انڈیا نے پانی روکا تو ہمارا جواب دنیا دیکھے گی، ڈی جی آئی ایس پی آر

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے عرب میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں واضح انداز میں کہا کہ انڈیا اگر پاکستان کا پانی روکنے کی جسارت کرتا ہے تو اس کے نتائج نہ صرف فوری طور پر بلکہ برسوں اور دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت پہلے ہی اس نازک معاملے پر انڈیا کو اپنا مؤقف پہنچا چکی ہے اس لیے افواج پاکستان کی جانب سے مزید وضاحت کی ضرورت نہیں رہی۔ ان کے مطابق کوئی بھی سمجھ دار شخص 24 کروڑ پاکستانیوں کے پانی کو روکنے کی سوچ نہیں رکھ سکتا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ “ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا وقت نہ آئے لیکن اگر آیا تو دنیا دیکھے گی کہ پاکستان کیا اقدامات کرتا ہے، کوئی پاکستان کا پانی روکنے کی جرات نہ کرے۔” لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے لیکن اگر مجبور کیا گیا تو دنیا پاکستان کا ردعمل دیکھے گی۔ لازمی پڑھیں: چین کی دعوت پر کل بیجنگ جا رہا ہوں، ہمارے وفود امریکہ سمیت مختلف ممالک کا دورہ کریں گے، اسحاق ڈار ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سیاسی قیادت کے فیصلوں کا مکمل احترام کرتا ہے اور افواج پاکستان ان کے عزم کے ساتھ کھڑی ہیں۔ جنگ بندی برقرار رکھنے کا عہد بھی فوجی قیادت کی جانب سے برقرار ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول پر فریقین کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کیے گئے ہیں تاہم اگر کسی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو پاکستان کا جواب فوری اور مؤثر ہوگا اور صرف ان مقامات کو نشانہ بنایا جائے گا جہاں سے خلاف ورزی کی جائے گی۔ انہوں نے انڈیا کے گرنے والے چھٹے جنگی طیارے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ میراج 2000 تھا اور پاکستان نے صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے واضع الفاظ میں کہا کہ پاکستان کے پاس طاقت اور صلاحیت تھی کہ مزید کارروائیاں کرے لیکن تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ تمام پاکستانی فضائی اڈے مکمل طور پر فعال ہیں اور پاک فضائیہ کے پاس ایسے وسائل موجود ہیں جو فوری ردعمل کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ آخر میں ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کی کشمیر سے متعلق پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ ظلم و جبر سے مسئلہ حل نہیں ہوگا جب تک بات چیت کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا اور خطے میں کشیدگی کے امکانات ہمیشہ موجود رہیں گے۔ مزید پڑھیں: نواز شریف پاکستان کو ایٹمی طاقت نہ بناتے، تو ہم دفاعی مقام حاصل نہ کر پاتے, اسپیکر قومی اسمبلی
سستا، کارآمد اور کثیرالمقاصد: جے ایف-17 تھنڈر عالمی منڈی میں اپنی جگہ کیسے بنا رہا ہے؟

یورپی اور امریکی اسلحہ ساز اداروں کے مقابلے میں پاکستان کا تیار کردہ جے ایف-17 تھنڈر لڑاکا طیارہ، پاکستان-انڈیا کشیدگی کے بعد سے ہی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ کیا آئندہ افریقہ، ایشیا یا قفقاز میں کوئی جنگ پاکستان کے بنائے گئے طیارے کے ساتھ لڑی جائے گی؟ یہ سوال اب محض قیاس آرائی نہیں رہا بلکہ ایک سنجیدہ تزویراتی امکان بن چکا ہے۔ نائجیریا، میانمار اور آذربائیجان جیسے ممالک پہلے ہی جے ایف-17 کو اپنے بیڑے میں شامل کر چکے ہیں، جب کہ بنگلہ دیش، مصر، ارجنٹائن اور بولیویا جیسے ممالک اس کی خریداری کے امکانات کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ 2016 میں نائجیریا نے تین جے ایف-17 طیاروں کا آرڈر دیا، جو مارچ 2021 میں 184.3 ملین ڈالر کے معاہدے کے تحت فراہم کیے گئے۔ ان طیاروں کو انسداد دہشت گردی کارروائیوں میں مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر ان کی کارکردگی توقعات پر پوری اتری تو نائجیریا مزید 40 طیاروں کا آرڈر بھی دے سکتا ہے۔ نجی آئی ٹی کمپنی ‘کوڈنگ فرسٹ’ کے سی ای او محمد سکندر حیات ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہےکہ جے ایف-17 کی عالمی مانگ پاکستان کے لیے دفاعی سفارت کاری کو مضبوط کرنے کا سنہری موقع ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خطے میں انڈیا یا دیگر حریف ممالک کے خدشات کو بڑھا کر کشیدگی میں اضافہ بھی کر سکتا ہے، اس لیے توازن اور احتیاط ضروری ہے۔ پاکستانی فضائیہ کے انسٹرکٹرز کے ساتھ نائجیریا کے پائلٹ اور ٹیکنیشنز کی مشترکہ تربیت اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ جے ایف-17 ایک کم لاگت، آسانی سے قابلِ استعمال اور مؤثر جنگی پلیٹ فارم ہے۔ میانمار نے جولائی 2015 میں 560 ملین ڈالر میں 16 جے ایف-17 بلاک-2 طیاروں کا آرڈر دیا۔ پہلا بیچ 2018 کے آخر میں میانمار پہنچا۔ اگرچہ حالیہ رپورٹس میں تکنیکی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے، تاہم میانمار اب بھی اس طیارے کی کم لاگت اور کثیر المقاصد صلاحیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ستمبر 2024 میں آذربائیجان نے 1.6 ارب ڈالر کے معاہدے کے تحت 14 جے ایف-17 بلاک-3 طیارے، تربیت اور سپورٹ سسٹمز کے ساتھ حاصل کیے۔ قفقاز کے اس متنازعہ خطے میں یہ معاہدہ جے ایف-17 کی تزویراتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: پاکستان یا پھر انڈیا، ففتھ جنریشن طیارہ پہلے کون لائے گا؟ جنوری 2025 میں بنگلہ دیش کا ایک اعلیٰ سطحی عسکری وفد اسلام آباد پہنچا۔ اطلاعات ہیں کہ بنگلہ دیش 32 جے ایف-17 طیارے خریدنے پر غور کر رہا ہے تاکہ اپنی فضائیہ کو جدید بنایا جا سکے۔ اس پیش رفت نے دہلی کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ بنگلہ دیش کا چین اور پاکستان کی طرف اسٹریٹیجک جھکاؤ ظاہر ہوتا ہے۔ سکندر حیات کا کہنا ہے کہ جے ایف-17 کی کامیابی بنیادی طور پر اس کی کم قیمت، آسان دیکھ بھال اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی پیشکش پر مبنی ہے، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے پرکشش ہے۔ تاہم، F-16، رافال اور گرِپن جیسے مغربی طیارے اب بھی ٹیکنالوجی، رینج اور سینسرز کے لحاظ سے برتری رکھتے ہیں۔ جے ایف-17 ایک متبادل ضرور ہے، مگر ابھی اسے مکمل طور پر مغربی طیاروں کا ہم پلہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس معاہدے میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور لوکل اسمبلنگ کی شقیں بھی شامل ہو سکتی ہیں، جو بنگلہ دیش کی دفاعی صنعت کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں گی۔ ارجنٹائن ایک عرصے سے اپنے پرانے میرَاج طیاروں کی جگہ نئے لڑاکا طیاروں کی تلاش میں ہے۔ جے ایف-17 بلاک-3، انڈین تیجس Mk-2 اور استعمال شدہ F-16s اس کی فہرست میں شامل تھے۔ بالآخر ارجنٹائن نے ڈنمارک سے F-16s حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، مگر جے ایف-17 اب بھی مستقبل کے اپ گریڈ پلانز میں ایک اہم امیدوار ہے۔ 2015 میں مصر کے عسکری وفود نے پاکستان کی جے ایف-17 پیداواری لائنوں کا دورہ کیا۔ قیمت کے اعتبار سے یہ طیارہ مصر کے لیے موزوں تھا، مگر بجٹ اور جیوپالیٹیکل وجوہات کی وجہ سے معاہدہ التواء کا شکار رہا۔ بولیویا بھی بلاک-3 طیاروں میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ اپنے پہاڑی اور جنگلاتی علاقوں کی فضائی نگرانی مؤثر انداز میں کر سکے۔ تاہم ابھی تک مذاکرات ابتدائی مراحل میں ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی درخواست پر بلاول بھٹو کا عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا اعلان عوامی حلقوں میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا بنگلہ دیش، ارجنٹائن یا بولیویا جیسے ممالک کے ساتھ جے ایف-17 کے معاہدے پاکستان کی دفاعی برآمدات میں پائیدار اضافہ لا سکتے ہیں؟ اس حوالے سے ایڈوکیٹ تقویم چانڈیو نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جی ہاں! اگر یہ معاہدے حتمی شکل اختیار کرتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے دفاعی برآمدات میں پائیدار اضافے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر بنگلہ دیش جیسے قریبی اور اہم ملک کے ساتھ معاہدہ نہ صرف مالی فوائد دے گا بلکہ پاکستان کی دفاعی صنعت کے لیے اعتماد کا اظہار بھی ہوگا۔ طویل مدتی پائیداری کا انحصار معیار، بعد از فروخت سروس اور جیوپولیٹیکل حالات پر ہوگا۔ پیرو نے بھی خطے میں سویڈن کے گرِپن طیاروں کی فروخت کے بعد جے ایف-17 کو ایک متبادل کے طور پر زیر غور لایا۔ عراق اور میکسیکو جیسے ممالک بھی غیر رسمی طور پر جے ایف-17 میں دلچسپی رکھتے ہیں، مگر امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے مسابقتی پیشکشیں صورتحال کو پیچیدہ بناتی ہیں۔ جہاں مغربی 4.5 جنریشن طیارے 80 سے 100 ملین ڈالر فی یونٹ کی لاگت رکھتے ہیں، وہیں جے ایف-17 کی قیمت 25 سے 30 ملین ڈالر کے درمیان ہے۔ اس کے کم ایندھن خرچ، سادہ الیکٹرانکس اور مقامی مرمت کے قابل ڈیزائن کی وجہ سے اس کے آپریشنل اخراجات 30 سے 40 فیصد کم ہیں۔ یہ طیارہ فضائی لڑائی، زمینی حملے، اینٹی شپ مشن، ریکانیسنس اور دیگر کئی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ بہت سے ممالک اسے ایک “jack-of-all-trades” پلیٹ فارم سمجھتے ہیں جو ان کی دفاعی ضروریات کو بآسانی پورا کر سکتا ہے۔ ضرور پڑھیں: انڈین ٹریول وی لاگر جیوتی ملہوترا پاکستان کے
پاکستان اسلام کی بنیاد پر بنا، کسی سیاستدان یا آرمی چیف کے لیے نہیں، حافظ نعیم الرحمان

امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر بنایا گیا تھا، نہ کہ کسی سیاستدان یا آرمی چیف کے نام پر بلکہ “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کے نظریے پر بنا تھا۔ جماعت اسلامی کی جانب سے “دفاعِ پاکستان و غزہ مارچ” ایبٹ آباد میں منعقد کیا گیا، امیر جماعتِ اسلامی کا مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انڈیا نے کشمیر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی،کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ “کل تک یہ کہا جاتا تھا کہ ٹینکوں میں ایندھن نہیں اور اگر حملہ کر دوں تو قوم منتشر ہے، مگر آج جب قیادت نے یکسوئی دکھائی تو پوری قوم متحد ہو گئی۔ دشمن کے 80 سے زائد ڈرون مار گرائے گئے اور وہ طیارے جو ناقابل شکست سمجھے جاتے تھے، زمیں بوس ہو چکے ہیں۔