوں نے اس دباؤ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ کچھ کو تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا ہے۔ نفسیاتی دباؤ میں کھیلنا کسی بڑے امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ محمد عثمان کا کہنا ہے کہ ” شعیب اختر بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ بعض اوقات جذبات ضرورت سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں اور کھیل سے زیادہ دشمنی کا رنگ نظر آتا ہے۔ شائقین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کرکٹ صرف ایک کھیل ہے اور اس کا لطف لینا چاہیے نہ کہ نفرت کو فروغ دینا چاہیے۔” دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات کے اتار چڑھاؤ نے کرکٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔ کئی بار کرکٹ سیریز منسوخ ہوئی ہیں اور کئی بار سیاسی حالات کی وجہ سے میچز پر سایہ منڈلاتا رہا ہے۔ عمران لطیف کا ماننا ہے کہ “دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی بنیادی رکاوٹ ہے۔ اگر سفارتی تعلقات بہتر ہوں تو کرکٹ سیریز بھی بحال ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے کرکٹ بورڈز اور حکومتوں کو ایک دوستانہ رویہ اپنانا ہوگا۔” پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچز کی مالیاتی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آئی سی سی اور براڈکاسٹرز کے لیے یہ میچز بے پناہ آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ معیشت پر اس میچ کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک میچ کے دوران اشتہارات اور اسپانسرشپ سے اربوں روپے کمائے جاتے ہیں۔ عمران لطیف کا کہنا ہے کہ “یہ حقیقت ہے کہ آئی سی سی اور براڈکاسٹرز کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہوتا ہے کیونکہ پاک-بھارت میچ کی ریٹنگ سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ میچ کرکٹ کی اصل روح، جوش اور جذبے کو بھی نمایاں کرتا ہے۔” اس میچ سے پہلے اور بعد میں سوشل میڈیا پر شائقین کا ردعمل بھی ایک جنگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ میمز کی جنگ، کمنٹس کی بارش اور کھلاڑیوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مداحوں کا دباؤ اس میچ کو اور بھی دلچسپ بنا دیتا ہے۔ مستقبل میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ تعلقات بہتر ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات میں بہتری آتی ہے تو کرکٹ کو ایک بار پھر دونوں قوموں کے درمیان دوستی کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ محمد عثمان کا ماننا ہے کہ “بدقسمتی سے پاک-بھارت کرکٹ پر ہمیشہ سے سیاست کا اثر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کی وجہ سے باہمی سیریز ممکن نہیں ہو پاتی جس کا نقصان شائقین اور کھیل دونوں کو ہوا ہے۔” پاکستان اور

