تیل کی قیمتوں میں کمی، پیٹرول کتنا سستا ہوا؟

وفاقی حکومت نے آئندہ 15 روز کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کر دیا ہے، پیٹرول کی قیمت میں 50 پیسے فی لیٹر کمی کی گئی ہے، جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 255 روپے 63 پیسے فی لیٹر پر پہنچ گئی ہے۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 5 روپے 31 پیسے کی کمی کی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے جاری کردہ نوٹیکفیکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 50 پیسے فی لیٹر کمی اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 4 روپے فی لیٹر کمی کی گئی ہے، جس کے بعد ہائی اسپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 258 روپے 64 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 2 روپے 47 پیسے فی لیٹر کمی کی گئی ہے، جس کے بعد لائٹ ڈیزل آئل کی نئی قیمت 153 روپے 34 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ مزید پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی، وزارتِ خزانہ کا نوٹیفیکیشن جاری مٹی کے تیل کی قیمت میں 3 روپے 53 پیسے فی لیٹر کمی کر دی گئی ہے، جس کے بعد مٹی کے تیل کی نئی قیمت 168 روپے 12 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات نے مارچ 2025 کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اعلان کر دیا۔ متحدہ عرب امارات کی فیول کمیٹی نے مارچ 2025 کے مہینے کے لیے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد سپر 98 پیٹرول کی قیمت 2.73 درہم فی لیٹر ہوگی جو فروری میں 2.74 درہم فی لیٹر تھی۔ اسپیشل 95 کی قیمت 2.61 فی لیٹر ہو گی جو پچھلے مہینے 2.63 درہم فی لیٹر تھی۔ ای پلس زمرے کا پٹرول 2.54 درہم فی لیٹر میں دستیاب ہوگا جو فروری میں 2.55 درہم فی لیٹر تھا۔ یہ بھی پڑھیں: قرضوں کے بوجھ تلے دبی بے حال معیشت، متبادل کیا ہے؟ مزید یہ کہ ڈیزل کی قیمت اب 2.77 درہم فی لیٹر ہوگی جو پچھلے مہینے 2.82 درہم فی لیٹر تھی۔ یاد رہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق آج رات 12 بجے سے ہوگا۔
نماز جمعہ کے دوران جامعہ حقانیہ میں خودکش دھماکا، مولانا عبدالحق سمیت چھ نمازی شہید ہوگئے

نوشہرہ میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں خودکش دھماکے کے دوران مولانا حامد الحق سمیت چھ نمازی شہید ہوگئے جبکہ نو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ ڈی پی او نوشہرہ عبدالرشید کا کہنا ہے کہ امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئی ہیں، مولانا حامد الحق کے بیٹے ثانی حقانی نے تصدیق کی ہے کہ دھماکے کے وقت سیکڑوں افراد مسجد میں موجود تھے۔ ھماکے میں 4 سے 5 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ملی ہیں جبکہ درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ سنٹرل پولیس آفس نے بتایا کہ دھماکا نماز جمعہ کے بعد مدرسے کے اندر ہوا تاہم دھماکے کی نوعیت کا پتہ لگایا جا رہا ہے، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے پہنچ گئے ہیں جب کہ 6 ایمبولینسز اور میڈیکل ٹیمیں بھی پہنچ گئی ہیں ، زخمیوں کو مقامی ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا جبکہ نوشہرہ کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ ترجمان محمد عاصم نے بتایا کہ کوڑہ خٹک دھماکا کے بعد ایل آر ایچ میں ایمرجنسی کو الرٹ کر دیا گیا ہے ، ایل آر ایچ انتظامیہ اور طبی عملہ زخمیوں کے علاج کے لیے تیار ہے۔ مزید پڑھیں: پنجاب پولیس کا خواتین کی حفاظت کے لیے انقلابی قدم ڈی پی او عبدالرشید نے بتایا کہ حقانیہ مدرسہ اکوڑہ خٹک میں دھماکا خودکش تھا، تاہم شواہد اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔ آئی جی کے پی نے بتایا کہ دھماکے میں مولانا حامدالحق شدید زخمی ہوگئے ہیں اور حالت تشویشناک ہے، دھماکے میں جے یو آئی (س )کے سربراہ کو نشانہ بنایا۔