انڈیا کا گھمنڈ، جو برسوں سے چڑھتا جا رہا تھا، اب زمین پر آ گرا ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ حالیہ حالات میں ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ پاکستان کے مستقبل سے مایوسی پھیل رہی ہے اور جگہ جگہ ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے تھے، جیسے قوم میں بغاوت کے آثار نمودار ہو رہے ہوں۔لیکن اس پورے عمل نے جو انڈیا کی جارحیت کی صورت میں ہوا اور پاکستان کی فتح کی صورت میں منتج ہوا ہے، اس نے قوم کو پھر سے اکٹھا کر دیا ہے۔ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر بنایا گیا تھا، نہ کہ کسی سیاستدان یا آرمی چیف کے نام پر بلکہ “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کے نظریے پر بنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کسی خاص طبقے کی جاگیر نہیں، اس کی بنیاد اسلام ہے اور یہی ہماری ریڈ لائن ہے۔ جو شخص یا ادارہ ہمیں اسلام اور پاکستان کے نظریے سے جوڑے گا، ہم اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور جو اس سے ہٹائے گا، ہم اس کا ساتھ نہیں دیں گے۔” امیر جماعتِ اسلامی نے کہا کہ حساب بھی دینا ہے، میں اپنی حکومت اور افواج سے کہتا ہوں کہ قوم کے وقار کو کبھی بھی اپ پیچھے کی طرف نہ ہونے دیں۔ اب مذاکرات کا عمل شروع ہوا ہے لیکن مذاکرات سے پہلے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ثالسی کی پیشکش کون کر رہا ہے؟ ثالثی کی پیشکش امریکہ کر رہا ہے اور امریکہ کا کیا کردار ہے؟ حافظ نعیم الرحمان نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ نظام سے بے شک شکایات ہیں، حکمران طبقہ ظالم ہے، جاگیرداروں اور وڈیروں نے عوامی حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے، معیشت تباہ کی گئی ہے، لیکن اس سب کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم خود پاکستان سے بدظن ہو جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت یا کسی ادارے سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پاکستان سے شاکی ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خود پاکستان مطالبہ کر رہا ہے کہ اُسے اس کے اصل مقصد سے ہم آہنگ کیا جائے۔ امیر جماعتِ اسلامی نے کہا کہ ٹرمپ سے جھوٹی امید نہ رکھیں، کوئی سمجھتا ہے ہمیں قید سے رہا چھڑائے گا، کسی کو لگتا ہے جنگ بندی کروائے گا لیکن وہ کسی کا نہیں، اس کی تعمیر میں کروڑوں ریڈ انڈینز کا خون شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا سے کچھ لینا ہے تو خطے سے اتحاد بنانا ہو گا۔ چین، ترکی، روس اور ایران کے ساتھ افغانستان کو بھی ان بورڈ لے کر ثابت کرنا ہو گا، پھر سب ہماری زمین بھی دیں گے اور مانیں گے بھی۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ کشمیر ہمارا ہے، کشمیر کشمیریوں کا ہے، وہ دونوں مل کر یہ فیصلہ کریں گے، حق خود ارادیت اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں، وہ فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے، ایک نہیں سترہ قراردادیں ہیں۔ کشمیر پر سودے بازی کرنے یا کروانے والا چاہے ،ٹرمپ ہو یا کوئی اور ہمیں قبول نہیں ہے۔ امیر جماعتِ اسلامی کا کہنا تھا کہ “یہ ملک پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ بدترین حالات گزر چکے ہیں، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس تحریک کو دوبارہ زندہ کریں اور پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کی کوشش کریں۔” انہوں نے حالیہ پاکستان-انڈیا کشیدگی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا جو خود کو ناقابلِ شکست سمجھتا تھا، وہ پاکستان کے مؤثر دفاع، اتحاد اور ایمان کے سامنے پاش پاش ہو گیا، دشمن نے تکبر کیا، ہم نے تدبر سے جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ فرانس سے خریدے گئے رافیل طیارے گرے، روس سے لی گئی دفاعی ٹیکنالوجی تباہ ہوئی، اسرائیل سے لیے گئے ڈرون خاک میں ملے، جسے طاقتور سمجھا جاتا تھا، وہ پاکستان سے شکست کھا گیا۔” جماعت اسلامی کی جانب سے “دفاعِ پاکستان و غزہ مارچ” ایبٹ آباد میں جاری ہے۔ مارچ میں عوامی شرکت کو مدنظر رکھتے ہوئے خواتین کے لیے علیحدہ پنڈال قائم کیا گیا ہے، جبکہ میڈیا نمائندگان کے لیے بھی خصوصی جگہ مختص کی گئی ہے۔ مارچ کے دوران سیکیورٹی کے تمام انتظامات جماعت اسلامی کے رضاکاروں نے سنبھال لیے ہیں۔ مرکزی جلسے میں مردو خواتین، بچوں کی آمد جاری ہے۔ یہ بھی پڑھیں: صرف تین مہینوں میں فیملی عدالتوں کے کیسز میں ریکارڈ اضافہ، معاشرتی شعور یا بڑھتے مسائل؟ مارچ کا مقصد پاکستان کے دفاع، فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی اور غزہ میں جاری مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔
ایس-400 کی ناکامیاں: پاکستانی تجزیہ کاروں کی نظر میں اب یہ ناقابلِ شکست نہیں رہا