اسرائیل کے چھ یرغمالی رہا، بدلے میں حماس کو کیا ملے گا؟

جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں غیرقانونی قید کاٹنے والے فلسطینیوں کی رہائی کا سلسلہ جاری ہے جبکہ حماس نے بھی بدلے میں اسرائیلی یرغمالی رہا کیے ہیں ۔ حماس نے ہفتے کے روزچھ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا ہے، ان میں ایک مسلمان اسرائیلی بھی ہے جو ہشام السید ہے۔ حماس نے تمام یرغمالیوں کو ایک تقریب میں ریڈ کراس کے حوالے کیا ۔ حماس نے ایلیا کوہن، عومر شم تو، عومر وینکیرٹ، تال شوہام، آویرا منگستو اور ہیثم ال سید کو رہا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بدلے میں اسرائیل 602 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے جن میں 50 ایسے قیدی بھی شامل ہوں گے جنہیں عمر بھر کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ اقدام ایک اہم پیش رفت ہے جس میں دونوں طرف کے قیدیوں کے تبادلے کی امید بڑھ گئی ہے۔ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل کی طرف سے متوقع رہائی کی تفصیلات فلسطینی قیدیوں کے میڈیا دفتر نے فراہم کی ہیں جو اس معاہدے کو دونوں اطراف کے لیے مثبت قرار دے رہے ہیں۔ حماس کی جانب سے جمعرات کو چار لاشیں اسرائیل کے حوالے کی گئی تھیں لیکن اسرائیل کے فوجی ذرائع نے ان میں سے ایک لاش کو صحیح شناخت کے بغیر ‘نامعلوم’ قرار دیا۔ اسرائیل نے فلسطینی حکمران جماعت حماس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صحیح لاش واپس کرے، جو کہ اسرائیلی قیدی ‘شری بیبس’ کی ہو سکتی ہے، جس کا نام اس تنازعے میں اہمیت رکھتا ہے۔ حماس نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ لاش اسرائیل کے فضائی حملے میں ملی تھی اور ممکنہ طور پر دیگر انسانی باقیات کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ غزہ میں جاری جنگ کے دوران وزارت صحت نے کم از کم 48,319 فلسطینیوں کی شہادت کی تصدیق کی ہے جب کہ 111,749 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ فلسطینی حکام نے مزید بتایا کہ ہزاروں افراد جو ملبے میں دبے ہوئے ہیں ان کی جاں بحق ہونے کا خدشہ ہے۔ جس کی وجہ سے متنازعہ اموات  کی تعداد 61,709 تک پہنچ گئی ہے۔ اسرائیل کے اندر 7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے حماس کے حملوں میں 1,139 افراد ہلاک ہوئے اور 200 سے زیادہ افراد قید کیے گئے۔ اس قیدی تبادلے کے عمل سے امید کی جارہی ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان قیام امن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے لیکن اس دوران انسانی حقوق کے حوالے سے کئی پیچیدہ مسائل ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ یہ تبادلہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان ایک نیا سنگ میل ہو سکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی دونوں طرف کے مقامی باشندوں کے لیے بڑی مشکلات اور جذباتی تنازعات کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے یوکرین اور ‘زیلنسکی’ کے بارے میں جھوٹے دعوے: حقیقت سامنے آگئی ’وہ جہنم کی گہرائی سے واپس لوٹے ہیں’ درسری جانب اسرائیل کے صدر نے یرغمالیوں کی واپسی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں آج صبح یرغمالیوں کی رہائی کا عمل دیکھ کر سکون ملا ہے۔ ایکس پر جاری اپنے بیان میں اسرائیلی صدر نے کہا کہ ’وہ جہنم کی گہرائیوں سے واپس لوٹے ہیں۔ ان کے پیاروں نے ان (یرغمالیوں) کی واپسی کے لیے اپنی پوری قوت سے جنگ لڑی اور اب امید ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ساتھ شفا یابی اور بحالی کا عمل بخوشی شروع کر سکیں گے۔‘ اسرائیلی صدر نے مزید کہا کہ تمام یرغمالیوں کی ’فوری واپسی‘ بہت ضروری ہے۔ ’ہمیں غزہ کی قید سے تمام یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے آخری حد تک جا کر ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔‘

انڈیا کا چیمپیئنز ٹرافی میں جیت سے آغاز، بنگلہ دیش کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی

چیمپیئنز ٹرافی کے دوسرے میچ میں انڈیا نے بنگلہ دیش کو 6 وکٹوں سے شکست دے کر ایونٹ میں جیت حاصل کر لی ہے۔ بنگلہ دیشی ٹیم مقررہ 50 اوورز نہ کھیل پائی اور 49.4 میں 228 رنز بنا کر ڈھیر ہو گئی، جسے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے انڈین ٹیم نے 46.3 اوورز میں 4 وکٹوں کے نقصان پر باآسانی حاصل کر لیا۔ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کا دوسرا میچ انڈیا اور بنگلہ دیش کے مابین نیشنل اسٹیڈیم دوبئی میں کھیلا گیا، بنگلہ دیشی ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ تنزید حسین اور سومیا سرکار بنگلہ دیش کی جانب سے اوپننگ کے لیے آئے، لیکن بد قسمتی سے بنگلہ دیش کی پہلی وکٹ 1 رن پر گر گئی اور اوپنر سومیا سرکار بنا کھاتا کھولے ہی لوٹ گئے۔ سومیا سرکار کے پویلین لوٹنے کے بعد نجمل حسین شانتو کھیلنے کے لیے پچ پر تشریف لائے مگر وہ بھی رن بنانے میں ناکام رہے اور دوسری ہی گیند پر واپس لوٹ گئے۔ انڈین بولرز نے یکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے سارے بلے بازوں کو واپسی کا راستہ دکھایا، بنگلہ دیشی بلے باز بڑا ٹوٹل کھڑا کرنے میں ناکام رہے اور پوری ٹیم 49.4 اوورز میں 228 رنز بنا کر لوٹ گئی۔ مزید پڑھیں: قومی ٹیم کو بڑا دچکا: فخر زمان زمانہ ٹرافی سے باہر بنگلہ دیش کی جانب سے توحید ہردوئی نے 118 گیندوں پر شاندار سینچری کی، جب کہ ذاکر علی 114 گیندوں پر 64 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ انڈین بولروں کی جانب سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا، فاسٹ بولر محمد شامی نے 53 رنز کے عوض 5 وکٹیں حاصل کیں، جب کہ ہرشت رانا نے 3 اور ایکشر پٹیل نے 2 وکٹیں حاصل کیں۔ دوسری جانب ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے انڈین ٹیم نے عمدہ بلے بازی کا مظاہرہ کیا۔ اوپننگ کے لیے کپتان روہت شرما اور شبھمن گل پچ پر تشریف لائے اور ٹیم کو ایک مستحکم شروعات دی، مگر انڈین کپتان زیادہ دیر تک کریز پر ٹک نہ سکے اور 36 گیندوں پر 41 رنز بنا کر چلتے بنے۔ روہت کے بعد سٹار بلے باز ویراٹ کوہلی بیٹنگ کے لیے کریز پر آئے، مگر وہ بھی نہ چل سکے اور 38 گیندوں پر 28 رنز بنا کر چلتے بنے۔ انڈین بلے بازوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور 46.3 اوورز میں یہ ہدف باآسانی حاصل کر لیا اور ٹیم کو جیت سے ہمکنار کیا۔ انڈین بلے بازوں نے جارحانہ اننگ کا مظاہرہ کیا، شبھمن گل نے 119 گیندوں پر 101 رنز بنائے اور ناٹ آؤٹ رہے۔ کے ایل راہول نے بھی 47 گیندوں پر 41 رنز بنائے اور ناٹ آؤٹ رہے۔ بنگلہ دیش کی جانب سے رشاد حسین نے 2، جب کہ تسکین احمد اور مستفیض الرحمان نے 1،1 وکٹ حاصل کی۔ واضح رہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے پہلے میچ میں دفاعی چیمپئن پاکستان کو کیویز کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کیویز نے ایونٹ کے پہلے ہی میچ میں میزبان ٹیم کو 60 سکور سے شکست دے کر جیت اپنے نام کر لی۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین میگا ایونٹ کا افتتاحی میچ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا، جہاں میزبان ٹیم نے ٹاس جیت کر کیویز کو پہلے بیٹنگ کرنے کی دعوت دی، کیویز نے مقررہ 50 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 320 رنز بنائے۔

‘3 سے 5 سال میں برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم رکھتے ہیں’ وزیر خزانہ