اکوڑہ خٹک دھماکے پر گورنر خیبرپختونخوا نے اعلیٰ حکام سے رابطہ کر کے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ گورنر فیصل کنڈی نے مولانا حامد الحق حقانی اور دیگر افراد کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک دھماکہ اسلام و پاکستان دشمن قوتوں کی سازش ہے، صوبائی حکومت کی نااہلی اورملی بھگت کاخمیازہ نہ جانےکب تک صوبہ بھگتے گا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے دارالعلوم حقانیہ میں دھماکے کی شدیدمذمت کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی اور مولانا حامد الحق سمیت دیگر زخمیوں کی صحت یابی کے لیے دعا کی۔ شہباز شریف نے زخمیوں کوہرممکن طبی امداد فراہم کرنےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بزدلانہ اور مذموم کارروائیاں دہشتگردی کے خلاف عزم کو پست نہیں کر سکتیں، ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پُر عزم ہیں۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں جنوری اور فرروی کے پہلے ہفتے میں کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملوں میں شدت آئی ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف ایک جامع آپریشن کی منظوری دی تھی۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ رواں سال جنوری میں ملک بھر میں کم از کم دہشت گردی کے 74 حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں مجموعی طور پر 91 افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں 35 سیکیورٹی اہلکار ، 20 عام شہری جب کہ 36 دہشت گرد شامل ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے ان واقعات میں 117 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں 53 سیکیورٹی فورسز ، 54 عام شہری اور 10 دہشت گرد شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس دوران سیکیورٹی فورسز کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے آپریشنز میں بھی شدت آئی ہے اور صرف جنوری میں کم از کم 185 عسکریت پسند مختلف کارروائیوں میں مارے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ 2016 کے بعد پہلا مہینہ ہے کہ جب دہشت گردوں کی ہلاکتوں میں سب سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔یہ واقعات فروری کے پہلے ہفتے میں پیش آنے والے واقعات کے علاوہ ہیں۔ پانچ جنوری کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے صدر مقام تربت میں ایک بس پر خودکش بم دھماکے میں چار افراد ہلاک جب کہ 36 سے زائد زخمی ہوگئے۔ نو جنوری کو خضدار کی تحصیل زہری ٹاون میں ایک درجن سے زائد مسلح افراد نے لیویز تھانہ پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد نادرا آفس، نجی بینک اور موبائل ٹاور کو نذرِ آتش کر دیا۔ محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں 2024 کے دوران دہشت گردی کی 200 سے زائد واقعات رونما ہوئے جس میں 207 افراد مارے گئے۔
وفاقی کابینہ میں توسیع، نئے وزرا نے حلف اٹھا لیا

وفاقی کابینہ میں توسیع کے بعد نئے وزرا نے حلف اٹھا لیا، حلف اٹھانے والوں میں 13 وفاقی وزرا، 11 وزرائے مملکت اور تین ایڈوائزر شامل کیے گئے۔ حلف برداری کی تقریب ایوانِ صدر میں منعقد ہوئی، جہاں صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے نئے اراکین سے حلف لیا۔ وفاقی کابینہ میں توسیع کی گئی ہے اور 13 وفاقی وزرا، 11 وزرائے مملکت اور تین ایڈوائزر شامل کیے گئے ہیں۔ حنیف عباسی، معین وٹو، رانا مبشر، مصطفیٰ کمال، سردار یوسف، رضا حیات ہراج، طارق فضل چوہدری اور شزہ فاطمہ نے وفاقی وزیر کا حلف اٹھایا ہے۔ جنید انوار، خالد حسین مگسی، عمران احمد شاہ بھی حلف اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔ طلال چوہدری، بیرسٹر عقیل ملک، ملک رشید، ارمغان سبحانی، کھیئل داس کوہستانی، عبدالرحمان کانجو، بلال اظہر کیانی، مختار بھرت، شزرا منصب، عون چوہدری، وجیہا قمر نے بھی بطور وزیر مملکت حلف اٹھایا ہے۔ محمد علی، توقیر شاہ اور پرویز خٹک نے بطور مشیر حلف اٹھا لیا ہے۔ مزید پڑھیں: مریم نواز حکومت کے منصوبے: نئی ترقی یا پرانی پالیسیوں کی ری برانڈنگ؟ خیال رہے کہ وفاقی کابینہ کے نئے اراکین کے قلمدانوں کا اعلان بعد میں ہوگا۔ حلف برداری کی تقریب میں وزیرِاعظم شہباز شریف، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی اور خاتونِ اول آصفہ بھٹو زرداری بھی موجود تھیں۔