روس کا جدید فضائی دفاعی نظام ایس–400، جسے کئی برسوں سے ناقابل تسخیر سمجھا جا رہا تھا، حالیہ مہینوں میں دنیا بھر میں جنگی میدان میں ہونے والی پے در پے ناکامیوں کے بعد دفاعی حلقوں میں سخت تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔ پاکستان میں اس موضوع پر خصوصی دلچسپی پائی جا رہی ہے، جہاں دفاعی ماہرین اور تجزیہ کار اس نظام کی کارکردگی کو جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے فضائی منظرنامے کے تناظر میں جانچ رہے ہیں۔ ستمبر 2023 میں یوکرینی فورسز نے کریمیا کے شہر ییوپاتوریا میں ایک ایس-400 بیٹری کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ اس کارروائی میں نیپچون کروز میزائلوں کو خودکش ڈرونز کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا، جس کے بعد اس تباہی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ریئل ٹائم میں وائرل ہوئی۔ عسکری تجزیہ کاروں نے اس واقعے کو روسی فضائی دفاع میں منظم حربی ناکامی کا مظہر قرار دیا، کیونکہ ایس-400 جیسے حساس نظام نے کم دِکھائی دینے والے، سطحِ سمندر کے قریب پرواز کرنے والے اہداف کو مؤثر طریقے سے ٹریک کرنے میں ناکامی ظاہر کی۔ اسی طرز کی ایک اور کارروائی اولینیوکا کے قریب بھی ہوئی، جس نے ایس-400 کی دفاعی کوآرڈینیشن پر مزید سوالات اٹھا دیے۔ مزید پڑھیں: مودی کی پاکستانی دریاؤں سے ’پانی چوری‘ میں تیزی، سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کیسے کی جارہی ہے؟ دفاعی رپورٹس کے مطابق 2023 کے آغاز سے اب تک روس تقریباً 15 ایس -400 لانچرز سے محروم ہو چکا ہے، جن میں سے متعدد کی ناکامی کا تعلق ریڈار سسٹمز کی خاموشی، ناقص میزائل فائرنگ اور مرمت میں تاخیر سے جوڑا گیا ہے۔ ماہر عالمی امور داکٹرشہزاد فرید نے اس حوالے سے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایس-400 کا اصل مسئلہ اس کا ‘اسٹینڈ الون’ نیچر ہے یعنی یہ جدید نیٹ ورک سینٹرڈ وارفیئر کے لیے مکمل طور پر انٹیگریٹڈ نہیں۔ یوکرین جیسے ممالک نے کم لاگت والے ڈرونز اور کروز میزائلوں کے ذریعے اس کے بائی پاس سسٹمز کو نشانہ بنا کر اس کی کمزوریاں عیاں کیں۔ گزشتہ دنوں میں پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث اس وقت شروع ہوئی، جب ایک وائرل ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کے جے ایف- 17 تھنڈر لڑاکا طیارے سے فائر کیے گئے ایک ہائپر سونک میزائل نے انڈیا کے آدم پور ایئر بیس پر موجود ایس-400 یونٹ کو نشانہ بنایا۔ اس ویڈیو کو پاکستانی دعوؤں کو انڈیا نے مسترد کیا ہے ، مگر اس نے پاکستانی دفاعی حلقوں کو مزید متحرک کر دیا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر بھی تصدیق ہو چکی ہے کہ جے ایف -17 بلاک 3 نے لانگ رینج اسٹینڈ آف میزائلز یا ہائپرسونک ہتھیار استعمال کر کے ایس -400 کو تباہ کیا ہے۔ تکنیکی طور پر یہ ممکن ہے کہ اس نے S-400 کی رینج کو چکمہ دے کر کامیاب حملہ کیا ہے۔ لازمی پڑھیں: اسلام آباد میں یوم تشکر کی خصوصی تقریب: ’اگر ہم مستقل امن چاہتے ہیں تو مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا‘ کراچی سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل اور دفاعی تجزیہ کار فہیم قریشی کے مطابق ایس – 400کی حالیہ ناکامیاں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ جدید جنگی حکمتِ عملیوں کے سامنے یہ نظام مکمل طور پر مؤثر ثابت نہیں ہو رہا۔ یہ سسٹم پرانے ریڈارز اور ناقص نیٹ ورک انضمام پر انحصار کرتا ہے، جس سے ریئل ٹائم ڈیٹا فیوژن ممکن نہیں ہو پاتی، یہی خامیاں یوکرین نے بارہا استعمال کیں۔ پاکستان کا موجودہ فضائی دفاعی نظام چینی ایچ کیو -9 اور ایچ کیو – 16 میزائل بیٹریز پر مشتمل ہے، جنہیں ابتدائی انتباہی طیارے اور الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز کی مدد حاصل ہے۔ دفاعی حکمتِ عملی کے تحت یہ ایک لیئرڈ ڈیفنس ماڈل ہے، جو بیک وقت مختلف سطحوں پر فضائی خطرات سے نمٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد فرید نے کہا کہ ایچ کیو-9 اور ایچ کیو-16 پاکستان کے فضائی دفاع میں ایک مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں، مگر اگلی نسل کے ہتھیاروں جیسے ہائپرسونک میزائلز اور لو آوبزرویبل ڈرونز کے مقابلے کے لیے ان میں اے آئی بیسڈ اپڈیٹس اور ڈیپ نیٹورک انٹیگریشن ضروری ہے۔ ماہرین نے ایس – 400 کی ناکامی کی تین اہم وجوہات کی نشاندہی کی ہے۔ پہلی کمزور نیٹ ورک انضمام ہے، جس سے کم ریڈار کراس سیکشن رکھنے والے اہداف آسانی سے گزر جاتے ہیں، دوسری وجہ عملے اور لاجسٹک کی خامیاں ہیں، جو نظام کی بروقت کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں اور تیسری جدید جنگی حکمتِ عملیوں جیسے ڈرون سوارمز اور کروز میزائلز کا بڑھتا ہوا استعمال ہے، جس سے دفاعی نظام اوورلوڈ ہو جاتا ہے۔ پاکستانی دفاعی قیادت اب اس سوال پر غور کر رہی ہے کہ آیا مستقبل میں چین کے جدید جے-35 اسٹیلتھ لڑاکا طیارے اور ایچ کیو – 19 انٹرسیپٹرز اس خلا کو پر کرنے کے قابل ہوں گے یا پاکستان کو مزید جدید کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز، مصنوعی ذہانت اوردیگر نیٹ ورک پر انحصار بڑھانا ہوگا۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان یا پھر انڈیا، ففتھ جنریشن طیارہ پہلے کون لائے گا؟ ڈاکٹر شہزاد فرید نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ مستقبل کا فضائی دفاع مکمل طور پر اے آئی پر مبنی ریئل ٹائم ڈیٹا فیوژن اور نیٹ ورک سینٹرڈ ماڈل پر منتقل ہو رہا ہے۔ جو ممالک اس میں پیچھے رہیں گے وہ صرف مہنگے ہتھیار رکھ کر بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ سکتے۔ موجودہ دور میں اب روایتی ہتھیاروں پر انحصار کافی نہیں رہا،بدلتے ہوئے جنگی منظرنامے میں کامیابی کا انحصار ٹیکنالوجی، ہم آہنگی اور فوری فیصلہ سازی پر مبنی نظاموں پر ہے اور یہی عناصر آنے والے برسوں میں خطے کی فضائی برتری کا تعین کریں گے۔