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایک اہم انٹرویو میں پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت کی پالیسیوں کی کامیاب کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ 3 سے 5 سال میں برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 12 سے 14 ماہ کے دوران معیشت کی بہتری کے لیے اہم اقدامات کیے گئے، جن کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ محمد اورنگزیب نے حکومت کی معاشی حکمت عملی کو سراہتے ہوئے بتایا کہ مہنگائی اور شرح سود میں کمی کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے گئے ہیں جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام آیا اور دہرے خسارے کو قابو کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور مالیاتی خسارہ سرپلس میں تبدیل ہو گئے ہیں جو ملک کی معیشت کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ نجکاری کے عمل کو تیز کیا جائے گا اور سرکاری اداروں کے نقصانات کم کرنے کے لیے رائٹ سائزنگ کی جائے گی۔ اس عمل سے حکومتی اخراجات میں واضح کمی آئے گی اور عوامی فلاح و بہبود پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان تجارت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور حکومت خطے میں پاکستان کی تجارتی شراکت بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس اقدام سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ممکن ہوگا اور معیشت کو نئی قوت ملے گی۔ ان کی باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے معیشت کی بہتری کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، جو مستقبل میں پاکستان کے لیے خوشحالی کی راہیں ہموار کریں گے۔ یہ اقدامات پاکستان کی معیشت کے لیے ایک نئی امید کی کرن بن سکتے ہیں، اور وزیر خزانہ کا عزم اس بات کا غماز ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان عالمی سطح پر اپنے اقتصادی مقام کو مستحکم کرے گا۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق، جون 2024 میں گزشتہ مالی سال کے اختتام تک ملکی برآمدات 30 ارب ڈالر سے زائد رہیں، جو پچھلے سال کے 27 ارب  ڈالر سے 11 فیصد اضافے کی عکاسی کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ رواں مالی سال کے پہلے سات مہینوں میں برآمدات 10 فیصد بڑھ کر 19 ارب  ڈالر سے زائد تک پہنچ گئیں جو کہ 2023 میں اسی عرصے میں تقریبا 18ارب  ڈالر تھیں۔ مزید پڑھیں: ‘تعلیم ہمارا حق ہے کوئی خیرات نہیں’ حافظ نعیم

LIVE یوکرین جنگ: سعودی عرب میں امریکہ اور روس کے درمیان مذاکرات، اب تک کیا کچھ ہوچکا؟

امریکی وزیر خارجہ کے مشرقِ وسطیٰ کے دورے کے دوران سعودی عرب اور روسی حکام سے ملاقاتیں جاری ہیں۔ روسی وزیر خارجہ لاوروف اور پیوٹن کے خارجہ امور کے مشیر یوری اوشاکوف یوکرین پر امریکی حکام سے بات چیت کے لیے ریاض پہنچ گئے ہیں۔ وہ امریکی وزیر خارجہ روبیو، امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور مشرق وسطیٰ کے سفیر سٹیو وٹ کوف سے ملاقات کریں گے۔ کریملن کے ترجمان پیسکوف نے کہا کہ “ریاض میں جاری مذاکرات پیوٹن اور ٹرمپ کے درمیان ممکنہ ملاقات کو واضح کر سکتے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکا ہے”۔ واشنگٹن کے ساتھ بات چیت کے لیے ماسکو کے اقتصادی مذاکرات کار نے کہا کہ “روس آنے والے مہینوں میں امریکہ کے ساتھ اقتصادی بات چیت میں پیش رفت کی توقع رکھتا ہے”۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹمی بروس نے بتایا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پیر کے روز ملاقات کے دوران غزہ کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا۔ روبیو مشرق وسطیٰ کا دورہ اس وقت کر رہے ہیں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ زدہ غزہ کے فلسطینیوں کو دیگر عرب ممالک میں آباد کرنے کی تجویز کے ساتھ عرب دنیا کو مشتعل کردیا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان ٹیمی بروس نے روبیو اور سعودی ولی عہد کے درمیان ہونے والی میٹنگ کے بعد کہا “امریکی سیکرٹری نے غزہ کے لیے ایک ایسے انتظام کی اہمیت پر زور دیا جو علاقائی سلامتی میں معاون ہو”۔ بروس نے کہا کہ “دونوں ممالک  نے اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ ماہ طے پانے والی جنگ بندی کے لیے اپنے عزم کا اظہار  کیا اور انہوں نے شام، لبنان اور بحیرہ احمر پر تبادلہ خیال کیا”۔ سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے نے کہا کہ “ملاقات میں علاقائی اور عالمی پیش رفت اور سلامتی اور استحکام کے حصول کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا”۔ روبیو اسرائیل سے سعودی عرب پہنچے تھے جہاں انہوں نے اعلیٰ امریکی سفارت کار کے طور پر خطے کا اپنا پہلا دورہ شروع کیا تھا۔ کسی بھی فریق کے بیان میں یوکرین کے بارے میں بات چیت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ روبیو اپنے دورے کے دوران روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ بھی ملاقات کر رہے ہیں۔ جس میں یوکرین میں جنگ کے خاتمے اور روس امریکا کے تعلقات کی بحالی پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ یوکرینی صدر نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب میں ہونے والی امریکا اور روسی حکام کی ملاقات میں شرکت نہیں کریں گے کیوں کہ انہیں بلایا نہیں گیا۔ ایف ایم لاوروف کا کہنا ہے کہ “ماسکو جنگ کے خاتمے کے لیے طے شدہ مذاکرات میں یوکرین کو علاقائی رعایتیں دینے پر غور نہیں کر رہا ہے”۔ خبر رساں ایجنسی ٹاس کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے روس اور  امریکا کے مذاکرات کے حوالے سے بتایا کہ “مذاکرات کا تہران کے ساتھ ماسکو کے تعاون پر کوئی اثر نہیں پڑے گا”۔ پیسکوف نے مزید کہا کہ “روس ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کے حل میں مدد کے لیے تیار ہے”۔ چین کی جانب سے روس اور امریکا کے درمیان ملاقات کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ کہا گیا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا چاہیے۔ یوکرینی صدر آج ترکی کے ہم منصب سے ملاقات کریں گے جس میں کیف اور ماسکو کے درمیان معاملات پر بات چیت ہوگی۔  