سعودی کمپنی خوشاب میں 150 ملین ڈالر کی سرمایہ کرے گی

سعودی عرب کے انفال گروپ نے پنجاب کے ضلع خوشاب کے قریب150 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے معدنی کمپلیکس قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انفال گروپ، انفال سیمنٹ اور انفال راک سالٹ پر مشتمل ایک سعودی کمپنی ہے جو سیمنٹ اور راک سالٹ کی پیداوار اور ترسیل میں مہارت رکھتی ہے۔ یہ کمپنی سعودی انفال گروپ کے نام سے ریاض، سعودی عرب میں قائم ہے اور کان کنی، پراسیسنگ، اور راک سالٹ کی تقسیم جیسے کاروبار سے وابستہ ہے۔ راک سالٹ ایک قیمتی معدنی وسیلہ ہے جو خوراک کی پروسیسنگ، زراعت اور کیمیکل صنعت سمیت مختلف شعبوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ انفال گروپ سعودی عرب کے معدنی شعبے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے، جو ملک کے ویژن 2030 کے تحت معیشت کو متنوع بنانے کی پالیسی کے تحت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ حکومتِ پنجاب، انفال گروپ کے منصوبے کے لیے 15 مارچ 2025 تک تمام ضروری سہولتوں کی فراہمی مکمل کرے گی، جیسا کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کی 22 جنوری 2025 کو ہونے والی میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا۔ اس میٹنگ میں شامل اعلیٰ سرکاری حکام نے اس نمائندے کو بتایا کہ انفال گروپ نے تمام قانونی تقاضے مکمل کر لیے ہیں اور الاٹمنٹ لیٹر اور ورک آرڈر کے اجرا پر اگلے ہفتے وزیر سطح کی کمیٹی میں حتمی فیصلہ ہوگا۔ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کے فیصلے کے مطابق، حکومتِ پنجاب الاٹمنٹ لیٹر اور ورک آرڈر کے اجرا کے عمل کو تیز کرے گی تاکہ یہ منصوبہ 15 مارچ 2025 تک شروع ہو سکے۔حکام اس سرمایہ کاری کو پنجاب کے معدنی شعبے اور مجموعی ملکی معیشت کے لیے ایک سنگ میل قرار دے رہے ہیں۔
ابوظہبی کے ولی عہد کا دورہ پاکستان مکمل، کب کیا ہوا؟ کتنے معاہدے ہوئے؟

ابو ظہبی کے ولی عہد شیخ خالد بن محمد بن زاید النہیان سرکارے دورے پر پاکستان پہنچے، جہاں نور خان ائیربیس پر وزیراعظم شہباز شریف، صدر آصف زرداری اور خاتون اول آصفہ بھٹو نے معزز مہمان کا استقبال کیا۔ ابو ظہبی کے ولی عہد شیخ خالد بن محمد بن زاید النہیان کو وزیراعظم ہاؤس میں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ ولی عہد شیخ خالد بن محمد بن زاید النہیان کے ہمراہ اعلیٰ سطح کا وفد بھی دورے پر آیا تھا۔ وزیراعظم ہاؤس میں پاکستان اور یو اے ای کے درمیان مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں کی تقریب ہوئی جس میں دونوں ملکوں کے درمیان بینکنگ کے شعبے میں تعاون کی دستاویز کا تبادلہ ہوا۔ پاکستان اور یو اے ای کے درمیان کان کنی کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ بھی ہوا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ریلوے کے شعبے میں 2 مفاہمتی یادداشتوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ تقریب میں پاکستان اور یو اے ای کے درمیان انفرا اسٹرکچر کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دستاویز کا تبادلہ بھی ہوا۔ بعد ازاں ولی عہد شیخ خالد بن محمد بن زاید النہیان ایوان صدر گئے جہاں انہیں نشان پاکستان دینےکی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ تقریب میں وزیراعظم شہبازشریف اور وفاقی کابینہ کے ارکان سمیت اعلیٰ حکام بھی شریک ہوئے۔ ولی عہد ابوظبی شیخ خالد بن محمد بن زاید النہیان کی پاکستان کے لیے خدمات کے اعتراف میں صدر آصف زرداری نے انہیں نشان پاکستان دیا۔ ولی عہد کی غیر معمولی خدمات اور پاکستان کی غیر متزلزل حمایت پر انہیں نشان پاکستان کا اعزاز دیا گیا۔ ابوظبی کے ولی عہد دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ ہوگئے، وزیراعظم شہباز شریف نے معزز مہمان کو رخصت کیا۔ گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور رحیم یار خان میں وزیراعظم شہباز، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ اور دیگر نے ان کا پرتپاک استقبال کیا تھا۔ وزیر اعظم کے دفتر کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ملاقات کے دوران، وزیر اعظم شہباز اور شیخ محمد نے اقتصادی تعاون، علاقائی استحکام، موسمیاتی تبدیلی اور عالمی سطح پر باہمی مفادات کے فروغ سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔ میٹنگ کا اختتام دونوں ممالک کے روشن مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے خاص طور پر ترجیحی شعبوں میں وسیع تر تعاون کو فروغ دینے کے مشترکہ عزم کے ساتھ ہوا۔ دونوں ممالک کی شراکت داری مشترکہ تاریخ، ثقافت اور اقتصادی تعاون سے جڑی ہوئی ہے۔ متحدہ عرب امارات ایک اہم پاکستانی تارکین وطن کی میزبانی کرتا ہے، جن کی ترسیلات ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ خلیجی ملک انسانی امداد فراہم کرنے، بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو فروغ دینے اور مشکل وقت میں اسلام آباد کی حمایت میں اس پائیدار دوستی کو مضبوط کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
افغانستان نے انگلستان کو پاکستان کی دھول چٹادی

لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں افغان کپتان حشمت اللہ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کافیصلہ کیا جو کہ نہایت سود مند ثابت ہوا اور افغانستان کی ٹیم نے پہلےکھیلتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 325 رنز بنائے، جبکہ انگلینڈ 10 وکٹوں کے نقصان پر 318 رنز بنا سکا۔ افغانستان کی جانب سے رحمان اللہ گرباز اور ابراہیم زادران نے اننگز کا آغاز کیا لیکن میچ کے آغاز میں افغان اوپنر رحمان اللہ گرباز 6 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے جبکہ 15 کے مجموعے پر صدیق اللہ بھی صرف 4 رنز بنا کر پویلین لوٹ گے،جس کے بعد رحمت شاہ بھی 4 رنز بناکر آرچر کا شکار ہوگئے۔ اس موقع پر اوپنر ابراہیم زادران نے بہترین بلے بازی کا مظاہرہ کیا، ابراہیم زادران نے شاندار سنچری اسکور کی اور 146 گیندوں پر 177 رنز بنا کر آخری اوور میں آؤٹ ہوئے، 23 سالہ بیٹر کی اننگز میں 6 چھکے اور 12 چوکے شامل تھے۔ افغان کپتان حشمت اللہ نے 40 رنز بنائے، سینئر کھلاڑی محمد نبی نے 24 گیندوں پر 40 رنز کی اننگز کھیلی۔ عظمت اللہ عمرزئی بھی 31 گیندوں پر 41 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ انگلینڈ کی جانب سے جوفر آرچر نے 3، لیام لیونگسٹون نے 2 اور عادل رشید نے ایک وکٹ حاصل کی۔ انگلینڈ کی جانب سے جو روٹ نے 111 گیندوں پر 120 رنز کی اننگز کھیلی، جو روٹ نے اپنی اننگز میں ایک چھکا اور 11 چوکے لگائے، وہ ٹیم کو فتح کے قریب لےگئے تاہم ان کے آؤٹ ہونےکے بعد انگلش ٹیم سنبھل نہ سکی۔ انگلینڈ کی جانب سے دیگر بیٹرز میں بین ڈکٹ اور جوز بٹلر نے 38، 38 رنز بنائے، جیمی اورٹن نے 32 ، ہیری بروک نے25 اور فل سالٹ نے 12 رنز کی اننگز کھیلی۔ لیام لیونگسٹون 10 اور جیمی اسمتھ 9 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ افغانستان کی جانب سے محمد نبی نے 2 وکٹیں حاصل کیں، فضل حق فاروقی، راشد خان اور گلبدین نائب نے ایک ایک وکٹ لی۔ افغانستان کے ہاتھوں شکست کے بعد انگلینڈ کی ٹیم کا چیمپئنز ٹرافی جیتنےکا خواب ادھورا رہ گیا۔ اس سے قبل آسٹریلیا کے ہاتھوں بھی انگلش ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ افغانستان نے اب گروپ کا آخری میچ آسٹریلیا سے کھیلنا ہے جس میں فتح کی صورت میں افغان ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ جائے گی۔ میچ کے دوران ایک دلچسپ صورتحال اس وقت ہوئی جب ایک تماشائی میدان میں گھس آیا اور سیکیورٹی نے اسے دبوچ لیا ۔ یہ پہلا واقعہ نہیں چیمپئنز ٹرافی میں دوسرا واقعہ تھا۔
یوکرین جنگ بندی کے بدلے امریکا سے معدنیات کے معاہدے کرنے کو تیار