شہبازشریف کا سی ایم ایچ کا دورہ: ‘عوام، افواج پاکستان جیسی ثابت قدمی کی مثال کہیں نہیں ملتی’

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، نشانِ امتیاز (ملٹری) کے ہمراہ کمبائنڈ ملٹری اسپتال (سی ایم ایچ) راولپنڈی کا دورہ کیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے آپریشن ‘معرکۂ حق’ اور ‘بنیان مرصوص’ کے دوران زخمی ہونے والے افواج پاکستان کے جوانوں اور شہریوں کی عیادت کی اور ان کی خیریت دریافت کی۔ وزیر اعظم نے زخمی جوانوں کے عزم، شجاعت اور فرض شناسی کو خوب سراہتے ہوئے کہا کہ “جس طرح افواج پاکستان اور پوری قوم نے یہ جنگ لڑی، اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔” یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی سرزمین یا سالمیت پر حملہ ہوا تو جواب بے رحم ہو گا، ڈی جی آئی ایس پی آر وزیر اعظم نے معرکۂ حق کو قوم کی ثابت قدمی، اتحاد اور قربانیوں کا مظہر قرار دیا اور کہا کہ عوام کی جرات و استقامت ملک کی عسکری تاریخ کا ایک فیصلہ کن باب بن چکی ہے۔ دورے کے دوران وزیر اعظم اور آرمی چیف نے زخمیوں سے فرداً فرداً ملاقات کی اور ان کی جلد صحتیابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ مزید پڑھیں: ایف بی آر کی تجاویز مسترد، آئی ایم ایف نے پاکستانی حکومت کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردیں واضح رہے کہ آج ملک بھر میں انڈین جارحیت کے خلاف فتح حاصل کرنے پر یومِ تشکر منایا جارہا ہے۔
ایف بی آر کی تجاویز مسترد، آئی ایم ایف نے پاکستانی حکومت کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردیں

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے تنخواہ دار طبقے کو بڑے پیمانے پر ٹیکس میں ریلیف فراہم کرنے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ اس قسم کا ریلیف ٹیکس محصولات میں خاطر خواہ کمی کا باعث بنے گا، جس سے مالیاتی نظم و ضبط متاثر ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مقامی سطح پر دیے جانے والے دلائل، جیسے کہ “زیادہ ٹیکس شرح سے محصولات میں کمی واقع ہوتی ہے” کو نظرانداز کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی تجویز کردہ پالیسیوں اور سفارشات پر عملدرآمد کو ترجیح دے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ آئندہ بجٹ میں نئے ٹیکس اقدامات نافذ کرے اور نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ پر دوبارہ غور کرے۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کے دلائل مسترد کرتے ہوئے پاکستان کو ماہرین کی سفارشات پر عمل کرنے کا مشورہ دیا ہے جس سے تنخواہ دار طبقے یا رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو کسی ریلیف کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ مزید پڑھیں: احتجاجی مظاہروں اور عید تعطیلات کے باعث آٹو سیلز متاثر، گاڑیوں کی فروخت میں 5 فیصد کمی یار رہے کہ اس سے قبل حکومت پاکستان نے آئندہ بجٹ کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مجوزہ ٹیکسیشن اقدامات کے اہم نکات پیش کیے تھے۔ ان نکات میں مختلف انکم سلیب پر تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح کو 10 فیصد تک کم کرنا شامل تھا۔ اگر آئی ایم ایف اس کمی پر اتفاق کرتا تو آئندہ بجٹ میں ان افراد کو 50 ارب روپے تک کا ریلیف مل سکتا تھا۔ آئندہ بجٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے آئی ایم ایف اور پاکستانی ٹیم کے درمیان 14 مئی سے 22 مئی تک مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مزید پڑھیں: پاکستان کی سرزمین یا سالمیت پر حملہ ہوا تو جواب بے رحم ہو گا، ڈی جی آئی ایس پی آر
’امریکی پالیسی کا مرکزی نکتہ‘، ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیجی ممالک کے ساتھ کون سے معاہدے کیے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج جمعرات کو قطر میں امریکی فوجیوں سے خطاب کے بعد اپنا مختصر دورہ مکمل کر کے متحدہ عرب امارات روانہ ہو گئے۔ اس دورے کے دوران امریکی اور خلیجی ممالک کے درمیان کئی اہم تجارتی اور تکنیکی معاہدے طے پائے۔ خاص طور پر متحدہ عرب امارات کو امید ہے کہ امریکا کی مدد سے وہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں عالمی سطح پر قائد بن سکے گا۔ رپورٹس کے مطابق، متحدہ عرب امارات نے ایک ابتدائی معاہدہ کیا ہے جو اسے امریکی کمپنی این ویڈیا کی جانب سے 500,000 جدید ترین AI چپس درآمد کررہا ہے۔ یہ عمل اس سال کے آخر سے شروع ہوگا۔ ان چپس کے حصول سے ملک میں جدید ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر کو فروغ ملے گا جو کہ AI ماڈلز کی تربیت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم، امریکی ذرائع کے مطابق، اس معاہدے نے امریکا میں قومی سلامتی سے متعلق اداروں کو فکرمند کر دیا ہے، اور معاہدے کی شرائط میں تبدیلی کا امکان بھی موجود ہے۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ ٹرمپ کے چار روزہ خلیجی دورے میں کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے، جن میں قطر ایئرویز کے لیے 210 بوئنگ طیاروں کی خریداری، سعودی عرب کی طرف سے امریکا میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور 142 ارب ڈالر کے امریکی ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدے شامل ہیں۔ سفارتی سطح پر بھی اس دورے نے غیر معمولی سرگرمی پیدا کی۔ ٹرمپ نے شام پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا اور شام کے عبوری صدر احمد الشارع سے ملاقات کی۔ یہ اقدام مشرق وسطیٰ کی سفارتی صورتحال میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جمعرات کو ٹرمپ نے قطر کے جنوب مغرب میں واقع العدید ایئر بیس پر امریکی فوجیوں سے خطاب کیا۔ یہ بیس مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کی سب سے بڑی تنصیب ہے۔ اس کے بعد وہ ابوظہبی روانہ ہوئے جہاں انہوں نے متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان اور دیگر اعلیٰ رہنماؤں سے ملاقات ہوگی۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہونے والے AI چپ معاہدوں کی وجہ سے اس دورے کے آخری حصے میں مصنوعی ذہانت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے AI چپس کی برآمدات پر سخت پابندیاں عائد کی تھیں تاکہ یہ حساس ٹیکنالوجی چین جیسے ممالک تک نہ پہنچے، جو امریکہ کے سٹریٹجک خدشات میں شامل رہا ہے۔ ٹرمپ نے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو اپنی پالیسی کا مرکزی نکتہ قرار دیا ہے۔ اگر متحدہ عرب امارات میں مجوزہ چپ معاہدے مکمل ہو جاتے ہیں تو یہ خطہ امریکا اور چین کے بعد AI کے میدان میں تیسرا بڑا مرکز بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ واشنگٹن واپسی سے پہلے ٹرمپ نے ترکی کے مختصر دورے کا بھی امکان ظاہر کیا تھا تاکہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری مذاکرات میں شریک ہو سکیں، تاہم امریکی حکام نے تصدیق کی ہے کہ وہ وہاں نہیں جائیں گے۔
وزیراعظم، آرمی چیف کا پسرورکینٹ کا دورہ: ’پاک فوج نے دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملادیے‘

وزیر اعظم شہباز شریف نے بدھ کے روز پسرور کنٹونمنٹ سیالکوٹ کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے ’معرکۂ حق‘ کے تحت جاری ’آپریشن بنیان مرصوص‘ میں حصہ لینے والے افسروں اور جوانوں کی غیرمعمولی بہادری، پیشہ ورانہ مہارت اور قومی دفاع میں کلیدی کردار پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس موقع پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو اور وفاقی کابینہ کے اہم وزراء بشمول نائب وزیرِاعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ بھی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔ دورے کے دوران وزیر اعظم کو معرکہ حق، حالیہ آپریشنز اور افواج کی تیاریوں کے حوالے سے مفصل بریفنگ دی گئی۔ وزیر اعظم نے مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیت، بروقت کارروائی اور مادرِ وطن کے دفاع میں بھرپور کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ”پاکستان کی بہادر مسلح افواج نے دشمن کی بلااشتعال جارحیت کا بے مثال پیشہ ورانہ صلاحیت سے جواب دیا، تاریخ گواہ ہے کہ چند ہی گھنٹوں میں افواج پاکستان نے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔” مزید پڑھیں: نریندر مودی کا بیان خطرناک، عالمی قوانین کی کھلی توہین ہے، پاکستان وزیر اعظم نے فرنٹ لائن پر موجود افسروں اور جوانوں سے ملاقات کی، ان کے حوصلے، تیاری اور عزم کی تعریف کی اور کہا کہ قوم کو اپنے ان سپوتوں پر فخر ہے جو مادرِ وطن کے دفاع میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ”معصوم شہریوں پر حملے کھلی جارحیت ہیں، جن میں بچوں، خواتین اور بزرگوں کی شہادتیں ہوئیں۔ ایسے اقدامات کو دہشت گردی قرار دینا نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ تمام بین الاقوامی قوانین اور اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے۔” وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے معاملے کی غیرجانب دارانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی، جسے انڈیا نے نظرانداز کر کے جھوٹ، تکبر اور جارحیت کا راستہ اختیار کیا اور اس کا اسے فیصلہ کن جواب دیا گیا۔
ٹرمپ کا نیا کھیل: مشرقِ وسطیٰ میں کھربوں کی سرمایہ کاری، ایران پر دباؤ اور اسرائیل کے لیے نئی راہیں؟

ریاض سے دوحہ اور دوحہ سے ابوظہبی تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ چار روزہ دورہ ایک روایتی سفارتی مہم نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے بیچ ایک شطرنج کی بازی ہے۔ جہاں ایک طرف کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے، جدید ترین ہتھیاروں کے سودے اور ایران و غزہ پر دباؤ کی نئی حکمت عملی دیکھنے میں آرہی ہے۔ تو وہیں دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اثرورسوخ کو ازسرِنو ترتیب دینے کی سنجیدہ کوشش بھی کی جارہی ہے۔ ریاض میں منعقدہ سعودی-امریکی سرمایہ کاری فورم میں ٹرمپ نے اعلان کیا کہ سعودی عرب اگلے چار برسوں میں امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جس میں توانائی، دفاع، ٹیکنالوجی، معدنیات اور انفراسٹرکچر کے شعبے شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات نے 1.4 ٹریلین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ ادھر قطر نے خفیہ طور پر امریکی منصوبوں میں شمولیت کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ عالمی امور کے پروفیسر ڈاکٹر آصف بخاری نے ‘پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “یہ سرمایہ کاری خالص اقتصادی نہیں بلکہ گلوبل الائنسز کی ری شیپنگ ہے۔ چین کے بڑھتے اثرات کے خلاف امریکہ نے سرمایہ کاری کے نام پر ایک تزویراتی جال بچھایا ہے جس میں خلیجی ریاستیں بھی سیاسی فائدہ دیکھ رہی ہیں۔” ٹرمپ کے اس دورے میں دفاعی معاہدے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں جن کی مالیت 142 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے۔ رپورٹس کے مطابق ان معاہدوں میں جدید F-35 طیارے، ایئر ٹو ایئر میزائل اور دیگر جدید ٹیکنالوجی شامل ہے جو خطے میں امریکہ کی اسلحہ سپلائی میں سبقت کو مزید مستحکم کرے گی۔ ڈاکٹر آصف بخاری نے اس بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ “امریکہ خطے کو ایک منافع بخش اسلحہ منڈی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ لیکن اصل مقصد صرف مالی مفاد نہیں بلکہ خطے میں ایران کے خلاف فوجی توازن کو امریکی مرضی سے کنٹرول کرنا بھی ہے۔” ٹرمپ نے سعودی وژن 2030 کی تعریف کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے اقدامات کرے۔ یہ اقدام ابراہام معاہدوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات بحال کرنا سعودی عرب کے لیے سیاسی و مذہبی سطح پر انتہائی نازک مسئلہ ہے۔ ماہر عالمی امور پروفیسر ڈاکٹر عرفان علی پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “امریکہ کے ساتھ بڑھتے تعلقات سعودی عرب کے لیے تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف بھی ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ دفاعی و تکنیکی شراکت داری چاہتا ہے ایسا کرنے سے ایران، چین اور روس جیسے علاقائی و عالمی کھلاڑی اس سے ناراض ہو سکتے ہیں۔ امریکہ سے قربت سعودی وژن 2030 کے لیے تو مفید ہے لیکن اس کی سیاسی قیمت خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے بدلتے توازن میں بہت حساس ہو سکتی ہے۔” عمان میں امریکی اہلکاروں نے ایرانی نمائندوں سے خفیہ مذاکرات کیے تاکہ جوہری معاہدے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ٹرمپ نے بھی واضح کیا کہ “فوجی آپشن” بھی میز پر موجود ہے۔ دوسری جانب قطر میں انہوں نے غزہ سے ایک امریکی یرغمالی کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے خلیجی ممالک سے حماس پر سخت اقدامات کا مطالبہ بھی کیا۔ ٹرمپ کے ہمراہ ایلون مسک (ٹیسلا) اور سیم آلٹمین (اوپن اے آئی) کی موجودگی نے اس دورے کو صرف سفارتی نہیں بلکہ “ٹیک ڈپلومیسی” کا رنگ دے دیا۔ ماہرین کے مطابق یہ امریکہ کی اس نئی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس میں تیل سے ہٹ کر مستقبل کی ٹیکنالوجی میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر عرفان کا اس بارے کہنا ہے کہ “اسپیس ٹیک اور ڈیجیٹل انرجی جیسے شعبوں میں دنیا کی قیادت حاصل کرنے کے لیے امریکی سیاسی قیادت ٹیکنالوجی لیڈرز کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں میں ہے تاکہ فیصلہ سازی براہِ راست ماہرین کے زیرِاثر ہو۔” پاکستان میں بھی اس دورے پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے خاص طور پر اس پس منظر میں کہ امریکہ نے حالیہ برسوں میں پاکستان کو نسبتاً نظرانداز کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کے اس دورے سے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا نیا توازن قائم ہو سکتا ہے جس میں پاکستان کو محتاط اور متوازن سفارتکاری کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عرفان علی کے مطابق “اگر سعودی عرب امریکی دباؤ میں اسرائیل کے قریب ہوا تو پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی خاص طور پر ایران اور عرب دنیا کے درمیان تعلقات میں غیرجانب داری برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔” ان کا مزید کہنا ہے کہ “ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب خطے میں امریکی اثرورسوخ کو نئی جِہت دے سکتا ہے جس کے اثرات پاکستان کی علاقائی حکمتِ عملی پر بھی پڑیں گے۔ پاکستان کو اس دورے کے بعد ایران، سعودی عرب اور چین کے ساتھ توازن قائم رکھنے کے لیے انتہائی محتاط سفارت کاری کی ضرورت ہوگی۔” ٹرمپ کا خلیجی دورہ وقتی سیاسی مہم نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان اثر و رسوخ کی نئی جنگ کا حصہ ہے۔ اگرچہ سرمایہ کاری، دفاعی معاہدے اور سفارتی مکالمہ فوری فوائد لاتے دکھائی دیتے ہیں مگر اس کے طویل مدتی اثرات خلیجی ممالک، ایران، اور حتیٰ کہ جنوبی ایشیا تک محسوس کیے جائیں گے۔
’جب دشمن لڑتے ہیں تو عقلمند سنتے ہیں‘ پاکستان انڈیا کشیدگی سے چین کیسے مستفید ہو سکتا ہے؟