’پالیسیاں بند کمروں میں بنائی جا رہی ہیں‘ فضل الرحمان کا قومی اسمبلی میں خطاب

سربراہ جمیعت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ملکی سالمیت سے متعلق پالیسیاں ایوان کی بجائے بند کمروں میں بنائی جا رہی ہیں، ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی نہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے سربراہ جمیعت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ 2 صوبوں میں حکومت کی رٹ نہیں ہے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صورتِ حال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، ملک میں اس وقت کوئی سویلین اتھارٹی نہیں ہے۔ اسمبلی کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سیاست میں جنگ نظریات کی ہوتی ہے، نکتہ اعتراض پر بولنے کا موقع دینے کی روایت رہی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے ایوان کی ہنگامہ آرائی کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ مزید پڑھیں: بل پیش کیے بغیر اجلاس ملتوی نہیں ہو سکتا: سینٹ میں اپوزیشن سینیٹرز کا احتجاج مولانا فضل الرحمان نے اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت چاہے یا نہ چاہے، لیکن اسپیکر کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایوان کا ماحول بہتر رکھے۔ پورا ملک اس پریشانی اور اضطراب میں مبتلا ہے، ملک میں ادارے اور محکمے ملیا میٹ کیے جا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے اسمبلی کے اجلاس میں سوال کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں؟ کب ملک کے لیے سوچیں گے؟ میری باتوں کو جذباتی نہ سمجھا جائے۔ مظلوموں کی چیخ و پکار سننے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ آج صوبوں میں حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں۔ سربراہ جعمیت علمائے اسلام نے کہا ہے کہ ‘ہم نام نہاد عالمی دہشت گردی کے خلاف امریکا اور نیٹو کے اتحادی بن گئے ہیں، ملک کو مزید آزمائش کی طرف نہ دھکیلا جائے، ہر قدم جنگ کی طرف بڑھانے کی بجائے امن کی طرف بڑھایا جائے۔ غریب ممالک کو سیاسی اور دفاعی لحاظ سے غلام بنایا جا رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ملک کی معیشت کو بچایا، عالمی ادارے بھی اعتراف کر رہے ہیں:عطا تارڑ سربراہ جمیعت علمائے اسلام نے کہا کہ اپوزیشن اگر صحیح تجویز دے، تو حکومت کھلے دل کا مظاہرہ کرے۔ گزشتہ ایک سال سے دیکھ رہا ہوں کہ حکومت کی جانب سے ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ حکومت کوئی غلط فیصلہ کرتی ہے، تو ایوان میں ہی بات ہوتی ہے۔ ماورائے آئین پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں، ملکی سالمیت سے متعلق پالیسیاں بند کمروں میں بنائی جا رہی ہیں۔ عالمی ادارے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ کر ہمیں کنٹرول کر رہے ہیں۔