امریکہ اور یوکرین نے معدنیات کے معاہدے کی شرائط پر اتفاق کیا ہے جو کیف کی طرف سے واشنگٹن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس کے ساتھ جنگ کو تیزی سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ معاہدے سے واقف ایک ذرائع نے کہا کہ “اس میں امریکی سلامتی کی ضمانت یا ہتھیاروں کی مسلسل ترسیل کی وضاحت نہیں کی گئی ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ امریکہ یوکرین کو آزاد، خودمختار اور محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ معاہدے سے واقف ذرائع میں سے ایک نے بتایا کہ” مستقبل میں ہتھیاروں کی ترسیل پر واشنگٹن اور کیف کے درمیان ابھی بھی بات چیت جاری ہے”۔ ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ “یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی جمعہ کو واشنگٹن آنا چاہتے ہیں تاکہ بڑے معاہدے پر دستخط کریں”۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب دونوں رہنماؤں نے گزشتہ ہفتے سخت الفاظ کا تبادلہ کیا۔ امریکی صدرنے کیف کو دی جانے والی اربوں ڈالر کی امداد کی واپسی کے طور پر یہ معاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر تنازع کے خاتمے کے لیے کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یوکرین میں امن فوج کی ضرورت ہے۔ ماسکو، جس نے تین سال قبل یوکرین پر حملہ شروع کیا تھا، نیٹو افواج کی کسی بھی تعیناتی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ کچھ یورپی ممالک نے کہا ہے کہ وہ یوکرین میں امن فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔ ٹرمپ نے پیر کو کہا کہ ماسکو ایسے امن فوجیوں کو قبول کرے گا، لیکن کریملن نے منگل کو اس کی تردید کی۔ یوکرین میں روس کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے ٹرمپ کی جلدی اور ماسکو کی طرف اس کے جھکاؤ نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو امریکی رعایتوں کے اندیشوں کو جنم دیا ہے جو یوکرین اور یورپ میں سلامتی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور جغرافیائی سیاسی منظر نامے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے پچھلے ہفتے زیلنسکی کو ایک غیر مقبول “ڈکٹیٹر” کہا تھا جسے فوری امن معاہدے کو ختم کرنے یا اپنا ملک کھونے کی ضرورت تھی۔ یوکرینی رہنما نے کہا کہ امریکی صدر “غلط معلومات کے بلبلے” میں رہ رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ دونوں اطراف کے عہدیداروں نے معاہدے پر اتفاق کیا ہے اور اس پر دستخط کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
لاہور میں سرخ کے بعد بسوں کا ’سبزانقلاب‘ پنجاب حکومت چاہتی کیا ہے؟

آرام دہ ماحول، خواتین کو ہراسانی کا خوف نہ دھکم پیل کا ڈر، معذور افراد کے لیے خصوصی پروٹوکول سے مزین بسوں کا لاہورمیں آغاز کردیا گیا، یہ بسیں کوئی عام بسیں نہیں بلکہ یہ بجلی پر چلنے والی ’گرین بسیں‘ ہیں جس کا افتتاح وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چند روز قبل کیا ہے۔ یہ بسیں گرین ٹاؤن ڈپو سٹاپ سے چلتی ہوئی مختلف سٹاپس پر رکتے ہوئے لاہور ریلوے سٹیشن پہنچتی ہیں اور پھر وہاں سے واپس گرین ٹاؤن ڈپو سٹیشن جاتی ہیں۔ الیکٹرک بس کے آپریشن مینیجر محمد عثمان کے مطابق ’یہ بس مکمل طور پر الیکٹرک ہے۔ اس میں سفر کرنے کے لیے مسافر کو ایک کارڈ کی ضرورت پڑے گی جسے وہ بس کے دونوں داخلی و خارجی راستوں پر لگے ویلی ڈیٹرز پر سکین کریں گے۔‘ فی الحال اس بس کا کرایہ 20 روپے ہے اور ایک روٹ پر یہ چلتی نظر آئے گی،لاہور شہر میں چلنے والی ان بسوں کا گرین ٹاؤن ڈپو سٹاپ سے لاہور ریلوے سٹیشن تک کا یک طرفہ روٹ 27 کلومیٹر ہے۔ اس بس کی خاص بات یہ ہے کہ معذور افراد کے لیے بس میں چڑھنے کے لیے ریمپ کے علاوہ بس کے اندر بزرگ اور معذور افراد کے لیے دو نشستیں بھی مختص کی گئیں ہیں جنہیں بیٹھنے کے لیے کھولنا پڑتا ہے۔ ان سیٹوں کے ساتھ ہی وہیل چیئر یا بے بی کارٹ کو کھڑا کرنے کے لیے ایک بیلٹ بھی لگی ہے جس کٓے ساتھ آپ بے بی کارٹ یا وہیل چیئر باندھ سکتے ہیں تاکہ وہ چلتی بس میں ساکت رہ سکیں۔ بس میں خواتین کے لیے نارنجی رنگ کی مخصوص نشستیں تھیں جبکہ مردوں کے لیے مختص نشستوں کا رنگ ہرا تھا۔ بس میں 80 لوگوں کے سوار ہونے کی جگہ ہے جبکہ بس کی نشستیں صرف 30 ہیں۔ یہ بسیں حکومت کی نئی پالیسی کے تحت چلائی جارہی ہیں جس کو ماحول دوست پالیسی کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان حکومت نے نئی پانچ سالہ الیکٹرک وہیکلز پالیسی 2025-30 کا مسودہ تمام شراکت داروں کی مشاورت سے تیار کر لیا ہے، ای وی پالیسی میں سرمایہ داروں کے لئے پرکشش مراعات کو مدِنظر رکھا گیا ہے، پاکستان میں 2025ء تک 30 فیصد الیکٹرک گاڑیاں چلانے جبکہ 2030ء تک 100 فیصد الیکٹرک گاڑیوں کے چلائے جانے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ 2019ء میں بھی حکومتِ پاکستان نے الیکٹرک گاڑیوں کے اپنانے کو فروغ دینے کے لئے ایک پالیسی متعارف کرائی تھی، جسے ای وی پالیسی کا نام دیا گیا تھا، پالیسی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کرنے والوں کو ٹیکس میں چھوٹ اور سبسڈی دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ پنجاب حکومت سموگ اورمہنگے ایندھن سے چھٹکارا پانے کے لیے یہ اقدامات کررہی ہے، سب سے پہلے یہ کام لاہور سے شروع کیا گیا ہے۔ پاکستانی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں نے مقامی الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کی ٹیکنالوجیز تیار کرنے پر کام شروع کردیا ہے، نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی نے الیکٹرک گاڑی کا پروٹو ٹائپ تیار کرکے یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے بلکہ کمی ہے تو فقط وسائل کی۔ پاکستان میں اس وقت انتہائی کم تعداد میں الیکٹرک گاڑیاں موجود ہیں، آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں اضافہ کرنے کےلئے اقدامات کی جارہی ہیں، پاکستان میں ہونری وی نام کی ایک لوکل چھوٹی الیکٹرک گاڑی موجود ہے جس کی قیمت 40 سے 50 لاکھ کے درمیان ہے، اس کے علاوہ آیڈی ای ٹرون بھی پاکستان میں پائی جاتی ہے جس کی موجودہ قیمت لگ بھگ 8 کروڑ ہے، بہت سی چھوٹی گاڑیاں اور رکشے بھی موجود ہیں۔ صرف الیکٹرک بسوں اور گاڑیوں کو ہی نہیں بڑھایا جارہا بلکہ اب تو الیکٹرک بائیکس بھی سڑکوں پردوڑتی نظرآتی ہیں۔ لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز(لمز) میں ای وہیکلز پراجیکٹ کے ڈائریکٹرعمرآفاق کا کہنا ہے کہ ای بائیکس کی آفادیت کے بارے میں جہاں آگاہی پھیلانے کی بے حد ضرورت ہے وہیں ان بائیکس کی پائیداری سے متعلق لوگوں میں اعتماد پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں ای بائیکس کی خریداری میں اضافہ تب ہو گا جب حکومت ان کی خریداری اور رجسٹریشن پر مراعات دینے کی پالیسی اپنائے گی۔ ماحول کا صاف رکھنا یا پھر توانائی کو بچانا ہے تو ای ویز کا استعمال ضروری ہے، ای ویز سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے گی اور ساتھ ساتھ پیسہ بھی بچے گا۔ لاہور میں بجلی پر چلنے والی بائیکس کا کاروبارکرنے والے تاجرسمیع طارق اعوان کہتے ہیں کہ ای ویز لانا حکومت کا بہت اچھا اقدام ہے، ای ویز سے سموگ میں کمی آئے گی، ماحول صاف ہوگا، لوگوں کے اخراجات بچیں گے، الیکٹرک بائیک استعمال کرنے سے ماہانہ بیس ہزار روپے بچائے جاسکتے ہیں۔ حکومت کس حد تک تیار ہے؟ تاجر کہتے ہیں کہ حکومت پنجاب نوجوانوں کو سستی بائیکس اور آسان اقساط پر فراہم کررہی ہے، بڑے شہروں میں بڑی گاڑیاں بھی چلائی جارہی ہیں۔ اس سے قبل مسلم لیگ ن کی حکومت نے پنجاب میں ’میٹروبس‘ شروع کی پھراس بس کوسرخ بسوں سے لنک کیا گیا جو شہریوں کو بہترین سروس فراہم کررہی تھی۔ اب سرخ بسوں کا سفر ہری بسوں کی جانب بڑھ چکا ہے، شہری اسے’سبزانقلاب‘ سے جوڑ رہے ہیں ۔
“میرے منع کرنے کے باوجود شیر افضل مروت بیانات دینے سے نہیں رکا” عمران خان کی وکلاء اور میڈیا سے گفتگو

سابق وزیراعظم عمران خان نے اڈیالہ جیل میں وکلاء اور میڈیا سے ملاقات کے دوران اپنے جذبات کا اظہار کیا اور ملک کی موجودہ صورتحال پر گہرے تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “اس ملک کی حقیقی آزادی کے لیے ہم آخر تک لڑیں گے”۔ ان کا یہ بیان نہ صرف ملکی سیاست پر ایک گہرا اثر چھوڑ رہا ہے بلکہ ان کی جیل میں موجودگی کی سیاسی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ “جیل کے انچارج کی جگہ ایک کرنل نے سب کچھ قابو کر رکھا ہے جو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جیل کے انتظامات چلا رہا ہے”۔ عمران خان نے اپنی اہلیہ بشری بی بی سے ملاقات کے دوران ہونے والی رکاوٹوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ یہ تیسری بار تھا جب انہیں اپنی بیوی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ “عدالت کے احکامات کے باوجود مجھے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی”۔ سابق وزیراعظم نے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ملک میں چادر چار دیواری کا تقدس پامال ہو رہا ہے، غیر قانونی چھاپے مارے جا رہے ہیں اور ہمیں اپنے آئینی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے”۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ “ہمیں جلسے کرنے کا حق آئین دیتا ہے، لیکن ہمیں ان حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے”۔ لازمی پڑھیں:محسن نقوی کی روسی سفیر سے ملاقات: دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف تعاون بڑھانے پر اتفاق انہوں نے بتایا کہ ان کی جانب سے انسانی حقوق سے متعلق پٹیشنز لاہور ہائی کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زیر التواء ہیں لیکن ابھی تک ان پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ عمران خان نے کرکٹ کے شعبے میں ہونے والی بدعنوانیوں پر بھی شدید تنقید کی۔ انہوں نے محسن نقوی کی کرکٹ انتظامات میں مداخلت کو ملک کے کھیلوں کے مستقبل کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “محسن نقوی کے پاس کرکٹ کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور اس نے کرکٹ کی تباہی کر دی ہے”۔ عمران خان نے مزید کہا کہ “جب میں وزیراعظم تھا تو میں نے رمیز راجہ کو چیئرمین بنایا تھا کیونکہ وہ کرکٹ کے کھلاڑی اور تجربہ کار تھے”۔ انہوں نے محسن نقوی کو نگران وزیر اعلیٰ بنائے جانے کی بھی شدید مذمت کی، جس کے دوران ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کی ایک نئی لہر آئی۔ مزید پڑھیں: مریم نواز کے اشتہارات یا خبریں؟ صحافت کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان عمران خان نے محسن نقوی کی حکومت کے دوران ہونے والی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ “محسن نقوی ہر شعبے میں ناکام ہو چکا ہے”۔ انہوں نے کہا کہ “یہ شخص آصف زرداری کو اپنا آئیڈیل مانتا ہے، وہی آصف زرداری جس کے مسٹر ٹین پرسنٹ کے قصے پوری دنیا میں مشہور ہیں”۔ عمران خان نے محسن نقوی کے وزیر داخلہ بننے کے بعد ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ عمران خان نے اپنی پارٹی کے اندرونی معاملات پر بھی کھل کر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ “میرے مقرر کردہ پارٹی عہدیدار ہی پارٹی پالیسی دینے کے مجاز ہیں اور پارٹی ڈسپلن کی بہت اہمیت ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ “جنگ باہر والوں کے خلاف ہوتی ہے اپنے لوگوں کے خلاف بات کر کے ہم اپنے اصل موضوعات سے توجہ ہٹا کر دوسری جماعتوں کا ایجنڈا پروان چڑھاتے ہیں”۔ انہوں نے شیر افضل مروت کی پارٹی سے نکالی جانے کی وجہ بھی بتائی۔ عمران خان نے کہا کہ “میرے بار بار منع کرنے کے باوجود شیر افضل مروت بیانات دینے سے نہیں رکا، اسی لیے اس کو پارٹی سے نکالا گیا”۔ عمران خان نے اپنی گفتگو کے آخر میں یہ پیغام دیا کہ “ہم آخر تک لڑیں گے، کیونکہ ہم اپنے آئینی حقوق اور ملک کی حقیقی آزادی کے لیے ہر قدم پر لڑنے کے لیے تیار ہیں”۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جدوجہد صرف اپنی ذاتی آزادی کے لیے نہیں، بلکہ پورے ملک کے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے ہے۔ عمران خان کی اڈیالہ جیل میں یہ گفتگو نہ صرف ان کی سیاسی جدوجہد کو ایک نیا موڑ دیتی ہے، بلکہ یہ عوامی سطح پر ایک اہم پیغام بھی ہے کہ وہ حالات کے سخت ترین مرحلے میں بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ مزید پڑھیں: نیو یارک سٹی نے PIA کے روزویلٹ ہوٹل کے ساتھ 220 ملین ڈالر کا معاہدہ منسوخ کر دیا
مریم نواز کے اشتہارات یا خبریں؟ صحافت کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان

پنجاب حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر وزیر اعلیٰ مریم نواز کی جانب سے اخبارات کے فرنٹ پیجز پر شائع کیے گئے اشتہارات صحافتی اصولوں اور میڈیا کی غیرجانبداری پر نئی بحث چھیڑ چکے ہیں۔ یہ اشتہارات دیکھنے میں روایتی خبروں جیسے تھے، لیکن حقیقت میں مکمل طور پر حکومتی بیانیے پر مبنی تھے، جس میں کارکردگی کے دعوے، منصوبوں کے اعلانات اور وزیر اعلیٰ کے بیانات شامل تھے۔ عالمی صحافتی معیارات کے مطابق خبروں اور اشتہارات میں واضح فرق ہونا ضروری ہے تاکہ عوام کسی بھی پروپیگنڈا یا جانبدارانہ معلومات کا شکار نہ ہوں۔ تاہم، جب اشتہارات کو خبر کی طرز پر پیش کیا جائے تو یہ میڈیا کی ساکھ اور اس کے بنیادی اصولوں پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا ردعمل تحریک انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے کہا: “چند پیسے اضافی کمانے کے لیے اشتہارات کو خبروں کی طرح چھاپ دیا جاتا ہے اور پھر حیران ہو کے پوچھتے ہیں کہ اب عوام اخبار کیوں نہیں پڑھتے؟” معروف اینکر شفاعت علی نے قانونی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے سوال اٹھایا: “کیا اشتہار کو خبروں کی طرح چھاپنا جعلی خبریں پھیلانے کے مترادف نہیں؟ آج جن اخبارات نے فرنٹ پیج پر اس اشتہار کو چھاپا ہے، ان پر پیکا لاگو نہیں ہوتا؟” صحافی ریاض الحق نے اسے طنزیہ انداز میں “ایک اور دن، ایک اور مکمل صفحہ پریس ریلیز!” قرار دیا۔ سیاسی تجزیہ کار سعید بلوچ نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ رات انہیں بتایا گیا تھا کہ پنجاب حکومت کی کارکردگی پر 60 صفحات کے اشتہارات تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان کا سوال تھا: “پنجاب حکومت نے ایسا کیا کر دیا ہے جو ساٹھ صفحات اشتہار کی صورت میں بانٹے جا رہے ہیں؟” صحافی خرم اقبال نے مختلف اخبارات کے سکرین شاٹس شیئر کرتے ہوئے کہا: “مریم حکومت نے اپنی ایک سالہ کارکردگی دکھانے کے لیے خزانے کے مُنہ کھول دیئے، اخبارات کے فرنٹ پیج پر لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے یہ خبریں نہیں، پورے صفحے کے اشتہارات ہیں، ایسی صحافت کو کیا نام دیں؟” کیا یہ اشتہاری مہم عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے؟ یہ معاملہ اس لیے بھی متنازع بنا ہے کہ چند ماہ قبل عام انتخابات سے صرف چند روز قبل اخبارات میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی تشہیری مہم چلائی گئی تھی، جسے اپوزیشن اور کئی صحافیوں نے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا تھا۔ اب جب کہ پنجاب حکومت کی سالگرہ کے موقع پر یہی طرز عمل دہرایا گیا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اشتہاری مہم عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کی ایک اور کوشش ہے؟ عالمی صحافتی معیارات اور پاکستانی میڈیا عالمی صحافتی تنظیموں جیسے Reporters Without Borders (RSF)، Committee to Protect Journalists (CPJ) اور Society of Professional Journalists (SPJ) کے اصولوں کے مطابق میڈیا کا کام عوام کو درست، غیرجانبدار اور قابل تصدیق معلومات فراہم کرنا ہے۔ SPJ کے Ethical Journalism Guidelines میں کہا گیا ہے کہ: خبروں اور اشتہارات میں واضح فرق ہونا چاہیے تاکہ عوام کسی جانبدارانہ بیانیے کا شکار نہ ہوں۔ پیسے لے کر خبروں کی شکل میں اشتہار شائع کرنا صحافتی بددیانتی ہے کیونکہ یہ عوام کو گمراہ کر سکتا ہے۔ حکومتی بیانیے کو بغیر کسی تنقیدی جائزے کے پیش کرنا میڈیا کی غیرجانبداری پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستانی میڈیا کو بھی انہی عالمی معیارات کو اپنانا ہوگا تاکہ عوام کو حقیقت اور پروپیگنڈا کے درمیان فرق کرنے میں دشواری نہ ہو۔ کیا پاکستانی میڈیا اپنی غیرجانبداری کھو رہا ہے؟ یہ معاملہ صرف پنجاب حکومت تک محدود نہیں، بلکہ ماضی میں مختلف حکومتیں اس طرح کی تشہیری مہمات چلاتی رہی ہیں۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا یہ طریقہ عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے یا محض حکومتوں کی جانب سے اپنی کارکردگی دکھانے کا ایک روایتی انداز؟ کیا میڈیا کو اشتہارات کے ذریعے حکومتوں کے بیانیے کو فروغ دینے کا ذریعہ بننا چاہیے یا اسے اپنی غیرجانبداری اور عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنا چاہیے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج پاکستان میں آزاد اور ذمہ دار صحافت کے مستقبل کے لیے نہایت اہم ہو چکے ہیں۔