جب دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہوں، میدانِ جنگ میں جدید ہتھیار، جنگی طیارے اور میزائل استعمال ہو رہے ہوں تو دنیا کی آنکھیں صرف ایک لمحے کے لیے نہیں، بلکہ طویل عرصے تک اس منظر کو یاد رکھتی ہیں۔ حالیہ پاکستان-انڈیا کشیدگی نے نہ صرف خطے میں جنگ کے خطرات کو بڑھایا ہے بلکہ ایک خاموش طاقت چین کوبھی ایک نادر موقع فراہم کیا ہے۔ یہ موقع محض سفارتی نہیں بلکہ خفیہ معلومات اور جدید جنگی تجربات سے فائدہ اٹھانے کا ہے۔ سنگاپور کے سیکیورٹی تجزیہ کار الیگزینڈر نیل نے عالمی خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ چین کے لیے یہ ایک نایاب اور قیمتی موقع ہے، جب اس کے سرحدی علاقوں کے قریب ایک ممکنہ دشمن اپنی عسکری صلاحیتوں کو کھول کر پیش کر رہا ہے۔ چین اب اس پوزیشن میں ہے کہ وہ انڈیا کی نقل و حرکت کو براہِ راست، زمین، سمندر اور خلا سے مانیٹر کر سکے۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ لندن کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز (IISS) کے مطابق چین کے پاس 267 سیٹلائٹس ہیں، جن میں سے 115 انٹیلیجنس، سرویلنس اور ریکونیسینس (ISR) کے لیے وقف ہیں، جب کہ 81 سیگنلز اور الیکٹرانک انٹیلیجنس پر مامور ہیں۔ یہ نیٹ ورک خطے میں انڈیا سمیت کسی بھی ملک سے کئی گنا طاقتور ہے۔ حالیہ جھڑپوں میں پاکستانی فضائیہ نے چینی ساختہ J-10 طیارے استعمال کیے، جن کے بارے میں دو امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے انڈین ایئرفورس کے دو طیارے مار گرائے، جن میں ایک فرانسیسی ساختہ رافال بھی شامل ہے۔ انڈیا نے اب تک اپنے کسی بھی طیارے کی تباہی کی تصدیق نہیں کی، لیکن پاکستان کے وزرائے دفاع و خارجہ J-10 کے استعمال کی تصدیق کر چکے ہیں۔ یہ صورتحال چین کے لیے ایک قیمتی ‘لائیو ایکسرسائز’ کی مانند ہے، جس میں وہ اپنے ہتھیاروں، میزائلز اور پائلٹس کی کارکردگی کو عملی میدان میں دیکھ سکتا ہے، اس کے ساتھ ہی چین انڈین فضائیہ، اس کے دفاعی نظام اور جنگی حکمت عملیوں کا بھی تجزیہ کر سکتا ہے، جو کہ آئندہ کسی ممکنہ چینی-انڈین تصادم میں انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ چینی انٹیلیجنس کے لیے سب سے زیادہ قیمتی معلومات وہ ہوں گی جو انڈیا کے ایئر ڈیفنس سسٹمز، کروز اور بیلسٹک میزائلز کے استعمال اور ان کے کنٹرول سسٹمز سے حاصل ہوں، خاص طور پر انڈین برہموس کروز میزائل، جو روس کے ساتھ مل کر تیار کیا گیا ہے، اگر استعمال ہوتا ہے، تو چین کے لیے ایک بڑا انٹیلیجنس ہدف ہو گا۔ واضح رہے کہ یہ معلومات نہ صرف میزائل کی رینج اور اسپیڈ بلکہ کنٹرول، لاک آن سسٹم اور لانچ پیٹرن تک کو ظاہر کر سکتی ہیں۔ ان معلومات کو چین اپنی دفاعی و تکنیکی ترقی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ چین نے حالیہ برسوں میں انڈین سمندر میں اپنی سرگرمیاں بڑھائی ہیں۔ امریکی پینٹاگون کی رپورٹس اور اوپن سورس ٹریکرز کے مطابق چین نے اپنے اوشیانوگرافک ریسرچ جہازوں، فشنگ بیڑوں اور اسپیس ٹریکنگ ویسلس کو طویل مشنز پر تعینات کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نام نہاد ‘سویلین’ بیڑے اکثر انٹیلیجنس اکٹھا کرنے کا کام کرتے ہیں۔ یکم مئی کو ایکس پر پوسٹ کرنے والے اوپن سورس ٹریکر ڈیمیئن سائمن نے انکشاف کیا کہ 224 چینی فشنگ ویسلز انڈین نیول مشقوں کے قریب، تقریباً 120 ناٹیکل میل دور، منظم انداز میں موجود تھیں، جو ایک منظم ملٹری ملیشیا کا تاثر دیتی ہیں۔ یہ جہاز بحری مشقوں کی نقل و حرکت، ردعمل کی رفتار اور جنگی تیاریوں کو مانیٹر کر کے بیجنگ کو بروقت انٹیلیجنس فراہم کرتے ہیں، جو کہ خطے میں چین کی عسکری موجودگی کو خاموش مگر مؤثر انداز میں بڑھاتا ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کو ہمیشہ ‘ہر موسم کی اسٹریٹیجک پارٹنرشپ’ قرار دیا جاتا ہے۔ موجودہ کشیدگی میں، چین کی موجودگی اور شراکت داری پاکستان میں نہ صرف فوجی ہتھیاروں کی ترسیل تک محدود ہے، بلکہ چینی عسکری مشیر اور تکنیکی ماہرین بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ سنگاپور کے اسکالر جیمز چار کے مطابق “چین کے عسکری اہلکاروں کی پاکستان میں موجودگی کوئی راز نہیں اور حالیہ کارروائیوں میں اکٹھا ہونے والی معلومات یقیناً PLA (چینی فوج) کے ہاتھ لگ رہی ہوں گی۔” چین نہ صرف پاکستان-انڈیا کشیدگی کا بغور مشاہدہ کر رہا ہے، بلکہ اپنے تجزیاتی مراکز اور انٹیلیجنس نیٹ ورکس کے ذریعے عالمی سطح پر انڈین کمزوریوں کو اجاگر بھی کر رہا ہے۔ امریکی اثر و رسوخ کے کم ہوتے ماحول میں چین خود کو جنوبی ایشیا میں طاقتور اور قابلِ اعتماد کھلاڑی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ انڈیا کے ساتھ اس کا سرحدی تنازع 1962 کی جنگ سے لے کر 2020 کے گلوان تصادم تک مسلسل کشیدگی کا شکار ہے، چین کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے اسٹریٹیجک حریف کی چالوں کو قریب سے جانچ سکے اور جب وقت آئے تو ان کا توڑ کر سکے۔ جب پاکستان اور انڈیا جنگی بیانات، فوجی نقل و حرکت اور دفاعی تیاریوں میں مصروف ہیں، چین ایک سادہ مگر خطرناک کھیل کھیل رہا ہے، جوکہ خاموشی سے سیکھنا، معلومات اکٹھی کرنا اور مستقبل کی حکمت عملی ترتیب دینا ہے۔ خیال رہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب دنیا صرف سرخیوں پر نظر رکھ رہی ہے، مگر اصل جنگ تو خلا میں، ڈیجیٹل نیٹ ورکس میں اور سیٹلائٹ ویوز میں لڑی جا رہی ہے اور اس جنگ کا سب سے بڑا فاتح، شاید وہ ہو گا جو خاموش ہے، لیکن سب دیکھ رہا ہے۔