سعودی عرب وژن 2030 کے لیے پاکستانی افرادی قوت سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے: وزیر خزانہ

محمد اورنگزیب نے سعودی عرب میں ہونے والی العلا کانفرنس میں شرکت کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ سعودی عرب نئے پراجیکٹ وژن 2030 کے لیے پاکستانی ہنرمند افرادی قوت سے بھرپور استفادہ کر سکتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار سعودی شہر العلا میں ہونے والی دو روزہ اُبھرتی ہوئی مارکیٹ اکانومیز کانفرنس کے موقعے پر کیا جہاں وہ عالمی غیر یقینی صورت حال کے ماحول میں پائیدار اقتصادی ترقی پر ہونے والی گفتگو میں حصہ لے رہے ہیں۔ سعودی عرب ویژن 2030 کے تحت اپنی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کر رہا ہے۔ یہ ایک سٹریٹیجک ترقیاتی منصوبہ ہے جس کا مقصد تیل پر انحصار کم کرنا اور معیشت کو متنوع بنانا ہے۔یہ پروگرام صحت، تعلیم، بنیادی ڈھانچے، تفریح اور سیاحت جیسے عوامی خدمت کے شعبوں کی ترقی پر مرکوز ہے۔ عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہماری سوچ ہے کہ پاکستان کے پاس ہنر مند افرادی قوت کی برآمد کے حوالے سے بہت زیادہ مواقع موجود ہیں جو سعودی عرب کے وژن 2030 کو عملی شکل دینے کے لیے ضروری ہیں۔   محمد اورنگزیب نے کہا کہ دونوں ممالک کے پاس ایک ساتھ کام کرنے کے بے شمار مواقع ہیں، پاکستانی سعودی عرب میں تارکین وطن کی سب سے بڑی برادریوں میں سے ایک ہیں۔ وہاں 20 لاکھ سے زیادہ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ وزیرِ خزانہ نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حکومتی سطح پر جی ٹو جی کئی معاہدے زیرِ غور ہیں، العلا کانفرنس ابھرتی ہوئی معیشیتوں کے درمیان تعاون اور اقتصادی استحکام کے لیے اہم فورم ہے۔ مزید یہ کہ ‘ہم سعودی عرب کی حمایت اور آئی ایم ایف پروگرام میں تعاون پر شکر گزار ہیں۔’ سعودی عرب پاکستان کے لیے ترسیلات زر سب سے بڑا کا ذریعہ بھی ہے۔ اگرچہ سعودی عرب میں کام کرنے والی پاکستانی زیادہ تر محنت کش طبقہ ہے ۔ مزید برآں سعودی فنڈ فار ڈولپمنٹ (ایس ایف ڈی)  نے بھی پاکستانی حکومت کے ساتھ شراکت داری کی تجویز دی جس کے تحت پاکستانی نوجوانوں کے لیے تربیتی پروگرامز شروع کیے جائیں گے تاکہ انہیں جدید اور عملی مہارتیں فراہم کی جا سکیں، جو سعودی عرب کی مزدور مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کریں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے دفتر کے مطابق اس حوالے سے بات چیت رواں ماہ ہوئی۔العلا کانفرنس ایک سالانہ اقتصادی پالیسی کانفرنس ہے، جس کا اہتمام سعودی عرب کی وزارت خزانہ اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) کے ریاض میں علاقائی دفتر نے کیا ہے۔ پاکستانی وزارت خزانہ کے مطابق العلا کانفرنس کے کل نو سیشن ہوں گے جس میں 200 شرکا اور 36 مقررین شرکت کریں گے۔یہ فورم بدلتی ہوئی دنیا میں لچک پیدا کرنے کے طریقوں، اور اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ابھرتی ہوئی مارکیٹوں اور ترقی پذیر معیشتوں کے لیے درکار مناسب اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں پر تبادلہ خیال کرے گا۔ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہوگی جب دنیا گہرے اور مسلسل معاشی ناہمواریوں، بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان تجارتی تناؤ، جغرافیائی سیاست، اور سخت مالیاتی حالات سے دوچار ہے۔ سعودی عرب کے تاریخی شہر العلا میں ایمرجنگ مارکیٹس کانفرنس سے قبل پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور ان کے سعودی ہم منصب محمد بن عبداللہ الجدعان کے درمیان ملاقات میں معاشی تعاون کے فروغ اور باہمی خوش حالی کو آگے بڑھانے کے عزم پر زور دیا گیا ہے۔ پاکستان کی وزارت خزانہ کے مطابق دونوں ممالک کے وزرا خزانہ کے درمیان ملاقات میں دوطرفہ تجارت، سرمایہ کاری اور مالیاتی تعاون کو بڑھانے کے مواقع پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا جبکہ دونوں وزرائے خزانہ نے اپنے ممالک کی سٹریٹجک شراکت داری کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے عزم کا اظہار کیا۔ وزرا نے دونوں ممالک کے درمیان بنیادی شعبوں بشمول انفراسٹرکچر، توانائی، ٹیکنالوجی اور مالیات میں تعاون کے امکانات کا جائزہ بھی لیا۔ اس موقعے پر دونوں فریقین نے مسلسل مکالمے اور مشترکہ اقدامات کی اہمیت کو اُجاگر کیا تاکہ سرمایہ کاری اور معاشی مواقع کو فروغ دیا جا سکے جو نہ صرف دونوں ممالک بلکہ وسیع تر خطے کیلئے بھی فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

’حماس کو ختم کرنا ضروری ہے‘ امریکی وزیرخارجہ کا اسرائیلی سرزمین پر بیان 

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیواس وقت اسرائیل کے دورے پرہیں، انہوں نے وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی ہے۔  فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں روبیو کا کہنا تھا کہ ’حماس بطور فوجی یا حکومتی قوت برقرار نہیں رہ سکتی۔ انہیں ختم کرنا ہو گا۔‘  امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اپنے پہلے دورے پر اسرائیل آئے ہیں۔ مارکو روبیو ٹرمپ کے غزہ کے متعلق تجویز کے بعد مشرقِ وسطی کا دورہ کر رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی ہے۔ ٹرمپ نے سب سے پہلے یہ تجویز پیش کی کہ مصر اور اردن کو 25 جنوری تک غزہ سے فلسطینیوں کو لے جانا چاہیے۔ اس تجویز کی عالمی برادری نے سختی سے مخالفت کی۔ 4 فروری کو ایک چونکا دینے والے اعلان میں واشنگٹن میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد، ٹرمپ نے غزہ کے 2.2 ملین فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنے کی تجویز پیش کی ۔ 10 فروری کو، انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو ان کے منصوبے کے تحت غزہ واپسی کا حق حاصل نہیں ہوگا،۔ ٹرمپ نے اپنے عہدیداروں کی مخالفت کی جنہوں نے غزہ کے لوگوں کو صرف عارضی طور پر منتقل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ امریکی صدر کے تبصروں سے فلسطینیوں کے مستقل طور پر ان کے گھروں سے نکالے جانے کا خوف  سنائی دیتا ہے اور بعض ناقدین نے اسے نسلی امتیازکی تجویز قرار دیا تھا۔ غزہ پر امریکی اتحادی اسرائیل کا فوجی حملہ، جو اب ایک جنگ بندی کے بعد رک گیا ہے، گزشتہ 16 مہینوں میں 61,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کرچکا ہے۔ اس حملے نے غزہ کی تقریباً تمام آبادی کو اندرونی طور پر بے گھر کر دیا اور بھوک کا بحران پیدا کر دیا۔

راولپنڈی اور اسلام آباد میں زلزلے کے جھٹکے

راولپنڈی اور اسلام آباد میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، زلزلے کے جھٹکے 10 بج کر 48 منٹ پر محسوس کیے گئے۔ زلزلہ پیما سنٹر کے مطابق ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 4.8 محسوس کی گئی ہے۔ میٹ آفس کے مطابق زلزلے کی گہرائی 17 کلومیٹر محسوس کی گئی ہے، جب کہ زلزلے کا مرکز راولپنڈی سے جنوب مشرق میں 8 کلومیٹر تھا۔ مزید پڑھیں: سولر سائیکل کے ساتھ 50 کلومیٹر بغیر ایندھن کے سفر کریں۔ واضح رہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے علاوہ آزاد کشمیر، مری سمیت گردو نواح میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ زلزلے کے بعد لوگ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے۔

غزہ میں تین اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے 369 فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ

غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے تحت تین اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا جا رہا ہے اور خان یونس میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا ہے۔ خان یونس میں آئی سی آر سی کے حوالے کیے جانے والے قیدیوں میں الیگزینڈر ٹروفانوو، سگی ڈی کل-چین اور یائر ہورن شامل ہیں، جو اچھی جسمانی حالت میں نظر آئے۔  حماس کا کہنا ہے کہ وہ اگلے ہفتے اسرائیل کے ساتھ غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے غیر براہِ راست مذاکرات کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ رہائی ایک بڑے معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلہ کیا گیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات اور معاہدے کی باتیں جاری ہیں، جنہیں دونوں طرف کی حکومتیں اپنے اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تاہم، اس معاہدے میں کئی رکاوٹیں آئی ہیں، جن میں سب سے بڑی رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی ہے۔ اسرائیل نے امدادی سامان کی فراہمی کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے اور غزہ کی حالت بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود بین الاقوامی کوششوں کی بدولت، جیسے کہ مصر اور قطر کے توسط سے امداد کی فراہمی میں تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم، اسرائیل نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب تک قیدیوں کا مکمل تبادلہ نہیں ہوتا وہ غزہ میں تعمیر نو کے سامان کی فراہمی نہیں کرے گا۔ غزہ میں ابھی تک تعمیراتی سامان جیسے کہ موبائل گھر اور بھاری مشینری، مصر کی سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں جس سے امدادی کاموں میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ غزہ کے اندر صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔ جنگ کے نتیجے میں غزہ کی زمین ملبے میں بدل چکی ہے اور ہزاروں لوگ اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا مودی کو ایف 35، اربوں ڈالرز کا جنگی سازوسامان دینے کا اعلان فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں 48,239 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ 111,676 افراد زخمی ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں افراد ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور ان کی زندگی کا کوئی پتا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گازہ کے علاقے میں بارودی سرنگوں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر انتظام مائن ایکشن سروس (UNMAS) نے خبردار کیا ہے کہ جنگی ساز و سامان کی ایک بڑی تعداد ناکام ہو کر گازہ کی زمین پر پڑی ہوئی ہے جس سے زندگی کو مزید خطرات لاحق ہیں۔ اس وقت غزہ میں بے شمار ایسے ہتھیار پڑے ہیں جن کی وجہ سے انسانی زندگیوں کے لیے شدید خطرات موجود ہیں۔ اس دوران اسرائیل نے ایک اور حملہ کیا جس میں 15 سالہ انیس صقر النبہین کی موت واقع ہوئی۔ یہ حملہ بُریج کیمپ پر کیا گیا تھا جو ایک اور یاد دہانی ہے کہ جنگی معاہدے کی خلاف ورزیاں اب بھی جاری ہیں۔ آج کی اس صورتحال میں جب ایک طرف قیدیوں کی رہائی کا عمل جاری ہے، دوسری طرف جنگ کی حقیقتیں سامنے آ رہی ہیں کہ غزہ کی آزادی اور امن کا راستہ کتنی مشکلات سے گزر رہا ہے۔  اس معاہدے کا دوسرے مرحلے کا آغاز اگلے ہفتے متوقع ہے جس میں اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ غزہ کے لیے یہ لمحہ بہت مشکل ہے اور عالمی برادری کی نگاہیں اب اس بات پر ہیں کہ آیا یہ معاہدہ امن کے راستے کو ہموار کرے گا یا پھر اس کے بعد کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔ مزید پڑھیں: یوکرائنی صدر کا جنگ بندی مذاکرات سے قبل سیکیورٹی گارنٹی کا مطالبہ